جنگل کی شاہزادی(1922)
*یہ نظم جوش کے مجموعہ”نقش و نگار میں شامل ہے۔اس میں 8 بند ہیں
پیوست ہے جو دل میں، وہ تیر کھینچتا ہوں
اک ریل کے سفر کی تصویر کھینچتا ہوں
گاڑی میں گنگناتا مسرور جا رہا تھا
اجمیر کی طرف سے جے پور جارہا تھا
تیزی سے جنگلوں میں یوں ریل جا رہی تھی
لیلیٰ ستاراپنا گویا بجا رہی تھی
خورشید چھپ رہا تھا رنگیں پہاڑیوں میں
طاؤس پر سمیٹے بیٹھے تھے جھاڑیوں میں
کچھ دور پر تھا پانی، موجیں رُکی ہوئی تھیں
تالاب کے کنارے شاخیں جھکی ہوئی تھیں
لہروں میں کوئی جیسے دل کو ڈبو رہا تھا
موں سو رہا ہوں ایسا محسوس ہو رہاتھا
اک موجِ کیف پرور دل سے گزر رہی تھی
ہر چیز دلبری سے یوں رقص کر رہی تھی
تھیں رخصتی کرن سے سب وادیاں سنہری
ناگاہ چلتے چلتے جنگل میں ریل ٹھہری
کانٹوں پہ خوبصورت اک بانسری پڑی ہے
دیکھا کہ ایک لڑکی میدان میں کھڑی ہے
زاہد فریب، گل رخ، کافر دراز مژگان
سیمیں بدن، پری رُخ، نوخیز، حشر شاماں
خوش چشم، خوبصورت، خوش وضع، ماہ پیکر
نازک بدن، شکر لب، شیریں ادا فسوں گر
کافر ادا، شگفتہ گل پیرہن، سمن بو
سروِ چمن، سہی قد، رنگیں جمال خوش رو
گیسو کمند، مہوش، کافور فام قاتل
نظارہ سوز، دل کش، سر مست شمعِ محفل
ابر و ہلال، مے گوں، جان بخش، روح پرور
نسریں بدن، پری رخ سیمیں عذار دلبر
آہو نگاہ، نو رس، گلگوں، بہشت سیماں
یاقوت لب، صدف گول، شیریں بلند بالا
غارت گر تحمل، دل سوز، دشمنِ جاں
پروردہئ مناظر، دوشیزہئ بیاباں
گلشن فروغ، کمسن، مخمور، ماہ پارہ
دلبر کہ در کفِ او موم است سنگ خارا
ہر بات ایک افسوں، ہر سانس ایک جادو
قدسی فریب مژگاں، یزداں شکار گیسو
صحرا کی زیب و زینت، فطرت کی نوردیدہ
برسات کے ملائم تاروں کی آفریدہ
چہرے پہ رنگ نمکیں، آنکھوں میں بیقراری
ایمائے سینہ کوبی، فرمانِ بادہ خواری
لوہا تپانے والی جلووں کی ضوفشانی
سکے بٹھانیوالی اٹھتی ہوئی جوانی
ڈوبے ہوئے سب اعضا حسن مناسبت میں
پالی ہوئی گلوں کے آگوش تربیت میں
حسن ازل ہے غلطاں شاداب پنکھڑی میں
یا جان پڑگئی ہے جنگل کی تازگی میں
حوریں ہزار دل سے قربان ہو گئی ہیں
رنگینیاں سمٹ کر ’انسان‘ ہو گئی ہیں
چین ستم گری سے نا آشنا جبیں ہے
میں کون ہوں؟ یہ اسکو معلوم ہی نہیں ہے
ہر چیز پرنگاہیں حیرت سے ڈالتی ہے
رہ رہ کر اڑنے والی چادر سنبھالتی ہے
کچھ دیر تک تو میں نے اس کو بغور دیکھا
غش کھا رہی تھی عقبی چکرا رہی تھی دنیا
گاڑی سے پھراتر کر اس کے قریب آیا
طوفان بیخودی میں پھر یہ زباں سے نکلا
اے درسِ آدمیت، اے شاعری کی جنت
اے صانع ازل کی نازک ترین صنعت
اے روح صنف نازک، اے شمع بزم عالم
اے صبح روئے خنداں، اے شام زلف برہم
چشم و چراغِ صحرا، اے نور دشت وادی
رنگیں جمال دیوی، جنگل کی شاہزادی
بستی میں تو جو آئے اک حشر سا بپا ہو
آبادیوں میں ہلچل، شہروں میں غلغلہ ہو
زندان بادہ کش کے ہاتھوں سے جام چھوٹیں
تسبیح شیخ الجھے توبہ کے عزم ٹوٹیں
نظروں سے اتقا کے رسم و رواج اتریں
زہاد کے عمامے، شاہوں کے تاج اتریں
آنکھیں ہوں اشک افشاں، نالے شر فشاں ہوں
کیا کیا نہ شاعروں کے ملبوس دھجیاں ہوں
شہروں کے مہوشوں پر اک آسمان ٹوٹے
پروردہئ تمدن عشوؤں کی نبض چھوٹے
اس سادگی کے آگے نکلیں دلوں سے آہیں
جھک جائیں دلبروں کی خود ساختہ نگاہیں
تیری ادا کے آگے شرما کے منہ چھپائیں
ناپے ہوئے کرشمے، تولی ہوئی ادائیں
تیری نظر کی رو سے ہوجائیں خستہ و گم
مشق و مزا دلت کے پالے ہوئے تبسم
امن و اماں کے رخ کو بے آب و رنگ کر دے
دنیا کو حسن تیرا میدان جنگ کر دے
کتنی ہی قسمتوں کے بدلے فلک نوشتے
خون اور دوستی کے کٹ جائیں کتنے رشتے
تصنیف ہوں ہزاروں چھپتے ہوئے فسانے
ان انکھڑیوں کی زد پر کانپیں شراب خانے
تیرے پجاریوں میں میرا بھی نام ہوتا
اے کاش جنگلوں میں میرا قیام ہوتا
یہ بن، یہ گل، یہ چشمے، مجھ سے قریب ہوتے
شاعر کے زیر فرماں، یہ سب رقیب ہوتے
کیوں میری گفتگو سے حیرت فروش کیوں ہے؟
اے زمزموں کی دیوی اتنی خموش کیوں ہے
بجنے لگیں وفا کی محفل میں شادیانے
ہاں وے لبوں کو جنبش، اے سرمدی ترانے
یوں چپ ہے مجھ سے گویا کچھ کام ہی نہیں ہے
یہ وہ ادا ہے جس کا کچھ نام ہی نہیں ہے
سننا تھا یہ کہ ظالم اس طرح مسکرائی
فریاد کی نظر نے، ارماں نے دی دہائی
عشوہ جبیں یہ لے کر دل کی امنگ آیا
چہرے پہ خون دوڑا، آنکھوں میں رنگ آیا
شرما کے آنکھ اٹھائی زلفوں پہ ہاتھ پھیرا
اتنے میں رفتہ رفتہ چھانے لگا اندھیرا
چمکا دیا حیا نے ہر نقشِ دل بری کو
دانتوں میں یوں دبایا چاندی کی آرسی کو
سنکر مری مچلتی آنکھوں کی داستانیں
اس کی نگاہ میں بھی غلطاں ہوئیں زبانیں
شرما کے پھر دوبارہ زلفوں پہ ہاتھ پھیرا
دیکھا تو چھا چکا تھا میدان پر اندھیرا
کچھ جسم کو چرایا، کچھ سانس کو سنبھالا
کاندھے پہ نرم آنچل انگڑائی لے کے ڈالا
تاریک کرکے میری آنکھوں میں اک زمانہ
جنگل سے سر جھکا کر ہونے لگی روانہ
ہونے لگی روانہ ارماں نے سر جھکایا
دل کی مثال کانپا رہ رہ کے بن کا سایہ
بیہوش ہو چلا میں، سینے سے آہ نکلی
اتنے میں رات لے کر قندیل ماہ نکلی
مڑ کر جو میں نے دیکھا، امید مر چکی تھی
پٹری چمک رہی تھی، گاڑی گزر چکی تھی