گلزار نسیم کا خلاصہ

گلزار نسیم

¦زمانہ تصنیف: 1254ھ یعنی 1839۔ محمد شاہ کے عہد میں۔
¦شائع: 1844۔ ¦مرتب: رشید حسن خاں
¦ بحر: بحر ہزج مسدس اخرب مقبوض مقصور۔ مفعولن مفاعلن فعولن۔
¦ اس مثنوی میں مافوق الفطرت عناصر زیادہ ہیں۔
¦ اس میں رعایت لفظی کا استعمال زیادہ ہوا ہے۔
¦ اس مثنوی کی کہانی ’’قصہ گل بکائولی‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔
¦ اہم کردار: تاج الملوک ، زین الملوک ، گل بکائولی ، محمودہ ، فیروز، مظفر ، روح افزا ، گلشن آرا ، جمیلہ ، حمالہ، دلبر، راجہ نل، ساعد ، حسن آرا ، راجہ اندر ، چتراوت ، چترسین ، بہرام ، مالن حور۔

گلزار نسیم کا خلاصہ

گل بکاولی کے قصے میں تاریخی واقعیاور افسانے کے عناصر کا امتزاج ملتا ہے۔ مدھیہ پردیش کے منڈلہ ضلع کی رام گڑھ تحصیل میں امرکنٹک مقام پرنربداندی کے منبع کے پاس ایک بہت بڑی عمارت لکھا پتریا کا محل ہے جودلبربیسواکا قصر تھا۔ کوشش کے باوجود اس جگہ تک کو نہیں پہنچ سکا ہے، لیکن اس نواح سے گل بکاولی حاصل کرنے میں کامیابی ضرور حاصل ہوئی ہے۔ یہ پھول قدرے زردی مائل، سفید اورخوشبو دار ہوتا ہے اوراس کاعروق آشوب چشم کے لیے مفید ہوتا ہے۔ پنڈت دیا شنکر نسیم نیمثنوی گلزار نسیم میں اس قصے کو اس طرح بیان کیا ہے۔
پورب میں زین الملوک نام کا ایک بادشاہ رہتا تھا، اس کے چار بیٹے تھے۔ پانچویں بیٹے تاج الملوک کی ولادت پرنجومیوں نے بتایا کہ اس کے دیدار سیبادشاہ کی بینائی جاتی رہے گی۔ ایک دن شکارگاہ سے آتے ہوئے بادشاہ نے تاج الملوک کو دیکھ لیا اوراس کی بینائی جاتی رہی۔ تاج الملوک کو گھرسے نکال دیا گیا۔
بادشاہ کے اندھا ہوجانے کا چرچا ہوا تو ایک بوڑھے سرمہ ساز نے بتایا کہ گل بکاولی کے لگانے سے بینائی واپس آجائے گی۔ چاروں شہزادے گل بکاولی کی تلاش میں نکلے، تاج الملوک نے جنگل میں شاہی قافلہ دیکھ کر ایک لشکری سے پوچھا کہ یہ لوگ کہاں جارہے ہیں ؟ لشکری نے اسے بتایاکہ زین الملوک بادشاہ کے چاروں بیٹے گل بکاولی کی تلاش میں نکلے ہیں، کیوں کہ اس کے لگانے سے بادشاہ کی آنکھوں کی روشنی واپس آجائے گی۔ وہ بھی خاموشی سے لشکر کے ساتھ ہولیا۔
چاروں شہزادے فردوس نام کے ایک مقام پر پہنچے۔ وہاں دلبر بیسواکی محل سرا تھی۔ وہ مال دار لوگوں کوپھانس لاتی تھی اور چوسر میں فریب کر لوٹتی تھی۔ وہ ایک پالتوبلّی کیسرسیچراغ دان کا کام لیتی تھی اور اس نے چوہوں کو مہرے الٹ پلٹ کر نانکاسکھارکھاتھا۔ وہ جب بازی ہارنے لگتی توبلی دییکو اور چوہے پاسوں کو اْلٹادیتے۔چاروں شہزادے چوسرمیں ہار کر اس کے یہاں قید ہو گئے۔
تاج الملوک کوکئی دنوں تک شہزادوں کی خبرنہ ملی ، تو وہ اْن کی تلاش میں نکلا۔ دلبر بیسواکے باغ کے پاس اسے ایک دایہ ملی،جس کابیٹا گم ہوگیا تھا۔ وہ شکل و صورت میں تاج الملوک سیملتاتھا، اس لیے وہ اْسے بیٹابناکر اپنے گھرلے آئی۔ اُدھرسے ایک جواری دوسرے جواری سے کہتا ہوا گزراکہ تم ہمیں کیافریب دوگے؟ نہ ہم شہزاے، تم بیسوا۔یہ سْن کر تاج الملوک نے دایہ سے بیسوا کے بارے میں پوچھا۔ دایہ نے اْسے دلبربیسوا کی فریب کاری کے حالات بتائے۔تاج الملوک نے روپیہ پیسہ جمع کیا، چوسر کا کھیل سیکھا اور ایک نیولا اپنے ساتھ لے کر دلبر بیسوا کی محل سرا میں پہنچا۔ رات میں چوسر کا کھیل شروع ہوا۔ نیولے کی موجودگی میں بلی اور چوہوں کی ایک نہ چلی، دلبر بیسوابازی پر بازی ہار تی گئی ، جب تمام نقد وجنس ہارچکی تو اس نے خود کود انوپرلگادیا۔ بالآخر ہار کر عاجزی سے بولا کہ میاں! تم جیتے میں ہاری میں آپ کی لونڈی ہوں، مجھے اپنی خدمت میں قبول کر لیجیے۔ تاج الملوک نے اسے قبول کرلیا اورکہا کہ یہ مال ،یہ زر،یہ جیتے بندے تو ابھی اپنے پاس رکھ میں باغ ارم کو جا رہا ہوں۔ دلبربیسوا نے کہا کہ باغ ارم تو پریوں کا ٹھکانا ہے انسان اور پری کاکیامقابلہ؟ تاج الملوک نے کہاکہ پری کی چشم میں بھی جائے مردم ہے۔
تاج الملوک وہاں سے چلا تو ایک جنگل میں پہنچا جس کی سرحد باغ ارم سے ملتی تھی۔ وہاں کا پاسبان ایک خوفناک دیوتھا۔ دیو کئی دنوں کا بھوکا تھا۔ تاج الملوک اسکے ہاتھ لگا تو وہ سوچنے لگا کہ اب میں اِسے کھائوں گا۔ شہزادہ خود کو موت کے منہ میں پاکر دہل گیا۔ خدا کی شان کہ ادھرسے میدا، گھی اور شکر سے لدے کئی اونٹ جارہے تھے۔ دیو لپک کر انہیں مارلایا یہ دیکھ کر شہزادیکے دل میں خیال آیا کہ دیو کوحلوا بناکر کھلایا جائے ، کیوں کہ جو گْڑ سے مر سکتا ہو،اسے زہر نہیں دینا چاہیے۔ اس نے حلواے کی ایک کڑھائی پکاکر دیو کو کھلائی۔ دیو نے خوش ہوکر کہا ؛مانگ ، کیا مانگتا ہے؟ شہزاد نے قول لے کر باغِ ارم میں جانے کی خواہش ظاہرکی۔ دیو نے کہا کہ باغ ارم میں تو اندیشے کا بھی گزر ممکن نہیں۔ میں قول ہار چکا ہوں ورنہ تیری جان کی خیرنہ ہوتی۔ دیو نے ایک ٹیکرے پر جاکر اپنے بھائی کو آواز دی۔ وہ صدائے بازگشت کی طرح آیاتودیونے اس سے کہاکہ میں اس نوجوان سے قول ہار چکا ہوں، ورنہ تیری جا کی سیر کا مشتاق ہے۔ اس کارخیر میں تعاون کرو۔ اس نے اپنی چھوٹی بہن حمّالہ دیونی کے نام اسے خط دیا کریہ آدم زادمیر اپیارا ہے۔ اس کا باپ اندھا ہوگیا ہے اس کے علاج کے لیے گل بکاولی مطلوب ہے۔ ‘‘
تاج الملوک خط لے کرحمّالہ دیونی کے پاس گیا۔ وہ کہیں سے ایک لڑکی محمودہ کو اڑالائی تھی۔ پہلے اس نے ان دونوں آدم زادوں کو ملادیا پھردیووں کو حکم دے کر ایک سرنگ تیار کرائی اور تاج الملوک اس سرنگ کی راہ باغِ ارم میں داخل ہوگیا۔ اس نے گلِ بکاولی حوض میں سے توڑ لیا۔ بکاولی بالادری (بارہ دری) میں سورہی تھی۔ وہ اسے دیکھتے ہی اس پر عاشق ہوگیا لیکن اس نے اسوقت اس سوئے ہوئے فتنے کوجگانا اوربلاکو گلے لگانا مناسب نہ سمجھا۔ اپنی انگوٹھی اس سے بدل کرلوٹ آیا۔
صبح کو مرغِ سحر کی بانگ سے بکاولی جاگی اور حوض پر منھ دھونے آئی تو دیکھا کہ اْس کاگل تو ہواہْوا ہے، یہاں اور ہی گْل کھِلا ہْوا ہے۔ گھبرائی اور جھنجھلائی کہ میراگْل کون لے گیا؟ اس پرضرور کسی کاہاتھ پڑا ہے، ورنہ بوہو کے تو وہ اْڑ نہیں سکتا تھا۔ اس کے غصے سے خواصیں بیدکی طرح کانپنے لگیں اور ایک سے بھید پوچھنے لگیں۔ پھول کے غم میں بکاولی کارنگ بدلنے لگا۔ انگوٹھی کوبدلا ہوا پاکر اسے معلوم ہوگیا کہ یہ لوٹ کسی انسان کی ہے۔ وہ جنون میں خون کے آنسو روئی۔ آخر کار آندھی کی طرح اٹھی اور اپنے پھول کی تلاش میں نکل پڑی۔
تاج الملوک گل بکاولی لے کر محمودہ کے پاس پہنچا۔ دونوں نے حمالہ دیونی سے وطن جانے کی رخصت مانگی۔حمالہ نے تخت منگادیے۔ اور اپنے دو بال دیے کہ انھیں آگ دکھاؤ گے تومیںحاضر ہو جاؤں گی۔ دیوانھیں تخت پر بٹھاکر دلبر بیسوا نے تاج الملوک کے آنے کی خوشی میں قیدیوں کو رہا کرنا چاہا تو تاج الملوک نے اپنے چاروں بھائیوں کو دغوادیا۔ محمودہ اور دلبرکو ساتھ لے کر وہ کشتی کے ذریعے اپنے وطن کے لیے روانہ ہوا۔ اس نے بھیڑ کو ساتھ رکھنا مناسب نہ سمجھا، جوگی کا بھیس بناکر اورپھول ساتھ لے کر وہ دوسرے راستے سے وطن کے لیے روانہ ہوا۔ ایک تکیے میں جاکر اس نے پھول کو ایک اندھے فقیر کی آنکھوں پر آزمایا۔ اندھے کی آنکھیں روشن ہوگئیں۔ کچھ دور اسے وہ چاروں شہزادے ملے۔ وہ اپنی ذلت وخواری سے پریشان تھے کہ گل لینے گئے تھے داغ لے کر آئے ہیں۔ باپ کے سامنے کس منھ سے جائیں گے؟ انھوں نے سوچا کہ کوئی اور پھول لے جائیں گے اور سر ساز کو بے وقوف ٹھہرائیں گے۔ انھوں نے ایک پھول لیا اورجب جوگی (تاج الملوک ) مِلا تو اس سے کہا کہ ہم گل بکائولی لائے ہیں۔ یہ اندھے پن کا علاج ہے۔ جوگی نے کہا کہ تمہاری ڈینگ فضول ہے۔ گل بکائولی یہ ہے۔ اس نے جیب سے گل بکائولی نکالا تو چاروں اس پرٹوٹ پڑے اور اس سے گل بکائولی چھین لیا۔ وہ پھول لے کر فورا بادشاہ کے پاس پہنچے۔ گل بکائولی لگاتے ہی بادشاہ کی بینائی واپس آگئی۔
بکائولی اپنے پھول کی تلاش میں پھرتے پھرتے ایک شہر میں پہنچی وہاں خوشی کے چہچہے دیکھ کر اسے خیال ہوا کہ اس کا پھول شاید یہیں ہے۔ وہ جادو کے زور سے آدم زاد بن کر لوگوں میں مل گئی۔ بادشاہ کی سواری آرہی تھی۔ اس کا حسن وجمال دیکھ کر بادشاہ نے اس سے پوچھا کہ تو آدم ہے؟ پری ہے؟ کون ہے؟ گھربار کہاں ہے ؟ بکاولی نے کہا: فیروز کابیٹا فرخ ہوں۔ فقیر کا کوئی گھربار نہیں ہوتا۔ بادشاہ نے فقیری کا سبب پوچھا تو بکاولی نے کہا قناعت۔ زین الملوک اس کی باتوں پر فریفتہ ہوگیا۔ چہرے سے امیر زادہ لگتا ہی تھا، گھر لاکر اسے وزیر بنایا۔ بکاولی کوچاروں شہزادے سادہ لوح لگے، تاج الملوک کا ذکرآیا تو اس نے سوچا کہ گل بکاولی وہی لایاہوگا۔ تاج الملوک گل بکاولی کے چھن جانے پر راضی بہ رضا ہورہا۔ اس نے سوچا کہ باغ ارم جیسا مکان بناکر وہاں اپنی پریوں (دلبر، محمودہ) کے ساتھ رہا جائے۔ اس نے بالوں کوآگ دکھاکر حمالہ دیونی کوبلایا اور اس سے کہا کہ اس جنگل میں باغِ ارم جیسا مکان بنایاجائے۔ حمّالہ نے دیووں کو بلاکر حکم دیا کہ یہ ویرانہ آبادکردیاجائے۔ دیووں نے آن کی آن میں محلاورگلشن نگارین تعمیر کردیے۔ دیوآدمی بن کر ادھر ادھر جاتے اور لوگوں کو پکڑ پکڑ کرلاتیاورآباد کرتے۔ جو اِدھرآتا، وہ پھر نہ جاتا۔ بادشاہ کا شہر اجڑنے لگا۔ وہ شہزادوں، امیروں، وزیروں کے ساتھ گلشن نگاریں گیا۔ تاج الملوک نے مے وجامونْقل وخوان الوان،چکنی ڈلی، الائچی ، پان اور عطر سے تواضع کرنے کے بعد بادشاہ سے پوچھا کہ تاج شہی کے نگیں (فرزند) کتنے ہیں؟ بادشاہ نے بتایا کہ یہ چار عنصرخلافت ہیں۔ ایک پانچواں بھی تھا جس کے دیدار سے میری آنکھوںکی روشنی چلی گئی تھی۔ یہ گل بکاولی لاے تو اس کے لگانے سے روشنی واپس آئی۔ تاج الملوک نے پوچھا کہ یہاں کوئی اس کی صورت سے واقف ہے ؟ اتفاقاً وہاں اس کا کوکاموجود تھا۔ اس نے بادشاہ سے کہا کہ صورت، رنگ ، روپ ، لہجہ ، گفتگو سبھی میں یہ تاج الملوک سے ملتا ہے۔ تاج الملوک نے بادشاہ کی قدم بوسی کی۔ بادشاہ نے اسے سینے سے لگالیا۔ اس نے کہا کہ آپ کی دولونڈیاں(دلبر اورمحمودہ) بھی پابوسی کوحاضر ہونا چاہتی ہیں۔ بادشاہ نے فرمایا کہ بلائیے۔ سبھی غیروہاں سے اٹھ گئے۔ تاج الملوک اندر گیا اوردلبر ومحمودہ کو سکھا کے لایا کہ جب میں تمھیں آنے کے لیے کہوں تو کہنا کہ ان چاروں داغے ہوئے غلاموں کو بھی اٹھوادیجیے تو ہم حاضر ہوں گی۔ انھوں نے یہی کہا کہ چاروں شہزادوں کا رنگ اْڑ گیا۔ بادشاہ بھی دنگ رہ گیا۔ تاج الملوک نے تمام واقعات بیان کیے اور وہ انگوٹھی بھی دکھائی جس سے وہ چاروں شہزادے داغے گئے تھے۔ وہ اٹھ گئے تو محمودہ اور دلبر حاضرہوئیں۔ بادشاہ نے انھیں خلعت وخطاب سے نوازا۔ بکاولی جو اس وقت فرخ کے نام سے وزیر بنی ہوئی تھی ، تمام حالات سن کر سوچنے لگی کہ میں بھی اسی وقت اپنی حقیقت بیان کردوں ، لیکن یہ سوچ کر کہ ابھی جلدی کیا ہے ، اسسے پھر سمجھیں گے ، خاموش ہوگئی۔
بکاولی جادوسے پری بن کر باغ ارم میں پہنچ گئی۔ اس نے وہاں سے تاج الملوک کو خط لکھا : تو مجھ جیسی پری کوجْل دے کرگل بکاولی لے گیا۔ میں تیرے لئے بے رخ ہوئی، فرخ بنی، تجھے تیرے باپ سے ملایا تونے مجھے راغوں پر داغ دیے ہیں۔ اب تو جلدی یہاں آجا ورنہ میں بہت شوروشر کروں گی‘‘۔
خط اس نے سمن پری کودیا اور کہا کہ پورب کی طرف گلشنِ نگاریںکوجا، انگوٹھی کی نشانی سے خط ددینا اورجواب لانا۔سمن پری نے گلشنِ نگاریں میں جاکر تاج الملوک کوخط د یا۔تاج الملوک نے وہیں اس کا جواب لکھا: اے باغ ارم کی دختِ گل فام! فرخ لقب اور نامہ وطلب کے صدقے ! اگر میں نے جی چرایا تھا تو، تو نے کیوں منھ چھپایا۔ میری زندگی منظور ہے، تو حمالہ کو بھیج کہ وہ آکر مجھے لے جائے۔ اگر اسے نہ بھیجا تو میں جان دے دوں گا‘‘۔ بکاولی نے خط پڑھ کر حمالہ دیونی کو بھیجا۔ حمالہ اسے باغِ ارم میں بکاولی کے پاس لائی۔ بکاولی نے غضب ناک ہوکر پوچھا۔ کیوں جی ! پھول تمھیں لے گئے ہو؟ تم صرف پھول ہی نہیں لے گئے، میرے تن بدن کے بھی محرم ہو۔ یہ تمہاری خطا ہے یا نہیں؟ اور کہو کہ تمہاری کیا سزا ہے ؟ اس نے کہا کہ میں تو تمہاری رضا میں راضی ہوں۔ عاشق کی سزا یہ ہے کہ اسے مْشکیں زلفوں سے کسوائو، ان کالے ناگوں سے ڈسوائو۔’’ بکاولی نے اس کی باتیں سن کر اسے سینے سے لگالیا اور کہا کہ میں تیرا منھ دیکھ چکی ہوں، اب کسی اور کو منھ نہ دکھائوں گی۔ بہر حال دونوں عیش وعشرت سے دن گزارنے لگے۔ ایک خواص نے بکاولی کی ماں جمیلہ کی خبریں پہنچائیں۔ جمیلہ نے آکر دونوں کو عیش وعشرت میں محودیکھا تو وہ شعلہ سالپک کرگری۔ اس نے چنگال مار کرتاج الملوک کودریائے طلسم میں ڈال دیا اور بکاولی کو ایک مکان میں قید کردیا۔
قید میں بکاولی ہردم سنسنان ودم بخود رہتی تھی۔ بھوک وپیاس کو بس میں کیے ہوئے تھی۔ اس طرح بے خوروخواب رہنے سے اس کی طاقت زائل ہوگئی۔ اس کی پاسبان پریوں نے اسے سمجھایا کہ تو اس آدم زاد کو بھلادے تووہی گھر، وہی ہم، وہی تم ،بکاولی جھنجھلاکربولی کہ بس! اب اگر تم ایک کہوگی تو میںدس کہوں گی۔
تاج الملوک دریائے طلسم میں گر کر جو اْبھرا تو ایک سنسان جنگل میں تھا۔ ایک پیڑ پر دوپرندے بیٹھے ہوئے تھے مادہ اپنے نر سے کہہ رہی تھی کہ یہاں کاطلسم کسی طرح نہیں کھلتا۔ نر نے کہا: یہاں کا طلسم طْرفہ تر ہے۔ سامنے حوض پر جوپیڑ ہے، خواص میں وہ طوبیٰ سے بھی زیادہ ہے۔ اس پر ایک سانپ رہتا ہے جو کسی کے مارے نہیں مرتا۔ لیکن یہ بندئہ خدا اْس حوض تک چلاجائے۔ جب سانپ اِس پر لپکے تو یہ پانی میں ڈبکی لگائے۔ پانی سے توتابن کر نکلے گا۔ اڑکر اسی پیڑ پر جابیٹھے۔ پیڑ کی ایک ڈال ہری ہے اور اس پر سبز اور لال دوپھل لگے ہیں۔ لال پھل کھاکر وہ پھر انسان بن جائے گا۔ سبز پھل جب تک پاس رہے گا، اس پر کوئی ہتھیار کارگر نہ ہوگا۔ اس پیڑ کی لکڑی پاس رہے گی تو سخت سے سخت دشمن بھی موم ہوجائے گا۔ وہ اسے کاندھے پر رکھ کر دونوں ہاتھوں سے پکڑلے، تو پرندے کی طرح پرواز کرنے لگے گا۔ چھال کی ٹوپی پہنے، تو ساری دنیا کو دیکھے گا، مگر اسے کوئی نہ دیکھ سکے۔ اس کے پتے زخموں کو دم بھر میں بھردیتے ہیں۔ اس کا گوند جب تک منھ میں رہے گا، بھوک پیاس نہ لگے گی۔‘‘ یہ باتیں سن کر تاج الملوک اْس حوض کی طرف چلا۔ سانپ اْس کی طرف چلا تو اس نے نے پانی میں ڈبکی لگائی۔ نکلا تو توتا بن کر اس پیڑ پر جا بیٹھا۔ لال پھل کھاکر انسان بن گیا اور اس پیڑ سے پھل گوند ، چھال اور لکڑی لے کر اپنی راہ لی۔ لکڑی کندھے پررکھی تواڑنے لگا۔ اْس نے دیکھا کہ ایک حوض کے کنارے ایک پری بیٹھی فوارے کی طرح رورہی تھی۔ اس پری نے بتایا کہ وہ فردوس کے بادشاہ مظفر کی بیٹی روح افزا ہے۔ اپنی چچیری بہن بکاولی کی بیمار پرسی کے لیے باغ ارم کوجارہی تھی کہ ایک دیوراستے سے اسے پھانس لایا۔ بکاولی کانام سنتے ہی تاج الملوک رونے اور سردْدھننے لگا۔ روح افزا بولی کہ مجھے رہائی مل جاتی تو میں تیرے زخم دل پر مرہم رکھتی۔ شہزادے نے کہا تو میرے ساتھ چل ، روح افزا بولی کہ کہاں انسان اور کہاں دیو ، دونوں کا کیا مقابلہ؟ اس نے کہا کہ توجی نہ بجھا۔ دیو اگر آگ ہے تو انسانی پانی ہے۔ دونوں بکاولی کے وطن پہنچے۔ روح افزا نے اپنے والدین سے دیووں کی سرکشی اور تاج الملوک کی بہادری کی بات کہی۔ روح افزا کی ماں حسن آرا اور باپ مظفر دونوں تاج الملوک کے قدموں پر گرپڑے کہ تو نے ہماری حرمت بچائی۔ تم اب ہمارے مہمان ہو، آرام سے رہو، کھائو پیو۔ اس نے کہا کہ اِس وقت بھوک ہے اور نہ کھانے ہی میں کچھ مزا رہا ہے۔ سیاح کو قیام سے کیا کام ؟ رمتا جوگی اور بہتا پانی اچھے ‘‘۔
روح افزا کی بازیابی کی خوش خبری ارم تک پہنچی تو جمیلہ (بکاولی کی ماں جمیلہ کی چچی) مبارکباد دینے کے لیے تیار ہوئی۔ بکاولی نے ساتھ جانے کے لیے منت سماجت کی۔ ماں نے اس کی زار نالی سن کر اسے زنجیروں سے نکالااور دونوں تخت پر بیٹھ کر فردوس میں پہنچیں، ایک دوسرے سے ملیں ، خوش ہوئیں۔ جمیلہ رخصت ہونے لگی تو روح افزا نے کہا کہ مچی جان ! بکاولی کو کچھ دنوں کے لیے یہاں چھوڑ دیجیے۔ جمیلہ نے کہا: اچھا میں ساتویں دن آکر لے جائوں گی۔ روح افزا گل گشت کے لیے باغ میں لے گئی۔ وہاں تاج الملوک موجود تھا۔ دونوں نے اپنی داستانِ درد سنائی۔ ساتویں دن جمیلہ آکر بکاولی کولے گئی۔ روح افزا نے اپنی ماں حسن آرا سے کہا کہ مہمان کے احسان کا بدلہ احسان ہی سے چکایا جاسکتا ہے۔ یہ جوگی، بکاولی کے عشق کاروگیہے۔ ہمیں دونوں کی شادی کے لیے بکاولی کے والدین کو رضامند کرنا چاہیے۔ حسن آرا کو یہ تجویز پسند آئی تو اس نے ایک مصّور کو بلاکرتاج الملوک کی تصویر بنوائی۔ تصویر لے کر وہ باغِ ارم میںپہنچی اور بکاولی کے جوان ہونے کاذکر چھیڑ کر اس کی شادی کی بات چلائی۔ جمیلہ نے کہا ؛ بہن ! تم سے کیا چھپائوں۔ میری بکاولی کو بشر کا سودا ہے، اور تم جانتی ہو کہ انسان اور پری یعنی پانی اورآگ کویک جانہیں کیا جاسکتا۔ حسن آرا بولی کہ جب پری کا دل انسان پرآگیا ہے تواس میں کوئی کوئی مضائقہ نہیں۔ آخر حضرت سلیمان بھی تو انسان ہی تھے۔ طے ہوا کہ رات کو فیروز شاہ کے سامنے بات چھیڑی جائے۔ فیروز شاہ نے بکاولی کوبلاکر تاج الملوک کی تصویر دکھائی تو وہ شرمائی اورلجائی۔ ساعت دیکھ کر دونوں کی شادی کردی گئی۔ تاج الملوک اوربکاولی رخصت لے کرگلشنِ نگاریں پہنچے۔ محمودہ اوردلبر نے انھیں خوش آمدید کہا۔ وہ عیش عشرت سے دن گزاررہے تھے کہ ایک دن راجا اندر نے بکاولی کے بارے میں پوچھا۔ پریوں نے اسے بتایا کہ بکاولی نے ایک انسان سے شادی کرلی ہے۔ وہ خفا ہو کر بولا کہ جائو اور جس حال میںہو ، بکاولی کواٹھا لائو۔ پریاں گلشنِ نگاریں میں آئیں اوراسے ساتھ لے گئیں۔ راجا اندر نے اسے غضب ناک نظروں سے دیکھ کر کہا کہ اِس سے انسان کی بوآتی ہے۔ اس کو آگ دکھائو۔ اسے آگ میں ڈالاگیا۔ ایک عیسیٰ نفس پری نے چھینٹے مار کر اسے دوبارہ زندہ کیا۔ بکاولی اِندر سبھا میں ناچنے اور گانے لگی۔ راجا اندر نے اسے حکم دیا کہ اسی طرح روزانہ آکر ناچا گایا کرو۔ وہ گلشن نگاریں میں آکر اپنی سیج پر سوگئی۔ دوسری رات تاج الملوک جاگا تو وہاںبکاولی موجود نہ تھی۔ بکاولی لوٹی تو وہ خاموش رہا۔ لیکن اگلی رات وہ جاگتا رہا۔ پریاں اسے لینے آئیں تو وہ پریوں کے تخت کاپایہ پکڑ کرسائے کی طرح ساتھ ہولیا۔ اندر سبھا میں پہنچ کربکاولی نے گانا اور ناچنا شروع کیا۔ اس کا رقص خوش نماتھا اور گانا تو ایساتھا کہ گویا خودراگنی آکھڑی ہوئی ہے۔ سنگت کاپکھاوجی تھکا ہوا تھا۔ تاج الملوک نے اس سے طبلہ سنبھال لیا۔ محفل خوب رنگ پر اائی تو راجا اندر نے پکھاوجی کو نولکھاہار بخشا۔ محفل ختم ہوتے ہی وہ تخت کے نیچے چھپ گیا۔ اور گلشنِ نگاریں کو پہنچا۔ صبح کو وہ ہنستا مسکراتا اٹھا تو بکاولی نے اس کے بلا سبب ہنسنے مسکرانے کاسبب پوچھا۔ اس نے کہا کہ وہ ایک خواب دیکھ رہاتھا۔ تم جانتی ہو کہ وہ نولکھار جس پکھاوجی کودیا گیاوہ کون تھا؟ بکاولی بولی کہ میں وہاں جاکر جلی توغم نہیں۔ کہیں تم پر آنچ نہ آئے۔ میرے جلنے کی فکر نہ کرو۔ تم وہاں ہرگز نہ جائو‘‘۔ تاج الملوک نے کہا یہ ہرگز نہیں ہوسکتا۔ میں تم سے بھی دو قدم آگے رہوں گا۔ اگلی رات وہ بھی ساتھ گیا۔ بکاولی اسے سنگت کاپکھاوجی بناکر محفل میں لائی۔ بکاولی نے اپنے کمالِ فن کا مظاہرہ کیا تو راجا اندر خوش ہوکر بولا :مانگ! کیا مانگتی ہے ؟ بکاولی نے اسی پکھاوجی (تاج الملوک ) کو دکھا کر مانگا۔ پری نے پشر کو مانگا تو راجا اندر نے غضب ناک ہوکر اسے سراپ دیا: تیرا آدھا جسم پتھر کا ہوجائے۔ کچھ عرصہ یہ سختی جھیلے ، اور پھر خاک ہوجائے۔ تب بشر کے روپ میں نمودار ہو۔ بارہ برس کے بعدتجھے پھر پری کا جسم ملے۔ اس وقت تو جہاں چاہے ، جائے اور تو اس سے اور وہ تجھ سے ملے۔ یہ سراپ سْن کر بکاولی روئی اور تاج الملوک تڑپنے لگا۔ بکاولی پری تھی۔ اْڑ گئی۔ تاج الملوک بشر تھا، زمین پر گرا۔ وہ جاگا تو پاس مین ایک چشمہ تھا۔ جہاں کچھ پریاں نہارہی تھیں۔ بشر کو دیکھتے ہی کھلکھلاپڑیں۔ وہ بولین کہ یہ وہی پکھاوجی ہے جس پر بکاولی عاشق ہے۔ تاج الملوک نے کہا؛ خدارا بکاولی کاپتا بتائو۔ پریوںنے کہاکہ راجا اندر کے غضب سے بکاولی آدھی پری، آدھا بْت بن کر سنگل دیپ کے ایک مٹھ میںمقیم ہے۔ وہ اْسے اڑا کر سنگل دیپ کے اْس مٹھ میں لے آئیں۔ بکاولی وہاں بے بسی کی حالت میں آدھاجسم پتھر کا اور آدھاپری کا لیے بیٹھی تھی۔ دونوں گلے ملے۔ بکاولی نے اسے بتایاکہ صبح ہوتے ہی مٹھ کا دروازہ بندہوجاتا ہے، اس لیے تم اْس سے پہلے ہی یہاں سے نکل جائو۔ وہ گھومتا پھرتا راجا کے محل کے پاس سے گزرا۔ راجا کی بیٹی چتراوت غرفے سے جھانک رہی تھی۔ اسے دیکھتے ہی اس پر فدا ہوگئی۔ اسے محل میں بْلالیا۔ راجا نے نجومیوں سے ساعت پوچھ کر دونوں کی شادی کردی۔ تاج الملوک رات کو سیر کے بہانے اْٹھااور مٹھ کی طرف چل دیا۔ بکاولی نے اس کے حنائی ہاتھ دیکھے تو اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ تاج الملوک نے بتایا کہ اس نے یہ شادی خوشی سے نہیں۔ صبح کو وہ محل میں آکر سوگیا۔ چتراوت رات کو انتظار کرتے کرتے سوگئی تھی۔ صبح کو جاگی تو تاج الملوک کوبغل میں سویا پایا۔ دوسری رات جب وہ مٹھ کوچلاگیا تو چتراوت بیدار ہوئی۔ چتراوت نے دربانوں کو حکم دیا کہ وہ شہزادے کا پیچھا کریں اور دیکھ کر بتائیں کہ وہ کہاں جاتا ہے ؟ دربانوں نے چتراوت کو مٹھ ، پری اور اس مقام کی اطلاع دی۔ اس نے غضب ناک ہوکر حکم دیا کہ مٹھ کو کھود ڈالا جائے۔ مٹھ کی زمین کاشت کے لیے کسانوں کو دے دی گئی۔ کسانوں نے وہاں سرسوں بوئی۔ ایک کسان کی بیوی نے سرسوں کا ساگ کھایا تو اسے حمل ٹھہر گیا۔ ایّام مقررہ کے بعد اسے ایک حسین بیٹی پیدا ہوئی۔ لڑکی کے حسن وجمال کا شہرہ سُن کر لوگ اسے دیکھنے آتے۔ تاج الملوک بھی اسے دیکھنے آیا۔ چہرے سے پری کا ڈھنگ پاکر اسے راجا اندر کا سراپ یاد آیا۔ وہ بارہ برس کی ہوئی تو سمن پری اس کے لیے پری کا لباس لائی۔ پری کالباس جسم پر آراستہ کر کے وہ چتراوت کے محل میں آئی تو دیکھا کہ تاج الملوک وہاں سورہا تھا۔ وہ اسے اور چتراوت کو تخت پر بیٹھا کر گلشنِ نگاریں میں لے آئی۔ اس طرح ایک مدت کے بعد سبھی مل گئے اورخوش خوش رہنے لگے۔
روح افزا بھی یہاں آئی تھی۔ وہ مہتابی پر چاندنی میں سوئی تھی کہ اس پر وزیر زادہ بہرام کی نظر پڑی۔ وہ اسے دیکھتے ہی عاشو ہوگیا۔ بہرام نے سمن پری کو بتایا کہ وہ روح افزا پر عاشق ہے۔ سمن پری اسے زنا نے بھیس میں پریوں کے دیس میں لائی۔ بہرام کو روح افزا سے ملادیا۔ روح افزا نے اسے جادو کے ذریعے قمری بناکر پنجرے میں رکھا۔ دن میں اس فاختہ کو پڑھاتی اور رات میں اسے آدمی بنالیتی۔ روح افزا کی ایک خواص نے اس کی ماں حسن آرا کو یہ تمام باتیں بتائیں اور ایک دن پنجرا اڑا کر اس کے پاس لائی۔ حسن آرا نے جادو کھولا لو مجسم آدمی زاد کو پایا۔ اس نے غضب ناک ہوکر حکم دیا کہ اسے آگ میں ڈالو۔ لوگ اسے آگ میں ڈالنے کے لیے لے جارہے تھے کہ اتفاقاً تاج الملوک اور بکاولی سیر کرتے ہوئے اسی راستے سے گزرے۔ وزیر زادہ بہرام کو دیکھ کر چھڑایا۔ اور فردوس میں لے آئے۔ حسن آرا نے کہا کہ یہ ہمارا چورہے۔ اس کی سزا یہ ہے کہ اسے جلایاجائے۔ بکاولی نے کہا کہ چچی جان ! اپنی پیاری کے پیارے پر ظلم کرنا عقل مندی کی بات نہیں۔ حسن آرا نے کہا : تم ایسا کیوں نہ کہوگی؟ بکاولی نے کہا: انکار فضول ہے۔ اگر اس وقت یہ عیب نہ تھا تو اب اس میں عارکیوں؟ یہ دلیل سُن کر حسن آرا خاموش ہوگئی۔ روح افزا اور بہرام کی شادی خوب دھوم دھام سے ہوگئی اور وہ خوش خوش گلزارِ جواہریں میں رہنے لگے۔

  • Ayesha hashmi
    January 14, 2023 at 7:26 pm

    Bahut khoob
    Shukriya sir

error: Content is protected !!