کدم راؤ پدم راؤ کاخلاصہ

کدم راؤ پدم راؤ۔۔نظامی بیدری

٭کدم راؤ پدم راؤ۔۔نظامی بیدری٭
¦زمانہ تصنیف۔ 825 ھ اور 839 ھ 1435-1421 بہمنی دور
¦اس مثنوی کا پہلا ایڈیشن 1973 میں کراچی سے شائع ہوا
¦مثنوی کی بحر۔ بحر متقارب۔ فعولن فعولن فعولن فعول
¦کل اشعار 1032۔ 1033 واں اشعار نا مکمل ہے۔
¦مرتب کردہ۔ 1۔ ڈاکٹر جمیل جالبی 2۔ وہاب اشرفی
¦مضمون۔ مثنوی قدم راؤ پدم راؤ پر ایک نظر۔مسعود حسین خاں
¦اس مثنوی میں کو 29 عنوان ہیں۔
¦اہم کردار۔کدم راؤ، پدم راؤ ، اگھور ناتھ، مچھندر ، رانی

مثنوی کدم رائو پدم رائو

نظامیؔ کی زندگی کے حالات کسی تذکرہ وتاریخ میں نہیں ملے۔ مثنوی کی داخلی شہادت کے پیش نظر صرف یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ احمد شاہ ولی البہمنی کے زمانہ میں بیدر میں تھے۔ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ وہ دربار سے وابستہ تھییا نہیں۔ وہ فارسی داں ضرور تھے اس لیے کہ مثنوی کے سارے عنوانات فارسی میں لکھے گئے ہیں۔ قدیم شعرا میں بھی کسی اور شاعر کانام نظامی نہیں ملتا سوائے ایک نظامیؔ کے جس نے ’’خوفنامہ‘‘۱؎ تصنیف کیا تھا جس میں روزِ قیامت اور میدانِ حشر کے حالات کو بیان کرکے درسِ اخلاق دیاگیاہے۔’’ خوفنامہ ‘‘ کے زبان وبیان کو دیکھتے ہوئے بلاخوفِ تردید کہاجاسکتا ہے کہ یہ خوفنامہ اس نظامی کا نہیں ہے جس نے مثنوی کدم رائو پدم رائو لکھی ہے۔ ’’خوفنامہ‘‘ اس دور کی تصنیف ہے جب اْردو زبان مندی روایت کے سارے امکانات جذب کرکے فارسی روایت کے راستے پر چل چکی تھی۔
¦اشعار کی تعداد :
مثنوی کدم رائو پدم رائو کی اشاعت کے بعد یہ بات اب اختلافی نہیں رہتی کہ مثنوی میں اشعار کی تعداد کتنی ہے ؟۲؎جیسا کہ متن سے ظاہر ہے اس مثنوی میں اشعار کی تعداد1032ہے اور1033واں شعر نامکمل ہے۔ اس کے بعد اشعار ضائع ہوگئے ہیں۔

کدم راؤ پدم راؤ کاخلاصہ

مثنوی ’’کدم راؤ پدم راؤ‘‘ اپنی ہیئت کے اعتبار سے فارسی مثنوی کی مقررہ ہیئت اور ’’فعولْن فعولُن فعولُن فعل‘‘ کے وزن میں لکھی گئی ہے۔ آخری رکن کہیں کہیں ’’فعل ‘‘ کی جگہ ’’فعول‘‘ ہوگیا ہے۔ یہ تبدیلی قانونِ اوزان وبحور کے مطابق ہے۔ حسب قاعدہ پہلے حمد آتی ہے۔ پھر نعت رسول اور اس کے بعد بانیٔ سلطنت بہمنی کی مدح آتی ہے۔ چوں کہ مدح کے اشعار بھی مخطوطہ میں پورے نہیں ہیں اور مدح کے بعد کے بھی کئی صفحات کم ہیں اس لیے فوراً قصہ شروع ہوجاتا ہے۔ لیکن یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیا سوال تھے جو راجہ کدم رائو نے اپنے وزیر پدم رائو سے پوچھے تھے۔ مخطوطہ کے صفحات بیچ بیچ میں غائب ہونے کی وجہ سے قصہ کا تسلسل بھی بار بار ٹوٹ جاتا ہے۔
قصہ یہاں سے شروع ہوتا ہے کہ کد م رائو (راجہ ) اپنے وزیر (پدم رائو ) سے کہہ رہا ہے کہ بغیر سوچے سمجھے بات کرنا اچھا نہیں ہے۔ میں نے جو کچھ تجھ سے کہا ہے (وہ کیا کہا تھا اشعار کے بیچ میں سے ضائع ہوجانے کے باعث معلوم نہیں کیا جاسکتا) اس پر اچھی طرح غور کرکے مجھے جواب دے۔ اگر تو اپنی خطا بخشوانا چاہتا ہے اور بعد میں پچھتانا نہیں چاہتا تو صحیح صحیح جواب دے۔ یہ بات کہہ کر راجہ محل میں چلاگیا۔ وہ اتنا غصہ میں تھا کہ اس نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ کس نے سلام کیا اور کس نے سلام نہیںکیا، میں بھرا ہوا راجہ محل میں جاکر سنگھاسن پر بیٹھ گیا۔ اس کی حالت کو دیکھ کر محل کی رانیاں اور کنیزیں گھبراگئیں۔ پہر رات گئے تک اس کی یہی حالت رہی۔ کوئی عورت اُسے رام نہ کر سکی۔ جب رانی نے اس کا ہاتھ ڈرتے ڈرتے پکڑا تو راجہ کدم رائو نے کہا کہ اور باتیں چھوڑ اور یہ بتا کہ ناگن نے کیا چھند کیا تھا۔ کدم رائو نے رانی سے یہ بھی کہا کہ کسی غیر عورت کے ساتھ بْرا کام کرنے سے زیادہ بْرا دنیا میںکوئی اورکام نہیں ہے۔ اْسی کانام دونوں جہاں میں روشن ہوتا ہے جو پرائی عورت کو اپنی ماں بہن سمجھتا ہے۔
’’پھر گفتن کدم رائو باناگنی ‘‘ کی سْرخی آتی ہے جو کتابت کی غلطی معلوم ہوتی ہے اس لیے کہ قصے کے لحاظ سے گفتن پدم رائو باناگنی ‘‘ ہونا چاہیے۔ ناگنی سے بات کرکے پدم رائو کدم رائو کو ختم کرنے کے لیے دبے پائوں جاتا ہے۔ اس نے دیکھا کہ اس کے سرہانے پان پھول رکھے ہیں۔ وہ اس خیال سے اس میں جا بیٹھا کہ جیسے ہی راجہ پھول پان کی طرف رْخ کرے گا وہ اْسی وقت اْسے کاٹ کھائے گا۔ پدم رائو ابھی اسی خیال میں تھا کہ اتنے میں رانی کدم رائو کے پاس گئی اور اس کے پائوں دبانے لگی۔ پائوں دبانے سے راجہ کی آنکھ کھل گئی۔ وہ ڈری ہوئی تو تھی ہی۔ کہنے لگی کہ ہماری زندگی تمہاری محبت پر قائم ہے۔ اگر راجہ کھل کر بات کرے تو میں اس کا صحیح جواب دوں۔
کدم رائو نے رانی سے کہا -سُنا تھا کہ عورت بہت فریب جانتی ہے۔ ایسا فریب آج میں نے اپنی آنکھ سے دیکھ لیا۔ میں اس وقت سے بہت حیران وپریشان ہوں۔ بھلا کہاں اچھی ذات کی ناگن اور کہاں ادنیٰ ذات کا سانپ۔ لیکن میں نے دیکھا کہ ناگن کوڑیال سے ’’میل کھارہی ‘‘ ہے۔ خدا نے مجھے حاکم بنایا ہے۔ میں اس بات کو برداشت نہ کرسکا۔ اور تلوار لے کر اسی وقت سانپ کو مارڈالا۔ لیکن ناگن جان بچاکر بھاگ گئی اور میری تلوار سے اس کی دْم کٹ گئی۔ یہ واقعہ دیکھ کر مجھے عورت پربھروسا نہیں رہا۔ اس واقعہ کے بعد سے اے رانی ! مجھے تیرا اعتبار نہیں رہا۔ سونے کی چْھری بھی پیٹ میں نہیں ماری جاتی۔ سانپ کا ڈسا ہوا رتی سے بھی ڈرتا ہے۔ اور دودھ کاجلا چھاچ کوبھی پھونک مار مار کر پیتا ہے۔ رانی نے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ اگر راجا سْنے تو میں کچھ عرض کروں۔ جو کچھ تو نے کہا ہے وہ بالکل سچ ہے۔ اگر میرا کوئی قصور ہے تو میں جان دینے کوتیار ہوں۔ لیکن دوسرے کا قصور مجھ پرنہ ڈالاجائے۔ بْرائی بھلائی دنیامیں ساتھ ساتھ ہیں۔ چاند اتنا حسین ہے لیکن اس میں بھی داغ ہے۔ کون سامرد ہے جس کا پائوں نہیں ڈگمگاتا اور کون سا درخت ہے جو ہوا سے بچ رہتا ہے۔ تمام پتھر ایک قمت کے نہیں ہوتے۔ سب عورتوں کو ایک جیسا نہیں سمجھنا چاہیے۔ اگر تو اْپواس رکھے گا تو رعایا بھی بھوکوں مرے گی اورمحل بھی فاقہ کرے گا۔ کیا تو نے نہیں سْنا کہ جان خوش تو جہان خوش۔ نہ تیرا کوئی عقلمند بیٹا ہے اور نہ کوئی دوست ہے۔ آخر تیرا راج کون سنبھالے گا۔جوکچھ تو نے دیکھا وہ گزر چکا اور جو نقش ونام ہیں وہ بھی نہیں رہیں گے۔ لوگوں کے ساتھ بھلائی کرنی چاہیے۔ جس کے بدلے میں بھلائی حاصل ہو۔
کدم رائو نے کہا کہ اے رانی ! تونے شوہر پرستی کی جو بات کہی وہ بالکل سچ ہے لیکن ٹوٹے ہوئے دل کاکوئی علاج نہیں ہے۔ ٹوٹے ہوئے ہاتھ کو کانپ (پتلی سی بانس کی لکڑی) سے باندھا جاسکتا ہے لیکن ٹوٹے ہوئے دل کو کسی چیز سے بھی سہارا نہیں دیاجاسکتا۔پاپ اگر میرا باپ بھی کرے تو مجھے پسند نہیں۔ مجھے سْکھ اس وقت حاصل ہوتا ہے جب کسی کو سچائی پر چلتا ہوا دیکھتا ہوں۔ عورت اسی وقت تک عقلمند رہتی ہے جب تک وہ کسی دوسرے مرد کو نہ دیکھے۔ مرد عورت کے چھل فریب سے واقف نہیں ہے۔ وہ ظاہر میں محبت جتاتی ہے مگر دل میں دشمنی رکھتی ہے۔ اْس عورت کا مرجانا بہتر ہے جو اپنے شوہر کے سوا کسی دوسرے مرد کا تختۂ مشق بنے۔ رانی نے کدم رائو کی بات سُنی ……(یہاں تسلسل ٹوٹ جاتا ہے)
کدم رائو نے پدم رائو سے کہا کہ آج میرا تماشا دیکھ۔ اس وقت وہاں کدم رائو اور پدم رائو کے سوا دوسرا کوئی نہیں تھا۔ کدم رائو نے اپنے وزیر سے کہا کہ میں دوست اس شخص کو جانتا ہوں کہ جو لالچ کے بغیر دوستی نبھائے۔ تیرا ایک فقرہ بھی میرے لیے سوالاکھ کے برابر ہے۔ تو سیانا اور عقلمند ہے اس لیے یہ بات اگر میں تجھ سے نہ کہوں تو پھر کس سے کہوں۔ گنوار آدمی سے بات کہنے کی وہی صورت ہے جیسے پنجرے میں سے ہوا اور چھلنی میں سے پانی نکل جاتا ہے۔
پدم رائو کدم رائو کی زبان سے یہ باتیں سْن کر خوش ہوا اور کہا کہ اگر راجہ مجھ پر پورا بھروسا اور اعتماد رکھتا ہے تو میرے ماتھے پر کستوری ملے تاکہ میں اپنے گھرانے میں عزت کے ساتھ واپس جائوں اور دنیا میں میرا نام روشن ہو۔ کدم رائو نے اس کی پیشانی پر کستوری ملی اور اس کے سرپر ہاتھ پھیرا۔ پہلے ناگ کے سرپر پدم نہیں تھا۔ یہ اسی وقت سے پیدا ہوا جب کدم رائو نے اپنا ہاتھ پدم رائو کے سرپر رکھا۔
پدم رائو کھڑا ہوا اور راجہ سے عرض کی کہ سْنا ہے کل سے آپ فاقہ کشی (اُپاس) کرنے والے ہیں۔ اگر آپ ایک دن بھی کسی رنج سے بھوکے رہیں گے تو ملک خراب اور ’’ہیرا نگر‘‘ (کدم رائو ہیرا نگر کا راجہ تھا) برباد ہوجائے گا۔ اگر آپ بھوجن کریں گے تو مجھے سُکھ ہوگا۔ آج برت رکھنا اچھا نہیں ہے اور جو اس بات کو اچھا کہتا ہے وہ آپ کا دشمن ہے اگر آپ خوشی کے ساتھ کھانا نہیں کھائیں گے تو میں اپنے گھر نہیں جائوں گا۔
کدم رائو نے کہا کہ اسے پدم رائو ! تو اگر سچ مانے تو کہوں کہ میں اب تک پردیسیوں کی خدمت سے محروم ہوں۔ حالانکہ ہمیشہ سے ہمارا یہی قاعدہ رہا ہے۔ سامان وجم بھی اسی ریت پر چلتے رہے ہیں۔ کسی پردیسی کولے کر آئو کہ میں اس کی خدمت کروں اور دان دوں۔
پدم رائو نے عاجزی سے کہا کہ دنیا کے چلنے پھرنے والوں کو اپنے پاس مت بلائو کہ یہ آس دے کر نراس کر جاتے ہیں۔ ان لوگوں کی عادتیں خراب ہوتی ہیں۔ میں یہ بات ہمدردی کی وجہ سے کہہ رہا ہوں۔ کدم رائو یہ بات سْن کر بگڑ گیا اور کہا کہ تو مسافروں اور پردیسیوں کو بْرا کیوں کہتا ہے۔ اْن سے کیا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ میرے سامنے اْن کی کیا حقیقت ہے۔ تو اس کی فکر نہ کر اور ایک مسافر کو بلاکر لا۔
پدم رائوچھت تک اونچا ہوا اور پہرا رات تک عاجزی کرتا رہا۔ اس نے بار بار یہی کہا کہ اے راجہ میری بات مان لے۔ یہ لوگ تیرے سامنے تجھے چاند سورج قرار دیتے ہیں لیکن دل میں کچھ اور ہوتا ہے۔ کسی سادھو کو اپنے پاس نہ بْلا۔ جوگی لوگ بغیر شراب اور گوشت کے نہیں رہتے۔ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں تجھے بھی اسی راہ پر نہ ڈال دیں۔ اس میں گھڑی بھرکا سْکھ ہے لیکن اس کے خمار کا دْکھ زیادہ بھاری ہوتا ہے۔
پدم رائو نے کہا کہ میں ایک عرض اور کرتا ہوں۔ کدم رائو نے جواب دیا کہ تیری بات کو اسی طرح چھپائوں گا جس طرح سمندر میں موتی پوشیدہ ہوتے ہیں۔ پدم رائو نے کہا ہمیں دْنیا سے کیا غرض ہے۔ ہمیں تو صرف آپ سے کام ہے۔ آپ کے سوا ہمیں کون پال سکتا ہے۔ کدم رائو اس بات سے بہت خوش ہوا اور اپنے وزیر کو بڑا قیمتی لباس عطا کیا۔ کدم رائو نے کہا کہ پورے خاندان کو بلاکر انھیں خلعت دیا جائے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ پدم رائو نے سارے خاندانِ شاہی کو بلایا اور ہر ایک کو مرتبے کے موافق سرفراز کیا۔ اس کے بعد کدم رائو نے کہا کہ کسی پر دیسی کو بلاکر مہمان داری بھی کرنی چاہیے۔ اہل دربار میں سے ایک نے کہا کہ باہر سے مچھندر کابیٹا اکھورناتھ آیا ہوا ہے۔ بہت بڑا جوگی ہے اور بہت سے علوم سے واقف ہے۔ وہ یقیناً آپ کے دربار کے لائق ہے۔ راجہ نے یہ سنکر جواب دیا کہ اسے فوراً حاضر کیا جائے۔ وہ آدمی اسی وقت اگھورناتھ کے پاس گیا اور کہا کہ جلدی چل۔ تجھے راجہ نے طلب کیا ہے۔ اگھورناتھ راجہ کے دربار میں حاجر کیا جائے۔ وہ آدمی اسی وقت اگھورناتھ کے پاس گیا اور کہا کہ جلدی چل۔ تجھے راجہ نے طلب کیا ہے۔ اگھورناتھ راجہ کے دربار میں حاضر ہوا تو راجہ نے پوچھا کہ تونے کون کون سے ملک دیکھے ہیں۔ اگھورناتھ نے اس بات کے جواب میں بے حد لاف زنی کی اور راجہ کو ایسا مسحور کیا کہ وہ اس کا گرویدہ ہوگیا۔ چند ہی روز میں راجہ کا یہ حال ہوگیا کہ اسے جوگی کے بغیر چین نہ پڑتا تھا۔ جب جوگی نے راجہ سے کہا کہ میں لوہے کو سونا بنا سکتا ہوں تو کدم رائو نے لوہے کا ڈھیر جمع کردیا جسے اگھورناتھ نے سونا بنادیا۔ کدم رائو اس کا اور بھی گرویدہ ہوگیا۔ اب وہ جوگی کے بغیر ایک دن بھی نہیں رہ سکتا تھا۔ اگھورناتھ نے اس کے بعد راجہ کو’’دھنور بید‘‘ کی تعلیم دی جسے کدم رائو نے ایک مہینے میں سیکھ لیا۔ اُدھر رعایا حیران تھی کہ آخر راجہ نے ایک جوگی کی صحبت کیوں اختیار کرلی ہے۔
ایک دن اگھورناتھ نے کہا کہ ائے راجہ !’’دھنور بید‘‘ تو معمولی بات ہے۔ میں تو آپ کو ’’امر بید‘‘ بھی سکھا سکتا ہوں مگر مجھے قول دینا ہوگا کہ یہ کسی دوسرے کو آپ نہیں بتائیں گے۔ یہ کہہ کر اگھورناتھ نے راجہ سے کہا کہ اگر عجائبات دیکھنے ہیں تو ایک جانور لے کر آئیے۔ راجہ محل میں گیا اور وہاں سے ایک طوطا لے کر آیا جسے رانی نے بڑی محبت سے پالاتھا۔ راجہ اُسے پھل کھلاتا، اپنے ہاتھ میں لیے جوگی کے پاس آیا۔ اگھورناتھ نے کہا کہ اے راجہ اب اس کا گلا چپا ڈال۔ میں ابھی کرامات دکھاتا ہوں۔ راجہ نے ایسا ہی کیا طوطا مرگیا اور سادھو نے اپنی روح طوطا کے جسم میں داخل کردی اور اڑکر راجہ کے ہاتھ آبیٹھا۔ طوطے نے کہا کہ راجہ ! بتا میں کون ہوں۔ کچھ دیر کے بعد پھر اپنے جسم میں واپس آگیا اور طوطا بھی زندہ ہوگیا۔ یہ دیکھ کر راجہ ششدر رہ گیا اور جوگی کا پہلے سے بھی زیادہ قائل اور گرویدہ ہوگیا پھر کہا کہ یہ عمل مجھے بھی سکھائو۔
اگھورناتھ نے پہلے راجہ سے قول لیا اور پھر اسے امر بید سکھادیا۔ راجہ نے جیسے ہی اس کے منتر سیکھنے شروع کیے محل کا گلس ٹوٹ گیا۔ ۳؎
اکھرناتھ منتر سکھایا رہس یکا یک پڑیا ٹوٹ مندر کلس
لوگوں نے راجہ کدم رائو سے بہت کہا کہ یہ بدشگونی کی بات ہے مگر راجہ نے پروا نہ کی اور علم سیکھتا رہا۔ جو لوگ غوروفکر کے بغیر کام کرتے ہیں وہ دھن مال راج پاٹ جس چیز کے بھی مالک ہوں گنوا دیتے ہیں۔ جب راجہ نے امر بید بھی سیکھ لیا تو ایک دن جوگی نے کہا کہ اب اس کا تجربہ کرکے دیکھو۔ چنانچہ جیسے ہی راجہ نے اپنی روح کو طوطے کے جسم میں داخل کیا۔ اگھورناتھ جوگی نے اپنی روح کو راجہ کدم رائو کے جسم میں داخل کردیا۔ اب راجہ طوطا بن گیا اور جوگی راجہ بن گیا۔
لیکن جوگی کدم رائو کے روپ میں آخر بہت پچھتایا کیوں کہ وہ محلات کی تفصیلات سے واقف تھا اور نہ محل کے آدمیوں میں سے کسی کو جانتا تھا۔ آخر اُسے ایک تدبیر سوجھی۔ اس نے دربار عام کیا اور اس طرح سب سے متعارف ہونا چاہا۔ ایک دن پدم رائو نے راجہ (جو دراصل جوگی تھا) سے پوچھا کہ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ جب تک اکھرناتھ آپ کے دربار میں نہیں آیا تھا راج پاٹ کا سب کام ٹھیک چل رہاتھا۔ اب یہ سب کام آپ نے چھوڑ رکھا ہے۔ ’’راجہ ‘‘ نے کہا کہ جوگی نے میرے ساتھ بڑا دھوکا کیا ہے۔ اور میں نے اْسے مار ڈالا ہے۔ دیکھ یہ اس کی لاش ہے۔ لاش کو دیکھ کر لوگ حیران ہوئے کہ آسمان میں تھگلی لگانے والاجوگی کیسے مرگیا؟
جوگی نے سوچا ہوگا کہ اگر راجہ جوطوطے کے بھیس میں ہے زندہ رہا تو پھر اپنے روپ میں آسکتا ہے۔ اس لیے اسے مروا دینا چاہیے۔ یہ سوچ کر ایک دن ’’راجہ ‘‘ نے پدم رائو سے کہا کہ طوطا مجھے بْرا بھلا کہہ کر گیا ہے۔ منادی کرادو کہ جو اْسے پکڑ کرلائے گا اْسے انعام واکرام سے سرفراز کیاجائے گا۔
ڈھنڈور کیراوے گلیاں کوچریاں کہ راواں گیا رائو دے گالیاں
کہ جے پاردی کوئی آنے تسے سستر نگر دان دیوں اسے
پدم رائو نے سمجھایا کہ اس طرح بدنامی ہوگی۔ چوں کہ کدم رائو کے روپ میں جوگی نہ محلات کو جانتا تھا اور نہ کسی کنیز باندی کو پہچانتا تھا نہ اْسے صحیح طریقہ سے بات کرنے کی تمیز تھی۔ اس لیے جب وزیر نے باربار اس سے اس کی وجہ دریافت کی تو وہ بہت ناراض ہوا اور تلوار لے کر اُسے مارنے کے لیے دوڑا۔ لیکن پدم رائو اس کا وار بچالیا اور اسے اپنی گرفت میں لے کر اس کی نگرانی شروع کردی۔ وہ ابھی تک اْسے کدم رائو ہی سمجھے ہوئے تھا حالانکہ وہ تو کدم رائو کے بھیس میں اگھورناتھ تھا۔
اب اصلی راجہ کدم رائو کا حال سنیے۔ وہ طوطا بناہوا اُڑتا رہا اور اپنی جان بچاتا اِدھراُدھر مارا مارا پھرتا رہا۔ کبھی شکاری پرندوں سے اپنی جان بچاتا۔ کبھی دھوپ کی شدت سے بچنے کے لیے ایک پیڑ سے دوسرے پیڑ پر جاتا۔ ایک دن وہ طوطوں کا ایک غول دیکھ کر ان کی طرف جارہا تھا کہ اچانک اس کی نگاہ اپنے محل پر پڑی اور وہاں اْس نے پدم رائو کو بھی دیکھا۔ یہ دیکھ کر وہ نیچے اترا۔ اور وہاں گیا جہاں اس کا وزیر پدم رائو تھا۔ کدم رائو طوطے نے پدم رائو سے بات کی اور کہا کہ اسے پدم رائو ! کیا تو نے مجھے پہچانا۔ پدم رائو نے انکار کیا۔ بڑے لیت ولعل اور باہمی گفتگو کے بعد کدم رائو نے جوطوطے کے روپ میں تھا پدم رائو کو وہ واقعہ یاد دلایا جب ان دونوں کے سوا وہاں کوئی تیسرا نہیں تھا۔ اس پر پدم رائو نے پوچھا۔
کدم رائو تو کیوں ہوا، کھول کہہ
اس کے بعد طوطے نے سارا واقعہ جوگی کے دھوکا دینے اور اپنے طوطا بن جانے کا سنایا۔ یہ سن کر پدم رائو نے کہا۔
توئیں ساچ میرا گسائیں کدم پدم رائو تجہ پاو کیرا پدم
کہ تو سچ مچ میرا آقا کدم رائو ہے اور میں پدم رائو تیرے پیرکی خاک ہوں۔ اور کہا کہ اے پنکھ رائو! مجھے زبان دے کہ یہ بات جو میرے تیرے درمیان ہوئی ہے اْسے تو ویسے ہی چھپاکر رکھے گا جیسے سیپی ہوتی کو چھپا کر رکھتی ہے۔ کدم رائو نے زبان دی۔ پھر پدم رائو نے جوگی کی ساری باتیں بتائیں۔ اس کے بعد رات کے وقت پدم رائو چپکے سے سیدھا اس جگہ گیا جہاں جوگی کدم رائو کے روپ میں سورہاتھا۔
چلیا ساندھرے ساندھرے ناگ رائو کہ جیوں نیر سودھن چلے، اپ بھائو
اور سوتے میں اس کے پائوں کی انگلی میں کاٹ لیا۔ کاٹتے ہی زہر اس کے جسم میں چڑھنے لگا۔ اور اگھورناتھ کی روح کدم رائو کے جسم کو چھوڑ کر پرواز کرگئی۔ اس کے بعد وہ دوڑ کر طوطے کے پاس آیا۔ طوطا اْڑ کروہاں آیا اور پھر امر بید کی مدد سے وہ دوبارہ اپنے جسم میں داخل ہوگیا۔ پدم رائو نے راجہ کو یہ بھی بتایا کہ جوگی ایک دن بھی چین سے نہیں بیٹھا۔ نہ محل میں گیا اور نہ رانی سے ملا۔ یہ بات سن کر کدم رائو بہت خوش ہوا۔ خوش ہوکر اْس نے پردھان پدم رائو کی عزت افزائی کی اور حکم دیا کہ ساری دْنیا کو دان اور خیرات دو۔ ہر طرف خوشی کے شادیانے بجنے لگے۔
؎ طبل ڈھول برغوں نفیراں اُٹھے
جشن منانے کا یہ سلسل چھ مہینے تک جاری رہا۔ پھر راجہ اپنے محل میں گیا اور سنگھاسن پر بیٹھا۔ اس کے بعد کا حصہ مخطوطے میں نہیں ہے۔ ضائع ہوگیا۔
یہ خلاصہ ہے مثنوی کدم رائو پدم رائو کا۔ کدم رائو انسان ہے۔ اور ہیرا نگر کا راجہ ہے جیسا کہ مثنوی کے شعر282اور822سے ظاہر ہوتا ہے۔
رہیا بھوک دن دیس توں گھنٹ پر تل اوپر ہوا لوک ہیرا نگر
اکایک کہوں کیوں اپس نانوہوں کدم رائو ہیرانگر کا سوہوں
پدم رائو اس کا وزیر ہے جو’’ناگ راجہ ‘‘ ہے۔ یہ بات باربار مثنوی میں آتی ہے۔ پدم رائو ارادہ کرتا ہے کہ کدم رائو کو مار ڈالے تو یہ شعر آتے ہیں۔
چلیا ساند رے ساند رے ناگ وات مسلادن کدم رائو تب ناگ جات
بچارن کیا جیوسوں ناگ رائو کہ جب پھول لے رائو تب دیوں گھائو
ایک اور جگہ جب کدم رائو خوش ہوتا ہے تو پدم رائو کہتا ہے کہ ائے راجہ میرے سرپرکستوری مل تاکہ میں عزت سے گھر جائوں اور میرے سرپر ہاتھ پھیر۔ جیسے ہی کدم رائو نے ہاتھ پھیرا پدم رائو کے سرپر پدم ظاہر ہوگیا۔ اس سے پہلے ناگ کے سرپر پدم نہیں تھا۔
نتھا آئو تھیں ناگ کے سرپردم تدھاں تھیں ہوا جددھر یاہت کدم
پدم رائو بہت لمبا ناگ تھا۔ جب کدم رائو اصرار کرتا ہے کہ وہ مسافروں اور جوگیوں کی خدمت کرے گا تو پدم رائو اتنا اونچا اٹھتا ہے کہ چھت سے لگ جاتا ہے۔
پدم رائو اوبھاہوا چھات لگ بناتی گئی تِن پہر رات لگ
کہیارائو دھرناگ راوہ ڈوروں کہ جے رائو انگھیں بناتی کروں
ایک اور جگہ جب پدم رائو کو معلوم ہوا کہ طوطا اصل میں کدم رائو ہے تو اس نے پھَن زمین پر بچھا دیا۔
سنیا رائو یہ بول اکھوڑ کر بچھا دیا پدم رائو پھَن کیہہ پر
’’عذر خواہی کردن پدم باکدم ‘‘ کے عنوان کے تحت یہ شعر پڑھیے :
پدم رائو اٹھیا مہاکروبن کُنڈل پھیرا وبھا ہواسروبَن
کھڑا تیر ہو جیوں رہیا تھا اڈھل کمال ہوپڑیا پنکھ کے پائے تل
غرض کہ یہ بات مثنوی سے بالکل واضھ ہوجاتی ہے کہ پدم رائو ناگ راجہ تھا اور کدم رائو کاوزیر تھا۔ ایسی کہانیاں جن میں انسان کے وزیر یا مشیر جانور یا چرند پرند ہوتے تھے ہم نے آپ نے سب نے سْنی اور پڑھی ہیں۔ اور یہ بھی ایسی ہی کہانیوں میں سے ایک ہے۔
¦حوالہ:
۱۔خوفنامہ (قلمی) مخزونہ انجمن ترقی اردو پاکستان ،کراچی
۲۔ہاشمی صاحب نے اشعار کی تعداد825بتائی ہے(دیکھیے مقالات ہاشمی) سخاوت مرزا صاحب نے 994 بتائی ہے (دیکھیے سہ ماہی اردو ادب علی گڑھ 1966،ص26) افسرصدیقی صاحب نے1039بتائی ہے۔(دیکھیے مخطوطات انجمن ترقی اردو جلد اول جلد اول ص373)۔
۳۔یہی بدشگونی اس وقت ہوئی تھی جب محمد بن قاسم کی فوجیں راجہ داہر کی فوجوں کامحاصرہ کیے پڑی تھیں کہ ایک تیر سے شہر کے سب سے بڑے مندر کا کلس ٹوٹ گیا۔ اس کے بعد شہر کے لوگوں کو اپنی شکست کا یقین ہوگیا۔(جمیل جالبی)

  • Nuzhat perween
    May 16, 2023 at 8:06 am

    بہت عمدہ جانکاری حاصل کی

error: Content is protected !!