سائکل کی سواری
(مرحوم کی یاد میں)
(پطرس بخاری)
ایک مرزا صاحب اور میں برآمدے میں ساتھ ساتھ کرسیاں ڈالے چپ چاپ بیٹھے تھے۔ جب دوستی بہت پرانی ہو جائے۔ تو گفتگو کی چنداں ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اور دوست ایک دوسرے کی خاموشی سے بھی لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ یہی حال ہمارا تھا ہم دونوں اپنے اپنے خیالات میں غرق تھے۔ مرزا صاحب تو خدا جانے کیا سوچ رہے تھے۔ لیکن میں زمانے کی ناسازگاری پر غور کر رہا تھا۔ دور سڑک پر تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد ایک موٹر کار گزرجاتی تھی۔ میری طبیعت کچھ ایسی واقع ہوئی ہے کہ میںجب کبھی کسی کی موٹر کار کود دیکھوںمجھے زمانے کی ناسازگاری کا خیال ضرورستانے لگتا ہے۔ اور میں کوئی ایسی ترکیب سوچنے لگتا ہوں جس سے دنیا کی تمام دولت سب انسانوں میں برابر تقسیم کی جا سکے۔ اگر میں سڑک پر پیدل جا رہا ہوں اور کوئی موٹر اس ادا سے گزر جائے کہ گردو غبار میرے پھیپھڑوں میرے دماغ، میرے معدے اور میری تلی تک پہنچ جائے تو اس دن میں گھر آکر علم کیمیا کی وہ کتاب نکال لیتا ہوں۔ جو میں نے ایف۔اے میں پڑھی تھی اور اس غرض سے اس کا مطالعہ کرنے لگتا ہوںکہ شاید بم بنانے کا کوئی نسخہ ہاتھ آجائے۔
میں کچھ دیر تک آہیں بھرتا رہا۔ مرزا صاحب نے کچھ توجہ نہ کی آخر میں نے خاموشی کو توڑا۔ اور مرزا سے مخاطب ہو کر بولا:
’’مرزا! ہم میں اور حیوانوں میں کیا فرق ہے؟‘‘
مرزا صاحب بولے ’’بھئی کچھ ہوگا ہی نا آخر‘‘
میں نے کہا ’’میں بتاؤں تمہیں؟‘‘
کہنے لگے ’’بولو‘‘
میں نے کہا’’کوئی فرق نہیں۔ سنتے ہو مرزا؟ کوئی فرق نہیں۔ہم میں اور حیوانوں میں ۔۔۔کم از کم مجھ میں اور حیوانوں میں کوئی فرق نہیں! ہاں۔ ہاں میں جانتا ہوں تم مین میخ نکالنے میں بڑے طاق ہو ،کہہ دو گے حیوان جُگالی کرتے ہیں۔ تم جگالی نہیں کرتے۔ ان کے دُم ہوتی ہے ۔ تمہاری دُم نہیں۔ لیکن ان باتوں سے کیا ہوتا ہے؟ ان سے تو صرف یہی ثابت ہوتا ہے کہ وہ مجھ سے افضل ہیں۔ لیکن ایک بات میں ، میں اور وہ بالکل برابر ہیں۔ وہ بھی پیدل چلتے ہیں۔ میں بھی پیدل چلتا ہوں، اس کا تمہارے پاس کیا جواب ہے؟ جواب نہیں۔ کچھ تو کہو، بس چپ ہو جاؤ، تم کچھ نہیں سکتے جب سے میں پیدا ہوا ہوں اس دن سے پیدل چل رہا ہوں، پیدل! تم پیدل کے معنی نہیں جانتے۔ پید ل کے معنی ہیں سینہ زمین پر اس طرح سے حرکت کرنا کہ دونوں پاؤں میں سے ایک ضرور زمین پر رہے یعنی تمام عمر میرے حرکت کرنے کا طریقہ یہی رہا ہے کہ ایک پاؤں زمین پر رکھتا ہوں۔ دوسرا اٹھاتا ہوں، ایک پیچھے ایک آگے، خدا کی قسم اس طرح کی زندگی سے دماغ سوچنے کے قابل نہیں رہتا۔ حواس بیکار ہوجاتے ہیں، تخیل مر جاتا ہے، آدمی گدھے سے بدتر ہو جاتا ہے۔‘‘
مرزا صاحب میری اس تقریر کے دوران میں کچھ اس بے پروائی سے سگریٹ پیتے رہے کہ دوستوں کی بیوفائی پر رونے کو دل چاہتا تھا۔ میں نے از حد حقارت اور نفرت کے ساتھ منہ ان کی طرف سے پھیر لیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مرزا کو میری باتوں پر یقین ہی نہیں آتا۔ گویا میں اپنی جو تکالیف بیان کر رہا ہوں، وہ محض خیالی ہیں یعنی میرا پیدل چلنے کے خلاف شکایت کرنا قابل توجہ ہی نہیں یعنی میں کسی سواری کا مستحق ہی نہیں میں نے دل میں کہا’’اچھا مرزا یونہی سہی۔ دیکھو تو میں کیا کرتا ہوں۔‘‘
میں نے اپنے دانت پچی کر لیے اور کسی کے بازو سے جھک کر مرزا کے قریب پہنچ گیا۔ مرزا نے بھی سر میری طرف موڑا، میں مسکرا دیا لیکن میرے تبسم میں زہر ملا ہوا تھا، جب مرزا سننے کے لیے بالکل تیار ہو گیا تو میں نے چبا چبا کر کہا:
’’مرزا میں ایک موٹر کار خریدنے لگا ہوں‘‘
یہ کہہ کر میں بڑے استغنا کے ساتھ دوسری طرف دیکھنے لگا
مرزابولے’’کیا کہا تم نے ؟ کیا خریدنے لگے ہو؟‘‘
میں نے کہا’’ سنا نہیں تم نے ۔ میں ایک موٹر سائیکل خریدنے لگا ہوں۔ موٹر کار ایک ایسی گاڑی ہے جس کو بعض لوگ موٹر کہتے ہیں۔بعض لوگ کار کہتے ہیں۔ لیکن چونکہ تم ذرا کند ذہن ہو اس لیے میں نے دونوں لفظ استعمال کر دیے۔ تاکہ تمہیں سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہ آئے۔
مرزا بولے ’’ہوں‘‘
ابکے مرزا نہیں میں بے پروائی سے سگریٹ پینے لگا۔ بھویں میں نے اوپر کو چڑھا لیں۔ سگریٹ والا ہاتھ میں منہ تک اس انداز سے لاتا اور ہٹاتا تھا۔ کہ بڑے بڑے ایکٹر اس پررشک کریں۔
تھوڑی دیر کے بعد مرزا پھر بولے ، ’’ہوں‘‘
میں نے سوچا اثر ہو رہا ہے۔ مرزا صاحب پر رعب پڑ رہا ہے۔ میں چاہتا تھا ، مرزا کچھ بولے، تاکہ مجھے معلوم ہو کہاں تک مرعوب ہوا ہے لیکن مرزا نے پھر کہا ’’ہوں‘‘ ۔
میں نے کہا۔ ’’ مرزا جہاں تک مجھے معلوم ہے تم نے اسکول اور کالج اور گھر پر دو تین زبانیں سیکھی ہیں۔ اور اس کے علاوہ تمہیں کئی ایسے الفاظ بھی آتے ہیں۔ جو کسی اسکول یا کالج یا شریف گھرانے میں نہیںبولے جاتے۔ پھر بھی اس وقت تمہارا کلام ہوں‘‘ سے آگے نہیں بڑھتا۔ تم جلتے ہو۔ مرزا اس وقت تمہاری جو ذہنی کیفیت ہے۔ اس کو عربی زبان میں حسد کہتے ہیں۔‘‘
مرزا صاحب کہنے لگا’’نہیں یہ بات تو نہیں ۔ میں تو صرف خریدنے کے لفظ پر غور کر رہا تھا۔ تم نے کہا میں ایک موٹر کار خریدنے لگا ہوں۔ تو میاں صاحبزادے خریدنا تو ایک ایسا فعل ہے کہ اس کے لیے روپئے وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے وغیرہ کا بندوبست تو بخوبی ہو جائے گا لیکن روپئے کا بندوبست کیسے کروگے؟
یہ نکتہ مجھے بھی نہ سوجھا تھا لیکن میں نے ہمت نہ ہاری۔ میں نے کہا’’میں اپنی کئی قیمتی اشیاء بیچ سکتا ہوں‘‘
مرزا بولے’’کون کون سی مثلاََ؟‘‘
میں نے کہا’’ایک تو میں اپنا سگریٹ کیس بیچ ڈالوں گا‘‘
مرزا کہنے لگے ’’چلو دس آنے تو یہ ہو گئے۔ باقی ڈھائی تین ہزار کا انتظام بھی اسی طرح ہو جائے تو سب کام ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘
اس کے بعد ضروری یہی معلوم ہو اکہ گفتگو کا سلسلہ کچھ دیر کے لیے روک دیا جائے۔ چنانچہ میں مرزا سے بیزار ہو کر خاموش ہو رہا۔ یہ بات سمجھ میں نہ آئی کہ لوگ روپیہ کہاں سے لاتے ہیں۔ بہت سوچا آخر اس نتیجے پر پہنچا کہ لوگ چوری کرتے ہیں۔ اس سے ایک گونہ اطمینان ہوا۔
مرزا بولے’’میں تمہیں ایک ترکیب بتاؤں۔ ایک بائیسکل لے لو‘‘
میں نے کہا۔ ’’وہ روپیہ کا مسئلہ تو پھر بھی جوں کا توں رہا۔‘‘
کہنے لگا’’مفت‘‘
میں نے حیران ہو کر پوچھا’’مفت ؟ وہ کیسے؟‘‘
کہنے لگا’’ مفت ہی سمجھو۔ آخر دوست سے قیمت لینا بھی کہاں کی شرافت ہے۔ البتہ تمہیں احسان قبول کرنا گوارا نہ کرو تو اور بات ہے۔‘‘
ایسے موقع پر جو ہنسی میں ہنستا ہوں، اس میں معصوم بچے کی مسرت جوانی کی خوشدلی، اُبلتے ہوئے فواروں کی موسیقی اور بلبلوں کا نغمہ سب ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوتے ہیں۔ چنانچہ میں یہ ہنسی ہنسا۔ اور اس طرح ہنسا کہ کھلی ہوئی باچھیں پھر گھنسوں تک اپنی اصلی جگہ پر واپس نہ آئیں۔ جب مجھے یقین ہو گیا کہ یک لخت کوئی خوشخبری سننے سے دل کی حرکت بند ہو جانے کا جو خطرہ ہوتا ہے۔ اس سے محفوظ ہوں۔ تو میں نے پوچھا ’’ہے کس کی ؟‘‘
مرزا بولے ’’میرے پاس ایک بائیسکل پڑی ہے۔ تم لے لو‘‘
میں نے کہا’’پھر کہنا پھر کہنا!‘‘
کہنے لگے’’بھئی ایک بائیسکل میرے پاس ہے ، جب میری ہے تو تمہاری ہے تم لے لو۔‘‘
یقین مانئے مجھ پر گھروں پانی پڑ گیا۔ شرم کے مارے میں پسینہ پسینہ ہو گیا۔ چودھویں صدی میں ایسی بے غرضی اور ایثار بھلا کہاں دیکھنے میں آتا ہے۔ میں نے کرسی سرکاکر مرزا کے پاس کر لی۔ سمجھ میں نہ آیا کہ اپنی ندامت اور ممنوعیت کا اظہار کن الفاظ میں کروں۔
میں نے کہا’’مرزا سب سے پہلے تو میں اس گستاخی اور درشتی اور بے ادبی کے لیے معافی مانگتاہوں۔ جو ابھی ابھی میں نے تمہارے ساتھ گفتگو میں روا رکھی۔ دوسرے میں آج تمہارے سامنے ایک اعتراف کرنا چاہتا ہوں۔ اور امیدکرتا ہوں کہ تم میری صاف گوئی کی داد دوگے اور مجھے اپنی رحم دلی کے صدقے معاف کر دوگے۔ میں ہمیشہ تم کو از حد کمینہ ، ممسک، خو دغرض اور عیار انسان سمجھتا رہا ہوں۔ دیکھو ناراض مت ہو۔ انسان سے غلطی ہو ہی جاتی ہے لیکن آج تم نے اپنی شرافت اور دوست پروری کا ثبوت دیا ہے۔ اور مجھ پر ثابت کر دیا ہے کہ میں کتنا قابل نفرت، تنگ خیال اور حقیر شخص ہوں، مجھے معاف کر دو۔‘‘
میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ قریب تھا کہ میں مرزا کے ہاتھ کو بوسہ دیتا۔ اور اپنے آنسوؤں کو چھپانے کے لیے اس کی گود میں سر رکھ دیتا لیکن مرزا صاحب کہنے لگے:
’’واہ اس میں میری فیاضی کیا ہوتی، میرے پاس ایک بائیسکل ہے۔ جیسے میں سوار ہوا۔ ویسے تم سوار ہوئے۔‘‘
میں نے کہا’’مرزا مفت میں نہ لوں گا ، یہ ہرگز نہیں ہو سکتا ۔‘‘
مرزا کہنے لگے’’بس میں اسی بات سے ڈرتا تھا ، تم حساس اتنے ہو کہ کسی کا احسان لینا گوارا نہیں کرتے ، حالانکہ خدا گواہ ہے، احسان اس میں کوئی نہیں۔‘‘
میں نے کہا’’خیر کچھ بھی سہی تم سچ سچ مجھے اس کی قیمت بتا دو۔‘‘
مرزا بولے’’قیمت کا ذکر کرکے تم گویا مجھے کانٹوں میں گھسیٹے ہو اور جس قیمت پر میں نے خریدی تھی وہ تو بہت زیادہ تھی اور اب تو وہ اتنے کی رہی بھی نہیں۔‘‘
میں نے پوچھا’’تم نے کتنے میں خریدی تھی۔‘‘
کہنے لگے’’میں نے پونے دو سو روپئے میں لی تھی۔ لیکن اس زمانے میں بائیسکلوں کا رواج ذرا کم تھا۔ اس لیے قیمتیں ذرا زیادہ تھیں۔‘‘
میں نے کہا ’’کیا بہت پرانی ہے؟‘‘
بولے ’’نہیں ایسی پرانی بھی کیا ہوتی۔ میرا لڑکا اس پر کالج آیا جایا کرتا تھااور اسے کالج چھوڑے ابھی دو سال بھی نہیں ہوئے۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ آج کل کی بائیسکلوں سے ذرا مختلف ہے۔ آج کل توبائیسکلیں ٹین کی بنتی ہیں۔ جنہیں کالج کے سر پھرے لونڈے سستی سمجھ کر خرید لیتے ہیں۔ پرانی بائیسکلوں کے ڈھانچے مضبوط ہوا کرتے تھے۔
’’مگر مرزا پونے دو سو روپے تو میں ہرگز نہیں دے سکتا۔ اتنے روپئے میرے پاس کہاں سے آئے۔ میں تو اس سے آدھی قیمت بھی نہیں دے سکتا۔‘‘
مرزا کہنے لگے’’تو میں تم سے پوری قیمت تھوڑی مانگتا ہوں۔ اول تو قیمت لینا نہیں چاہتا ۔ لیکن۔۔۔۔‘‘
میں نے کہا’’ نہ مرزا قیمت تو تمہیں لینی پڑے گی ۔ اچھا تم یوں کرو۔ میں تمہاری جیب میں کچھ روپئے ڈال دیتا ہوں۔تم گھر جا کے گن لینا۔ اگر تمہیں منظور ہوئے توکل بائیسکل بھیج دینا۔ ورنہ روپئے واپس کر دینا۔ اب یہاں بیٹھ کر میں تم سے سودا چکاؤں ۔ یہ تو کچھ دکان داروں کی سی بات معلوم ہوتی ہے۔‘‘
مرزا بولے ’’بھئی جیسا تمہاری مرضی۔ میں تو اب بھی یہی کہتا ہوںکہ قیمت ویمت جانے دو لیکن میں جانتا ہوں کہ تم نہ مانوگے۔‘‘
میں اٹھ کر اندر کمرے میں آیا۔ میں نے سوچا ، استعمال شدہ چیز کی لوگ عام طور پر آدھی قیمت دیتے ہیںلیکن جب میں نے مرزا سے کہا تھا کہ مرز امیں تو آدھی قیمت بھی نہیں دے سکتا تو مرزا اس پر معترض نہ ہوا تھا۔ وہ بیچارا تو بلکہ یہی کہتا تھا کہ تم مفت ہی لے لو۔ لیکن مفت میں کیسے لے لوں۔ آخر بائیسکل ہے۔ ایک سواری ہے ۔ فٹنوں اورگھوڑوں اور موٹروں اور تانگوں کے زمرے میں شمار ہوتی ہے۔ بکس کو کھولا تومعلوم ہوا کہ ہست و بود کل چھیالیس روپئے ہیں۔ چھیالیس روپیے تو کچھ ٹھیک رقم نہیں۔ پینتالیس یا پچاس ہوں۔ جب بھی بات ہے۔ پچاس تو ہو نہیں سکتے اور اگر پینتالیس ہی دینے ہیںتو چالیس کیوں نہ دئے جائیں۔ جن رقموں کے آخرمیں صفرآتا ہے وہ رقمیں کچھ زیادہ معقول معلوم ہوتی ہیں۔ بس ٹھیک ہے ، چالیس روپئے دے دوں گا۔ خدا کرے مرزا قبول کرلے۔
باہر آیا۔ چالیس روپئے مٹھی میں بند کرکے میں نے مرزا کی جیب میں ڈال دیے اور کہا’’ مرزا اس کو قیمت نہ سمجھنا۔ لیکن اگر ایک مفلس دوست کی حقیری رقم منظور کرنا تمہیں اپنی توہین معلوم نہ ہو تو کل بائیسکل بھیجوادینا۔‘‘
مرزا چلنے لگے۔ تو میں نے پھر کہا۔ کہ مرزا کل ضرور صبح ہی صبح بھیجوادینا۔ رخصت ہونے سے پہلے میں نے پھر ایک دفعہ کہا’’کل صبح آٹھ نو بجے تک پہنچ جائے ۔ دیر نہ کر دینا۔۔۔۔۔۔ خدا حافظ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور دیکھو مرزا میرے تھورے سے روپیوں کو بھی زیادہ سمجھنا۔۔۔۔خدا حافظ۔۔۔۔اور تمہارا بہت بہت شکریہ۔ میں تمہارا بہت ممنون ہوں۔ اور میری گستاخی کو معاف کر دینا۔ دیکھو نا کبھی کبھی یوں ہی بے تکلفی میں ۔۔۔۔۔کل صبح آٹھ نو بجے تک ۔۔۔۔ضرور ۔۔۔۔خدا حافظ۔‘‘
مرزا کہنے لگے۔’’ذرا اس کو جھاڑ پونچھ لینا۔ اور تیل وغیرہ ڈلوا لینا۔ میرے نوکر کو فرصت ہوئی تو میں خود ہی ڈلوادوں گا۔ ورنہ تم خود ڈال لینا۔‘‘
میں نے کہا’’ہاں ہاں، وہ سب کچھ ہو جائے گا۔ تم کل بھیج ضرور دینا اور دیکھنا آٹھ بجے تک یا ساڑھے سات تک پہنچ جائے ۔ اچھا۔۔۔۔۔خدا حافظ!‘‘
رات کو بستر پر لیٹا تو بائیسکل پر سیر کرنے کے مختلف پروگرام تجویز کرتا رہا۔ ارادہ تو پختہ کر لیا کہ دو تین دن کے اندر اندر ارد گرد کی تمام مشہورتاریخی عمارات اور کھنڈروں کو نئے سرے سے دیکھ ڈالوں گا۔ اس کے بعد اگلے گرمی کے موسم میں ہو سکا تو بائیسکل پر کشمیر وغیرہ کی سیر کروں گا۔ صبح صبح ہوا خوری کے لیے ہرروز نہر تک جایا کروں گا۔ شام کو ٹھنڈی سڑک پرجہاں اور لوگ سیر کو نکلیں گے۔ میں بھی سڑک کی صاف شفاف سطح پر ہلکے ہلکے خاموشی کے ساتھ ہاتھی دانت کی ایک گیند کی مانند گزر جاؤں گا۔ ڈوبتے ہوئے آفتاب کی روشنی بائیسکل کے چمکیلے حصوں پرپڑے گی تو بائیسکل جگمگا اٹھے گی اور ایسا معلوم ہوگا جیسے ایک راج ہنس زمین کے ساتھ ساتھ اڑ رہا ہے۔ ہو مسکراہٹ جس کا میں اوپر ذکر کر چکا ہوں ابھی تک میرے ہونٹوں پر کھیل رہی تھی۔ بارہا دل چاہا کہ ابھی بھاگ کر جاؤں اور اسی وقت مرزا کو گلے لگا لوں۔
رات کو خواب میں دعائیں مانگتا رہا کہ خدایا مرزا بائیسکل دینے پر رضامند ہو جائے۔
صبح اٹھا۔ تو اٹھتے کے ساتھ ہی نوکر نے یہ خوش خبری سنائی کہ حضور وہ بائیسکل آ گئی ہے۔
میں نے کہا’’اتنی سویرے؟‘‘
نوکر نے کہا۔ ’’وہ تو رات ہی کو آگئی تھی۔ آپ سو گئے تھے۔ میں نے جگانا مناسب نہ سمجھا۔ اور ساتھ ہی مرزا صاحب کا آدمی یہ ڈھبریاں کسنے کا ایک اوزار بھی دے گیا ہے۔‘‘
میں حیران تو ہوا کہ مرزا صاحب نے سائیکل بھجوا دینے میں اس قدر عجلت سے کیوں کام لیا۔ لیکن اس نتیجے پر پہنچا کہ آدمی نہایت شریف اور دیانتدار ہیں۔ روپئے لے لئے تھے، تو بائیسکل کیوں روک رکھتے۔‘‘
نوکر سے کہا’’دیکھو یہ اوزار یہیں چھوڑ جاؤاور دیکھو بائیسکل کو کسی کپڑے سے خوب اچھی طرح جھاڑو اور یہ موٹر پر جو بائیسکلوں والا بیٹھتا ہے، اس سے جاکر بائیسکل میں ڈالنے کا تیل لے آؤ۔ اور دیکھو، ابے بھاگا کہاں جا رہا ہے۔ ہم ضروری بات تم سے کہہ رہے ہیں، بائیسکل والے سے تیل کی ایک کُپی بھی لے آنا اور جہاں جہاں تیل دینے کی جگہ ہے وہاں وہاںدے دینااور بائیسکلوں والے سے کہنا کہ کوئی گھٹیا سا تیل نہ دے جس سے تمام پرزے ہی خراب ہو جائیں۔ بائیسکل کے پرزے بڑے نازک ہوتے ہیں۔ اور بائیسکل باہر نکال رکھو۔ ہم ابھی کپڑے پہن کر آتے ہیں۔ ہم ذرا سیر کو جا رہے ہیںاور دیکھو صاف کر دینااور بہت زور زور سے کپڑا بھی مت رگڑنا بائیسکل کا پالش گھس جاتاہے۔‘‘
جلدی جلدی چائے پی ۔ غسل خانے میں بڑے جوش و خروش کے ساتھ ’’‘چل چل چنبیلی باغ میں‘ گاتا رہا۔ اس کے بعد کپڑے بدلے۔ اوزار کو جیب میں ڈالا اور کمرے سے باہر نکلا۔
بر آمدے میں آیا۔ تو برآمدے کے ساتھ ہی ایک عجیب و غریب مشین نظر پڑی۔ ٹھیک طرح پہنچان نہ سکا کہ کیا چیز ہے۔ نوکر سے دریافت کیا۔’’کیوں بے یہ کیا چیز ہے؟‘‘
نوکر بولا۔’’حضور یہ بائیسکل ہے۔‘‘
میں نے کہا ’’بائیسکل؟ کس کی بائیسکل؟‘‘
کہنے لگا’’مرزا صاحب نے بھیجوائی ہے۔ آپ کے لیے‘‘
میں نے کہا ’’اور جو بائیسکل رات کو انھوں نے بھیجی تھی۔ وہ کہا ںگئی؟‘‘
کہنے لگا۔’’یہی تو ہے‘‘
میں نے کہا ’’کیا بکتا ہے۔ جو بائیسکل مرزا صاحب نے کل را ت بھیجی تھی۔ وہ بائیسکل یہی ہے؟‘‘
کہنے لگا’’جی ہاں‘‘
میںنے کہا ’’اچھا‘‘ اور پھر اسے دیکھنے لگا۔
’’اس کو صاف کیوں نہیں کیا؟‘‘
’’حضور دوتین دفعہ صاف کیا ہے۔‘‘
’’تو یہ میلی کیوں ہے؟‘‘
نوکر نے اس کا جواب دینا شاید مناسب نہ سمجھا
’’اور تیل لایا؟‘‘
’’ہاں حضور لایا ہوں‘‘
’’دیا؟‘‘
’’حضور وہ جو تیل دینے کے چھید ہوتے ہیں۔ وہ نہیں ملتے ‘‘
’’کیا وجہ ؟‘‘
’’حضور دھروں پہ میل اور زنگ جما ہے۔ وہ سوراخ کہیں بیچ ہی میں دب دبا گئے ہیں۔‘‘رفتہ رفتہ میں اس چیز کے قریب آیا ۔ جس کو میرا نوکر بائیسکل بتا رہا تھا۔ اس کے مختلف پرزوں پر غور کیا۔ تو اتنا تو ثابت ہو گیا کہ بائیسکل ہے لیکن مجمل ہیئت سے یہ صاف ظاہر تھا کہ ہل اور ہٹ اور چرخہ اور اسی طرح کی اور جدید ایجادات سے پہلے کی بنی ہوئی ہے۔ پہیے کو گھما گھما کر وہ سوراخ تلاش کیا جہاں کسی زمانے میں تیل دیا جاتا تھا۔ لیکن اب اس سوراخ میں سے آمد و رفت کا سلسلہ بند تھا۔ چنانچہ نوکر بالا ’’حضور وہ تیل تو سب ادھر اُدھر بہہ جاتا ہے۔ بیچ میں توجاتا ہی نہیں۔‘‘
میں نے کہا ’’اچھا اوپر اوپر ہی ڈال دو۔ یہ بھی مفید ہوتا ہے‘‘
آخر کار بائیسکل پر سوار ہوا۔ پہلا ہی پاؤں چلایا۔ تو ایسا معلوم ہواجیسے کوئی مردہ اپنی ہڈیاں چٹخا چٹخا کر اپنی مرضی کے خلاف زندہ ہو رہا ہے۔ گھر سے نکلتے ہی کچھ تھوری سی اترائی تھی۔ اس پر بائیسکل خود بخود چلنے لگی لیکن اس رفتار سے جیسے تارکول زمین پر بہتا ہے۔ اور ساتھ ہی مختلف حصوں سے طرح طرح کی آوازیں برآمد ہونی شروع ہوئیں۔ ان آوازوں کے مختلف گروہ تھے۔ چیں چاں، چوں کی قسم کی آوازیں زیادہ تر گدی کے نیچے اور پچھلے پہیے سے نکلتی تھیں۔ کھٹ ۔ کھڑ کھڑ کھڑڑ کے قبیل کی آوازیں مڈگارڈوں سے آتی تھیں۔ چر چرخ، چر ،چرخ کی قسم کے سرزنجیر اور پیڈل سے نکلتے تھے۔ زنجیر ڈھیلی ڈھیلی تھی میں جب کبھی پیڈل پر زور ڈالتا تھا۔ زنجیر میں ایک انگڑائی سی پیدا ہوئی تھی ۔ جس سے وہ تن جاتی تھی اور چڑ چڑ بولنے لگتی تھی اور پھر ڈھیلی ہو جاتی تھی۔ پچھلا پہیہ گھومنے کے علاوہ جھومتا بھی تھا یعنی ایک تو آگے کو چلتا تھا اور اس کے علاوہ وہ داہنے سے بائیں اور بائیں سے داہنے کو بھی حرکت کرتا تھا۔ چنانچہ سڑک پر جو نشان پڑتا جاتا تھا، اس کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی مخمور سانپ لہرا کر نکل گیا ہے ۔ مڈگارڈ تھے تو سہی لیکن پہیوں کے عین اوپر نہ تھے۔ ان کا فائدہ صرف یہ معلوم ہوتا تھا کہ انسان شمال کی سمت سیر کرنے کو نکلے اور آفتاب مغرب میں غروب ہو رہا ہو تو مڈگارڈوں کی بدولت ٹائر دھوپ سے بچے رہیں گے۔ اگلے پہیے کو ٹائر میں ایک بڑا سا پیوند لگا تھا، جس کی وجہ سے پہیہ ہر چکر میں ایک دفعہ لمحہ بھر کوزور سے اوپر اٹھ جاتا تھا اور میرا سر پیچھے کو یوں جھٹکے کھا رہا تھا جیسے کوئی متواتر ٹھوڑی کے نیچے مکے مارے جا رہا ہوپچھلے اور اگلے پہیے کو ملاکر چوں چوں پھٹ ۔ چوں چوں پھٹ ۔ چوں چوں۔۔۔۔ پھٹ کی صدا نکل رہی تھی۔ جب اتار پر بائیسکل ذرا تیز ہوئی۔ تو فضا میں ایک بھونچال سا آگیا۔ اور بائیسکل کے کئی اور پرزے جو اب تک سو رہے تھے۔ بیدار ہو کر گویا ہوئے۔ ادھر اُدھر کے لوگ چونکے۔ ماؤں نے اپنے بچوں کو سینے سے لگا لیا۔ کھڑڑ کھڑڑ کے بیچ میں پہیوں کی آواز جُدا سنائی دے رہی تھی لیکن چونکہ بائیسکل اب پہلے سے تیز تھی، اس لئے چوں چوں پھٹ۔چوں چوں پھٹ کی آواز نے اب چچوں پھٹ چچوں پھٹ کی صورت اختیار کر لی تھی۔ تمام بائیسکل کسی ادق افریقی زبان کی گردانیں دہرا رہی تھی۔
اس قدر تیز رفتاری بائیسکل کی طبع نازک پر گراں گزری چنانچہ اس میں یک لخت دو تبدیلیاں واقع ہو گئیں۔ ایک تو ہینڈل ایک طرف کو مڑ گیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں جاتو سامنے کو رہا تھا لیکن میرا تمام جسم دائیں طرف کومڑا ہوا تھا۔ اس کے علاوہ بائیسکل کی گدّی دفعتاً چھ انچ کے قریب نیچے بیٹھ گئی۔ چنانچہ جب پیڈل چلانے کے لیے میں ٹانگیں اوپر نیچے کر رہا تھا۔ تو میرے گھٹنے میری ٹھوری تک پہنچ جاتے تھے۔ کم دُہری ہو کر باہر کو نکلی ہوئی تھی۔ اور ساتھ ہی اگلے پہیے کی اٹکھیلیوں کی وجہ سے سر برابر جھٹکے کھا رہا تھا۔
گدی کا نیچا ہو جانا از حد تکلیف وہ ثابت ہوا۔ اس لئے میں نے مناسب یہی سمجھاکہ اس کو ٹھیک کر لوں۔ چنانچہ میں نے بائیسکل کو ٹھہرا لیا اور نیچے اترا۔ بائیسکل کے ٹھہر جانے سے یک لخت جیسے دنیا میں ایک خاموشی سی چھا گئی۔ ایسا معلوم ہوا جیسے میں کسی ریل کے اسٹیشن سے نکل کر باہر آ گیا ہوں۔ جیب سے میں نے اوزار نکالا۔ گدی کو اونچا کیا۔ کچھ ہینڈل کو ٹھیک کیا۔ اور دوبارہ سوار ہو گیا۔
دس قدم بھی چلنے نہ پایا تھا کہ ابکے ہینڈل یک لخت نیچا ہو گیا ۔ اتنا کہ گدی اب ہینڈل سے کوئی فٹ بھر اونچی تھی۔ میرا تمام جسم آگے کو جھکا ہوا تھا ، تمام بوجھ دونوں ہاتھوں پر تھا۔ جو ہینڈل پر رکھے تھے اور برابر جھٹکے کھا رہے تھے، آپ میری حالت کو تصور کریں ۔ تو آپ کو معلوم ہوگا کہ میں دور سے ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے کوئی عورت آٹا گوندھ رہی ہو۔ مجھے اس مشابہت کا احساس بہت تیز تھا جس کی وجہ سے میرے ماتھے پہ پسینہ آ گیا ۔ میں دائیں بائیں لوگوں کو کنکھیوں سے دیکھتا جاتا تھا۔ یوں تو ہر شخص میل بھر پہلے ہی سے مڑمڑک ر دیکھنے لگتا تھا۔ لیکن ان میں کوئی بھی ایسا نہ تھا جس کے لیے میری مصیبت ضیافت طبع کا باعث نہ ہو۔
ہنڈل تو نیچا ہو ہی گیا تھا تھوڑی دیر بعد گدی پھر نیچے ہو گئی۔ اور ہمہ تن زمین کے قریب پہنچ گیا۔ ایک لڑکے نے کہا ’’دیکھو یہ آدمی کیا کر رہا ہے‘‘۔ گویا اس بد تمیز کے نزدیک میں کوئی کرتب دکھا رہا تھا۔ میں نے اتر پھر ہنڈل اور گدی کو اونچا کیا۔ لیکن تھوری دیر کے بعد ان میں سے ایک نہ ایک پھر نیچا ہو جاتا ۔ وہ لمحے جن کے دوران میں میرے ہاتھ اور میرا جسم دونوں برابر ایک ہی بلندی پر واقع ہوں ، بہت ہی کم تھے اور ان میں بھی یہی سوچتا رہتا تھا کہ اب کے گدی پہلے بیٹھے گی یا ہینڈل؟ چنانچہ نڈر ہو کر بیٹھتا بلکہ جسم کو گدی سے قدرے اوپر ہی رکھتا ۔ لیکن اس سے ہینڈل پر اتنا بوجھ پڑ جاتا کہ وہ نیچا ہو جاتا ۔
جب دو میل گزر گئے اور بائیسکل کی اٹھک بیٹھک نے ایک مقرر باقاعدگی اختیار کر لی۔ تو فیصلہ کیا کہ کسی مستری سے پینچ کسوا لینے چاہئیں۔ چنانچہ بائیسکل کو ایک دکان پر لے گیا۔
بائیسکل کی کھڑکھڑے دکان میں جتنے لوگ کام کر رہے تھے سب کے سب سر اٹھاکر میری طرف دیکھنے لگے۔ لیکن میں نے جی کڑاکر کے کہا ’’ذرا اس کی مرمت کر دیجئے‘‘
ایک مستری آگے بڑھا۔ لوہے کی ایک سلاخ اس کے ہاتھ میں تھی جس سے اس نے مختلف حصوں کو بڑی بے دردی کے ساتھ ٹھوک بجا کردیکھا ۔ معلوم ہوتا تھا اس نے بڑی تیزی کے ساتھ سب حالات کا اندازہ لگالیا ہے۔ لیکن پھر بھی مجھ سے پوچھنے لگا۔’’کس کس پُرزے کی مرمت کرائیے گا؟‘‘
میں نے کہا ’’بڑے گستاخ ہو تم ۔ دیکھتے نہیںکہ صرف ہینڈل اور گدی کو ذرا ونچا کرواکے کسوانا ہے۔ بس اور کیا؟ ان کو مہربانی کرے کے فوراً ٹھیک کر دو اور بتاؤ کتنے پیسے ہوئے؟‘‘
مستری کہنے لگا’’مڈگارڈ بھی ٹھیک نہ کر دوں؟‘‘
میں نے کہا ہاں ۔وہ بھی ٹھیک کر دو۔‘‘
کہنے لگا’’اگر آپ باقی چیزیں بھی ٹھیک کرالیں تو اچھا ہو۔‘‘
میں نے کہا’’اچھا کر دو۔‘‘
بولا۔’’یوں تھوڑی ہو سکتا ہے ۔ دس پندرہ دن کا کام ہے ۔ آپ اسے ہمارے پاس چھوڑ جائیے۔‘‘
’’اور پیسے کتنے لوگے؟‘‘
کہنے لگا’’بس تیس چالیس روپئے لگیں گے۔‘‘
ہم نے کہا ’’بس جی۔ جو کام تم سے کہا ہے کر دو اور باقی ہمارے معاملات میں دخل مت دو۔‘‘
تھوڑی دیر میں ہینڈل اور گدی پھر اونچی کر کے کس دی گئی۔ میں چلنے لگا تو مستری نے کہا۔ میں نے کس تو دیا ہے۔ لیکن پینچ سب گھسے ہوئے ہیں۔ ابھی تھوڑی دیر میں پھر ڈھیلے ہو جائیں گے۔‘‘
میں نے کہا ’’ہیں بدتمیز کہیں کا۔ تو دو آنے پیسے مفت میں لے لئے؟‘‘
بولا ’’جناب آپ کو بائیسکل بھی تو مفت میں ملی ہوگی۔ یہ آپ کے دوست مرزا صاحب کی ہے نا؟۔ للّو یہ وہی بائیسکل ہے جو پچھلے سال مرزا صاحب یہاں بیچنے کو لائے تھے۔ پہچانی تم نے ؟ بھئی صدیاں ہی گزر گئیں۔ لیکن اس بائیسکل کی خطا معاف ہونے میں نہیں آتی۔‘‘
میں نے کہا ’’واہ مرزا صاحب کے لڑکے اس پر کالج آیا جایا کرتے تھے۔ اور ان کو ابھی کالج چھوڑے دوسال بھی نہیں ہوئے۔‘‘
مستری نے کہا ’’ہاں وہ تو ٹھیک ہے۔ لیکن مرزا صاحب خود جب کالج میں پڑھتے تھے تو ان کے پاس بھی تو یہی بائیسکل تھی۔‘‘
میری طبیعت یہ سن کر کچھ مردہ سی ہوگئی۔ میں بائیسکل کو ساتھ لئے آہستہ آہستہ پیدل چل پڑا۔ لیکن پیدال چلنا بھی مشکل تھا۔ اس بائیسکل کے چلانے میں ایسے ایسے پٹھوں پر زور پڑتا تھاجو عام بائیسکلوں کے چلانے میں استعمال نہیں ہوتے۔ اس لئے ٹانگوںاور کندھوں اور کمر اور بازوؤں میں جا بجا درد ہو رہا تھا۔ مرزا کا خیال رہ رہ کر آتا تھا لیکن میں ہر بار کوشش کرکے اسے دل سے ہٹا دیتا تھا۔ورنہ میں پاگل ہو جاتا اور جنون کی حالت میں پہلی حرکت مجھ سے یہ سرزد ہوتی کہ مرزا کے مکان کے سامنے بازار میں ایک جلسہ منعقد کرتا جس میں مرزا کی مکاری ، بے ایمانی اور دغابازی پر ایک طویل تقریر کرتا ۔ کل بنی نوع انسان اور آئندہ آنے والی نسلوں کو مرزا کی ناپاک فطرت سے آگاہ کر دیتا اور اس کے بعد ایک چتا جلا کر اس میں زندہ جل کر مر جاتا۔
میں نے بہتر یہی سمجھا کہ جس طرح ہو سکے اب اس بائیسکل کو اونے پونے داموں بیچ کر جو وصول ہوا سی پر صبر شکر کروں۔ بلا سے دس پندرہ روپیہ کا خسارہ سہی۔ چالیس کے چالیس روپئے تو ضائع نہ ہوں گے۔ راستے میں بائیسکلوں کی ایک اور دکان آئی ۔ وہاں ٹھہر گیا۔
دکان دار بڑھ کر میرے پاس آیا لیکن میری زبان کو جیسے قفل لگ گیا تھا ۔ عمر بھر کبھی کسی چیز کے بیچنے کی نوبت نہ آئی تھی۔ مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ ایسے موقع پر کیا کہتے ہیں۔ آخر بڑے سوچ بچار اور بڑے تامل کے بعد منہ سے صرف اتنا نکلا کہ ’’یہ بائیسکل ہے۔‘‘
دکاندار کہنے لگا۔ ’’پھر؟‘‘
میں نے کہا۔ ’’لوگے ؟‘‘
کہنے لگا ’’کیا مطلب ؟‘‘
میں نے کہا ۔ ’’بیچتے ہیں ہم‘‘
دکاندار نے مجھے ایسی نظر سے دیکھا کہ مجھے یہ محسوس ہوا۔ مجھ پرچوری کا شبہ کر
رہا ہے پھر بائیسکل کو دیکھا پھر مجھے دیکھا پھر بائیسکل کو دیکھا۔ ایسامعلوم ہوتا تھا کہ فیصلہ نہیں کر سکتا ۔ آدمی کون سا ہے اور بائیسکل کون سی ہے۔ آخر کار بولا ’’کیا کریں گے آپ اس کو بیچ کر؟‘‘
ایسے سوالوں کا خدا جانے کیا جواب ہوتا ہے میں نے کہا ’’کیا تم یہ پوچھنا چاہتے ہو کہ جو روپئے مجھے وصول ہوں گے ان کا مصرف کیاہوگا؟‘‘
کہنے لگا’’وہ تو ٹھیک ہے ۔ مگر کوئی اس کو لے کر کرے گا کیا؟‘‘
میں نے کہا ’’اس پر چڑھے گا اور کیا کرے گا۔‘‘
کہنے لگا’’اچھا ، چڑھ گیا، پھر؟‘‘
میں نے کہا ’’پھر کیا؟ پھر چلائے گا اور کیا؟‘‘
دکاندار بولا ’’اچھا؟ ہوں ۔ خدا بخش ذرا یہاں آنا۔ یہ بائیسکل بکنے آئی ہے۔‘‘
جن حضرت کا اسم گرامی خدا بخش تھا۔ انھوں نے بائیسکل کو دور ہی سے یوں دیکھا جیسے بو سونگھ رہے ہوں۔
اس کے بعد دونوں نے آپ میں مشورہ کیا۔ آخر میں وہ جن کا نام خدا بخش نہیں تھا میرے پاس آئے اور کہنے لگے۔ ’’توا ٓپ سچ مچ بیچ رہے ہیں؟‘‘
میں نے کہا تو اور کیا ۔ محض آپ سے ہم کلام ہونے کا فخر حاصل کرنے کے لیے میں گھر سے یہ بہانہ گھڑ کر لایا تھا؟‘‘
کہنے لگا ’’تو کیا لیں گے آپ؟‘‘
میںنے کہا ’’تمہیں بتاؤں‘‘
کہنے لگا سچ سچ بتاؤں؟‘‘
میں نے کہا’’ہاں‘‘
پھر کہنے لگا’’سچ سچ بتاؤں؟‘‘
میں نے کہا ’’اب بتاؤ گے بھی یا یونہی ترساتے رہوگے؟‘‘
کہنے لگا’’تین روپئے دوں گا اس کے ‘‘
میرا خون کھول اٹھا۔ اور میرے ہاتھ پاؤں اور ہونٹ غصے کے مارے کانپنے لگے۔ میں نے کہا:’’او صنعت و حرفت سے پیٹ پالنے والے نچلے طبقے کے انسان مجھے اپنی توہین کی پرو اہ نہیں ۔ لیکن تونے اپنی بیہودہ گفتاری سے اس بے زبان چیز کو جو صدمہ پہنچایا ہے ، اس کے لیے میں تجھے قیامت تک معاف نہیں کر سکتا۔‘‘ یہ کہہ کر میں بائیسکل پر سوار ہو گیا اور اندھا دھند پاؤں چلانے لگا۔مشکل سے بیس قدم گیا ہوں گاکہ مجھے ایسا معلوم ہوا جیسے زمین یک لخت اُچھل کر مجھ سے آ لگی ہے۔ آسمان میرے سر پر سے ہٹ کر میری ٹانگوں کے بیچ میں سے گزر گیا اور ادھر اُدھر کی عمارتوں نے ایک دوسرے کے ساتھ اپنی اپنی جگہ بدل لی ہے۔ حواس بجا ہوئے تو معلوم ہوا ۔ میں زمین پر اس بے تکلفی سے بیٹھا ہوں گویا بڑی مدت سے مجھے اس بات کا شوق تھا جو آج پورا ہوا۔ ارد گرد کچھ لوگ جمع تھے جن میں سے اکثر ہنس رہے تھے۔ سامنے وہ دکان تھی۔ جہاں ابھی میں نے اپنی ناکام گفت و شنید کا سلسلہ منقطع کیا تھا۔ میں نے اپنے گردو پیش پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ میر بائیسکل کا اگلا پہیہ بالکل الگ ہو کر لڑھکتا ہوا سڑک کے اس پار جا پہنچا ہے۔ اور باقی بائیسکل میرے پاس پڑی ہے۔ میں نے فوراً اپنے آپ کو سنبھالا جو پہیہ الگ ہو گیا تھا، اس کو ایک ہاتھ میں اٹھایا۔ دوسرے ہاتھ میں باقی ماندہ بائیسکل کو تھاما۔ اور چل کھڑا ہوا ۔ یہ محض ایک اضطراری حرکت تھی ورنہ حاشا وکلا وہ بائیسکل مجھے ہرگز اتنی عزیز نہ تھی کہ میں اس کو اس حالت میں ساتھ ساتھ لئے پھرتا۔
جب میں یہ سب کچھ اٹھاکر چل دیا تو میں نے اپنے آپ سے پوچھا کہ یہ تم کیا کر رہے ہو۔ کہاں جا رہے ہو؟ تمہارا ارادہ کیا ہے۔ یہ دو پہیے کا ہے کولے جا رہے ہو!
سب سوالوں کا جوا ب یہی ملا کہ دیکھا جائے گا۔ فی الحال تم یہاں سے چل دو۔ سب لوگ تمہیں دیکھ رہے ہیں۔ سر اونچا رکھو اور چلتے جاؤ۔ جو ہنس رہے ہیں۔ انھیں ہنسنے دو۔ اس قسم کے بیہودہ لوگ ہر قوم اور ہر ملک میں پائے جاتے ہیں۔ آخر ہوا کیا۔ محض ایک حادثہ ۔ بس دائیں بائیں مت دیکھو ۔ چلتے جاؤ۔
لوگوں کے ناشائستہ کلمات بھی سنائی دے رہے تھے۔ ایک آواز آئی’’بس حضرت غصہ تھوک ڈالیے ۔‘‘ ایک دوسرے صاحب بولے ’’بے حیا بائیسکل ۔ گھر پہنچ کے تجھے مزا چکھاؤں گا‘‘۔ ایک والد اپنے لخت جگر کی انگلی پکڑے جا رہے تھے۔ میری طرف اشارہ کرکے کہنے لگے’’دیکھا بیٹا یہ سرکس کی بائیسکل ہے۔ اس کے دونوں پہیے الگ الگ ہوتے ہیں۔‘‘
لیکن میں چلتا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد میں آبادی سے دور نکل گیا۔ اب میری رفتار میں ایک عزیمت پائی جاتی تھی۔ میرا دل جو کئی گھنٹوں سے ایک کشمکش میں پیچ و تاب کھا رہا تھا۔ اب بہت ہلکا ہو گیا تھا۔میں چلتا گیا ۔ چلتا گیا۔ حتیٰ کہ دریا پر جا پہنچا۔ پل کے اوپر کھڑے ہوکر میں نے دونوں پہیوں کو ایک ایک کرکے اس بے پروائی کے ساتھ دریا میں پھینک دیا جیسے کوئی لیٹر بکس میں خط ڈالتا ہے۔ اور واپس شہر کو روانہ ہو گیا۔
سب سے پہلے مرزا کے گھر گیا۔ دروازہ کھٹکھٹایا ۔ مرزا بولے ’’اندر آجاؤ‘‘
میں نے کہا’’آپ ذرا باہر تشریف لائیے۔ میں آپ جیسے خدا رسیدہ بزرگ کے گھر میں وضو کئے بغیر کیسے داخل ہو سکتا ہوں؟‘‘
باہر تشریف لائے تو میں نے وہ اوزار ان کی خدمت میں پیش کیا ۔ جو انھوں نے بائیسکل کے ساتھ مفت ہی مجھ کو عنایت فرمایا تھا اور کہا:
’’مرزا صاحب آپ ہی اس اوزار سے شوق فرمایا کیجئے۔ میں اب اس سے بے نیاز ہو چکا ہوں۔
گھر پہنچ کر میں نے پھر علم کیمیا کی اس کتاب کا مطالعہ شروع کیا۔ جو میں نے ایف۔ اے میں پڑھی تھی۔
Nazma
January 14, 2022 at 1:58 amBhut achha tha