گشتی مراسلہ ڈاکٹر محمد اسلم پرویز اسلم

گشتی مراسلہ ڈاکٹر محمد اسلم پرویز اسلم

*گشتی مراسلہ**
تسلیمات!
اردو زبان و ادب کے تمام پروفیسروں، شاعروں، ناقدوں، مبصروں اور ریسرچ سکالرز سے پرخلوص گزارش ہے کہ اس گشتی مراسلے کو ایک بار ضرور پڑھیں۔ عین نوازش ہوگی۔

‌ عابدہ شیخ کی پیدائش 3 مئی 1947ء کو لاہور کے وزیر آباد میں ہوئی۔ان کے والد مرحوم کا نام حکیم امیر علی ہے ان کا شمار اپنے زمانے کے ماہر طبیبوں میں ہوتا تھا۔ وہ مشہور و معروف حکیم سعید مرحوم(ہمدرد) کے ہم جماعت ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے اچھے دوستوں میں تھے۔ عابدہ شیخ کی والدہ مرحومہ کا نام نسیمہ بی بی ہے۔ ان کے چچا/تایا ڈاکٹر محمد اقبال نے کنگ ایڈورڈ کالج، لاہور سے سن 1930 میں ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی تھی۔ ان کے دوسرے چچا/تایا محمد احمد مرحوم انجینئر تھے۔ اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ موصوفہ کا خاندان اپنے معاشرے میں اعلٰی تعلیم یافتہ گھرانوں میں شمار ہوتا ہے۔
بہر کیف! عابدہ شیخ خود بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون ہیں۔ وہ بی اے میں گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ سے گولڈ میڈلسٹ ہیں اور اس کے بعد انہوں نے نیو کیمپس پنجاب یونیورسٹی، لاہور سے ماسٹر آف اپلائیڈ سائیکالوجی میں امتیازی نمبروں سے کامیابی حاصل کی ہے۔
فی الحال وہ تقریباً 40 برسوں سے برطانیہ، مانچسٹر میں مقیم ہیں اور اب برطانیہ ہی ان کا وطن ہے۔ جہاں وہ اپنے فلاحی کاموں میں شب و روز مشغول رہتی ہیں، دکھی انسانیت کی خدمت کرنا ان کا خاص مشن ہے۔ وہ ماہرِ نفسیات اور سوشل ورکر کے طور پر بھی برطانیہ میں کافی مشہور ہیں۔
ان تمام باتوں کے باوجود قابلِ رشک، قابلِ قدر، قابل تعریف اور بطور خاص قابل ذکر امر یہ ہے کہ وہ عالمی شہرت یافتہ رباعی گو شاعرہ ہیں، دیارِ غیر میں رہ کر اردو زبان و ادب کی خدمت اور ترویج و اشاعت میں برسوں سے پیش پیش ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اردو زبان و ادب کو عالمی سطح پر مقبول عام بنانے میں عابدہ شیخ اور ان جیسے شاعروں اور ادیبوں کا نہایت اہم کردار ہے۔ اس لیے، اور اس لیے بھی کہ عابدہ شیخ کی شاعری کا معتدبہ حصہ رباعی پر مبنی ہے۔ اور مجھے اس صنف رباعی سے جذباتی اور فطری لگاؤ ہے۔ میری پی ایچ ڈی بھی رباعی ہی کے موضوع پر ہے۔ اس لیے میری ذمہ داری ہے کہ میں ان کے فن اور شخصیت پر ایک معیاری کتاب ترتیب دوں۔ اس کے لیے مجھے آپ تمام حضرات کے مخلصانہ تعاون کی اشد ضرورت ہے۔
میں یہاں مختصراً عابدہ شیخ کی مطبوعہ اور غیر مطبوعہ تصنیفات کا ذکر کرنا لازمی سمجھتا ہوں۔ ان کے تین شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ پہلی کتاب “دل ہی تو ہے” ان کی غزلوں کا مجموعہ ہے۔ اسی کتاب میں ان کی سب سے طویل اور مشہور غزل جو 101 اشعار پر مبنی ہے، شامل ہے۔ ان کی دوسری کتاب “بال و پر” (ایوارڈ یافتہ)ہے۔ اس کتاب میں ان کی غزلیں، قطعات اور تقریباً 200 رباعیات شامل ہیں۔ تیسری کتاب “انتخاب رباعیات عابدہ شیخ” ہے۔ اس کتاب میں ان کی 313 رباعیات شامل ہیں۔ اس کتاب کو خاکسار نے حال ہی میں ترتیب دیا ہے۔ یہ کتاب ہند و پاک دونوں ملکوں سے ایک ساتھ شائع ہوئی ہے۔
اس طرح عابدہ شیخ اردو دنیا کی سب سے معتبر، مستند اور زود گو شاعرہ ہیں۔ میری معلومات کے مطابق اردو رباعی کی تاریخ میں ان کے مقابلے کی کوئی دوسری رباعی گو شاعرہ نہیں ہے۔
ان کی چوتھی کتاب حمد اور نعت کا مجموعہ “عرفانِ جلال و جمال” پریس میں ہے جبکہ “ماورا” کے نام سے ان کی ایک ہزار سے زیادہ رباعیوں پر مبنی “کلیات رباعیاتِ عابدہ شیخ” بہت جلد منظر عام پر آنے والا ہے۔
اس لیے اردو ادب کے معتبر ناقدوں، پروفیسروں، مبصروں اور ریسرچ سکالرز سے انتہائی ادب کے ساتھ درخواست ہے کہ عابدہ شیخ کے فن اور شخصیت پر اپنی قیمتی تحریروں سے نوازیں۔ تاکہ ادب میں ان کا صحیح مقام و مرتبہ متعین ہو سکے۔
زیر ترتیب کتاب ‍”عابدہ شیخ: فن اور شخصیت” کا حصہ ہونے کے لیے مضمون یا تبصرے کا مطبوعہ ہونا لازمی ہے۔‌
جن کے پاس عابدہ شیخ صاحبہ کی مطبوعہ کتب نہیں ہیں وہ میرے واٹس ایپ نمبر 6205628961-0091 پر رابطہ کر کے ان کی کتابوں کی پی ڈی ایف کاپی آسانی سے حاصل کر سکتے ہیں۔

نوٹ: اس گشتی مراسلے کو ادب کے سنجیدہ اور معزز ناقدوں، مبصروں، پروفیسروں، شاعروں اور ریسرچ اسکالرز تک پہنچانے میں میری مدد فرمائیں۔ اسے زیادہ سے زیادہ شیئر کریں۔ آپ کا تعاون میری نظر میں اردو سے آپ کی بے لوث اور بے پناہ محبت کا ثبوت ہوگا۔ اور اس کے لیے میں دل سے آپ لوگوں کا ممنون ہوں گا۔

محتاجِ دعا
ڈاکٹر محمد اسلم پرویز اسلم
راج پور، بھاگلپور، بہار، انڈیا

error: Content is protected !!