ڈیجیٹل ایجوکیشن طلبہ اور تعلیم
اعظم علی
ریسرچ اسکالر مہاتما جیوتباپھولے روہیل کھنڈ یونیورسٹی بریلی (U.P)
ای میل-: mohammadaazam33@gmail.com
جدید ترقی یافتہ دور میں سائنس چونکہ بہت تیزی سے ترقی کر رہا ہے اور ہر کام کو کرنے میں بہت زیادہ سہولیات ہوتی جا رہی ہیں آج سے قریب ۲۰ سال قبل کسی بھی کام کو کرنے میں گھنٹوں لگ جاتے تھے آج ہم وہی کام کمپیوٹر کی مدد سے گھر بیٹھے صرف کچھ ہی منٹ میں باآسانی سے کر لیتے ہیں ،انسان کی ہر کام میں مدد کرنے والا کمپیوٹر۱۹۵۲ میں ہندوستان میں آیا لیکن اس وقت کمپیوٹر کو صرف آفیشیل کاموں کے لیے ہی استعمال کیا جاتا تھا وقت کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر انسان کی ضرورت بنتا جا رہا ہے اور آج موبائل کی شکل میں ہر کسی کے ہاتھ میں کمپیوٹر موجود ہے ۔اگر یوں کہا جائے انسان کی زندگی میں روز مرہ کے کام کمپیوٹر کے بغیر ادھورے ہیں تو غلط نہ ہوگا کیونکہ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ(ICT) اطلاعاتی ترسیلی تکنیک کی مدد سے ہی انسان اپنے سارے کام انجام دیتا ہے ۔کوئ بھی انسان جب گھر سے نکلتا ہے بس ٹرین کا ٹکٹ بھی کمپیوٹر سے ہی ملتا ہے اپنے دفتر جاتا ہے اس کی حاضری ڈجیٹل طریقے سے کمپیوٹر سے ہی لگتی ہے، ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ کمپیوٹر انسان کی زندگی کا حصہ بن گیا ہے ۔
جدید ٹیکنالوجی اور ماڈرن ایجوکیشن کے اس دور میں ہم طلبہ کو تعلیم حاصل کرنے اور مطالعے کے لیےمواد کی فراہمی کرنے میں آئ سی ٹی (ICT) کے رول کا مشاہدہ کریں تو ہم محسوس کریں گےکہ جدید ترقی یافتہ دور میں ۹۵٪ طلبہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے ذریعے تعلیم حاصل کر رہے ہیں ،یوں تو مغربی ممالک نے بیسویں صدی کے اوائل دور میں ہی درس و تدریس کا ذریعہ بنا لیا تھا، ہمارے ملک ہندوستان میں بھی ڈجیٹل ایجوکیشن جدید تعلیم کا دور بھی شروع ہو گیا ہے خاص کر جب کورونا وائرس جیسی بیماری سے پوری دنیا متاثر ہوئ اور دنیا کی رفتار تھم سی گئی جب سارے کام بند ہو چکے لوگوں کا گھر سے نکلنا مشکل ہو گیا اس وقت تعلیم کو جاری رکھنا مشکل کام تھا لیکن یہ کام بھی انٹرنیٹ کے ذریعے باآسانی ہونے لگا ،آج ہم دیکھتے ہیں ہیں کہ ہمارے آس پاس تقریباً سبھی اسکول کالج بند ہیں لیکن انٹرنیٹ و اور کمپیوٹر کے ذریعے درسی و تدریسی کام بخوبی آسانی سے انجام دئے جا رہے ہیں،اس سے طلبہ اپنی پڑھائی کو جاری رکھے ہوئے ہیں ہم یہ کہیں کہ ICT طلبہ کے لئے رہنمائی کا کام کر رہی ہے تو بیجا نہ ہوگا ،کیونکہ آج شہر سے دور گاؤں دیہاتوں میں رہنے والے طلبہ جن کے لیے کتابیں دستیاب نہیں تھیں اور لائبریری بھی بند تھیں وہ طلبہ بھی کمپیوٹر اور اطلاعاتی ترسیلی تکنیک کے ذریعے اپنے گھر بیٹھے ہی تعلیم کا حصہ بن کر اپنے روشن مستقبل کی طرف گامزن ہیں ۔جو ریسرچ اسکالر اپنے تحقیقی کام کے لیے لائبریری کا سفر کرتے تھے کووڈ ۱۹ کی وجہ سے لائبریری بند ہونے پر E-library اور مختلف ویبسائٹ جن پر کتابیں اپلوڈ کی جا چکی ہیں ان کے ذریعے اپنے تحقیقی کام کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہندوستان میں کسی بھی جگہ سے کوئ میگزین نکلتی ہے یا رسائل نکلتے ہیں ہم ان کو گوگل پر تلاش کر کے پڑھ سکتے ہیں آپنے مضمون بھی آنلائن ارسال کر شائع کرا سکتے ہیں، وعظ اوقات ہم کسی بیرونی ممالک ادیب کی کتابیں پڑھنا چاہتے ہیں وہ ہمیں کتابی شکل میں دستیاب نہیں ہوتیں اسے بھی آنلائن تلاش کر کے پڑھا جا سکتا ہے ۔
ہم اردو ادب کے طلبہ کی حیثیت سے ICT کا جائزہ لیں تو ہم محسوس کریں گے ڈجیٹل لائبریری اور ریختہ اور دیگر ویب سائٹس ہمیں آنلائن مواد فراہم کررہی ہیں ہم کسی بھی ویبسائٹ پر تلاش کر کےایک بٹن دبا کر کچھ سیکینڈ میں ہی اپنی پسند کی کتاب کا مطالعہ کر سکتے ہیں ،موجودہ وقت میں انسان کے پاس وقت کی کمی ہے ہر کوئی اپنے کاموں میں مصروف رہتا ہے لہازا تعلیم کے لیے بھی آئ سی ٹی اچھا ذریعہ ہے۔ موجودہ وقت میں بہت سے طلبہ واٹس ایپ اور ٹیلیگرام جیسی ایپلیکیشن پر گروپ بنا کر مختلف امتحانات کی تیاری کر رہے ہیں یہ ایپلیکیشن بھی بہت مفید ثابت ہو رہی ہیں۔
ICT طلبہ کے لئے ایک ایسا پلیٹ فارم بن کر سامنے آیا ہے جہاں بیک وقت میں کتابیں لائبریری اور کالج سبھی ایک ساتھ جمع ہیں اور طلبہ بھی اس سے مستفید ہو رہےہیں ، جدید ترقی یافتہ دور میں درسی و تدریسیی کام بغیر ICT کےنامکمل ہے ۔
طبلہ کو چاہیے کہ وہ اطلاتی ترسیلی تکنیک کے ذریعے کتابوں کا مطالعہ کریں ، اس کے غلط استعمال سے بچیں اور کامیابی کے لیے سفر جاری رکھیں۔