مرثیہ
انیسؔ، میر ببر علی
……………………………………………………….
نمکِ خوانِ تکلم ، ہے فصاحت میری
ناطقے بند ہیں ، سن سن کے بلاغت میری
رنگ اڑتے ہیں ، وہ رنگیں ہے عبارت میری
شور جس کا ہے ، وہ دریا ہے طبیعت میری
عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں
پانچویں پشت ہے شبیر کی مداحی میں
ایک قطرے کو جو دوں بسط ، تو قُلزم کر دوں
بحرِ موّاجِ فصاحت کا ، تلاطم کر دوں
ماہ کو مہر کروں ، ذرّوں کو انجم کردوں
گُنگ کو ماہرِ اندازِ تکلم کر دوں
دردِ سر ہوتا ہے ، بے رنگ نہ فریاد کریں
بلبلیں ، مجھ سے گلستاں کا سبق یاد کریں
مبتدی ہوں ، مجھے توقیر عطا کر یارب!
شوقِ مداحیِ شبیر عطا کر یارب!
سلک گوہر ہو ، وہ تقریرِ عطا کر یارب!
نظم میں ، رونے کی تاثیرِ عطا کر یارب!
جدّ و آبا کے سِوا غیر کی تقلید نہ ہو
لفظ مغلق نہ ہوں ، گنجلک نہ ہو ، تعقید نہ ہو
روز مرّہ شرفا کا ہو ، سلاست ہو وہی
لب و لہجہ وہی سارا ہو ، متانت ہو وہی
سامعیں جلد سمجھ لیں جسے ، صنعت ہو وہی
یعنی موقع ہو جہاں جس کا ، عبارت ہو وہی
لفظ بھی چُست ہوں ، مضمون بھی عالی ہو وے
مرثیہ درد کی باتوں سے ، نہ خالی ہووے
بزم کا رنگ جدا ، رزم کا میداں ہے جُدا
یہ چمن اَور ہے ، زخموں کا گلستاں ہے جُدا
فہم کامل ہو ، تو ہر نامے کا عنواں ہے جدا
مختصر پڑھ کے رُلا دینے کا ساماں ہے جدا
دبدبہ بھی ہو ، مصائب بھی ہوں ، توصیف بھی ہو
دل بھی محظوظ ہوں ، رقت بھی ہو ، تعریف بھی ہو
ماجرا ، صبح شہادت کا بیاں کرتا ہوں
رنج و اندوہ و مصیبت کا بیاں کرتا ہوں
تشنہ کاموں کی عبادت کا بیاں کرتا ہوں
جاں نثاروں کی اطاعت کا بیاں کرتا ہوں
جن کا ہمتا نہیں ، ایک ایک مُصاحب ایسا
ایسے بندے نہ کبھی ہوں گے ، نہ صاحب ایسا
صبح صادق کا ہوا ، چرخ پہ جس وقت ظہور
رمزے کرنے لگ ، یادِ الٰہی میں طیور
مثل خورشید بر آمد ہوئے خیمے سے حضور
یک بہ یک پھیل گیا چار طرف دشت میں نور
شش جہت میں رخ مولا سے ظہور حق تھا
صبح کا ذکر ہے کیا ، چاند کا چہر فق تھا
آئے سجادہ طاعت پہ امام دو جہاں
اس طرف طبل بجے ، یاں ہوئی لشکر میں اذاں
وہ مصلی ، کہ زباں جن کی حدیث و قرآں
وہ نمازی ، کہ جو ایماں کے تن پاک کی جاں
زاہد ایسے تھے ، کہ ممتاز تھے ابراروں میں
عابد ایسے تھے ، کہ سجدے کیے تلواروں میں
کیا جوانانِ خوش اطوار تھا، سبحان اللہ!
کیا رفیقانِ وفادار تھے ، سبحان اللہ !
صف در و غازی و جرار تھے ، سبحان اللہ!
زاہد و عابد و ابرار تھے ، سبحان اللہ!
زن و فرزند سے فرقت ہوئی ، مسکن چھوڑا
مگر احمدؐ کے نَواسے کا نہ دامن چھوڑا
جب ، فریضے کو ادا کر چکے وہ خوش اطوار
کَس کے کمروں کو ، بہ صد شوق لگائے ہتھیار
جلوہ فرما ہوئے گھوڑے پہ شہِ عرش وقار
علَم فوج کو عباس نے کھولا اِک بار
دشت میں نکہتِ فردوس بریں آنے لگی
عرش تک اس کے پھر ہرے کی ہوا جانے لگی
یک بہ یک طبل بجا ، فوج میں گرجے بادل
کوہ تھرّاے ، زمیں ہل گئی ، گونجا جنگل
پھول ڈھالوں کے چمکنے لگے تلواروں کے پھل
مرنے والوں کو نظر آنے لگی شکلِ اجل
واں کے چاؤش ، بڑھانے لگے دل لشکر کا
فوج اسلام میں نعرہ ہوا ’’یا حیدر کا‘‘
شور میدانیوں میں تھا ، کہ دلیرو ، نکلو
نیزہ بازی کرو ، رہواروں کو پھیرو! نکلو
نہر قابو میں ہے ، اب پیاسوں کو گھیرو ، نکلو
غازیو! صف سے بڑھو ، غول سے شیرو، نکلو
رستمو! دادِ وَغا دو ، کہ یہ دن داد کا ہے
سامنا ، حیدر کرار کی اولاد کا ہے
شور سادات میں تھا ، یا شہِ مرداں مددے!
کعبہ دیں مددے ، قبلۂ ایماں مددے!
قوتِ بازوے پیغمبر ذی شاں مددے
دم تائید ہے ، اے فخرِ سلیماں مددے
تیسرا فاقہ ہے ، طاقت میں کمی ہے مولا
طلب قوت ثابت قدمی ہے مولا
سامنے بڑھ کے یکایک صف کفار آئی
جھوم کر تیرہ گھٹا ، تاروں پہ اِک بار آئی
روزِ روشن کے چھپانے کو شبِ تار آئی
تشنہ کاموں کی طرف ، تیروں کی بوچھار آئی
ہنس کے ، منھ بھائی کا شاہِ شہدا نے دیکھا
اپنے آقا کو ، بہ حسرت ، رفقا نے دیکھا
عرض عباس نے کی ، جوش ہے جراروں کو
تیر سب کھاتے ہیں ، تولے ہوئے تلواروں کو
میہمانوں کا نہیں پاس ستم گاروں کو
مصلحت ہو تو رضا دیجیے ، غم خواروں کو
رؤسیاہوں کو ہٹا دیں ، کہ بڑھے آتے ہیں
ہم جو خاموش ہیں ، تو منھ پہ چڑھے آتے ہیں
شہہ نے فرمایا ، ہمیں خود ہے شہادت منظور
نہ لڑائی کی ہوس ہے ، نہ شجاعت کا غرور
اِن سے منظور نہ تھی جنگ ، پر اب ہیں مجبور
خیر! لڑلو کہ ستاتے ہیں یہ ، بے جرم و قصور
ذِبح کرنے کے لیے لشکرِ نازی آئے
کہیں جلدی ، مرے سر دینے کی باری آئے
حکم پانا تھا ، کہ شیروں نے اڑائے تازی
مثل شہباز گیا ، ایک کے بعد اک غازی
واہ رے حرب ، خوشا ضرب ، زہے جانبازی
اُڑ گیا ہاتھ ، بڑھا جو پئے دست اندازی
تن و سر ، لوٹتے ریتی پہ نظر آتے تھے
ایک حملے میں ، قدم فوج کے اٹھ جاتے تھے
جس پہ غصے میں گئے ، صید پہ شہباز گرا
یہ کماں کٹ کے گری، وہ قدر انداز گرا
جب گِرا خاک پہ گھوڑے سے ، تو ممتاز گرا
نہ اٹھا پھر کبھی ، جو تفرقہ پرداز گرا
ہاتھ منھ کٹ گئے ، سر اڑ گئے ، جی چھوٹ گئے
مورچے ہو گئے پامال، پرے ٹوٹ گئے
یہی ہنگامہ رہا صبح سے تا وقتِ زوال
لاش پر لاش گری ، پھر گیا میدانِ قتال
مورچے سب تہ و بالا تھے ، پرے سب پامال
سرخ رو خلق سے اٹھے اسد اللہ کے لال
کھیت ایسے بھی کسی فوج میں کم پڑتے ہیں
جو لڑا ، سب یہی سمجھے کہ علی لڑتے ہیں
دوپہر میں ، وہ چمن بادِ خزاں نے لوٹا
پتّا پٹا ہوا تاراج ، تو بوٹا بوٹا
باپ بیٹے سے چھُٹا، بھائی سے بھائی چھوٹا
ابنِ زہرا کی کمر جھک گئی ، بازو ٹوٹا
پھر نہ یاور ، نہ وہ جاں باز ، نہ وہ شیدا تھے
ظہر کے وقت حسین ابنِ علی تنہا تھے
بڑھ کے چلاتے تھے بے درد ، کہ اب آپ آئیں
جوہرِ تیغ شہنشاہِ نجف دکھلائیں
مرنے والے نہیں جیتے ، جو سِنانیں کھائیں
کاٹ لیں آپ کا سر تن سے ، تو فرصت پائیں
پسر سعدؔ سے وعدہ ہے صِلہ لینے کا
حکم ہے خیمۂ اقدس کے جَلا دینے کا
شہ نے فرمایا ، کہ سرکاٹ لو، حاضر ہوں میں
نہ تو لڑنے میں ، نہ مر جانے میں قاصر ہوں میں
فوج بھی اب نہیں ، بے یاور و ناصر ہوں میں
شہر و صحرا بھی تمہارا ہے ، مسافر ہوں میں
لوٹ لو ، پھونک دو ، تاراج کرو، بہتر ہے
کلمہ گویو! یہ تمہارے ہی نبی کا گھر ہے
کئی سیدانیاں خیمے میں ہیں پردے والی
جن کا رتبہ ہے زمانے میں ہر اک پر حالی
اب نہ وارث ہے کوئی سر پہ ، نہ کوئی والی
ان کو دیجو ، کوئی رہ جائے جو خیمہ خالی
یہ نبی زادیاں ، بے پردہ نہ ہوئیں جس میں
ایک گوشہ ہو ، کہ سب بیٹھ کے روئیں جس میں
سن کے ان باتوں کا اعدا نے دیا جو کہ جواب
گر لکھوں اس کو تو ہو جائے جگر سنگ کا آب
قلب تھرا گیا ، ہرگز نہ رہی ضبط کی تاب
دیکھ کر رہ گئے گردوں کو شہِ عرش جناب
اَشک خالی اسے کرتے ہیں جو دل بھر آئے
آپ رونے کے لیے خیمے کے در پر آئے
تھم کے چلّائے ، کہ اے زینب و اُمّ کلثوم!
تم سے رخصت کو ، پھر آیا ہے حسین مظلوم
اب مرے قتل کے درپے ہے یہ سب لشکرِ شوم
ہاں جگا دو اسے ، غش ہو جو سکینہ معصوم
نہیں ملتا ، جو زمانے سے گزر جاتا ہے
کہہ دو عابد سے ، کہ مرنے کو پدر جاتا ہے
یہ صدا سن کے ، حرم خیمے سے مضطر دوڑے
شہ کی آواز پہ ، سب بے کس و بے پر دوڑے
گر پڑیں سر سے رِدائیں ، تو کھلے سر دوڑے
بچے روتے ہوئے ، ماؤں کے برابر دوڑے
روکے چلائی سکینہ ، شہِ والا آؤ!
میں تمہیں ڈھونڈتی تھی دیر سے ، بابا ، آؤ!
دیکھ کے پردے سے کہنے لگی یہ زینبِ زار
ابن زہرا! تری مظلومی و غربت کے نِثار
آؤ چادر سے کروں پاک میں چہرے کا غبار
شہ نے فرمایا بہن ! مر گئے سب مونس و یار
تم نے پالا تھا جسے ، ہم اسے رو آئے ہیں
علی اکبر سے جگر بند کو کھو آئے ہیں
کہیو عابد سے ! یہ پیغام مرا بعد سلام
غش تھے تم ، پھر گئے دروازے تلک آکے امام
قید میں پھنس کے نہ گھبرائیو تم اے گل فام
کاٹیو! صبر و رضا سے سفر کوفہ و شام
ناؤ منجدھار میں ہے ، شورِ تلاطم جانو
نا خدا جاتا ہے ، گھر جانے ، بس اب تم جانو
کہہ کے یہ ، باگ پھرائی طرف لشکر شام
پڑ گیا خیمۂ ناموس نبی میں کہرام
رن میں گھوڑے کو اڑاتے ہوئے آئے جو امام
رعب سے فوج کے دِل ہل گئے ، کانپے اندام
سر جھکے ان کے ، جو کامل تھے زباں دانی میں
اڑ گئے ہوش فصیحوں کے ، رجز خوانی میں
تھا یہ نعرہ کہ محمدؐ کا نواسا ہوں میں
مجھ کو پہچانو! کہ خالق کا شناسا ہوں میں
زخمی ہونے سے ، نہ مرنے سے ہراساہوں میں
تیسرا دن ہے یہ گرمی میں ، کہ پیاسا ہوں میں
چین کیا چیز ہے ، آرام کسے کہتے ہیں؟
اس پہ شکوہ نہیں کچھ صبر اسے کہتے ہیں
اس کا پیارا ہوں جو ہے ساقی حوض کوثر
اس کا بیٹا ہوں جو ہے فاتح بابِ خیبر
اس کا فرزند ہوں ، کہ جس نے مہم بدر کی سر
اس کا دلبر ہوں میں ، دی جس کو نبی نے دُختر
صاحب تخت ہوئے ، تیغ ملی ، تاج ملا
دوش احمدؐ پہ انھیں رتبۂ معراج ملا
نہ ابھی ختم ہوئی تھی ، یہ مسلسل تقریر
حجت اللہ کے فرزند پہ چلنے لگے تیر
چوم کر تیغ کے قبضے کو پکارے شبیر
لو ، خبردار! چمکتی ہے علی کی شمشیر
پسرِ فاتح صفین و حُنین آتا ہے
لو! صفیں باندھ کے روکو تو ، حُسین آتا ہے
آپ سیدھے جو ہوئے ، رخش نے بدلے تیور
دونوں آنکھیں اُبل آئیں کہ ڈرے بانی شر
تھوتھنی مل گئی سینے سے ، کیا دُم کو چنور
مثل طاؤس اُڑا ، گاہ ادھر ، گاہ اُدھر
دم بہ دم گرد نسیم سحری پھرتی تھی
جھوم کر پھرتا تھا ، گویا کہ پری پھرتی تھی
ابر ڈھالوں کا اٹھا تیغ دو پیکر چمکی
برقی چھپتی ہے ، یہ چمکی تو برابر چمکی
سوئے پستی کبھی کو ندی ، کبھی سر پر چمکی
کبھی انبوہ کے اندر ، کبھی باہر چمکی
جس طرف آئی وہ ناگن ، اسے ڈستے دیکھا
منھ سروں کا ، صفِ دشمن پہ برستے دیکھا
کبھی چہرہ ، کبھی شانہ ، کبھی پیکر کاٹا
کبھی در آئی گلے میں ، تو کبھی سر کاٹا
کبھی مغفر ، کبھی جوشن ، کبھی بکتر کاٹا
طول میں راکبِ و مرکوب کو برابر کاٹا
برش تیغ کا غُل ، قاف سے تا قاف رہا
پی گئی خون ہزاروں کا ، پہ منھ صاف رہا
نہ رکی خود پہ وہ ، اور نہ وہ سر پر ٹھہری
نہ رکی تیغ پہ دم بھر ، نہ سپر پر ٹھہری
نہ جبیں پر ، نہ گلے پر ، نہ جگر پر ٹھہری
کاٹ کر زیں کو ، نہ گھوڑے کی کمر پر ٹھہری
غُل تھا بھاگو، یہ ہنگام ٹھہرنے کا نہیں
زہر اس کا جو چرھے گا ، تو اترنے کا نہیں
کٹ گئی تیغ تلے جب صفِ دشمن آئی
یک بہ یک فصل فراق سرو گردن آئی
بگڑی اس طرح لڑائی ، کہ نہ کچھ بن آئی
تیغ کیا آئی ، کہ اڑتی ہوئی ناگن آئی
جان گھبرا کے تن دشمن دیں سے نکلی
ہاتھ بھر ڈوب کے تلوار زمیں سے نکلی
تنِ تنہا شہِ دیں لاکھ سواروں سے لڑے
بے سپر ، برچھیوں والوں کی قطاروں سے لڑے
صورت شیر خدا ، ظلم شعاروں سے لڑے
دو سے اک لڑ نہیں سکتا ، یہ ہزاروں سے لڑے
گر ہو غالب تو ہزاروں یہ وہی غالب ہو
جو دل و جانِ علی ابنِ ابی طالب ہو
ہر طرف فوج میں غل تھا ، کہ دُہائی مولا !
ہم نے دیکھی ترے ہاتھوں کی صفائی ، مولا!
الاماں ، خوب سزا جنگ کی پائی ، مولا!
آپ کرتے ہیں بروں سے بھی بھلائی مولا!
ہاتھ ہم باندھتے ہیں پھینک کے شمشیروں کو
بخشیے! امتِ نااہل کی تقصیروں کو
آئی ہاتف کی یہ آواز ، کہ اے عرش مقام!
یہ وَغا تیسرے فاقے میں بشر کا نہیں کام
اے محمدؐ کے جگر بند ، امام ابنِ امام!
لوحِ محفوظ پہ مرقوم ہے صابر ترا نام
اب نہیں حکم لعینوں سے دَغا کرنے کا
ہاں یہی وقت ہے وعدے کے وفا کرنے کا
تھم گئے سن کے یہ آواز شہِ جن و بشر
روک کر تیغ کو ، فرمایا کہ حاضر ہے یہ سر
عید ہو جلد اگر ذبح کریں بانی شر
شمر اظلم ہے کدھر ؟ کھینچ کے آئے خنجر
ہے وہ عاشق ، جو فدا ہونے کو موجود رہے
بس مری فتح یہی ہے کہ وہ خوشنود رہے
کہ کے یہی میانِ میں مولا نے رکھی تیغِ دو دم
ہاتھ اٹھا کر یہ اشارت کیا گھوڑے سے کم تھم
رہ گیا سر کو ہلاکر فرسِ تیز قدم
چار جانب سے مسافر پہ چلے تیرِ ستم
نیزے یوں گِرد تھے، جیسے گل تر خاروں میں
چھپ گئے سبط نبی ظلم کی تلواروں میں
پہلے تیروں سے کمال داروں نے چھاتی چھانی
نیزے پہلو پہ لگاتے تھے ستم کے بانی
سر پہ تلواریں چلیں ، زخمی ہوئی پیشانی
خوں سے تر ہو گیا حضرت کا رُخ نورانی
جسم سب چور تھا ، پرزے تھے زِرہ جامے کے
پیچ کٹ کٹ کے کھلے جاتے تھے عمامے کے
ہاتھ سے باگ جدا تھی، تو رکابوں سے قدم
غش میں سیدھے کبھی ہوتے تھے فرس پہر ، کبھی خم
بہتے تھے پہلوؤں سے خوں کے دریڑے پیہم
کوئی بے کس کا مدد گار نہ تھا ، ہائے سِتم
مارے تلواروں کے ، مہلت نہ تھی دم لینے کی
کوشیشیں ہوتی تھی کعبے کے گرا دینے کی
نہ رہا جب ، کہ ٹھہرنے کا فَرس پر یارا
گِر پڑا خاک پہ ، وہ عرش خدا کا تارا
غش سے کچھ دیر میں چونکا ، جو علی کا پیارا
نیزہ سینے پہ ، سنانِ ابں انس نے مارا
واں ، تو نیزے کی اَنی پشت سے باہر نکلی
یاں بہن خیمے کی ڈیوڑھی سے کھلے سر نکلی
کھینچ کر سینے سے نیزہ ، جو بڑھا دشمن دیں
جھک کے حضرت نے رکھی خاک پہ سجدے میں جبیں
تیز کرتا ہوا خنجر کو بڑھا شِمر لعیں
آسماں ہل گئے ، تھرّا گئی مقتل کی زمیں
کیا کہوں تیغ کو ، کس طرح گلے پر رکھا
پانو قرآں پہ رکھا ، حلق پہ خنجر رکھا
ڈھانپ کر ہاتھوں سے منھ بنتِ علی چلاّئی
ذبح کرتے ہوئے مرے سامنے ، ہے ہے! بھائی
ضرب اوّل تھی ، کہ تکبیر کی آواز آئی
گِر پڑی خاک پہ ، غش کھاکے علی کی جائی
اٹھ کے دوڑی تھی ، کہ ہنگامہ محشر دیکھا
منھ کو کھولا ، تو سرِ شہ کو سِناں پر دیکھا
بس انیسؔ آگے نہ لکھ زینب ناشاد کے بَین
قتل ہو جانے پہ بھی دھوپ میں تھی لاشِ حسین
قبر میں بھی نہ ملا احمد مختارؔ کو چین
گھر جلا ، قید ہوئی ، آلِ رسول الثقلین
کتنے گھر ، شاہ کے لُٹ جانے سے برباد ہوئے
لُٹ گئے یوں ، کہ نہ سادات پھر آباد ہوئے
………….
انتخاب منظومات حصہ دوم ، اتر پردیش اردواکادمی، لکھنؤ سے ماخوذ۔