کرشن چندرکا افسانہ ”بھگت رام:کا تنقیدی جائزہ

کرشن چندرکا افسانہ ”بھگت رام:کا تنقیدی جائزہ
محمد ہلال عالم
ریسرچ اسکالر، روہیل کھنڈ یونیورسٹی، بریلی، یو۔پی
ای میل: hhilalalam@gmail.com

کرشن چندر کا نام یقینی طور پر پریم چند کے بعد بڑے افسانہ نگاروں میں لیا جا سکتا ہے۔ کرشن چندر کی اہمیت کو اُردو کا کوئی بھی سنجیدہ قاری نظر انداز نہیں کر سکتا۔ اُنہوں نے بہت لکھا اور جم کر لکھا۔ کرشن چندر کے افسانوں میں رومان حقیقت کا ایک دلکش انداز نظر آتا ہے۔ موجودہ سماج اور معاشی نظام قدرت کے دلکش نظاروں کی دلکش منظر کشی، غریب عوام سے ہمدردی ملتی ہے۔کرشن چندر کے افسانوں کی سب سے بڑی خوبی حقیقت نگاری ہے۔ کرشن چندر کی افسانہ نگاری کی خوبیوں کو بیان کرتے ہوئے اُردو کے معروف ناقد گوپی چند نارنگ کہتے ہیں کہ
” کرشن چندر اُردو افسانے کی روایت کا ایک ایسا لائق احترام نام ہے جو ذہنوں میں برابر سوال اٹھاتا رہے گا۔
اُن کے معاصرین میں سعادت حسن منٹو اور راجندر سنگھ بیدی بے حد اہم نام ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ کرشن چندر
۵۵۹۱-۰۶۹۱ تک اپنا بہترین ادب تخلیق کر چکے تھے۔ اُن کا نام پریم چند کے بعد تین بڑے افسانہ نگاروں
میں آئے گا۔ ” (۱)
کرشن چندر کے افسانوں کو سامنے رکھتے ہوئے بلا شبہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ نہ صرف محبت کے جذبے اور احساس کو پورے انہماک اور حساسیت کے ساتھ اپنی کہانیوں میں پیش کرتے تھے بلکہ سماجی برائیوں کو بھی انتہائی کامیابی کے ساتھ قارئین کے سامنے رکھتے تھے۔ کرشن چندر ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے۔ اور اسی وجہ سے عام لوگوں کے حق کی بات کیا کرتے تھے۔ اُن کے دل میں امیروں کے تئیں بغاوت اور بدلے کا جذبہ تھا۔
بھگت رام کرشن چندر کا مشہور افسانہ ہے۔ اس افسانے میں کرشن چندر نے بھگت رام کے کردار کے ذریعے سماج کے اُن پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے جو کہ اونچ نیچ کے بندھنوں میں جگڑاہواہے۔
اس افسانے کی شروعات بچے کے بائیں ہاتھ کی انگلیوں کو اپنے دانتوں تلے داب کر کاٹ دینے کے واقعے سے کی گئی ہے۔ جس کے ہاتھ میں کاٹا گیا اس نے غصے میں بچے کے دو تین طمانچے جڑ دیئے تھے۔ ایسا کرنے پر اس کو اپنے بچپن کا ایک واقعہ یاد آتا ہے۔ اور وہ بھگت رام کا واقعہ تھا۔ جس کے ساتھ اس نے بھی یہی کام کیا تھا جو اس کے بچے نے کیا۔ لیکن اس کو بھگت رام نے طمانچے کی جگہ سیب اور الوچے دیئے تھے۔ اور یہ بھگت رام کے نیک طبیعت انسان ہونے کی دلیل کہی جا سکتی ہے۔
اس افسانے میں شعور کی رو کی تکنیک کے سہارے کہانی کو آگے بڑھانے کی اچھی کوشش کی گئی ہے۔ اور آپ بیتی کو ہو بہو اسی طرح سے پیش کیا گیا ہے جو واقعہ اس کے بچپن میں پیش آیا تھا۔ کوئی رد و بدل اس نے نہیں کی۔ جیسا اس نے بھگت رام کے بارے میں بچپن میں سوچا تھا یا دیکھا تھا ویسا ہی بڑے ہو کر لکھا۔ اپنے خیالات کو تبدیل نہیں کیا۔
کرشن چندر کی کہانی بھگت رام ایک ایسے انسان کی کہانی ہے جو بظاھر تو لفنگا، بدمعاش قسم کا انسان تھا، لیکن حقیقت میں وہ ایک نیک طبیعت اور نیک دل انسان تھا۔ افسانہ بھگت رام کی کہانی اس دور کی کہانی ہے جب جات پات، چھوا چھوٹ حاوی تھا۔ لالہ کانشی رام کے دو بھائی اور تھے ایک بانشی رام دوسرا بھگت رام۔ بھگت رام کا کردار کرشن چندر نے کچھ اس طرح سے بیان کیا ہے کہ
” یعنی کہ سخت لفنگا، آوارہ, بدمعاش تھا یہ شخص۔ نام تھا بھگت رام۔ لیکن در اصل یہ آدمی رام کا بھگت نہیں شیطان کا
بھگت تھا۔” (۲)
کرشن چندر کے افسانے بھگت رام کا مرکزی کردار بھگت رام سماج میں پھیلی ہوئی چھوا چھوت، جات پات کی بندشوں کو ختم کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس افسانے میں اس کا گھراٹ پر کام کرنا اور ان لوگوں کو بھی آٹا پسوانے کی دعوت دینا جن کو منع کیا گیا تھا۔ یہ اس کی فراخ دلی تھی اور سماج میں اونچ نیچ کی بات کرنے والوں کے منہ پرطماچہ تھا۔ بھگت رام سماج میں رہنے والے ہر فرد کو ایک جیسا سمجھتا تھا۔ اس کی نظر میں نہ کوئی اونچی جات کا ہے اور نہ کوئی نیچی جات کا۔ سب برابر ہیں۔
کرشن چندر نے اس بات کو افسانے میں کچھ اس طرح سے بیان کیا ہے:-
” اس میں جو آئے آٹا پسا کر لے جائے۔ ان پتھروں کے دو پاٹوں میں دھرا ہی کیا ہے۔ اور یہ آخر اناج ہی تو ہے
جسے کتا بھی کھاتا ہے۔” (۳)
افسانہ بھگت رام سماج کے برادری واد کی بھی پول کھولتا ہوا نظر آتا ہے۔ ایسا سماج جو دوہرا نظریہ رکھتا ہے۔ سماج کا اصلی دشمن تو لوگوں کی نظر میں پاک صاف اور شریف انسان ہے اور جو حقیقت میں اچّھا انسان ہے اس کو یہ سماج پسند نہیں کرتا۔ یوں کہئے کہ جو اونچی برادری یا پیسے والا ہے اس کو سب کچھ معاف ہے اور جو غریب یا نیچی جات کا ہے اس کی چھوٹی سی چھوٹی غلطی پکڑ لی جاتی ہے اور سزا دی جاتی ہے۔ افسانہ میں رام دئی کو اس کی برادری کے لوگوں نے جات باہر کر دیا جو کہ اتنی قصوروار نہیں تھی جتنا کہ لالہ بانشی رام۔ لالہ بانشی رام کو لوگوں نے کچھ نہیں کہا۔ اس نے رام دئی کی عصمت سے کھلواڑ کیا اور پاک صاف بنا رہا۔ صرف چند ماہ گاؤں سے باہر چلے جانے سے اس کا گناہ معاف نہیں ہو سکتا۔ رام دئی کو اتنی بڑی سزا اور بانشی رام کو کچھ نہیں۔ یہ سماج کا دہرا پن ہے۔ اور برادری واد کو ہوا دینے جیسا ہے اور امیروں کا غریبوں پر ظلم ہے۔
بھگت رام کو ہر مذہب کے ماننے والے لوگ آوارہ اور شہدا سمجھتے تھے۔ گاؤں میں اس کی برائی گاؤں کی زندگی کا حصہ بن چکی تھی۔ یہاں تک کہ مائیں درس اخلاق دیتے وقت اس طرح سے کہا کرتی تھی:-
”دیکھو جی اگر کوئی برا کام کروگے تو تمہارا بھی وہی حال ہوگا جو بھگت رام کا ہوا ہے” (۴)
مطلب یہ کہ گاؤں کے لوگوں نے برائی کا نام ہی بھگت رام سمجھ کیا تھا۔ جیسے کہ گاؤں میں۔ کالے بچے کا نام کلو، حسین بچے کا نام بھورا رکھ دیتے ہیں۔ اسی طرح سے بھگت رام کا نام برائی کے مانند سمجھا جانے لگا۔
اس افسانے کا ایک کردار بانشی رام جو کہ اپنا دھرم چھوڑ کر گرونانک کے چلائے ہوئے پنتھ میں شامل ہو جاتا ہے۔ اس نے گرودوارہ بھی تعمیر کرایا اور نئے شہر سے ایک خوبصورت گرنتھی بلا کر اسے گاؤں میں سکھ مت کے پرچار کے لئے معمور کر دیا۔ بھگت رام کی طرح اس کو یہ سب کرنے پر کسی نے برادری سے خارج نہیں کیا اور حد تو یہ ہو گئی کہ لالہ کانشی رام نے اس کو جائیداد سے بھی خارج نہیں کیا۔ مذہب تو بانشی رام نے بھی بدلہ تھا اور بھگت رام نے بھی مذہب بدلہ۔ لیکن سزا ملی صرف بھگت رام کو۔ کیا یہ اس گاؤں کے لوگوں کا دوہرا رویہ نہیں تھا؟ کوئی مذہب تبدیل کرکے گرنتھی بلا کر سکھ مت کا پرچار کرکے بھی گاؤں میں با عزت سمجھا جاتا ہے۔ تو کوئی مسلمان بن کر اذان دینے کی وجہ سے بے عزت کیا جاتا ہے۔
بھگت رام رحم دل انسان تھا۔ اس کی بہترین مثال بھیڑ کے وہ بچے ہیں جو لہروں کی گود میں سمائے جاتے تھے۔ لیکن بھگت رام کی ایک نظر پڑی اور اس کا رحم دل انسان جاگ اٹھا اور وہ بغیر کسی پرواہ کے ندی کی طوفانی لہروں میں کوڈ پڑا۔ یہ الگ بات تھی کہ وہ ان بچوں کو بچا نہیں سکا اور اسی کوشش میں اس نے اپنی جان دے دی۔ اس سے ہم کو بھگت رام کے رحم دل انسان ہونے کا پتا چلتا ہے۔
کرشن چندر نے افسانے میں اس واقعے کو اس طرح سے بیان کیا ہے:-
” یکایک اس نے اپنے کنارے کے قریب بھیڑ کے تین چار بچوں کو دیکھا جو ان ہلاکت آفریں لہروں کی گود میں
خوفزدہ آواز میں با آ با آ کہتے ہوئے بہتے چلے آ رہے تھے۔ ایک لحمہ کے لئے بھگت رام نے ان کی طرف دیکھا۔
دوسرے لحمہ میں وہ ندی کی طوفانی لہروں کی آغوش میں تھا اور بھیڑ کے بچوں کو بچانے کی ناکام سعی کر رہا تھا۔ اسی
کوشش میں اس نے اپنی جان بھی دے دی۔” (۵)
بھگت رام کے مرنے کے بعد اس کے بھائیوں کا سلوک سماج کو دکھانے کے لئے تھا یا رام دئی جو کہ جات سے چمار ہے اس سے بھگت رام کا کریا کرم کرانے سے بچانے کے لیے تھا۔ کیوں کہ اگر اس کے بھائی بھگت رام کی آخری رسم نہیں کرتے تو ہو سکتا ہے کہ رام دئی اس کی آخری رسم کرتی یا کرواتی۔ جو کہ ان لوگوں کے لیے شرمندگی کا باعث بن سکتا تھا۔ میرے خیال سے یہاں پر بھی اس کے بھائی جات پات کی وجہ سے یہ سب کرنے کو مجبور ہوئے ہوں گے۔
غرضیکہ کرشن چندر کا افسانہ بھگت رام اس سماج کے لئے آئینہ ہے جو کہ لوگوں کو جات پات میں تقسیم کرتے ہیں۔اور امیر غریب میں فرق پیدا کرتے ہیں۔ لوگوں کے اوپر ظلم کرتے ہیں، اور اس ظلم کو لوگ خاموشی سے دیکھتے ہیں، کوئی بھی اس کو روکنے کی کوشش نہیں کرتا۔ بھگت رام کے ذریعے ہم کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ چاہیں کتنی بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے، ہمیشہ خوش رہنا چاہیے اور انسان دوستی کا خیال رکھنا چاہیے۔ بھگت رام کو جائیداد سے بے دخل کیا گیا لیکن اس نے کبھی معاشی تنگی کا سامنا نہیں کیا۔ وہ ہر چھوٹا بڑا کام کر کے اپنا گھر بار چلا لیتا تھا۔ کرشن چندر نے یہی سب اس افسانے بھگت رام کے کردار کے ذریعے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور ترقی پسند تحریک کا نظریہ بیان کیا ہے۔
حوالہ جات:
۱۔افسانہ بیسویں صدی میں۔ از مہدی جعفر۔صفحہ۔ ۱۳۹
۲۔ ان داتا، کرشن چندر، صفحہ۔۷۹
۳۔ ان داتا، کرشن چندر، صفحہ۔۰۰۱
۴۔ ان داتا، کرشن چندر، صفحہ۔۱۱۱
۵۔ ان داتا، کرشن چندر، صفحہ۔۱۱۱

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی کاوش کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

error: Content is protected !!