(1)
مآل سوز غم ہائے نہانی دیکھتے جاؤ
بھڑک اٹھی ہے شمع زندگانی دیکھتے جاؤ
چلے بھی آؤ وہ ہے قبر فانیؔ دیکھتے جاؤ
تم اپنے مرنے والے کی نشانی دیکھتے جاؤ
ابھی کیا ہے کسی دن خوں رلا دے گی یہ خاموشی
زبان حال کی جادو بیانی دیکھتے جاؤ
غرور حسن کا صدقہ کوئی جاتا ہے دنیا سے
کسی کی خاک میں ملتی جوانی دیکھتے جاؤ
ادھر منہ پھیر کر کیا ذبح کرتے ہو ادھر دیکھو
مری گردن پہ خنجر کی روانی دیکھتے جاؤ
بہار زندگی کا لطف دیکھا اور دیکھو گے
کسی کا عیش مرگ ناگہانی دیکھتے جاؤ
سنے جاتے نہ تھے تم سے مرے دن رات کے شکوے
کفن سرکاؤ میری بے زبانی دیکھتے جاؤ
وہ اٹھا شور ماتم آخری دیدار میت پر
اب اٹھا چاہتی ہے نعش فانیؔ دیکھتے جاؤ
(2)
تم وجہِ بے خودی نہیں یہ ایک ہی ہوئی
دل ہے وہ طاقِ غمکدۂ عمر دوش کا
رکھی ہے جس پہ شمعِ تمنا بجھی ہوئی
میں منزلِ فنا کا نشانِ شکستہ ہوں
تصویرِ گربادِ وفا ہوں مِٹی ہوئی
تعبیرِ دل نے تجھ سے لیا انتقامِ عشق
تیری ہی بزم جلوہ گہِ عاشقی ہوئی
آتی رہے گی خیر اب اس زندگی کی موت
یہ تو ہوا کہ موت مِری زندگی ہوئی
مرحوم کس ادا کے تماشائیوں میں تھا
پھرتی ہے دل کی لاش تماشا بنی ہوئی
دنیائے دل میں یاس کی اللہ رے دار و گیر
جو آرزو کہ خلق ہوئی، کُشتنی ہوئی
کیجے دعا کہ اف نہ کرے دردمندِ عشق
اول تو دل کی چوٹ، پھر اتنی دُکھی ہوئی
میرا وجود کفر، مِری زندگی گناہ
ہستی کو ہوش، ہوش کو لازم خودی ہوئی
یارب! نوائے دل سے تو کان آشنا سے ہیں
آواز آ رہی ہے یہ کب کی سنی ہوئی
لازم ہے احتیاط، ندامت نہیں ضرور
لے اب چھری تو پھینک لہو سے بھری ہوئی
فانیؔ میں ہوں وہ فقط موہوم اتصال
جس میں عدم کی دونوں حدیں ہیں ملی ہوئی