شمشاد عالم ندوی
ڈرامہ
انیسویں صدی کے اواخر میں آسکر وائلڈ اور جارج برنارڈ شا کو ہم ان فنکاروں کے زمرہ میں شامل کرتے ہیں جنہوں نے بیسویں صدی ڈرامہ کے ہیئت اور اسلوب پر اچھا خاصہ اثر چھوڑا۔ برطانیہ میں یورپین ڈرامہ ( بالخصوص ابسن) کی جدت طرازیوں سے قدامت پسند تھیٹرکی بدولت 1960عیسوی کی دہائی تک استفادہ نہیں کیا جا سکا لیکن اس کے بعد یورپین اور برطانوی ثقافتی انقلاب سے انگریزی ڈرامہ میں فکر و فن کی نئی راہیں کھلیں۔ اس انقلابی مہم میں انگریزی ڈرامہ کو جدید یورپین تجربوں سے ہم آہنگ کرنے میں آئرستانی ڈرامہ نگار سیموئل بیکٹ (Samuel Beckett) کا خاص رول رہا ہے اس نے اپنے ڈرامہ (Waiting for Godot 1954) سے انگلستان میں ڈرامہ کی تاریخ بدل ڈالی دوسری جنگ عظیم کے بعد جہاں انگریزی ڈرامہ میں سماجی اور سیاسی تنقید کا غلبہ رہا وہیں بیکٹ اور Theatre of the Absurd کے فنکاروں نے ایسے ڈرامہ نگاروں کی ہمنوائی کی جنہوں نے نئی علامت نگاری سے “وجودی حقائق” (Existentialist Realities) کو نمایاں کیا۔ Harold Printer نے اپنے ” اندیشہ ناک طربیہ ڈراموں میں” Comedies of) Menace) میں مزدور طبقہ کی معاشی پریشانیوں اور ذہنی کلفتوں کو خاصہ جگہ دی The Dumb اور The room (1957) Waiter (1960) میں بڑی بے جگری سے درمیانی طبقہ کی خانگی اور سماجی زندگی کی ترجمانی کی گئی ہے۔ پنٹر نے اپنے ڈراموں میں شکوک، بے اعتمادی اور دغا بازی کے موضوعات کو بھی بخوبی نبھایا ہے۔ 1980 کے بعد اس کی تصانیف میں سیاسی رنگ غالب نظر آتا ہے۔ اکیسویں صدی کے سال 2005 میں پنٹر کو ادب کے “نوبل انعام” سے نوازا گیا۔
انگلستان میں افریقی، ایشیائی اور کیریبین (Carribbean) نسلوں کے نئے لکھنے والوں نے فن ڈرامہ کو وسعت اور نئ زندگی دی۔ Mustafa Matura، اور Hanif Kureshiاور Caryl Phillips نے اپنے ڈراموں میں انقلابی جدتیں پیدا کیں۔ حنیف قریشی کے ڈرامے My Beautiful Laundertt اور My Son Fantastic بین قومی انسانی مسائل پر روشنی ڈالتے ہیں۔