ہند آریائی کی مختصر تاریخ

یو پی اسسٹنٹ پروفیسر امتحان 2021

          یونٹ(01)

 

اُردو زبان کا ارتقاء اور نظریات

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
  ۔۔۔۔۔۔(ہند آریائی کی مختصر تاریخ)۔۔۔۔۔۔
» زبان ” آواز اور الفاظ کا مجموعہ ہے۔ زبان ہمارے احساسات ، جذبات و خیالات کو ادا کرنے کا ذریعہ ہے۔
» قدیم ہند آریائی دور 1500 قبل مسیح سے 500 قبل مسیح تک شمار کیا جاتا ہے۔
» زبانیں زمان و مکان کے اعتبار سے ایک دوسرے سے الگ الگ ہوتی ہیں۔ ان کی صوتی ، صرفی اور نحوی خصوصیات کی بنا پر انہیں ماہرلسانیات نے الگ الگ آٹھ خاندانوں میں بانٹا ہے:-
1۔ سامی
2۔ ہند چینی
3۔ منڈ ا
4۔ امریکی
5۔ دراوڑی
6۔ ملایائی
7۔ افریقہ کی بانتو
8۔ ہند یوروپی
» سامی خاندان میں بہت سی اہم زبانیں آتی ہیں ، عربی اور عبرانی اسی سے نکلی ہیں۔
» اُردو اور ہندی کا جس خاندان سے تعلق ہے وہ ہند یوروپی ہے۔
» ہندوستان میں آکر یہ خاندان یعنی ہند یوروپی اپنے ارتقائی دور میں ‘ ہند ایرانی’ سے گزر کر ‘ ہند آریائی ‘ شکل اختیار کر لیتا ہے۔
»آریا ہندو  یوروپی زبان بولتے تھے جو مشرقی اور مغربی دو حصوںمیں تقسیم ہو گئی۔
» دراوڑی سے ہندوستان کی بہت سی اہم زبانوں کا سلسلہ ملتا ہے۔ یہ زبانیں جنوبی ہندوستان میں رائج ہیں۔ تامل ، تلگو ، کنڑ اور ملیالم اسی کی مشہور شاخیں ہیں۔
» ماہرین لسانیات نے ہندوستان میں ہند آریائی زبانوں کے ارتقا کو تین ادوار میں تقسیم کیا ہے:-
1۔ قدیم ہند آریائی
2۔ وسطی ہند آریائی
3۔ جدید ہند آریائی
سوال:- قدیم ہند آریائی کیا ہے۔
جواب:-  ہند آریائی کا عہد قدیم  1500 ق م تا 500 ق م شمار کیاجاتاہے ۔اس وقت ہند یورپی زبان ہند ایرانی منزل سے گزر کر خالص ہند آریائی شکل اختیار کرچکی تھی ۔ یہ عہد ’ ویدک عہد ‘ بھی کہلاتا ہے ۔
اسی عہد میں رگ وید، یجروید ، اتھر وید اور سام وید ( ہندؤں کی مشہور مذہبی کتابیں ) لکھی گئیں ہیں۔ اس عہد میں سنسکرت زبان  خوب ترقی کرتی ہے ۔اور یہ زبان سنسکرت عالموں کی زبان بن جاتی ہے ۔ اسی عہد میں’ مہا بھارت ‘ لکھی جاتی ہے۔
قدیم ہند آریائی کو ڈاکٹر سدیشور ورما نے پانچ منزلوں میں تقسیم کیا ہے۔
1۔ ویدک منزل     2۔ عہد پاننی کی منزل     3۔ رزمیہ منزل 4۔ دینوی منزل 5۔ ٹکسالی منزل۔
»وسطی ہند آریائی:- یہ 500 قبل مسیح سے 1000 تک کا زمانہ ہے جسے ماہرین نے اس کے ارتقائی خصوصیت کے لحاظ سے تین ادوار میں تقسیم کیا ہے۔
» پہلا دور 500 قبل مسیح سے مسیحی سن شروع ہونے سے پہلے تک کا زمانہ ہے۔ اس دور میں ‘ پالی’ عوام کی مقبول زبان رہی ہے جس میں جین مت اور بدھ مت کی تعلیمات ملتی ہیں۔
» دوسرا دور مسیحی سن کے ابتداء سے 500 تک شمار کیا جاتا ہے۔ یہ عہد پراکرتوں کے آغاز اور ارتقاء کا عہد ہے۔ پراکرت کے معنی فطری زبان کے ہیں۔مسعود حسین خاں کے مطابق پہلی پراکرت صرف اس زبان کو کہیں گے جس کا ادبی روپ پالی ہے۔ پالی کو قدیم ماگدھی بھی کہا گیا ہے۔پالی بدھ مذہب کی زبان ہے۔ ہند آریائی لسانیات کے ماہرین نے ادبی پراکرتوں یعنی دوسری پراکرت کی حسب ذیل پانچ قسمیں بیان کی ہیں:-
» مہاراشٹری :- یہ جنوب کی پراکرت ہے۔ مراٹھی اسی سے نکلی ہے۔
» شورسینی :- اس کا مرکز شورسین یعنی متھرا کا علاقہ تھا۔
» مگدھی :- یہ پورے مشرقی ہندوستانیوں کی بولی تھی۔ اس کا مرکز مگدھ یعنی جنوبی بہار تھا۔
» اردھ مگدھی :- اس کے لفظی معنی آدھی مگدھی کے ہیں۔ اس کا مقام اودھ اور مشرقی اُتر پردیش تھا۔  یہ تمام پراکرتوں میں سب سے پرانی ہے۔
» پشاچی :- یہ کشمیر اور پنجاب کے علاقے کی پراکرت تھی۔
»» تیسرا دور 500 ع سے 1000 ع پر محیط ہے۔ یہ دور اپ بھرنش کا دور کہلاتا ہے۔اپ بھرنش کے معنی بگڑی زبان کے ہیں۔
»» جدید ہند آریائی :- اس کا زمانہ 1000ع سے تا حال مقرر ہے۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
»»»اُردو کی ابتداء کے بارے میں مختلف نظریات ««««
 
•محمد حسین آزاد نے اُردو کا ابتدائی سر چشمہ برج بھاشا کو قرار دیتے ہوئے اپنی کتاب “آب حیات” میں لکھا ہے کہ ” اتنی بات ہر شخص جانتا ہے کہ ہماری زبان برج بھاشا سے نکلی ہے۔”
• محمد حسین آزاد کے مطابق اُردو شاہجہاں کے عہد میں تکمیل کو پہنچی۔
• محمود شیرانی کے مطابق اُردو کی داغ بیل پنجاب کے علاقے میں پڑی۔
• محمود شیرانی نے لکھا ہے کہ ” وہ زبان جسے ہم ‘ اردو’ کہتے ہیں ، سر زمین پنجاب میں پیدا ہوئی اور وہیں سے ہجرت کرکے دہلی پہنچی۔
• سیّد سلیمان ندوی کے مطابق ” اُردو سندھ میں پیدا ہوئی”۔
• بقول سیّد سلیمان ندوی :- مسلمان سب سے پہلے سندھ میں پہنچے ہیں ، اس لیے قرین قیاس یہی ہے کہ جس کو ہم آج اُردو کہتے ہیں اس کا ہیولیٰ اسی وادی سندھ میں تیار ہوا ہوگم
• نصیر الدین ہاشمی کے مطابق ” اُردو دکن میں پیدا ہوئی ۔”
• شوکت سبزواری:- اُردو کھڑی بولی سے ترقی پا کر بنی جس کی بابت عرض کیا جا چکا ہے کہ وہ دہلی اور میرٹھ کے نواح میں بولی جاتی تھی۔
• شوکت سبزواری:- اُردو نے قدیم مغربی ہندی  سے ترقی پا کر موجودہ روپ اختیار کیا۔
• مسعود حسین خاں:- اُردو کا اصل سر اور حقیقی مولد دہلی ہے۔
• سہیل بُخاری:- اُردو دراوڑی خاندان کی زبان ہے۔ (اُردو کی جائے پیدائش اڑیسہ ہے)
• ملا وجہی نے اُردو زبان کو زبان ہندوستان کہا ہے۔
• ڈاکٹر جمیل جالبی:- اُردو کوہستان کی سرحد سے پیدا ہوئی۔
• اختر اورینوی :- اُردو مگدھی سے نکلی۔
• گیان چند جین:- اُردو کھڑی بولی سے نکلی ہے۔
• سر سید احمد خاں:- اُردو دہلی کی زبان ہے۔
• انشا اللہ خان انشاء نے اُردو کو عربی فارسی ترکی اور برج بھاشا پر مشتمل قرار دیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

» مغربی ہندی اور اس کی اہم بولیاں «

• مغربی ہندی :- مدھیہ دیش کی زبان کو ہی مغربی ہندی کہتے ہیں۔ جو مغرب میں سر ہند سے لے کر مشرق میں الہٰ آباد تک اور شمال میں ہمالیہ کے دامن سے لےکر جنوب میں وندھیا چل اور بندیل کھنڈ تک بولی جاتی ہے۔
• لسانی نقطہ نظر سے مغربی ہندی کا براہ راست تعلق شورسینی اپ بھرنش سے ہے۔
• گریسن کے مطابق مغربی ہندی کی پانچ بولیاں ہیں۔ 
• کھڑی بولی • ہریانوی • برج بھاشا • قنوجی • بندیلی 
• مغربی ہندی کی پانچ بولیوں کو دو گرہوں میں بانٹا جا سکتا ہے:- 
• الف :- (اُو ) کو ترجیح دینے والی بولیاں :- (۱) برج بھاشا (۲) بندیلی (۳) قنوجی
• ب :- (ا ) کی شکل رکھنے والی بولیاں :- (۱) ہریانی (۲) کھڑی بولی
• برج بھاشا :- برج بھاشا کو مغربی ہندی کی نمائندہ بولی کہا جاتا ہے۔
* برج بھاشا کو شورسينی اپ بھرنش کی سچی جانشین کہا جاتا ہے۔ 
*برج بھاشا کا مرکز (متھرا) کا علاقہ ہے لیکن یہ آگرہ ، بھرت پور ، دھول پور ، کرولی ، ریاست گوالیر اور جے پور کے مشرقی اضلاع تک پھیلی ہوئی ہے۔ شمال میں گڑ گاؤں ضلع کے مشرقی حصوں میں بھی رائج ہے۔
• بندیلی :- یہ بولی بندیل کھنڈ میں بولی جاتی ہے اور اس کے بولنے والے بندیلے کہلاتے ہیں۔
• قنوجی :- مغربی ہندی کی اس بولی کا نام شہر قنوج کے نام پر ہے جو ضلع فرخ آباد میں ہے۔
• ہریانوی:- اس بولی کو بانگڑو اور جاٹو بھی کہا گیا ہے۔ دہلی کے شمال مغربی اضلاع كرنال ، روہتک، حصار وغیرہ کی بولی ان تینوں ناموں سے پکاری جاتی ہے۔ 
* گریسن موجودہ ہریانوی کو کھڑی بولی کی ہی شکل مانتا ہے جس میں راجستھانی اور پنجابی بولیوں کی آمیزش پائی جاتی ہے۔ 
• کھڑی بولی :- گریسن نے اس بولی کو ہندوستانی کا نام دیا ہے۔ یہ مغربی روہیل کھنڈ ، دو آبہ کے شمالی حصہ اور پنجاب کے ضلع انبالہ میں بولی جاتی ہے۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد ہلال عالم 
ریسرچ اسکالر ، روہیل کھنڈ یونیورسٹی بریلی ، یو پی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
  • Tuiab Raza Jeelani
    November 27, 2022 at 11:52 am

    I need urdu material for upsc optional

  • Aamir shehzad
    January 26, 2023 at 5:00 pm

    Thank you so much ji

error: Content is protected !!