تمام احباب کا اس صفحے پر خیر مقدم کیا جاتا ہے۔
…………………………………………
اس صفحے پر نیٹ جے آر ایف اُردو نصاب کے عین مطابق (یونٹ سات) تنقید اور تنقید نگار پر مواد اپلوڈ کیا گیا ہے۔ جس کے ذریعے تمام احباب تنقید اور تنقید نگار یونٹ کو آن لائن پڑھ سکتے ہیں۔ اگر آپ اس یونٹ کو آن لائن پڑھنا چاہتے ہیں تو نیچے دئے گئے کسی بھی موضوع پر کلک کریں اور اپنا پسندیدہ موضوع آن لانن پڑھیں۔
(Note:- Some Data Uploaded Soon)
………………………………………………
مشرقی تصور نقد
٭مشرقی تصور نقد٭
عربی شعریات (نظریات)
¦ابن سلام العجمی: (محمد بن سلام )
محمد بن سلام کو عربی کا پہلا نقاد کہا جاتا ہے۔
یہ شاعری کو صنعت گری قرار دیتا ہے۔
¦ابن قتیبہ:
ابن قتیبہ کی تنقید میں توازن پایا جاتا ہے ۔
ابن قتیبہ شعر گوئی کے لئے شعوری کاوش اور تراش خراش کو ضروری بتاتا ہے۔
ابن قتیبہ اچھے اور برے کے اعتبار سے شاعری کو چار حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔
اس کے نزذیک عمدہ شعر وہ ہے جس میں لفظ اور معنی دونوں اعلا درجہ کے ہوں ۔ دوسرے تیسرے نمبر پر وہ شعر آتے ہیں جن میں لفظ اچھے اور معنی بے مصرف ہوں ۔یا معنی عمدہ اور لفظ تاقص ہوں ۔
اس کے نزدیک سب سے پست درجے کا شعر وہ ہے جس میں نہ لفظ اچھے ہوں نہ معنی ۔
¦قدامہ ابن جعفر:
قدامہ ابن جعفر نے حسن کاری کو شعر کے لئے ضروری قرار دیا اور اخلاقی تعلیم کے نظریہ کو رد کیا ۔
قدامہ نے جھوٹ کو شاعری کے لئے ضروری بتایا ہے۔
قدامہ نے نقد الشعر کی دوسری فصل میںشاعری کے چار عناصر بتائے ہیں: لفظ معنی کے ساتھ، لفظ وزن کے ساتھ، معنی وزن کے ساتھ، معنی قافیہ کے ساتھ۔
¦ابن رشیق:
ابن رشیق نے شعر کی بنیاد چار چیزوں پر رکھی ہے: لفظ، وزن ، معنی، قافیہ۔
ابن رشیق وزن اور قافیہ کو شعر کے لئے لازمی قرار دیتا ہے۔
ابن رشیق نے لفظ اور معنی کے رشتے کو جسم اور روح کا رشتہ بتایا ہے۔
¦ابن خلدون:
ابن خلدون کہتا ہے کہ معانی الفاظ کے تابع ہیں۔
ابن خلدون کہتا ہے کہ معانی پانی کا مانند ہیں اور الفاظ پیالے کی مانند۔
¦عبدالقاہر جرجانی:
اسرارالبلاغہ ،دلائل الاعجاز،العمدہ فی التصریف مشہور تصنیفات ہیں۔
¦رشید الدین وطواط:
یہ شاعری میں صنائع کے استعمال کو بہت اہمیت دیتا ہے ۔
اس کی کتاب کا نام حدائق السحر فی دقائق الشعر ہے۔
¦شمس الدین محمد بن قیس رازی:
یہ کہتا ہے کہ شعر کو اتنا سہل ہونا چاہئے کہ جب پڑھا یا سنا جائے تو آسانی سے سمجھ میں آ جائے ۔
¦عنصرالمعالی:
اس کی مشہور و معروف تصنیف کا نام قابوس نامہ ہے۔
عنصر المعالی کہتا ہے کہ شعر اپنے لئے نہیں دوسروں کے لئے کہا جاتا ہے۔اس لئے اسے قابل فہم ہونا چاہئے۔
یہ شاعری میں حسن کاری کی اہمیت پر بھی زور دیتا ہے۔
استعاراتی زبان کا استعمال اس کے نزدیک شاعری کے لئے نہایت مناسب ہے ۔
¦نظامی عروضی:
نظامی عروضی کی قابوس چہار مقالہ ہے۔
یہ الفاظ کو معنی پر تسجیح دیتا ہے ۔
یہ شاعری کو ایسی صنعت بتاتا ہے جو اعلا کو ادنا اور ادنا کو اعلا کر دکھانے کی قدرت رکھتی ہے۔
اس کے خیال میں شاعر کے لئے ضروری ہے کہ بیس ہزار اشعار اس کی نظر سے گزر چکے ہوں ۔
سنسکرت شعریات
سنسکرت شعریات(بھرت منی،ابھینو گپت،آنند وردھن اور آچاریہ شنکک)
¦سنسکرت میں سب سے اونچا مقام ڈرامہ کو حاصل ہے۔
¦سب سے پہلے رس کا تصور بھرت منی نے پیش کیا ۔ اور رس کی کل آٹھ قسمیں بتائیں۔
1¦۔رتی(عشق و محبت) 2۔ہاس(ہنسی) 3۔شوک(دکھ ) 4۔کرودھ(طیش) 5۔اتساہ(جوش وخروش) 6۔بھہ(ڈر) 7۔جگپسا(نفرت) 8۔وسمیہ (حیرت و استعجاب)۔
¦ بھرت منی نے وبھائو کی آٹھ ۔ انو بھائو کی آٹھ اور سجچاری بھائو یا وبھیچاری بھائو کی تعداد 33 بتائی ہے ۔
¦سب سے پہلے لفظ اپ بھرنش کا استعمال بھرت منی نے ناٹیہ شاستر میں کیا تھا ۔اس کے بعد کالی داس نے اپنی کتاب وکرم اروشی میں لفظ اپ بھرنش کا استعمال کیا ۔
¦ ڈرامہ کی سب سے اہم چیز ’رس‘ ہے ۔
¦ابھینوگپت کی کتاب کا نام ’’ابھینو بھارتی ‘‘ اور ’’ لوکن ‘‘ ہے۔ انہوں نے ابھیویکتی واد کا نظریہ پیش کیا ۔
بھٹ لولٹ نے اتپتی واد کا نظریہ پیش کیا ۔¦
آچاریہ شنکک نے رسانومتی (استخراج) کا نظریہ پیش کیا ۔¦
¦آنندوردھن کی کتاب کا نام’’ دھونیا لوک‘‘ ہے ۔ اس میں انھوں نے دھونی کا نظریہ پیش کیا ہے۔
¦وامن نے النکار (صنعت گری ) کی اصلاح کی۔ان کی کتاب کا نام ’’ النکار سوتر ‘‘ ہے۔
¦بھامہ،دنڈی،وامن ،ادبھٹ اور ردرٹ نے ’النکار‘ کو شاعری کی روح کہا ہے۔
¦آچاریہ بھامہ نے شاعری میں مشکل پسندی کو نا پسند کیا ہے۔
مغربی تصور نقد
٭مغربی تصور نقد (نظریات)٭
¦افلاطون:
افلا طون نے نقل کی نقل کا نظریہ پیش کیا تھا ۔
یہ سقراط کا شاگرد اور ارسطو کا استاد تھا ۔
افلاطون نے شاعری کو ایک فضول کام سے تعبیر کیا ہے۔
افلاطون ایک مثالی ریاست کا خواہش مند تھا۔
افلاطون نے اپنی تمام نظموں کو جلا ڈالا تھا ۔
افلاطون اس شاعری کا حامی نہیں جس سے صرف مسرت حاصل ہو۔اس کے نزدیک شاعری کا اصل کام زندگی کو بہتر بنانا ہے۔
افلاطون شاعری کو تین حصوں میں تقسیم کرتا ہے: بیانیہ شاعری ، ڈرامائی شاعری ، رزمیہ شاعری ۔
افلاطون فن کو ایک جاندار شے تسلیم کرتا ہے۔
¦ارسطو:
بوطیقا میں رزمیہ،بزمیہ اور المیہ شاعری پر مباحث ملتے ہیں۔
ارسطو کی یہ کتاب میں 26 ابواب پر مشتمل ہیں۔
ارسطو کے نظریات سے جمالیات کو تقویت ملتی ہے۔
ارسطو شاعری کو الہامی نہیں انسانی کوشش کا نتیجہ مانتا ہے اور اس کی تربیت و تنظیم کا قائل ہے۔
ارسطو فارم کو ٹریجڈی کی جان بتاتا ہے۔
ارسطو شاعری کے لئے جھوٹ اور مبالغے کو جائز خیال کرتا ہے۔بشرطیکہ ان کا استعمال فنکارانہ ہو۔
ارسطو نے کتھار سس کا نظریہ پیش کیاہے۔
¦لان جائنس:
¦لانجائنس نے کہا تھا کہ شعر و ادب میں ’’ عظمت‘‘ ہونی چاہئے جسے محسوس تو کیا جا سکتا ہے لیکن لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا ۔
لانجائنس نے عظیم ادب کی پانچ خصوصیات بتائیں ہیں: عظمت خیال، شدت جذبات ، صنائع و بدائع کا بہتر استعمال، انتخاب الفاظ، ترتیب الفاظ۔
لانجائنس نے علویت کا نظریہ پیش کیا۔
لانجائنس کے نزدیک تقریر اور تحریر کی عظمت کا تعلق روح کی عظمت سے ہے۔
¦آئی ۔اے رچرڈس:
آئی ۔اے رچرڈ س شاعری کو زندگی کے لئے ضروری قرار دیتا ہے ۔
رچرڈ س کہتا ہے کہ ہم شاعری سے وہ حاصل کر سکتے ہیں جو سائنس ہمیں نہیں دے سکتی ۔
¦میتھیو آرنلڈ :
آرنلڈ نے کلاسیکیت ،تہذیب و ثقافت کے بنیادی ستونوں کو مضبوط کیا۔
آرنلڈ نے نو دولتیوں اور مادہ پرستوں کو خوب تنقید کا نشانہ بنایا ۔
¦آرنلڈ شاعری کو تنقید حیات کہتا ہے۔
¦ٹی ۔ایس ۔ایلیٹ:
ایلیٹ نے روایت کے تصور پر بہت زور دیا ہے۔
ایلیٹ نے معروضی تلازمہ کا تصور پیش کیا ۔
ایلیٹ کہتا ہے شاعری پر تنقید کا حق صر ف شاعروں کو ہونا چاہئے۔
ایلیٹ کہتا ہے شاعری شخصیت کا اظہار نہیں شخصیت سے فرار ہے۔
ایلیٹ کہتا ہے میں سیا ست میں شاہ پسند ،مذہب میں کیتھولک اور ادب میں کلاسیکیت کا قائل ہوں۔
دبستان تنقید
٭دبستان تنقید٭
¦تاثراتی تنقید:
تنقید نگار کی ذمہ داری اتنی ہے کہ وہ انھیں ان کے اصل روپ میں دیکھے اور ان کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کردے۔ (والٹر پیٹر)
¦تاثراتی تنقید میں شامل نقاد:
محمد حسین آزاد،شبلی ،فراق،نیاز فتح پوری،مجنوں،مہدی افادی،سجاد انصاری، خورشید الاسلام، رشید احمد صدیقی ،حسن عسکری،عبد الرحمان بجنوری۔
¦مارکسی تنقید:
انسان کے خیالات اور جذبات اس کے تمام مساعی ایک مخصوص دور کے ماحول کی پیدا وار ہوتے ہیںاور جو مادی اسباب کسی ایک ماحول کی تشکیل کرتے ہیںان میں طریقۂ پیداوار یا پیدا وارکی غرض سے اقتصادی تنظیم سب سے زیادہ اہم ہے۔(کارل مارکس)
¦مارکسی تنقید میں شامل نقاد:
سجاد ظہیر،احتشام حسین، اختر حسین رائے پوری،عبدالعلیم،مجنوں گورکھپوری،،عزیز احمد، محمد حسن۔
¦جمالیاتی تنقید :
کوئی تنقیدی فیصلہ جمالیاتی اقدار پر نظر رکھے بغیر صحیح نہیںہوسکتا۔(آسبورن)
¦جمالیاتی تنقید میں شامل نقاد:
محمد حسین آزاد ، مہدی افادی ، شبلی نعمانی ، عبد الرحمن بجنوری ، سجاد انصاری ، فراق گورکھپوری ، محمد حسن عسکری ، خورشید الاسلام ، نیاز فتح پوری ، مجنوں گورکھپوری ، عابد علی ۔
¦نفسیاتی تنقید :
نفسیات ایک سائنسی مطالعہ کا نام ہے۔ جس میں انسان کے مختلف افکار و نظریات سے مدد لے کر دماغ کو پڑھا جاتا ہے اور اس کے اندرونی حالات کا پتہ لگایا جاتا ہے ۔
¦نفسیاتی تنقید میں شامل نقاد:
شبیہ الحسن ، وحیدالدین سلیم،وزیر آغا ،میراجی ، سلیم احمد،ریاض احمد۔
¦سائنٹفک تنقیدمیں شامل نقاد:
مولوی عبدالحق،مجنوں گورکھپوری ،کلیم الدین احمد ، عبادت بریلوی ، آل احمد سرور، سید عبداللہ ، ابواللیث صدیقی ، گوپی چند نارنگ ،محمد حسن ،احتشام حسین ، اختر حسین راے پوری ، سید اعجاز حسین ، عبدالعلیم، مسعودحسین خاں۔
¦متنی تنقید میں شامل نقاد:
متنی نقادوں میں سب سے مشہورنام خلیق انجم کا ہے۔
¦ ہیئتی تنقید میں شامل نقاد:
محمد حسن عسکری ، شمس الرحمن فاروقی ، وزیر آغا ، سلیم احمد ، شمیم احمد ، جیلانی کامران ، افتخار جالب ، گوپی چند نارنگ ، مغنی تبسم ، وہاب اشرفی ، اسلوب احمد انصاری۔
¦اسلوبیاتی تنقید میں شامل نقاد:
ڈاکٹر مسعود حسین خاں ، ڈاکٹر گوپی چند نارنگ، ڈاکٹر مغنی تبسم ، ڈاکٹر مرزا خلیل بیگ،شمس الرحمن فاروقی
اردو کے اہم ناقدین
محمد حسین آزاد
محمد حسین آزاد:
¦ پیدائش:1830 دہلی ¦وفات:1910 لاہور
¦تصانیف:
آب حیات ، دربار اکبری ، سیر ایران ، نیرنگ خیال ، سخن دان فارس وغیرہ ۔
¦ تنقیدی نظریات:
آزاد کہتے ہیں کہ شعر کے معنی کلام موزوں اور مقفی کے ہیں ساتھ ہی وہ کہتے ہیں شاعر کے کلام میں اثر بھی موجود ہویعنی ان کے نزدیک کلام موزوں کے ساتھ شعر کو مؤثر بھی ہونا چاہیے ۔
محمد حسین آزاد شعر کو ایک الہامی چیز تصور کرتے ہیں۔
الطاف حسین حالی
الطاف حسین حالی
(مختصر تعارف)
حالی کا پورا نام مولانا الطاف حسین تھا۔ حالی کی ولادت 1837 کو پانی پت میں ہوئی ۔ ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں ہی حاصل کی ۔ والد کا نام خواجہ ایزد بخش تھا ۔ حالی کو پڑھنے اور لکھنے کا بہت شوق تھا ۔ حالی کے اساتذہ میں قاری ممتاز علی، سید حعفر علی ، مولوی ابراہیم انصاری، مولوی نوازش علی کا نام سر فہرست ہے ۔ حالی کے شاعری کے استاد مرزا غالب تھے ۔ غالب کے مشورے سے حالی نے اپنا تخلص خستہ سے حالی کر لیا تھا۔ حالی سر سید کے رفقا میں شمار کئے جاتے ہیں ۔ سرسید کی تحریک کا اثر حالی کے تنقیدی نظریات میں دکھائی دیتا ہے۔ خالی انگریزی نہیں جانتے تھے مگر لاہور کی ملازمت کے دوران انگریزی زبان سے واقفیت حاصل کی۔ حالی کا تنقید سے تعلق ’’ مشرقی اور مغربی‘‘ دونوں سے ہے۔ مشرقی تنقید یعنی عربی اور فارسی تنقید، اور مغربی تنقید یعنی انگریزی تنقید۔ حالی کے تنقیدی تصورات کی جو تشکیل ہوئی وہ مشرقی اور مغربی تصورات نقد کی آمیزش سے ہوئی ۔ حالی کے ذہن میں پہلے سے مشرقی تنقیدی تصورات موجود تھے، جب ان میں مغربی تنقیدی تصورات کی آمیزش ہوئی تو دونوں مل کر اردو میں چند نئے تنقیدی تصورات کی صورت میں جلوہ گر ہوئے۔ حالی کے تنقیدی تصورات کو ہم ان کی مشہور و معروف کتاب ’’ مقدمہ شعر و شاعری ‘‘ میں پڑھ سکتے ہیں۔ یہ کتاب سن 1893 میں شائع ہوئی۔ یہ حالی کے دیوان کا مقدمہ ہے ۔ جس کو بعد میں ایک الگ کتاب کی شکل میں شائع کیا گیا۔ اردو ادب کے اس مشہور نقاد کی 1914 کو پانی پت میں وفات ہوئی ۔
¦تصانیف:
مقدمہ شعر و شاعری ، حیات جاوید ، یادگار غالب ، حیات سعدی وغیرہ ۔
¦ تنقیدی نظریات:
شعر کے لیے وزن ایک ایسی چیز ہے جیسے راگ کے لیے بول۔جس طرح راگ فی ذاتہ الفاظ کا محتاج نہیں اس طرح نفس شعر وزن کا محتاج نہیں۔
حالی نے شعر کی تین خوبیاں سادگی،اصلیت اور جوش بتائیں ہیں۔
حالی نے مثنوی کو سب سے کار آمد صنف کہا ہے۔
امداد امام اثر
¦امداد امام اثر:
¦ پیدائش:1849 پٹنہ ¦وفات:1934
¦تصانیف:
کاشف الحقائق ، دیوان اثر ، ارمغان، فسانۂ ہمت،فوائد داراین،مراۃ الحکما، کتاب الاثمار، وغیرہ ۔
¦اہم تنقیدی نظریات:
امام اثر کی کاشف الحقائق عملی تنقید کا نمونہ ہے ۔
امام اثر نے لفظ و معنی میں معنی کو لفظ پر فوقیت دی ہے۔
امام اثر نے اس شاعر ی کی تعریف کی ہے جس میں سادگی ہو اور رعایت لفظی سے خالی ہو۔
امام اثر شاعری میں مبالغہ اور کذب کو مذموم قرار دیتے ہیں۔
احتشام حسین
¦احتشام حسین:
¦ پیدائش:1912 اعظم گڑھ ¦وفات:1972
¦تصانیف:
زمانی اعتبار سے:
1 ۔ ویرانے : (افسانوں کا مجموعہ) 1944
2 ۔ تنقیدی جائزے : (تنقید) 1945
3۔ روایت اور بغاوت : (تنقید) 1947
4۔ ادب اور سماج : (تنقید) 1948
5۔ تنقید اور عملی تنقید : (تنقید) 1952
6۔ذوق ادب اور شعور : (تنقید) 1955
7۔ساحل اور سمندر : (سفر نامہ ٔ یورپ و امریکہ)1955
8۔ اردو ساہتہ کا اتہاس : (ہندی میں لکھی گئی ترجمہ روسی زبان میں ہوا) 1955
9 ۔عکس اور آئینے : (تنقید) 1962
10۔افکار و مسائل : (تنقید) 1963
11۔اعتبار نظر : (تنقید) 1964
12۔ تنقیدی نظریات : (دو حصوں میں)1966-55
13۔اردو ساہتیہ کا
الوچناتمک اتہاس : (ہندی میں)1969
14۔روشنی کے دریچے : (شعری مجموعہ)1973
15۔اردو ادب کی تنقیدی تاریخ : (ہندی سے ترجمہ)1988
16۔کالکی( ڈاکٹر رادھاکرشنن) : (ترجمہ)1981
17 ۔تاثرات اور تجزیے : 1984
18۔ سوامی وویکانند : (ترجمہ)
19۔سلومی ڈرامہ آسکروائلڈ : (ترجمہ)
20۔ سلک گوہر : (انتخاب منظومات)
21۔گنجی کی کہانیاں : (ترجمہ)
22 ۔ادب پارے : (نظم و نثر)
23۔ آب حیات : (تلخیص)
24 ۔اندھیری راتیں : (ڈراما)
25 ۔اردو کی کہانی
26 ۔ہندوستانی لسانیات کا خاکہ
¦ اہم تنقیدی نظریات:
احتشام حسین کے مطابق ایک نقاد کے لئے لازم ہے اس میں سماجی شعور کے ساتھ جمالیاتی احساس بھی ہو۔
نقاد صرف ہیئت اور صورت کے حسین لباس سے آسودہ نہیں ہوسکتا ۔
ہیئت اور مواد کے تعلق کا سوال جمالیات کے نقطۂ نظر سے سمجھنے کی کوشش کبھی تسکین بخش نتیجہ بر آمد نہ کرے گی۔
اگر تنقید کوئی علمی کام ہے اور محض تاثرات کا بیان نہیں ہے تو ان تمام جدید علوم سے کام لینا ہوگا جن سے زندگی اور ادب کو سمجھا جاسکتا ہے‘‘ (ذوقِ ادب اور شعور ص254، اشاعت:1955)
احتشام حسین کے نزدیک تخلیق کا ر کی طرح سے نقاد بھی سماج وقوم کا ایک ذمے دار فرد ہوتا ہے اور وہ غیرجانب دار نہیں رہ سکتا، سماج کے تئیں اس کی کچھ ذمے داریاں بنتی ہیں، جنھیں اسے نبھانے کی سعی کرنا ضروری ہے،
میرے خیال میں ادیب اور نقاد حقائق کی ایک ہی دنیا میں بستے ہیں اوار ان میں اتنا بعد نہیں ہوتا جتنا ظاہر کیا جاتا ہے، ان کارشتہ دشمنی اور اختلاف کا نہیں بلکہ تعاون اور اتحاد کا۔‘‘ (ذوقِ ادب اور شعور،ص:22)
کلیم الدین احمد
کلیم الدین احمد :
¦ پیدائش:1908 پٹنہ ¦وفات:1983
¦تصانیف: زمانی اعتبار سے
(۱)اردو شاعری پر ایک نظر 1940 (۹) 42 نظمیں1965
(۲)اردو تنقید پر ایک نظر 1942 (۱۰)اپنی تلاش میں1975
(۳)اردو زبان اور فن داستان گوئی1944 (۱۱)کلیات شاد1975
(۴)تحلیل نفسی اور ادبی تنقید1948 (۱۲)دیوان جوشش1976
(۵)سخن ہائے گفتنی1955 (۱۳)اقبال ایک مطالعہ1979
(۶)دو تذکرے(تذکرہ سورش،تذکرہ عشقی)1959 (۱۴)قدیم مغربی تنقید
(۷)دیوان جہاں1959
(۸)عملی تنقید1963
¦ اہم تنقیدی نظریات:
نقاد کا فرض ہے کہ وہ سماجی اور شخصی خیالات و نظام کی دنیا کو تباہ ہونے سے بچالے۔
ادبی نقاد کو یہ دریافت کرنا ہے کہ شاعری کا اپنے عصر کی روحانی اور سماجی زندگی سے کیا رشتہ ہے۔
کلیم الدین احمد کے نزدیک اردو میں تنقید کے اصولوں کا فقدان ہے۔
تنقید کوئی کھیل نہیں ہے جسے ہر شخص بہ آسانی کھیل سکے۔یہ ایک فن ہے ایک صناعی ہے۔
ادب کی دنیا ایک ہے، اس میں الگ الگ چھو ٹی چھوٹی دنیائیں نہیں، خود مختار حکومتیں نہیں۔ شاعری کا مدعا اآج بھی وہی ہے جو دو ہزار برس پہلے تھا اور فنون لطیفہ کے بنیادی قوانین شاعری کی اصولی باتیں ساری دنیا میں ایک ہیں۔
ان کے نزدیک ادب انسانی تجربات کا اظہار ہے۔
کلیم الدین کے نزدیک شاعری بیش قیمتی تجربات کا موزوں ترین اظہار ہے۔
شاعری اچھے اور بیش قیمت تجربوں کا حسین، مکمل اور موزوں بیان ہے۔
کلیم الدین احمد کے نزدیک شاعری انسانی کامرانی کی معراج اور انسانی تہذیب و تمدن کے سر کا تاج ہے۔
آل احمد سرور
آل احمد سرور:
¦ پیدائش:1911بدایوں ¦وفات:2002علی گڑھ
¦تصانیف: زمانی اعتبار سے
(۱)سلسبیل۔1935 (۱۲)خواب اور خلش 1991
(۲)تنقیدی اشارے۔1942 (۱۳)دانشور اقبال1994
(۳)نئے پرانے چراغ۔1946 (۱۴)فکر روشن1995
(۴)تنقید کیا ہے۔1947 (۱۵)کچھ خطبے اور کچھ مقالے1996
(۵)ادب اور نظریہ۔1954 (۱۶)اردو تحریک 1999
(۶)ذوق جنوں 1955 (۱۷)افکار کے دیے 2000
(۷)نظر اور نظریے1973 (۱۸)آل احمد سرور کے تبصرے ۔2003
(۸)مسرت سے بصیرت تک1974 (۱۹)مکاتیب سرور۔مرتبہ وراث رفیع2003
(۹)اقبال نظریہ اور شاعری1979 (۲۰)عرفان غالب
(۱۰)پہچان اور پرکھ1990 (۲۱)اقبال اور مغرب کا عکس
(۱۱)خواب باقی ہیں1991 (۲۳)تنقید کے بنیادی مسائل
¦ اہم تنقیدی نظریات:
آل احمد سرور نے ادب میں نظریے کی اہمیت پر زور دیا ہے۔
آل احمد سرور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ادب کے مطالعے کے دوران مسرت کے حصول کے ساتھ بصیرت کا ہونا ضروری ہے۔
سرور کا ایک اہم تنقیدی تصور ’’آفاقیت‘‘کا ہے وہ تخلیق کار اور نقاد کو آفاقی ذہن کا مالک ہونا ضروری سمجھتے ہیں۔
تنقید کا کام فیصلہ ہے۔ تنقید دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کر دیتی ہے۔ تنقید وضاحت ہے صراحت ہے ترجمانی ہے، تفسیر ہے، تشریح ہے، تحلیل ہے، تجزیہ ہے، تنقید قدر ہی متعین کرتی ہے، ادنیٰ اور اعلیٰ، جھوٹ اور سچ، پست اور بلند کے معیار قائم کرتی ہے۔ (تنقید کیا ہے)
بڑی تنقید تخلیقی ادب سے کسی طرح کم تر نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ خود تخلیق ہو جاتی ہے۔ (تنقید کیا ہے)
شاعری کے لیے ایک شیریں دیوانگی اور تنقید کے لیے ایک مقدس سنجیدگی کی ضرورت ہے۔ (تنقید کیا ہے)
جدید تنقید نے خارجیت، واقفیت، سماجی شعور، تمدنی تنقید جیسی اصطلاحوں کو عام کیا ہے۔ اس نے جزئیات کی مصوری سے کل کے احساس تک رہنمائی کی ہے۔ اس نے جذبات کی پرچھائیوں کو فکر کی روشنی دی ہے۔ ادب کو روشنی کی ضرورت تھی۔ (تنقید کیا ہے)
یہ نیا مزاج جو آج سے پندرہ بیس سال پہلے کے کارناموں کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ خود نظر انداز کر دینے کے قابل ہے۔ (مضمون نیا ادبی شعور۔ مشمولہ نئے اور پرانے چراغ)
میں تنقید کو ایک اہم سنجیدہ اور مشکل کام سمجھتا ہوں اور اس کا مقصد سخن ہی نہیں بلکہ قدروں کی اشاعت مانتا ہوں۔ (دیباچہ، تنقید کیا ہے:ص ۲۱)
تنقید کا کام گلستان میں کانٹوں کی تلاش نہیں۔ اس کا مقصد روایت کا احساس، تجربات کی پرکھ اور قدروں کا تعین ہے۔ (ادب اور نظریہ: اُردو غزل میرؔ)
فن ان معنوں میں افادی نہیں ہے، جن معنوں میں ہنر افادی ہے۔ فن حسن کاری کر کے مسرت اور مسرت کے ساتھ بصیرت پیدا کرتا ہے۔ (ادب اور نظریہ:ص ۹۷۲)
یک طرفہ ذہن سادہ ذہن ہوتا ہے، آج یہ یا وہ کی نہیں یہ بھی اور وہ بھی کی ضرورت ہے۔ (نظر اور نظریے: دیباچہ:ص ۶)