تحقیق کی تعریف کیا ہے

تحقیق کی تعریف

انسان شروع ہی سے متجسس جبلت کا حامل ہے۔کیا،کیوں اورکیسے جیسے لفظوں کی تشفّی کیلئے اس نے کھوج شروع کی اور کائنات کے کئی راز اور پوشیدہ پہلو کھول کر رکھ دیے۔ اس کی متجسس جبلت نےکائنات کے مادی، حیاتیاتی اور سماجی پہلوؤں کے بارے میں ایسی معلومات دیں، جس کی وجہ سے آج دنیا ایسی شکل میں موجودہے، جو ایک بحر رواں کی مانند چل رہی ہے۔ تاہم انسان کا تجسس اسے کہیں ٹکنے نہیں دیتا، اسی لئے خوب سے خوب تر اور نئی دنیاؤں کی کھوج میں وہ آج بھی سرگرداں ہے اور ہمیشہ رہے گا۔

تحقیق (Research) کا مطلب ہے مسائل کو حل کرنے کیلئے بہت احتیاط کے ساتھ سائنسی طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے تجزیاتی مطالعہ کرنا، جس سے مسئلےکا حل یا خود مسئلہ کھل کر سامنے آجائے۔ تحقیق عربی زبان سے نکلا ہے، جس کا مطلب ہے دریافت کرنا، کھوج کرنا،چھان بین یا تفتیش کرنا اور یہ معنی خود بھی بڑے معنی خیزہیں ،جو اس شعبےکو عمدگی سے بیان کرتے ہیں۔

تحقیق اگر منظم یعنی سسٹمیٹک طریقے اور منطقی انداز سے کی جائے تو اس سےنیا علم بھی تخلیق ہوتا ہے۔ ہم جس تحقیق کی بات کررہے ہیں وہ تعلیم کے حوالے سے ہے یعنی تحقیق کسی بھی موضوع پر کی جاسکتی ہے، چاہے وہ طبّی ہو یا غیر طبّی، انفارمیشن ٹیکنالوجی پر ہو یا کسی بھی چیز کے بارے میں۔

اگر آپ نے تحقیق کرنی ہے تو آپ کو موضوع سوچنا ہوگا یا وہ مسئلہ کھوجنا ہو گا، جس کے بارےمیں آپ تحقیق کرنے جارہے ہیں۔ اس کے علاوہ اس سے متعلقہ سوالات کی فہرست بھی ہونی چاہئے، جن کے جوابات آپ تلاش کریں گے۔

تحقیق کی کئی اقسام ہیں، جب ہم کسی بھی بنیادی سائنسی نظریہ (تھیوری) پر کا م کرتے ہیں تو اسے بنیادی تحقیق(Basic Research)کہتے ہیں، دوسری قسم میں ہم کسی عملی یعنی پریکٹیکل پرابلم کو حل کرتے ہیں تو اسے اطلاقی تحقیق (Applied Research)کہا جاتاہے۔ جس ریسرچ میں ہم اعداد و مقدار کی بات کرتے اور شماریات (Statistics)کے ذریعے اپنے نظریات کوپیش کرتے ہیں، اسےQuantitative Research کہتے ہیں۔ اگر تجربات اور دلائل کے ذریعے کسی نظریے کو ثابت کیا جائے تو اسے Qualitative Research کہتے ہیں جبکہ کسی بھی ایک عمل کو باربار اتنی باردہرانا کہ جب تک متوقع نتائج سامنے نہ آجائیں، اسے Iterative Researh کہا جاتاہے۔ تحقیق کیلئے آپ کو مرحلہ وار عمل کرنا پڑتاہے،جیسے پہلے مشاہدہ ، پھر پس منظر کی تحقیق، اس کے بعد مفروضات سامنے رکھنا اور پھر اسی حوالے سے سادہ سا لائحہ عمل یاتجربہ کرنا۔

تحقیق کا اطلاق

تحقیق صرف آپ اپنی ذات کیلئے نہیں کرتے بلکہ کسی بھی موضوع یا چیز کی گہرائی میں جا کر کچھ ایسے نتائج سامنے لاتے ہیں، جو ہر ایک کیلئے فائدہ مند ہوں اور اگر بعد کے لوگ اس تحقیق کو مزید جاری رکھنا چاہیں تو آپ کی محنت ان کے کام آئے۔ اس لیے آپ کی تحقیق کا معیار بہت اعلیٰ ہونا چاہئے تاکہ اس کا اطلاق مستقبل کے کسی بھی مںصوبے پر ہو سکے ۔

تحقیق کے مقاصد

کسی بھی چیز پر تحقیق کرنا کسی چیلنج سے کم نہیں ہوتا لیکن کامیابی کی صورت میں جو اعزاز و اکرام آپ کے حصے میں آتے ہیں، ا س کا بھی کوئی نعم البدل نہیں ہوتا۔ اسی لئے جب آپ کو موقع ملے تو اپنی دلچسپی کے موضوع پر گہرائی میں جا کر تحقیق کریں، چاہے وہ آپ کی ڈگری کا لازمی حصہ ہو یا پھر ملک و قوم کی خدمت کا جذبہ۔

تحقیق کے دوران طلبا نہ صرف اپنی معلومات و تجربات میں اضافہ کرتے ہیں بلکہ ذہن کے دریچوں میں اٹھنے والی الجھنوں کو دور کرتے ہوئے سوالات کے جوابات ڈھونڈتے ہیں۔ مختلف توجیہات و مفروضات کے بارےمیں ان کے دماغ میں جو ابہام ہوتاہےوہ اسے دور کرتے ہیں اور اس سے معاشرے کو بھی فائدہ ہوتاہے۔

مزید یہ کہ کوئی بھی طالبعلم اپنے کسی مضمون یا موضوع پر تحقیق کررہاہے تو اس کے بارے میں پہلے سے موجود علمی مواد کا مطالعہ اس کے علم اور مہارت میں زبردست اضافہ کرتاہے، وہ تمام تر حقائق سے آگاہ ہوتاہے اور اس کیلئے تجزیہ کرنا آسان ہو تا چلاجاتاہے۔ کسی بھی موضوع پر تحقیق کے حوالے سے یا مسائل کا حل ڈھونڈنے کیلئے کئی پہلو سامنے آتے ہیں اورایک کے بجائے کئی راستے یا طریقے سامنے آتے چلے جاتے ہیں۔

جب طالبعلم پہلے سے شائع شدہ تحقیق کے مضامین کا مطالعہ کرتاہے تو اس کے دماغ کے بند دریچے کھلتے چلے جاتےہیں، وہ تحقیق کے وجدان کو سمجھنے لگتاہے، جس سے اس کا اپناو جدان تیز ہونے لگتا ہے۔ جب وہ شائع شدہ مواد پڑھتاہے اور تحقیق کے اندر مشغول ہونا شروع ہوتا ہے تو اسے اپنی دلچسپی کا بھی ادراک ہونے لگتاہے کہ آیا اس کی دلچسپی بڑ ھ رہی ہے یا کم ہو رہی ہے۔ یہی وہ وقت ہوتاہے کہ وہ تحقیق کو جاری رکھنے یا نہ رکھنے کے بارے میں فیصلہ کرلے۔

تحقیق کے مراحل

تحقیق کا ایک طریقہ کار ہوتاہے، جس کے مطابق آپ کو اپنی تحقیق مرحلہ وار آگے بڑھانی ہوتی ہے۔ یہ ترتیب کچھ اس طرح ہے۔

1۔ موضوع کا انتخاب ،2۔ مسئلے کو بیان کرنا ، 3۔ علمی موادکا مطالعہ ، 4۔ تحقیقی خلا (Research Gap)کو تلاش کرنا، 5۔ مفروضوں کو بیان کرنا ، 6۔ تحقیق کا ڈیزائن تیار کرنا (یعنی Qualitativeیا Quantitative کاانتخاب کرنا) ، 7۔ تجربہ کرنا، 8۔ حاصل شدہ اعدادوشمار کا تجزیہ کرنا، 9۔ اخذکردہ نتائج کی تشریح کرنا، 10۔ اپنے کام کی فائنل رپورٹ تیار کرنا۔ ان مراحل پر عمل کرکے آپ اپنی تحقیق مکمل کرسکتےہیں۔ کسی بھی مرحلے کو عمدگی سے سمجھنے یا انجام دینے کیلئے اپنے سینئرز یا انٹرنیٹ کا سہارا لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

تنقید کی تعریف کیا ہے

تنقید کی تعریف

سوال:- تنقید کیا ہے؟

جواب:- تنقید عربی زبان کا لفظ ہے۔ تحقیق کی طرح تنقید بھی دنیائے ادب کے لیے خاص اہمیت رکھتی ہے۔ ان دونوں کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ تحقیق اور تنقید نہر کے دو کناروں کی طرح ہیں۔ جو کبھی بھی آپس میں نہیں مل سکتے مگر ہمیشہ ایک ساتھ رواں رہتے ہیں۔اس لیے ان دونوں اصطلاحات کو ہمیشہ الگ الگ ہی بیان کیا جاتا ہے۔

تنقید کیا ہے؟

تنقید عربی زبان کا لفظ ہے اور بابِ تفعیل سے تعلق رکھتا ہے۔تنقید کا مادہ نقد ہے۔ اس کے معنی کھرے اور کھوٹے کی پہچان کرنا کے ہیں۔ تنقید ایک ایسی اصطلاح ہے جس میں کسی بھی شخص چیز یا پھر صنف کے منفی اور مثبت پہلو گنوائے جاتے ہیں۔ دورِ جدید میں تنقید کو صرف نقص بیان کرنا تصور کیا جاتا ہے مگر ایسا بلکل بھی نہیں ہے۔کسی بھی شے کی صرف خامیاں بیان کرنے کی اصطلاح تنقیص کہلاتی ہے جس میں صرف اور صرف منفی پہلوؤں کو اُجاگر کیا جاتا ہے۔ تنقید کا قیام آج سے کئی سو سال پرانا ہے۔ مغرب میں سب سے پہلے اس اصطلاح کو رواج ملا تھا انگریزی میں اسے کریٹیسائز کہا جاتا ہے۔ اس کی بہت سی اقسام ہیں؛

تنقید کی اقسام؛

ڈاکٹرسلیم اختر کے مطابق تنقید دراصل کلاس نوٹس کی طرح سے ہے جس کا بنیادی مادہ تو تقریباً ایک رہتا ہے مگر مثالیں بدلتی رہتی ہیں۔اس کی مختلف اقسام درج ذیل ہیں؛

ا۔ آر کی ٹائپل تنقید

یہ نفسیاتی تنقید کی اہم شاخ ہے جس میں کسی ادیب یا ادب کے اجتماعی لاشعور پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔

ب۔نفسیاتی تنقید

فرائیڈ کے دریافت کردہ نفسِ لاشعور کو اہمیت دینے والے ناقدین کا مطالعہ نفسیاتی تنقید کہلاتا ہے۔ادبی اصطلاح میں کسی ادیب کے نفس کو پرکھنا بھی مراد لیا جاتا ہے۔

ج۔استقرائی تنقید

یہ ایک ایسی تنقید ہے جس میں کسی ادیب کو خارج سے عائد کردہ اصول و قوانین سے نہیں بلکہ اس کی اپنی تصنیف کے مطابق پرکھا جاتا ہے۔

د۔تجزیاتی تنقید

اس میں کسی بھی ادب پارے کے بنیادی اوصاف کو ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے۔

ہ۔رومانی تنقید

اس تنقید میں ادیب کے رومانوی رنگ کو ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے۔

و۔سائنٹفک تنقی

یہ ایک ایسی شاخ ہے جس میں سائنٹفک علام کے مطلق تنقید کی جاتی ہے۔

ز۔عمرانی تنقید

یہ معاشرے کی تنقید ہے اس میں ادیب اور ادب کو معاشرتی پسِ منظر سے پرکھا جاتا ہے۔

ح۔مارکسی تنقید

اس میں کسی بھی ادب کا مطالعہ موضوع کی طبقاتی کشمکش میں کیا جاتا ہے۔

ط۔نظریاتی تنقید

اس میں نظریاتی بنیادوں پر کام کیا جاتا ہے۔

ی۔عملی تنقید

کسی فنکار یا ادب کا ںظریاتی مطالعہ عملی تنقید کہلاتا ہے۔

ک۔ہیئتی تنقید

اس میں کسی بھی صنف کی ہیتوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے

تنقید کی اقسام

1) عمرانی تنقید: عمرانی نقاد سب سے پہلے معاشرے اور اس کے رجحانات کے بارے میں تفصیل جان کر اس زمانے کے ذہنی پس منظر کے بارے میں بات کرتے ہوئے تحریر کو سامنے رکھتا ہے اور دیکھتا ہے کہ ان عوامل نے کس حد تک تحریر پر اثر کیا اور کس حد تک ان اثرات کی عکاسی تحریر میں موجود ہیں۔ عمرانی تنقید کی مدد سے ہم بہ آسانی جان جاتے ہیں کہ مخصوص حالات کا لکھنے والے کے تحریر اور زبان پر کیا اثر ہوتا ہے۔

2) نفسیاتی تنقید: نفسیاتی تنقید کی بنیاد فرائڈ کے نظریہ لاشعور پر رکھی گئی ہے۔ جس میں بعدا زاں ایڈلر اور ژنگ کے خیالات نے مزید گہرائی پیدا کردی۔ علم نفسیات انسانی ذہن اور کردار کے محرکات کو سمجھنے کا نام ہے چنانچہ نفسیاتی تنقید میں بھی اسی حوالے سے بات کی جاتی ہے۔

3) جمالیاتی تنقید: جمالیاتی تنقید میں کسی فن پارے میں حسن اور جمال کی اقدار پر بحث ہوتی ہے۔ جمالیاتی تنقید میں فن پارے میں دلکشی اور حسن جیسے عناصر کی تلاش اور بیان کو کافی سمجھا جاتا ہے۔

4) مارکسی تنقید: مارکسی تنقید میں ادب، زندگی اور معاشرے کے مادی ارتقا میں شریک ہونے کے ساتھ ساتھ اس ارتقاء کے مدارج عکس بھی پیش کرتا ہے چنانچہ ادب کو امیر اور غریب ، حکمران اور محکوم، سرمایہ دار اور مزدور، کسان اور زمیندار کے درمیان پائی جانے والی طبقاتی کشمکش میں غریب اور پسے ہوئے طبقے کا ساتھ دینا چاہئے۔

5) رومانی تنقید: اس تنقید کے بارے میں آج تک میں کنفیوز ہو لیکن میرے خیال میں سادہ زبان اور اور اسلوب پر اس تنقید میں زور دیا جاتا ہے۔( اس کے حوالے سے اگر معلوما ت کسی کے پاس موجود ہے تو مہربانی کرکے وضاحت کیجئے۔)

6) تاثراتی تنقید:تنقید کی ایسی قسم جس میں تاثر کو اولیت دی جائے ، تاثراتی تنقید کہلاتی ہے۔ اس تنقید کی بنیاد یہ نظریہ ہے کہ ہر قسم کے ادب کی بنیاد تاثر بخشی پر ہوتی ہے۔

7) تقابلی تنقید: تقابل دو چیزوں کے درمیان موازنہ کرنے کو کہا جاتا ہے اور تقابلی تنقید میں بھی یہی کام کیا جاتا ہے۔

مارکسی تنقید Marxist Criticism

یہ تخلیقات اور جدلیاتی معیار کی بحث ہوتی ہے۔ یہ کارل مارکس کی طرف منسوب ہے۔ اس تحریک کا آغاز خالصتاً ادبی مقاصد کے لئے نہ تھا اس لحاظ سے یہ کسی حد تک نفسیاتی تنقید کے قریب ہوجاتی ہے۔ مارکسی تنقید میں نقاد ادب زندگی اور معاشرہ کے مادی ارتقاء میں شریک کار ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے ارتقاء کے مختلف مدارج کا عکس بھی پیش کرتا ہے۔ یعنی ادب کو امیر و غریب، حکمران و محکوم، سرمایہ دار و مزدور، کسان و زمیندار کی صورت میں پائی جانے والی طبقاتی کشمکش میں غریب اور پسے ہوئے پرولتاری طبقہ کا ساتھ دینا چاہئے۔ میکسم گورکی کے خیال میں:

’’ہماری تمام تصنیفات کا ہیرو مزدور ہونا چاہئے بالفاظ دیگر محنت کے عمل سے جنم لینے والا …… انسان‘‘۔ اس تنقید کے اہم نقاد، لینن، ماوزے تنگ، میکسم گورکی، فیض، احمد ندیم قاسمی، عزیز احمد وغیرہ ہیں۔

نفسیاتی تنقید Psychological Criticism

اس کو آپ تخلیق اور لاشعوری محرکات کی طلسم کاری بھی کہہ سکتے ہیں۔ نفسیاتی تنقید کی اساس فرائڈ کا نظریہ لا شعور بنا پھر اس میں ایڈلر اور ژنگ کی تعلیمات سے مزید گہرائی پیدا کی گئی۔ اس تنقید میں اصناف ادب کے نفسیاتی محرکات کا سراغ، تخلیق کار کی شخصیت کی نفسی اساس کی دریافت اور نفسیاتی اصولوں کے سیاق وسباق میں مخصوص تخلیقی کاوشوں کی تشریح و توضیح اور پھر ان کے ادبی مرتبہ کا تعین شامل ہیں۔ ایچ سمرول نے ’’میڈنیس ان شیکیسپئر ٹریجڈی‘‘ میں شیکسپیئر کی یوں تشخیص کی کہ وہ مینک ڈیپریسیو تھا۔ یہ نیم دیوانگی کی وہ قسم ہے جس میں مریض پر خوشی اور پژمردگی کے دورے سے پڑتے ہیں۔ ایک وقت ضرورت سے زیادہ خوش تو دوسرے وقت غم کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبا ملتا ہے۔ بہت سے شعراء یوں غم اور خوشی کے درمیان پنڈولم کی طرح جھولتے رہتے ہیں۔ اس نے سوال کیا کہ ’’کیا شیکسپیئر بھی ایسی ہی کیفیات سے دوچار تھا؟‘‘ اور اپنے استدلال سے اس بات کا جواب بھی دیا کہ جب ہم فلسٹاف اور میکبتھ کا مطالعہ کریں تو اس ضمن میں کسی طرح کا شک و شبہ نہیں رہتا‘‘۔

اس تنقید نے تو بڑے بڑے تخلیق کاروں کی ابنارملٹی، جنسی بے راہ روی، خانگی ناچاقی، نشہ، جرم، ہم جنس پرستی، ذہنی امراض، افیونی ہونے وغیرہ کو بھی چھیڑا ہے اور اس سے نتائج برآمد کئے ہیں۔ مرزا ہادی رسوا اردو کا پہلا نفسیاتی نقاد ہے۔ جس نے ایک طوائف پر ناول ’’امراو جان ادا‘‘ لکھی ہے مرزا نے امریکہ سے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی تھی اس تنقید کے مطابق کسی تخلیق کار کے ذاتی خطوط سے بھی اس کے لاشعور کو جانچا جا سکتا ہے جیسے شبلی کے خطوط عطیہ بیگم کے نام یا ’’شبلی کی حیات معاشقہ‘‘ سے شبلی کے جذباتی کشمکش کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ بقول ڈاکٹر سلیم اختر کے ’’اسی طرح اقبال نے عطیہ بیگم کو جو خطوط لکھے، ان میں بھی اس جذباتی کشمکش کا بین السطور مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ (مزید تفصیلات کے لیے راقم کی کتاب ’’اقبال کا نفسیاتی مطالعہ‘‘ سے رجوع کیا جا سکتا ہے‘‘۔

تنقید

ٹی ایس ایلیٹ کے بقول تنقید ہماری زندگی کے لئےاتنی ہی ناگزیر ہے جتنی سانس۔

عام طور پر لوگ تنقید سے اعتراض مراد لیتے ہیں اس لئے تنقید سے گبھراتے ہیں۔ لیکن تنقید کے مختلف تعریفیں ہیں جن سے اس عمل کو اعتراض کے حد تک محدود کرنے والوں کا خوف جاتا رہتا ہے اور وہ تنقید کے لئے امادہ ہوجاتے ہیں۔

تنقید کی مختلف مطلب بیان کئے گئے ہیں یعنی چھان پھٹک کرنا، پرکھنا، اچھے کو برے سے الگ کرنا وغیرہ۔ اس کے مختلف دبستان ہیں، جن کا ذکر آرہا ہے، ہر دبستان کا اپنا نقطہ نظر ہے اور اس کے مطابق وہ تنقید کی تعریف کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا تنقید صرف کسی فن پارے تک محدود ہوتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نہیں بلکہ پورے سسٹم یا تھیوری پر ہوسکتی ہے۔

جمالیاتی تنقید Aesthetical Criticism

یہ تخلیق میں حسن اور اسلوب میں حسن کاری کا مطالعہ ہے. ایک جرمن فلاسفر بام گارٹن نے سب سے پہلے 1737ء میں جمالیات کی اصطلاح وضع کی تھی۔ جمالیاتی تنقید کی اساس ان مظاہر حسن کے ادراک پر استوار سمجھی جانی چاہئے. جن کا ادبیات میں کسی نہ کسی ذریعہ سے اظہار کیا جاتا ہے اور جمالیاتی نقاد کے بموجب جن کی پرکھ میں ہی اصل فن پارہ کی شناخت مضمر ہے۔ تخلیق کار کی شعوری کاوش سے جب حسن کی صورت پذیری ہو، کسی مخصوص انداز سے اس کا اظہار ہو تو یہ جمالیاتی تخلیق ہوگی۔ والٹر پیٹر جمالیاتی تنقید کا اہم ترین علمبردار ہیں۔ اس کے بعد کروچے ہیں۔

جمالیاتی تنقید، تنقید کے دیگر دبستانوں سے اس بنا پر ممتاز ہوجاتی ہے کہ اس میں حسن اور حسن کاری کے مطالعہ کو تنقید کی اساس ہی نہیں تصور کیا جاتا بلکہ ان کے علاوہ اور کسی چیز کو تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔ اسی لئے تو جمالیاتی نقاد ادبی تخلیقات میں حسن اور دلکشی پیدا کرنے والے خصائص کے تجزیہ اور مطالعہ کو اولین اور اساسی اہمیت دیتا ہے۔

جمالیاتی تنقید، تنقید کے دیگر دبستانوں سے بعض اساسی نوعیت کے اختلافات کی بنا پر یوں ممتاز ہوجاتی ہے کہ ایک تو اس میں تجزیاتی طریق کار کو بروئے کار نہیں لایا جاتا،اور دوسرے یہ فیصلہ تو صادر کرتی ہے لیکن یہ فیصلہ کسی اصول، لسانی قانون یا فنی ضابطہ پر استوار کرنے کی کوشش نہیں کرتی۔ نیاز فتح پوری کی تنقید کو اردو میں جمالیاتی تنقید کا سب سے اچھا نمونہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح عابد علی عابد بھی جمالیاتی تنقید کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔

/5
0 votes, 0 avg
121
Created on

اردو ادب کوئز

اپنی اردو ادب کی معلومات جانچیں

1 / 5

کس مصنف کی کہانیوں میں جہد آزادی کی تاریخ ملتی ہے۔

2 / 5

سارے جہاں سے اچھا'' کس نے لکھی''

3 / 5

بلغان خاتون کا ذکر کس ناول میں ہے۔

4 / 5

ناول امراؤ جان ادا میں امراؤ جان کی پرورش کس نے کی۔

5 / 5

مرزا غالب کہا پیدا ہوئے

Your score is

0%

Please rate this quiz

جامعہ ایڈمیشن

جامعہ ملیہ اسلامیہ پی ایچ ڈی ایڈمشن لسٹ جاری ہونے والی ہے

جامعہ ایڈمیشن

جامعہ ملیہ اسلامیہ میں آنلائن فارم دستیاب ہیں

جامعہ ایڈمیشن

جامعہ ملیہ اسلامیہ میں آنلائن فارم دستیاب ہیں

Dehli University

Jawahar Lal Nehru University

Jawahar Lal Nehru University

error: Content is protected !!