عزہ معین کا افسانہ “عورت” : تجزیاتی مطالعہ

عزہ معین کا افسانہ "عورت" : تجزیاتی مطالعہ

افسانہ۔ عورت
تخلیق کار ۔ عزہ معین
رسالہ پیش رفت ۔ ستمبر 2024۔ نئی دہلی

پیش نظر تحریر عزہ معین کا افسانہ عورت ہے جو رسالہ پیش رفت نئی دہلی سے ستمبر 2024 میں شائع ہوا تھا۔ اس افسانے میں عورت کے کردار اور اس کی زندگی کے مسائل کو پیش کیا گیا ہے۔ بیٹی پیدا ہوتے ہی اس معاشرے کا تصور ذہن میں آ جاتا ہے۔ اس افسانہ کی ابتدا لڑکی کی پیدائش سے ہوتی ہے اور وہ سوال کرتی ہے کہ کیا ہوا تمہیں لڑکیاں پسند نہیں ہیں؟۔ جواب ملتا ہے کہ
“لڑکیاں کس کمبخت کو پسند نہیں ہوتی ہیں”
(افسانہ عورت،عزہ معین، پیش رفت ، نئی دہلی، ستمبر 2024،ص 49)
معاشرے میں آ ج بھی عورتوں کو تنگ نظری سے دیکھا جاتا ہے۔ سب سے زیادہ تنگ نظر سے دیکھا جانے والی چیز بھی عورت ہی ہے۔ کسی بھی شخص کے لیے عورت ہی وہ واحد ذریعہ ہوتی ہے، جس پر وہ بہ آ سانی سے انگلی اٹھا دیتا ہے۔ مرد اور عورت دو مختلف شے ہیں۔ معاشرے میں دونوں کو الگ نظریے سے دیکھا گیا ہے۔ عورت کا کردار اتنا نازک ہے کہ ہر کوئی بغیر تحقیق کے اس پر شک کرنے لگ جاتا ہے۔ اس کے کردار پر انگلی اٹھانے لگتا ہے۔ مرد اس سے بہ آسانی بچ جاتے ہیں کیونکہ وہ مرد ہیں۔ سماج کا یہ دوہرا رویہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اگر کسی کے ہاں بیٹی پیدا ہوتی ہے تو بے حد کم لوگ ہیں جو بیٹی کی پیدائش پر خوش ہوتے ہوں گے۔ زیادہ تر لوگ بیٹی کی پیدا ہونے پر منہ بنا لیتے ہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ بیٹی کی پیدائش پر اتنا خفا ہوتے ہیں کہ وہ اپنی بیوی کو ہی قصوروار سمجھتے ہیں۔ اولاد خدا کی بڑی نعمت ہے۔ یہ خدا کی مرضی ہے کہ وہ تمہیں بیٹا دے یا بیٹی۔ ہم کون ہوتے ہیں کسی کو لعن طعن کرنے والے۔
اس افسانے میں بیٹی کی پیدائش پر رونما ہونے والے واقعات کو پیش کیا گیا ہے۔ اس کی ماں کہتی ہے کہ کیا میں تیسری لڑکی کی پیدائش پر بھی مٹھائی تقسیم کروں؟.۔افسانہ نگار نے بیٹی پیدا ہونے پر دکھاوے اور شگن کے لیے مٹھائیاں بانٹنے والوں کے ذہنی رویے پر بھی بات کی ہے۔ اس کے آگے لڑکیوں کی خوبصورتی کی مفصل انداز میں تعریف بیان کی ہے۔ جب لڑکیاں گھر کا کام کرتی ہیں، پڑھنے جاتی ہیں ، خود سے نئے کپڑے ڈیزائن کرتی ہیں، جب کسی محفل یا شادی میں شرکت کرتی ہیں تو کتنی خوبصورت لگتی ہیں۔ لڑکوں کی خوبصورتی کو بہترین انداز میں تحریر کیا گیا ہے۔ آگے لکھا ہے کہ معاشرہ عورتوں کی کمیوں کو خوبیوں سے زیادہ اجاگر کرتا ہے۔ یہاں تو عورت ہی عورت کی دشمن ہے۔
یہ افسانہ جیسے جیسے آ گے بڑھتا جاتا ہے بیٹی کی زندگی کا نقشہ پیش کرتا جاتا ہے۔ افسانہ نگار لکھتی ہیں کہ بیٹیاں زندگی میں اپنی مرضی سے سب کچھ حاصل کر رہی ہیں۔ اب زمانہ بدل گیا ہے لیکن لڑکیوں کے لیے مسائل وہی ہیں۔ بس اس کی شکلیں بدل گئی ہیں۔
افسانہ نگار نے لڑکی کی پیدائش سے لے کر اس کی شادی ، طلاق وغیرہ کے مسائل کو بے حد خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔ یوں سمجھئے کہ لڑکی کی پوری زندگی کو چھوٹے سے افسانے میں سما دیا ہے۔ عورت کی زندگی آ ج بھی وہی ہے جیسے پہلے تھی افسانہ نگار کی زبانی سنیے:-
“آج بھی عورت کا گھر سے نکل کر محفوظ رہنا ایک نعمت تسلیم کیا جاتا ہے۔ آ ج بھی عورتوں کی ریپ کا مسئلہ حل نہیں ہو سکا۔ مخلوط تعلیمی نظام میں اج بھی لڑکیوں کو قیمت چکانی پڑتی ہے۔”
(افسانہ عورت، عزہ معین، پیش رفت ، نئی دہلی، ستمبر 2024،ص 50)
یہ سچ ہے کہ تمام قانون بننے کے بعد بھی عورتوں کی حفاظت کا مسئلہ حل نہیں ہو سکا جہاں جس کو موقع ملتا ہے وہ عورتوں کی عصمت ریزی سے گریز نہیں کرتا۔ اس معاشرے میں چند لوگوں کے علاوہ سب جنسی حیوانیت میں ڈوبے ہوئے نظر آ تے ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ لڑکی کی مسکراہٹ کو بھی شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
افسانہ نگار نے اختتام پر لکھا ہے کہ لڑکی آ ج بھی پورے خاندان کی عزت کا بوجھ لے کر نکلتی ہے۔ اگر ذرا سی لغزش ہو جائے پورے خاندان کو ہی برا بھلا کہا جاتا ہے کہ فلاں خاندان کی لڑکی تھی، یہ تو پہلے سے ہی ایسے لوگ ہیں، ان کی وجہ سے ہماری ناک کٹ گئی وغیرہ وغیرہ۔ایسا ہرگز نہیں ہے کہ ساری لڑکیاں خراب ہیں صرف کچھ فیصد ہی ایسی عورتیں ہیں جن کے کارنامے شرمناک ہیں کہ ان کے والدین منہ چھپانے کو مجبور ہیں اور وہ اپنے آ پ کو مجرم محسوس کرتے ہیں کہ ان کی تربیت میں کہاں کمی رہ گئی۔
اس کے برعکس کچھ لوگ کسی بھی پاک باز عورت کو سازش کا نشانہ بنا کر بدنام کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ ذرا سا موقع ملتے ہی تہمت لگا لگا کر اس کا جینا حرام کر دیتے ہیں۔ اگر کسی پر تہمت لگا دی جائے تو عورت کو اپنی بے گناہی ثابت کرنی پڑتی ہے سوائے آ نسو بہا کر وہ خاموش ہو جاتی ہے اس کے دل میں ہر وقت یہی ڈر رہتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے۔
غرض کہ افسانہ نگار نے اس مختصر افسانے کے ذریعے عورت کے کردار، مسائل، زندگی کی بھرپور عکاسی کی ہے ۔ اس افسانے کے ذریعے معاشرے کی اس بے رحم حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے جو عورت کے اتصال کا سبب ہے۔ عورت کو درپیش مسائل اور اس کے متعلق معاشرے کی ذہنیت کا عکس اس افسانے میں دکھائی دیتا ہے۔
عورتوں کی حفاظت کا مسئلہ آ ج بھی قابل توجہ ہے جب تک عورت کی حفاظت اور اس کے حقوق کے ساتھ انصاف نہ کیا جائے گا تب تک عورتوں کی مسائل ختم نہیں ہوں گی۔ بیٹی کی پیدائش پر ماتم کرنے والوں کی ذہنی نشو نما کی ضرورت ہے جس سے کہ اس معاشرے کو عورت کا کردار سمجھ میں آ جائے۔
عزہ معین نے اس مختصر افسانے میں بڑی بات بیان کر دی ہے۔ امید ہے کہ وہ اپنی تحریروں کے ذریعے معاشرے کو نئی راہ ہموار کرتی رہیں گی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد ہلال عالم
ریسرچ اسکالر
(گورنمنٹ رضا پی جی کالج، رامپور)
روہیل کھنڈ یونیورسٹی بریلی، اُتر پردیش
Email:- hilalalam74@gmail.com

error: Content is protected !!