ناول امراؤ جان ادا(خلاصہ)
ناول امراؤ جان ادا کی کہانی رسوا کے ایک دوست(مفتی احمد حسن صاحب جودہلی کے رہنے والے تھے اور لکھنؤ سیروتفریح کے لیے آتے تھے)سے شروع ہوتی ہے۔ ان لوگوں نے چوک میں سید حسن کے پھاٹک کے پاس ایک کمرہ کرائے پر لیا تھا۔یہ سارے دوست شام کو اسی جگہ آکر بیٹھتے تھے۔ہنسی، مذاق اور شعروشاعری کا چرچارہتاتھا۔ اسی کمرہ کے برابر میں ایک کمرہ تھا جس میں ایک طوائف رہتی تھی۔ایک دن کوئی غزل پڑھ رہا ہوتاہے کہ اسی کمرے سے واہ واہ کی آوازآتی ہے۔ سب لوگ اسی کمرے کی کھڑکی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ مفتی احمد حسن نے آواز دی کہ اگر شعر کا شوق ہے تویہاں تشریف لائیں۔ اِدھرسے کوئی جواب نہیں دیتاہے۔ کچھ دیر بعد ایک مہری آتی ہے اورکہتی ہے کہ رسوا صاحب کون ہیں ان کو بیوی نے بلایاہے۔ رسوا اس کمرہ میں جاتے ہیں تودیکھتے ہیں کہ یہ توامراؤ جان صاحبہ ہیں۔ سلام کلام کے بعد امراؤ جان رسواکی غزل کی تعریف کرتی ہے اورکہتی ہے کہ میں روزہی سنا کرتی تھی لیکن کبھی بلانے کی ہمت نہیں ہوئی۔آج آپ کی غزل نے مجھے اتنا بے چین کردیا کہ میرے منھ سے واہ نکل گیا۔ اورپھرمیں نے آپ کویہاں بلوالیا۔اس کے بعد رسوا امراؤ جان کونیچے اپنے کمرہ میں آنے کے لیے کہتے ہیں۔جہاں پرروزجلسہ ہوتاتھا۔ امراؤ جان اس جلسہ میں روزشرکت کرنے لگتی ہے اورمشاعرہ ہوتارہتا ہے۔ ایک دن مفتی صاحب امراؤ جان سے اکیلے کہانی سننے کا اصرار کرتے ہیں۔ رسوا بھی مفتی جی کی بات کی تائید کرتے ہیں۔ پھرامراؤ جان اپنی سرگذشت کچھ اس طرح سے سناتی ہے:۔
لطف ہے کون سی کہانی میں
آپ بیتی کہوں کہ جگ بیتی
توامراؤ جان ادا کا خلاصہ اس طرح سے ہے کہ فیض آباد میں شہرکے کنارے کسی محلے میں ایک ایماندار جمعدار رہا کرتے تھے۔ یہ بہوبیگم صاحبہ کے مقبرے پر نوکری کیا کرتے تھے۔
امراؤ جان ادا دن بھراپنے بھائی کوکھلایا کرتی۔ جمعدار صاحب شام کونوکری سے واپس آتے تو امراؤ جان کے لیے کچھ نہ کچھ کھانے کے لیے ضرور لاتے تھے۔ امراؤ جان کا نام امیرن تھا۔ جمعدار صاحب کے اونچے مکان کے علاوہ ایک مکان اورتھا اس کے مالک کا نام دلاورخان تھا۔ امیرن اپنے گھرمیں سب کی لاڈلی تھی اس کی ہرفرمائش اس کے باپ جمعدار صاحب ہمیشہ پوری کرتے تھے۔ امیرن کی منگنی بچپن میں ہی اس کی پھوپھی کے لڑکے کے ساتھ طے ہوجاتی ہے۔ ان کے پھوپھا بھی زمیندارتھے۔ امیرن کوبھی کوئی صدمہ نہیں ہواتھا وہ گھرمیں ہمیشہ خوش رہتی تھی۔ ایک دن امراؤ جان ادا کا کے ہاتھ کا چھلا گم ہوجاتا ہے جس پر اس کی ماں اس کوتماچہ ماردیتی ہے۔دلاورخان کوایک دن جمعدار کی گواہی کی وجہ سے جیل ہوجاتی ہے۔دلاور خان بدمعاش تھا اور ڈاکیتوں سے ملا ہواتھا۔ جیل سے چھوٹ کرو وہ جمعدار سے عداوت رکھنے لگتا ہے۔ ایک دن دلاورخان جمعدار کا کبوتراڑالے جاتاہے اور جمعدار کے کبوتر واپس نہیں کرتاہے۔ جب جمعدار نوکری پر چلے جاتے ہیں توامیرن باہرنکلتی ہے تودلاورخان املی کے نیچے کھڑا ملتاہے۔ امیرن کو اپنے گھر کبوتر دینے کے بہانے لے جاتاہے۔ اورگھرمیں بندکردیتاہے۔ ہاتھ پیرباندھ کرپیربخش کوبلاتاہے۔ دونوں اس کوبیل گاڑی پرسوارکرکے نکل جاتے ہیں۔ راستے میں دلاورخان اس کوجان سے مارنے کے لیے کہتا ہے۔ پھرپیربخش کے مشورہ پر امیرن کولکھنؤ میں کسی کے ہاتھوں بیچ دینے پرراضی ہوجاتے ہیں۔ لکھنؤ میں کریم کی سسرال میں اسے اتاردیتے ہیں۔ کریم کی ساس اسے لے کر کوٹھری میں بندکردیتی ہے۔ دو دن بعد ایک اورلڑکی جس کا نام رام دئی تھا اسی کوٹھری میں بند کردی جاتی ہے۔ رام دئی سیتاپور کے پاس کے گاؤں کی رہنے والی تھی۔ کریم اس کوبہلاپھسلا کرلایاتھا۔ پھر ایک دن رات کے وقت دلاورخان اورپیربخش امیرن کو خانم جان کے کوٹھے پرلے جاتے ہیں۔ اورسوسو روپے میں امیرن کو بیچ دیتے ہیں۔ امیرن کو دیکھ کر بواحسینی کہتی ہے کہ اس کو میں پالوں گی۔خانم امیرن کو بواحسینی کوپالنے کے لیے دے دیتی ہے۔ خانم جان امیرن سے معلوم کرتی ہے کہ کہاں سے آئی ہو تو۔امیرن کہتی ہے بنگلہ سے۔ فیض آباد کوبنگلہ بھی کہاجاتاتھا۔ خانم جان امیرن کانام بدل کر امراؤ جان کردیتی ہے۔ بواحسینی امراؤ جان کوپالتی ہے۔ پھرحسب دستور مکتب بھیجی جاتی ہے۔ وہاں مولوی صاحب کے پاس پڑھنے لکھنے کی تعلیم کے ساتھ شاعری کی بھی تعلیم دی جاتی ہے۔ مکتب میں یہ تین لڑکیاں پڑھتی تھی اور اسی میں ایک لڑکا گوہرمرزا بھی تھا۔ بہت شریر،ہروقت سب کوپریشان کرتارہتا تھا۔ اس طرح امراؤ جان کی جب تعلیم مکمل ہوگئی تووہ خانم کے کوٹھے پرمجراکرنے لگی۔ وہیں پرخانم کی لڑکی بسم اللہ جان بھی رہتی تھی۔ اورخورشید جان بھی۔ کوٹھے پر رئیس زادے امراؤ جان کا مجرادیکھنے آتے تھے۔ گوہر مرزا بھی امراؤ جان سے ملنے آتا ہے اور امراؤ جان کوگوہر مرزاسے محبت تھی۔
امراؤ جان ادا کا پہلا مجرانواب شجاعت علی خاں کے لڑکے کی شادی میں ہوتا ہے۔ پھرایک دن نواب سلطان صاحب امراؤ جان سے ملنے کے لیے کوٹھے پرآتے ہیں۔ اورپھررات کوگھڑی دوگھڑی کے لیے آنے لگتے ہیں۔ ایک دن نواب سلطان صاحب امراؤ جان کے کمرے میں بیٹھے ہوتے ہیں کہ وہیں پر ایک ہٹا کٹا نوجوان گھس آتاہے اورامراؤ جان کے قریب جاکر بیٹھ جاتاہے۔ وہیں پرنواب اور اس شخص میں کہاسنی ہوجاتی ہے۔ نواب گولی چلادیتا ہے اور خان صاحب وہیں زمین پر گرپڑتے ہیں۔ پھرکافی دن تک سلطان صاحب کوٹھے پر تشریف نہ لائے۔ سلطان صاحب امراؤ سے محبت کرتے تھے۔ ایک دن فیض علی ڈاکو امراؤ جان کوکوٹھے سے لے اڑتا ہے اوراس کو لے کربہت دورنکل جاتا ہے۔ اورپھردوسرے دن یہ سب منہ اندھیرے لال گنج کی سرائے سے روانہ ہوتے ہیں۔ راستے میں راجہ شیودھیان سنگھ کے آدمیوں سے لڑائی ہوتی ہے اور فیض علی امراؤ کوچھوڑکر بھاگ جاتاہے۔ وہیں پر امراؤ جان کوخورشید جان ملتی ہے جوعیش باغ سے غائب ہوگئی تھی۔
یہاں کچھ دن رہ کرامراؤ کانپور چلی جاتی ہے۔ وہیں پرایک کمرہ کرائے پر لے لیتی ہے۔ ایک دن امراؤ بیگم صاحب کے یہاں مجرے کوجاتی ہے۔صبح کو یہاں پر امراؤ کوبواحسینی اورگوہرمرزا ملتے ہیں۔ اوروہیں کانپور میں رام دئی سے بھی ملتی ہے جونواب سلطان مرزا سے شادی کرچکی تھی۔
لکھنؤ میں غدرہوا اورجب بہرائچ سے انگریزی فوج نے بونڈی پر دھاوا کیا اورسید قطب الدین مارے گئے بیگم نیپال کوچلی جاتی ہیں اور امراؤ فیض آباد چلی آتی ہے۔ وہیں پر ایک کمرہ کرائے پر لے کررہنے لگتی ہے۔ تمام شہرمیں مجراکرتی ہے اورمشہورہوجاتی ہے۔ ایک دن بہو بیگم صاحب کے عزیزوں سے تعلق رکھنے والے نواب صاحب امراؤ کے پاس آتے ہیں اور امراؤان سے حالات دریافت کرتی ہے باتوں باتوں میں وہ بتاتے ہیں کہ ایک جمعدار تھے جوبیگم کے یہاں نوکرتھے ان کی ایک لڑکی تھی جوگھرسے نکل گئی اور اب جمعدارمرگئے ان کی جگہ ان کا لڑکا وہاں نوکرہے۔امراؤ یہ سب باتیں سن کربہت رنج کرتی ہے اور رات کوبہت روتی ہے۔ ایک دن وہ سوچتی ہے کہ کیوں نہ اپنے بھائی کو جاکے دیکھ لوں۔ دو دن بعد اسی محلے میں امراؤ جان کا مجرہ ہوتا ہے جہاں پر اس کا گھرتھا۔ مجرا کے بعد وہ مکانوں کو دیکھتی ہے توایک مکان پر جاکر رک جاتی ہے۔ وہیں پر ایک عورت اس کو مکان میں لے جاتی ہے کہ اندرکوئی بلارہا ہے۔اندر جاتی ہے تواس سے اس کے حالات اور نام معلوم کیے جاتے ہیں۔ تبھی اندر کمرے سے دو عورتیں نکلتی ہیں اور ایک عورت ہائے میری امیرن کہہ کر چپٹ جاتی ہے۔ دونوں ماں بیٹی خوب روتی ہیں۔ امراؤ جان اپنی ماں کوساری کہانی سناتی ہے۔ پھرامراؤ جان اپنے کمرے پر آجاتی ہے۔ دوسرا مجرہ صبح کوہوتاہے اور جب وہ مجرہ کرنے اسی جگہ پھرسے جاتی ہے آدھی رات گئے اس کا بھائی اس کو خوب گالی دیتا ہے اورچھری نکال کر اس پرجھپٹتا ہے اورچھری اس کے گلے پر رکھ دیتاہے۔ اتنے میں کوئی آجاتاہے اوراس کا بھائی چھری ہٹاکر دھاڑے مارکررونے لگتاہے۔ پھرکہتاہے کہ میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتاہوں تم اس شہر کوچھوڑکرکرچلی جاؤ۔ امراؤ کہتی ہے کہ کل چلی جاؤں گی۔امراؤ جان پھرلکھنؤ واپس آجاتی ہے۔ دوچارمہینے خانم کے مکان پررکتی ہے۔پھرالگ کمرہ لے کر رہنے لگتی ہے۔ اسی بیچ میں ایک نواب صاحب نے عدالت میں دعویٰ کردیا کہ امراؤ اس کی بیوی ہے۔ مقدمہ لڑا پیروکاراکبرعلی خان تھے۔ اکبرعلی خان اکثر امراؤ کے مکان پر آتے جاتے تھے۔ پھرامراؤ اکبرعلی خان کے مکان پر ہی رہنے لگتی ہے۔اورپھرکافی دن رہنے کے بعد امراؤ کی طبیعت اکتاجاتی ہے تووہ وہاں سے چلی جاتی ہے۔ پھراپناخود کاروبار شروع کرتی ہے۔ ایک دن امراؤ جان دیکھتی ہے کہ دورایک نالہ کے پاس کچھ درخت ہیں اسی میں درختوں کی جڑسے ذراہٹ کر کوئی شخص میلی دھوتی پہنے کھروس ہاتھ میں لیے کچھ کھود رہا ہے۔وہ دلاورخان ہے تودلاورخان آواز سن کرنالے کی طرف بھاگ جاتاہے۔ پھرامراؤ یہ ساراقصہ اکبر علی خان کوبتاتی ہے۔ اکبرعلی خاں ساری بات نواب صاحب کوبتاتے ہیں اوردلاورخان کوسپاہی گرفتارکرلیتے ہیں اوراس کوپھانسی پرلٹکا دیتے ہیں۔امراؤ جان اپنی باقی کی زندگی عبادت وریاضت میں بسرکرتی ہے۔
*دلاور خان (امیرن کو اغوا کرنے والاشخص)
*امیرن کے ابا کا نام جمعدار تھاجو بہو بیگم کے مقبرے پر نوکر تھے۔
*امیر ن کے دروازے پر املی کا درخت لگا تھا۔
*امیرن کی منگنی اس کی پھوپھی (جو کی نواب گنج میں رہتی تھی) کے بیٹے سے طے پائی تھی اس وقت امیرن کی عمر نو سال تھی۔
*کریمن امیرن کی سہیلی کا نام تھا۔
*پیر بخش اور دلاور نے امیرن کو قید کرلیا تھا۔
*گومتی میں پیر بخش کا سالا کریم رہتا تھا۔
*دلاور نے چار دن کا سفر آٹھ دن میں طے کیا تھا (فیض آباد سے لکھنؤ تک)
*رام دئی کو بھی اسی کمرے میں قید کیا گیا تھا۔
*رام دئی کو ایک بیگم نے دوسو روپے میں خرید لیا تھا،
*امیرن کو خانم نے سوا سو روپئے میں خریدا پچاس پیر بخش نے لئے تھے۔
*بنگلہ فیض آبادکا پرانا نام تھا۔
*بوا حسینی نے امیرن کی پرورش کی تھی۔
* خانم نے امیرن کا نام بدل کر امراؤ رکھ دیا تھا۔
*بسم اللہ جان خانم کی اکلوتی لڑکی تھی۔
*خورشید کا گلا ایک پھٹا بانس تھا مگر شکل سے اچھی تھی۔
*بیگا جان ایک دم بد صورت تھی۔
*مولوی صاحب بوا حسینی کے شوہر۔
*مولوی صاحب کے مکتب میں صرف تین لڑکیا ں اور ایک گوہر مرزا تھا۔
*مرزا گوہر بنو ڈومنی اور نواب سلطان علی خان کا ناجائز بیٹا تھا۔
*علی بخش بوا حسینی کا بھائی تھا۔
*امیر جان مفتخر الدولہ کی ملازمت میں تھی۔
*بسم اللہ کی مسی دلارام کی بارہ دری میں ہوئی تھی۔
*نواب چھبن عمدۃ الخاقانی کے پوتے تھے۔
*نواب چھبن اور بسم اللہ ایک دوسرے پر جان دیتے تھے۔
*راشد علی یہ اپنے کو یوسف ثانی سمجھتے تھے۔
*گوہر مرزا کوامراؤ جان ادا کا’گل چین‘اول کہا گیا ہے۔
*امیر ن جان کاظم علی پر مرتی تھی۔
*خانم جان میر اولاد علی سے عشق کرتی تھی میر اولاد علی ایک غریب آدمی تھا جن کا نان و نفقہ خانم نے اپنے ذمہ لے رکھا تھا۔امراؤ کی مسی نواب شجاعت علی کی بیٹی کی شادی والے مجرے میں ہوئی تھی۔اس وقت امراؤ کی عمر 14 برس کی تھی۔
*نواب سلطان اور امراؤ کا معاشقہ تھا۔
*امراؤ نواب جعفر علی خان کی ملازمت میں تھی۔
*مخدوم بخش،نواب حسنوں نواب چھبن کی ماں فخرالنسا بیگم۔
*ایک مولوی صاحب بسم اللہ پر جان دیتے تھے اسی وجہ سے نیم پر چڑھ گئے۔
*بسم اللہ کی بندریا کا نام دھنو ں تھا۔
*نصیبن ایک رنڈی کا نام تھا.
*فضل علی اور فیض علی دونوں ڈاکوؤں کے گروہ میں تھے۔
*راجہ دھیان سنگھ اور فیض علی میں مٹھ بھیڑ ہوگئی تھی۔
*امیرن کو دلاور خان نے کریم کے مکان میں ٹھہرایاتھا۔
*کریم میر بخش کا سالہ ہے۔