سحرالبیان کا خلاصہ

سحرالبیان

¦ سحرالبیان:-
¦زمانہ تصنیف: 1199ھ مطابق 1784۔ آصف الدولہ کے عہد میں۔
¦بحر: بحر متقارب۔ فعولن فعولن فعولن فعل
¦ سحر البیان میں جزیات نگاری زیادہ ہے۔
¦ سحرالبیان گلرسٹ کی فرمائش پر شیر علی کے مقدمے کے ساتھ 1805میں ہندوستانی پریس کلکتہ سے شائع ہوئی۔
¦ سحرالبیان کو رشید حسن خاں نے مرتب کیا۔
¦سحرالبیان کے جواب میں جعفر علی حسرت نے طوطی نامہ لکھی۔
¦ سحرالبیان میں کل اشعار :
¦اہم کردار: شہزادہ بے نظیر ، شہزادی بدر منیر ، وزیر زادی نجم النساء ، ماہ رخ پری ، فروز شاہ ، مسعود شاہ ، ملک شاہ، عیش بائی۔
¦سلطنت کی شان و شوکت ، تخت گاہ کی رونق اور چہل پہل ، لاولدی کی حالت میں پاس و نا امیدی اور دل برداشتگی ، جو تشبیوں کی گفتگو ، شاہ زادے کی ولادت ، ناچ رنگ اور گانے بجانے کے ٹھاٹھ ، حمام میں نہانے کی کیفیت مکانوں کی آرائش ، شاہانہ لباس اور جواہرات اور زیورات کا بیان ، خواب گاہ کا نقشہ ، جوانی کی نیند کا عالم ، رنج و غم میں محلوں اور باغوں کی بے رونقی ، عاشوق معشوق کی پہلی ملاقات اور اس میں شرم و حجاب کا پاس و لحاظ ، عشق و محبت کا بیان ، نسبت کے پیغام و صلاح ، بیاہ شادی کے سامان ، بچھڑے ہوئوں کا ملنا ۔ غرض جو کچھ اس مثنوی میں بیان کیا ہے اس کی آنکھوں کے سامنے تصویر کھینچ دی ہے ۔ اور مسلمانوں کے اخیر دور میں سلاطین و اُمرا کے ہاں جو حالتیں ایسے موقعوں پر گزرتی تھیں اور جو معاملات پیش آتے تھے ان کا بعینہ چربہ اتار دیا ہے ‘‘۔ ( الطاف حسین حالی )

سحرالبیان کا خلاصہ

کسی شہر میں ایک شنشاہ رہتا تھا، اْس کی حشمت و جاہ کی وجہ سے خطاوخْتن کے بادشاہ اْسے خراج دیتے تھے۔ اْس کا دارْالسلطنت اِصفہان کی طرح نصف جہان تھا۔ ہرجگہ عیش وعشرت اور راگ رنگ کی محفلیں گرم تھیں، اْسے صرف اولاد کا غم تھا۔ ایک دن اُس نے اپنے وزیروں کو بْلاکرکہاکہ تخت و تاج کے وارث کے بغیر میں یہ مال ومنال کیا کروں گا ؟ اب میرے دل میں فقیری تیار کرنے کا خیال ہے۔ وزیروں نے کہا کہ صبر سے کام لیں۔ ہم نجومیوں کو بلاتے ہیں۔ آپ انھیں سے اپنی قسمت کا حال پوچھیں۔ وہ اس فن کے ماہر نجومیوں ، رمّالوں اور جیوتشیوں کو بادشاہ کے پاس لائے۔ ہر ایک نے اپنے اپنے طریق سے بادشاہ کی قسمت کا حال دریافت کر کے بتایا کہ نشست کے دن نکل گئے ہیں، اب آپ کے گھر میں چندر ماںجیسا بیٹا پیدا ہوگا ،لیکن بارھویں سال میں اْسے بلندی سے کچھ خطرہ ہو گا، اسلئے بارہ برس وہ بْرج میں رہے اور بالائے بام نہ جائے۔ بادشاہ نے پوچھا جان کا خطرہ تو نہیں۔انھوں نے بتایا کوئی پری اس پر عاشق ہوگی اورخْدا سے التجا کرنے لگا۔
نوماہ کے بعد بادشاہ کے گھر میںبیٹا پیدا ہوا ، وہ بہت حسین اور دل پذیر تھا، اْس کانام بے نظیر رکھاگیا۔ ولادت پرخوب دھوم دھام سے جشن منایا گیا۔وزیروں اور امیروں نے نذریں گزارئیں۔بادشاہ نے انھیں الماس وگہر بخشے۔مشائخ اور پیر زادوں کو جاگیرں دیں۔ خواصوں اورخوجوں کوجوڑے اورپیادوں کو گھوڑے دیے۔ فقیروں کوزرلٹایاگیا۔ خوشی میں یہاں تک ذرنثارکیاگیا کہ جسے ایک دینا تھا،اسے ہزاردیا۔ الغرض چھٹی تک ہر روز روز عید تھا اور ہر شب شبِ برات۔ وہ نونہال محل میں پلنے لگا۔ بڑا ہوا تو مکتب کی رسم ہوئی۔ خوب خوشیاں منائی گئیں۔ ہر فن کے اساتذہ تعلیم دینے لگے۔ اور بے نظیر اپنے ذہن رساکی بدولت معانی، منطق ،بیان ، ادب ، حکمت ، قانون ، ہیئت، ہندسہ ، نجوم ، نحو اور صرف وغیرہ علوم میں بے نظیر ہوگیا۔ خطّاطی میں نسخ، ریحان، غبار ،ثلث ، رقاع ، خفی وجلی، شعاع ، شکستہ، نستعلیق، غبار، وغیرہ خطوں میں مہارت حاصل کی۔ تیراندازی ، تفنگ زنی اور موسیقی میں کمال حاصل کرلیا۔
بے نظیر کو بارہواں سال لگا توغم کاجنجال دورہوا۔ بادشاہ نے نقیبوں کو حکم دیاکہ کل شہزادے کی سواری نکلے گی۔ خاص وعام کوحاضرہونے کاحکم دیاجائے، شہر کو آئینہ بند کیاجائے ، تاکہ سواری کالطف دوچند ہو، صبح شاہ زادہ نہادھوکر تیار ہوا تواْسے خلعت اور زردجواہر پنھائے گئے۔ جب وہ سروِ نوخاستہ اس طرح آراستہ ہوکر خراماںہوا ، تو اس پر زوروجوہر کے خوان نثار کیے گیے۔ ہزاروں ہاتھی سنہری، روپہیلی عماریاں باندھے قطار در قطار کھڑے تھے۔کہار پالکیاں اور نالیاں لیے موجود تھے۔ ماہی مراتب، سروِرواں ادرشہنائی کی موسیقی سے شادی کا مال بندھ گیا تھا۔ نقارچی کھوڑوں پر نقاریبجارہے تھے۔ امیروزیراورصغیرو کبیرجلو میں تھے۔ سبھی نے شہزادے کو نذریں پیش کیں۔ نقیب حسب دستور با ادب، با ملاحظہ ، ہوشیار کی صدائیں لگاتے تھے۔تماشائیوں کا ہجوم تھا۔ شہزادہ چارگھڑی تک خوب سیرکرنے کے بعد محفل میںلوٹ آیا۔ محل میںپہر رات تک رقص وسرور کی محفل آراستہ رہی۔ چودھویں کی رات تھی۔ ہرطرف چاندنی چھٹکی ہوئی تھی۔ عالم نور کانظارہ دِل کو عجب سرور دیتا تھا۔ چاندنی کی بہار دیکھ کر شہزادے کادل مچل گیا۔ اْس کے دل میں ترنگ اٹھی کہ آج اس کا پلنگ اگر کوٹھے پر بچھے تو خوب ہو۔ خواصوں نے بادشاہ کو اطلاع دی کہ شہزادہ آج کوٹھے پرسوناچاہتا ہے۔بادشاہ نے کہا کہ خوف کے دن تونکل گئے ہیں، اب اِس میں کوئی ڈرنہیں، لیکن چوکی پہرے والے بیدار اور ہوشیار رہیں۔
اتفاق کی بات کہ وہ دن اسی سال کا تھا اور ماضی میں حال کا وہم غلط تھا۔ مولانا روم کایہ سخن سچ ہے کہ قضا وقدر کے آگے حکیم بھی احمق ہوجاتا ہے سبھی لوگ عیش وعشرت میں محو تھے۔ کسی نے نہ سوچا کہ زمانہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ہے۔ شہزادے کے لیے چھت پر سونے کاجڑائو پلنگ بچھایاگیا۔ شبنم کی چادر بچھائی گئی۔ مخمل کے تکیے لگائے گئے۔مْقیش کے کسنے کسے گئے۔زری باف کے اوقچے اور گل تکیے رکھے گئے۔ شہزادہ نیند کاماتا تھا۔ پلنگ پرجاتے ہی سوگیا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چلی تو چوکی پہرے والے بھی ایک ایک کرکے سوگئے۔
اتفاقاً اْدھر سے ایک پری گْزری۔ اْس کی نظر شہزادے پر پڑی۔ شہزادے کا بھبھوکاسابدن دیکھ کر پری کاتن بدن عِشق کی آگ میں جلنے لگا۔ وہ اس کے حسن پرنثار ہوئی اور تخت اتار لائی اور اْسے اڑا کرآن کی آن میں پرستان لے گئی۔ ادھر محل میں ایک خواص کی آنکھ کھلی تو دیکھا کہ شہزادہ پلنگ پرموجود نہ تھا۔ شوروغل ہوا۔ خواصیں حیران وپریشان ہوگئیں کہ پروردگار !یہ کیاہوگیا ؟ کوئی رونے لگی، کوئی غم میں اپنا جی کھونے لگی۔ کوئی بلبلائی سی پھر رہی تھی، تو کوئی ضعف کھاکھا کے گر رہی تھی۔ کوئی دل گیر سرپر ہاتھ رکھ کر ماتم کی تصویربن گئی، کوئی زیر زنخداں چھڑی رکھے نرگس کی طرح کھڑی کی کھڑی تھی۔ کسی نے سْنبل سے بال کھول دیے۔ کسی نے تپانچوں سے اپنے گال لال کرڈالے۔ کوئی دانتوں میں انگلی دابے تھی تو کوئی کہتی تھی کہ اب یہ گھر خراب وبرباد ہوا۔ بالآخر انھوںنے یہ بادشاہ کوخبر کی۔ بادشاہ یہ خبر سنتے ہی بے ہوش ہوکر گرا۔ ماں کلیجہ پکڑ کررہ گئی۔ قیامت کا سماں تھا۔ آدھی رات تو سوتے کٹ چکی تھی، باقی آدھی رات روتے کٹی۔ صبح ہوتے ہی شہزادے کے گم ہونے کی خبر سارے شہر میں پھیل گئی۔باغ کا یہ عالم تھا کہ اس کے غم میں پھول داغ معلوم ہوتے تھے۔ گلوں کا جگر درد سے پھٹ گیا۔ نرگس کی آنکھوںکانور غائب ہوگیا۔ لالہ کے دل میں آگ لگ گئی۔ انگور مدہوش ہوکر گرپڑے۔ غرض سارے نہال خْشک اور زرد ہوگئے۔ بلبل کاجی ترانے سے ہٹ گیا۔ قْمریاں سر پردھول اْڑانے لگیں۔ سرواپنی اکڑ بھول گئے۔ نہر کی آنکھیں ڈبڈباآئیں۔ فواروں کی تاب وتواں جاتی رہی۔ روتے روتے سبھی کی آنکھوں میں گڑھے پڑگئے۔ چشموں کا حال تباہ تھا۔ کنویں دِل میں رورہے تھے تو آبشار دہاڑیں ماررہے تھے۔ جن مْنڈیروںپر طائوس رقص کرتے تھے، اب وہاں زاغ بولنے لگے۔
وزیروں، امیروں نے بادشاہ کی تباہ حالت دیکھی تو تسلیاں دینے لگے کہ اگرچہ جْدائی گوارا نہیں،لیکن خدائی کے آگے کوئی چارہ نہیں۔ مرتے کے ساتھ کوئی مرتانہیں۔اِتنااِضطراب اچھا نہیں۔ زمانہ ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا۔ جیتے جی امید کادامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ خْدا کی خْدائی سے کچھ دور نہیں کہ شہزادہ جلد مل جائے۔
اُدھرپری شہزادے کواپنے تخت پراُڑا کرپرستان لے گئی۔ تخت ایک باغ میں اُترا۔ باغ طلسمات کاتھا۔ یہاں آگ کاخطرہ تھا نہ برسات کاڈر، نہ سردی تھی نہ گرمی ، دھوپ کاکہیں نام نہ تھا۔ مکانوں کے درودیوار مْطّلامُنقّش اورمُشک تھے۔ کلوں کے بنے مکانوں کو حسبِ منشا کہیں بھی رکھاجاسکتا تھا۔ ہرطرف پھول کھلے تھے۔ ساری زمین جواہر نگار تھی۔ وحش وطیور بھی جواہر کے تھے۔ دن میں حیوان بن کر پھرتے رہتے تھے اور رات میں انسان بن کر کام کرتے تھے۔ دن میںجوگوہر تھا، رات میں چراغ بن جاتاتھا۔ گھڑیال خود بخود وقت پر بجتاتھا۔کہیں ناچ ہورہاتھا۔ حجروں کے دروازے کھلنے اور بند ہونے سے باجوں کی موسیقی سنائی دیتی۔ مکانوں کے فرش وفروش پر نقوشِ سلیمانی بنے تھے۔ طلسمات کے پردے اور چلونیں حسب منشا اٹھتے اورگرتے تھے۔ پری زاد خواصیں خدمت کے لیے موجود تھیں۔ نہر کے کنارے مرصع نگاربنگلا گہرا آب دار کی طرح چمک رہاتھا۔ شہزادے کاپلنگ اْسی میں بچھاتھا۔ شہزادے کی آنکھ کھلی تو دیکھا کہ نہ وہ اپنا محل تھا، نہ وہ اپنا شہر تھا، نہ وہ لوگ تھے۔ وہ حیرت سے ایک ایک کو تکنے لگا۔ اْس نے اچنبھے کایہ خواب دیکھا تو کہا کہ یارب !کہاں آگیاہوں؟ لڑکاتھا، حیران اور سہما ہوا تھا۔ اْس نے ایک مہ چاردہ کو سرہانے بیٹھادیکھا تو پوچھا کہ توکون ہے ؟ گھر کس کا ہے اور مجھے یہاں کون لے آیا ہے ؟ پری نے منھ پھیر کر ہنستے ہوئے کہاکہ میں بھی حیران ہوں تجھے کیا بتائوں کہ تو کون ہے ؟ میں کون ہوں؟بہر حال اب تو میرے گھر میں مہمان ہے۔ یہ گھر اگرچہ میرا ہے ، لیکن اب یہ تیرا ہے۔ مجھے تیرے عشق نے دیوانہ بنادیا ہے۔ یہ بندی تجھے یہاں لائی ہے۔ میں ماہ رْخ پری ہوں۔یہ پرستان ہے۔ یہاں قوم بنی جان رہتی ہے۔ یہ سْن کر شہزادہ بے نظیر غمگین ہوگیا۔ لیکن کیاکرتا؟ مجبورتھا۔ گردشِ روزگار نے معشوق کو عاشق کے اختیار میں دے دیاتھا۔ وہ ہر وقت اداس رہتا ، آنسو بہاتا اور آہیں بھرتا رہتا تھا۔ اپنے گھر کاسماں ہروقت اْس کی آنکھوں کے آگے رہتاتھا۔ وہ ماں باپ کی شفقت کویاد کرکے روتاتھا۔ مْرغِ نوگرفتار کی طرح بے چین وبے قرار رہتاتھا۔ مجبور ہوکر اْس نے وہاں اپنادِل لگایا اور پری کی ہاں میں ہاں ملانا شروع کی۔
اپنے ماں باپ سے یہ سب کچھ پوشیدہ رکھنے کے لیے ماہ رْخ پری کبھی باغ میں رہتی اور کبھی گھر میں ماں باپ کے ساتھ رہتی۔ شہزادے کوخوش رکھنے کے لیے وہ ہرشپ اْسے پرستان کے عجائب کی سیر کراتی۔ اْس کے آرام کا ہرسامان مہیا کرتی۔ راگ رنگ ، شراب کباب، نگار وجوانی اور بوس وکنار سب فراہم تھے۔ لیکن بے نظیر اپنوں سے دوری کے غم میں گھلاجاتاتھا۔ ماہ رْخ نے شہزادے سے کہا کہ تو اداس نہ ہوپہر بھر کے لیے روئے زمین کی سیر کیاکر۔ میں تجھے کل کا ایک گھوڑا دیتی ہوں۔ اْس پر سوار ہوکرتوزمین سے آسمان ہرجگہ جاسکتا ہے۔ لیکن مجھے تو اِس بات کا مْچلکادے کہ توشہر کی طرف نہ جائے گا اور کسی سے دِل نہ لگائے گا۔ ورنہ تیرا حال ایک گنہ گار کاساہوگا۔ شہزادے نے کہا کہ مجھے سب قبول ہے۔ پری نے اْسے فلک سیر نام کا گھوڑا دیا۔ بے نظیر سرِ شام اُس پر سوار ہوتا اور پہر بھر تک اِدھر اُدھر کی سَیر کرکے لوٹ آتا۔ ایک دن اْسے ایک سہانا ساباغ نظرآیا۔ اُس باغ میں ایک سفید عمارت تھی۔ جو نور میں چاندنی سے بھی دوچند تھی۔ اْس نے گھوڑا وہاں اْتارا اور درختوں کی آڑسے دیکھا کہ عرش سے فرش تک دروبام ، طاق ومحراب سبھی آراستہ تھے۔ قد آدم آئینے لکے تھے۔ مہ وشال زری پوش ہرطرف خراماں تھے۔ چوپڑ کی نہر شفاف پانی سے لبالب بھری تھی۔ سرِنہر ایک آراستہ وپیراستہ تمگیرے کے نیچے مسند پر پندرہ ایک برس کی نہایت حسین وجمیل لڑکی تکیے پر کہنی دیے ایک اندازسے بیٹھی چاندنی کانظارہ کررہی تھی۔ اْدھر آسمان پرچاند چمک رہاتھا، اِدھر زمین پر مہ چاددہ تھا۔ دونوں کاعکس نہر پر پڑتا تھا۔ توچاند بھی لوٹ جاتا تھا۔ قدرت کا یہ کمال دیکھ کر شہزادے نے یاذوالجلال کانعرہ لگایا۔ اتفاقاً درختوں کے بیچ نظر گئی تو اْسے ایک شعلے کی روشنی سے آنگن جگمگاتا ہوانظرآیا۔ شورمچ گیا۔ کسی نے کوئی اسرار بتایا۔ کسی نے کہا کہ آسمان سے ستارہ ٹوٹ کر گراہے، کسی نے کہا کہ چاند چھپا ہے۔ کسی نے کہا کوئی دل دار ہے۔ کسی نے کہا اے بوا!دیکھنا ، کوئی مرد وا کھڑا ہے۔ شہزادی کے کانوں میں یہ باتیں پہنچیں تو اس نے کہا کہ میں تو دیکھوں۔ دور سے دیکھا تو جی سنسنا گیا۔ کئی ہم دموں کو ساتھ لیے جی کڑاکر کے وہاں گئی اور دیکھا کہ پندرہ سولہ برس کا ایک آئینہ سامہ جبیں ایک نوجوان حسیں کھڑا ہے۔ مرادوں کی راتیں تھیں، جوانی کے دن تھے ، بے نظیر کو دیکھتے ہی نظر سے نظر ،جی سے جی ، دل سے دل مل گئے۔ بے نظیر اور بدرمنیر بے ہوش ہوکر گرے۔ دونوں کو تن من کی سدھ نہ رہی۔ وزیر زادی نجم النسا نے نسابی سے گلاب لاکرچھڑکا۔ تواْن کے تنوں میں تاب آئی۔ دونوں نے اپنی اپنی حقیقت بیان کی۔ بے نظیر نے پری کا حال بھی بتایا۔ اورکہا کہ مجھے ایک پہر سے زیادہ کی رخصت نہیں۔یہ سن کر بدرِ مْنیر نے غصے سے کہا کہ تم پری پر مرو اور وہ تم پرمرے مجھ سے یرے بیٹھو۔ میں اس طرح کی محبت نہیں کرتی۔ یہ شرکت بندی کوپسند نہیں۔ یہ سْن کر بے نظیر اْس کے پانو پر گر کر کہنے لگا کہ آہ بدرمنیر! مجھ پر کوئی فدا ہوتو میں کیا کروں ؟ میں عجب دام بلا میں پھنسا ہوں۔ پہر رات تک عیش وعشرت کے جام چلتے رہے۔ بے نظیر نے کہاکہ اگر چھوٹنے پایا تو کل آئوں گا۔ اُس نے جوںتوں کر کے رات کاٹی۔ بدرمنیر کی صحبت کاسماں آنکھوں میں سمایا ہوا تھا۔ ہروقت سوچتا تھا کہ کسی طرح دن کٹے اور وہ اپنی شمع سے جاملے۔ بدرِ منیر کی آنکھوں میں بھی محبوب ہی کی صورت گھومتی رہی۔ امید سے لبوںپر ہنسی اوریاس سے چہرہ اداس تھا۔ نجم النسا کے کہنے پر بدر منیر نے سولہ سنگھار کیے۔ اْس کے حسن کی دھوم آسمان تک پہنچی اور مہرومہ نثار ہونے لگے۔ خواصوں نے چھپرکھٹ کوصاف کرکے آراستہ کیا۔ کہیں نرگس کے دستے دھرے، کہیں میوے چنے، کہیں عطرپان رکھے۔مسند پرتمامی کے تکیے دھرے اورظہوری ؔ ونظیریؔ کے کلام کا انتخاب سرہانے رکھا۔ میرؔ،سوداؔ اورحسنؔکے اشعار کی بیاض رکھی ، گنجفہ اور چوپڑ رکھی۔ شراب کی صْراحی اور ساغر رکھا۔ خاصہ تیار کرنے کاحکم ہوا۔
شام ہوئی تو بے نظیر فلک سیر پر سوار ہوکر بدرِمنیر کے باغ پہنچا۔ مے گلکوں کا دور چلا۔ دونوں نے خوب داد عیش دی۔ پہر بجتے ہی بے نظیر جانے کے لیے اْٹھا تو بدرِ منیر غم کی تصویر ہو کر رہ گئی۔ اسی طرح وہ روزانہ شام کو آتا اور ایک پہر رات تک وہ دونوں کبھی وصل سے پھول پھول جاتے اور کبھی ہجر کے خیال سے ملول ہوجاتے۔ آسمان ناہنجار کو کسی کاوصل نہیں بھاتا۔ ایک دیو نے ماہ رْخ پری کو خبر دی کہ اْس کامحبوب کسی اور پر عاشق ہوا ہے۔ یہ سُن کر وہ شعلہ بھبھوکا ہوئی۔ کہنے لگی کہ وہ نابکار اب آئے تو میں اْس کا گریبان تار تار کروں۔ ہمارے بزرگوں نے سچ کہا ہے کہ آدم زاد بے وفا ہوتے ہیں۔ وہ اسی طرح غضب ناک بیٹھی تھی کہ بے نظیر آیا۔ وہ بلاکی طرح جھپٹی اور کہا کہ میں نے تجھے سیر کو گھوڑا دیا تھا نہ کہ اْس مال زادی کو جوڑا دیا تھا۔ یہ اوپر اوپر مزے اڑا رہے ہو۔ تم نے مجھے مچلکا دیا تھا۔ اب میں اس کا بدلہ نہ لوں تو کہنا۔ اب تو اپنی چاہ کا مزا دیکھ۔ میں تجھے کیسے کنویں جھنکاتی ہوں۔ یہ کہہ کر اْس نے ایک دیو کو بلا کر کہا کہ اسے یہاں سے کھینچتا لے جا اور کوہِ قاف میں در دومحنت کے صحرا میں مصیبت کے کنویں میں ڈال دے۔ کنویں کا منھ پتھر سے بند کردے۔ ایک وقت کھانا دینا اور ایک جام پانی پلانا۔ بے نظیر جواندھیرے اُجالے میں کہیں نہ نکلاتھا۔ اُس اندھے کنویں میں بند ہوگیا جہاں سوائے خُدا کے نہ کوئی مونس تھا نہ غم خوار۔
ادھر بے نظیر اس طرح مصیبت کے کنویں میں قید ہوا ، اْدھر بدرمنیر بے قرار ہوئی اس کی نظروں میں عالم سیاہ ہوگیا۔ وہ ہرطرف دیوانی سی پھرتی اوردرختوں میں جاجاکر گرتی۔ زندگی سے خفا ہوکر ہر وقت سوئی رہتی ، وحشت آلودہ خواب دیکھتی۔ تپ غم کی شدت سے کانپ کانپ جاتی اور اکیلے میں منھ ڈھانپ ڈھانپ کر روتی۔ اگلا سا ہنسنا ،بولنا، کھانا پینا کچھ نہ رہا۔ جہاں بیٹھتی پھر نہ اٹھتی اور دن رات ہجر میں گھٹتی رہتی۔ اْس کے دِل میں محبت کا جوش بھرا تھا۔ آنکھوں سے خون کے آنسو بہتے رہتے۔ مسی ، کنگھی ، چوٹی، سرمہ ، کاجل کسی سے کوئی تعلق نہ رہا۔ اس کا یہ حال دیکھ کر نجم النسا نے کہا کہ کوئی مسافر سے بھی پیت کرتا ہے جوگی کسی کے میت نہیںہوتے۔ یہ چار دن کے آشنا ہوتے ہیں۔ اگر کوئی آپ پرشیدا نہیں تو آپ کو بھی اْس کی پروا نہیں کرنی چاہیے۔ وہ اپنی پری کے ساتھ خوش ہوگا تم عبث اپنا جی کھورہی ہو۔ اگر اسے آپ کی چاہ ہوتی تو وہ ضرور آتا۔ یہ سن کر بدرِ منیر نے کہا کہ اے نجم النسا! کسی کی برائی کرنا عیب ہے وہ اپنے دل سے نیک ذات ہے۔ خداجانے اس پر کیا بنی ہے۔ مجھے تو دن رات اِسی بات کا ڈر رہتا ہے کہ کہیں پری کو اِس کی خبر نہ ہوگئی ہو اور اْس نے اْسے کوہِ قاف میں قید نہ کردیا ہو۔ یاکسی دیو کے منھ میں نہ دے دیا ہو۔ یہ کہہ کر وہ رونے لگی اور سرمنھ لپیٹ کر چھپر کھٹ میں جاپڑی۔ ذرا آنکھ لگی تواْس نے خواب میں دیکھا کہ بے نظیر ایک صحرائے لق ودق کے بیچ ایک کنویں میں قید ہے اور کنویں کامنھ کئی من کے پتھر سے بند ہے۔ کنویں سے آواز آرہی ہے کہ اے بدرمنیر ! میں اس قیدرِ گراں میں بھی تجھے نہیں بھولا۔ مجھے ہروقت تیرا دھیان اور تجھ سے ملنے کاآرمان رہتا ہے۔ صرف تو ہی اپنی صورت دکھا کر مجھے اس قیدِ غم سے چھڑا سکتی ہے۔ مجھے موت کاڈر نہیں، لیکن میں چاہتا ہوں کہ میری موت کی تجھے خبر نہ ہو۔ میں اب کوئی دم کامہمان ہوں اور شاید اسی کنویں میں میرا دم نکل جائے گا۔ کاش میں مرنے سے پہلے تجھے ایک بار دیکھ لوں۔ اتنے میں اس کی آنکھ کھل گئی اور وہ بے چین وبے قرار ہوگئی۔ اْس نے خواب کاماجرا تو کسی سے بیان نہ کیا لیکن اْس کا چہرہ سفید پڑ گیا۔ وہ اندر اندر گھٹنے لگی، منھ پر ہوائیاں چھٹنے لگیں، عشق کی آگ چھپائے کہاں چھپتی ہے۔ آخر اس نے کچھ ہم راز خواصوں کو خواب کا حال بتایا۔ نجم النسا کو معلوم ہوا تو وہ بھی بے قرار ہوگئی۔ اْس نے بدر منیر سے کہا کہ تو اس طرح آنسو نہ بہا۔ میں اِسی وقت اْسے ڈھونڈنے کے لیے نکلتی ہوں جب تک زندہوں، اسے ڈھونڈتی رہوں گی اور ڈھونڈ کرہی آپ کے قدموں میں حاضر ہوں گی اور اگر مرگئی تو آپ پر صدقے ہوگئی۔ بدرِ منیر نے کہا کہ اے نجم النسا! میں تو چاہِ غم میں غرق ہوئی ، تو اپنی جان کیوں گنواتی ہے؟ تو انسان ہے اور وہ پری ، وہاں تیری رسائی کیوں کر ہوگی ؟ میں تو اب تیرے سہارے جیتی ہوں ، تجھی سے میراغم غلط ہوتا ہے ورنہ میں تو کبھی کی جی سے گزر گئی ہوتی۔ نجم النسا نے کہا اِس صورت میں اور کیاکیا جاسکتا ہے۔ تجھے غمگین دیکھ کر مجھے ہول آنے لگتا ہے۔ تجھے اس حال میں دیکھنا مجھے گوارا نہیں۔ یہ کہہ کر اْس نے قیمتی لباس اْتارا۔ سیلی پہنی۔ گپرو کھیس اوڑھا ، سروتن پر بھبھوت ملا، قشقہ کھینچا ، لٹوں کو بل دیا۔ کانوں میں مندر ے پہنے، گلے میں مالاڈالا۔ ہاتھوں میں زمرد کی سمرن پکڑی۔ کاندھے پر بین رکھی اور اس طرح جوگن بن کربے نظیر کی تلاش میں نکلی۔ بدر منیر اور نجم النسا گلے مل کر روئیں۔ سب نے خداحافظ کہا اور اْس نے جنگل کی راہ لی۔ جہاں وہ بیٹھ کر بین بجاتی۔ راہوے چین بھی سننے کو جمع ہوجاتے۔ جوگیا بجاتی تو خلق وہاں دھونی رماکر بیٹھ جاتی۔ اسی طرح وہ جنگل جنگل شب وروز بین بجاتی بے نظیر کو تلاش کرتی پھر رہی تھی ، اتفاقاً ایک سہانے سے دشت میں پہنچی، چودھویں کا چاند جگمگارہا تھا ، وہ مرگ چھالا بچھا کر اْس پر دوزانوہوبیٹھی اور کدارابجانے لگی۔ ایسا سماں بندھا کہ صبا بھی رقص کرنے لگی۔ چاندنی غش پڑی تھی اتفاقاً جنوں کے بادشاہ کابیٹا فیروز شاہ، بیس اکیس برس کا، نہایت حسین وجمیل اور طرح دار جوان اپنا تخت ہوا پر اْڑائے اْدھر سے گزرا ، بین کی آواز سن کر اپنا تخت اْتارلایا۔ دیکھا کہ ایک رشک حور جوگن بیٹھی ہے۔ اْس کا حسن دیکھتے ہی وہ غش کرگیا جو اس درست ہوئے تو اْس نے پوچھا کہ تم پرایسا کیا بجوگ پڑا ہے اورتم نے یہ جوگ کس کے واسطے لیا ہے ؟ تم کہاں سے آئی ہو اور کدھر جائوگی؟ جوگن اْس کی کیفیت جان گئی کیوں کہ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے۔ بولی، ہر بول ہر ، اور جہاں سے آیا ہے اْدھر چلاجا۔ فیروز شاہ نے کہاکہ تم اتنا گرم نہ ہو، میں ذرا دیر بین سْن کر چلا جائوں گا۔ وہ سامنے ریت پر بیٹھا کبھی بین کو دیکھتا کبھی اْس کے حسن کو ، اْسے تن بدن کاہوش نہ رہا اور وہ جوگن کے عشق میں فقیر بن کر بیٹھ گیا۔ جوگن صبح تک بین بجاتی رہی اور وہ سامنے بیٹھا بے دھڑک رویا کیا جب اْس نے کاندھے پر بین دھری اور اٹھی تو فیروز شاہ نے اْس کا ہاتھ پکڑ کر اسے تخت پر بٹھالیا، وہ لاکھ نہیں رے !نہیں کہتی رہی مگر وہ اُسے اڑاکر پرستان لے آیا۔ فیروز شاہ نے اپنے باپ کو بتایا کہ جوگن کو بین بجانے میں کمال حاصل ہے ، آپ سُن کر محظوظ ہوں گے جوگن کی بہت تعظیم وتکریم ہوئی۔ سبھی لوگ خوش ہوئے۔ اُس کے والد کو سنگیت سی رغبت تھی۔ اْس نے راگ رنگ کی محفل آراستہ کی۔ سارے پری زاد جوگن کو دیکھنے اور اس کی بین سننے کے لیے جمع وہئے۔ اْ س نے بین بجاکر سماں باندھ دیا۔ فیروز کاحال تباہ تھا۔ کبھی سامنے آکر نظر کرتا ، کبھی چھپ کر دیکھتا۔ اور اس کے کمھڑے کی بلائیں لیتا جوگن بھی منھ سے کچھ نہ کہتی لیکن کنکھیوں سے اسے دیکھتی رہتی۔ فیروز شاہ کے باپ نے جوگن سے کہاکہ آپ نے بڑی دیا کی۔ اسی طرح ہم پر کرم کرتی رہیں۔ یہ گھر بارآپ کا ہے اور ہم سب آپ کے غلام ہیں جوگن نے کہا کہ آپ کا گھر آپ کومبارک رہے۔ یہ آب ودانہ کی بات تھی کہ ہمارا آپ کا ساتھ ہوگیا۔ جوگن اِسی طرح بین بجاکر کئی دنوں تک سب کو رجھاتی رہی۔ فیروز شاہ کا حال خراب سے خراب تر ہوتا گیا۔ اسے دین ودنیا کی خبر نہ تھی۔ وہ دن رات اسی کے تصور میں کھویا رہتا۔ جوگن اسے سَوسَو طرح سے لْبھاتی تھی۔ کبھی غصہ کرتی تو کبھی خوش اْس کے پاس آبیٹھتی۔ کبھی تیکھی نظروں سے گھائل اور کبھی میٹھی نظروںسے مائل کرتی۔ فیروز شاہ تپ عشق میں اندر ہی اندر گھلنے لگا۔ اْس کے صبر کی انتہا ہوگئی تھی۔ آخر اُس نے دل میں ٹھان لی کہ جوگن کے آگے عرضِ مدّعا کرے وہ اس کے قدموں پر گرپڑا جو گن نے کہا کہ آج خلافِ قیاس تْم بے حواس کیوں ہو؟ اگر مہمان داری سے تکلیف ہے تو لو ! ہم ابھی چلے۔ فیروز شاہ بولا کہ اِس طرح کیوں ستائے ہوئے کو ستاتی ہور دِل جلے کو جلاتی ہو۔ افسوس کہ میرے حال سے واقف نہ ہوئیں۔ میں اپنا حال دل کیا بتائوں ؟ رازِ دل کہاں تک چھپائوں؟جُدائی میں کب تک ملول رہوں؟ مجھے اپنی غلامی میں قبول کرلو جوگن نے کہا کہ پہلے میری بات غور سے سنو۔ اگر میرا مطلب برآئے تو تو بھی اپنی مراد پائے۔ اْس نے کہا کہ شہر سراندیپ کا بادشاہ مسعود شاہ ہے۔ اْس کی بیٹی بدر منیر اپنے باغ میں رہتی تھی۔ میں نجم النسا وزیر زادی اْس کی ہمراز ومشیر تھی۔ ایک دن ایک حسین وجمیل شخص اس باغ میں وارِ د ہوا۔ شہزادی کادل اْس پر آگیا۔ لیکن اْس شخص پر ایک پری بھی عاشق تھی۔ پری نے اْس کے وہاں جانے کی خبر سْن کر اْسے کہیں قید کردیا ہے۔ میں اْس کی کھوج میں جوگن اوربروگن ہوئی ہوں۔ تم سبھی پری زاد آپس میں ایک ہو۔ تم اْس کا پتہ آسانی سے لگاسکتے ہو۔ ممکن ہے کہ وہ تمہاری مدد سے مل جائے اور پھر ہماری آرزو بھی پوری ہو۔ یہ سُن کر فیروز شاہ نے اپنی قوم کو بْلاکر کہا کہ ایک آدم زاد یہاں کہیں پرستان میں قید ہے ، جو اسے ڈھونڈ لائے گا میں اسے جواہر کے پرلادوں گا۔ سبھی پری زاددن رات اُس کی تلاش میں پھرنے لگے۔ ایک پری زاد کا اچانک وہاں سے گزر ہوا جہاں بے نظیر قید تھا۔ اسے کنویں سے نالہ وآہ کی آواز سنائی دی۔ اْس نے چوکی کے دیووں سے پوچھا کہ یہ آواز کس کی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ایک آدم زاد ماہ رْخ پری کا قیدی ہے، کنویں میں پڑا تڑپ رہا ہے۔ یہ معلوم کرکے وہ اپنے شہر کی طرف اْرا اور فیروز شاہ کو تمام حالات بیان کیے اور انعام میں حسب وعدہ جواہر کے پرپائے۔ فیروز شاہ نے ماہ رْخ پری کو لکھا کہ بنی آدم کو چوری سے لاکر اْس سے عشق کرتی ہے۔ اگر یہ باتیں تیرے باپ کو لکھوں تو تیرا انجام کیاہوگا؟ اگر تجھے اپنی جان عزیر ہے تو اْس آدمی کو کنویں سے نکال اور قسم کھاکر پھر کبھی اس کانام نہ لے گی۔ ماہ رْخ کو یہ فرمان پہنچا تو وہ بہت پریشان ہوئی۔ اْس نے فیروز شاہ کوخط لکھ کر غلطی کی معافی مانگی۔ اور کہلایا کہ اْس آدم زاد کو لے جائیے۔ یہ آپ کا احسان ہوگا کہ اس بات کی کسی کی خبر نہ ہو۔جواب ملتے ہی فیروز شاہ کنویں پر پہنچا اوربے نظیر کو اپنے ساتھ لے آیا۔ بے نظیر نجم النسا سے ملا۔ دونوں نے اپنی اپنی سرگزشت بیان کی۔ دوسرے دن سبھی تخت پر سوار ہوکر بدرمنیر کے باغ پہنچے۔ نجم النسا بدر منیر کے پاس گئی۔ بتایا کہ بے نظیر کولے آئی ہوں۔ اپنا اور فیروز شاہ کا حال بتایا تو بدرمنیر ہنس پڑی۔ بے نظیر اوربدر منیر کی ملاقات ہوئی۔ دونوں دیر تک روتے رہے۔ آدھی رات کو خاصہ نوش کیا اور دو دو الگ الگ ہو کر اپنی خواب گاہ میں چلے گئے۔ کئی دن تک عیش وعشرت کے دور چلتے رہے۔ آخر کار انھوں نے مشورہ کیا کہ اِس طرح چھپ چھپ کر نہیں ملنا چاہیے بلکہ پیغام بھیج کر شادی کی درخواست کی جائے۔ نجم النسا اوربدرمنیر اپنے اپنے والدین کے یہاں چلی گئیں۔ بے نظیر اور فیروز شاہ ایک دوسرے شہر پہنچے، سلطنت کا اسباب درست کیا۔ بے نظیر نے مسعود شاہ کولکھا کہ میں ملک شاہ کابیٹا شہزادہ بے نظیر ہوں۔ مجھے برائے نوازش اپنی فرزندی میں قبول کیجیے۔ اگر مانیے تو بہتر ورنہ ہمیں آیا جانیے۔ فیروز شاہ نے خط سنا۔ فوج اور مال ودولت کاحال معلوم کیا۔ سوچا کہ اگرجنگ ہوتو خدا معلوم کیا انجام ہو۔ شہزادے کو خط لکھا کہ ہم شریعت کے ہاتھوں مجبور ہیں ، ورنہ اگر اپنی بات پر آجائیں تو تمہارے ملک کو بھی خاطر میں نہ لائیں۔ تم ابھی بچے ہو ، اچھے بْرے کی تمیز نہیں رکھتے۔ دولت ہمیشہ کسی کے پاس نہیں رہتی۔ لیکن کیا کریں؟ یہ رسمِ دنیا اور شرع پیغمبر ہے۔ ہم تمھیں قبول کرتے ہیں۔ ساعت دیکھ کر آئیے۔ شہزادہ خط پڑھ کر بہت خوش ہوا۔ ساعت دیکھ کر دن مقرر کیا۔ شادی کے دن محل سے نکل کر سوار ہوا۔ شادیانے بجے۔ چھوٹابڑا اس کا تجمل دیکھنے کوآیا تھا۔ آراستہ وپیراستہ ہاتھی گھوڑے ، رتھ ، میانے پالکیاں، گاڑیاں، تانگے اور پیادے بارات بناکر چلے ، نوبت کے ٹکوروں، دھونسوں کی گرج ، شہنائیوں کی سہانی دھنوں، تخت رواںپر اہل نشاط کی جلوہ آرائیوں، طبلوں کی گمک ، زمرّد نگار جھاڑفانسوسوں کی روشنی ، چراغوں کے ترپولیوں ، سُرنا بوق اور نفیریوں کی آوازوں ، ابرک کے گنبدوں، مینے کے جھاڑوں، رنگین کنولوں ، اناروں کے دغنے، بھجمپے کازور، ستاروں کا چھٹنا،پٹاخوں کا شور اور زری پوش سرداروں اور پیادوں وغیرہ پر مشتمل بارات دْلہن کے گھر پہنچی تو وہاں کاعالم کچھ اور تھا۔ بادلوں جیسے بلند خیمے میںہرطرف لخلخے دھرے تھے۔ مسند پر تمامی کافرش بچھا ہواتھا۔ بے شمار بلوریں شمع دانوں میں چار چار بتیاں جگمگارہی تھیں۔ بلّور کے جھاڑفانوس جگمگ جگمگ کررہے تھے۔ دولہا اور اْس کا رفیق مسندپربیٹھے۔ طوائفوں کے ناچ گانے کی محفل آراستہ ہوئی۔ نکاح ہوا۔ ہارپان شربت تقسیم ہوا۔ نوشہ اْٹھ کراندرگیا۔ آرسی مصحف کی رسم ہوئی۔ خوب رنگ رلیاںہوئیں۔ رخصتی کاوقت آیا۔ دولہا نے دلہن کواٹھاکر چوڈول میں بٹھایا۔ کہارچوڈول لے کرچلے تو ہرطرف سے زروجواہر نثار کیے گئے۔ بے نظیر گھوڑے پرسوار ہوکر اپنے محل کولوٹا۔ دوسرے دن بے نظیر نجم النسا کے والد کے پاس گیا اور کہا کہ میرا ایک بھائی فیروز شاہ ہے۔ آپ سے میری التجا ہے کہ اُسے اپنی فرزند ی میں قبول کرلیں۔ اْسے رضامند کرلیا تو فیروز شاہ اور نجم النسا کابیاہ بھی اسی دھوم دھام سے کیا۔ اس طرح سبھوں کے دلوں کے مطالب پرآئے۔ دونوں اپنے اپنے وطن کو روانہ ہوئے۔
بے نظیر اپنے وطن پہنچا تواْس کی آمد کی دھوم مچ گئی۔ لوگوں نے اپنے بدرِ کمال کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ ماں باپ کوخبر ہوئی تو پہلے انھیں اعتبار نہ آیا۔ لوگوں کے کہنے سْننے پروہاں گئے۔ بیٹے نے باپ کوآتے دیکھا تو قدموں پرگرا۔ باپ نے اٹھاکرسینے سے لگایا۔ حضرت یوسف اورحضرت یعقوب کی مْلاقات کاسماں تھا۔ سبھی صغیروکیبر بے حد خوش ہوئے۔ امیروں اور وزیروں نے نذریں پیش کیں۔ وہ زنانی سواری اترواکرمحل میں لے گیا۔ آگے دیکھا تو ماں کھڑی تھی۔ وہ ماں کے قدموں پرگرا۔ ماں بیٹا گلے ملے۔ سبھی لوگ مل کر خوش خوش رہنے لگے۔ والدین کوبیٹے کاسہرا دیکھنے کی چاہ تھی۔ انھوںنے دوبارہ دونوں کابیاہ رچایا۔ ہرطرف خوشی کے شادیانے بجے۔

error: Content is protected !!