غالب جدید شعرا کی مجلس میں

غالب جدید شعرا کی مجلس میں (کنہیالال کپور)

غالب جدید شعرا کی ایک مجلس میں
(یہ مضمون سنگ و خشت سے ماخوذ ہے)

دورِ جدیدکے شعرا کی ایک مجلس میں مرزا غالب کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ اس مجلس میں تقریباً تمام جلیل القدر جدید شعرا تشریف فرما ہیں۔ مثلاً۔ارشدؔ، ہراجیؔ، ڈاکٹر قربان حسین خالصؔ، میاں رقیق احمد خوگر، راجہ عہد علی خاں، پروفیسر غیظ احمد غیظؔ، بکرماجیت ورما، عبد الحی نگاہؔ وغیرہ وغیرہ۔ یکایک مرزا غالب ؔداخل ہوتے ہیں۔ ان کی شکل و صورت بعینہ وہی ہے جو مولانا حالیؔ نے ”یادگارِ غالب“میں بیان کی ہے۔ ان کے ہاتھ میں ”دیوان غالب“ کا ایک نسخہ ہے۔ تمام شعرا کھڑے ہو کر آداب بجا لاتے ہیں۔
غالب:حضرات میں آپ کا نہایت شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے جنت میں دعوت نامہ بھیجا اوراس مجلس میں مدعو کیا۔ میری مدت سے آرزو تھی کہ دورِ جدید کے شعراسے شرفِ نیاز حاصل کروں۔
ایک شاعر: رہنے بھی دیجئے اس بے جا تعریف کو۔ من آنم کہ من دانم۔
دوسرا شاعر:تشریف رکھئے گا۔ کہئے جنت میں خوب گزرتی ہے۔ آپ تو فرمایا کرتے تھے۔ ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن۔
غالب: (مسکراکر) بھئی جنت بھی خوب جگہ ہے۔ جب سے وہاں گیا ہوں۔ ایک شعر بھی موزوں نہیں کر سکا۔
دوسرا شاعر: تعجب! جنت میں تو آپ کو کافی فراغت ہے اور پھر ہر ایک چیز میسر ہے۔ پینے کو شراب، انتقام لینے کو پری زاد۔ اور اس پر یہ فکر کوسوں دور کہ
تیسرا شاعر: (بات کاٹ کر)سنائیے اقبالؔ کا کیا حال ہے۔
غالب: وہی جو اس دنیا میں تھا۔ دن رات خدا سے لڑنا جھگڑنا۔ وہی پرانی بحث
مجھے فکر جہاں کیوں ہو جہاں تیرا ہے یا میرا
پہلا شاعر: میرے خیال میں وقت کافی ہو گیا ہے۔ اب مجلس کی کاروائی شروع کرنی چاہیے۔
دوسرا شاعر: میں کرسی صدارت کے لیے جناب م۔ن۔ ارشد کا نام تجویز کرتا ہوں۔
(ارشد صاحب کرسی صدارت پر بیٹھنے سے پہلے حاضرین مجلس کا شکریہ ادا کرتے ہیں)
م۔ن۔ارشد: میرے خیال میں ابتدا مرزا غالب کے کلام سے ہونی چاہئے۔۔۔۔میں نہایت ادب سے مرزا موصوف سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنا کلام پڑھیں۔
غالب: بھئی جب ہمارے سامنے شمع لائی جائیگی تو ہم بھی کچھ پڑھ کر سنا دیں گے۔
م۔ن۔ ارشد: معاف کیجئے گا۔ مرزا۔ اس مجلس میں شمع وغیرہ کسی کے سامنے نہیں جائے گی۔ شمع کی بجائے یہاں پچاس کینڈل پاور کا لیمپ ہے۔ اس کی روشنی میں ہر ایک شاعر اپنا کلام پڑھے گا۔
غالب: بہت اچھا صاحب تو غزل سنئے گا۔
باقی شعراء: ارشاد۔
غالب: عرض کیا ہے ؎
خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو

ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے
(باقی شعرا ہنستے ہیں۔ مرزا حیران ہو کر ان کی جانب دیکھتے ہیں)
غالب: اجی صاحب یہ کیا حرکت ہے۔ نہ داد نہ تحسین۔ اس بے موقع خندہ زنی کا مطلب؟
ایک شاعر: معاف کیجئے مرزا ہمیں یہ شعر کچھ بے معنی سا معلوم ہوتا ہے۔
غالب: بے معنی؟
ہیرا جی: دیکھئے نا مرزا آپ فرماتے ہیں ؎ خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو۔ اگر مطلب کچھ نہیں تو خط لکھنے کا فائدہ ہی کیا اور اگر صرف معشوق کے نام کے ہی کے عاشق ہیں تو برباد کرنا ہی کیا ضرور سادہ کاغذ پر اس کا نام لکھ لیجئے۔
ڈاکٹر قربان حسین خالص:میرے خیال میں اگر یہ شعر اس طرح لکھا جائے تو زیادہ موزوں ہے۔
خط لکھیں گے کیوں کہ چھٹی ہے ہمیں دفتر سے آج
اور چاہے بھیجنا ہم کو پڑے بیرنگ ہی
پھر بھی تم کو خط لکھیں گے ہم ضرور
چاہے مطلب کچھ نہ ہو
جس طرح سے میری اک اک نظم کا
کچھ بھی تو مطلب نہیں۔
خط لکھیں گے کیوں کہ الفت ہے ہمیں
میرا مطلب ہے محبت سے ہمیں
یعنی عاشق تو ہیں تمہارے نام کے
غالب: یہ تو اس طرح معلوم ہوتا ہے۔ جیسے آپ میرے اس شعرکی ترجمانی کر رہے ہیں۔
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
ہیرا جی: جنوں! جنوں کے متعلق مرزا میں نے کچھ عرض کیا ہے اگر اجازت ہو تو کہوں۔
غالب: ہاں، ہاں۔ بڑے شوق سے۔
ہیراجی: جنوں ہوا۔ جنوں ہوا
مگر کہاں جنوں ہوا
کہاں ہوا، وہ کب ہوا
ابھی ہوا یا اب ہوا
نہیں ہوں میں یہ جانتا
مگر جدید شاعری
میں کہنے کا جو شوق ہے
تو بس یہی ہے وجہ کہ
دماغ میرا چل گیا
یہی سبب ہے جو مجھے
جنوں ہوا جنوں ہوا
غالب: (ہنسی کو روکتے ہوئے) سبحان اللہ کیا برجستہ اشعار ہیں۔
م۔ن۔ ارشد: اب مرزا، غزل کا دوسرا شعر فرمائیے۔
غالب: میں اب مقطع ہی عرض کروں گا۔ کہاہے ؎
عشق نے غالب ؔ نکما کر دیا

ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے
عبدالحی نگاہ: گستاخی معاف مرزا۔ اگر اس شعر کا پہلا مصرع اس طرح لکھا جاتا تو ایک بات پیدا ہوتی۔
غالب: کس طرح کا؟
عبدالحی نگاہ: عشق نے ہاں ہاں تمہارے عشق نے
عشق نے سمجھے؟ تمہارے عشق نے
مجھ کو نکمّا کر دیا
اب نہ اٹھ سکتا ہوں میں
اور چل تو سکتا ہی نہیں
جانے کیا بکتا ہوں میں
یعنی نکما کر دیا
تنا تمہارے عشق نے
گرتا ہوں اور اٹھتا ہوں میں
اٹھتا ہوں اور گرتا ہوں میں
یعنی تمہارے عشق نے
اتنا نکما کر دیا
غالب: (طنزاً) بہت خوب۔ بھئی غضب کر دیا۔
غیظ احمد غیظ۔ اور دوسرا مصرع اس طرح لکھا جا سکتا تھا۔
جب تک نہ مجھ کو عشق تھا
تب تک مجھے کچھ ہوش تھا
سب کام کر سکتا تھا میں
اور دل میں میرے جوش تھا
اس وقت تھا میں آدمی
اور آدمی تھا کام کا
لیکن تمہارے عشق نے
مجھ کو نکما کر دیا۔
غالب:واللہ کمال ہی تو کر دیا بھئی۔ اب آپ لوگ اپنا اپنا کلام سنائیں۔
م۔ن۔ ارشد: اب ڈاکٹر قربان حسین خالصؔ جو جدیدشاعری کے امام ہیں اپنا کلام سنائیں گے۔
ڈاکٹر خالصؔ۔ اجی ارشد صاحب میں کیا کہوں۔ اگر میں امام ہوں تو آپ مجتہد ہیں۔ آپ جدید شاعری کی منزل ہیں اور میں سنگ میل۔ اس لیے آپ اپنا کلام پہلے پڑھئیے۔
م۔ن۔ارشد: تو بہ توبہ! اتنی کسر نفسی۔ اچھا اگر مصر ہیں تو میں ہی اپنی نظم پہلے پڑھتا ہوں۔ نظم کا عنوان ہے۔ ”بدلہ“۔ عرض کیا ہے۔
آمری جان مرے پا س انگیٹھی کے قریب
جس کے آغوش میں یوں ناچ رہے ہیں شعلے
جس طرح دور کسی دشت کی پہنائی میں
رقص کرتا ہو کوئی بھوت کہ جس کی آنکھیں
کرم شب تاب کی مانند چمک اٹھتی ہیں
ایسی تشبییہ کی لذت سے مگر دورہے تو
تو کہ اک اجنبی انجان سی عورت ہے جسے
رقص کرنے کے سوال اور نہیں کچھ آتا
اپنے بے کار خدا کے مانند

دوپر کو جو کبھی بیٹھے ہوئے دفتر میں
خود کشی کا مجھے یک لخت خیال آتا ہے
میں پکار اٹھتا ہوں یہ جینا بھی ہے کیا جینا
اور چپ چاپ دریچے میں سے پھر جھانکتا ہوں

آمری جان مرے پاس انگیٹھی کے قریب
تا کہ میں چوم ہی لوں عارضِ گلفام ترا
اور اربابِ وطن کو یہ اشارہ کردوں
اس طرح لیتا ہے اغیار سے بدلہ شاعر
اور شبِ عیش گزر جانے پر
بہر جمع ورم دوام نکل جاتا ہے
ایک بوڑھے سے تھکے ماندے سے رہوار کے پاس
چھوڑ کر بسترِ سبخاب و سمور
(نظم سن کر سامعین پر وجد کی حالت طاری ہو جاتی ہے۔ ہیراجی یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں۔ یہ نظم اس صدی کی بہترین نظم ہے بلکہ میں تو کہوں گا کہ اگر ایک طرح سے دیکھا جائے تو اس میں انگیٹھی، بھوت اور دفتر تہذیب و تمدن کی مخصوص الجھنوں کے حامل ہیں)
(حاضرین ایک دوسرے کو معنیٰ خیز نظروں سے دیکھتے ہوئے زیر لب مسکراتے ہیں)
غالب: ارشد صاحب معاف کیجئے آپ کی یہ نظم کم از کم میرے فہم سے تو بالا تر ہے۔
غیظ احمد غیظ: یہ صرف ارشد پر ہی کیا منحصر ہے۔ مشرق کی جدید شاعری ایک بڑی حد تک مبہم اورادراک سے بالا تر ہے۔

م۔ن۔ارشد:مثلاً میرے ایک دوست کے اس شعر کو لیجئے۔
پاپوش کی کیا فکر ہے دستار سنبھالو

پایاب جو موج گزر جائے گی سر سے
اب بتائیے اس شعر کا کیا مطلب ہے؟
غالب: (شعر کو دُہرا کر) صاحب سچ تو یہ ہے کہ اگر چہ اس شعر میں سر اور پیر کے الفاظ شامل ہیں مگر باوجود ان کے اس شعر کا نہ سر ہے نہ پیر۔
م۔ن۔ارشد: اجی چھوڑئیے اس حرف گیری کو۔ آپ اس شعر کو سمجھے ہی نہیں مگر خیر اس بحث میں کیا رکھا ہے۔ کیوں نہ اب ڈاکٹر قربان حسین خالصؔ سے درخواست کی جائے کہ اپنا کلام پڑھیں۔
ڈاکٹر خالصؔ: میری نظم کا عنوان ہے۔ ”عشق“ عرض کیا ہے
عشق کیا ہے؟
اس نے یوں رو کر کہا
عشق اک طوفان ہے
عشق اک سیلاب ہے
عشق ہے اک زلزلہ
شعلہئ جوالہ۔ عشق
عشق ہے پیغامِ موت
غالب:بھئی یہ کیا مذاق ہے۔ نظم پڑھئیے۔ مشاعرے میں نثر کا کیا کام؟
ڈاکٹر خالص:(جھجھلاکر) تو آپ کے خیال میں یہ نثر ہے؟ یہ ہے آپ کی سخن فہمی کا عالم اور فرمایا تھا آپ نے ؎
ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں
غالب: میری سمجھ میں تو نہیں آیا کہ یہ کس قسم کی نظم ہے۔ نہ ترنم۔ نہ قافیہ۔ نہ ردیف۔
ڈاکٹر خالص: مرزا صاحب یہی تو جدید شاعری کی خصوصیت ہے۔ آپ نے اردو شاعری کو قافیہ اور ردیف کی فولادی زنجیروں میں قید رکھا تھا۔ ہم نے اس کے خلاف جہاد کرکے اسے آزاد کیا ہے اور اس طرح اس میں وہ اوصاف پیدا کئے ہیں جو محض خارجی خصوصیات سے کہیں زیادہ اہم ہیں۔ میری مراد رفعتِ تخیل۔ تازگیئ افکار اور ندرتِ فکر سے ہے۔
غالب: رفعت تخیل۔ کیا خوب۔ کیا پرواز ہے ؎
میں نے اک عاشق سے پوچھا، اس نے یوں رو کر کہا
ڈاکٹر خالص: (چڑ کر) عاشق رو کر نہیں کہے گا تو کیا قہقہہ لگا کر کہے گا؟ مرزا آپ یہ بھی نہیں جانتے کہ عشق اور رونے میں کتنا گہرا تعلق ہے۔
غالب: مگر آپ کو قافیہ اور ردیف ترک کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔
رقیق احمد خوگر: اس کی وجہ مغربی شعرا کا تتبع نہیں بلکہ ہماری طبیعت کا فطری میلان ہے۔ جو زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح شعر و ادب میں بھی آزادی کا جویا ہے۔ اس کے علاوہ وہ دور جدید کی روح، انقلاب کشمکش تحقیق، تجسس، تعقل پرستی اور جد و جہد ہے۔ ماحول کی اس تبدیلی کا اثر ادب پر ہوا ہے اور میرے اس نکتے کو تھیکرے نے بھی اپنی کتاب وینٹی فیئر میں تسلیم کیا ہے۔ چنانچہ اسی لئے ہم نے محسوس کیا کہ قدیم شاعری نافذ ہونے کے علاوہ روح میں وہ لطف کیفیت پیدا نہیں کر سکتی جو مثال کے طور پراس کی شاعری کا جوہر ہے۔ قدیم شعرا اور جدید شعرا کے ماحول میں زمین و آسمان کافرق ہے۔قدیم شعرا بقول مولانا آزاد حسن و عشق کی حدود سے باہر نہ نکل سکے۔ اور ہم جن میدانوں میں گھوڑا دوڑا رہے ہیں نہ ان کی وسعت کی انتہا ہے اور نہ ان کے عجائب و لطائف کا شمار۔
غالب: میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا۔
م۔ن۔ارشد: خوگر صاحب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم ایک نئی دنیا میں رہتے ہیں۔ یہ ریڈیو، ہوائی جہاز اور دھماکے سے پھٹنے والے بموں کی دنیا ہے۔ یہ بھوک، بیکاری، انقلاب اور آزادی کی دنیا ہے۔ اس دنیا میں رہ کر ہم اپنا وقت حسن و عشق گل و بلبل، شیریں فرہاد کے افسانوں میں ضائع نہیں کر سکتے۔ شاعری کے لیے اور بھی موضوع سخن ہیں۔ جیسا کہ ہمارے ایک شاعر نے کہا ؎
آج تک سرخ و سیہ صدیوں کے سائے تلے

آدم و حوا کی اولاد پہ کیا گزری ہے
موت اور زیست کی روزانہ صف آرائی میں

ہم پہ کیا گزرے گی، اجداد پہ کیا گزری ہے
یہ حسیں کھیت پھٹا پڑتا ہے جو بن جن کا

یہ ہر اک سمت پُراسرار کڑی دیواریں
یہ بھی ہیں ایسے کئی اور بھی مضموں ہوں گے۔
راجہ عہد علی خاں: بہت خوب ؎ یہ بھی ایسے کئی اور بھی مضموں ہوں گے، ایسے مضامین میں سے ایک مضمون”ڈاک خانہ“ ہے۔ جو میری اس نظم کاجو میں ابھی آپ کے سامنے پڑھوں گا۔ موضوع ہے۔
غالب:ڈاک خانہ؟
راجہ عہد علی خاں: مرزا اس میں حیران ہونے کی کیا بات ہے۔ سنئے عرض کیا ہے۔
ڈاک خانے کے ہے اندر آج اُف کتنا ہجوم
ڈالنے کو خط کھڑے ہیں کس قدر اُف آدمی
اِن میں ہر اک کی تمنا ہے کہ وہ
ڈال کر جلدی سے خط یا پارسل
بھاگ کر دیکھے کہ اس کی سائیکل
ہے پڑی باہر جہاں رکھ کر اسے
ڈاک خانے میں ابھی آیا تھا وہ خط ڈالنے
جا رہے ہیں خط چہار اطراف کو
بمبئی کو، مصر کو لندن کو کوہِ قاف کو۔
دیکھنا۔ آئی ہے اک عورت لفافہ ڈالنے
کون کہتا ہے کہ اک عورت ہے یہ
یہ تو لڑکا ہے۔ کسی کالج کا کہ
جس کے بال
خدو خال
اس قدر ملتے ہیں عورت سے کہ ہم
اس کو عورت کا سمجھتے ہیں بدل
اُف ہماری لغزشیں
ہے مگر کس شخص کا یہ سب قصور
کیا نظر میری نہیں کرتی ہے کام
جھٹپٹا سا ہو گیا ہے شام کا
یا ہمارے ہے تمدن کا قصور
کہ ہمارے نوجواں
ڈاک خانے میں ہیں جب آتے لفافہ ڈالنے
اس قدر دیتے ہیں وہ دھوکہ ہمیں
کہ نظر آتے ہیں ہم کو عورتیں
(زوروں کی داد دی جاتی ہے۔ ہر طرف سے مرحبا۔ بھئی کمال کر دیا، کے نعرے بلند ہوتے ہیں۔ مرزا غالب کی سراسیمگی ہر لمحہ بڑھتی جا رہی ہے)
ن۔م۔ارشد: اب میں ہندوستان کے مشہور شاعر پروفیسر غیظ سے درخواست کروں گا کہ وہ اپنے تازہ افکار سے ہمیں نوازیں۔
پروفیسر غیظ: میں نے تو کوئی نئی چیز نہیں لکھی۔
ہیراجی: تو پھر وہی نظم سنا دیجئے جو پچھلے دنوں ریڈیووالوں نے آپ سے لکھوائی تھی۔
پروفیسر غیظ: آپ کی مرضی تو وہی سن لیجئے۔ عنوان ہے ”لگائی“
فون پھر آیا دل زار! عنوان ہے ”لگائی“
سائیکل ہوگا، کہیں اور چلا جائے گا
ڈھل چکی رات اترنے لگا کھمبوں کا بخار
کمپنی باغ میں لنگڑانے لگے سرد چراغ
تھک گیا رات کو چلا کے ہر اک چوکیدار
گل کرو دامنِ افسردہ کے بوسیدہ داغ
یاد آتا ہے مجھے سرمہئ دنبالہ وار
اپنے بے خواب گھروندے ہی کو واپس لوٹو
اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا
(نظم کے دوران میں اکثر مصرعے دو دو بلکہ چار چار بار پڑھوائے جاتے ہیں اور پروفیسر غیظ بار بار مرزا غالبؔ کی طرف داد طلب نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ مرزا غالبؔ مبہوت ہیں)
م۔ن۔ارشد: حضرات میرے خیال میں یہ کوئی عشقیہ نظم نہیں ہے بلکہ اس میں شاعر نے ملک کے اینٹی فائشسٹ جذبے کو خوب نبھایا ہے۔
رقیق احمد: (سرگوشی کے انداز میں ہیراجی سے)بکواس ہے!
م۔ن۔ارشد: اب ہیرا جی اپنا کلام پڑھیں گے۔
ہیرا جی: میر ی نظم کا عنوان ہے۔ ”بینگن“
غالب: بینگن؟
ہیرا جی: بینگن۔ اگر آپ آم کی صفت میں قصیدہ لکھ سکتے ہیں تو کیابندہ بینگن پر نظم لکھنے کا حقدار نہیں۔
غالب: معاف کیجئے گا۔ نظم پڑھئے۔
ہیراجی: عرض کیا ہے۔ چیخل بینگن کی چھب نیاری
رنگ میں تم ہو کرشن مراری
جان گئی ہیں سکھیاں پیاری
رادھا رانی آہی گئی تو۔۔۔
کرشن کنہیا ڈھونڈھ رہے ہیں
لیکن میں تو بھول چکا ہوں
بینگن سے یہ بات چلی تھی
بھوک لگی ہے کتنی ہائے
جی میں ہے اک بھون کے بینگن
کھاؤں لیکن رادھا پیاری
رادھا کو اس کے دیکھ کے مجھ کو
یاد آتے ہیں کرشن مراری
اس لیے بھوکا رہنا بہتر۔
چونکہ میں ہوں پریم پجاری
(ہر طرف سے داد دی جاتی ہے بعض شعریٰ یہ کہتے ہوے سنے جاتے ہیں بھئی جدید شاعری ہیرا جی کا ہی حصہ ہے)
م۔ن۔ارشد: اب جناب بکرماجیت صاحب ورما سے استدعا کی جاتی ہے کہ اپنا کلام سنائیں۔
بکرما جیت ورما: میں نے حسب معمول کچھ گیت لکھے ہیں۔
غالبؔ: (حیران ہوکر) شاعر اب گیت لکھ رہے ہیں۔ میرے اللہ دنیا کدھر جار ہی ہے۔
بکرماجیت ورما: مرزا آپ کے زمانے میں گیت شاعری کی ایک باقاعدہ صنف قرار نہیں دیئے گئے تھے۔ دورِ جدید کے شعرا نے انہیں ایک قابلِ عزت صنف کا درجہ دیا ہے۔
غالبؔ: جی ہاں ہمارے زمانے میں عورتیں۔ بھانڈ، میراثی یا اس قماش کے اور لوگ گیت لکھاکرتے تھے۔
بکرما جیت: پہلا گیت ہے۔”برہن کا سندیس“عرض کیا ہے:
اڑ جا دیس بدیس رے کوّے اڑ جا دیس بدیس
سن کر تیری کائیں کائیں
غالب: خوب۔ سن کر تیری کائیں کائیں!
بکرما جیت ورما: عرض کیاہے
بن کرتیری کائیں کائیں
آنکھوں میں آنسو بھر آئیں
بول یہ تیرے من کو بھائیں
مت جانا پر دیس رے کوّے اڑ جا دیس بدیس۔
م۔ن۔ ارشد: بھئی کیا اچھوتا خیال ہے۔ پنڈت صاحب۔ میرے خیال میں ایک گیت آپ نے کبوتر بھی لکھا تھا۔ وہ بھی مرزا کو سنا دیجئے۔
بکرما جیت: سنئے پہلا بند ہے:
بول کبوتر بول!
دیکھ کوئلیا کوک رہی ہے
من میں میرے ہوک اٹھی ہے
کیا تجھ کو بھی بھوک لگی ہے
بول غڑغوں بول۔ کبوتر
بول کبوتر، بول
باقی شعرا: (یک زبان ہو کر)بول کبوتر۔بول کبوتر۔ بول
(اس اثنا میں مرزا غالب نہایت گھبراہٹ اور سراسیمگی کی حالت میں دروازے کی طرف دیکھتے ہیں)
بکرما جیت ورما: اب دوسرا بند سنئے:
بول کبوتر بول!
کیا میرا ساجن کہتا ہے
کیوں مجھ سے روٹھا رہتا ہے
کیوں میرے طعنے سہتا ہے
بھید یہ سارے کھول کبوتر
بول کبوتر بول!
(یک زبان ہو کر) بول کبوتر۔ بول کبوتر۔ بول کبوتر۔ بول
(شوروغل کی تاب نہ لا کر مرزا غالب بھاگ کر کمرے سے باہر نکل جاتے ہیں)

error: Content is protected !!