Rpsc Meer Dard Ki Ghazlen

خواجہ میر درد کی غزلیں

(1)

مدرسہ یا دیر تھا یا کعبہ یا بت خانہ تھا

ہم سبھی مہمان تھے واں تو ہی صاحب خانہ تھا

وائے نادانی کہ وقت مرگ یہ ثابت ہوا

خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا

حیف! کہتے ہیں ہوا گل زار تاراج خزاں

آشنا اپنا بھی واں اک سبزۂ بیگانہ تھا

ہو گیا مہماں سرائے کثرت موہوم آہ!

وہ دل خالی کہ تیرا خاص خلوت خانہ تھا

بھول جا خوش رہ عبث وے سابقے مت یاد کر

دردؔ! یہ مذکور کیا ہے آشنا تھا یا نہ تھا

(2)

 

تجھی کو جو یاں جلوہ فرما نہ دیکھا

برابر ہے دنیا کو دیکھا نہ دیکھا

مرا غنچۂ دل ہے وہ دل گرفتہ

کہ جس کو کسو نے کبھو وا نہ دیکھا

یگانہ ہے تو آہ بیگانگی میں

کوئی دوسرا اور ایسا نہ دیکھا

اذیت مصیبت ملامت بلائیں

ترے عشق میں ہم نے کیا کیا نہ دیکھا

کیا مج کو داغوں نے سرو چراغاں

کبھو تو نے آ کر تماشا نہ دیکھا

تغافل نے تیرے یہ کچھ دن دکھائے

ادھر تو نے لیکن نہ دیکھا نہ دیکھا

حجاب رخ یار تھے آپ ہی ہم

کھلی آنکھ جب کوئی پردا نہ دیکھا

شب و روز اے دردؔ در پے ہوں اس کے

کسو نے جسے یاں نہ سمجھا نہ دیکھا

error: Content is protected !!