نظم کرسی نامہ - Adabi Kavish

نظم کرسی نامہ

کُرسی نامہ
وحید اختر

 

جہاں سے دشتِ ندا کی سرحد کی ابتدا ہے
وہاں گڑی ہیں کچھ ایسی جادوئی کرسیاں
جو چہار جانب کو گھومتی ہیں اشارہ ہلکا ساپا کے فربہ دبیز
کولہوں کا لمحہ لمحہ
غریب بے چاری کرسیوںپر لدا ہوا ہے وہ بارِ دانش
کہ اُن کی رگ رگ چٹخ رہی ہے

یہ علم ودانش کے پہرے داروں کا ہے رسالہ
ہے ایسی بھارتی نشست ان کی
جگہ جگہ سے مسک گئے ہیں ضخیم گدّے
ہر ایک روز ن سے علم کی ننھی ننھی دھاریں نکل رہی ہیں
جو علم وعرفان وفضل ودانش ٹپک رہا ہے
چمکتے روشن حسین جوتوں پہ جم گیا ہے

ہزارہا طالبانِ دانش
ہزارہا تشنگانِ عرفاں
جوجانتے ہیں کہ سارا عرفان وعقل ودانش
ہے پہرہ دارانِ علم وعرفاں کی کُرسیوں کے قدم سے لیٹا
جوجانتے ہیں تمام فضل وکمال علم وعمل کا مصدر
ہے کفشِ کُرسی نشیں کا تلوا
بڑے ادب سے پڑے ہوئے ہیں زمیں پہ اوندھے
ہزارہا کانصیب گردوغبارِ پس ماندگی
ہزاروں خود اپنے قدموں کی خاک چاٹیں
٭٭٭

ہزاروں انساں زمیں پہ کیڑوں کی طرح اپنے شکم سے رینگیں
کہ سر اٹھانا ہے اس زمیں پر گناہِ کبریٰ
جو سر اٹھے گا رگڑ دیا جائے گا زمیں پر
اگر کسی سرمیں ایک مدّھم سابھی شرارہ ہے
اُس کو اپنے ہی اِس شرارے میں زندگی بھر جھُلسنے جلنے کاحکم ہوگا
اگر کِسی دل میں عزّتِ نفس ہے رمق بھر
وہ دل خود اپنا لہو پیے گا
اگر کِسی دست وپا میں اتنی سکت ہے کُرسی نشیں کے دامن کو چھو سکے وہ
تو ہاتھ ایسے کریں گے تاعمر سینہ کوبی
تو ایسے پائوں زمیں کے کیڑوں کا رزق ہوں گے
وہ طالبانِ نجات جن کوہے رینگنے میں مہارت
اور جن کے سرمیں اندھا خلا ہے
سینے میں جن کے دل کی جگہ ہے چربی کا لجلجاتا پگھلتا ٹکڑا
وہ جن کے ہاتھوں نے گِڑ گِڑا گِڑ گِڑا کے مانگی ہے بھیک ہر در سے
جن کے پیروں نے اپنے بل پرکھڑا بھی ہونا کبھی نہ سیکھا
اس اندھی جہدِ معاش میں ہیں سبھوں سے آگے
یہ خوش نصیبانِ کفش پرور
بڑے جتن سے زمین پہ لیٹے بلندکُرسی نشیں کے جوتوں کو چاٹتے ہیں
وہ سارا انشردہ کمال وفنون ودانش جو کفشِ آقا پہ جم گیا ہے
اُسی کو پلکوں سے چُن رہے ہیں
اُسی کواپنے لبوں پہ ٹپکارہے ہیں
اپنی زباں پہ خوش ہوکے رکھ رہے ہیں
کہ ہے یہی عطرِ فضل ودانش

٭٭٭

بلند مسند نشیں کی ہے زندگی ہی کُرسی
تمام علم وکمال وفن کا ہے راز کُرسی
تمام فہم وفراست و عقل وتدبُّر
ہے کُرسیوں سے
اگر یہ کرسی سے ایک پل کواٹھیں تو جا نو کہ سرہے خالی
نگاہ ویراں، دماغ اندھیرا ، زبان گونگی

٭٭٭

یہ جادوئی کرسیاں ہیں ایسی کہ ان پہ بیٹھو
تو ساری فطری ضرورتوں سے کنارہ کرلو
نہ بھوک اک پل کو بھی ستائے ، نہ پیاس کاٹے
نہ جنس کی خواہش کبھی سراٹھائیں اپنا
غذاومشروب وصنفِ نازک
ہر اک کا نعم البدل ہے کُرسی

گھروں کو جائیں اگر یہ کرسی نشیں کبھی بھی
تو کرسی اِن کے بدن سے چپکی ہوئی رہے گی
یہ اپنے پیروں سے چلتے ہیں کب
انھیں چلاتی ہے اپنے پہیوں پہ ان کی کُرسی
یہ اپنے بچوں کو پیار کرتے تو ہیں
مگر یہ تمام بچے ہیں کُرسی زادے
جنھیں گلے سے لگاکے ہوتی ہے شاد کُرسی
جولقمہ اِن کے دہن میں جاتا ہے رزق جتاہے کرسیوں کا
سلامتی کرسیوں کی اِن کی سلامتی ہے
تقاضے کُرسی کے پورے ہوں تو رہیں یہ زندہ

یہ اپنی زوجہ سے مُسکراکر اگر کریں التفات ظاہر
تو مُسکراتی ہے اِن کے ہونٹوں سے اِن کی کرسی
اگر یہ اُس باوفا کی گردن میں ڈالیں باہیں
تو ہاتھ کرسی کے اُس کے رخسار ولب پہ کرتے ہیں ثبت بوسہ
یہ اپنی کُرسی کی انگلیوں سے ہی کھولتے ہیں
قبائے ہم بستری کے تکمے
یہ اپنے بستر پہ لیٹے رہتے ہیں بارِ کُرسی سے مضمحل فسُردہ
مباشرت کے فریضے کرتی ہے پورے اِن کے بجائے کُرسی
٭٭٭

یہ جادوئی کُرسیاں ہیں ایسی
کہ اِن پہ بیٹھو تو سارے انسانی رشتے ناتے
خلوص ، الفت ، وفا کے وعدے
اصول ، اقدار ، اور عقیدے
سب اپنا دامن چُھڑا کے بھاگیں

یہ جادوئی کُرسیاں ہیں ایسی
کہ اِن کے پہلو سے جنم لیتی ہیں اور بھی کُرسیاں ہزاروں
اس ایک کُرسی پہ ان کو ملتی ہے جا
جواپنے اصول، معیار اور قدریں فروخت کردیں
جواپنے آقا سے خوں کے رشتے تلاش کرلیں
جواپنے مالک کوعمر بھر کی غلامی لکھ دیں

جوکرسیاں ہیں حیقر ،چھوٹی
یہی توکل کو ترقی کرکے بلند ہوں گی
یہی پھلیں گی تو ان کے قدموں میں سجی ہزاروں کے سرجھکیں گے
یہی جو پھولیں گی تو زمیں کی تمام وسعت کو گھیر لیں گی

٭٭٭

یہ کیسا جنگل ہے
ہرطرف کُرسیاں ہیں یاکرسیوں کے طالب
یہ کیسا جنگل ہے ایک جانب ہزاروں کُرسی نشیں سروں کی
سنہری فصلیں چمک رہی ہیں
اور ایک جانب ہزاروں سریوں زمیں میں خود کو گڑو رہے ہیں
کہ خاک ان کو قبول کرے
تو ان سروں سے اُگیں کی آئندہ کرسیوں کی جوان فصلیں
یہ کرسیوں کاسنہرا جنگل جولاکھوں میزوں کاجال پھیلارہا ہے
قدموں کو روک لے گا
اگر یہاں رُک گئے تو صحرا نورد پیروں کو خود سے چلنا نہ آئے گا پھر
اگر یہاںرُک گئے تو ہاتھوں میں ہتھکڑی ڈال دیں گی میزیں
اگر یہاں رُک گئے تو یہ رینگتے سنپولے تمہارے اعضا میں زہر
اپنا انڈیل دیں گے
تمھیں بھی اپنے ہجوم میں گُم کریں گے
تم کوبھی اپنا ایسا غلام زادہ بناکے چھوڑیں گے
بھاگ نکلو
یہ کرسیوں کاکریہہ جنگل حدودِد شتِ ندامیں پھیلاہوا ہے ہرسو
یہ دُور ہی کی صدا سے جتنی بھی بھیک پالے
اُسی کو علم وکمال ودانش کاعطر جائے

یہاں سے بھاگو
اگر یہاں تم رُکے رہے تو صلائے کوہِ ندا کبھی پھر نہ مل سکے گی
یہ ساحرانِ ندا کا جادونگر ہے
جس میں ہزاروں لاکھوں ندا کے طالب پھنسے ہوئے ہیں
رُکا یہاں جو وہ کُرسیوں میں اُلجھ گیا ہے
رُکا یہاں جو وہ خود بھی کُرسی میں ڈھل گیا ہے

error: Content is protected !!