توبتہ النصوح - Adabi Kavish

توبتہ النصوح

توبتہ النصوح

توبتہ النصوح کا خلاصہ
1 یہ ناول بارہ فصلوں میں بٹا ہوا ہے۔
2 یہ ایک اصلاحی ناول ہے۔
3 اس ناول کا تعارف مالک رام نے لکھا ہے۔
4 تصحیح و ترتیب کا کام مالک رام نے بڑی خوش اسلوبی سے کیا ہے۔
اصلاحی،جاسوسی،تاریخی،رومانی اور نفسیاتی ناولوں کی دنیا میں کچھ ناول ایسے ہیں جو اردو ادب کے میدان میں دوامی مقام حاصل کرچکے ہیں،جن میں سے ایک ”توبۃالنصوح“بھی ہے۔اسلوب صاحب اوربعض ناقدین ادب نے ”توبۃالنصوح“کو فکر و فن کے لحاظ سے اردو کا پہلا با قاعدہ ناول قرار دیا ہے۔ہردور میں ”توبۃالنصوح“ کو بار بار اشاعت کی منزلوں سے گزارا گیاجو اس کی مقبولیت و شہرت کی واضح دلیل ہے۔پہلی بار یہ ناول 1874۱ء میں شائع ہوا تو مصنف کو حکومت وقت نے ایک ہزار روپے انعام و اکرم سے نوازا۔ ”توبۃالنصوح“کا کئی زبانو ں میں ترجمہ بھی ہے۔مسٹرایم۔کیمپسن،ایم۔اے نے1884ء میں اس کا انگریزی ترجمہ لندن سے شائع کیا تھا۔”توبۃالنصوح“کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کی اس ناول کو ہر دور میں ناقدین نے اپنی توجہ کامرکز بنانے کی کوشش کی ہے۔ علامہ شبلی،احسن فاورقی،ڈاکٹر تاثیر اوراسلوب احمد انصاری سب ہی ”توبۃالنصوح“کی تعریف میں رطب السان نظر آتے ہیں۔احسن فاروقی جیسا سخت نقاد بھی ”توبۃالنصوح“ کے سحر میں گرفتار ہوگیااور یہ کہنے پر بے بس نظر آتا ہے:
”باوجود ان تمام خامیوں کے ان کی فطری قصہ گوئی داد کے قابل ہے۔ایک تو اس وجہ سے کہ وہ اردو کے سب سے پہلے واقعاتی قصہ گو ہیں،مگر خاص طور پر اس وجہ سے کہ ان کے قصوں کی دل چسپی اپنی جگہ پرمسلم ہے۔مسائل پر بحثوں اور بعضوں سے قطع نظر کر لیجیے تو ان قصوں میں ایسا دلچسپ تسلسل ملتا ہے کہ انھیں ختم کیے بغیر چھوڑا ہی نہیں جاتا۔یہ بات ”توبۃالنصوح“میں سب سے زیادہ ہے،تمام واقعات اس طرح پر ایک دوسرے سے منسلک ہیں اور بذات خود اس مزے کے ہیں کہ کتاب کے سوا تین سو صفحے نہا یت جلدی سے کٹ جاتے ہیں اور کتاب کو ختم کرنے سے پیشتر چھوڑ نے کو جی نہیں چاہتا۔معلوم ہوتاہے کہ مولانا جب اس کتاب کو تصنیف کر رہے تھے تو قصہ گوئی کے فرشتے نے ان کے قلم کو اپنے ہاتھ میں لے لیاتھااور اس طرح یہ کتاب ایک آسمانی اور دائمی چیز ہوکر وجود میں آئی“7
ناول کی قدر و قیمت کا انحصار اس بات پرہوتا ہے کہ ناول نگار نے انسانی زندگی کو کس طرح پیش کیا ہے۔زندگی کے مختلف رنگوں کو ناول کے صفحات پر کس طرح سجایا ہے۔ناول نگار کے سامنے متعدد خطے معاشرے، سماج، ملک اور زندگیاں ہوتیں ہیں انہیں مختلف زندگیوں میں سے کسی ایک کو ناول نگار اپنے ناول کے لیے منتخب کرتا ہے۔اور پھر اس کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتا ہے،کسی بھی ناول نگار کو پرکھنے کے لیے دیکھنا ہوگا کہ اس کے یہا ں زندگی کے خارجی پہلوؤں اورداخلی پہلوؤں پر کس طرح روشنی ڈالی گئی ہے اور ناول نگار کا نقطہئ نظر کیا ہے۔ نذیر احمد نے اپنے معاشرے کو بڑی قریب سے دیکھا تھا اس لیے انھوں نے اپنے کردارو ں کو اپنے زمانے کا آئینہ دار بنا دیا نذیر احمد کے ناولوں میں مسلم شرفااور متوسط طبقوں کی جیتی جاگتی تصویر صاف نظر آتی ہے۔ان کے ناولوں کا مواد ان کے تجربات ومشاہدات کا نچوڑ ہے۔نذیر احمد کے ناول کے واقعات ہوں یا کردار سب کا تعلق بالواسطہ یا بلا واسطہ ان کے مشاہدات سے جا ملتا ہے۔نذیر احمد کے ناولوں کا ایک خاص وصف ان کی مقصدیت ہے جس کو وقتاً فوقتا ًتنقیص کا نشانہ بھی بنایا جاتا رہا ہے۔مگر نذیر احمد اپنے معاشرے کی آنکھوں پر بندھی پٹی کو اتارنا چاہتے تھے اس لیے وہ اپنی مقصدیت کو ناولوں میں فوقیت دیتے تھے۔کچھ نقادوں کا ماننا ہے کہ نذیر احمد کی مقصدیت نے ان کے ناولوں کا دائرہ تنگ کردیا ہے۔یہ اعتراض بیجا معلوم ہوتا ہے کیوں کہ ان کے ناولوں کا دائرہ دیہات سے لے کر شہری زندگی تک پھیلا ہوا ہے۔
”توبۃالنصوح“ کو ناول نگار نے بارہ فصلوں میں تقسیم کیا ہے۔فصل اول میں دکھا یا گیا ہے کہ ایک سال دہلی شہرہیضہ کی چپیٹ میں آگیااور اس آفت سے نصوح بھی نہ بچ سکا،نصوح کو خواب آور دوائی پلائی گئی جس کو پیتے ہی وہ سو گیا اور خواب دیکھا۔فصل دوم میں دکھایا گیا ہے کہ جب نصوح خواب سے جا گا تو اس کو اپنی بے مقصد بے دین زندگی پر افسوس ہوا چنانچہ اس نے پورے خاندان کی اصلاح کا بیڑا اٹھا لیا۔فصل سوم میں فہمیدہ اور حمیدہ کی بات چیت درج ہے۔فصل چہارم میں نصوح اور سلیم کی گفتگو ملتی ہے۔فصل پنجم میں فہمیدہ اور نعیمہ کی نوک جھونک ہے۔فصل ششم میں نصوح علیم سے محو گفتگو نظر آتا ہے۔فصل ہفتم میں نصوح کلیم کو بلاوا بھیجتا ہے۔فہمیدہ اور علیم نصوح کو سمجھانے کی بہت کوشش کرتے ہیں پر وہ نہیں آتا ہے۔فصل ہشتم میں صالحہ اپنی خالہ زاد بہن نعیمہ کو آکر مناتی ہے اس کو کھانا کھلاتی ہے اور اپنے گھر لے جاتی ہے۔فصل نہم میں کلیم اپنے باپ نصوح سے ناراض ہوکر گھر چھوڑ دیتا ہے اور نصوح کلیم کا خاص مقام اور شعر وشاعری سے بھری لائبری کو جلا دیتا ہے۔فصل دہم میں کلیم اپنے پھکڑ دوست ظاہر دار بیگ کے ساتھ رہتا ہے پھر اپنے قربت دار فطرت کے یہاں رہتا ہے مگر دونوں جگہ ذلیل و رسوا ہوتا ہے اور قید خانے کی ہوا کھاتاہے،پھر باپ کی سفارش پر باہر آتا ہے۔فصل یاز دہم میں کلیم نوکری کی تلاش میں دولت آباد گیا اور فوج میں شامل ہوجاتا ہے۔دوران لڑائی زخمی ہوجاتا ہے پھر واپس اپنے گھر آجاتا ہے۔فصل دوازدہم میں نعیمہ اپنی نیک بہن صالحہ کے گھر ر ہ کر خود بخود راہ راست پر آجاتی ہے اور اپنی غلطی کے لیے معافی بھی مانگتی ہے۔کلیم اپنی بہن کے گھر پر وفات پاتا ہے اور یہا ں قصہ اختتام پزیر ہوتا ہے۔

کردار
نصوح : خاندان کامکھیا،کلیم کا باپ
فہمیدہ : نصوح کی بیوی
کلیم : نصوح کا بیٹا
نعیمہ : نصوح کی بڑی بیٹی
حمیدہ : نصوح کی منجھلی بیٹی
صالحہ : کلیم کی خالہ زاد بہن اور نعیمہ کی سہیلی
علیم : نصوح کا منجھلا بیٹا
سلیم : نصوح کا چھوٹا بیٹا
مرزا ظاہر دار بیگ : کلیم کا پھکّڑدوست
فطرت : کلیم کا قریبی

error: Content is protected !!