محفوظ عالم
ریسرچ اسکالر، روہیل کھنڈ یونیورسٹی، بریلی
ہائے جوانی
کہا جاتا ہے کہ مستقبل بچّوں کا ہوتا ہے ، حال جوانوں کا اور ماضی بوڑھوں کا ۔لیکن بوڑھا کون ہے اور کس بنیاد پر ہم کسی زندہ انسان کو بوڑھے پن کے خطاب سے نوازا سکتے ہیں ، اس میں آج تک شبہ بنا ہوا ہے ۔ ماہرِ نفسیات بھی اس امر کا پتہ لگانے سےقاصر ہیں ۔ کسی نو جوانوں کو عمر کا کچّا اور بے تجربے کار سمجھ کر کیسی اہم ذمےداری سے ہٹا دیا جائے تو وہ نوجوان ذمےداری کا اہل ثابت کرنے کے لئے ، کیا کچھ نہیں کرتا ، سیول پہن کر ، مچّھے تک بڑھا لیتا ہے ۔اور بوڑھے کم عمر دکھنے کے لئے ، کیا کیا سیاہ سفید کرتے ہیں ، یہ کسی سے چھپا نہیں ۔ مردم شُماری سے یہ بات تو ثابت ہو چکی ہے کہ ہم سب سے زیادہ جوان ملک ہے ۔دنیا میں سب سے زیادہ نوجوان یہاں ہی ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں ، جن میں کچھ روزگار کے انتظار میں ہیں ، کچھ بوڑھاپے کے۔ جمہوریہ ہند ہی ایک واحد ملک ہے جہاں بوڑھوں کا فقدان ہے۔ حالانکہ یہ تحقیق کا موضوع ہو سکتا ہے کہ اس اعداد و شمار میں اصلی نوجوان کتنے ہیں۔ یہ ہندوتانیوں کی نیک نیتی کہیئے یا فرمابرداری ، کہ انھوں بڑی خوبی کے ساتھ بوڑھوں کو ٹھکانے لگایا اور اُپر سے کورونا کی لہریں ۔ کورونا کی پہلی لہر اصلی بوڑھوں کے لئے ذریعہ نجات ثابت ہوئی ، اور دوسری نقلی بوڑھوں کے لئے ۔اور جو بچے ہے وہ حتی الامکان اپنی بچی کچی جوانی کو بچانے میں لگے ہیں ۔کوئی پاؤڈر کے زور سے ، کوئی خضاب کے نقاب سے ، کوئی حجاب کے لحاف سے ، اپنے رُخ و رخسار کو روشن کیے ہوئے ہے۔کھڑھ کھڑھ بوڑھا بھی بوڑھا کہلانا پسند نہیں کرتا ۔ ہائے رے ! دورے جوانی ۔ زندہ آباد ، زندہ آباد ۔سائنسی ترقی نے میڈیکل میں بھی چھنڈے گاڑھے ہیں ۔آج بازار میں ایسی ایسی دوائیں اور آلات موجود ہیں ، جن کی مدد سے بی بی زلیخا جیسی جوانی دوبارہ ملنا تو مشکل ہے لیکن مائیکل جیکسن جیسی جوانی ضرور مل سکتی ہے۔اکبر الہٰ آبادی کی حامیده سو برس گزرنے کے بعدبھی اس ٹیکنلوجی کے کمال سے ہی بیس پچّیس کے اُپر نہیں بڑھ رہیں۔
” حامیدہ چمکی نہ تھی کاسمیٹک سے جب بیگانہ تھی “
حقیقت پسند عمر دراز بوڑھے یہ ثابت کرنے میں لگے ہیں کہ” آدمی کا جسم بوڑھا ہو سکتا ہے لیکن اس کا دماغ ، اس کی فکر ، اس کے جذبات اور اس کے نظریات کبھی بوڑھے نہیں ہوتے بلکہ اس میں وہ پختگی اور سلیقیگی آ جاتی ہے ، جو جوانوں میں کہاں “۔
میر و غالب زمانے میں معشوق اپنے عاشق سے ، ان بوڑھوں کی کھانسی کے ڈر سے ہی شاید رمز و کنایہ میں باتیں کیا کرتی تھیں لیکن اب زمانہ بدل چکا ہے۔حقیقت پر مہمل حاوی ہے۔بزورگوں کا دستِ شفقت اٹھتا جا رہا ہے۔اور جو ہیں اُن میں اکثر در بہ در کی ٹھوکریں کھانے کو مجبور ہیں۔
ہم عموماً ہم عمروں سے زیادہ مانوس ہوتے ہیں ۔ان سے دِل و دِماغ کی باتیں کرتے ہیں۔ اور ماں باپ کا ہم عمر ہونا نا ممکن ہے۔ باپ بوڑھا نہ ہو ، بوڑھا باپ نہ ہو ۔ یہ تو ایسے ہی ہوا کہ ہم بچپن میں بچّے نہ ہوں اور جوانی میں باپ جوان نہ ہوں ۔۔۔۔۔ یا پھر جوانی میں بچّے ہی نہ ہو ۔
ان بچّوں کی جوانی کی خاطر ہی کچھ نقلی بوڑھے جوان حکام اپنے ہاضمے کو اتنا مضبوط کر لیتے ہیں کہ کروڑں کھانے کے بعد بھی ڈکار نہیں آتی۔ سہواً ڈکار آ جائے تو جیل کی ہوا کھا کر ہاضمہ درست کر لیتے ہیں ۔ اکثر دیکھا یہ گیا ہے کہ مل بانٹ کے کھانے سے یہ نوبت نہیں آتی ۔غریب ماں باپ کسی طرح گالی کھاکر اور خون کا گھونٹ پی اپنا ہاضمہ بنائیے رکھتے ہیں اور جو اس پر اکتفا نہیں کر پاتے ، وہ لازماً در در کی ٹھوکریں کھا کر گزرا کرتے ہیں ۔ اس کے بر عکس نو جوانوں کا ہاضمہ بگڑتا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا جیسا ڈائجسٹ ہونے کے باوجود جو بڑے سے بڑے مسئلہ اور تیکھے سے تیکھے مصالحے کو لائک ، کمنٹ اور شیئر کے ذریعے منٹوں حل اور ہضم کر سکتا ہے ، لیکن یہ ہاضمہ ہے کہ سنبھلنے کا نام ہی نہیں لے رہا ۔ لائک ، کمنٹ اور شیئر جیسی ٹیبلیٹس نے ہاضمے کو مزید بگاڑ دیا ہے ۔اس بگڑھے ہوئے ہاضمے کی تشخیص کے لئے، اُن ہی پشتینی نسخوں کو کام میں لانا پڑھے گا ، جن سے ہمارے بزرگ برسوں فیض یاب ہوتے آئے ہیں۔ یہاں وہ اپنی اس بات کو ثابت کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ عمر بڑنے سے ہی پختگی آتی ہے۔
Shadab azhar
December 19, 2021 at 4:09 pmبہت عمدہ تحریر
Mohd Hilal Alam
December 19, 2021 at 5:17 pmجزاک اللہ