رشید حسن خاں کے تحقیقی اور تدوینی ضابطوں پر ایک نظر

رشید حسن خاں کے تحقیقی اور تدوینی ضابطوں پر ایک نظر

رشید حسن خاں صف اول کے ان محققین میں شامل ہیں جن کے اسمائے گرامی اردو زبان و ادب کی تاریخ میں جزوِ لاینفک کا درجہ رکھتے ہیں۔ گیان چند جین جیسے عظیم محقق نے انھیں خدائے تدوین کا لقب عطا کیا ہے، بلا شبہ یہ ان کے تحقیقی اور تدوینی کارناموں کو دیکھتے ہوئے ان کے شایانِ شان ہے۔
رشید حسن خاں کی پیدائش ۱۹۲۵ء میں شاہجہاں پور میں ہوئی۔ آپ کی شخصیت مختلف خصوصیات کی حامل تھی، آپ بیک وقت محقق بھی تھے اور مدون بھی، ناقد بھی تھے اور شاعر بھی۔ ان کے علاوہ آپ ایک ماہر لسانیات بھی تھے نیز اردو قواعد اور املا بھی آپ کا دلچسپ موضوع رہا۔ آپ نے اپنی ادبی زندگی کا با ضابطہ آغاز ۱۹۴۴ئ سے کر دیا تھا۔ آئیے رشید حسن خاں نامی اس آفتابِ اردو کے تحقیقی اور تدوینی ضابطوں کی روشنی سے فیضیاب ہوتے ہیں۔ ہم نے ان ضابطوں کے بیان میں بعض مقامات پر بہت اختصار سے کام لیا ہے جبکہ بعض مقامات پر ضرورت کے مطابق اصل بات میں کچھ بڑھا کر بھی پیش کیا ہے جس سے بات واضح ہو سکے اور خاں صاحب کی اصل منشا تک پہنچا جا سکے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ہم نے خاں صاحب کے تحقیقی اور تدوینی ضابطوں کو آپ کی تصانیف میں مختلف مقامات سے اخذ کرکے باہمی مطابقت سے یکجا کرنے کا کام بھی اسی مضمون میں انجام دیا ہے۔
ہم اپنی بات کی ابتدا مثنوی گلزار نسیم کے پیشِ لفظ میں خلیق انجم کے اس قول کے ساتھ  کرتے ہیں کہ۔
”رشید حسن خاں کا شمار ان محققوں میں ہوتا ہے جن کے لیے ادبی مصروفیات عبادت کا درجہ رکھتی ہیں۔ انھوں نے دنیا سے کنارہ کشی اختیار کر کے اپنی ساری زندگی علم و ادب کی خدمت میں گزار دی ہے۔ لگاتار محنت اور دیدہ ریزی کا نتیجہ ہے کہ ان کا شمار اعلیٰ ترین محققوں اور متنی نقادوں میں ہوتا ہے۔”
ہم جانتے ہیں کہ غیر جانب داری اور صاف گوئی کی اہمیت تحقیق اور تنقید دونوں کے لیے مسلم ہے، رشید حسن خاں کی صاف گوئی کا عالم یہ ہے کہ کلیم الدین احمد سے بعض اختلافات کے باوجود بھی ان کے دو ٹوک انداز کی بنا پر ان کے تنقیدی کام کو سراہتے ہیں، جبکہ دوسری طرف آل احمد سرور کی ادبی کاوشات کا اعتراف کرتے ہوئے بھی ان کے انشا پردازانہ انداز کی بنا پر ان کی تنقید نگاری سے منافقانہ رنگ کے خطرے کو محسوس کرتے ہیں، چنانچہ اپنے ایک مضمون میں کلیم الدین صاحب کے متعلق رقم طراز ہیں۔

”ناقدین میں (بعض اختلافات کے باوجود) میں کلیم الدین احمد کی بہت عزت کرتا ہوں اور ان کی تحریروں کو بہت توجہ سے پڑھتا ہوں۔”
اسی مضمون میں ان سطور کے بعد سرور صاحب کے متعلق فرماتے ہیں۔

”سرور صاحب کے مطالعے اور ذہانت کا میں قائل ہوں لیکن ان سے بس شکایت یہ ہے کہ انھوں نے تنقید کو انشائیے سے اس قدر قریب کر دیا ہے کہ تنقید کا رنگ دب سا گیا ہے اور منافقانہ انداز کے لیے بڑی گنجائش پیدا ہو گئی ہے۔”
در اصل بیشتر معاملات میں تنقید کی شاندار عمارت تحقیق کی مستحکم بنیادوں پر استوار ہوتی ہے اور ان بنیادوں میں اینٹیں حقائق کی ہوتی ہیں، حقائق کا انکشاف حق گوئی ہے اور حق گوئی کا التزام صاف گوئی ہے۔ ان اوصاف کے بغیر نہ تو تنقید کا حق ادا کیا جا سکتا ہے نہ تحقیق کا۔ لہٰذا جو شخص تنقیدی مسائل میں بلا تکلف صاف گوئی کا علمبردار ہوگا تو ظاہر ہے تحقیقی اور تدوینی اصول و ضوابط میں بہ درجہ اولیٰ اس وصف کا حامل ہوگا۔
رشید حسن خاں کا خیال ہے کہ بہت سے تاجران ادب منافقانہ طرز بیان کے لیے “مثبت انداز” اور دو ٹوک بات کہنے والوں کے لیے “منفی انداز” کی فضول اصطلاحات وضع کرتے ہیں۔ در اصل خاں صاحب کی یہ فکر مبنی بر حقیقت ہے۔ واقعتاً کچھ مفاد پرست اپنے مفاد کی خاطر کسی کے لیے اپنے دل میں پیدا ہونے والے اغلاط پر مبنی نرم گوشے کو ‘مثبت انداز’ کے عنوان سے ظاہر کرتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تحقیقی کام کے لیے اس طرح کا مثبت انداز کسی سم قاتل سے کم نہیں، اور اگر صاف گوئی کا نام منفی انداز ہے تو یہ منفی انداز ہی تحقیق کی روح ہے۔ یہ دو ٹوک انداز اور صاف گوئی جیسے اوصاف وہاں پروان چڑھتے ہیں جہاں طبیعت میں استقلال اور استحکام ہوتا ہے، ورنہ تحقیق کے نام پر متذبذب بیانات کا وقوع ایک عام سی بات ہے۔ خاں صاحب کے متعلق اس طرح کی آرا کثرت سے موجود ہیں کہ عمومی طور پر ایک نرم دل انسان ہونے کے باوجود بھی تحقیق کے کام میں آپ کے دل میں کسی کے لیے کبھی کوئی نرم گوشہ نہیں رہا۔ جو بھی کہا بہ بانگِ دہل کہا اور پوری ذمہ داری سے کہا۔  
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ صحتِ متن اور ترتیب و تدوین کا کام خوبی کے ساتھ وہی شخص کر سکتا ہے جو صحیح معنیٰ میں محقق ہو۔تحقیق کے پیشِ نظر رشید حسن خاں نے تین طرح کے حوالوں کا ذکر کیا ہے، ایک مستند اور دوسرے غیر مستند اور تیسرے مشکوک۔ بنائے استدلال کے لیے پہلی قسم کو معتبر حوالے کے طور پر تسلیم کیا ہے جبکہ بعد کی دونوں قسموں کو غیر معتبر حوالے مانا ہے۔ اسی طرح تحقیق کے متعلق مواد میں کسی راوی کی جانب سے مہیا ماخذ کو بھی دو حصوں میں بانٹا ہے، ایک اولین ماخذ اور دوسرا ثانوی ماخذ۔ در اصل اس تفریق کا ایک سبب تو  ترجمۂِ تصنیفِ اصل یا غیر معتبر کتابت و نقل ہے جبکہ  دوسرا زمانی فصل ہے، اس طرح  آپ نے ثانوی ماخذ کی دو طرح سے وضاحت کی ہے ایک تو یہ کہ اگر اصل کتاب کے کسی ترجمے کو ماخذ کے طور پر لیا جائے گا تو وہ ثانوی ماخذ ہوگا اور دوسرے وہ ماخذ جن کے راوی اصل واقعے سے جس پر تحقیق کا کام انجام دینا ہے اس قدر فصلِ زمانی رکھتے ہوں ہو کہ اس واقعے کے گواہ بننے کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں، ثانوی ماخذ کے طور پر دیکھے جائیں گے۔ اس سلسلے  میں آپ نے چند ایک مثالیں بھی پیش کی ہیں، چنانچہ خود ان کی ہی زبانی ایک مثال ملاحظہ ہو۔
” کوئی شخص شیفتہ کے تذکرے ‘گلشنِ بے خار’ کا حوالہ دے اور اصل فارسی نسخے کے بجائے’ اس کے اردو ترجمے سے کام لے؛ تو اس اردو ترجمے کو ثانوی ماخذ کے ذیل میں رکھا جائے گا۔ یا جیسے کوئی شخص عہدِ شجاع الدولہ کے واقعات کے لیے نجم الغنی مرحوم کی ‘تاریخِ اودھ’ کو بطور ماخذ استعمال کرے، تو اس کو بھی ثانوی ماخذ کہا جائے گا، کیوں کہ زمانی فصل موجود ہے؛ وہ خود تو ان واقعات کے شاہد ہو نہیں سکتے۔” (غیر معتبر حوالے)

خاں صاحب نے اولین ماخذ کو ہی صحیح معنیٰ میں معتبر ٹھہرایا ہے اور اولین ماخذ کی موجودگی میں ثانوی ماخذ سے استدلال کرنے کی پُر زور مخالفت کی ہے بلکہ بعض مقامات پر یہ بالکل صاف کر دیا کہ ثانوی ماخذ کو بنائے استدلال بنایا ہی نہیں جا سکتا۔
تحقیق میں وہی بات قابلِ قبول ہوگی جو محیر العقول نہ ہو بلکہ اس دنیا کے معمولات کے مطابق ہو۔ اگر کوئی ماخذ دنیوی معمولات کے خلاف ہے اور عقل سے دور ہے تو تحقیق کے دائرے سے باہر ہی رہے گا، اگر چہ اس کا حوالہ کتنا ہی معتبر کیوں نہ ہو یا اس کا راوی واقعے کا چشم دید گواہ ہی کیوں نہ ہو، ان سب کی تحقیق میں کوئی جگہ نہ ہوگی۔ اسی طرح مذہبی اعتقادات یا تصوف کے معاملات کا حوالہ ادبی تحقیق کا حصہ نہیں بنتا کیوں کہ ادبی اور سائنسی تحقیق کے احکامات مذہبی نوعیت کی تحقیق کے احکامات سے مختلف ہوتے ہیں۔ ادبی تحقیق میں سائنسی تحقیق کی مثل ظاہری اسباب پر مبنی معاملات کو دیکھا جاتا ہے جو عقلاً درست معلوم ہوتے ہوں۔ اسی طرح صحیح حقائق تک رسائی حاصل کرنے کی غرض سے آپ نے تحقیق کے کام میں “شک” کو بنیادی حیثیت دی ہے یعنی خوش اعتقادی اور حسنِ ظن وغیرہ بجائے خود اچھے افعال ہو سکتے ہیں لیکن تحقیق میں ان کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس ضمن میں آپ ہی کا ایک قول ملاحظہ ہو۔
“عقیدت، زود یقینی اور ان جیسی تصوف پسند اور مغالطہ آفریں خوش اخلاقیوں کی تحقیق میں گنجائش نہیں”
(حوالہ اور صحت متن)
رشید حسن خاں نے تحقیقی کام کے لیے بیاضوں سے بیزاری کا اظہار کیا ہے، رسائل اور تذکروں کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھا ہے جب تک ان میں کسی ایسی سند کی نشاندہی نہ کی گئی ہو جو اصل واقعے تک پہنچتی ہو۔ اس کے علاوہ حافظے کی بنیاد پر کسی تحقیقی کام کو تحقیق کے لیے مضر قرار دیا ہے اس کا سبب بتاتے ہوئے کہا کہ حافظہ اکثر دھوکا دے جاتا ہے۔
اردو تحقیق میں بیشتر مقامات پر استدلال کے لیے حوالوں کا اصل سرچشمہ فارسی تصانیف ہیں جو اولین ماخذ کے طور پر درکار ہوتی ہیں، لہٰذا کسی بھی ایسے معاملے کی تحقیق کے لیے فارسی زبان پر دسترس یا کم از کم اس سے ایک اچھی واقفیت ضروری ہے، یوں بھی خاں صاحب کے مطابق اصل تصنیف کا ترجمہ ثانوی ماخذ کی حیثیت رکھتا ہے جسے بنائے استدلال نہیں بنایا جا سکتا۔
تحقیق کے لیے طبعی مناسبت اور دلچسپی کی بہت زیادہ اہمیت ہے، محض وقت گزاری کرنے والے لوگ تحقیق میں آسان پسندی اور آرام طلبی کو ترجیح دیتے ہیں جس سے تحقیق کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔ ایسی تحقیق کو تحقیق نہیں کہا جا سکتا۔ زندہ لوگوں پر تحقیق کا جو رجحان پیدا ہوا ہے اس کے پیچھے یہی عوامل کارفرما ہیں۔ طلبا میں تحقیقی شعور بیدار کرنا اساتذہ کی بڑی ذمہ داری ہے بلکہ اس کام کے لیے کچھ اہل اور خاص اساتذہ کو ہی منتخب کرنا چاہیے، جن کا خود اپنا تحقیقی شعور بلندی پر ہو۔

طلبا یا دیگر محققین کو شخصی تحقیق کے حوالے سے زندہ لوگوں پر تحقیق کرنے سے گریز کرنا چاہیے، کیوں کہ بہت ممکن ہے اس کے منصب یا مقام و مرتبے کے سبب درست بات نکالنا یا کہنا مشکل ترین امر بن جائے، بعض دفع کچھ افراد خود ستائش کے لیے بھی بہت سی خوبیوں کی نمائش اور بہت سی خامیوں کی پردہ پوشی کرا سکتے ہیں اور بعض دفع کوئی شخص اپنے ممدوح یا اپنی کسی مثالی شخصیت کے تعلق سے جذباتیات سے بھی کام لے سکتا ہے، وفات کے بعد بلکہ وفات کے بھی کچھ عرصے کے بعد بہت سے منصبی تعلقات، ستائشی پہلوؤں کے امکانات اور ان جیسے دیگر معاملات خود بخود ختم ہو جاتے ہیں، اس لیے ایسی فوت شدہ شخصیت کو جس کی وفات پر ایک عرصہ گزر جائے، تحقیقی کام کے لیے منتخب کرنا چاہیے۔
تحقیقی کام کو محض کسی مالی منفعت، منصبی مقام یا نجی مفاد کے حصول کے لیے نہیں انجام دینا چاہیے بلکہ تحقیق کو تحقیق کے تمام تر تقاضوں کے ساتھ  حقائق کو رونما کرنے کے لیے ادبی خدمات کی غرض سے مکمل کرنا چاہیے اور اس میں محنت و مشقت کو فوقیت حاصل ہونی چاہیے، یہاں کسل مندی اور سہل پسندی کا کوئی کام نہیں۔ تحقیقی امور کی سر انجام دہی میں ایمانداری اور دیانت داری کو اولیت حاصل ہے۔ کچھ سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کی طرف سے ملی امدادوں نے بھی زیادہ تر افراد کو بُل ہوسی میں مبتلا کیا ہے، اس امداد سے اپنی جیبیں گرم کی گئی ہیں، بعد کو حساب کتاب چکانے کے لیے بہت سے ادبی کام دکھا دیے گیے جن میں تحقیقی اور تدوینی کام بھی کیے گیے جو محض دکھانے کے لیے ہوئے، اس طرح جو پست تر درجے کی تصانیف وجود میں آئیں انھوں نے نہ صرف تحقیق اور تدوین کا معیار گرا دیا بلکہ ان کو دائمی نقصان بھی پہنچایا۔

رشید حسن خاں نے اجتماعی تحقیق کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے اخلاقیاتِ تحقیق کا کوئی ضابطہ مرتب کرنے کا نیک مشورہ دیا ہے اور اس حوالے سے بہت سے علمی نکات بھی پیش کیے ہیں۔ مثلاً یہ کہ

اجتماعی طور پر کیا جانے والا کوئی بھی تحقیقی کام خالص علمی اندازِ نظر سے کیا جانا چاہیے، یعنی تحقیقی کاموں کو انجام دینے والے افراد پر مشتمل جماعت کے ہر فرد کا منشا محض علمی مقاصد کا حصول ہونا چاہیے، یہ کام صحیح طور پر تبھی تکمیل کو پہنچ سکتا ہے جب اس میں دیگر اغراض اور مفاد کی مداخلت نہ ہو۔ اس اصول کو آپ نے صحیفۂِ اخلاقیات کا سب سے پہلا اور سب سے اہم ضابطہ قرار دیا ہے۔

اجتماعی تحقیق کے لیے منتخب افراد کی جماعت میں کسی ایک یا چند افراد کی جانب سے دوسرے کسی فرد  یا افراد کے لیے شخصی وفاداری کی کوئی جگہ بالکل نہیں ہونی چاہیے، بلکہ ہر فرد اپنے حصے کا کام پوری ایمان داری، دیانت داری اور خلوص سے انجام دے، اس کام کی سر انجام دہی میں نہ کسی کے رعب اور منصب یا مقام سے متاثر ہونا چاہیے اور نہ دل و دماغ میں کسی کو خوش کرنے کا جذبہ کار فرما ہونا چاہیے۔ نہ کسی کی تعریف مقصود ہو، نہ کسی کی تنقیص بلکہ تحقیق کے لیے محض تحقیق ہی مقصود ہو، جس میں ہر طرح کی صداقت، غیر جانب داری اور اخلاص نیت سے کام لیا جائے۔

اجتماعی تحقیق میں شریک ہر فرد کو اپنے وقار اور عزت نفس وغیرہ کا پورا احساس ہونا چاہیے، در اصل یہ احساس کسی کے رعب و جلال سے متاثر ہونے پر یا کسی کی چاپلوسی کرنے پر ختم یا نہ ہونے کی برابر رہ جاتا ہے، جس سے تحقیقی کام میں حق گوئی اور صاف گوئی پر بہت بھاری ضرب لگتی ہے نتیجتاً زبان اور قلم سے منافقانہ انداز کا وقوع ہونے لگتا ہے۔

اجتماعی تحقیق کے لیے وجود میں آئی اس جماعت کے سبھی افراد باہم برابر کے شریک سمجھے جائیں اور جب یہ کام منظرِ عام پر آئے تو بلا کسی تفریق سبھی کے نام سے آئے، کسی کو بھی اپنے منصب، اپنی رسائی، اپنی استادی اور اپنے اثر و رسوخ کا کوئی اضافی فائدہ ہرگز نہیں ملنا چاہیے، ورنہ اس جماعت میں کسی بھی اعتبار سے کم رتبہ افراد کے اندر بد نیتی، کسل مندی اور کام سے جی چرانے کا جذبہ پیدا ہونے کے قوی امکانات ہوں گے۔ اس کے برعکس اگر اس جماعت کے سبھی افراد اس میں برابری کے جذبے سے شریک ہو کر کام انجام دے رہے ہوں گے تو ہر فرد کو اپنے کام کے حق میں اخلاص، ایمان داری اور محنت و مشقت کی زور دار تحریک ملے گی۔

خاں صاحب نے اجتماعی تحقیق کو سر انجام دینے کے چند طریقہِ کار بھی بتائیں ہیں لیکن اس مضمون میں ہمیں آپ کے دیے ہوئے صرف تحقیقی اور تدوینی ضابطوں ہی کا مختصر جایزہ لینا مقصود ہے، لہٰذا یہاں ان کے ذکر کی گنجائش نہیں ہے۔ مکمل تفصیل کے لیے رشید حسن خاں کی کتاب “ادبی تحقیق: مسائل اور تجزیہ” کا مطالعہ مفید ہوگا۔  

آئیے اب رشید حسن خاں کے تدوینی ضابطوں پر بھی ایک نظر ہو جائے۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ بیشتر تدوینی ضابطے تو خود وہی تحقیقی ضابطے ہیں جن پر اظہار خیال کیا جا چکا ہے۔ ان کے علاوہ بہت سے ایسے نقطے بھی ہیں جو تدوین کے ساتھ خاص ہیں، یہاں مختصر طور پر انھی کا ذکر درکار ہے۔

خاں صاحب کے مطابق ایک کامیاب محقق کے لیے کامیاب مدون ہونا ضروری نہیں البتہ ایک کامیاب مدون کے لیے کامیاب محقق بھی ہونا ضروری ہے یعنی تدوین تحقیق سے آگے کی منزل ہے۔ اس ضمن میں آپ ہی کا قول ملاحظہ ہو۔
“تحقیقی کام کرنے والے کے لیے یہ لازم نہیں کہ وہ ترتیبِ متن پر بھی اسی طرح دسترس رکھتا ہو، البتہ تدوین کا کام کرنے والے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کو آدابِ تحقیق سے بھی اسی قدر واقفیت ہو اور لگاؤ بھی ہو۔ اس کے بغیر تدوین کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا جا سکتا۔”
ایک مدون کا مزاج تحقیق آشنا ہونا نہایت ضروری ہے، اسے صحتِ متن کا مفہوم، اختلافِ نسخ کا مطلب، زبان، قواعدِ زبان، قواعدِ شاعری وغیرہ اور فارسی زبان سے خوب واقفیت ہونی چاہیے، اور جس عہد کی تصنیف کو مرتب کرنے کا ارداہ رکھتا ہو اس عہد کی زبان کا بالخصوص مطالعہ کرنا چاہیے۔ اس کے لیے اس عہد کے دیگر مصنفین کو پڑھنا بہت ضروری ہے، جس سے اس عہد کی زبان و بیان کی خصوصیات معلوم ہو جائیں۔ کسی عہد کی زبان کے مطالعے کے ذیل میں اس زبان کا املا، لفظیات، صرفیات، نحویات وغیرہ اور زبان کی دیگر باریکیوں کا ذہن نشین ہونا درکار ہے، البتہ صوتیات کے مطالعے کی ضرورت نہیں ہے۔ جہاں تک بات لسانی مطالعے کی ہے تو ایک اچھے مدون کے لیے ایک اچھا محقق ہونا اگر چہ ضروری ہے لیکن ایک اچھا ناقد یا ایک ماہر لسانیات ہونا ضروری نہیں، اسی طرح مدون کے لیے ماہرِ صوتیات ہونا بھی ضروری نہیں ہے، البتہ قواعد زبان جن کا ذکر ابھی گزرا ہے کفایت کریں گے، ان کا مطالعہ باریکی سے کرنے کی ضرورت ہے۔

رشید حسن خاں نے قدیم تصانیف کی طرف توجہ منعطف کراتے ہوئے ان کی ترتیبِ نو کا عمدہ مشورہ دیا ہے۔ ان اہم ترین کتابوں میں جن سے اکثر حوالے لیے جاتے ہیں، بہت کم لائقِ اعتبار ہیں۔ زیادہ تر تذکرے، اساتذہ کے دواوین، قدیم نثری تصانیف اور دوسری پرانی کتابوں کو ترتیبِ نو کی ضرورت ہے۔ ممکنہ حد تک اس قبیل کی سبھی تصانیف کو  تدوین کے تمام تر تقاضوں اور اس کے اصول و ضوابط کے ساتھ ایک بار پھر سے مرتب کرنا چاہیے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ تدوین کے سلسلے میں سبھی تصانیف پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا، احتیاط اور شک تحقیقی کام کے ناقابلِ فراموش اجزا ہیں۔ جن تصانیف پر اعتبار کیا جا سکتا ہے یا اب تک کیا جاتا رہا ہے اگر وہ سب تصانیف تحقیقی اور تدوینی اصول و ضوابط کو ملحوظ رکھتے ہوئے ترتیب دی گئی تھیں تو خیر ہے ورنہ وہ بھی معتبر نہیں ٹھہرائی جا سکتیں۔ کسی پرانی اور معتبر تصنیف کے تعلق سے اس بات کا علم کے اس کی ترتیب و تدوین کا کام کس نوعیت کا ہے خود ایک تحقیقی کام ہے۔ اس لیے تدوینی کاموں کو معتبر اور مبنی بر حقائق بنانے کے لیے اس بات کی تحقیق لازم ہو جاتی ہے کہ وہ کتابیں جو حوالوں کے لیے مشہور و معروف ہیں بلکہ مقبول بھی ہیں، کس نوعیت کی ہیں؟ اگر تدوینی اصول و ضوابط پر کھری اترتی ہیں تو ٹھیک ورنہ خود ان کو آدابِ  تدوین کی مکمل پابندی کے ساتھ نیے سرے سے مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔

رشید حسن خاں کے مطابق تدوین کا کام انجام دینے کے لیے کسی متن کے جس قدر اہم نسخوں یا اس سے متعلق اہم دستاویز کا حصول ممکن ہو سکے اسی قدر سب سے استفادہ کرنا چاہیے۔ اگر حوالوں اور دوسرے تدوینی کاموں کے لیے کچھ خطی نسخے اور کچھ مطبوعہ کتابیں یا ان سے متعلق دیگر دستاویز وغیرہ موجود ہوں تو ان سے کام لینے سے پہلے ان کا تقابلی مطالعہ کر لینا چاہیے، کیوں کہ اکثر ان میں باہمی اختلافات پائے جاتے ہیں، اور ان میں کچھ اضافے، کچھ مفقودات یا کچھ تبدیلیاں کاتب یا ناقل کی طرف سے بھی ہوتی ہیں۔ اس ضمن میں سودا کے کلیات “نسخہ آسی” سے ایک مشہور شعر نقل کیا ہے، ملاحظہ ہو۔
”گل پھینکے ہے اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ براندازِ چمن کچھ تو ادھر بھی”
اسی شعر کا مصرع اولی “نسخہ جانسن” میں اس طرح ہے۔
“گل پھینکے ہے عالم کی طرف بلکہ ثمر بھی”
ہم یہاں دستیاب نسخوں کی مدد سے رشید حسن خاں کے استفادہ کرنے کا طریقۂ کار مختصر طور پر پیش کرتے ہیں۔ اس  حوالے سے میر حسن کی مثنوی سحر البیان کی تدوین کے متعلق بس ایک ہی مثال پر اکتفا کرتے ہیں تا کہ مضمون کو مزید طوالت سے بچایا جا سکے۔ اس مثنوی میں آپ نے جن متعدد خطی اور مطبوعہ نسخوں سے استفادہ کیا ان کا مختصر تعارف اور ان سے حاصل نکات اجمالی طور پر اس طرح ہیں۔

خطی نسخے:۔

۱۔ نسخۂ مولانا آزاد لائبریری مسلم یونیورسٹی علی گڑھ۔

یہ نسخہ ناقص ہے۔ اس میں مثنوی کے ابتدائی چھیاسٹھ (۶۶) اشعار موجود نہیں۔ کچھ درمیانی صفحے بھی غائب ہیں۔ اس میں اغلاطِ کتابت بھی موجود ہیں۔ متن کی ترتیب و تصحیح میں اس نسخے سے کوئی قابلِ ذکر مدد نہیں لی گئی۔ اس کی جو بھی حیثیت ہے وہ اس کے قدیم ہونے کی بنیاد پر ہے۔ اس نسخے میں ترقیمہ موجود ہے۔

۲۔ نسخۂ انجمن ترقی اردو کراچی۔

یہ نسخہ کتاب خانہ بابائے اردو مولوی عبد الحق کا ہے۔ اس میں ترقیمہ موجود ہے اور اغلاطِ کتابت کم ہیں۔ متن کے تقابل اور تصحیح میں اس نسخے سے مدد لی گئی ہے۔ یہ نسخہ اول و آخر سے تو مکمل ہے لیکن درمیان سے ایک حصہ موجود نہیں۔

۳۔ نسخۂ رضا لائبریری رام پور۔

اس نسخے کے شروع کے حصے میں بہت سے اشعار کم ہیں۔ اس کے متن میں بھی کتابت کی بہت سی غلطیاں موجود ہیں اس لیے اس سے متن کی تصحیح میں مدد نہیں لی گئی۔ البتہ اس نسخے میں الحاقی اشعار موجود نہیں، ترقیمہ موجود ہے اس لیے اسے پیشِ نظر رکھا گیا ہے۔

۴۔ نسخۂ بنارس ہندو یونیورسٹی لائبریری۔

اس نسخے میں ترقیمہ موجود ہے۔ اس کے متن میں دو مختلف قسم کے قلم ملتے ہیں، جس سے ظاہر ہو تا ہے کہ یہ نسخہ دو مختلف نسخوں کو یکجا کر کے بنایا گیا ہے، جن میں بہت سے اشعار مشترک بھی ہیں۔ ان میں باہمی مقابلے کے ذریعے اختلافات کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس نسخے سے اصل متن میں بھی تقابلِ اشعار کا کام لیا گیا ہوگا۔

۵۔ نسخۂ صباؔ اکبر آبادی۔

یہ مصوَّر نسخہ ہے جس میں بہت سی رنگین تصاویر موجود ہیں۔ اس نسخے میں بیچ بیچ سے بہت سے مقامات پر اشعار غائب ہیں۔ اس نسخے سے متن کی ترتیب و تصحیح میں کوئی قابلِ ذکر کام نہیں لیا گیا۔ البتہ ترقیمہ اس میں بھی ہے تو اس سے مثنوی کے متعلق دوسری معلومات حاصل کی گئی ہوں گی۔

۶۔ نسخۂ ٹیگور لائبریری لکھنؤ یونیورسٹی، لکھنؤ۔

اس نسخے میں قتیلؔ اور مصحفیؔ کی تاریخیں شامل نہیں، اس طرح اس میں آخر کے نو (۹) اشعار موجود نہیں ہیں۔ اگر آخر کے ان اشعار کی کمی کو علیحدہ رکھا جائے تو یہ نسخہ مکمل ہے۔ دیگر کچھ نسخوں کی طرح اس نسخے میں بھی اغلاطِ کتابت اچھی خاصی تعداد میں موجود ہیں، اس بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ مدون نے اس سے متن کی تصحیح کا کام نہ لیا ہوگا البتہ تقابلِ اشعار یا کہیں کہیں ترتیب وغیرہ میں اسے پیشِ نظر رکھا ہوگا، حالانکہ اس کے متعلق اس طرح کی کوئی وضاحت موجود نہیں۔ اس میں ترقیمہ تو موجود ہے لیکن اس کی عبارت کا کچھ حصہ پڑھنے کے قابل نہیں جبکہ کچھ حصہ پڑھنے میں آتا ہے۔

۷ اور ۸۔ نسخۂ ادارۂ ادبیاتِ اردو حیدر آباد۔

اس ادارے کے تحت گیارہ (۱۱) نسخوں کا ذکر کیا گیا ہے جبکہ ان میں سے دو (۲) سب سے زیادہ قدیم نسخوں کے متعلق تفصیل بیان کی گئی ہے۔ انھی دو نسخوں کا ذکر یہاں درکار ہے۔ ان کو ہم یہاں بالترتیب ساتویں اور آٹھویں مقام پر رکھتے ہیں۔

۷۔ ان میں سے پہلے نسخے کے متعلق کہتے ہیں کہ اس میں اغلاطِ کتابت بہت ہیں اور متن کے بیچ بیچ سے کئی مقامات پر صرف اشعار ہی غائب نہیں بلکہ پورے پورے صفحے تک غائب ہیں جبکہ ترقیمہ موجود ہے۔ اس بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ اس سے کوئی خاص مدد نہیں لی گئی۔

۸۔ دوسرے نسخے کے متعلق فرماتے ہیں کہ اس میں آٹھ (۸) صفحے دوسرے قلم کے ملتے ہیں، مزید یہ کہ اس میں کتابت کی غلطیاں تو کم ہیں لیکن درمیان سے اشعار اور صفحے اس میں بھی غائب ہیں، اگر چہ پہلے نسخے کے مقابلے میں کم ہیں۔ چنانچہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلے نسخے کی نسبت اس نسخے سے زیادہ مدد لی گئی ہے۔ ترقیمہ یہاں بھی موجود ہے۔

۹۔ نسخۂ انڈیا آفس لندن۔

رشید حسن خاں صاحب نے اس خطی نسخے کے کاتب کو سب سے بہتر اور درست لکھنے والا کہا ہے اور اس کا خط بھی پختہ نستعلیق بتایا ہے۔ اس سے کس نوعیت کا کام لیا گیا ہے اس کی کوئی وضاحت نہیں کی، ممکن ہے درست کتابت کے پیشِ نظر اس نسخے سے متن کی تصحیح کا کام لیا گیا ہو۔ اس میں بھی ترقیمہ موجود ہے لہٰذا مثنوی کے متعلق دیگر معلومات لی گئی ہوں گی۔

۱۰۔ نسخۂ جمّوں یونیورسٹی لائبریری، جمّوں۔

اس نسخے کے آخر میں ترقیمے کی عبارت موجود نہیں جس سے اس کے متعلق دیگر معلومات جیسے سنہِ کتابت، کاتب کا نام وغیرہ معلوم نہیں ہو سکتا۔ اس میں غلطیاں تو ہیں مگر کم ہیں، البتہ قلم کا فرق موجود ہے۔ اس میں کسی شخص کی جانب سے بعض حاشیوں پر بعض مصرعوں کی تصحیح بھی ملتی ہے۔ اس نسخے سے بعض مقامات پر متن کی تصحیح میں مدد لی گئی ہے۔

۱۱۔ نسخۂ حنیف نقوی۔

  اس نسخے میں اغلاطِ کتابت موجود ہیں، جس کی اصلاح بعض مقامات پر حاشیوں میں کی گئی ہے۔ یہ نسخہ مکمل ہے، البتہ اس میں مصحفیؔ کی تاریخ موجود نہیں جبکہ قتیلؔ کی موجود ہے۔ اس میں ترقیمے کی عبارت موجود ہے۔

مطبوعہ نسخے:۔

۱۔ نسخۂ مطبعِ مصطفائی۔

اس نسخے میں آخر کے چونتیس (۳۴) اشعار موجود نہیں، البتہ اغلاطِ کتابت کم سے کم ہیں۔ اس کا متن نسخۂ فورٹ ولیم کالج کلکتہ کے مطابق ہے، جس کا ذکر اس کے بعد کیا جائے گا۔ اس نسخے میں متعدد مقامات پر معمولی اختلافات بہ آسانی مل جاتے ہیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مطبعے میں اربابِ کار کے سامنے نسخۂ فورٹ ولیم کالج کے ساتھ ساتھ دوسرے نسخے بھی رہے ہوں گے۔

۲۔ نسخۂ فورٹ ولیم کالج کلکتہ۔

رشید حسن خاں کے مطابق یہ مطبوعہ نسخہ صحتِ متن کے لحاظ سے دیگر سبھی خطی اور مطبوعہ نسخوں سے اعلیٰ ہے اور سب پر برتری رکھتا ہے۔ حقیقتاً صحت متن کی خوبی تدوین کے کام میں سب سے بڑی خوبی ہوتی ہے۔ لہٰذا اسی نسخے کو خاں صاحب نے اپنے مرتب کردہ متن کی بنیاد بنایا ہے۔ اس نسخے میں دیگر خصوصیات کے ساتھ ایک اہم اور بڑی خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کا املا پہلے سے ترتیب شدہ ایک نظام اور قاعدے کے مطابق ہے جسے جان گلکرسٹ نے بہت محنت و مشقت سے مرتب کیا تھا۔

عرض ہے کہ خاں صاحب نے ان تمام نسخوں کے متعلق سیر حاصل تفصیلات بیان کی ہیں۔ ہم نے بہت مختصر  پیش کیا ہے۔ تفصیلات کے لیے رشید حسن خاں کی ترتیب دی ہوئی مثنوی سحر البیان کا مقدمہ ملاحظہ ہو۔

ہم نے یہاں اس بات کا خوب جائزہ لے لیا کہ خاں صاحب نے تمام حاصل شدہ نسخوں سے کس کس طرح استفادہ کیا۔ کسی نسخے سے متن کی تصحیح کا کام لیا تو کسی سے اشعار کی ترتیب کا۔ کسی نسخے کے ترقیمے سے مثنوی کے متعلق اہم ترین معلومات حاصل کیں تو کسی نسخے کو متن کی بنیاد بنایا۔ غرض یہ کہ آپ تحقیق و تدوین کا کام جس قدر محنت و مشقت اور دیدہ ریزی سے انجام تک پہنچاتے تھے وہ اپنی مثال آپ ہی ہے۔ آپ نے اردو تحقیق اور تدوین کا معیار بلند سے بلند تر کر دیا۔ اس کے لیے آپ جو کر سکتے تھے وہ آپ نے کیا بلکہ اپنا بہتر سے بہتر پیش کیا۔

۲۰۰۶ئ میں رشید حسن خاں نامی یہ عظیم محقق اور مدون اس دنیا سے رخصت ہوا اور اپنے مالکِ حقیقی سے جا ملا، لیکن اس کا علمی فیض آج بھی جاری و ساری ہے اور رہے گا، ان شائ اللہ تعالیٰ۔

خاں صاحب کی وفات کے موقع پر رفعت سروش صاحب نے ایک مضمون لکھا تھا، اس مضمون میں درج ایک قول کے ساتھ ہی ہم اپنی بات مکمل کرتے ہیں کہ۔

“رشید حسن خاں کلاسیکی ادب کو سمجھنے اور پرکھنے والے اور ایک ایک لفظ کی ماہیت کو واضح کرنے والے اپنے طرز کے آخری آدمی تھے۔ اب میدان صاف ہے، ان کی جگہ نہ جانے کب تک خالی رہے گی۔ شاعری کی زبان میں شاید یہی ان کے لب پر ہوگا۔

؎ “مت سہل ہمیں جانوں پھرتا ہے فلک برسوں

          تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں”  

علی اُویس جعفری

چاندپور، ضلع بجنور

(۲۰۲۲۔۰۱۔۲۴)

رابطہ: 9811334442  91+

ao.jafri@gmail.com

 

error: Content is protected !!