رشید حسن خاں کے تبصرے اور تجزیے (جلد اول)
(جلد اول)
نام کتاب : رشید حسن خاں کے تبصرے اور تجزیے
مرتب : ڈاکٹرابراہیم افسر
سن اشاعت : 2021 صفحات : 608
قیمت : 480 ناشر : مرتب
تبصرہ نگار:محمد ہلال عالم(ریسرچ اسکالر،روہیل کھنڈ یونی ورسٹی بریلی)
دورِ حاضر میں ڈاکٹر ابراہیم افسر کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے ۔ان کی بیش بہا ادبی کاوشوں کے سبب موصوف کا شمار اکیسویں صدی کے تازہ کار محققوں میں ہو نے لگاہے ۔ڈاکٹر ابراہیم افسر کا زیادہ تر کام مشہور و معروف محقق رشید حسن خاں کی مختلف جہتوں پر ہے۔ اگر ان کو ’’ماہر رشید حسن خاں ‘‘ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا ۔ اب تک ڈاکٹر ابراہیم افسر کی آٹھ کتابیں منظرِ عام پر آ چکی ہیں جن میں ’’ رشید حسن خاں کی غالب شناسی ، رشید حسن خاں کے انٹرویوز ، رشید حسن خاں تحریروں کے آئینے میں(جلد اوّل اور دوم) ، رشید حسن خاں کی ادبی جہات ، رشید حسن خاں کے تبصرے اور تجزیے‘‘ (جلد اوّل)اور اردو املا مسائل و مباحث(رشید حسن خاں کے حوالے سے)قابل ذکر ہیں ۔
پیش نظر کتاب رشید حسن خاں کے تبصرے اور تجزیے جلد اول رشید حسن خاں کے ان تبصروں اور تجزیوں پر مشتمل ہے جو پہلی مرتبہ کسی رسالے یا ادبی جریدے میں شائع ہوئے تھے ۔کتاب کا مقدمہ تقریباََ 52 صفحات پر مشتمل ہے جس میں رشید حسن خاں کے تبصروں کے تعلق سے ناقدانہ گفتگو کی گئی ہے ۔ رشید حسن خاں کے تبصروں اور تجزیوں کے بارے میں ڈاکٹر ابراہیم افسراپنے مقدمہ میں لکھتے ہیں :
’’ رشید حسن خاں کے تبصرے اور تجزیے (جلد اول) میں راقم الحروف نے رشید حسن خاں کے 1949 سے 1964 تک کے 31 تبصروں ، تجزیوں اور کچھ اہم مکتوبات کو شامل کیا ہے ۔ باقی جلدوں میں خاں صاحب کے دیگر تبصرے اور تجزیے شامل کئے جائیں گے ۔ رشید حسن خاں کے بہت سے تبصرے اور تجزیے ایسے ہیں جو رسالہ ساعر ، ادبی دنیا ، صدق جدید ، نگار ، نقوش ، سیارہ اور الحمراء وغیرہ کے صفحہ قرطاس کی زینت بنے ۔ لیکن کافی تلاش و بسیار کے بعد موصوف کے تبصرے اور تجزیے تو مل گئے لیکن ابھی بھی بہت سا قیمتی ادبی سرمایہ ان رسائل کی فائلوں میں موجود ہے ۔ ‘‘ (ص 58)
ڈاکٹرابراہیم افسر اپنے طویل مقدمہ میں رشید حسن خاں کے تبصروں اور تجزیوں کے تعلق سے جو گفتگو کی ہے وہ واقعی بے مثال ہے ۔ رشید حسن خاں کے تبصروں کے خاص اقتباسات کو بہ طور نمونہ پیش کیا ہے جن میں رشید حسن خاں کے تبصروں کی خصوصات کو بیان کیا ہے ۔ رشید حسن خاں کے تبصرہ کرنے کی خصوصیت پر گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر ابراہیم افسر لکھتے ہیں :
’’ در اصل موجودہ وقت میں کتابوں پر جو تبصرے ہو رہے ہیں ان میں سوائے تعریف کے کچھ نہیں ہے ۔ لیکن رشید حسن خاں کے تبصروں اور تجزیوں کا جب ہم عمیق مطالعہ کرتے ہیں تو ان کی محنت شاقہ اور ادبی جستجو و لگن کا ہمیں اعتراف کرنا پڑتا ہے ۔‘‘ (ص 12 )
آگے فرماتے ہیں :
’’ رشید حسن خاں تبصرہ کرتے وقت رشتوں کا پاس یا لحاظ نہیں رکھتے تھے ۔ ‘‘ ( ص 13 )
رشید حسن خاں کی اس بات سے راقم الحروف بالکل اتفاق کرتا ہے ۔ اصل تبصرہ وہی ہے جو رشتوں کو تاک پر رکھ کر کیا جائے ۔ جس سے کہ تبصروں اور تجزیوں میں خوبیوں اور خامیوں کا ذکر آزادانہ طور پر کیا جا سکے ۔
ڈاکٹر ابراہیم افسر نے اس کتاب میں جن تبصروں اور تجزیوں کو ترتیب دیا ہے ، ان کے عناوین ’’ منشی نوبت رائے نظر لکھنوی ، ندیم کے چند قطعات ، قائم چاندپوری ، شبلی کا فارسی تغزل ، ادب کے نئے تقاضے ، ندیم کے چند قطعات 2، صفی کی شاعرانہ قدر و قیمت ، افسانے میں نفسیاتی و جنسیاتی میلانات ،اردو کے مترادف الفاظ ، بنام مدیر شاعر بمبئی ، ارباب لغات کے لطیفے ، اردو ہماری زبان ، ترتیب نو ، نغمۂ جاوید پر ایک نظر ، بنام حامد علی خاں ، دست صبا پر ایک نظر ، غزل مجروح ، بنام کیف میری نظر میں ، غلطی ہائے تحقیق ، ذوق و جنوں پر ایک نظر ، غدر اور ادب پر اس کے اثرات ، بنام قمر رئیس ، فاعتبرو ا یا اولی الالبصار ، اردو کی ادبی تاریخ ، در شہر شما نیز کنند ، فیض کی شاعری ، تنقیدی جانب داری کے اسباب اور اثرات ، اردو شاعری کا انتخاب ، نظم ، باب الانتقاد (جذبات نادر پر ایک نظر ) ، علی گڑھ تاریخ ادب اردو ، ثقافت پاکستان قابلِ ذکر ہیں ۔
کتاب میں مقدمہ کے بعد رباب رشیدی کا مضمون ’’ ایسا کہاں سے لائیں : رشید حسن خاں ‘‘ پیش کیا گیا ہے ، جس میں رباب رشیدی نے اپنی اور رشید حسن خاں کی گفتگو کو بیان کیا ہے۔ رباب رشیدی کہتے ہیں کہ آخری مرتبہ رشید حسن خاں سے بات کرتے وقت ان کا آخری جملہ ’’ میں تمہاری راہ دیکھ رہا ہوں ‘‘ تھا۔ اس کے بعد ان کے انتقال کی خبر ملی۔ اس جملے کے تناظر میں رباب رشیدی اپنے خیال بیان کرتے ہیں ۔ کہتے ہیں :
’’ میں نے زبان و فن پر ایسی دست رس ، شعر فہمی کا ایسا ادراک اپنی زندگی میں اور کسی میں نہیں دیکھا ، وہ جدید و قدیم ہر طرح کے اعلیٰ ترین اشعار پر ایک وجدانی کیفیت سے دو چار ہو جاتے تھے ۔ وہ خود شعر کہہ سکتے تھے مگر تحقیق و تدوین کی دست نوازی ہی کو اپنا پشوہ بنایا اور وہ مقام و مرتبہ حاصل کیا کہ روشنی کا ایک منارہ بن گئے ۔ ‘‘ (ص 61)
رشید حسن خاں نے تبصروں اور تجزیوں کے لیے جن موضوعات کو انتخاب کیا اور جن لوگوں کی تخلیقات پر تبصرے یا تجزیے کیے وہ سب اُردو ادب کی مشہور شخصیات اور اہم موضوعات میں سے ہیں۔ رشید حسن خاں کے تبصروں کا مطالعہ کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُنہوں نے تبصرہ کرتے وقت جانب داری سے کام نہ لیا بل کہ بے باکی اور صاف گوئی سے بات کو سب کے سامنے رکھا ہے۔ نوبت رائے نظر لکھنوی کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
” آج اگر اس مایہ ناز شاعر کا کل کلام ہوتا تو نہ معلوم کیا کیا مرقعے دیکھنے میں آتے، اگر کوئی شخص قدیم رسائل کی ورق گردانی کرے تو زمانہ، العصر، ادیب، خذنگ نظر اور مخزن کے پرانے پرچوں میں یہ نقوش ماتم بے کسی کرتے ہوئے ملیں گے، لیکن کس کو ضرورت ہے؟۔ ” (ص 93)
ندیم کے چند قطعات کے نام سے ندیم کی شاعری پر تجزیے کرنے ہوئے ایک جگہ ندیم کے شعر پر کچھ اس طرح اصلاح کرتے نظر آئے ہیں۔
فاقے بیشک کھینچتا جا لیکن اے مفلس کسان
اپنی اس مغموم اور معصوم بیٹی کو نہ بیچ
رشید حسن خاں کہتے ہیں کہ فاقے کھینچنا صحیح نہیں۔ فاقے کرنا بولتے ہیں۔اسی طرح ندیم کو اور بھی قطعات کو سامنے رکھ کر ان کے غلط الفاظ کی نشان دہی کی ہے۔غلط جملے کی نشان دہی کرنا اور اس طرح دُرست جملہ بتانا یہ کام رشید حسن خاں سے بہتر کوئی کر ہی نہیں سکتا۔ ایسا ہر گز نہیں ہے کہ رشید حسن خاں نے تبصرے کرتے وقت صرف خامیوں پر توجہ مرکوز کی ہو بلکہ خوبیوں کا اعتراف بھی خوب کیا ہے۔ ”شبلی کا فارسی تغزل” پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
” وقت فرصت ” کا کرشمہ ہے کہ شبلی کے اشعار صداقت تاثر سے لبریز ہیں۔ اُن کے اندر جو تہیج ہے وہ کسی ذہنی و ہجائی تخیل کارانہ نہیں بل کہ انہوں نے اپنے فطری محرکات و قلبی داعیات کو الفاظ میں منتقل کر دیا ہے۔” (ص 111)
ادب کے نئے تقاضے عنوان کے مضمون پر تبصرہ کرتے ہوئے رشید حسن خاں اُردو زبان کی اہمیت و افادیت کو بتاتے ہیں اور اُردو میں شامل ہو رہے نئے الفاظوں کو اس کے لئے مفید بتاتے ہیں۔ لکھتے ہیں کہ:
” وقت کی ضرورت ہے کہ نئے الفاظ، دوسری زبانوں کے اثر سے پیدا شدہ محاورات و تراکیب جدید اسلوب و تصورات، پر کشش کرکے فراخ دلانہ فیصلے کیے جائیں۔ تاکہ زبان و ادب میں وسعت بھی ہو اور پڑھے لکھے افراد کو خود اجتہاد نہ کرنا پڑے۔ ” (ص 138)
رشید حسن خاں نے تبصرے کرتے وقت غلط الفاظ، املا وغیرہ کی ساخت پر گرفت کی ہے۔ جس تخلیقات پر تبصرہ یا تجزیہ کیا ہے انھیں تنقید کی کسوٹی پر پرکھا گیا ہے۔ رشید حسن خاں کے اس سخت رویہ کی وجہ سے کچھ لوگ ناراض بھی ہوئے، لیکن بعد میں انھیں معترضین کو رشید حسن خاں کی قابلیت کا لوہا ماننا پڑا۔ حالا ں کہ رشید حسن خاں کا یہ سخت رویہ صرف تبصرے یا تجزیے کرنے تک ہی محدود تھا، ذاتی زندگی میں وہ بہترین انسان تھے۔ اخلاق و عادات کے اچھے اور نرم دل کے انسان تھے۔ ’’نغمہ جاوید پر ایک نظر ” بھگوت گیتا کا منظوم ترجمہ ہے جو کہ اثر لکھنوی کا زادہ طبع ہے۔ اس کے بارے میں رشید حسن خاں فرماتے ہیں :
” زیر نظر تصنیف گیتا کا ترجمہ ہے۔ اس لیے اس کے مفہوم و مواد پر گفتگو کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ گیتا ایک پاکیزہ فلسفیانہ تصنیف ہے جس میں ہندو فلاسفی کے بنیادی اصول بیان کئے گئے ہیں اور یہ بات ظاہر ہے کہ اس کی تعلیم ادبی تنقید کے دائیرے سے خارج ہے۔ صرف ترجمے کے متعلق رائے پیش کی جا سکتی ہے۔ ” (ص 251)
رشید حسن خاں کے اس بیان سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وہ سبھی مذہب کا سما ن کرتے تھے۔ انہوں نے صاف لفظوں میں کہا کہ اس کی تعلیم ادبی تنقید کے دائرے سے خارج ہے۔ صرف ترجمے کے تعلق سے اپنی بات کو سامنے رکھا۔
رشید حسن خاں نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کی طرف سے شائع کی گئی کتاب ” علی گڑھ تاریخ ادب اردو ” پر تبصرہ کرتے ہوئے اس کو غلط کاری کا نمونہ بتایا ہے اور اس کو مرتب کرنے والوں کی سخت پکڑ کی ہے۔ اس کتاب کی منظوری یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن نے دی تھی۔ اب جس کتاب کو ترتیب دینے کے لیے خود یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن منظوری دے تو وہ کتاب نایاب ہونا چاہئے۔ لیکن رشید حسن خاں کے تبصرے کو پڑھ کر لگتا ہے کہ اس کتاب میں وہ بات نہیں تھی جو کہ ایک معتبر کتاب میں ہونا چاہئے۔ اسی بنا پر اس کتاب کوئرشید حسن خاں نے ”غلط نامہ” قرار دیا۔ رشید حسن خاں اس کتاب کے بارے میں کہتے ہیں :
” برسوں کے انتظار کے بعد اس تاریخ کی پہلی جلد شائع ہوئی۔ جس کو پڑھ کر سب سے پہلا تاثر یہ ہے کہ یہ غالباً غلط نگاری کے کسی مقابلے میں حصہ لینے کیلیے اس کتاب کوئی مرتب کیا گیا ہے۔ ” (ص 564)
علی گڑھ تاریخ ادب اردو پر رشید حسن خاں کا تبصرے کا یہ اثر ہوا کہ اس کی تمام کاپیاں مارکیٹ سے واپس منگوا لی گئیں تاکہ فضیحت نہ ہو۔ کیوں کہ اس کتاب کو ترتیب دینے کا کام یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن کی زیرِ نگرانی میں ہو رہا تھا۔ اسی کتاب کے تعلق سے ایک اور جگہ رشید حسن خاں لکھتے ہیں :
” اس کتاب کی یہ خصوصیت بھی ہمیشہ یاد رکھی جائے گی، اگر اس میں دو مقالہ نگاروں نے کسی واقعے کا ذکر کیا ہے یا کوئی سنہ لکھا ہے تو اکثر مقامات پر دونوں نے مختلف سنہ لکھے ہیں اور متضاد باتیں کہیں ہیں اور اگر اتفاق سے کسی تیسرے مضمون نگار نے بھی اسی سنہ کو لکھا ہے تو اس نے ان دونوں سے مختلف سنہ درج کیا ہے۔ ” (ص 565)
رشید حسن خاں نے اس کتاب پر تبصرہ کرتے وقت غلطیوں کی نشان دہی صفحہ نمبر اور جملے لکھ کر اشارہ کیا ہے۔ اور اس کتاب کوئی ترتیب دینے والے مقالہ نگاروں کی سخت گرفت کی ہے۔ جیسا کہ ہم سبھی اس بات سے واقف ہیں کہ رشید حسن خاں املے اور جملے میں کی گئی غلطیاں پسند نہیں کرتے تھے۔ کتنا ہی بڑا مصنف ہو اور کتنی ہی بڑی تخلیق۔ اگر اس میں اس طرح کی غلطیاں نظر آتی تو وہ اس کی طرف اشارہ کرنے سے ذرا برابر بھی نہیں کتراتے تھے۔ رشید حسن خاں کی یہ صاف گوئی درجۂ کمال کو پہنچی ہوئی تھی۔
غرض کہ اس کتاب میں شامل سبھی تبصرے اور تجزیے بے مثال ہیں اور رشید حسن خاں کا بیش قیمت سرمایہ ہیں۔ ان کو ایک ساتھ جمع کرکے کتابی شکل میں ترتیب دینا اور اس پر ایک طویل مقدمہ لکھ کر ان تبصروں اور تجزیوں کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالنا دیدہ ریزی اور آنکھوں سے تیل ٹپکانے کے مترادف ہے۔ اس دور میں اس طرح کا کام نوجوان محقق ڈاکٹر ابراہیم افسر ہی سر انجام کو پہنچا سکتے ہیں۔ میرے لیے تو ان تبصروں کا تبصرہ کرنا ہی بڑی مشکل بات ہے۔ ڈاکٹر ابراہیم افسر نے اپنے 52 صفحات کے مقدمے میں رشید حسن خاں کے تبصروں اور تجزیوں کے ضمن میں تمام نکات اور پہلو ہمارے سامنے پیش کیے ہیں۔اس کتاب میں شامل تمام مضامین کے آخر میں حوالہ بھی لکھا ہے تاکہ اصل مضمون تک رسائی آسان ہو سکے۔
اگر کتاب میں صرف خوبیاں ہی بیان کی جائیں تو یہ ایک تعریفی تبصرہ بن جائے گا۔ بقول ڈاکٹر ابراہیم افسر ” در اصل موجودہ وقت میں کتابیں پر جو تبصرے ہو رہے ہیں اُن میں سوائے تعریف کے کچھ ہوتا نہیں ہے۔ ” (ص 12)
کتاب میں ایک یا دو جگہ کمپوزنگ کی غلطیاں در آ گئی ہیں۔ ایک صفحہ کا مواد دو مرتبہ چھپ گیا ہے۔ کچھ فارسی الفاظ میری سمجھ میں نہیں آئے۔ ہو سکتا ہے اُن میں کچھ کمی راہ پا گئی ہو۔ کتاب کو پڑھتے وقت جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ ڈاکٹر ابراہیم افسر کا انداز بیان اور پیش کش ہے۔ اس کتاب میں جدید املا نظریہ آیا اور لفظوں کو جملوں میں استعمال کرنے کا طریقہ کار نہایت عمدہ ہے۔ جدید املا کے تعلق سے اپنی بات واضح کئے دیتا ہوں۔ لفظ ”بل کہ” کو میں نے آج تک ’’بلکہ ‘‘لکھا ہے اور اس کو دُرست سمجھا ہے۔ لیکِن اس کتاب میں ”بلکہ ” الگ الگ’’بل کہ‘‘ لکھا ہوا ہے۔ ڈاکٹر ابراہیم افسر سے معلوم کرنے پرمعلوم ہوا کہ اس طرح لکھنا بھی دُرست ہے۔ اسی کتاب میں ایک اور لفظ ”شاہ کار” الگ الگ لکھا گیا ہے۔ میں نے ابھی تک شاہکار ایک ساتھ ملا کر ہی لکھا تھا۔ ڈاکٹر ابراہیم افسر سے معلوم کرنے پر معلوم ہواکہ اس طرح لکھنا بھی دُرست ہے۔ مجھے اس کتاب کو پڑھنے سے یہ دو باتیں نئی سیکھنے کو ملیں۔
مجموعی طور پر کہا جائے تو ڈاکٹر ابراہیم افسر کا یہ کام اُردو تحقیق میں گراں قدر اضافہ ہے۔ جس کو پڑھنے کے بعد رشید حسن خاں کی عظمت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ اس کے مطالعے سے تنقید و تجزیے کے نئے نئے پہلو ہمارے سامنے وا ہوئے ہیں اور تبصروں اور تجزیوں کا طریقہ کار سمجھ آتا ہے۔ یہ کتاب خصوصی اہمیت کی حامل ثابت ہوگی۔
مجھ جیسے کم علم نے نوجوان محقق ڈاکٹر ابراہیم افسر کی اس کتاب پر تبصرہ لکھنے کی جسارت کی ہے۔ تبصرہ پڑھنے والے تمام احباب سے درخواست ہے کہ اگر تبصرے میں کہیں ادبی گستاخی ہو تو اس کو در گزر فرمائیں۔
٭٭