باشندگان شوسل میڈیا سے چند گذارشات

باشندگان شوسل میڈیا سے چند گذارشات
محمد ہلال عالم
ریسرچ اسکالر، روہیل کھنڈ یونیورسٹی، بریلی، یو۔پی
ای میل: hhilalalam@gmail.com

موجودہ دور میں دنیا جس تیزی کے ساتھ ترقی کر رہی ہے اتنی ہی تیزی کے ساتھ انسان کے خیالات میں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ نئی نئی ٹیکنالوجی جنم لے رہی ہے اور ان کی طرف تیزی سے رجحان بڑھ رہا ہے۔ پہلے گرمی لگتی تھی تو لوگ ہاتھ کے پنکھے سے ہوا کرکے اس گرمی سے نجات پانے کی کوشش کرتے تھے یا کسی پیڑ کی چھاؤں میں بیٹھ جاتے تھے۔ رفتہ رفتہ زمانہ ترقی کرنے لگا۔ بجلی سے چلنے والا پنکھا آیا اور ہوتے ہوتے بات اے۔ سی۔ تک پہنچ چکی ہے۔ لیکن انسان اے۔سی۔ سے بھی خوش نظر نہیں آتا۔ اس زمانے میں بیٹری والے پنکھوں کا بھی چلن ہے۔ یہ بیٹری والے پنکھے بھی ہم مسلمانوں کے جیسے ہی ہیں، جہاں کرنٹ ہوا اسی کے نعرے بلند کرنے لگتے ہیں۔ خیر یہ ایک مثال تھی کہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ہم مسلمان واٹس ایپ، فیس بک،ٹویٹر، یوٹیوب،انسٹاگرام، ٹک ٹاک میں ڈوب کر اسے ہی ترقی سمجھنے لگے ہیں۔ اب بات کرتے ہیں مسلمانوں کے خیالات کی۔ ہندوستان کا ترقی یافتہ مسلمان سماج میں ہر وہ کام کرنا چاہتا ہے، جس کو ترقی یافتہ ملک صدیوں سے کرتے آئے ہیں۔ یہ کام کون کون سے ہوتے ہیں؟ اگر آپ لوگ سنیں گے تو بے ساختہ ہنسی آ جائے۔ان کاموں کو کرنے سے کیا واقعی مسلمانوں کو ترقی یافتہ کہا جا سکتا ہے؟۔ اس کا ذکر ہم آگے کریں گے۔
سب سے پہلے ہم بات کرتے ہیں مسلمانوں کے برتھ ڈے منانے پر۔ تقریباََ آج سے سات، آٹھ سال قبل کسی کو اپنا یا اپنے بھائی، بہن، بیٹا، بیوی غرضیکہ جو بھی قریبی ہوتا ہے اس کا برتھ ڈے منانا دور برتھ ڈے کی اسپیلنگ بھی یاد نہ ہوگی۔ یہ بھی معلوم نہیں ہوگا کہ برتھ ڈے آخر کیا بلا ہے۔ اُس زمانے میں شہر کے بیحد کم لوگ اس فعل کو انجام دیتے تھے۔ اور گاؤں میں اگر کسی نے برتھ ڈے کی بات کر دی تو اس کی خیر نہیں۔ گاؤں کی بزرگ پارٹی اس کی طرف کھا جانے والی نظروں سے دیکھتی۔یہ بزرگ پارٹی کہتی تھی کہ آیا بڑا شہری۔ ہمارے سامنے زیادہ انگریز بننے کی کوشش نہ کرے۔آج سے چھ سات سال قبل شہر میں رہنے والا یا شہری زبان بولنے والا، شہر کے لوگوں کی طرح رہنے والا گاؤں کے بزرگوں کی نظر میں انگریز تصور کیا جاتا تھا، اور آج بھی کچھ گاؤں میں یہی حال ہے۔ گاؤں کے بزرگوں کی یہ سوچ کہیں نہ کہیں اس بات کا نتیجہ معلوم ہوتی ہے کہ انہوں نے انگریزوں کو دیکھا ہوگا، جس وقت انگریز ہندوستان پر قابض تھے۔
تو ہم بات کر رہے تھے برتھ ڈے پر۔ آج زمانہ ترقی پر ہے اور لوگوں نے اس کو محسوس بھی کیا ہے۔اب وہ برتھ ڈے جس کا منانا غلط تصور کیا جاتا تھا یا انگریزی چلن سمجھا جاتا تھا، آج شوق سے منایا جا رہا ہے۔ آج کل برتھ ڈے منانے کارواج عام ہوا ہے، گھر میں چڑیا کے بچے کا بھی برتھ ڈے ہو اس کو دھوم دھام سے منایا جانے لگا ہے۔ تصویریں لی جاتی ہیں، اور ان تصویروں کو جب تک سوشل میڈیا پر نہ ڈالا جائے تب تک برتھ ڈے ادھورا ہے۔ یہ ہے ترقی یافتہ مسلمان۔
دوسرا طریقہ یہ زور پکڑ رہا ہے کہ کوئی بھی تعلیم کے میدان میں آگے بڑھ رہا ہے تو اس کو بھی شو (دکھاوا) کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی ہے۔ اگر کسی نے کوئی امتحان پاس کر لیا ہے تو جب تک اس کی مارکشیٹ سوشل میڈیا پہ نہ ڈالی جائے تب تک اس کا وہ امتحان پاس کرنا بیکار سمجھا جانے لگا ہے۔ اگر شوسل میڈیا پر کسی نے مبارک باد نہیں دی تو ناراضگی ایسی کہ کچھ پوچھو مت۔
تیسرا طریقہ ترقی یافتہ مسلمانوں کا نہ ہے کہ اگر کوئی بھی دکھ ہے، بیماری ہے یا اس کے علاوہ کوئی بھی غم ہے تو اس کو شوسل میڈیا پر ضرور ڈالیں گے کہ آج مجھے فلاں غم ہے یا فلاں اسپتال میں ایڈمت ہوں۔ اگر کسی اس بندے سے کال کرکے خیریت معلوم کر لی تو وہ ایسے ناراض ہوکر کہتے ہیں کہ فیس بک، واٹس ایپ پر شیئر کیا تھا، سب کو معلوم ہے آپ کو ہی معلوم نہیں ہوا، آپ کو ہماری فکر کہاں ہے۔ اب ان کو کون بتائے کہ کال کرنے والا بندہ سوشل سائٹ استعمال نہیں کرتا۔ اگر یہ سب بتا بھی دو تو ان سے کہا جاتا ہے کہ آپ کس زمانے میں جی رہے ہو، انٹر نیٹ کا زمانہ ہے، اگر یہ سب استعمال نہیں کرو گے تو ترقی یافتہ لوگوں میں آپ کا شمار کیسے ہوگا۔مطلب سوشل میڈیا پر خیریت معلوم کرنا ترقی یافتہ لوگوں کی پہچان مانا جانے لگا ہے۔ حالانکہ یہ سب خیالی باتیں ہیں۔ ترقی یافتہ لوگوں کی پہچان یہ سب نہیں ہوتی، اور بھی بہت ساری وجوہات ہیں۔
چوتھا طریقہ یہ اختیار کیا گیا کہ کوئی بھی فیسٹیول ہو اس کو ایک ماہ پہلے سے ہی ایڈوانس مبارک باد کے نام سے تمام سوشل سائٹ پر ڈالنا شروع کرتے ہیں جیسے کہ کوئی مقابلہ ہو رہا ہے اور اس میں جیت حاصل کرنا ہے۔ سب کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ سامنے والے کو یہ محسوس ہو کہ سب سے پہلے مبارک باد انہوں نے ہی دی ہے۔ ارے بھئی ایڈوانس مبارک باد دینا ہی تھی تو سال کے شروع میں سبھی فیسٹیول کی فہرست بناؤ اور کر دو سب کو سینڈ۔ایک ہی بار میں اپنا ایڈوانس سسٹم شیئر کر دو، کیوں بیچ بیچ میں فیسٹیول آنے سے پہلے ایڈوانس مبارک باد کا جن ہم پر چھوڑتے ہو۔ ان کی نظر میں کال کرنا، ملاقات کرکے مبارک باد پیش کرنا یہ سب گزرے زمانے کی باتیں ہیں۔ ترقی کی منزل تو ان لوگوں کو سوشل سائٹ پر میسج کرنے سے نظر آتی ہے۔ان کا کام صرف اتنا ہوتا ہے کہ ایک میسج بنایا اور اس کو تمام رشتہ داروں، دوستوں، پڑوسیوں،گروپوں غرضیکہ ان لوگوں کو بھی بھیج دیا جن کو جانتے تک نہیں اور پھر ہو گیا گھر بیٹھے فیسٹیول مکمل۔ واہ واہ کیا کہنے تیرے ترقی یافتہ مسلمان۔
پانچواں طریقہ یہ ہے کہ کچھ لوگوں کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ سوشل میڈیا پر کیا شیئر کرنا چاہئے اور کیا نہیں۔ مسلمانوں میں تقریباََ65% لوگوں کا فیس بک آئی ڈی یا دیگر سوشل سائٹ پر ایک اکاؤٹ ضرور بنا ہوگا۔ یہ اپنے اکاؤنٹ کا بھرپور استعمال کرتے ہیں۔اور اس پر موجود ویڈیو جیسی بھی ہوں ان کو فارورڈ اور شیئر کرنے سے مطلب۔ اگر ویڈیو یا کسی پوسٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ اس کو شیئر ضرور کریں تو یہ لوگ اس بات کو اتنا سیریس لے لیں گے جتنا کبھی اپنی پڑھائی یا ماں، باپ کی کسی اچھی بات کو لیکر نہ ہوئے ہوں۔یہ لوگ جو بھی شیئر کرتے ہیں ان میں فحش ویڈیو بھی ہوتی ہیں اور فحش میسج بھی جس سے کہ سماج پر برا اثر پڑتا ہے۔ اگر آپ لوگ ایسے لوگوں کے فیس بک اور واٹس ایپ اسٹیٹس دیکھ لیں تو آنکھ اور کان دوں بند کر لیں۔ ان لوگوں کا خیال یہ ہوتا ہے کہ یہ سب کرناترقی یافتہ انسان کی نشانی ہوتی ہے۔ یہ سب خیال کرنا ان لوگوں کے وہم کے سوا کچھ نہیں ہے۔
غرضیکہ ہندوستان میں ایسی تمام مثالیں موجود ہیں جو ایسے خیالی ترقی یافتہ مسلمانوں کے زمرے میں آتی ہیں۔ ایسے ترقی یافتہ مسلمانوں کا سیدھا سیدھا یہی ماننا ہوتا ہے کہ ان سب کو فولو کرنے سے ترقی کی راہ کا مسافر کہلایا جائے گا۔ ایسا بالکل نہیں ہے کہ جو ان خیالی لوگوں کی طرح نہیں کرتا وہ ترقی پر نہ ہو۔یہ خیالی لوگ ان لوگوں کو بیوقوف سمجھتے ہیں جو اچھی باتیں اور اچھے کام کو شیئر کر رہے ہوتے ہیں۔ خیالی ترقی یافتہ مسلمانوں کی نظر میں ایسے لوگ پرانے زمانے میں جی رہے ہیں جو اپنا ریادہ وقت سوشل میڈیا کو نہیں دے رہے۔ یوں سمجھئے کہ ایسے لوگوں نے ترقی کے نام پر دین کو کنارے کر دیا ہے اور نکل پڑے ہیں غیر مذہب کے طور طریقوں پر۔ ایسا بالکل نہیں ہے کہ ان خیالی ترقی یافتہ مسلمانوں میں پڑے لکھے لوگ شامل نہ ہوں۔ یہ لوگ بھی شامل ہیں لیکن ان کے لئے یہ جملہ سماج میں مشہور ہے۔ ”پڑھا لکھا جاہل“۔
علم و ہنر سے ہم نے کنارہ کر لیا
ہیں خود ہی ذمہ دار ہم اپنے زوال کے
(گلزار نوشاہی)

error: Content is protected !!