(1)
عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
تجھ سے قسمت میں مری صورت قفل ابجد
تھا لکھا بات کے بنتے ہی جدا ہو جانا
دل ہوا کشمکش چارۂ زحمت میں تمام
مٹ گیا گھسنے میں اس عقدے کا وا ہو جانا
اب جفا سے بھی ہیں محروم ہم اللہ اللہ
اس قدر دشمن ارباب وفا ہو جانا
ضعف سے گریہ مبدل بہ دم سرد ہوا
باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا
دل سے مٹنا تری انگشت حنائی کا خیال
ہو گیا گوشت سے ناخن کا جدا ہو جانا
ہے مجھے ابر بہاری کا برس کر کھلنا
روتے روتے غم فرقت میں فنا ہو جانا
گر نہیں نکہت گل کو ترے کوچے کی ہوس
کیوں ہے گرد رہ جولان صبا ہو جانا
بخشے ہے جلوۂ گل ذوق تماشا غالبؔ
چشم کو چاہیے ہر رنگ میں وا ہو جانا
تا کہ تجھ پر کھلے اعجاز ہوائے صیقل
دیکھ برسات میں سبز آئنے کا ہو جانا
مأخذ :
- کتاب : Deewan-e-Ghalib Jadeed (Al-Maroof Ba Nuskha-e-Hameedia) (Pg. 197)
(2)
محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا
یاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا
رنگ شکستہ صبح بہار نظارہ ہے
یہ وقت ہے شگفتن گل ہائے ناز کا
تو اور سوئے غیر نظر ہائے تیز تیز
میں اور دکھ تری مژہ ہائے دراز کا
صرفہ ہے ضبط آہ میں میرا وگرنہ میں
طعمہ ہوں ایک ہی نفس جاں گداز کا
ہیں بسکہ جوش بادہ سے شیشے اچھل رہے
ہر گوشۂ بساط ہے سر شیشہ باز کا
کاوش کا دل کرے ہے تقاضا کہ ہے ہنوز
ناخن پہ قرض اس گرہ نیم باز کا
تاراج کاوش غم ہجراں ہوا اسدؔ
سینہ کہ تھا دفینہ گہر ہائے راز کا
مأخذ :
- کتاب : Deewan-e-Ghalib Jadeed (Al-Maroof Ba Nuskha-e-Hameedia) (Pg. 197)