غزل کا ارتقاء؛
غزل کی تعریف؛
غزل کی تشریح و توضیح؛
قصیدہ کی تعریف
لفظ ’’قصیدہ‘‘ عربی لفظ ’’قصد‘‘ سے بنا ہے۔
قصیدہ کے لغوی معنی قصد (ارادہ) کرنے کے ہیں۔ گویا قصیدے میں شاعر کسی خاص موضوع پر اظہارِ خیال کا قصد کرتا ہے۔
قصیدہ کے دوسرے معنی ’’مغز‘‘ کے ہیں، یعنی یہ اپنے موضوعات و مفاہیم کے اعتبار سے دیگر اصنافِ شعر کے مقابلے میں وہی نمایاں اور امتیازی حیثیت رکھتا ہے، جو انسانی جسم و اعضا میں سر یا مغز کو حاصل ہوتی ہے۔
فارسی میں قصیدہ کو ’’چامہ‘‘ بھی کہتے ہیں۔
قصیدہ ہیئت کے اعتبار سے غزل سے ملتا ہے۔ بحر شروع سے آخر تک ایک ہی ہوتی ہے۔ پہلے شعر کے دونوں مصرعے اور باقی اشعار کے آخری مصرعے ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتے ہیں۔
قصیدے میں ردیف لازم نہیں۔ اس کا آغاز مطلع سے ہوتا ہے۔ بعض اوقات درمیان میں بھی مطلعے لائے جاتے ہیں۔
ایک قصیدے میں اشعار کی تعداد کم از کم پانچ ہے۔ زیادہ سے زیادہ کی حد مقرر نہیں۔ اُردو اور فارسی میں کئی کئی سو اشعار کے قصیدے بھی ملتے ہیں۔
ہیئت کے لحاظ سے قصیدے کی دو قسمیں ہیں:
تمہیدیہ، جس میں قصیدے کے چاروں اجزا (تشبیب، مدح، گریز، دعا) موجود ہوتے ہیں۔
مدحیہ، جو تشبیب اور گریز کے بغیر براہِ راست مدح سے شروع ہوتا ہے۔
ذوقؔ کا ’’قصیدہ بہ تقریبِ غسلِ صحت بہادر شاہ ظفرؔ‘‘ کا ایک بند ملاحظہ ہو:
تو ہے وہ حامئی دنیا و دیں زمانے میں
کہ تجھ سے زیب ہے دنیا کو دین کو توقیر
جہاں کو یوں تری صحت کے ساتھ ہے صحت
صحیح جیسے کہ قرآن ہو مع التفسیر
(رفیع الدین ہاشمی کی تالیف ’’اصنافِ ادب‘‘ مطبوعہ ’’سنگِ میل پبلی کیشنز‘‘ 2008ء، صفحہ 49 اور 50 سے ماخوذ)
:مرثیہ کی تعریف
مرثیہ عربی لفظ ’’رثا‘‘ سے بنا ہے جس کے لغوی معنی ’’مرنے والے کا ذکرِ خیر‘‘ کے ہیں۔ شاعری کی اصطلاح میں مرثیہ وہ صنفِ سخن ہے جس میں کسی مرنے والے کی تعریف و توصیف بصد حسرت و غم بیان کی جاتی ہے۔ روایتی معنوں میں مرثیہ سے مراد وہ مسلسل نظم ہے جس میں حضرت امام حسینؓ اور دیگر شہدائے کربلا کے فضائل اور مصائب کا ذکر کیا جاتا ہے۔ دیگر زبانوں کی طرح اُردو زبان میں بھی مرثیہ کا مروجہ مفہوم یہی ہے۔
مرثیے کی چار قسمیں ہیں: رسمی مرثیہ، قومی مرثیہ، شخصی مرثیہ اور مذہبی مرثیہ۔
رسمی مرثیہ:۔ وہ مرثیہ جو کسی ایسی شخصیت کی وفات پر لکھا جائے جس کی حیثیت ملکی یا بین الاقوامی ہو ’’رسمی مرثیہ‘‘ کہلاتا ہے۔ مثلاً قائد اعظم اور علامہ اقبال کے بارے میں لکھی جانے والی ایسی بے شمار نظمیں جن میں ذاتی دکھ کی بجائے اجتماعی غم کا اظہار ہوتا ہو، رسمی مرثیہ کے زمرے میں آتا ہے۔
قومی مرثیہ:۔ اس میں اور رسمی مرثیہ میں معمولی سا فرق ہے۔ رسمی مرثیہ میں جہاں کسی ایک قومی رہنما کے اپنے درمیان سے اُٹھ جانے پر اجتماعی غم کا اظہار کیا جاتا ہے، وہاں قومی مرثیہ میں ایک ملک کے چھن جانے یا آبادی کے ایک حصے کے بچھڑ جانے کا ذکر بڑے رنج و غم سے کیا جاتا ہے۔ مثلاً سقوطِ بغداد، سقوطِ ڈھاکہ پر لکھی گئی بہت سی نظمیں قومی مرثیہ ہی کے زمرے میں آتی ہیں۔ اسی طرح اقبال کا ’’بلادِ اسلامیہ کا مرثیہ‘‘ بھی اس کی عمدہ مثال ہے۔
شخصی مرثیہ:۔ مذہبی مرثیہ کے بعد مرثیے کی جو قسم مرثیہ کے مخصوص مزاج کے قریب پہنچتی ہے، وہ شخصی مرثیہ ہے۔ مرثیے میں شہدائے کربلا کے بعد اگر کسی اور شخصیت کی وفات کا غم شاعر کی ذات کا سچا تجربہ بن سکتا ہے، تو وہ اس کے ماں باپ اور بیٹا ہوں یا انتہائی مخلص دوست یا پھر ایسا محسن ہو جس کے احسانات شاعر کی ذات پر بے پایاں ہوں۔ گویا کسی شخصی مرثیے کے لیے ضروری ہے کہ بات دل کی گہرائیوں سے نکلے ورنہ اس کی حیثیت رسمی مرثیہ سے زیادہ نہیں ہوگی۔ شخصی مرثیے میں غالبؔ کا ’’زین العابدین عارف کا مرثیہ‘‘، علامہ اقبال کا مرثیہ ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ اور حالیؔ کا ’’غالبؔ کا مرثیہ‘‘ چند خوبصورت مثالیں ہیں۔
مذہبی مرثیہ:۔ مذہبی مرثیہ کو آفاقی حیثیت حاصل ہے۔ اس میں خاص طور پر سید الشہدا حضرت امام حسینؓ اور ان کے اعزا و اقربا اور دیگر شہدائے کربلا کے فضائل اور شہادت کا ذکر ہوتا ہے۔ اس کے اجزائے ترکیبی یوں ہیں: چہرہ، سراپا، رخصت، آمد، رجز، جنگ، شہادت، بین اور دعا۔
(’’ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم‘‘ کی تالیف ’’اصنافِ اُردو‘‘ ، ناشر ’’بک کارنر‘‘، تاریخِ اشاعت 23مارچ 2018ء، صفحہ نمبر 95 تا 98سے انتخاب)
رباعی
¦رباعی سے مراد ایسی صنف ہے جو چار مصرعوں پر مشتمل ہو۔اور فکر و خیال کے اعتبار سے مکمل ہو۔رباعی کے تمام مصرعوں میں خیال مربوط ہوتا ہے اور آخری مصرع خیال کی تکمیل کرتا ہے۔رباعی کا پہلا دوسرا اورچوتھا مصرع متحد القوافی ہوتے ہیںتیسرا مختلف القوافی ہوتا ہے۔
¦اردو ادب کی شعری اصناف میں رباعی ایک مختصر مگر اہم شعری صنف ہے۔
¦رباعی کے چار ارکان ہوتے ہیں صدر،حشو،عرض۔
¦رباعی میں عموما اخلاقی،فلسفیانہ،عشقیہ،اور فکری مضامیں بیان ہوتے ہیں۔
¦رباعی میں خطابی اور اصلاحی طرز ادا سے اعراض کیا جاتا ہے۔
¦رباعی عربی لفظ ربع سے ماخوذ ہے جس کے معنی چار کے ہوتے ہیں اسی لئے رباعی میں چار مصرع ہوتے ہیں۔
¦رباعی کو دو بیتی اور ترانہ بھی کہا جاتا ہے۔رباعی فارسی شعر ا کی ایجاد ہے۔
¦رباعی کے اوزان مخصوص ہیں جن کی تعداد 24 ہے۔
¦رباعی کا پہلا دوسرا ور چوتھا مصرع ہم قافیہ ہوتے ہیں۔
¦رباعی کا سب سے اہم مصرع چوتھا مصرع ہوتا ہے۔
¦فارسی میں ’رودکی‘ پہلا رباعی گو شاعر ہے۔
¦رباعی کا تیسرا مصرع غیر مقفیٰ ہوتا ہے اسی لیے اس کو خصی کہتے ہیں۔
¦وہ رباعی جس کے چاروں مصرع مقفیٰ ہوتے ہیں ان کو غیر خصی رباعی کا نام دیا جاتا ہے۔
¦رباعی کو چار مصراعی کا نام بھی دیا گیا ہے۔رباعی کے لئے ایک ہی بحر مخصوص ہے بحر ہزج۔
رباعی گو شعرا
ولی ،غالب،حالی،امجد حیدر آبادی،ذوق،فاروقی،یگانہ،انیس،فراق،جگت موہن لال رواں، اقبال، جوش، امیر مینائی،مومن،اکبر الہ آبادی اور فانی۔
:قطعہ کی تعریف
قطعہ کے لغوی معنی ’’ٹکڑا‘‘ یا ’’جزو‘‘ کے ہیں۔ اصطلاح میں اُس نظم کو کہتے ہیں، جس میں کوئی خیال یا واقعہ مسلسل بیان کیا گیا ہو۔ قطعے میں مطلع کی موجودگی ضروری نہیں۔ قطعہ کم از کم دو شعروں کا ہوتا ہے، زیادہ سے زیادہ کی کوئی قید نہیں۔
مثنوی کی تعریف
مثنوی کا لفظ عربی کے لفظ مثنٰی سے بنا ہے اور مثنیٰ کے معنی دو کے ہیں۔ اصطلاح میں ہیئت کے لحاظ سے ایسی صنفِ سخن اور مسلسل نظؐ کو کہتے ہیں جس کے شعر ممیں دونموں مصرعے ہم قافیہ ہوں اور ہر دوسرے شعر میں قافیہ بدل جائے، لیکن ساری مثنوی ایک ہی بحر میں ہو۔ مثنوی میں عموماََ لمبے لمبے قصے بیان کیے جاتے ہیں۔ نثر میں جو کام ایک ناول سے لیا جاتا ہے، شاعری میں وہی کام مثنوی سے لیا جاتا ہے۔ یعنی دونوں ہی میں خہانی بیان کرتے ہیں۔ مثنوی نگاری یعنی مثنوی لکھنے کا فن۔
مثنوی ایک وسیع صنفِ سخن ہے اور تاریخی، اخلاقی، اور مذہبی موضوعات پر کئی ایک خوبصورت مثنویاں کہی گئی ہیں۔ البتہ مثنوی عموماََ چھوٹی بحروں میں کہی جاتی ہے اور اس کے لیے چند بحریں مخصوص بھی ہیں۔ شعراء عموماََ اس کی پاسداری کرتے ہیں لیکن مثنوی میں شعروں کی تعداد پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ کچھ مثنویاں تو کئی کئی ہزار اشعار پر مشتمل ہیں۔
*مثنوی کے اجزاء ترکیبی یہ ہیں:*
حمد، نعت، منقبت، مناجات، مدح بادشاہ/امراء، تعریف سخن یا تعریف خامہ، سبب تالیف، اصل قصہ، اختتام،
*مثنوی کے اقسام:*
امداد امام اثر نے مثنوی کو موضوع کے اعتبار سے حسب ذیل حصوں میں تقسیم کیا ہے:
1. رزمی مضامین
2. بزمی مضامین
3. حکمت آموز مضامین
4. تصوف آموز مضامین
5. متفرق مضامین
مثنوی کے لئے عام طور پر 7 بحریں مروج ہیں۔
بحر کا لفظ مذکر ہے
مثنوی خارجی یا بیانیہ شاعری کی نمائندہ صنف ہے. مثنوی عربی زبان کا لفظ ہے لیکن یہ فارسی شعراء کی ایجاد ہے. مثنوی کو دکنی شعراء کی سب سے مرغوب اور محبوب صنف ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔