Rpsc Momin khan momin Ki Ghazlen

مومن خاں مومن کی غزلیں

(1)

 

بے سبب کیوں کہ لبِ زخم پہ اُفغاں ہوگا

بے سبب کیوں کہ لبِ زخم پہ اُفغاں ہوگا
شورِ محشر سے بھرا اس کا نمک داں ہوگا

آخر امید ہی سے چارہء حرماں ہوگا
مرگ کی آس پہ جینا شبِ ہجراں ہوگا

مجمعِ بسترِ مخمل شبِ غم یاد آیا
طالعِ خفتہ کا کیا خواب پریشاں ہوگا

دل میں شوقِ رخِ روشن نہ چھپے گا ہرگز
ماہ پردے میں‌ کتاں کے کوئی پنہاں ہوگا

درد ہے جاں کے عوض ہر رگ و پے میں ساری
چارہ گر ہم نہیں ہونے کے جو درماں ہوگا

شومیِ بخت تو ہے چین لے اے وحشتِ دل
دیکھ زنداں ہی کوئی دن میں‌ بیاباں ہوگا

نسبتِ عیش سے ہوں نزع میں گریاں یعنی
ہے یہ رونا کہ دہن گور کا خنداں ہوگا

بات کرنے میں رقیبوں سے ابھی ٹوٹ گیا
دل بھی شاید اسی بدعہد کا پیماں ہوگا

چارہ جو اور بھی اچھا میں کروں گا ٹکڑے
پردہء شوخ جو پیوندِ گریباں ہوگا

دوستی اس صنم آفتِ ایماں سے کرے
مومن ایسا بھی کوئی دشمنِ ایماں ہوگا

(2)

 

اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا

رنج راحت فزا نہیں ہوتا

بے وفا کہنے کی شکایت ہے

تو بھی وعدہ وفا نہیں ہوتا

ذکر اغیار سے ہوا معلوم

حرف ناصح برا نہیں ہوتا

کس کو ہے ذوق تلخ کامی لیک

جنگ بن کچھ مزا نہیں ہوتا

تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے

ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا

اس نے کیا جانے کیا کیا لے کر

دل کسی کام کا نہیں ہوتا

امتحاں کیجئے مرا جب تک

شوق زور آزما نہیں ہوتا

ایک دشمن کہ چرخ ہے نہ رہے

تجھ سے یہ اے دعا نہیں ہوتا

آہ طول امل ہے روز فزوں

گرچہ اک مدعا نہیں ہوتا

تم مرے پاس ہوتے ہو گویا

جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

حال دل یار کو لکھوں کیوں کر

ہاتھ دل سے جدا نہیں ہوتا

رحم کر خصم جان غیر نہ ہو

سب کا دل ایک سا نہیں ہوتا

دامن اس کا جو ہے دراز تو ہو

دست عاشق رسا نہیں ہوتا

چارۂ دل سوائے صبر نہیں

سو تمہارے سوا نہیں ہوتا

کیوں سنے عرض مضطرب مومنؔ

صنم آخر خدا نہیں ہوتا

error: Content is protected !!