کسان
*نظم کسان مجموعہ”شعلہ و شبنم“ سے ماخوذ ہے۔
جھٹپٹے کا نرم رو دریا، شفق کا اضطراب
کھیتیاں، میدان، خاموشی، غروف آفتاب
دشت کے کام و دہن کو دِن کی تلخی سے فراغ
دورِ دریا کے کنارے، دھند لے دھندلے سے چراغ
زیر لب ارض و سما میں باہمی گفت و شنود
مشعل گردوں کے بجھ جانے سے اِک ہلکا سا دود
وسعتیں میدان کی سورج کے چھپ جانے سے تنگ
سبزہ افسردہ پر خواب آفریں ہلکا سا رنگ
خامشی، آور خامشی میں سنسناہٹ کی صدا
شام کی خُنکی سے گویا دن کی گرمی کا گِلا
اپنے دامن کو برابر قطع سا کرتا ہوا
تیرگی میں کھیتوں کے درمیان کا فاصِلا
خار و خس پر ایک درد انگیز افسانے کی شان
بامِ گردوں پر کسی کے روٹھ کر جانے کی شان
دوب کی خوشبومیں، شبنم کی نمی سے اِک سرور
چرخ پر بادل، زمیں پر تتلیاں،سر پر طیور
پارہ پارہ ابر، سرخی، سرخیوں میں کچھ دھواں
بھولی بھٹکی سی زمیں، کھویا ہوا سا آسماں
پتیاں مخمور، کلیاں آنکھ جھپکاتی ہوئی
نرم جاں پودوں کو گویا نیند سی آتی ہوئی
یہ سماں، آور اِک قوی اِنسان، یعنی کاشتکار
اِرتقا کا پیشوا، تہذیب کا پروردِگار
طفل باراں، تاجدار خاک، امیر بوستاں
ماہرِ آئینِ قدرت، ناظم بزم جہاں
ناظرِ گل، پاسبانِ رنگ و بو، گلشن پناہ
ناز پرور، لہلہاتی کھیتیوں کا بادشاہ
وارثِ اسرارِ فطرت، فاتح امید و بیم
محرمِ اسرارِ باراں، واقفِ طبع نسیم
صبح کا فرزند، خورشید زر افشاں کا علم
محنتِ پیہم کا پ’پیماں‘ سخت کوشی کی قسم
جلوہئ قدرت کا شاہد، حسن فطرت کا گواہ
ماہ کا دل، مہر عالمتاب کا نورِ نگاہ
قلب پر جس کے نمایاں نور و ظلمت کا نظام
منکشف جس کی فراست پر مزاج صبح و شام
خون ہے جس کی جوانی کا بہار روزگار
جس کے اشکوں پر فراغت کے تبسم کا مدار
جس کی محنت کا عرق تیار کرتا ہے شراب
اڑ کے جس کا رنگ بن جاتا ہے جاں پرور گلاب
قلب آہن جس کے نقش پا سے ہوتا ہے رقیق
شعلہ خو جھونکوں کا ہمدم، تیز کرنوں کا رفیق
خون جس کا بجلیوں کی انجمن میں باریاب
جس کے سر پر جگمگاتی ہے کُلاہ آفتاب
لہر کاکھاتا ہے رگِ خاشاک میں جس کا لہو
جس کے دل کی آنچ بن جاتی ہے سیل رنگ و بو
دوڑتی ہے رات کو، جس کی نظر افلاک پر
دِن کو جس کی اُنگلیاں رہتی ہیں نبضِ خاک پر
جس کی جاں کا ہی سے ٹپکاتی ہے امرت نبض تاک
جس کے دم سے لالہ و گل بن کے اِتراتی ہے خاک
سازِدولت کو عطا کرتی ہے نغمے، جس کی آہ
مانگتا ہے بھیک تابانی کی جس سے روے شاہ
خون جس کا دوڑتا ہے نبض استقلال میں
لوچ بھر دیتا ہے جو شہزادیوں کی چال میں
جس کے ماتھے کے پسینے سے، پے عز و وقار
کرتی ہے دریوزہئ تابش کُلاہ تاجدار
سر نگوں رہتی ہیں جس سے قوتیں تخریب کی
جس کے بوتے پر لچکتی ہے کمر تہذیب کی
جس کی محنت سے بھبکتا ہے رتن آسانی کا باغ
جس کی ظلمت کی ہتھیلی پر تمدن کا چراغ
جس کے بازو کی نزاکت پر صلابت کا مدار
جس کے کس بل پر اکڑتا ہے غرور شہریار
دھوپ کے جھلسے ہوئے رخ پر مشقت کے نشاں
کھیت سے پھیرے ہوئے منھ، گھر کی جانب ہے رواں
ٹوکرا سر پر، بغل میں پھاوڑا، تیوری پہ بل
سامنے بیلوں کی جوڑی، دوش پر مضبوط ہل
کون ہل؟ ظلمت شکن، قندیل بزم آب و گل
قصر گلشن کا دریچہ، سینہئ گیتی کا دل
خوشنما شہروں کا بانی، رازِ فطرت کا سراغ
خاندان تیغِ جوہر دار کا چشم و چراغ
دھار پر جس کی چمن پرور شگوفوں کا نظام
شام زیرِ ارض کو، صبح درخشاں کا پیام
جس کے چھو جاتے ہی مثلِ نازنین مہ جبیں
کروٹوں پر کروٹیں لیتی ہے لیلائے زمیں
پردہ ہائے خواب ہو جاتے ہیں جس سے چاک چاک
مسکرا کر اپنی چادر کو اُلٹ دیتی ہے خاک
جس کی تابش میں درخشانی ہلالِ عید کی
خاک کے مایوس مطلع پر کرن امید کی
ہل پہ دہقاں کے چمکتی ہیں شفق کی سرخیاں
اور دہقاں سر جھکائے گھر کی جانب ہے رواں
اس سیاسی رتھ کے پہیوں پر جمائے ہے نظر
جن میں آجاتی ہے تیزی، کھیتوں کو روند کر
اپنی دولت کو، جگر پر تیر غم کھاتے ہوئے
دیکھتا ہے ملک دشمن کی طرف جاتے ہوئے
قطع ہوتی ہی تاریکی حرماں سے راہ
فاقہ کش بچوں کے دھندلے آنسوؤں پر ہے نگاہ
پھر رہا ہے خوں چکاں آنکھوں کے نیچے باربار
گھر کی ناامیدی دیوی کا شباب سوگوار
سوچتا جاتا ہے، کن آنکھوں سے دیکھا جائے گا؟
بے رِوا بیوی کا سر، بچوں کا منھ اُترا ہوا
سیمِ و زر، نان و نمک، آب و غذا کچھ بھی نہیں
گھر میں اِک خاموش ماتم کے سوا، کچھ بھی نہیں
ایک دل، آور یہ ہجوم سو گواری، ہاے ہاے!
یہ ستم اے سنگ دل سرمایہ داری! ہائے ہائے!
تیری نظروں میں ہیں غلطاں وہ شقاوت کے شرار
جن کے آگے خنجر چنگیز کی مڑتی ہے دھار
بے کسوں کے خون میں ڈوبے ہوئے ہیں تیرے ہاتھ
کیا چباڈالے گی او کم بخت! ساری کائنات؟
ظلم اور اتنا! کوئی حد بھی ہے اس طوفان کی؟
بوٹیاں ہیں تیرے جبڑوں میں غریب انسان کی
دیکھ کر تیرے ستم، اے حامی امن و اماں!
گُرگ رہ جاتے ہیں دانتوں میں دبا کر انگلیاں
ادعاے پیرویِ دینِ و ایماں، اور تو
دیکھ اپنی کہنیاں، جن سے ٹپکتا ہے لہو
ہاں، سنبھل جا اب اب، کہ زہرے اہل دل کے آب ہیں
کتنے طوفاں تیری کشتی کے لیے بیتاب ہیں