کئی چاند تھے سر آسمان
ناول
کا خلاصہ
’’کئی چاند تھے سر آسماں‘‘ شمس الرحمن فاروقی کا تخلیق کردہ ایک ایسا کوزہ ہے جس میں ناول نگار نے ہزاروں در یاسمودیے ہیں ۔ اس شاہکار ادب پارے کو پڑھ کر اردو کے مشہور و معروف ادیب انتظار حسین نے فاروقی سے کہا تھا کہ’’ آپ آدمی ہیں کہ جن؟‘‘
یقیناً مؤکل، شمس الرحمن فاروقی کے تابع ہیں جن سے وہ جب چاہیں، جیساچا ہیں کام لے لیتے ہیں۔ ویسے تو اس ناول کی کہانی کو دراز تر کرنے میں درجنوں کردار ، مقامات، واقعات اور حادثات بھی شریک ہیں لیکن سب سے زیادہ نمایاں رول ، جگت استاد ، فصیح الملک نواب میرزا خاں داغ دہلوی کی والدئہ گرامی، وزیر خانم عرف چھوٹی بیگم زہرہ ؔدہلوی کا ہے۔ وزیر خانم کا نام زبان پر آتے ہی اردو کے معروف استادشاعرثمرؔبلّوری کا شعر یادآجاتا ہے:
ازل سے تا ابد ، نا محرم انجام ہے شاید
محبت ، اک مسلسل ابتدا کا نام ہے شاید
ناول کی کہانی مخصوص اللہ نامی ایک شخص سے شروع ہوتی ہے جو ایک ماہر مصور اور شبیہ ساز (1) تھا۔ آگے چل کر وہ نقاش (۲) اور قالین باف (۳) بھی بن گیا۔ اس کا قیام آج سے برسوں پہلےکشن گڑھ( راجپوتانہ موجودہ راجستھان) کے ایک گاؤں ’’ہندل پروا‘‘میں تھا۔ ایک دن بیٹھے بیٹے مخصوص اللہ نے ایک لڑکی کی خیالی تصویر بنائی ۔ اس تصویر میں حسن و جمال کا کوئی پہلوا ن تھا جومخصوس اللہ نے باقی رکھا ہو۔ تصویرتھی گویا ابھی بول پڑے گی۔ گاؤں اور آس پاس کے علاقوں کے لوگ اسے دیکھنے کے لیے آئے ۔ تصویر مخصوص اللہ کے حجرے کے باہری طاق میں رکھی تھی۔ جس نے بھی دیکھا وہ اس کی تعریف کے بغیر نہ رہ سکا۔ کسی نے کہا کہ ارے یہ ’’بنی ٹھنی‘‘ ہے۔ دوسرے نے کہا کہ یہ’’رادھا دیوی“ ہیں۔ تیسرا بولا ارے یہ تو’’ اصلی‘‘ ہے ۔ مگر حد تو تب ہوئی جب ایک شرابی نے کہا کہ یہ والا جاہ کی بیٹی’’من موہنی‘‘ ہے۔ اس زمانے کا معاشرہ ایسا تھا کہ ہر مذہب میں پردے کا اہتمام لازم تھا۔ جیسے ہی گجندرپتی مرزا کو خبرملی کہ اس کی بیٹی من موہنی کی شبیہ بنائی گئی ہے تو وہ آپے سے باہر ہو گیا۔ بیٹی اور کچھ گھوڑ سواروں کے ساتھ مخصوص اللہ کے گھر پہنچا ۔ وہ وہاں موجود نہ تھا۔ سارے گاؤں والوں کے سامنے اپنی بیٹی کوقتل کر ڈالا ، نیزے کی نوک سے طاق پر رکھی شبیہ پھاڑ ڈالی اور چیخ کر کہا کل تک سارا گاؤں خالی کر دیا جائے ورنہ میں کسی کی بھی جان و مال کا ذمہ دارنہیں رہوں گا۔ اس حکم سے گاؤں والے لرزاٹھے اور دوسری صبح جس کے جدھر سینگ سمائے ادھر جان بچا کر بھاگ نکلا ۔ مہاجرین کے قافلے میں مخصوص اللہ بھی شامل ہو گیا ۔ اس نے بارہ مولہ (کشمیر) میں سکونت اختیار کی۔ کچھ دنوں بعد ایک کشمیری لڑکی سے مخصوص اللہ نے شادی کر لی ۔ اس سے ایک سیاہ فام لڑکا پیدا ہوا۔ اپنے بیٹے کو دیکھ کرمخصوص الله بہت خوش ہوا اور اس کا نام محمد یحییٰ رکھا۔ ایک دن پھرا سے جانے کیا سوجھی، اپنے بچے کو اس کے ماموں کے حوالے کیا اور کسی کو بتائے بغیر کہیں چلا گیا۔ کافی تلاش کے بعد جنگل میں برف سے ڈھکی اس کی لاش ملی۔ کشمیر کے سرد موسم میں تیزی سے گرتی ہوئی برف میں مخصوص الله اکڑ کر مر گیا۔ اس کے دائیں ہاتھ میں ہاتھی دانت جیسا ایک پتلامٹراٹراکاغذ تھا جسے بد احتیاط نکالا گیا تو پتہ چلا کہ اس پر ایک بے حد خوبصورت لڑکی کی شبیہ تھی۔ وہ در اصل بنی ٹھنی تھی ۔ کشمیری اس حقیقت کو نہ سمجھ پائے اور انھوں نے تصویر کومصور کی قبر کے پاس ہی برف میں دبا دیا۔ سلیمہ کو یہ غم تھا کہ آخروہ اپنے شوہر کی افتاد طبع کو سمجھ کیوں نہ سکی؟ وہ بارہ مولہ چھوڑ کر اپنے مائکے بڈگام میں جا کر آباد ہوگئی۔ چار برس چار ماہ کی عمر میںمحمد یحیٰ کی رسم بسم اللہ ہوئی ۔ سلیمہ قصہ کہانی کی شکل میں اپنے بیٹے کو اس کے مرحوم باپ کی زندگی کے حالات سناتی رہتی۔ اس نے بیٹے سے کئی بار کہا کہ تیرے باپ تو یہاں کے نہیں تھے۔ کیا تیرا جی نہیں چاہتا کہ اپنے ماں باپ کے اصلی وطن کو دیکھے؟ ۔ بہر حال محمد یحیٰ بڈگام سے کہیں اور جانے پر راضی نہ ہوا۔
محمدیحیٰ جب اٹھارہ برس کا ہوا تو اس کی شادی ایک کشمیری لڑ کی بشیرالنسا سے کر دی گئی جس سے شادی کے دوسرے سال جڑواں لڑکے پیدا ہوئے ، بڑے کا نام محمد دائود اور چھوٹے کا نام محمد یعقوب رکھا گیا۔ دونوں ریشم ، زعفران اور شہد کی تجارت کرنے لگے۔ لوگ انھیں دائود بڈگامی اور یعقوب بڈگامی کہنے لگے۔ ان دونوں بھائیوں نے اپنے باپ کی طرح نہ تو تعلیم نویسی سیکھی، نہ نقاشی ، نہ چوب تراشی (۴) اور نہ قالین بافی۔ البتہ ان کے گلے اچھے تھے ۔ دونوں مل کر طرح طرح کے اردو، فارسی اور کشمیری کلام سناتے ۔ دنیا والوں سے داد بھی پاتے اور انعام واکرام بھی۔
یحییٰ بڈگامی کی موت کے تین مہینے بعد بشیرالنسا بھی اس دنیا سے چل بسی۔ اب دائود اور یعقوب کا جی کشمیر سے اچاٹ ہو گیا ۔ دونوں نے یہ طے کیا کہ اب اپنے ددھیال کشن گڑھ کی طرف چلیں ۔ کافی مسافت طے کر کے دونوں بھائی جے پور پہنچے۔ وہاں سے آگے بڑھے تو دھوپ بہت تیز ہو چکی تھی ان کا اور ان کے گھوڑوں کا بھوک پیاس سے برا حال تھا۔ خدا خدا کر کے شام ہوئی ایک چھوٹے سے گاؤں کے پاس پہنچ گئے ۔دور پر کنواں تھا۔ پانی بھرنے والی زیادہ تر عورتیں تھیں۔ انھیں میںحبیبہ اور جمیلہ نام کی دولڑکیاں تھیں۔ سوتیلے باپ کے ظلم سے یہ دونوں داؤ داور یعقوب کے ساتھ بھاگ کر نکاح کرنے پر راضی ہوگئیں۔ یہاں سے یہ لوگ ’’باند کوئی‘‘نانی علاقے میں پہنچے جہاں داؤد نے حبیبہ سے اور یعقوب نے جمیلہ سے نکاح کر لیا اور دو دن قیام کے بعد فرخ آباد کوچ کر گئے۔ اس واقعے کے گیارہ مہینے بعد یعقوب بڈگامی اور بی بی جمیلہ کے یہاں۱۷۹۳ء میں يوسف بڈگامی کی ولادت ہوئی۔ چھوٹے بھائی دائود بڈگامی لا ولد تھے مگر دونوں بھائی ایک دوسرے پر قربان تھے۔ فرخ آباد کا قیام دونوں بھائیوں کو بہت پسند تھا۔ ان دونوں بھائیوں نے پرانے پیشے کو ترک کر کے نیا پیشہ سادہ کاری (۵) اختیار کر لیا۔ اس فن میں وہ طاق ہو گئے ۔ مقامی خواتین اور فرنگی عورتیں کپڑے پرقلم کاری کروانے کے لیے انھیں پیشگی کلدار اشرفیاں (۶) یا شاہ عالی اشرفیاں (۷) دے دیا کرتی تھیں ۔ لیکن گردش ایام نے پھر اپنا رنگ دکھایا ۔ کمپنی کاعمل دخل کوئی دس سال ہوئے ہر طرف نظر آنے لگا۔
يوسف بڈگامی کا واقعہ بھی اپنی جگہ پر بڑا دلچسپ لیکن لرزہ خیز تھا۔ حقیقت حال یہ تھی کہ ابھی یوسف کی عمرکم ہی تھی جب انگریزوں اور مرہٹوں میں جم کر لڑائی ہوئی ۔ انگریزوں کے عملے میں یوسف اور اس کے خانم دان کے ساتھ فرخ آباد کی مشہور ڈیرے دارنی، اکبری بائی کا ساز و سامان اور عملہ تھا جس سے یوسف اور اس کے اہل خانم دان کی گاڑھی چھننے لگی۔ یہ خانم دان شہری تھا اور اس کا جنگ سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ انگریزوں اور مراٹھوں کی اس رستا خیز میں مراٹھا فوج کی طرف سے پھینکے گئے گولوں کے نتیجے میں یوسف کے والدین، چچا، خالہ، شاگرد پیشہ (۸) سب ہلاک ہو گئے ۔ صرف یوسف بچ گیا۔ اکبری بائی کا اپنا خیمہ بھی محفوظ رہا ۔ اکبری بائی اور ان کی ننھی بیٹی اصغری ایک دو اصیلیں (۹) ماما (۱۰) چھوچھو (1) جوابھی کچھ دور بیل گاڑی میں تھیں۔ اس وقت یوسف کی عمرمشکل سے دس برس کی تھی لیکن وہ کافی عقل مند تھا۔ دشمن کے گولوں سے بچنے کے لیے وہ بے تحاشہ ہنڈن ندی کی طرف دوڑنے لگا تا کہ اس میں کود پڑے لیکن اکبری بائی کی اصیل نے اسے دوڑ کر پکڑ لیا۔ ہزار چیخنے پیٹنے کے باوجود اس وقت تک اپنے سینے سے لپٹائے رہی جب تک وہ نیم بے ہوش ہو کر سو نہ گیا۔ جب اس کی آنکھ کھلی تو شام ہورہی تھی اور وہ اکبری بائی کے ساتھ بیل گاڑی میں تھا۔
خدا خدا کر کے یہ لٹا ہوا قا فلہ دلی پہنچا ۔ اکبری بائی نے چاوڑ ی بازار میں اپنی ایک رشتے کی بہن کے یہاں قیام کیا۔ کچھ دنوں کے بعد ان کی بہن نے کوچہ پنڈت کے نکڑ پر اکبری بائی کو رہنے کے لیے مکان کا بندوبست کر دیا۔
یوسف، زندگی بھر اکبری بائی کا شرمندئہ احسان رہا کیونکہ انھوں نے اسے اپنے سگے بیٹے کی طرح پالا۔ اجمیری دروازے پر مدرسہ غازی الدین خاں میں عربی و فارسی پڑھوانے کے علاوہ انھوں نے اسے ساز وسنگیت کی بھی تعلیم دلوائی۔ وہ بہت جلد میاں نور العین واقفؔ، میاں ناصر علی، رائے آنند را م مخلصؔ اور مرزا عبدالقادر بیدلؔ کے ساتھ ساتھ جگت استاد شاہ حاتمؔ، مرزا محمد رفیع سوداؔ، میرتقی میرؔ، خواجہ میر درد ؔور ان کے بھائی میراثرؔ کے کمال فن سے بڑی حد تک متعارف ہو گیا۔ جب محمد یوسف کی عمر پندرہ برس اور اصغری کی عمر تیرہ برس کی تھی تو اکبری بائی نے دونوں کا نکاح کرادیا اور کوچہ ٔرائے مان میں ایک مکان بھی خرید کر دے دیا۔
شادی کے دو برس بعد یوسف اور اصغری کے پہلی بیٹی پیدا ہوئی اس کا نام انوری خانم م عرف بڑی بیگم رکھا اس کے بعد بہت کم وقفہ میں یکے بعد دیگرے دو بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ ایک کا نام عمدہ خانم م عرف منجھلی بیگم اور دوسری کا وزیر خانم م عرف چھوٹی بیگم۔یہی وزیر خانم م مذکورہ ناول ’’کئی چاند تھے سر آسماں‘‘ کی مرکزی کردار بنی ۔ یوسف سادہ کار کی تین بیٹیاں، تین رنگ کی تھیں۔ پہلی دو بیٹیوں میں سانولا پن اور خوش شکلی کی صفت مشترکہ تھی البتہ وزیر خانم م عرف چھوٹی بیگم رنگ کے سوا ہر بات میں کشمیرن لگتی تھی ۔ بڑی بیگم کو اللہ رسول سے بے حد لگاؤ تھا، یوسف نے بارہ برس کی عمر میں اس کی شادی میاں مولوی شیخ محمد نظیر صاحب سے کردی۔ منجھلی بیگم کو ماں باپ کی رضامندی کے بغیر اکبری بائی نے نواب سید یوسف علی خاں ابن نواب سید سعید خاں والی رام پورکے متوسلین میں شامل کردیا۔
چھوٹی بیگم یعنی وزیر خانم م کے مزاج میں بچپن ہی سے ڈومنی پن (۱۲) نکلتا تھا۔ نانی کے یہاں اس کی اصل تعلیم ان امور میں ہوئی جن کوسیکھ سمجھ کر عورت ذات مردوں پر راج کرتی ہے۔ وہ شعر بھی کہتی تھی اور میاں شاہ نصیر کی شاگردہ تھی ۔ استاد نے اسے زہرہؔ تخلص عطا کیا تھا۔ وزیر خانم م ابھی پندرھویں سال میں تھی کہ یوسف کی بیوی اصغری اچانک بیمار پڑی اور چار دن بیماررہ کر چل بسی۔
ماں کے مرنے کے بعد محمد یوسف اور اس کی بڑی اور منجھلی بیٹی نے اپنے تئیں بھر پور کوشش کی، کہ چھوٹی بیگم (وزیر خانم م ) کو شادی کے لیے راضی کر لیں لیکن وہ اپنی ضد پر اڑی رہی۔ وزیر خانم م کو شادی نہیں کرنی تھی اور نہ کی۔
وزیر خانم م عرف چھوٹی بیگم کا ابتدائی حال ہمیں اس حاضر راوی کے بیان سے معلوم ہوتا ہے جسے ناول میں ڈاکٹرخلیل اصغر فاروقی ، ماہرامراض چشم کے نام سے پیش کیا گیا ہے۔ ناول میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ڈاکٹرخلیل مستقل تاریخی اور تہذیبی یادداشتیں لکھا کرتے تھے۔ ناول میں وہ خود لکھتے ہیں:
’’ گزشتہ سال ایک شادی کے سلسلے میں مجھے لندن جانے کا موقع ملا۔ اپنے بارے میں کچھ زیادہ کہنے میں مجھے تکلف ہے اور جو داستان اگلے صفحات پر مرتسم ہے اس کا مجھ سے کوئی تعلق بھی نہیں ۔ لہذا اتنا کہنا کافی ہوگا کہ میں پیشے کے لحاظ سے ماہر امراض چشم ہوں ۔ شعروشاعری کا شوق بھی رکھتا ہوں لیکن اگر میں زمانہ قدیم میں ہوتا تو مجھے’’نساب‘‘ کیا جاتا۔ اس معنی میں مجھے خانم دانوں کے حالات معلوم کرنے ، ان کے تجرے بنانے اور دور دور کے گھرانوں کی کڑیوں سے کڑیاں ملانے کا بے حد شوق ہے اور اب اگر میری عمر بہت زیادہ نہیں ہے، میں نے طب کا مشغلہ ترک کر دیا ہے۔ میرا زیادہ تر وقت شجرے بنانے اور بنائے ہوئے شجروں کو مزید وسیع اور پے چیدہ بنانے میں گزرتا ہے ‘‘۔
ٍٍ کئی چاند تھے سر آساں ص:۲۳۔۲۲
وزیر خانم م عرف چھوٹی بیگم کی پیدائش غالباً ۱۱ ۸۱ء میں ہو چکی تھی۔ اس کی زندگی میں پہلا مرد ایڈورڈ مارسٹن بلیک (Edward Marston Blake) تھا۔ ان دونوں کی ملاقات بھی بڑے ڈرامائی انداز میں ہوئی تھی۔ اس سلسلہ میں اگر چہ کوئی دستاویزی ثبوت موجود نہیں ،لیکن خانم دانی روایات سے پتہ چلتاہے کہ ایک مرتبہ وزیر خانم اپنے باپ محمد یوسف سادہ کار کے ساتھ مہرولی شریف خواجہ قطب شاہ کی درگاہ سے بذریعہ بہلی (۱۳) واپس آرہی تھی۔ رات کا وقت تھا۔ سب مسافروں کو واپسی کی جلدی تھی کیوں کہ حوض شمسی کے کھنڈر میں ان دنوں بعض پنڈاروں (۱۴) نے چپکے چپکے اپنے اڈے بنا لیے تھے جہاں چھپ کر وہ مسافروں کو لوٹ لیا کرتے تھے۔ وزیر خانم م کی بہلی کا ایک دھرا گھستے گھستے کمزور پڑ گیا تھا ۔ ڈر تھا کہ اگر بیلوں کو ذرا بھی تیز دوڑایا گیا تو دھراٹوٹ سکتا ہے لہٰذا ان کی پہلی چیونٹی کی چال چل کر آہستہ آہستہ رینگ رہی تھی۔ اچانک بہلی اڑتی ہوئی لال مٹی اورریت کے بڑے بڑے ذروں سے بھر گئی ۔ بیلوں کی بڑی بڑی آنکھیں دہشت اور چبھن کے باعث بند ہوگئیں۔ آندھی کے جھکڑ اور تیز ہوا کے جھونکوں سے بہلی کے بھی پردے اڑ گئے اور دھراٹوٹ جانے سے دھماکہ ہوا۔ بہلی پر سوار سبھی لوگ گر پڑے۔ خدا کا کرنا یوں ہوا کہ دہلی کی طرف سے کچھ انگر یز اور دیسی سوارآتے دکھائی دیے جن کا سردار ایک انگریز مارٹن بلیک تھا جو اپنی معشوقہ کے ساتھ رات گزارنے عرب سرائے (۱۵) جار ہا تھا۔ وزیر خانم م کے سر کی چادر ہوا سے اڑگئی ۔ مارسٹن بلیک اور وزیر خانم م کی آنکھیں دفعتاً چار ہوئیں اور کیوپڈ (Cupid) (۱۶) اپنا کام کر گیا۔
وزیر خانم م بخیر یت تمام دہلی پہنچ گئی ۔ مارٹن بلیک کے تحائف لے کے ہر دوسرے تیسرے دن یوسف کے گھر آنے لگا۔ چند مہینوں کے بعد مارسٹن بلیک نے آ کر خبر دی کہ میں اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ کی اسامی پر متعین ہو کر جے پورجا رہا ہوں ۔ تقریباً سوا مہینے کے بعد مارسٹن بلیک جے پور سے دہلی آیا۔ محمد یوسف سے اکیلے میں کچھ سرگوشیاں کیں۔چھوٹی بیگم کومعنی خیز نظروں سے دیکھا۔ اس واقعہ کے کوئی ایک ہفتہ کے بعد مارسٹن بلیک کے قافلہ میں، جو عازم جے پور تھا، پھولوں اور گھروں سے سجایا ہوا ایک رتھ بھی تھا۔ وزیر خانم م عرف چھوٹی بیگم زرق برق پوشاک میں سجی بنی اس میں سوارتھیں۔
جے پورپہنچ کر وزیر خانم کی دنیا ہی بدل گئی ۔ نوکروں کی ریل پیل ہوئی۔ مارسٹن بلیک اس کی شمع زندگی کا پروانہ تھا۔ وہ اس سے کہتا تھاتم وز یر نہیں بلکہ اس گھر کی ملکہ ہو۔ وقت گزرتا رہا۔ وزیر خانم م کے دو اولادیں ہوئیں ۔ لڑکے کا مارٹن بلیک اور لڑکی کا نام سوفیہ رکھا۔ لیکن وزیر خانم م نے الٹا کر دونوں کے ہندوستانی نام امیر میرزا اور بادشاہ بیگم رکھے۔ مارسٹن بلیک کا پھوپھی زاد بھائی ولیم کا ٹرل ٹنڈل( William Cotterill Tyndale) اور اس کی بہن ایبیگیل منڈل (Abigail Tyndale) جو پہلے میسور میں رہتے تھے، جے پور آ گئے۔ دسمبر ۔ جنوری ۱۸۳۰ کرنل ایلویس جو پولیٹیکل ایجنٹ برائے راجپوتانہ تھے چھ ہفتے کی رخصت پرکلکتہ چلے گئے اور مارسٹن بلیک کو جے پور کی ریز یڈنسی کا مختار بنائے گئے ۔ راجپوتانے میں سازشیں بڑھ گئیں ۔ دیسی لوگوں نے مارسٹن بلیک پر حملہ کر کے اسے مندر کے اندر مار ڈالا ۔ مارسٹن بلیک کے پھوپھی زاد بھائی نے مارسٹن بلیک کی جائداد پر غاصبانہ قبضہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے دونوں بچوں کو بھی چھین لیا اور چھوٹی بیگم جے پور سے دہلی واپس لوٹ آئی۔
چھوٹی بیگم چونکہ باپ کو ناراض کر کے مارسٹن بلیک کے ساتھ بغیر نکاح کے چلی گئی تھی اس لیے محمدیوسف نے سرسری سی رسمی تعزیت کی اور بیٹی کو اپنے ساتھ رکھنے پر راضی نہ ہوا۔ منجھلی بیگم سے کہہ کر چھوٹی بیگم نے ایک مکان سِر کی والان میں لے لیا اور اس میں رہنے لگی۔ یہ مارچ ۱۸۳۰ء کی بات ہے۔ وزیر خانم نے اپنی بہن عمدہ خانم م (منجھلی بیگم ) کے توسط سے نواب یوسف علی خاں کے گھر میں رسائی حاصل کی لیکن گھر یلو انداز میں ۔ ایک دن نواب صاحب نے چھوٹی بیگم کے احوال پوچھتے ہوئے اسے اطلاع دی کہ میرے ملا قاتی کچھ عمائد شہر اور شرفا تک تمھاری شہرت پہنچ چکی ہے۔ وہ لوگ تم سے تمنائے ملاقات رکھتے ہیں۔ وزیر خانم م نے نواب کے حکم کی تعمیل کی اور تین سلام کر کے الٹے پاؤں دیوان خانم ے سے حویلی کے اندر داخل ہوگئی۔
نواب یوسف علی خانم سے ملاقات کے آٹھویں یا دسویں دن بعد ایک سونٹابردار نواب یوسف علی خاں کا رقعہ اور روپیوں کے دس توڑے لے کر وزیر خانم م کے دروازے پر حاضر ہو۔ نواب صاحب نے رقعہ فارسی میں تحریر کیا تھا جس کا اردوترجمہ یہ ہے:
’’بعد دعاے افزونی دولتِ حسن و دام اقبال، وزیر خانم م سلمہا ۔ ملاحظہ فرمائیں کہ اگلے پنچشنبہ کی شام کو بعد مغرب، نواب ولیم فریزر صاحب ریزیڈنٹ دولت کمپنی بہادر کی ڈیوڑھی عالیہ واقع پہاڑی ( موجودہ علاقہ RIDGE) شہر دہلی میں ایک محفل شعرسخن قرار دی گئی ہے۔ نواب مرزا اسداللہ خاں صاحب تخلص بہ غالب والملقب بہ میرزانوشہ تازہ کلام سے سرفراز فرمائیں گے ۔ حضرت دہلی کے چنیدہ عمائد و اساطین بھی رونق افروز بزم ہوں گے۔ آں عزیزہ اگر اپنے قدوم میمنت لزوم کو زحمت نہضت عطا کریں توعین باعث لطف ہوگا ‘‘۱؎
(کئی چاند تھے سرِ آسماںص:۲۲۵)
روز موعودہ یعنی پنچشنبہ کو ولیم فریز کے گھر پر وزیر خانم م ، دلاور الملک نواب شمس الدین احمد خاں، مرزا غالبؔ ، فینی پارکس اور دہلی کی کئی مشہور ہستیاںجمع ہوئیں ۔ ولیم فریزر نے سب کا تہہ دل سے خیرمقدم کیا۔ غالبؔ کو دیکھ کر فریزر نے کہا:
’’مرزا نوشہ ہم نے آپ کے لیے فرنچ لیکور( French Liquer)کا انتظام کر رکھا ہےلیکن شرط نئی غزل کی ہے ‘‘۔ ۲؎
(ایضاً،ص:۲۳۷)
رات گئے محفل شعرسخن چلتی رہی۔ محفل کے بعد جب سواریاں ولیم فریزر کی کوٹھی سے نکلیں ۔ نواب شمس الدین احمد خاں اپنی رہائش گاہ کی طرف چلے گئے اور وزیر خانم رتھ میں بیٹھ کر سر کی والان کی طرف مڑگئی۔ نواب شمس الدین احمد خاں کا ایک سوا رگھوڑے سے اتر کر وزیر کے پیچھے پیچھے آیا اور دروازے پر دستک دی ۔ وزیر خانم سے دروازے پر کھڑے کھڑے سلام کیا اور کہا کہ سرکارنواب دلا ور الملک کی مناسب وقت پر ملاقات کے خواہاں ہیں۔ وزیر خانم م نے جواب دیا کہ کل شام کوتشریف لا سکتے ہیں ۔ میں منتظرر ہوں گی۔
دوسرے دن وزیر خانم اور اس کے ملازمین گھر کی صفائی اور سجاوٹ میں مشغول ہو گئے ۔ بعد نماز عصر نواب شمس الدین احمد خاں بڑے تزک و احتشام سے وزیر خانم کے گھر پہنچے۔ وزیر خانم نے بڑے پرجوش انداز میں ان کا استقبال کیا۔ رات گئے تک وزیر خانم اور نواب شمس الدین احمد خاں کے درمیان راز و نیاز کی باتیں ہوتی رہیں۔ اشعار اور گیت بھی سنائے گئے۔ کھا نا کھا کر نواب صاحب اپنے گھر کی طرف مراجعت کر گئے۔
نواب شمس الدین احمد خاں کی تفصیلی بے تکلف گفتگو اور ان کے جھکا ئو کو دیکھ کر وزیر خانم بہت متاثر ہوئی اور یہ خواب دیکھنے لگی کہ اگر نواب صاحب اس سے نکاح کر لیں توکتنا اچھا ہے۔ دوسرے دن نواب صاحب کے یہاں سے نہایت عمدہ اور قیمتی تحفہ آیا تو
وزیر خانم فرط جذبات سے تڑپ گئی۔
رات بھر سوچنے کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچی کہ پہلے بھی بیگم اور ان کے شوہر نواب یوسف علی خاں سے اس ضمن میں مشورہ کر لینا بہتر ہے۔ چنانچہ اسی شام ماما کو اپنی منجھلی بیگم کے یہاں بھیج کر نواب یوسف علی خانم سے ملاقات کی اجازت مانگی۔ اجازت ملتے ہی دوسرے دن تراہابیرم خاں پرواقع نواب یوسف علی خاں کے یہاں پہنچ گئی ۔ اپنی بہن عمدہ خانم کو تمام باتوں سے باخبر کر کے وزیر خانم نواب صاحب کی خدمت میں باریاب ہوئی، انھیں اپنا پورا ماجرا سنا کر مشورے کی طالب ہوئی۔ نواب صاحب نے فرمایا ۔ اچھا برا سوچ سمجھ لو اور پھرنواب شمس الدین صاحب کواپنی شرائط سے آگاہ کر دواسی وقت تمھارا اقدام مناسب ہو گا۔ وزیر خانم اپنے بہنوئی کا شکر ادا کر کے اپنے گھر واپس آگئی۔ گھر پہنچنے کے بعد وزیر خانم ایک بار پھرشش وپنچ میں پڑ گئی۔ وہ کبھی سوچتی کہ نواب شمس الدین صاحب مجھ سے نکاح کریں گے بھی یا نہیں؟ ہوسکتا ہے نکاح نہ کریں صرف پابند بنا کر رکھیں۔ پھر میرے دونوں بچوں امیر میرزا اور سو فیہ کا کیا ہوگا ۔ کیا میں انھیں اپنے ساتھ رکھ سکوں گی۔ بہر حال یہی سب خیالات وزیر خانم کورہ رہ کر پریشان کر رہے تھے کہ استخارہ دکھلائے یا کسی رمّال سے فال کھلوائے ۔ تب اسے پنڈت نند کشور کا خیال آیا جو اس کی نانی اکبری بائی کے گھر کبھی کبھار آیا جایا کرتے تھے۔
اگلے دن صبح صبح چھوٹی بیگم اپنی نانی کے یہاں جا پہنچی۔ نانی نے نوکر کو بھیج کر پنڈت نند کشور کو یہ سندیسہ بھیجا کہ وہ کسی طرح وقت نکال کر چھوٹی بیگم کے مکان پر تشریف لے آئیں۔ بڑا کرم ہوگا ۔ لہذا دوسرے دن فجر کی نماز کے فورا بعد پنڈت نندکشور چھوٹی بیگم کے گھر آ گئے۔ چھوٹی بیگم نے انتہائی محبت و عقیدت سے ان کا خیر مقدم کیا۔ پنڈت نندکشور ایک سچے اور دھارمک ہندو ہونے کے باوجود وہ ایک وسیع النظر، آزاد خیال اور سیکولر مزاج و ضع دار بزرگ تھے۔ سنسکرت اور ہندی کے علاوہ وہ اردو ، فارسی اور علم نجوم ورمل کے زبردست عالم بھی تھے۔ انھوں نے نہایت ہم دردی اور سنجیدگی کے ساتھ چھوٹی بیگم کے مسائل کوس نا اور لسان الغیب خواجہ حافظ شیرازی کے دیوان سے فال کھول کر چھوٹی بیگم کے دل کو گویا ہرا کر دیا۔ نذرانے کے طور پر کچھ بھی قبول نہ کیا۔ چھوٹی بیگم کے اصرار پر صرف عطر کی ایک چھوٹی شیشی قبول کی اور ہزاروں دعائیں دیتے ہوئے چلے گئے۔
فال میں اشارہ یہ تھا کہ وزیر خانم نواب شمس الدین احمد خاں سے رشتۂ انسلاک استوار کرے ۔ یہ اس کے حق میں مناسب و مفید ہے۔ حافظ شیرازی کا شعر یوں تھا:
اے پیک راستاں ، خبرِ سرو ما بگو
احوال گل ، بہ بلبل دستاں سراینگو
پنڈت نند کشور کے جانے کے بعد ، چھوٹی بیگم پر عجب کیفیت طاری تھی۔ وہ نواب شمس الدین احمد خاں کو خط لکھنا چاہتی تھی مگر رہ رہ کر سوچتی تھی کیا لکھے اور کیسے لکھے۔ اتفاق سے میر حسن کے ایک شعر نے اس کی ہمت افزائی کی۔ وہ شعر اس طرح تھا:
ذوق تنہائی میں خلل ڈالا
آ کے مجھے پاس دو گھڑی تو نیں
درج بالا شعر پر وزیر خانم نے تین مصرعے بطور تضمین لگا کر ایک بامعنی مخمس کی شکل دی۔ اس کے بعد مینا بازار سے نے نیزے منگا کر اسے تراشا۔ محلے کے مولوی صاحب کے پاس دو روپے نذرانے کے ساتھ بھیج کر ان قلموں پر شگاف اور قط لگوائے، پھر اس مخمس کو افشانی کاغذ پر خوش خط لکھ کر خريطہ میں بند کیا اور لیچی کے نایاب شہد کے ساتھ نواب شمس الدین خاں کی خدمت میں بھیجا۔ نواب شمس الدین احمد خاں نے خط پڑھا اور بہت سے تحائف کے ساتھ خط کا جواب بھی دیا جس میں میراثرؔ کی غزل بھی نقل کی تھی ۔ جس کامطلع اس طرح تھا:
تجھ سوا کوئی جلوہ گر ہی نہیں
پر ہمیںآہ کچھ خبر ہی نہیں
نواب صاحب نے خط کے آخر میں یہ بھی لکھا تھا کہ’’ کل شام کفش خانے پر ماحضرتناول فرمائیں‘‘۔
دوسرے دن نواب یوسف علی خاں کی بگھی میں بیٹھ کر وزیر خانم نواب شمس الدین احمد خاں کے مکان واقع در یاگنج جاپہنچی ۔ نواب صاحب کی کوٹھی انگریزی وضع کی تھی۔ برآمدے میں نواب صاحب استقبال کے لیے موجود تھے۔ کوٹھی پر ایک طرح کا سناٹا چھایا ہوا تھا کہ اب کیا ظہور میں آتا ہے۔
استقبال کے بعد بہت دیر تک وزیر خانم اور نواب شمس الدین خاں آپس میں التیام ہوتے رہے ۔ وزیر کا اشارہ یہ تھا کہ نکاح ہوجائے لیکن نواب صاحب بات کو ٹال رہےتھے۔ آخر کار بات کا رخ بدلنے کے لیے انھوں نے کہا’’ آئیے کھانا کھائیں‘‘ کھانے کے دوران ہی وزیر خانم نے نواب شمس الدین احمد خاں کا عندیہ سمجھ لیاتھا اس لیے اس نے اس تصور سے اپنے دل کو ڈھارس دی کہ نواب کے لگاؤ کی سنہری لیکن عارضی چھاؤں بہرحال تنہا عمر رسیدگی اور بے یارگی کی لمبی پر چھائیوں سے بہتر ہے۔ نواب صاحب سے رخصت ہو کر وزیران کی کوٹھی سےملحق مہمان خانے میں جا پہنچی۔ وہاں کی خادمہ حبیب النسا عرف حبیبہ اور ان کی بیٹی راحت افزاوزیر کے لیے پیش پیش تھیں ۔ نواب صاحب ، بغیر وز یر سے ملے اندھیرے منھ اپنے علاقہ پہاسو چلے گئے چونکہ وہاں ڈاکوؤں نے مال و اسباب کے ساتھ ساتھ ایک لڑکی کا بھی اغوا کر لیا تھا۔ راحت افزا نے اخروٹ کا بنا ہوا ایک خوبصورت سا صندوقہ وزیر خانم کو دیا اور کہا کہ نواب صاحب نے آپ کو یہ تحفہ دیا ہے۔ وزیر خانم نے صندوقچہ کو کھولا تو اس میں ایک نہایت قیمتی انگوٹی تھی اور آبی رنگ کے کاغذ پر سنہری زعفرانی روشنائی میں صرف ایک شعر لکھا تھا: |
شب کہ عریاں بہ برآں شوخ قدح نوشم بود
یک بغل نور چو فانوس در آغوشم بود
نواب یوسف علی خاں آف رام پور اس بات پر خوش تھے کہ چھوٹی بیگم نواب شمس الدین احمد خاں کے متوسلین میں شامل ہورہی ہے اب اس کی زندگی قدرے محفوظ اور پرسکون ہوگی لیکن ولیم فریزر کی چھاتی پر سانپ لوٹ رہا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اور بہت سی دیسی عورتوں کی طرح وزیر خانم بھی اس کی رکھیل بن جائے لہٰذا ولیم فریزر نے ایک نہایت گندی اور خطرناک چال چلی۔
وزیر خانم اور نواب شمس الدین احمد کی ملاقات کے تیسرے دن ولیم فریزر کو پتہ چلا کہ پرگنہ پہاسو کے ڈاکو پکڑے گئے لوٹ کی رقم اور قاضی کی دختر برآمد ہوئی نیز دو ڈاکو سرداروں کو سر عام پھانسی دے کر نواب شمس الدین نے اپنی مستعدی اور با تدبیری کا ثبوت دیا۔ اس کے باوجود بھی ولیم فریز رنواب شمس الدین سے کینہ رکھتا تھا۔ اس نے سب سے پہلے نواب گورنر جنرل بہادر کلکتہ کو لکھا کہ شمس الدین خاں ایک کمزور اور نکمے والیٔ سلطنت ہیں لہٰذا لوہارو کاعلاقہ ان سے چھین کر ان کے سوتیلے بھائیوں امین الدین احمد اور ضیاء الدین احمد کو دے دیا جائے تا کہ وہ اپنی والدہ اور بہنوں کی پرورش کر سکیں۔ اس کے بعد فریزرنے ایک ترکیب اور سوچی ۔ اس نے حکم دیا کہ حکیم احسان اللہ خاں کو ریزیڈنسی میں طلب کیا جائے ۔ حکیم احسن اللہ خاں ایک خاندانی حکیم تھے ان کا شمار دہلی کے شرفا وعمائدین میں ہوتا تھا۔ انھیں اکبر شاہ ثانی کے دربار سے عمدۃ الملک، حاذق الزماں کے خطابات ملے تھے۔ وہ بہادر شاہ ثانی کے معالجِ خاص تھے اور بادشاہ نے احترام الدولہ ،عمدۃ الحکما،معتمدالملک ثابت جنگ کے خطابات سے نوازا تھا۔ وہ حکیم مومن خان مومنؔ کے ماموں زاد بھائی تھے۔
حکیم احسان الله خاں بعد نماز ظہر ریزیڈنسی میں حاضر ہوئے ۔ فریزر نے حکیم صاحب سے کہا کہ آپ شمس الدین احمد کو یہ خبر کر دیں کہ وزیر خان کسی اور کی نظر چڑھ چکی ہے اور اپنے دل سے اس کا خیال نکال دیں۔ فریزر کی بات سنتے ہی حکیم صاحب نے دوٹوک جواب دیا کہ شمس الدین پر کوئی میرارعب ودبدبہ ہے اور نہ میرا فرض ہے کہ میں آپ کا پیغام نواب تک پہنچاؤں؟ بغیر اجازت حکیم صاحب نے فریزر سے آداب کیا اور رخصت ہو گئے ۔ فریزر کی اس ذلیل حرکت سے بہادر شاہ ظفر اور نواب شمس الدین کو آگاہ بھی کر دیا۔
علیم احسان اللہ خاں کے اس رویے پرفریزرآپے سے باہر ہو گیا اور اس نے یہ طے کیا وہ بذات خود وزیر خانم سے مل کر سارے معاملات طے کرے گا۔ دماغ میں خناس لیے حسب معمول وہ ہاتھی پر سوار ہو کر سیر کے لیے نکلا اور جان بوجھ کر اپنی سواری سرکی والان کے پھاٹک پر لے گیا۔ وزیر کے گھر پر اطلاع دی کہ ر یزیڈنٹ بہادروز یر سے شرف ملاقات حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔فریزر کا اچانک اس طرح آنا وزیر کو برا تو ضرور لگا لیکن وقت کا تقاضہ تھا کہ فریزر کے خلاف کوئی بات نہ کی جائے ۔ لہذا وزیر نے فریزر کو نہایت عزت واحترام کے ساتھ بٹھایا اور چائے پیش کی ۔ اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد فریزر نے کہا ’’میں ارادے اور نتیجہ کی وحدت کا قائل ہوں“ یہ سنتے ہی وزیر نے تھوڑا پیچھے ہٹ کر کہا کہ ”آپ وحدت کے اس قدر قائل ہیں تو آئینہ میں منہ نہ دیکھتے ہوں گے۔ دیکھ لیتے تو بہتر تھا‘‘وز یر کی اس بات فریز را کڑ کر کھڑا ہو گیا اور بولا چھوٹی بیگم! یہ سودا تھیں مہنگاپڑےگا۔
ولیم فریز راب نواب شمس الدین کو ذلیل و خوار کر نے کے لیے نت نئی سازشیں کرنے لگا۔ وہ بار بار کلکتہ میں بیٹھے ہوئے گورنر جنرل کو اکساتا کہ وہ شمس الدین کو ان کی موروثی جائداد سے بے دخل کر دے۔ دوسری طرف فریزر نے شہر میں یہ افواہ پھیلا دی کہ اگر نواب شمس الدین کی بہن جہانگیرہ بیگم سے ہمارا نکاح ہوجائے تو اپنی بہادر مقدمۂ وراثت میں نواب شمس الدین احمد کے دعوے پر ہمدردی کر سکتی ہے۔
کچھ دنوں بعد نواب شمس الدین اپنے علاقہ فیروز پور جھر کہ لوٹ جاتے ہیں ۔۲۵؍مئی ۱۸۳۱ءکوبروز چہار شنبہ بوقت دو بجے دن وزیر خانم کے یہاں بیٹا پیدا ہوا۔ جس کانام نواب مرزا رکھا گیا۔ یہی بچہ آگے چل کر فصیح الملک نواب مرزا خاں داغ ؔ دہلوی کے نام سے جگت استاد بنا۔
نواب شمس الدین خاں اور وزیر بیگم کی قسمت میں ابھی بہت سے اتار چڑھاؤ لکھے تھے۔ خوشیاں تیزی سے غموں میں بڑھتی جارہی تھیں ۔ حوادث کے سیاہ بادل بڑھے چلے آرہے تھے۔
یہ جولائی ۱۸۳۴ء کی بات ہے۔ بارش خوب ہوئی تھی موسم بڑا سہانا تھا۔ ولیم فریزر ہوا خوری کے لیے جان بوجھ کر حویلی حسام الدین حیدر کے پھاٹک تک پہنچا۔ اس وقت نواب شمس الدین اپنے دوست مظفرالدولہ ناصر الملک میرزا سیف الدین حیدر خاں سیف جنگ کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے حویلی کے پھاٹک سے نکل رہے تھے۔ فریزر نے ہاتھی رکوایا اور مصنوعی شگفتگی سے بولا۔ مظفرالدولہ۔ دلاورلملک ۔تسلیمات عرض کرتا ہوں ۔ اس کےبعد فریزر نے کہا۔ دلاور الملک! جہانگیرہ بیگم کیسی ہیں؟ سنا ہے نصیب دشمناں ان کا مزاج ناساز ہے۔ جی چاہے تو نور باغ میں جھولے ڈلوادیے جائیں وہاں تشریف لے آئیں۔ دل بہل جائے گا۔ یہ سنتے ہی شمس الدین کی آنکھوں سے شعلے برسنے لگے۔ دراصل ان کی سوتیلی ماں مبارک النسانے یہ باغ اختر لونی (انگریز) کے ہاتھ بیچ ڈالا تھا اور اب وہ باغ فریزر کے رشتے کے بھائی سائمن فریزر کی ملکیت تھی۔ سائمن فریزر ، ولیم فریزر کی کوششوں سے دلی کاسٹی مجسٹریٹ اور فریزر کا خاص آدمی تھا۔ ان حقائق کی روشنی میں نواب کا غصہ بجاتھا۔
اس کے بعد نواب شمس الدین بلی ماراں سے چاندنی چوک چلے گئے ۔ وزیر خان نے سب باتیں سنیں۔ انھیں سمجھایا بجھایا شربت وغیرہ پلایا لیکن تھوڑی دیر بعد وہ اٹھ کر تیزی سے باہر چلے گئے ۔ وزیر خانم پکارتی اور قسمیں دیتی ہی رہ گئی ۔ نواب صاحب اپنے پیچھے آدمیوں کو لے کر ریزیڈنسی پہنچے۔ وہاں فریزر کے سپاہیوں اور نواب میں خوب ہاتھا پائی ہوئی ۔ فریزر کے آدمیوں نے نواب صاحب کو نہتا کر کے کوٹھی کے باہر پھینک دیا۔ ان کے کپڑے پھٹ گئے اور جوتیاں غائب ہو گئیں ۔ نواب کے ملازموں نے انھیں بہ ہزارخرابی چاندنی چوک تک پہنچایا۔ وہاں ایک کہرام مچ گیا۔ وزیر خانم اورسبھی ماما اصیلوں نے تیمارداری شروع کر دی۔ دوسری طرف وزیر کے دل میں طرح طرح کے اندیشے پیدا ہورہے تھے کہ سوتیلی ماں نے جادو نہ کیا ہو، کہیں انگریز ان کی جان کے دشمن نہ بن جائیں۔
دوسرے دن نواب شمس الدین احمد خاں بے دار ہوئے تو کافی تازہ دم تھے۔ وزیر سے باتیں کیں ۔ نواب مرزا کو بلا کر خوب پیار کیا ۔نہائے دھوئے اور ناشتہ کیا۔ اپنی بہن جہانگیرہ کی شادی کی غرض سے فیروز پور جھر کہ روانہ ہو گئے ۔ تین دن کا سفر طے کرنے کے بعد نواب صاحب فیروز پور جھر کہ پہنچے۔۱۲؍ستمبر ۱۸۳۴ء کو اپنی بہن جہانگیرہ بیگم کا نکاح میرزاا عظم علی اکبرآبادی سے کر دیا۔
حسب معمول نواب شمس الدین دوپہر کا کھانا کھانے کے لیے زنانہ حویلی کی طرف جارہے تھے کہ دلی کا ایک سانڈنی سوار (۱۷) عالی جاہ کےمختارکار بہادر کا عریضہ لے کر نواب کی خدمت میں حاضر ہوا جس کا نام انیا میواتی تھا جو نواب شمس الدین کا نوکر تھا۔ تیز رفتاری، جفاکشی اور سفر کی صعوبات برداشت کرنے کے لیے اس کے شہر سے دور دور تک تھے۔ سات تسلیمیں کرنے کے بعد انیا میواتی نے اپنی پگڑی سے ایک ریشمی تھیلی نکال کر دونوں ہاتھوں پر رکھی اور ایک قدم آگے بڑھ کر سر جھکائے ہوئے اپنے ہاتھ نواب شمس الدین احمد خاں کی طرف بڑھادیے۔
نواب شمس الدین نے خود کو بغور پڑھا انا لله وانا اليہ راجعون نواب کے منہ سے نکلا ۔ خط کا اصل مضمون فارسی میں تھا جس کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے:
اعلی حضرت ولیِ نعمت سلامت
’’بعدتسلیمات کے معروض ہے ۔ خبرملی ہے کہ نواب گورنر جزل بہادر کے آستانہ عالیہ سے در باب مقدمۂ حضور فیصلہ صادر ہو چکا ہے اورنقل اس فیصلے کی آج صبح ریزیڈنسی پہنچ گئی ہے۔ توقع اور اندیشہ ہے کہ اندر دو تین روزوں کے ریزیڈنٹ بہادر برائے عمل در آمد فیصلہ مزید احکامات جاری فرما دیں گے ۔یہ تحریر کرتے ہوئے بندے کو نہایت قلق ہے کہ فیصلہ بندہ پرور سلامت کے حسب منشا نہیں ہے۔ حکم نواب گورنر جزل بہادر ہے کہ علاقہ لوہارو کا اور اس کے ماتحت پرگنہ جات تحویل سے اعلی حضرت کے کے لیے جائیں اور ولایت اس خطۂ ملک کی امین الدین احمد بہادر کےسپرد کی جاوے‘‘
خط کوکئی بار پڑھنے کے بعد نواب شمس الدین کے دل میں بیک وقت غصہ،فکر، مایوسی اورغم کے بادل چھا گئے ۔ وہ بالکل سکتے کے عالم میں تھے اور کوئی فیصلہ نہیں کر پارہے تھےانھیں اب کیا کرنا چاہے۔ ہاں اس تصور کے نتیجہ میں ان کی مٹھیاں ضروربھنچ گئی تھیں کہ یہ سب کچھ فریزر کا کیا دھرا ہے۔ اسی لمحے ان کا جان نثار اوربچپن کا ساتھی کر یم خاں آگیا۔ کریم خاں ایک ماہر نشانہ باز تھا اس لیے لوگ اسے ’’بھر مار و‘‘کہتے تھے۔ کریم خاں نے نواب کو حوصلہ دلایا اور وہاں سے غائب ہوگیا۔۷؍ اکتوبر ۱۸۳۴ء بروز شنبہ کریم خاں اور انیا میواتی گڑگائوں ہوتے ہوئے دوسرے دن دہلی پہنچے ۔ کریم خاں کے جاسوس فریزر کے نقل و حرکت کی خبر میں کریم خاں تک پہنچانا شروع کرنے لگے۔ اسی طرح تین مہینے گزر گئے ۔ ایک دن خبرملی کہ فریزر کرسمس منانے دہلی آرہا ہے۔ ابھی وہ دہلی تک نہیں پہنچا تھا کہ نواب شمس الدین کا ایک رقعہ کریم خاں کو ملا جس میں اسے فوری طور پر قلعہ فیروز طلب کیا گیا لیکن اس ر قعے پرنہ تو نواب کے دستخط تھے اور نہ مہرتھی ۔ کاغذ بھی وہ نہ تھا جو دیوان ریاست میں استعمال کیا جاتا تھا لیکن کریم خاں کو اس میں کوئی شک نہ تھا کہ وہ رو بکارو( ۱۸) خود نواب کی تحریر کردہ نہیں تھی۔ اگلے دن صبح کریم خاں نے فیروز پور کے لیے رخت سفر باندھا۔ روانہ ہونے سے قبل اسے یہ خیال آیا کہ رقعے کو حویلی میں چھوڑنا ٹھیک نہیں ہے اور اپنے پاس بھی رکھنا اسے خلاف مصلحت سمجھا۔ نواب کی تحریر کو پرزے کرنایا نذرآتش کر نا کریم خاں کو گوارا نہ ہوا لہٰذا بہت سوچ سمجھ کر وہ رقعہ دریا گنج کی حویلی کے سامنے والے کنویں میں ڈال دیا۔ دوسرے دن عصر کے وقت کریم خاں قلعۂ فیروز پور جھر کہ پر حاضر ہو گیا۔
دوشنبہ کا دن تھا اور تین مارچ کی تاریخ، جب کریم خاں اور انیا میواتی دوبارہ دہلی پہنچے۔ ان دونوں نے فریزر کے روزانہ پروگراموں پر نظر رکھی ۔ اپنے جاسوس بھی اس کام پر لگادیے۔ ۲۲؍مارچ ۱۸۳۵ ء کو رات کا وقت تھا۔ فریزر کی بند بگھی جب کشن گنج سے چلی تو تقریباً گیارہ بجے کا عمل تھا۔ ایک مدت کے بعد ایسا اتفاق ہوا تھا کہ فریز راتنی رات کو گھر سے باہر وہ بھی نسبتاً کھلی جگہ پر تھا۔ اسی شام وہ کشن گڑھ (ہریانہ ) کے راجا کلیان سنگھ کے یہاں کھانے پر مدعو تھا۔ کھانے کے بعد رقص وشراب کی محفل دیر تک چلی اور فریزرنےمعمول سے بہت زیادہ پی لی تھی۔ کلیان سنگھ کے ملازموں اور فریزر کے محافظوں نے اسے کسی طرح اٹھا کربگھی میں ڈال دیا تھا۔ بگھی کے ساتھ ایک مشکی سوار (۱۹) بھی تھا جسے لوگوں نے اندھیرے میں محافظ سمجھا۔ مشکی سوار نے بندوق سے فریزر کے جسم کو چھلنی کردیا اور بھاگ نکلا۔ سارے شہر میں فریزر کی موت سے کہرام مچ گیا۔
دوسرے دن فریزر کی تعزیت کو آنے والوں میں مرزا غالبؔ اور فتح اللہ بیگ خاں بھی تھے۔ کسی زمانے میں فتح اللہ بیگ خاں اور نواب شمس الدین خاں آپس میں رشتے دار اور دوست تھے لیکن آگے چل کر کٹر دشمن بن گئے ۔ فتح اللہ بیگ فریزر کی لاش کو دیکھ کر اس پر گر پڑے اور کہا کہ’’ ہائے شمس الدین نے تجھے نہ چھوڑا‘‘یہ جملہ سنتے ہی انگریزوں کے کان کھڑے ہو گئے اور وہ شمس الدین اور ان کے ملازموں کے پیچھے لگ گئے۔
سائمن فریزر نے دہلی کے تمام دروازے بند کرادیے اور ہر طرف جاسوسوں کا جال بچھا دیا لیکن انیا میواتی اتنا شاطر تھا کہ انگریزوں کو چکما دے کر ۲۴ ؍مارچ ۱۸۳۵ء کو وہ فیروز پور قلعہ کے صدر دروازے پر تھا۔ نواب شمس الدین کا سامنا ہوتے ہی سلام کیا اور کہا کہ’’ سرکار کے اقبال سے کام ہوگیا ۔ دشمن راستے سے ہٹادیا گیا‘‘۔ نواب صاحب انیا میواتی سے خوش ہو کر دس اشرفیاں دلوائیں اور کہا کہ تم فیروز پور میں ہی ٹھہرو – انیا میواتی کی چھٹی حس نے اسے ہوشیار کر دیا کہ نواب صاحب کا اتنا گہرا را زتمھارے دل میںد فن ہے وہ یقینا تمھیں مروا ڈالیں گے۔ یہی سوچ کرانیا اپنے بھائی سے ملا اور اسے اپنا راز دار بنا کر فیروز پور سے رفو چکر ہو گیا ۔ دوسری طرف کریم خاں گرفتار ہو کر انگریزوں سے پٹنے لگا۔ بہر حال نواب شمس الدین احمد خاں کو فیروز پور جھرکہ سے دہلی آنے کا حکم دیا گیا۔ یہ خبر سنتے ہی پنجاب کے راجا مہاراج دھیراج کے سفیر جا گرسنگھ نے نواب کی خدمت میں حاضر ہوکر پر زور درخواست کی کہ آپ بھیس بدل کر پنجاب بھاگ چلیں لیکن نواب صاحب نے اسے بزدلی سے تعبیر کیا۔ دوپہر کے کھانے کے بعد نواب شمس الدین نے فرداً فرداً سب سے ملاقات کی۔ بیویوں کو ان مہر کی رقم دی اور دہلی کے لیے رخصت ہو گئے ۔ شام تک فیروز پور جھرکہ کے بازار بند ہو گئے ایسا لگتا تھا کہ ساری آبادی نے بن باس لے لیا ہے۔
جیسے ہی خبرملی نواب شمس الدین قلعۂ پالم تک پہنچ چکے ہیں سائمن فریزر اپنے پاس مسلح سپاہیوں کے ساتھ قلعۂ پالم پہنچ کر انھیں گرفتار کرلیا ۔کانی قانونی کاروائیوں کے بعد (جوسب کی سب یکطرفہ تھیں) ۸؍اگست ۱۸۳۵ء بروز شنبہ Alexander John نے یہ فیصلہ کیا کہ نواب شمس الدین اور کریم خاں کو مجمع عام میں پھانسی دے دی جائے۔
۲۶/اگست ۱۸۳۵ء کی دوپہر کو جامع مسجد فتح پوری چاندنی چوک میں کریم خاں کو پھانسی پرلٹکا دیا گیا اور ۸؍اکتوبر ۱۸۳۵ء بروز پنج شنبہ ۸ بجے دن نواب شمس الدین خاں کو کشمیری دروازے کے باہرکھلی ہوا میں پھانسی دے دی گئی ۔ آٹھ ہزار کے مجمع نے نواب شمس الدین کو قدم شریف میں دفن کر دیا۔
وقت گزرتا رہا۔ مرزا داغؔ اپنی خالہ کے ساتھ رام پور چلے گئے اور وزیر خانم کاغم بھی آہستہ آہستہ کم ہوا۔ تقریبا سات سال بعد۱۱؍ اگست ۱۸۴۲ء بروز جمعرات، وزیر خانم کا نکاح نواب شمس الدین کی بہن جہانگیرہ بیگم کے جیٹھ آغا مرزا تراب علی سے دو طریقوں سے، پہلے بطریق اہل سنت اور پھر بطریق اثناعشریہ ہوا۔ وزیر خانم کو مدتوں بعد محسوس ہوا کہ امن و امان اور سلامتی کے چاند اس کے گرد ہالہ کیے ہوئے ہیں اور خارجی دنیا کی کر یہہ ظلمت اب اسے اور اس کے بیٹے نواب مرزا کو بھی نہ چھو سکے گی۔ جون ۱۸۴۳ء کو وزیر خانم کو ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام شاہ محمد آغا مرز ارکھا گیا۔ آگے چل کر وہ شائق اور شاعل کے نام سے مشہور ہوا۔
نومبر ۱۸۴۳ء کا آغاز تھاجب آغامرز اتراب علی نے ہاتھیوں اور گھوڑوں کی خریداری کے لیے سون پور (بہار) جانے کا قصد کیا۔ ہندوستان میں جانوروں کا سب سے بڑا میلہ وہاں ہر سال پوس کی تیسری تاریخ سے لے کر وسط ماگھ یعنی مکر شنکرانتی کے دن ( ۱۴جنوری تک دریائے گنڈک کے کنارے ایک وسیع میدان میںلگتا تھا۔ ۵ ا؍ا گہن مطابق ۹؍دسمبر ۱۸۴۳ء کو مرزا آغا نے اپنے قافلے کے ساتھ سون پور کے لیے کوچ کیا ۔خشکی اور پانی کا سفر کرتے ہوئے بیس دن کے بعد ۲۹ ؍دسمبر کو دن چڑھے ان کا قافلہ خیر و عافیت سون پور پہنچ گیا۔ وہاں مرزاتر اب علی کا کاروبار بہت تیز اور منافع بخش رہا۔
سون پور سے واپسی مانک پور روڈ سے ہوئی ۔ تراب علی کا ایک تجر بہ کار سائیس منیر خاں نے متنبہ کیا کہ یہ راستہ پرخطر ہے یہاں ٹھگ راہ گیروں کو لوٹ کر مار ڈالتے ہیں لیکن آغا مرزا تراب علی نے سائیس کی بات یہ کہہ کر ٹال دی کہ انگریز اس قوم کا قلع قمع کر چکے ہیں ۔ منیر خاں کی بات سچ ثابت ہوئی جب یہ قافلہ فتح پور ہسوہ سے آگے بڑھا تو درجنوں ٹھگوں نے مکاری سے قافلہ لوٹ لیا۔ مرزا آغا اور ان کے ساتھیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور وہیں ایک بڑے گڑھے میں مردوں کودفن کردیا۔
مرزا تراب علی نے اپنے ساتھیوں کا ایک قافلہ بذیعہ کشتی بھی روانہ کیا تھا۔ قافلے کا سردار داروغہ شاہنواز خاں اور منیر خاں نے کاٹھیا واڑ کے حبشی النسل سیدیوں کی مدد سے اس مقام کا پتہ لگایا جہاں ٹھگوں نے لاشوں کودفن کیا تھا۔ ان لاشوں کو وہاں سے نکال کر قائم گنج میں دوبارہ فون کیا گیا۔ پانچویں دن کی شام کو سوگواروں کا یہ قافلہ رام پور پہنچا۔ وزیر خانم نے جب یہ بری خبرسنی تو اس پر سکتہ طاری ہو گیا۔
نوٹ: اس موقع پر’’زخمی سانپ‘‘ اور ’’کسّی) کی ذیلی سرخیاں قائم کر کے فاروقی نے ٹھگوں کی مختصر مگر کار آمد تاریخ بیان کی ہے خاص طور پر اس قابل نفریں گروہ کی پیشہ وارانہ اصطلاحات کا ذکر کر کے قارئین کے علم میں قابل قدر اضافہ کیا ہے۔ چونکہ مرزا کے قاتل ٹھگ تھے اس لیے ناول کا حصہ قطعاً غیر ضروری محسوس نہیں ہوتا ۔ مہا کالی کے حوالے سے جو باتیں کہی گئی ہیں ان کا ٹھگی سے گہرا رشتہ ہے اس لیے یہ بات افسانہ ہو کر بھی حقیقت معلوم ہوتی ہے۔ اس لیے ہم غیرضروری سمجھ کر بھی اس سے صَرف نظر نہیں کر سکتے۔
مرزا تراب علی کی بے وقت اور اندوہناک موت کے بعد ایک بار پھر وزیر خانم پر پیغمبری وقت آن پڑا۔ مرزا آغا کے قریبی اعزہ میں ایک بیوہ بہن نور فاطمہ اور بوڑھی بیوہ پھوپھی امیر النسا تھیں ۔ وزیر خانم اپنا بچہ لے کر مرحوم آغا کے پرانے مکان میں منتقل ہوگئی اورنواب مرزا کو ان کی منجھلی خالہ کے پاس بھیج دیا۔ حبیبہ اور راحت افزا وزیر خانم کے ساتھ رہیں ۔ ایک طرف راحت افزا کی شادی کی فکر وزیر خانم کو ستائے جارہی تھی تو دوسری طرف سسرال کی بیوہ نند اور پھوپھیا ساس ہروقت وزیر کو طعنے مارتیں کی اس نے جس کا بھی ہاتھ پکڑ اوہ چل بسا۔ کچھ دنوں کے بعد نواب یوسف علی خاں کے والد نواب محمد سعید خاں والیِ رام پور نے وزیر خانم کو اپنے پاس بلا لیا اور راحت افزا کی شادی بڑی دھوم دھام سے کرائی۔
دلی میں بہادر شاہ ثانی کا عہد حکومت کا فی پرسکون اور پرشکوہ تھا لیکن وزیر خانم کا دل نے ہم سے بھرا ہوا تھا۔ وہ اپنی بہن منجھلی بیگم پر زیادہ بوجھ ڈالنانہیں چاہتی تھی لہٰذا رام پور سے شاہ محمد آغا اور نواب مرزا کو لے کر دلی چلی آئی لیکن دلی شہر اور شاہ جہاں آباد سے کانٹے کھاتا تھا ۔۔ نواب مرزا کی تعلیم البتہ اب رک گئی تھی۔ ملا غیاث رام پوری کی عمدہ تعلیم اور انتھک محنت کی بدولت وہ فارسی اور تاریخ و فلسفہ میں اپنے ہم عمروں میں بڑھ کر تھا۔ اسے یقین تھا کہ ایک دن وہ بہت اچھا شاعر اور استاد بن جائے گا ۔ حافظہ اتنا اچھا تھا کہ قاری اور اردو کے ہزاروں اشعار یاد تھے۔ وہ زود گوئی میں بھی کمال رکھتا تھا۔ بہت جلد ہی نواب مرزا کا نام زبانوں پر چڑھ کر سارے شہر میں مشہور ہو چکا تھا خودمرزا غالبؔ جیسے شاعر کو لکھی کہ اس ہونہار لڑکے کو بلوا کر اس کی ہمت افزائی کریں اور ایسا کیا بھی۔
انھیں دنوں خواجہ حیدر علی آتش کی ایک تازہ غزل لکھنؤ سے دہلی آئی جس کا مطلع تھا:
مگر اس کو فریب نرگس مستانہ آتا ہے
الٹی ہیں صفیں ، گردش میں جب پیمانہ آتا ہے
مصرع اول کو طرح بنا کر بہت سے شعراے دہلی نے غزل کہی ۔ جس میںنواب مرزا کے اشعاریوں تھے:
رخِ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں
اُدھر جاتا ہے دیکھیں یا اِدھر پروانہ آتا ہے
دغا شوخی شرارت بے حیائی فتنہ پردازی
تجھے کچھ اور بھی اے نرگسِ مستانہ آتا ہے
ایک دن نواب مرزا قدم شریف میں اپنے والد کی قبر پر فاتحہ پڑھ کر واپس ہورہا تھا کہ صدر دروازے پر ایک خوبرو اور وجیہہ شخص ہوادار (۲۰) میں بیٹھا تھا۔ وہ شخص مرزافتح الملک بہادر شاہ ظفر کے تیسرے بیٹے مرزافخرو اور ہونے والے ولی عہد تھے۔ نواب مرزانے پاس پہنچ کر کورنش (۲۱) بجالائی اور درگاہ سے نکلنے ہی والا تھا کہ ایک چوبدار (۲۲) نے نواب مرزا سے کہا کہ صاحب عالم و عالمیان یاد فرماتے ہیں۔ نواب مرزا کے سامنے آتے ہی صاحب عالم نے کہا:
جیتے رہو، میں تمھاری مؤذب کورنش پسند آئی۔ کیا نام ہے تمھارا۔ کس کے بیٹے ہو؟ س۔۔۔ سرکار م۔۔۔ میں نواب شم۔۔۔۔ شمس الدین احمد خاں کا بیٹا ہوں، نواب مرزا مجھے کہتے ہیں۔
اچھا ۔شمس الدین احمدوالیِ فیروز پور جھر کہ ولوہاروکے فرزند ہو؟
سرکار نے درست فرمایا۔
بھئی سبحان الله رئیسانہ سبھاؤ کے شخص تھے۔ یہیں مدفون ہیں اورتم لوگ اب ۔۔۔۔؟
وہ۔۔۔ تمھاری والی۔۔۔ اتنا کہ شہزادے نے توقف کیا۔ اسے شاید خیال آ گیا کہ مستورات کے بارے میں کچھ پوچھناتہذیب کے خلاف ہے۔ اچھاہماراسلام کہنا۔
نواب مرزا کو شہزادے کے بارے میں کچھ زیادہ معلوم نہ تھا۔ اِدھر اُدھر سے پتہ لگایا تو صرف اتنا معلوم ہوا کہ شاعر بھی ہیں ۔ رمزؔ تخلص کرتے ہیں اور استاد ذوق کے شاگرد ہیں۔
نواب مرزا نے گھر آ کر اپنی ماں کو شہزادے سے ملاقات کا ذکر کیا۔ وزیر چپ چاپ سنتی رہی ۔ بعد میں وزیر خانم اپنی خادمہ حبیب النسا سے میرزافتح الملک کے بارے میں مختلف سوالات پوچھتی رہی ۔ حبیبہ نے شہزادے کے بارے میں بڑی امید افزا با تیں بتائیں۔ آخر میں یہ تجویز رکھی کہ چلئے بائی جی سے پوچھ لیں۔
دوسرے دن حبیبہ اور وزیر خانم بائی جی کے یہاں پہنچیں۔ کوڑیاں گن کر بائی جی نے کہا کہ میں نواب شمس الدین کو چھوڑ نا ہوگا کیونکہ قلعے کی بیگمات کھلے عام مزاروں پر نہیں جاتی ہیں۔ وہاں پردے کا بڑا اہتمام ہے۔
تو بائی جی کا حکم ہے کہ میں قلعے کا پیغام قبول کر لوں؟
ہمارا کچھ حکم نہیں بابا۔۔ یہ امور ہونے والے ہیں؟
اور اس کے بعد میرے دکھ دور ہو جائیں گے بائی جی صاحب؟
دکھ،سکھ تودھوپ چھاؤں کی طرح ہیں۔ ہر چیز تغیر پذیر ہے ، قلعے کی بادشاہت کےبھی دن کبھی پورے ہوں گے۔
مولانا امام بخش صہبائی اور حکیم احسان اللہ کی مدد سے ۲۴ ؍جنوری ۱۸۴۵ کو وزیر خانم کا نکاح بعد نماز مغرب فتح الملک مرزافخرو کے ساتھ بہت دھوم دھام سے ہو گیا۔ قلعہ معلی میں بہ طور خاص مبارک سلامت کی بارش ہورہی تھی۔ وزیر خانم کو ’’شوکت محل‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ نواب مرزا اور شاہ محمد آغا کی پرورش کا بھی خاطر خواہ انتظام کیا گیا۔ کئی ہفتوں تک دعوتوں اور ضیافتوں کا دور چلتا رہا۔ گویا وزیر خانم کی زندگی میں ایک نیا سورج طلوع ہوا۔ شادی کے بعد اِدھر تو وزیر خانم بادشاہ وقت کی بہو بنیں اوراُ دھر نواب مرزا کی شادی فاطمہ رفاعی کے ساتھ ہوگئی ۔ وزیر خانم اپنی خوش نصیبی پر نازاں تھی مگر تقدیر دور کھڑی ہنس رہی تھی۔ ہر کمالے را زوال کے مصداق وزیر کے آفتاب مسرت کو بھی کہن لگنے والاتھا۔وزیر خانم کو مرزانفرو سے ایک بیٹا (خورشید مرزا) پیدا ہوا۔ دوبارمل میں خوشیاں منائی گئیں اور مٹھائیاں تقسیم ہوئیں لیکن افسوس کہ وہ منحوس گھڑی آ کررہی جس سے وزیر ہمیشہ ڈرا کرتی تھی۔
۱۰/ جولائی ۱۸۹۵ء کو مرزا فخرونے بعارضۂ ہیضہ انتقال کیا۔ وزیر خانم نے اپنا منھ پیٹ لیا۔ بجائے اس کے کہ وزیر خانم کی ساس زینت محل اس بیوہ غمزدہ پر رحم کرتیں اسے نہایت بے رحمی سےمحل سے نکل جانے کا حکم دے دیا۔ وزیر خانم ان سے خوب لفظی جنگ کی لیکن آخرنتیجہ صرف اتنار ہا کہ ع
’’شاخوں پہ جلے ہوئے بسیرے‘‘ (ناصر کاظمی)
’’اگلے دن مغرب کے بعد قلعۂ مبارک کے لا ہوری دروازے سے ایک چھوٹا سا قافلہ باہر نکلا۔ ایک پالکی میں وزیر۔ ایک بہل پر اس کا اثاث البيت اور پالکی کے دائیں بائیں گھوڑوں پر نواب مرزا اور خورشید مرزا۔ دونوں کی پشت سیدھی اور گردن تنی ہوئی تھی ۔ محافظ خانے والوں نے روکنے کے لیے ہاتھ پھیلائے تو مرزا خورشید عالم نے ایک ایک مٹھی اٹھنیاںچونّیاں دونوں طرف لٹائیں اور یوں ہی سر اٹھائے ہوئے نکل گئے۔ ان کے چہرے ہر طرح کے تاثر سے عاری تھے لیکن پالکی کے بھاری پردوں کے پیچھے چادر میں لپٹی اور سر جھکائے بیٹھی ہوئی وزیر خانم کو کچھ نظرنہ آتا تھا‘‘۔ ۱؎
(کئی چاند تھے سرِ آسماں،ص ۸۴۵
درج بالا اقتباس ناول کا اختتامیہ ہے۔ تقدیر ایک مرتبہ پھر وزیرخانم کو وقت کے بھنور میں ڈھکیل دیتی ہے۔ ناول نگار نے وزیر خانم کے کردار کے حوالے سے انیسویں صدی کے مرد مر کوز معاشرہ میں ایک عورت کے ذریعہ اپنی شناخت قائم کرنے کی جدوجہد کو موثر انداز میں پیش کیا ہے۔ اس جدو جہد کے دوران اس کی زندگی میں جومختلف موڑ آتے ہیں اور ان مراحل میں وہ جن اشخاص کے رابطے میں آتی ہے وہ اس عہد میں ہندوستان کی سیاسی اور ادبی تاریخ میں قابل ذکر اور اہم مقام کے حامل ہیں۔ ناول نگار نے ناول کے مرکزی کردار کے حوالے سے اس پورے عہد کی تاریخ کو زندہ کر دیا ہے۔
آٹھ سو پینتالیس صفحات پرمشتمل اس ضخیم ناول کا خلاصہ چند صفحات میں پیش کرنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے جیسا عمل ہے۔ اس مشکل کے باوصف یہ کوشش کی گئی ہے کہ خلاصہ پیش کرتے وقت ان اہم نکات کو بیان کر دیا جائے جو ناول کے تخلیقی منظرنامہ کونمایاں کردیں۔
فرہنگ
(۱) شبیہ ساز : مشابہ تصویر بنانے والا(Portrait Painter)
(۲) نقّاش : نقش ونگار بنانے والا،مصور۔
(۳) قالین باف : غالیچہ ،قالین بُننے والا
(۴) چوب تراشی : لکڑی پرنقش ونگار بنانا۔
(۵) سادہ کاری : سونے کے تار سے کپڑوںپر بیل بوٹے کاڑھنا۔
(۶) کلداراشرفیاں : قدیم مقامی سکہ۔
(۷) شاہ عالم اشرفیاں : قدیم بین الاقوامی سکہ ۔
(۸) شاگرد پیشہ : نوکرچاکر ، ملازموں کے رہنے کے لیے وہ کمرہ جو محل سے قریب ہو۔
(۹) اصیلیں : باندی ، کنیز، لونڈی ۔
(۱۰) ماما : وہ دائی یا خادمہ جو کھانا بناتی ہو۔
(۱۱) چھوچھو : دایہ ، وہ عورت جو لڑکیوں کی خدمت کے لیے مقرر ہوتی ہے ۔
(۱۲) ڈومنی پن : گانے بجانے کاشوق ، طوائف پن۔
(۱۳) بہلی : چھوٹی بیل گاڑی جوسواری کے کام آتی ہے۔
(۱۴) پنڈاروں : ایک قسم کا آوارہ گرد گروہ قبیلہ۔
(۱۵) عرب سرائے : قدیم دہلی کا طوائفوں کا ایک علاقہ۔
(۱۶) کیوپڈ : رومیوں کاعشق کادیوتا۔
(۱۷) سانڈنی سوار : تیز رفتار اونٹنی کی سواری کرنے والا۔
(۱۸) روبکارو : نوابوں کا وہ تحریر نامہ جس میں کوئی حکم صادرکیاگیا ہو۔ ایسے حکم نامہ کولانے اور لے جانے والے کو’’ روبکارو‘‘ کہتے ہیں۔
(۱۹) مشکی سوار : سیاہ رنگ کے گھوڑے کی سواری کرنے والا۔
(۲۰) ہوادار : ایک قسم کی ڈولی جوچاروںطرف سے کھلی ہوتی ہے۔
(۲۱) کورنش : درباری سلام کرنے کاطریقہ ۔
(۲۲) چوبدار : لاٹھی لے کر نوابوں کے آگے چلنے والانوکر۔
ماخد۔ کئی چاند تھے سر آسماں ایک تجزیاتی مطالعہ از ڈاکٹر رشید اشرف خان۔ صفحہ نمبر 86