تمام احباب کا اس صفحے پر خیر مقدم کیا جاتا ہے۔
…………………………………………
اس صفحے پر نیٹ جے آر ایف اُردو نصاب کے عین مطابق (یونٹ تین) اردو غزل اور غزل گو شعرا پر مواد اپلوڈ کیا گیا ہے۔ جس کے ذریعے تمام احباب غزل یونٹ کو آن لائن پڑھ سکتے ہیں۔ اگر آپ اس یونٹ کو آن لائن پڑھنا چاہتے ہیں تو نیچے دئے گئے کسی بھی موضوع پر کلک کریں اور اپنا پسندیدہ موضوع آن لانن پڑھیں۔
(Note:- Some Data Uploaded Soon)
………………………………………………
اُردو غزل اور غزل گو شعراء
غزل کا فن
¦غزل کی تعریف :
¦غزل عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی عورتوں سے باتیں کرنا یا عورتوں کے بارے میں عشقیہ قسم کی باتیں کرنا ۔
¦غزل اردو کی سب سے مقبول ترین صنف سخن ہے پروفیسر رشید احمد صدیقی نے بجا طور پر اردو شاعری کی آبرو کہا ہے ۔
¦غزل کم لفظوں میں مکمل بات کرنے کا ہنر ہے ۔
¦غزل کا ہر شعر آپنے آپ میں مکمل اکائی ہوتا ہے ۔
¦عشق محبت غزل کے خمیر میں داخل ہے لیکن آہستہ آہستہ غزل کے موضوعات میں وسعت پیدا ہو گئی اور یہ صرف عشق محبت تک محدود نہ رہی اس میں سیاسی، سماجی، مزہبی اور فلسفیانہ خیالات کو بھی پیش کرنے کی گنجائش ہے ۔
¦غزل میں کم از کم پانچ یا سات اشعار ہوتے ہیں زیادہ کی کوء قید نہیں ۔
¦غزل کا ہر شعر ایک الگ مضمون کا حامل ہوتا ہے۔
¦غزل کے تمام مصرعے ایک ہی وزن یا ایک ہی بحر میں ہوتے ہیں ۔
¦غزل کا ہر شعر اپنے مفہوم کے اعتبار سے مکمل ہوتا ہے ۔
¦غزل کا پہلا شعر جس کے دونوں مصرے ہم قافیہ ہوں مطلع کہلاتا ہے ۔
¦ردیف:- وہ لفظ یا الفاظ کا وہ مجموعہ ہے جسے ہر شعر کے آخر میں دہرایا جایُ ۔
¦غزل میں ردیف سے پہلے قافیہ آتا ہے جس کا آخری حرف یا آخرکے چند حرف یکساں ہوتے ہیں ۔
¦غزل کا آخری شعر جس میں شاعر اپنا تخلص پیش کرتا ہے مقطع کہلاتا ہے ۔
¦غزل کے سب سے اچھے شعر کو ”بیت الغزل” کہتے ہیں ۔
¦مطلع اور مقطع کے علاوہ باقی اشعار فرد کہلاتے ہیں ۔
¦ایجاز و اختصار غزل کی خصوصیات ہے ۔
¦اردو غزل.کے اولین نقوش ہمیں امیر خصرو کے کلام میں ملتے ہیں ۔
¦غزل ایک غنائی صنفِ شاعری ہے ۔
غزل کا آغاز و ارتقاء
جلد اپلوڈ کیا جائے گا
غزل کے بارے میں مختلف نظریات
¦غزل بڑی کافر صنف سخن ہے۔ آل احمد سرور
¦غزل نقاب پوش آرٹ اور چاول پر قل ہو اللہ لکھنے کا آرٹ ہے۔ آل احمد سرور
¦غزل نیم وحشی صنف شاعری ہے۔ کلیم الدین احمد
¦غزل بے وقت کی راگنی ہے۔ حالیؔ
¦غزل کی گردن بے تکلف مار دینی چاہئے۔ عظمت اللہ خاں
¦غزل شاعری نہیں عطر شاعری ہے۔ فراق گورکھپوری
¦غزل انتہائوں کا سلسلہ ہے۔ فراق گورکھپوری
¦غزل مختلف پھولوں کی مالا ہے۔ فراق گورکھپوری
¦غزل اردو شاعری کی آبرو ہے۔ رشید احمد صدیقی
¦غزل جتنی بدنام اتنی ہی مجھے عزیز ہے۔ رشید احمد صدیقی
¦ہماری تہذیب غزل میں اور غزل ہماری تہذیب میں ڈھلی ہے۔ رشید احمد صدیقی
¦غزل ریزہ کاری میں مینا کاری ہے۔ رشید احمد صدیقی
اُردو کے اہم غزل گو شعراء اور اُن کی شاعری
مییر تقی مییر حیات و خدمات
٭میر تقی میر٭
¦پیدائش:1722-23 اکبر آباد ¦وفات:1810 لکھنؤ ۔
¦میر کے سات دیوان ہیں۔ ان میں چھ اُردو کے ہیں اور ایک فارسی کا ہے۔
¦کلیات میر فورٹ ولیم کالج سے 1811میں شائع ہوا۔
¦میر تقی میر نے کل 38 مثنویاں لکھی ہیں۔
¦خواب و خیال اور دریائے عشق میر تقی میر کی مشہور مثنوی ہیں۔
¦میر تقی میر کی نثری تصانیف: نکات الشعرا(1752)، ذکر میر(1772)، فیض میر
میرسے متعلق اہم اقوال
¦میر واسوخت کا موجد ہے۔ (محمد حسین آزاد)
¦ہندوستان میں میر اپنے وقت کے سب سے بڑے ہندوستانی،سب سے بڑے انسان اور سب سے بڑے شاعر تھے۔ (فراق)
¦میر کے اشعار کی داخلیت بھیتری چوٹ ہے۔ (فراق)
¦میر کے غم میںزخم ہی مرہم بن جاتے ہیں۔ (فراق)
انتخاب میر کی ابتدائی بیس (20) غزلیں
(1)
تھا مستعار حسن سے اس کے جو نور تھا
خورشید میں بھی اُس ہی کا ذرہ ظہور تھا
ہنگامۂ گرم کن جو دل نا صبور تھا
پیدا ہر ایک نالے سے شور نشور تھا
پہنچا جو آپ کو تو میں پہنچا خدا کے تئیں
معلوم اب ہوا کہ بہت میں بھی دو ر تھا
آتش بلند دل کی نہ تھی ورنہ اے کلیم
یک شعلہ برق خرمن صد کوہ طور تھا
مجلس میں رات ایک ترے پر توے بغیر
کیا شمع کیا پتنگ ہر اک بے حضور تھا
منعم کے پاس قاقم و سنجاب تھا تو کیا
اس رند کی بھی رات گذر گئی جو عور تھا
کل پائوں ایک کاسۂ سر پر جو آگیا
یکسر وہ استخوان شکستوں سے چور تھا
کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر
میں بھی کبھو کسو کا سر پُر غرور تھا
تھا وہ تور شکِ حور بہشتی ہمیں میں میرؔ
سمجھے نہ ہم تو فہم کا اپنی قصور تھا
2
کیا میں بھی پریشانیِ خاطر سے قریں تھا
آنکھیں تو کہیں تھیں دل غم دیدہ کہیں تھا
آیا تو سہی وہ کوئی دم کے لیے لیکن
ہونٹوں پہ مِرے جب نفس باز پسیں تھا
شب کوفت سے ہجراں کی جہاں تن پہ رکھا تھا ہاتھ
جو درد و الم تھا سو کہے تو کہ وہیں تھا
نام آج کوئی یاں نہیں لیتا ہے انھوں کا
جن لوگوں کے کل ملک یہ سب زیر نگیں تھا
مسجد میں امام آج ہوا آکے وہاں سے
کل تک تو یہی میرؔ خرابات نشیں تھا
3
لطف اگر یہ ہے بتاں صندل پیشانی کا
حسن کیا صبح کے پھر چہرۂ نورانی کا
کفر کچھ چاہئے اسلام کی رونق کے لیے
حسن زنار ہے تسبیح سلیمانی کا
درہمی حال کی ہے سارے مر ے دیواں میں
سیر کر تو بھی یہ مجموعہ پریشانی کا
جان گھبراتی ہے اندوہ سے تن میں کیا کیا
تنگ احوال ہے اس یوسف زندانی کا
کھیل لڑکوں کا سمجھتے تھے محبت کے تئیں
ہے بڑا حیف ہمیں اپنی بھی نادانی کا
اس کا منہ دیکھ رہا ہوں سو وہی دیکھوں ہوں
نقش کا سا ہے سماں میری بھی حیرانی کا
بت پرستی کو تو اسلام نہیں کہتے ہیں
معتقد کون ہے میرؔ ایسی مسلمانی کا
4
جامۂ ہستی تھا عشق اپنا مگر کم گھیر تھا
دامنِ تر کا مرے دریا ہی کا سا پھیر تھا
دیر میںکعبہ گیا میں خانقہ سے اب کی بار
راہ سے میخانے کی اس راہ میں کچھ پھیر تھا
بلبلوں نے کیا گل افشاںمیرؔ کا مر قد کیا
دور سے آیا نظر تو پھولوں کا ایک ڈھیر تھا
5
اس عہد میں الٰہی محبت کو کیا ہوا
چھوڑا وفا کو ان نے مروّت کو کیا ہوا
امید وارِ وعدۂ دیدار مر چلے
آتے ہی آتے یاروقیامت کو کیا ہوا
بخشش نے مجھ کو ابرِ کرم کی کیا خجل
اے چشم جوش اشکِ ندامت کو کیا ہوا
جاتا ہے یار تیغ بکف غیر کی طرف
اے کشتۂ ستم تری غیرت کو کیا ہوا
6
کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات
کلی نے یہ سن کر تبسم کیا!
جگر ہی میں یک قطرہ خوں ہے سرشک
پلک تک گیا تو تلاطم کیا
7
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماریِ دل نے آخر کام تمام کیا
عہد جوانی رور و کاٹا پیری میں لیں آنکھیں موند
یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
کس کا کعبہ ،کیسا قبلہ،کون حرم ہے کیا احرام
کوچے کے اس کے باشندوں نے سب کو یہیں سے سلام کیا
یاں کے سفید وسیہ میں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے
رات کو رورو صبح کیا یادن کو جوں توں شام کیا
میرؔ کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے تو!
قشقہ کھینچا ، دیر میں بیٹھا،کب کا ترک اسلام کیا
8
چمن میں گل نے جو کل دعویٰ جمال کیا
جمالِ یار نے منہ اس کا خوب لال کیا
رفتہ رفتہ پھر آئی ترے تماشے کو
چمن کو یُمنِ قدم نے ترے نہال کیا
لگا نہ د ل کو کہیں کیا سنا نہیں تونے
جو کچھ کہ میرؔ کا اس عاشقی نے حال کیا
9
منعم نے بنا ظلم کی رکھ گھر تو بنایا
پر آپ کوئی رات ہی مہمان رہے گا
چھوٹوں کہیں ایذا سے لگا ایک ہی جلّاد
تا حشر مرے سر پہ یہ احسان رہے گا
چمٹے رہیں گے دشتِ محبت میں سر و تیغ
محشر تئیں خالی نہ یہ میدان رہے گا
جانے کا نہیں شور سخن کا مرے ہر گز
تا حشر جہاں میں مرا دیوان رہے گا
10
جس سر کو غرور آج ہے یاں تاجوری کا
کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا
آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت
اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا
زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جنوں کی
اب سنگ مداوا ہے اس آشفتہ سری کا
ہر زخمِ جگر داور محشر سے ہمارا
انصاف طلب ہے تریِ بیداد گری کا
اپنی تو جہاں آنکھ لڑی پھر وہیں دیکھو
آئینے کو لپکا ہے پریشاں نظری کا
صد موسمِ گل ہم کو تہ بال ہی گزرے
مقدور نہ دیکھا کبھو بے بال و پری کا
ٹک میرؔ جگر سوختہ کی جلد خبر لے
کیا یار بھروسہ ہے چراغ سحری کا
11
منھ تکا کرے ہے جس تس کا
حیرتی ہے یہ آئینہ کس کا
شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہے
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
تھے بُرے مغبچوں تیور لیک
شیخ مے خانے سے بھلا کھسکا
فیض اے اَبر چشم تر سے اٹھا
آج دامن وسیع ہے اس کا
تاب کس کو جو حال میرؔ سُنے
حال ہی اور کچھ ہے مجلس کا
12
دعویٰ کیا تھا گل نے ترے رخ سے باغ میں
سیلی لگی صبا کی لو منہ لال ہو گیا
13
پودا ستم کا جس نے اس باغ میں لگایا
اپنے کئے کا اس نے ثمرہ شتاب دیکھا
آباد جس میں تجھ کو دیکھا تھا ایک مدت
اس دل کی مملکت کو اب ہم خراب دیکھا
لیتے ہی نام اس کا سوتے سے چونک اٹھا
ہے خیر میرؔ صاحب کچھ ہم نے خواب دیکھا
14
مر رہتے جو گل بن تو سارا یہ خلل جاتا
نکلا ہی نہ جی ورنہ کانٹا سا نکل جاتا
میں گریۂ خونی کو روکے ہی رہا ورنہ
یک دم میں زمانے کا یاں رنگ بدل جاتا
بن پوچھے کرم سے وہ جو بخش نہ دیتا تو
پر سش میں ہماری ہی دن حشر کا ڈھل جاتا
15
مانند شمع مجلس شب اشک بار پایا
القصہّ میرؔ کو ہم بے اختیار پایا
احوال ِ خوش انھوں کا ہم بزم ہیں جو تیرے
افسوس ہے کہ ہم نے واں کا نہ بار پایا
شہر دل ایک مدت اجڑا بسا غموں میں
آخر اُجاڑ دینا اس کا قرار پایا
اتنا نہ دل سے ملتے نہ دل کو کھوکے روتے
جیسا کیا تھا ہم نے ویسا ہی یار پایا
کیا اعتبار یاں کا پھر اس کو خوار دیکھا
جس نے جہاں میں آکر کچھ اعتبار پایا
آہوں کے شعلے جس جا اٹھے ہیں میرؔسے شب
واں جا کے صبح دیکھا مشتِ غبار پایا
16
یا روئے یار لایا،اپنی تو یوں ہی گزری
کیا ذکر ہم صفیراں، یارانِ شادماں کا
قید قفس میں ہیں تو خدمت ہے نالگی کی
گلشن میں تھے تو ہم کو منصب تھا روضہ خواں کا
پوچھو تو میرؔ سے کیا کوئی نظر پڑا ہے
چہرہ اتر رہا ہے کچھ آج اس جواں کا
17
ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا
دل ستم زدہ کو ہم نے تھا م تھام لیا
مرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں
تمام عمر میں ناکامیوں سے کا م لیا
اگرچہ گوشہ گزیں ہوں میں شاعروں میں میر
پہ میرے شور نے روئے زمیں تمام لیا
18
سیر کے قابل ہے دل صد پارہ اس نخچیر کا
جس کے ہر ٹکڑے میں ہو پیوست پیکاں تیر کا
ؔسب کھلا باغ جہاں الّا وہ حیران و خفا
جس کو دل سمجھتے تھے ہم سو غنچہ تھا تصویر کا
کیونکہ نقاش ازل نے نقش ابرو کا کیا
کام ہے کیا اک تیر منہ پر کھینچنا شمشیر کا
رہ گزر سیل حوادث کا ہے بے بنیاد دہر
اس خرابے میں نہ کر فکر تم تعمیر کا
بس طبیب اٹھ جا مرے بالیں سے مت دے دردسر
کام یاں آخر ہوا،اب فائدہ تدبیر کا
کس طرح سے مانیے یارو کہ یہ عاشق نہیں
رنگ اڑ جاتا ہے ٹک چہرہ تودیکھو میرؔکا
19
موجیں کریں ہے بحر جہاں میں ابھی تو تُو
جانے گا بعد مرگ کہ عالم حباب تھا
اُگتے تھے دست بلبل دوامان گل بہم
صحن چمن نمونۂ یوم الحساب تھا
ٹک دیکھ آنکھیں کھول کے اس دم کی حسرتیں
جس دم میں سوجھے گی کہ یہ عالم میں بھی خواب تھا
20
گل کو محبوب میںقیاس کیا
فرق نکلا بہت جو یاس کیا
دل نے ہم کو مثال آئینہ
ایک عالم کا روشناس کیا
کچھ نہیں سوجھتا ہمیں اس بن
شوق نے ہمکو بے حواس کیا
صبح تک شمعٔ سر کو دھنتی رہی
کیا پتنگے نے التماس کیا
ایسے وحشی کہاں ہیں اے خوباں
میرؔ کوتم عبث اداس کیا
مرزا غالب حیات و خدمات
٭مرزاغالب٭
¦پیدائش:1797 آگرہ ¦وفات:1869 دہلی ۔
¦دیوان غالب پہلی مرتبہ 1841 میں شائع ہوا۔
¦دیوان غالب نسخہ عرشی 1958میں شائع ہوا۔
¦نسخہ حمیدیہ مفتی انوار نے 1931میں مرتب کیا۔
¦دیوان غالب غالب کی زندگی میں پانچ بار شائع ہوا۔
(۱)1841(۲)1847(۳)1861(۴)1862(۵)1863
غالب سے متعلق اہم اقوال
¦غالب کے تصرف سے غزل اُردو کی تاثیر و تقدیر بن گئی” (رشید احمد صدیقی)
اگر اس لڑکے کو کوئی کامل استاد مل گیا اور اس نے اس کو سیدھے راستے پر ڈال دیا تو لاجواب شاعر بن جائے گا ورنہ مہمل بکنے لگے گا” (میر تقی میر)
غالب جدید اردو نثر کے موجد اور خطوط نویسی کے رہنما ہیں” (آل احمد سرور)
مرزا غالب کے لیے شاعری موسیقی اور موسیقی شاعری ہے” (عبدالرحمن بجنوری)
مغل دور نے ہندوستان کو تین چیزیں دی ہیں، غالب، اردو اور تاج محل” (رشید احمد صدیقی)
غالب سے پہلے اُردو شاعری دل والوں کی دنیا تھی” (آل احمد سرور)
ردیف ’الف‘ کی ابتدائی پانچ غزلیں
(1)
نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا؟
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر ِ تصویر کا
کاؤ کاوِ سخت جانیہاے تنہائی، نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوے شیر کا
جذبۂ بے اختیارِ شوق دیکھا چاہیے
سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا
آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مُدّعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا
بسکہ ہوں غالبؔ اسیری میں بھی آتش زیرپا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا
جراحت تحفہ، الماس ارمغاں، داغِ جگر ہدیہ
مبارک باداسدؔ، غمخوارِ جانِ درد مند آیا
(2)
جز قیس اور کوئی نہ آیا بہ روے کار
صحرا مگر بہ تنگی چشم حسوٗد تھا
آشفتگی نے نقشِ سویدا کیا درست
ظاہر ہوا کہ داغ کا سرمایہ دود تھا
تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ
جب آنکھیں کھل گئی، نہ زیاں تھا، نہ سود تھا
لیتا ہوں مکتبِ غمِ دل میں سبق ہنوز
لیکن یہی کہ رفت ، گیا اور بوٗد تھا
ڈھانپا کفن نے داغِ عیوبِ برہنگی
میں ورنہ ہر لباس میں ننگِ وجود تھا
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن، اسدؔ!
سر گشتۂ خُمار رُسوٗم، قیودتھا
(3)
کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا
دل کہاں کہ گم کیجیے ہم نے مدّعا پایا
عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا
درد کی دوا پائی، دردِ بے دوا پایا
دوستدارِ دشمن ہے، اعتمادِ دل معلوم!
آہ بے اثر دیکھی، نالہ نارسا پایا
سادگی و پرکاری ، بیخودی و ہشیاری
حسن کو تغافل میں جرأت آزما پایا
غنچہ پھر لگا کھلنے ، آج ہم نے اپنا دل
خوں کیا ہوا دیکھا، گم کیا ہوا پایا
حالِ دل نہیں معلوم، لیکن اس قدر یعنی
ہم نے بارہا ڈھونڈا ، تم نے بارہا پایا
شورِ پندِ ناصح نے زخم پر نمک چھڑکا
آپ سے کوئی پوچھے، تم نے کیا مزا پایا؟
(4)
دل مِرا سوزِ نہاں سے بے محابا جل گیا
آتشِ خاموش کے مانند گویا جل گیا
دل میں ذوقِ وصل ویادِ یار تک باقی نہیں
آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا
میں عدم سے بھی پرے ہوں، ورنہ غافل ! بارہا
میری آہِ آتشیں سے بالِ عنقا جل گیا
عرض کیجے جو ہر اندیشہ کی گرمی کہاں؟
کچھ خیال آیا تھا وحشت کا کہ صحرا جل گیا
دل نہیں ، تجھ کو دکھاتا ورنہ داغوں کی بہار
اس چراغاں کا کروں کیا، کار فرما جل گیا
میں ہوں اور افسردگی کی آرزو غالبؔ کہ دل
دیکھ کر طرزِ تپاکِ اہل دنیا جل گیا
(5)
شوق ہر رنگ رقیب سرو ساماں نکلا
قیس تصویرکے پردے میں بھی عریاں نکلا
زخم نے داد نہ دی تنگی دل کی یارب
تیر بھی سینۂ بسمل سے پَر افشاں نکلا
بوئے گل ، نالۂ دل، دود چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا
دل حسرت زدہ تھا مائدۂ لذّتِ درد
کام یاروں کا بہ قدرِ لب و دنداں نکلا
اے نَو آموزِ فنا ہمت دُشوار پسند!
سخت مشکل ہے کہ یہ کام بھی آسام نکلا
دل میں پھر گریہ نے اِک شور اُٹھایا غالبؔ
آہ جو قطرہ نہ نکلا تھا سو طوفاں نکلا
ردیف ’راء‘ کی ابتدائی پانچ غزلیں
(1)
بلا سے ہیں جو یہ پیش نظر در و دیوار
نگاہِ شوق کو ہیں بال و پر در و دیوار
وفورِ عشق نے کاشانے کا کیا یہ رنگ
کہ ہو گئے مرے دیوار و در در دو دیوار
نہیں ہے سایہ، کہ سن کر نوید مقدمِ یار
گئے ہیں چند قدم پیشتر دم و دیوار
ہوئی ہے کس قدر ارزانیٔ مئے جلوہ
کہ مست ہے ترے کوچے میں ہر در و دیوار
جو ہے تجھے سرِ سودائے انتظار ، تو
کہ ہیں دکانِ متاعِ نظر در و دیوار
ہجوم گریہ کا سامان کب کیا میں نے
کہ گر پڑے نہ مرے پاؤں پر در و دیوار
وہ آ رہا مرے ہمسائے میں، تو سائے سے
ہوئے فدا در و دیوار پر در و دیوار
نظر میں کھٹکے ہے بِن تیرے گھر کی آبادی
ہمیشہ روتے ہیں ہم دیکھ کر در و دیوار
نہ پوچھے ہے خودیٔ عیشِ مقدمِ سیلاب
کہ ناچتے ہیں پڑے سر بسر در و دیوار
نہ کہہ کسی سے کہ غالب نہیں زمانے میں
حریف رازِ محبت مگر در و دیوار
(2)
گھر جب بنا لیا ترے در پر کہے بغیر
جانے گا اب بھی تو نہ مرا گھر کہے بغیر؟
کہتے ہیں جب رہی نہ مجھے طاقتِ سخن
جانوں کس کے دل کی میں کیوںکر کہے بغیر
کام اس سے آ پڑا ہے کہ جس کا جہان میں
لیوے نہ کوئی نام ستم گر کہے بغیر
جی میں ہی کچھ نہیں ہے ہمارے و گرنہ ہم
سر جائے یا رہے ، نہ رہیں پر کہے بغیر
چھوڑوں گا میں نہ اس بتِ کافر کا پوجنا
چھوڑے نہ خلق گو مجھے کافر کہے بغیر
مقصد ہے ناز و غمزدہ و لے گفتگو میں کام
چلتا نہیں ہے دُشنہ و خنجر کہے بغیر
ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
بہرہ ہوں میں -گو چاہئے ، دونا ہوں التفات
سنتا نہیں ہوں بات مکرّر کہے بغیر
غالب نہ کر حضور میں تو بار بار عرض
ظاہر ہے تیرا حال سب اُن پر کہے بغیر
(3)
کیوں جل گیا نہ ، تابِ رخِ یار دیکھ کر
جلتا ہوں اپنی طاقتِ دیدار دیکھ کر
آتش پرست کہتے ہیں اہل جہاں مجھے
سر گرمِ نالہ ہائے شرر بار دیکھ کر
کیا آبروئے عشق ، جہاں عام ہو جفا
رکتا ہوں تم کو بے سبب آزار دیکھ کر
آتا ہے میرے قتل کو پَر جوش رشک سے
مرتا ہوں اس کے ہاتھ میں تلوار دیکھ کر
ثابت ہوا ہے گردنِ مینا پہ خونِ خلق
لرزے ہے موجِ مے تری رفتار دیکھ کر
وا حسرتا کہ یار نے کھینچا ستم سے ہاتھ
ہم کو حریصِ لذتِ آزار دیکھ کر
بِک جاتے ہیں ہم آپ، متاعِ سخن کے ساتھ
لیکن عیارِ طبعِ خریدار دیکھ کر
زُنّارباندھ سبحۂ صد دانہ توڑ ڈال
رہرو چلے ہے راہ کو ہموار دیکھ کر
ان آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا میں
جی خوش ہوا ہے راہ کو پُر خار دیکھ کر
کیا بد گماں ہے مجھ سے ، کہ آئینے میں مرے
طوطی کا عکس سمجھے ہے زنگار دیکھ کر
گرتی تھی ہم پہ برقِ تجلی ، نہ طور پر
دیتے ہیں بادہ ’ظرفِ قدح خوار‘ دیکھ کر
سر پھوڑنا وہ ! ’غالب شوریدہ حال‘ کا
یاد آ گیا مجھے تری دیوار دیکھ کر
(4)
لرزتا ہے مرا دل زحمتِ مہرِ درخشاں پر
میں ہوں وہ قطرۂ شبنم کہ ہو خارِ بیاباں پر
نہ چھوڑی حضرتِ یوسف نے یاں بھی خانہ آرائی
سفیدی دیدۂ یعقوب کی پھرتی ہے زنداں پر
فنا ’’تعلیمِ درسِ بے خودی‘‘ ہوں اُس زمانے سے
کہ مجنوں لام الف لکھتا تھا دیوارِ دبستاں پر
فراغت کس قدر ہتی مجھے تشویش مرہم سے
بہم گر صلح کرتے پارہ ہائے دل نمک داں پر
نہیں اقلیم الفت میں کوئی طومارِ ناز ایسا
کہ پشتِ چشم سے جس کی نہ ہووے مُہر عنواں پر
مجھے اب دیکھ کر ابرِ شفق آلودہ یاد آیا
کہ فرقت میں تری آتش پرستی تھی گلستان پر
بجُز پروازِ شوقِ ناز کیا باقی رہا ہوگا
قیامت اِک ہوائے تند ہے خاکِ شہیداں پر
نہ لڑ ناصح سے ، غالب، کیا ہوا گر اس نے شدت کی
ہمارا بھی تو آخر زور چلتا ہے گریباں پر
(5)
ہے بس کہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور
کرتے ہیں محبت تو گزرتا ہے گماں اور
یارب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات
دے اور دل ان کو، جو نہ دے مجھ کو زباں اور
ابرو سے ہے کیا اس نگہِ ناز کو پیوند
ہے تیر مقرر مگر اس کی ہے کماں اور
تم شہر میں ہو تو ہمیں کیا غم ، جب اٹھیں گے
لے آئیں گے بازار سے جا کر دل و جاں اور
ہر چند سُبُک دست ہوئے بت شکنی میں
ہم ہیں ، تو ابھی راہ میں ہیں سنگِ گراں اور
ہے خونِ جگر جوش میں دل کھول کے روتا
ہوتے جو کئی دیدۂ خونبانہ فشاں اور
مرتا ہوں اس آواز پہ ہر چند سر اڑ جائے
جلّاد کو لیکن وہ کہے جائیں کہ ’ہاں اور‘
لوگوں کو ہے خورشید جہاں تاب کا دھوکا
ہر روز دکھاتا ہوں میں اک داغِ نہاں اور
لیتا نہ اگر دل تمہیں دیتا ، کوئی دم چین
کرتا -جو نہ مرتا، کوئی دن آہ و فغاں اور
پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
رُکتی ہے مری طبع، تو ہوتی ہے رواں اور
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور
ردیف ’ن‘ کی ابتدائی پانچ غزلیں
(1)
وہ فراق اور وہ وصال کہاں
وہ شب و روز و ماہ و سال کہاں
فرصتِ کاروبارِ شوق کسے
ذوقِ نظارۂ جمال کہاں
دل تو دل وہ دماغی بھی نہ رہا
شورِ سدائے خط و خال کہاں
تھی وہ اک شخص کے تصور سے
اب وہ رعنائی خیال کہاں
ایسا آسان نہیں لہو رونا
دل میں طاقت ، جگر میں حال کہاں
ہم سے چھوٹا ’’قمار خانۂ عشق‘‘
واں جو جاویں، گرہ میں مال کہاں
فکر دنیا میں سر کھپاتا ہوں
میں کہاں اور یہ وبال کہاں
مضمحل ہو گئے قویٰ غالب
وہ عناصر میں اعتدال کہاں
(2)
کہ وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں
ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں
آج ہم اپنی پریشانی خاطر ان سے
کہنے جاتے تو ہیں، پر دیکھئے کیا کہتے ہیں
اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ، انہیں کچھ نہ کہو
جو مے و نغمہ کو اندوہ رُبا کہتے ہیں
دل میں آجائے ہے، ہوتی ہے جو فرصت غش سے
اور پھر کون سے نالے کو رسا کہتے ہیں
ہے پرے سرحدِ ادراک سے اپنا مسجود
قبلے کو اہلِ نظر قبلہ نما کہتے ہیں
پائے افگار پہ جب سے تجھے رحم آیا ہے
خارِ رہ کو ترے ہم مہرِ گیا کہتے ہیں
اک شرر دل میں ہے اُس سے کوئی گھبرائے گا کیا
آگ مطلوب ہے ہم کو ، جو ہَوا کہتے ہیں
دیکھے لاتی ہے اُس شوخ کی نخوت کیا رنگ
اُس کی ہر بات پہ ہم نامِ خدا کہتے ہیں
وحشت و شیفتہ اب مرثیہ کہویں شاید
مر گیا غالب آشفتہ نوا کہتے ہیں
(3)
آبرو کیا خاک اس گل کی ، کہ گلشن میں نہیں
لے گریبان ننگِ پیراہن جو دامن میںنہیں
ضعف سے اے گریہ کچھ باقی مرے تن میں نہیں
رنگ ہو کر اڑ گیا ، جو خوں کہ دامن میں نہیں
ہو گئے ہیں جمع اجزائے نگاہِ آفتاب
ذرے اس کے گھر کی دیواروں کے روزن میں نہیں
کیا کہوں تاریکیٔ زندانِ غم اندھیر ہے
پنبہ نورِ صبح سے کم جس کی روزن میں نہیں
رونقِ ہستی ہے عشقِ خانہ ویراں ساز سے
انجمن بے شمع ہے گر برق خرمن میں نہیں
زخم سلوانے سے مجھ پر چارہ جوئی کا ہے طعن
غیر سمجھا ہے کہ لذت زخمِ سوزن میں نہیں
بس کہ ہیں ہم اک بہارِ نازکے مارے ہوئے
جلوۂ گل کے سوا گرد اپنے مدفن میں نہیں
قطرہ قطرہ اک ہیولی ہے نئے ناسور کا
خوں بھی ذوق درد سے ، فارغ مرے تن نہیں
لے گئی ساقی کی نخوت قلزم آشامی مری
موجِ مے کی آج رگ ، مینا کی گردن میں نہیں
ہو فشارِ ضعف میں کیا ناتوانی کی نمود؟
قدکے جھکنے کی بھی گنجائش مرے تن میں نہیں
تھی وطن میںشان کیا غالب کہ ہو غربت میں قدر
بے تکلف ، ہوں وہ مشتِ خس کہ گلخن میں نہیں
(4)
عہدے سے مدحِ ناز کے باہر نہ آسکا
گراک ادا ہو تو اسے اپنی قضا کہوں
حلقے ہیںچشم بائی کشادہ بسوئے دل
پر تارِ زلف کو نگہِ سرمہ سا کہوں
میں ، اور صد ہزار نوائے جگر خراش
تو، اور ایک وہ نہ شنیدن کہ کیا کہوں
ظالم مرے گماں سے مجھے منفعل نہ چاہ
ہے ہے خدانہ کردہ، تجھے بے وفاکہوں
(5)
مہرباں ہو کے بلالو مجھے، چاہو جس وقت
میں گیا وقت نہیں ہوںکہ پھر آ بھی نہ سکوں
ضعف میں طعنۂ اغیار کا شکوہ کیا ہے
بات کچھ سر تو نہیں ہے کہ اٹھا بھی نہ سکوں
زہر ملتا ہی نہیں مجھ کو ستمگر ، ورنہ
کیا قسم ہے ترے ملنے کی کہ کھا بھی نہ سکوں
(6)
ہم سے کھل جاؤ بوقت مے پرستی ایک دن
ورنہ ہم چھیڑیں گے رکھ کر غذرِ مستی ایک دن
غرۂ اوجِ بنائے عالمِ امکاں نہ ہو
اس بلندی کے نصیبوں میں ہے پستی ایک دن
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
نغمہ ہائے غم کو ہی اے دل غنیمت جانئے
بے صدا ہو جائے گا یہ سازِ ہستی ایک دن
دھول دھَپا اُس سراپا ناز کا شیوہ نہیں
ہم ہی کر بیٹھے تھے غالب پیش دستی ایک دن
ردیف ’ی‘ کی ابتدائی پانچ غزلیں
(1)
صد جلوہ رو بہ رو ہے جو مژگاں اٹھائیے
طاقت کہاں کہ دید کااحساں اٹھائیے
ہے سنگ پر براتِ معاشِ جنونِ عشق
یعنی ، ہنوز منتِ طفلاں اٹھائیے
دیوار بارِ منتِ مزدور سے ہے خم
اے خانماں خراب نہ احساں اٹھائیے
یا میرے زخمِ رشک کو رُسوا نہ کیجئے
یا پردۂ تبسم پنہاں اٹھائیے
(2)
مسجد کے زیر سایہ خرابات چاہیے
بھوں پاس آنکھ قبلۂ حاجات! چاہیے
عاشق ہوئے ہیں آپ بھی اک اور شخص پر
آخر ستم کی کچھ تو مکافات چاہیے
دے داد اے فلک دل حسرت پرست کی
ہاں کچھ نہ کچھ تلافی مافات چاہیے
سیکھے ہیں مہ رخوں کے لیے ہم مصوری
تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہیے
مے سے غرض نشاط ہے کس رو سیاہ کو
اک گو نہ بیخودی مجھے دن رات چاہیے
ہے رنگ لالہ و گل و نسریں جدا جدا
ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہیے
سر پاے خم پہ چاہیے ہنگام بیخودی
ق
رو سوئے قبلہ وقتِ مناجات چاہیے
یعنی بہ حسب گردش پیمانۂ صفات
عارف ہمیشہ مستِ مے ذات چاہیے
نشو و نما ہے اصل سے غالبؔ فروع کو
خاموشی ہی سے نکلے ہے جو بات چاہیے
(3)
بساطِ عجز میں تھا ایک دل ، یک قطرہ خوں وہ بھی
سو رہتا ہے بہ اندازِ چکیدن سر نگوں وہ بھی
رہے اس شوخ سے آزردہ ہم چندے تکلف سے
تکلف برطرف تھا ایک اندازِ جنوں وہ بھی
خیالِ مرگ کب تکسیں دل آزردہ کو بخشے
مرے دامِ تمنا میں ہے اِک صید زبوں وہ بھی
نہ کرتا کاش نالۂ مجھ کو کیا معلوم تھا ہمدم
کہ ہوگا باعثِ افزایش درد دروں وہ بھی
نہ اتنا برّشِ تیغِ جفا پر ناز فرماؤ
مرے دریایے بے تابی میں ہے اک موج خوں وہ بھی
مے عشرت کی خواہش ساقی گردوں سے کای کیجے
لیے بیٹھا ہے اک دو چار جامِ واژگوں وہ بھی
مرے دل میں ہے غالبؔ شوقِ وصل و شکوہ ہجراں
خدا وہ دن کرے جو اس سے میں یہ بھی کہوں وہ بھی
(4)
ہے بزمِ بُتاں میں سخن آزردہ لبوں سے
تنگ آئے ہیں ہم ، ایسے خوشامد طلبوں سے
ہے دورِ قدح وجہِ پریشانی صہبا
یک بار لگا دو خُم مے میرے لبوں سے
رندانِ درِ میکدہ گستاخ ہیں زاہد
زنہار نہ ہونا طرف اِ ن بے ادبوں سے
بیدادِ وفا دیکھ کہ جاتی رہی آخر
ہر چند مری جان کو تھا ربط لبوں سے
تا ہم کو شکایت کی بھی باقی نہ رہے جا
سن لیتے ہیں، گو ذکر ہمارا نہیں کرتے
غالبؔ ترا احوال سنا دیں گے ہم ان کو
وہ سن کے بلا لیں، یہ اجارا نہیں کرتے
گھر میں تھا کیا ، کہ ترا غم اسے غارت کرتا
وہ جو رکھتے تھے ہم اِک حسرتِ تعمیر سے ہے
(5)
غمِ دنیا سے گر پائی بھی فرصت سر اٹھانے کی
فلک کا دیکھنا تقریب تیرے یادآنے کی
کھلے گا کس طرح مضموں مرے مکتوب کا یارب!
قسم کھائی ہے اس کافر نے کاغذ کے جلانے کی
نپٹنا پرنیاں لیں شعلۂ آتش کا آساں ہے
ولے مشکل ہے حکمت دل میں سوزِ غم چھپانے کی
انہیں منظور اپنے زخمیوں کا دیکھ آنا تھا
اٹھے تھے سیرِ گل کو دیکھنا شوخی بہانے کی
ہماری سادگی تھی التفاتِ ناز پر مرنا
ترا آنا نہ تھا ظالم مگر تمہید جانے کی
لکد کوبِ حوادث کا تحمل کر نہیں سکتی
مری طاقت کو ضامن تھی بتوں کے ناز اٹھانے کی
کہوں کیا خوبی اوضاع ابناے زباں غالبؔ
بدی کی اس نے جس سے ہم نے کی تھی بارہانیکی
حاصل سے ہاتھ دھوبیٹھ، اے آرزو خرامی
دل جوشِ گر یہ میں ہے ڈوبی ہوئی اسامی
اس شمع کی طرح سے جس کو کوئی بجھا دے
میں بھی جلے ہوؤں میں ہوں داغِ ناتمامی
مومن خاں مومنؔ حیات و خدمات
٭مومن خاں مومن٭
¦پیدائش:1800 دہلی ¦وفات:1852دہلی ۔
¦فکر شاعرانہ اور مکر شاعرانہ مومن کے کلام کی خصوصیات ہیں۔
¦مومن کے دیوان کو مصطفی خاں شیفتہ نے مرتب کیا اور کریم الدین نے 1846میں شائع کیا۔
¦مومن کی کل بارہ مثنویاں ہیں۔
¦مومن کی پہلی مثنوی کا نام شکایت ستم ہے۔
مومن سے متعلق اقوال
¦نفس غزل میں مومن اپنے تمام ہم عصروں پر فوقیت رکھتے ہیں۔ (ضیاء الدین بدایونی)
ردیف ’الف‘ کی ابتدائی پانچ غزلیں
(1)
نہ کیونکر مطلعٔ دیوان ہو مطلع مہر و حدت کا
کہ ہاتھ آیا ہے روشن مصرع انگشت شہادت کا
غضب سے تیرے ڈرتا ہوں رضا کی تیری خواہش ہے
نہ میں بیزار دوزخ سے نہ میں مشتاق جنت کا
خدایا ہاتھ اٹھا ئوں عرضِ مطلب سے بھلا کیونکر
کہ ہے دستِ دعا میں گوشۂ دامن اجابت کا
عنایت کر مجھے آشوب گاہِ حشرِ غم اِک دل
کہ جس کا ہر نفس ہم نغمہ ہو شورِ قیامت
جراحت زاراکِ جان دیکے جسکی ہر جراحت کا
نمکداں شورِ اُلفت سے مزا آوے عیادت کا
مرا جو ہر ہو سَر تاپا صفائے مہر پیغمبر
میرا حیرت زدہ دل آئینہ خانہ ہو سُنّت کا
خدایا لشکرِ اسلام تک پہونچاکہ آپہنچا
لبوں پر دم بلاہے جوشِ خُوں شوقِ شہادت کا
امیرِ لشکرِ اسلام کا محکوم ہوں یعنی
ارادہ ہے مرا فوجِ ملائک پر حکومت کا
زمانہ مہدیٔ موعود کا پایا اگر مومن
تو سب سے پہلے تو کہیو سلامِ پاک حضرت کا
2
آگ ، اشک گرم کو لگے،جی کیا ہی جل گیا
آنسُو جو اُس نے پونچھے شب،اور ہاتھ پھل گیا
اس کوچے کی ہوا تھی کہ مری ہی آہ تھی
کوئی تو دل کی آ گ پہ پنکھا سا جھل گیا
کیا روئوں خیرہ چشمی ٔ بختِ سیاہ کو
واں مشعلِ سُرمہ ہے ابھی، یاں نیل ڈھل گیا
اِس نقشِ پاکے سجدے نے کیا کیا کیا ذلیل
میں کوچۂ رقیب میں بھی سر کے بل گیا
کچھ جی گِرا پڑے تھا، پر اب تو نے ناز سے
مجھ کو گرا دیا تو، مرا جی سنبھل گیا
کی مجکو ہاتھ ملنے کی تعلیم ورنہ کیوں
غیروں کو آکے بزم میں وہ عطر مل گیا
بُتخانہ سے نہ کعبہ کو تکلیف دے مجھے
مومنؔ بس اب معاف کر یاں جی بہل گیا
3
لگے خدنگ جب اس نالۂ سحر کا سا
فلک کا حال نہ ہوکیا مرے جگر کو
نہ جائوں گا کبھی جنت کو، میں نہ جائوں گا
اگر نہ ہوؤے گا نقشہ تمہارے گھر کا سا
یہ جوشِ یاس تو دیکھو کہ اپنے قتل کے وقت
دعائے وصل نہ کی وقت تھا اثر کا سا
یہ ناتواں ہوں کہ ہوں اور نظر نہیں آتا
مرا بھی حال ہواتیری ہی کمر کاسا
جنوں کے جوش سے بیگانہ وار ہیں احباب
ہمارا حال وطن میں ہوا سفر کا سا
خبر نہیں کہ اسے کیا ہو ا پر اُس در پر
نشانِ پا نظر آتا ہے نامہ بر کاسا
دل ایسے شوخ کو مومنؔ نے دید یا کہ وہ ہے
مُحبِ حسین کا اور دل رکھے شمر کاسا
4
ان سے بَد خو کا کرم بھی سِتم جاں ہو گا
میں تو میں غیر بھی دل دیکے پشیماں ہوگا
اور ایسا کوئی کیا بے سروساماں ہوگا
کہ مجھے زہر بھی دیجے گا تو احساںہوگا
محو مُجھ سادمِ نظارۂ جاناں ہوگا
آئینہ آئینہ دیکھے گا تو حیراں ہوگا
ایسی لذّت خلشِ دل میں کہاں ہوتی ہے
رَہ گیا سینہ میں اس کا کوئی پیکاں ہوگا
بوسہ ہائے لبِ شیریں کے مضامین آن تہ کیوں
لفظ سے لفظ مرے شعر کا چسپاں ہوگا
کیا سُناتے ہو کہ ہے ہجر میں جینا مشکل
تم سے بے رحم پہ مرنے سے تو آساں ہوگا
کیونکر اُمیدِ وفا سے ہو تسلی دل کو
فکر ہے یہ کہ وہ وعدے سے پشیماں ہوگا
گر ترے خنجرِ مژگاں نے کیا قتل مجھے
غیر کیا کیا ملک الموت کے قرباں ہوگا
اپنے اندازکی بھی ایک غزل پڑھ مومنؔ
آخر اس بزم میں کوئی تو سخنداں ہوگا
5
آخر امید ہی سے چارۂ حرماں ہوگا
مرگ کی آس پہ جینا شبِ ہجراں ہوگا
مجمعٔ بسترِ مخمل شبِ غم یاد آیا
طالع خفتہ کا کیا خواب پریشاں ہوگا
درد ہے جاں کے عوض ہر رگ و پے میں ساری
چارہ گر ہم نہیں ہونے کے جو درماں ہوگا
بات کرنے میں رقیبوں سے ابھی ٹوٹ گیا
دل بھی شاید اسی بد عہد کا پیماں ہوگا
دل میں شوقِ رُخِ روشن نہ چھپے گا ہر گز
ماہ پردے میں کتاں کے کوئی پنہاں ہوگا
نسبتِ عیش سے ہوں نزع میں گریاں یعنی
ہے یہ رونا کہ دہن گور کا خنداں ہوگا
دوستی اس صنم ِ آفتِ ایماں سے کرے
مومنؔ ایسا بھی کوئی دشمنِ ایماں ہوگا
ردیف ’ی‘ کی ابتدائی پانچ غزلیں
1
منظورِ نظر غیر سہی اب ہمیں کیا ہے
بے دید تری آنکھ سے دل پہلے پھرا ہے
کس طرح نہ اس شوخ کے رونے پر ہنسوں میں
نظروں میںمروّت ہے نہ آنکھوں میں حیاہے
اب شوق سے تم محفل ِاغیار میں بیٹھو
یاں گوشۂ خلوت میں عجب لُطف اٹھا ہے
یارب کوئی معشوقہ دلجُو نہ مِلے اب
جوان کی دعا ہے وہی اپنی بھی دعا ہے
توبہ گُنہِ عشق سے فرمائے ہے واعظ،
یہ بھی کہیں دل دے کے گنہگارہوا ہے
تھا محوِ رُخِ یار میں کیا آئینہ دیکھوں
معلوم ہے یارو مجھے جو رنگ مرا ہے
مومنؔ نہ سہی بوسۂ پا سجدہ کریںگے
وہ بُت جو اوروں کا تو اپنا بھی خدا ہے
2
خوشی نہ ہو مجھے کیونکر قضا کے آنے کی
خبر ہے لاش پہ اس بے وفا کے آنے کی
سمجھ کے اور ہی کچھ مر چلا اے ناصح
کہا جو تونے نہیں جان جا کے آنے کی
چلی ہے جان، نہیں تو کوئی نکالو راہ
تم اپنے پاس تک اس مبتلاکے آنے کی
پھر اب کی لا ترے قربان جائوں جذبہ دل
گئے ہیں یاں سے وہ سوگند کھا کے آنے کی
کہاں ہے ناقہ ترے کان بجتے ہیں مجنوں
قسم ہے مجکو صدائے درا کے آنے کی
نہ جانے کیوں دلِ مرغِ چمن کے سیکھ گئی
بہار وضع ترے مسکراکے آنے کی
مجھے یہ ڈر ہے کہ مومنؔ کہیں نہ کہتا ہو!
مری تسلّی کو روزِ جزا کے آنے کی
3
ہے نگاہِ لُطف دشمن پر تو بندہ جائے ہے
یہ ستم اے بے مروّت کِس سے دیکھا جائے ہے
سامنے سے جب وہ شوخِ دلرُبا آجائے ہے
تھامتا ہوں پر یہ دل ہاتھوں سے نکلا جائے ہے
جاں نہ کھا وصلِ عدُو سچ ہی سہی پر کیا کروں
جب گِلہ کرتا ہوں ہمدم وہ قسم کھا جائے ہے
رشکِ دشمن نے بنا دی جان پر اے بے وفا
کب تلک کوئی نہ بگڑے حال بگڑا جائے ہے
حُسنِ روز افزوں پہ غرا کِس لیے اے ماہ رُو
یونہی گھٹا جائے گا جتنا کی بڑھتا جائے ہے
غیر کے ہمراہ وہ آتا ہے میں حیران ہوں
کس کے استقبال کو جی تن سے میرا جائے ہے
تاب و طاقت صبر و راحت جان و ایماں عقل و ہوش
ہائے کیا کہیے کہ دل کے ساتھ کیا کیا جائے ہے
رو رہا ہوں خندۂ زنداں نما کی یادمیں
اب گوہر کے لیے آنکھوں سے دریا جائے ہے
خاک میں مل جائے یارب بے کسی کی آبرو
غیر میری نعش کے ہمراہ روتا جائے ہے
اب تو مر جانا بھی مشکل ہے ترے بیمار کو
ضعف کے باعث کہاں دنیا سے اٹھا جائے ہے
دیکھئے انجام کیا ہو مومن ؔ صورت پرست
شیخِ صنعاں کی طرح سوئے کلیسا جائے ہے
4
دفن ہم جب خاک میں سوختہ ساماں ہوں گے
فلس ماہی کے گُل شمع شبستاں ہونگے
ناوک انداز جدہر دیددۂ جاناں ہونگے
نیم بسمل کئی ہوں گے کئی بے جاں ہونگے
تابِ نظّارہ نہیں آئینہ کیا دیکھنے دوں
اور بن جائے گی تصویر جو حیراں ہونگے
تو کہاں جائے گی کچھ اپنا ٹھکانا کر لے
ہم تو کل خواب عدم میں شبِ ہجراں ہونگے
کر کے زخمی مجھے نادم ہوں یہ ممکن ہی نہیں
گر وہ ہونگے بھی تو بے وقت پشیماں ہونگے
ایک ہم ہیں کہ ہوئے ایسے پشیماں کہ بس
ایک وہ ہیں کہ جنہیں چاہ کے ارماں ہوں گے
ہم نکالیں گے سُن اے موجِ ہوا بل تیرا
اس کی زلفوں کے اگر بال پریشاں ہونگے
صبر یا رب مری وحشت کا پڑے گا کہ نہیں
چارہ فرما بھی کبھی قیدیٔ زنداں ہونگے
منّتِ حضرتِ عیسیٰ نہ اٹھائیں گے کبھی
زندگی کے لیے شرمندۂ احساں ہونگے
پھر بہار آئی وہی دشتِ نوردی ہوگی
پھر وہی پائوں وہی خارِ مغیلاں ہونگے
عمر ساری تو کٹی عشقِ بُتاں میں مومنؔ
آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہونگے
5
آج اس بزم میں طوفاں اٹھا کے اٹھے
یاں تلک روئے کہ اس کو بھی رولا کے اٹھے
گر نہ ہو دل میں خیالِ نگہ ِ خواب آلود
درد کیا کیا اثرِ خفتہ جگا کے اٹھے
گو کہ ہم صفحۂ ہستی پہ تھے اِک حرفِ غلط
لیک اٹھے بھی تو اِک نقش بٹھا کے اٹھے
ہو عذابِ سبِ یلدا سے رہائی یا رب
زُلف مُنہ سے کہیں اس مہرِ لقا کے اٹھے
اُف ری گرمیٔ محبت کہ ترے سوختہ جاں
جس جگہ بیٹھ گئے آگ لگا کے اٹھے
میںدکھاتا تمھیں تاثیر مگر ہاتھ مرے
ضعف کے ہاتھ سے کب وقت دعا کے اٹھے
سوزشِ دل سے ہوا کیا ہی میں پانی پانی
وہ جو پہلو سے پسینے میں نہا کے اٹھے
جی ہی مانند نشانِ کفِ پا بیٹھ گیا
پائوں کیا کوچہ سے اس ہوش ربا کے اٹھے
شعر مومن ؔ کے پڑھے بیٹھ کے اس کے آگے
خوب احوال دلِ زار سُنا کے اٹھے
شاد عظیم آبادی حیات و خدمات
٭شاد عظیم آبادی٭
¦پیدائش:1846عظیم آباد ¦وفات:1927 پٹنہ ۔
¦شاد کو دبستان عظیم آباد کی آبرو کو کہا جاتا ہے۔
¦شاد کے شعری مجموعے:-
(۱)نغمہ الہام (۲)مے خانہ الہام (۳)حیات فریاد(۴)رباعیات شاد(۵)سروش مستی (۶)فروغ ہستی
¦شاد کے دیوان کا نام اندھیر نگری ہے۔
¦شاد کے مجموعہ کلام کا زمانے ترتیب سے درست زمرہ اس طرح ہوگا۔
شادسے متعلق اہم اقوال
¦یگانہؔ اور فراقؔ کے ساتھ بیسویں صدی میں غزل کو نئے لہجے اور نئے ذائقے سے روشناس کرانے اور اپنے دور کی کھردری حقیقتوں سے عہدہ برآ ہونے کے قابل بنانے میں شادؔ کا کام خاص طور سے قابل توجہ ہے۔‘‘ (خلیل الرحمن اعظمی)
ردیف’ الف‘ کی ابتدائی پانچ غزلیں
(1)
میکدے میں تو ہے یکتا ساقیا
اِنَّماَ اللہُ اِلٰھاً واَحِداَ
کَم مُحِبٍّ لاَ یَریٰ شیئاً سِواکَ
جن کے آگے لفظ مہمل ما سوا
کَم عَطَاشٍ دیدۂ شاں بر کفت
اَنْتَ ساَقِیْھِمْ وَخَیْرٌ سَاقِیاَ
اِنْتَبَہ یَا قَلْب وَشرْبُ جُرعَۃً
مِنْ صُبُحِیٍّ دَلالاً طَیِّباَ
اِنَّمَا الاَفْراَحُ مِیْراثُ الھُموم
صبر تلخ اما بود حب شفا
سچ تو یوں ہے ظُلْمَۃٌ فیِ ظُلْمَۃٍ
جب نہ خود سمجھا تجھے سمجھاؤں کیا
کَمْ لَکَ السَاقِی مِنَ الْقَلْبِ الکبیر
جن کے ہیں بشکستہ دل صرف ثنا
لاَ اُبالِی اَو بریَ اَو اَقبلی
تجھ سے اسے دنیا نہیں مجھ کو گلا
فاحِ نشر الورود مِنْ بُستانِہِم
عطر آگیں کیوں نہ ہو ارض و سما
اِسْتَمعْ یاَشَاذُ یا شیخ الکبیر
عمر کو فانی سمجھ دھوکا نہ کھا
(2)
نہ پہنچا کوئی تا مقصود سُبْحاَنَ الَّذِی اَسْرَا
کھلا آئینہ دارِ لو کَشفَ پرسرِّما اَوْھا
مجھے بھی تو بنا دے راز دارعَلَّمَ الاَسْمَا
خدایا! داورا! ھَیَّ لَناَ مِنْ اَمْرنا رُشْداَ
کہوں کیا مجمع الضدینہے دُنیا و مَافیِھا
نہ ظاہر ہے، نہ مخفی ہے ، نہ پیدا ہے، نہ ناپیدا
قدم رکھتے گھرا بحرِ فنا کے سخت طوفاں میں
بچالے اے امید بے کساں اے دافع الْبَلوا
حیات جاوداں میں فرق بھی آئے تو آنی ہو
مٹوں اور پھر بنوں دریائے ہستی میں حباب آسا
جو قطرے کی طرح اس بحر بے پایاں میں مل جاؤں
تو چلاؤں کہ بِسْمِ اللہ مجریھاَ وَ مُرْسٰھا
وہ دولت دے کہ ان آنکھوں میں سب کچھ ہیچ ہو جائے
خطا پوشا! عطا پاشا، کرم سازا! خداوندا
وجود اعتباری کو لگاؤں کچھ نہ آنکھوں میں
ہٹا وے عشق و حسن ظاہری کا بیچ سے پردا
بصیرت کو مری معراج ہو صدقے میں احمد کے
کسی دن مجھ پہ بھی کھل جائے گا اسرار ما اَوْھا
مٹا دے دل سے وحشت زمرۂ انساں میں داخل کر
قُوا سے سب وہی لوں کام جو مقصود ہے تیرا
ہیولیٰ کو مرے وہ قلم یارب عنایت کر
اُتارے صفحۂ خالی پہ تیرا ہو بہ ہو نقشا
مرے شعروں میں یارب شاہد معنی کا جلوہ ہو
مگر حائل رہے لفظوں کا بھی ہلکا سا اک پردا
خریدار و بضاعت گومری مرجات ہے لیکن
تردد کیا خریداری میں ہے بے دام کا سودا
زباں دانو گہر بھی ہے خزف چشم تعنت میں
ہنر ہے جہل سے بدتر جو داغ آیا تعصب کا
نواسنجو! مرے نغموں کا غل ہے عرش اعظم پر
خوش آواز! سر طوبیٰ پہ جاتا ہے مرانالا
ہمارا خانوادہ مرکز اُردو تھا دہلی میں
بحمداللہ گئی ہم سے نہ اب تک خصلتِ آبا
نواسا خان صادق کا ہوں جو تھا نائب سلطاں
ہوں کمبل پوش سید خاں دوراں خاں کا ہوں پوتا
تعارف کے لیے اتنا بھی لکھا منصفو ورنہ
خدا کی مجھ پہ لعنت ہو اگر کچھ بھی ہو فخر اس کا
اٹھاؤں کیا سر اپنا سیہ کاری میں کاٹی ہے
نسب پر کچھ ہے غرّہ اور نہ علم وفضل کا دعوا
وہی پیدا ہے ایسا جس سے ہر ناپید پیدا ہے
مسلم ہے کہ ناپیدا سے کچھ ہوتا نہیں پیدا
بری حال و محل سے بھی ہے پھر سب میں وہی وہ ہے
وہ ہے واحد شمار اعداد میں اس کا نہیں اصلا
محیطِ کل کے معنی ظاہری گر لیں تو باطل ہے
حدوں سے ہے مبرّا، حد کے اندر آ نہیں سکتا
وجود اس کا ہے واجب عقل و وجداں اس پر میں شاہد
بجز اتنا سمجھنے کے نہ میں سمجھا نہ تو سمجھا
کوئی شئے اس سے باہر کب ہے ، ہر شئے میں وہی وہ ہے
اسی پر متفق دونوں ہیں، نابینا ہو یا بینا
یہ حسرت ہے کہ اس کو دیکھ لوں اس کی صدا سن لوں
بہ این چشمان نابینا، بی ایں اسماع ناشنوا
کیا جو تونے یارب جو اب کرتا ہے سب حق ہے
کرم کی جا ستم بھی ہو تو ہے تیرے لیے زیبا
ریاضت نے مجھے سمجھا دیے معنی عبادت کے
قوا سے کام لیتا ہوں وہی مطلب ہے جو تیرا
لکد کوکب فنا دل کیا جب دس حواسوں کو
ہوئی پیدا ترے فضل و کرم سے شکل استغنا
سرورِ محض بن جاؤں جو یکسوئی میسر ہو
مٹیں سب آرزوئیں دل سے یہ ارماں نہیں مٹتا
سراپا مو قلم بن جاؤں بند آنکھیں اگر کر لوں
اتاروں صفحۂ خالی پہ تیرا ہو بہو نقشا
فنا کے بعد جس دن ابر رحمت قطرہ افشاں ہو
اُگوں زیر زمیں سے خاک ہو ہو کر نبات آسا
سیاحت کا مزا ہستی میں جب جب کھینچ کر لائے
تو ہر آنے پہ ظاہر ہو نیا عالم نئی دنیا
فنا کا خوف ہو جائے فنا دل سے تو چین آئے
مجرّد مادّے سے ہو کے ہو جاؤں بہشت آسا
یہ سب چاہا مگر اب چاہتا ہوں کچھ نہ چاہوںمیں
یہی گرچاہتا پہلے تو کیوں ہوتا بشر رُسوا
نہ لوں کشتی کا بھی احسان سر پر عین طوفاں میں
نہ پوچھوں خضر تک سے وادی پر ہول میں رستا
مزا دیکھو کہ اس بازار میں سر پر اٹھائے ہوں
خریداروں کا احساں بیچ کر بے دام کا سودا
کہاں تک ذی کمالو خون انصاف اک ذرا سوچو
خس و خاشاک کے روکے کبھی رکتا نہیں دریا
نئی بات آج تک اے شاد دیکھی کچھ نہ عالم میں
وہی گھٹتی ہوئی عمریں وہی مٹتی ہوئی دنیا
(3)
اے ازلی الوجود اے ابدی البقا
بے ادبانہ نہ چل حلقۂ عبدیت میں آ
خالق و مخلوق تو مالک و مملوک تو
ساجد و مسجود تو ، عجب نہ کر سر جھکا
کعبۂ مقصود کا حج، ترے اوپر ہے فرض
وسعت دل ہے منا، خونِ تمنا بہا
جان صداقت پہ دے صدق ہے فطرت تری
زیست کی پروانہ کر زیست ہے دام فنا
موردِ آفات رہ، ظلم کا تابع نہ بن
بھول نہ بھولے سے بھی واقعۂ کربلا
روز ازل خو د کہا، جوش طرب میں الست
ہو گیا پھر کیوں خموش وے کے صدائے بلا
کلمۂ قالوا کو تو صیغہ غائب نہ جان
جمع کو واحد سمجھ لفظ کا دھوکہ نہ کھا
خاک کے پتلے سنبھل ، خاک کا پتلا نہ بن
تیری تو مسند ہے عرش خاک کجا تو کجا
خار بھی اس باغ کا اپنی جگہ پھول ہے
شان سے تیری ہے دور، خود کو سمجھنا ہوا
آنکھ سے اشکال دیکھ ، کان سے آواز سن
کہہ کے پشیماں نہ ہو مطلب چون و چرا
تاکہ ہو عین الیقین ، پاک کثافات سے
پیس یہاں تک کہ دل پس کے بنے سرمہ سا
تیری حقیقت تلک کس کی رسائی ہوئی
بازی طفلانہ ہے مسئلہ ارتقا
تیری خودی نے تو خود قید میں ڈالا تجھے
جوں جوں بڑھے خواہشات ، پاؤں میں پھندا پڑا
زندگی دائمی کی جو تجھے ہے تلاش
ذات میں اپنی فنا ہو کے طلب کر بقا
ہے تری تسبیح پاک غازۂ روئے وجود
تیری ہی توحید ہے شانۂ گیسوئے لا
جلوہ کناں تو جہاں واں نہیں دخلِ گماں
جملہ شیونات ہیں سب ترے منقوشِ پا
روح امر ہے تری اس کا عدم نادرست
موت ہے تبدیل جا اس سے عبث تو ڈرا
عرصہ کون و مکاں ہیں تری زنبیل میں
فیضِ تو افزوں ز حصر جودِ تو فوق العطا
جوہر توحید تو سبحۂ تمجید تو
غازۂ روئے یقیں، شانۂ گیسوئے لا
دشمنِ خانہ ہے نفس، پہلے اسی سے سمجھ
پھر ہے امیدوں کا پیش جیش طویل اللوا
آیتِ والفتح پڑھ، تا ہو یہ رایت نگوں
جہل تمنا ہے یہ جیش طویل اللوا
باندھ کے محکم کمر، لے تبر نفی غیر
کاٹ کے سب پھینک دے خار و خسِ ماسوا
چین سے کر زندگی ، پاؤں کو پھیلا کے سو
شامِ ازل فرش خواب صبح ابد متکا
جوہر جاں تیرا میں ، جان نہ تو فرق بیں
نفسک نفسی درست لحمک لحمی روا
بزم حقیقت میں تو لائق تمجید ہے
تیری ہی توحید ہے ، قطع کن ماسوا
عرصہ ٔ کون و مکاں ذرہ کے اندر نہاں
شہر ترا ہے وہاں، جس کا عدم اوستا
عقل غسر رائگاں ، ہیچ ہے سارا گماں
بازیٔ طفلانہ ہے ، مسئلہ ارتقا
نورکِ مر آۃِ حق، شاہد وے نہِ طبق
سرِ تو بالا زدرک، درک حیرت زدہ
جلوہ کناں تو جہاں داں نہیں دخلِ گماں
نقش تو تحت الثریٰ شان تو فوق السماء
نوحۂ سر مشقِ تو ، آئینہ ہست و بود
ذکر تو حاجت روا، نام تو مشکل کشا
مسلکِ سرِ میں ترے، دخل بشر ہے حرام
فکرِ فلاطوں کو جان، علتِ ماخولیا
منکرِ امرِ رحیم ،صورت شیطاں رجیم
ہر کہ زند بر رخت ، سیلی مکرو دغا
در صفتِ بر تری، چوں تو فلک کے بود
ذاتِ تو خالص بجیں، وے بود اقلیمیا
کوچے کا تیرے نشاں ہے وہی مسلک جہاں
قتلِ رجا ہے ہدر خونِ تمنا روا
تیری گلی ک فقیر، مفتخرِ شاہ و میر
دست تو دریا نوال، جو دِ تو فوق العطاء
تیرے تو قانون کی ہے وہی محکم کتاب
جس کا ہے صرف اک ورق معرکۂ کربلا
عمر کے بڑھنے سے شاد گھٹ گیا زورِ زباں
پہلے تھا کُن جس گجہ ، اب ہے وہیں لفظ لاَ
شادؔ سخن کی ترے قدر کوئی کیا کرے
ایسے جواہر ہیں یہ، خلد ہے جن کی بہا
(4)
ترے جور کا نہ کروں گلہ کٹے تیغ سے بھی اگر گلا
کروں وجد میں یہی میں صدا کہ انا الشہید بکربلا
ہوا نورِ رخ جو عیاں ترا وسموع وجھک اعقلا
چمک اٹھے دشت و جبال و در متشعشعاً متزللا
اسی شرم سے کہ اَلست کا تو جوا ب میں نے دیا بلیٰ
جو بلا مجھ پہ نزول تھا تو نہ سمجھا میں کہ ہے کیا بلا
شب غم پہ کچھ نہیں منحصر ہے جہاں حدوث کا مرملا
کہ اسی میں سب ہے بھری ہوئی بہت اس طرح کی الابلا
مرا سرر ہے جو سر سناں مری لاش خوں میں بھی ہو طپاں
لب زخم سے یہ کروں عیاں کہ اَنا القتیل مُرمّلا
مجھے ذوق ہے مے وصل کا پہ نہیں عجول میں ساقیا
کہ یہ جام آئے گا مجھ تلک تری بزم میں متداولا
تراظلم بھی ہے عجب عطا کہ میں فارغ آج ہوں ہر طرح
تھے اس ایک وار م یں لطف دونہ گلہ رہا نہ رہا گَلا
تیرے دم سے اس کا رواج ہے تراناز منفرد آج ہے
ترے سر پہ حسن کا تاج ہے مترصعاً مُتکلّلا
مجھے لاکھ سجدے کریں مَلَک مرا فرش راہ ہو عرش تک
میں حضیض محض تھا اے فلک فلذا نزلت مِن العُلیٰ
نہ کروں جو عجز و فروتنی تو خود اپنے ساتھ ہے دشمنی
فَلِذَا وَجَدتُّ مِنَ الْعَدَمِ و کَذا استحقُّ مِنَ العُلیٰ
ہیں نگاہِ شوق میں متحد ترا کوچہ ہو کہ ہو قتل گہہ
تری جلوہ گاہ ہیں دونوں ہی جو منیٰ ہے یہ تو وہ کربلا
جو رضا تری ثمر اس کا ہے تو سکون و صبر ہیں اس کے گل
ہے عجیب چیز نہاں غم نہ ہمیں کو ہائے کبھی پھَلا
رہ عشق میں جو رکھا قدم ہوئے اس طرح کے مخوف ہم
چلیں حاج جیسے سوئے حرم متنکاً مُتھَرْوَلاَ
جو کھلے زبان مہیمنی، کہیں ہم کو سب سے ہے ایمنی
کہ ہیں جملہ کام سے ہم غنی نہ کرے عاَطلاً و مُعطَّلاً
مجھے خوف ہے کہ الجھ کے یہ کہیں راستے میں نہ رہ پڑے
مری روح عالم کون سے جو یونہی رکھے گی خلا مُلا
ہمیں شاد جس کا بہت تھا ڈر وہی پیش آ گیا الحذر
تمہیں کہتے تھے کہ امید سے نہ زیادہ کھو خلاَ ملاَ
مری عمر شادؔ تمام تر اسی گوگمو میں ہوئی بسر
نہ کلام کرنے سے غم گھٹا نہ خموشیوں سے کٹی بلا
میں ہر ایک شعر پہ شادؔ کے کروں جان و مال سے شئے فدا
مجھے کل کلام ملے کہیں جو مرتباً و مکللا
(5)
دل تو بدنام ہے اک عمر سے کیا اس کا گلہ ،کہتے آئی ہے صبا
یہ تمنا یہ امیدیں جنھیں برسوں پالا کب مری ہوں گی بھلا
وہ تری کج روشی ،کج کلہی، کینہ وری، دلبری ،عثوہ گری
کون غش کھا کے سر راہ گرا، کون موا، پھر کے دیکھا نہ ذرا
بان مارا تری آنکھوں نے جو کی پھر کے نگاہ ،نہ ملی دل کو نباہ
یار کیا قہر ہے چلتا ہوا جادو تیرا، لاکھ روکا نہ رُکا
رُت پھری، ساری ہری ڈالوں میں پھوٹی کونپل، ہوگئے پھول بھی پھل
اک یہ اجڑا ہوا دل ہے کہ نہ پھولا نہ پھلا، اور سوکھا ہی کیا
کالی کالی وہ گھٹائیں ،وہ پپیہوں کی پکار دھیمی دھیمی وہ پھوار
اب کے ساون بھی ہمارایوں ہی رونے میں کٹا ،کیا کہیں چپ کے سوا
بوسہ لینے کا مری خاک کو بھی ہے ارماں ،تاب اٹھنے کی کہاں
جامہ زیبی کا بھلا اے صنم تنگ قبا، کچھ تو دامن کو جھکا
فتنہ جو آفت جاں ،سنگدل ، آشوب جہاں، دشمنِ امن و اماں
سرور کج کلہاں، خسرو اقلیم جفا، بانی مکرو غنا
رس بھری ہائے وہ آنکھیں کالی کالی، بے پئے متوالی
سانولا رنگ ،نمک ریز خرامات جفا، اف کہاں دھیان گیا
دیکھنا تیرا کنکھیوں سے ہے آڑی برچھی، یار اس کی نہ سہی
کب کو گنتی میں ہے وہ گھائو جو اوچھا سا لگا ،پھر کے پھر دیکھ ذرا
کیا خطا اپنی اگر جاکے اچانک الجھے،نہ کبھی پھر سلجھے
جان کر دل کو پھنسائے خم گیسو میں بھلا، کس کی شامت ہے بتا
آنکھیں روئی ہوئی آواز ہے بھرائی ہوئی، باتیں گھبرائی ہوئی
اس سے تو اور کسی بھید کا ملتا ہے پتا ،شاد قسمیں تو نہ کھا
ردیف ’ب‘کی ابتدائی پانچ غزلیں
1
میرے سبب سے تھے عیاں آتش و خاک و باد و آب
میں نہ رہا تو پھر کہاں آتش و خاک و باد و آب
خلوت ناز میں تھا میں اور وہ شوخ بے حجاب
بے سبب آئے درمیاں آتش و خاک و باد آب
جب نہ ملا عدم میں کچھ قابلِ نذر دوستاں
لے کے چلے ہم ارمغاںآتش و خاک و باد آب
جب کہ خیال و وہم میں تابع حکم اے حکیم
پہنچیں گے تا بہ لامکاںآتش و خاک و باد آب
ایسے پڑے ہیں کتنے ہی جن میں نہیں دوئی کا میل
سمجھے ہیں صرف ہم یہاں آتش و خاک و باد آب
لے کے چلا جو کا رواں ساتھ وہ شہ سوار حسن
گرد میں ہوگئے نہاں آتش و خاک و باد آب
روح مری ادھر اُدھر جائے گی ساتھ سایہ دار
ہوں گے جدھر جدھر رواںآتش و خاک و باد آب
جب وہ نہیں کہ جس سے تھا ایک دوسرے سے ربط
میل کے ساتھ پھر کہاںآتش و خاک و باد آب
جی نہ لگے گا روح کا، اپنے ندیم کے بغیر
جائیں گے سب سوئے جناںآتش و خاک و باد آب
کہتے تھے شاد لوگ سچ ایسوں کی دوستی ہی کیا
روح سے چھٹ گئے یہاں آتش و خاک و باد آب
(2)
نالۂ دل میں تو پایا نہ آخر شب
اے دعا تو مجھے محروم نہ کر آخر شب
اکثر اے درد جگر تجھ کو بھی غافل پایا
کون لیتا ہے مریضوں کی خبر آخر شب
شام سے یاس نے گھیرا تجھے ناحق اے دل
جاتی ہے عرش تلک آہ اگر آخر شب
خود بخود غنچۂ خاطر ہے شگفتہ میرا
دل نے کس بات کی پائی ہے خبر آخر شب
واسطہ ضبط کاآغاز شب فرقت کے
چشم شہ تو مجھے شرمندہ نہ کر آخر شب
دور جانا ہے مسافر تجھے کیسی ہے یہ نیند
چونک مل آنکھ آٹھا زاد سفر آخر شب
جھاڑتی جاتی ہے وہ راہ صبا بالوں سے
بوئے گل باغ سے جاتی ہے جدھر آخر شب
ٹھنڈے ٹھنڈے دل سوزاں سے نکل جا اے روح
کرتے ہیں موسم گرما میں سفر آخر شب
مطمئن ہو تو خدا کے لئے کچھ عرض کروں
دردِ دل بس مجھے بے چین نہ کر آخر شب
بے خودی دل نہ اڑا کر کہیں لے جائے مرا
بیشتر چور کا رہتا ہے خطر آخر شب
کہیں اس سیل میں بہہ جائے نہ دفتر غم کا
جوش اپنا نہ دکھا دیدۂ تر آخر شب
شوقِ دیدار میں عالم ہے یہ آنکھوں کامری
جیسے جاگے ہوئے انساں کی نظرآخر شب
ہوگیا دل کو یقیں صاف کہ پانی برسا
بستر اپنا ہوا یوں اشکوں سے تر آخر شب
تیرے کوچے میں کہیں شاد نہ ہو پوچھ تو لے
اک بڑا شور تھا نالوں کا اِدھر آخر شب
(3)
فائدہ اے شاد کیا تکمیل سے
یہ زمانہ ہے پُرآشوب و خراب
ہر طرف ہے جہل کا بازار گرم
اہل فن کیوں کر نہ کھائیں پیچ و تاب
تدعی علم ہر بے ربط ہے
کیا ہے اس جہل مرکب کا جواب
جاہلانِ علم و معنی و بدیع
ہادیان شاہراہ ناصواب
طبع موزوں پر بھروسا نظم میں
بے پڑھے سارے فنوں میں کامیاب
پسلیاں بندش سے توڑیں شعر کی
اصطلاحوں کی کریں مٹی خراب
معنی تصنیف سے بھی بے خبر
کرسکیں ہرگز نہ فرق فصل و باب
باکمالوں سے بھڑیں ،آ آ کے وہ
تا کہے ذی معرفت ہر شیخ و شباب
خود غلط، املا غلط، انشا غلط
یوں سخن فہموں کو دیں اکثر جواب
اس زمیں میں ہے ہماری بھی غزل
ہم نے بھی اس فن میں لکھی ہے کتاب
صرف اس تقریر پر بھی بس نہ ہو
سخت گوئی سے کریں اکثر خطاب
امتیاز رطب و یابس کچھ نہ ہو
ایک ہو ان کی نظر میں خاک و آب
نظم ہوں کوٹھوں کے مضموں شعرمیں
فحش باتیں، کل مضامیں ناصواب
ہجو میں آل نبی کی منہمک
محو دل سے پرسش روز حساب
بے سرو پا اعتراضوں پر غرور
کاملوں سے اس پہ خواہاں جواب
خندہ ام آید ازیں طامات مفت
لا اُبالی صوتِھم صوت الکلاب
(4)
کیا منہ جو دے سکوں تری تقریر کا جواب
بخشش تری ہے خود میر تقصیر کا جواب
لکھے گا یار کیا مری تحریر کا جواب
دیکھا نہیں نوشتۂ تقدیر کا جواب
آئینہ لے کے ہاتھ میں کہتا ہوں یار سے
لایا ہوں ڈھونڈ کر تری تصویر کا جواب
صیاد جاں شکار ہے ترچھی نظر تری
ترکش میں ایک بھی نہیں اس تیر کا جواب
اتنا ہوا کہ دل میں اترنے لگی ہے بات
دیں گے وہ سوچ کر مری تقریر کا جواب
زنداں میں غل مچانے لگی ہے جو بے محل
کڑیاں کڑک کے دیتی ہیں زنجیر کا جواب
ناز اپنی گفتگو پہ نہ کر او فضول گو
خاموشیاں ہیں اس تری تقریر کا جواب
ایسا نہ ہو کہ دست ستم کو لگے نظر
اے نوجواں نہ دے فلک پیر کا جواب
دل میں ہے گرد غم تو کدورت مزاج میں
تعمیر جیسے ہوتی ہے تعمیر کا جواب
جی میں یہ ہے کہ آپ حلق اپناگھونٹ دوں
سوچا ہے میں نے نالۂ شب گیرکا جواب
قاصد کو چلتے وقت قسم دی رسول کی
ہاں میرے پاس اب نہیںتاخیر کا جواب
اے شاد ہاتھ پائوں ہلانے سے بھی گئے
موت آکے دے گئی مری تدبیر کا جواب
(5)
شمع فانوس میں ہے اپنی لطافت کے سبب
روشنی بند ہے شیشے کی کثافت کے سبب
رنج سے ہوتی ہے ہر چند بشر کو تکلیف
تو بھی انسان ممیز ہے اس آفت کے سبب
تب تو ہے خاک میں بھی شعلہ جنبانِ حیات
کیوں الگ رہ نہ سکی روح لطافت کے سبب
ابن آدم ہوں مرے دم سے جہاں کی رونق
قدسیوں سے بھی میں اعلی ہوں محبت کے سبب
کہنے والے مجھے جو چاہیں کہیں کیا پروا
سن کے خاموش ہوں اے شاد شرافت کے سبب
ردیف ’ی‘ ابتدائی پانچ غزلیں
(1)
کٹتی ہے بری طرح جوانی
بس طولِ حیات مہربانی
مضموں کا گھمنڈ شاعری ہے
دعوائے زباں فقط زبانی
سوتا سنسار جاگتا حق
سچی تھی اسی قدر کہانی
اب ایک کا بھی پتہ نہیں ہے
چھوڑی تو بہت سی تھی نشانی
بے پال و پر ہوئے نہ افسوس
مرنے پہ بھی جنت آشیانی
اب ان کے ستم کی کچھ نہ پوچھیو
جوڑا پہنا ہے آسمانی
تصویر تری ہے اب بھی دل میں
اے مجمعِ دوستان جانی
ضدّین ہوئے ہیں جمع ہم میں
آشفتہ سری و خوش بیانی
منوا دیا خود کو ہاں یہ مانا
تونے مگر ایک کی نہ مانی
باقی ہے بلائے خاک گشتن
بالائے بلائے آسمانی
آنا ہو تو آکہاں تلک صبر
اے وجہِ بقائے زندگانی
اے جوشِ شباب تیرے اوپر
صدقے ہے حیات جاودانی
اتنا مگر اے فلک سمجھ لے
پیری ہے تری مری جوانی
بے لطف اگر گئی تو افسوس
اے لطف فزائے زندگانی
کیا تھا مرے مٹنے والے دل میں
لے دے کے اک آن وہ بھی آنی
موقوف ہے شاید اس جہاں پر
اے روح لقائے یار جانی
مشتاق ہوں کان تک پہنچ جا
اے مژدۂ مرگ ناگہانی
بد تر شبِ ہجر سے بھی تو ہے
اے خانہ خراب بدگمانی
کچھ کام تو لو حیا سے بھی شادؔ
پیری و خیالِ نوجوانی
(2)
غم سے اس دل کو نہ میل اور نہ ساز آتا ہے
اور نہ کم بخت ترے عشق سے باز آتا ہے
لوگ کیوں جمع ہیں، میں کیا، مرامرنا کیا چیز
ہو نہ ہو کوئی تو دیوانہ نواز آتاہے
کھل گیا ہے جو مرے شوق کا احوال تو اب
نالہ بھی سینے سے کرتا ہوا ناز آتا ہے
قید تن سے ابھی آزاد نہ ہونا دمِ نزع
ٹھہر اے روح مرا بندہ نواز آتا ہے
کھینچ لے دل کو مرے دور سے یہ ہے منظور
تاکمر کھولے ہوئے زلفِ دراز آتا ہے
غم نے بے صبر کیا مجکو جنوں سے رسوا
جو یہاں آتا ہے وہ دشمنِ راز آتا ہے
ر ک گئے کیوں درجاناں پہ قدم اے زاہد
آ حقیقت میں اگر سوئے مجاز آتا ہے
دل کو بہلاتے رہے شادؔ شبِ ہجر میں یوں
اب سحر ہوتی ہے اب وقت نماز آتا ہے
(3)
زباں پہ آہ کے ساتھ اس کا نام آتا ہے
یہ درد کیا شبِ فرقت میں کام آتا ہے
جلو میں پیرمغاں اہتمام میں ساقی
یہ آمد آمد جم ہے کہ جام آتا ہے
اب ارتباط فقط رہ گیا ہے یہ ان کا
کہ خط میں غیر کے لکھ کر سلام آتا ہے
ملے جو دل تو یہ کہنا کہ اپنی منزل پر
سحر کا بھولا ہوا وقت ِ شام آتا ہے
کیا یہ کام در اندازیوں نے غیروں کی
وہاں سے خط نہ زبانی پیام آتا ہے
بصدق پیر مغاں کو دعائیں دے اے شادؔ
وہ دیکھ جام علیہ السلام آتا ہے
(4)
کہیں سے جب صدائے نالہ و فریاد آتی ہے
تڑپ جاتا ہے دل اپنی مصیبت یاد آتی ہے
کیا ہے روز محشر اس نے وعدہ بے نقابی کا
قضا تیری بھی لے اے چرخ بے بنیاد آتی ہے
بتو حق حق کہو تم چھپانے کی ضرورت کیا
وفا بھی جانتے ہو، یا فقط بیداد آتی ہے
اُسے بھی آزمایا عمر بھر اور بے اثر پایا
ہمیںلے دے کے اے غم خوار اک فریاد آتی ہے
بہت دشوار ہے جلد اس تعلق کو مٹا دینا
قفس میں بوئے گل کوسوں سے اے صیاد آتی ہے
ارسطو ساملے کامل تو اس سے پوچھے چل کر
حسد کھودے کوئی ایسا دوا اُستاد آتی ہے
بہار آئے نہ آئے پوچھ رکھ لینا تو واجب ہے
بتا بیٹری پہنانی بھی تجھے حدّاد آتی ہے
جفا آمیز ادائیں یاد ہیں گر تیری آنکھوں کو
مجھے بھی آہ کرنی اے ستم ایجاد آتی ہے
تعجب کچھ نہ سمجھو در تلک گر آکے پہنچے ہو
نہ گھبراؤ کوئی دم میں قضا اے شادؔ آتی ہے
(5)
بھولے بھٹکے جو صبا تا قفس آجاتی ہے
پر نہیں، باغ کی لیکن ہوس آجا تی ہے
کارواں چھوٹ گیا، ہو گئی مدت لیکن
اب بھی کانوں میں صدائے جرس آجاتی ہے
سونگھ لیتا ہوں، نظر پڑتی ہے جب پھولوں پر
بوئے ہمدردیٔ فریاد رس آجاتی ہے
گو کہ چھوٹے ہوئے مدت ہوئی تو بھی صیّاد
دل میں سَوْ مرتبہ یاد قفس آجاتی ہے
لب پہ بیمار محبت کے اگر دیر تلک
کان رکھئے تو صدائے نفس آجاتی ہے
مے سے توبہ کئے مدت ہوئی لیکن اے شادؔ
دیکھ لیتا ہوں تو اب بھی ہوس آجاتی ہے
حسرت موہانی حیات و خدمات
٭حسرت موہانی٭
¦پیدائش:1880.81 موہان ¦وفات:1951لکھنؤ۔
¦حسرت موہانی کو امام المتغزلین کہا جاتا ہے۔
¦حسرت کا کلام 13دیوان میں بٹا ہوا ہے۔
¦کلیات حسرت جو کہ بارہ دیوانوں پر مشتمل ہے 1943 میں شائع ہوئی۔
¦مشاہدات زندہ خودنوشت کا نام ہے۔
¦اردوئے معلیٰ حسرت کا رسالہ ہے۔
حسرت سے متعلق اہم اقوال
¦اردو غزل کی نئی نسل کی ابتداء حسرت ہی سے ہوئی ہے۔ حسرت اردو غزل کی تاریخ میں جدید و قدیم کے در میان ایک عبوری حیثیت رکھتے ہیں‘‘ (آل احمد سرور)
¦’’حسرت کی غزل سُرائی عشق و محبت کی قلبی وارداتوں اور اس کی جاودا نی کیفیتوں کی داستان ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود اس داستان کے ہیرو ہیں۔ ( نیاز فتح پوری)
¦’’حسرت کے کلام کی سادگی، پُر کاری کا جوہر سہلِ ممتنع میں نظر آتا ہے۔ (عبد القادر سروری )
¦’’حسرت نہایت صاف ستھرا جمالیاتی ذوق و شوق رکھتے تھے، جس کا ان کی شاعری پر بہت اثر ہے۔
(ڈاکٹر عبادت بریلوی)
ردیف’ الف‘ کی ابتدائی پانچ غزلیں
1
لائوں کہاں سے حوصلہ آرزوئے سپاس کا
جبکہ صفاتِ یار میں دخل نہ ہو قیاس کا
عشق میں تیرے دل ہوا ایک جہانِ بیخودی
جان خزینہ بن گئی حیرت بے قیاس کا
رونقِ پیر ہن ہوئی خوبیِ جسمِ نازنین
اور بھی شوخ ہو گیا رنگ ترے لباس کا
لُطف و عطا ئے یار کی عام ہیں بسکہ شہرتیں
قلب گنہگار میں نام نہیں ہراس کا
دل کو ہو تُجھ سے واسطہ، لب پہ ہو نام ِ مصطفیٰ
وقت جب آئے اے خدا خاتمۂِ تواس کا
طے نہ کسی سے ہو سکا تیرے سوا معاملہ
جانِ امید وار کا حسرتؔ ِ محوِ یاس کا
(2 )
حُسن بے پروا کو خُود بین و خود آرا کر دیا
کیا کیا میں نے کہ اظہار ِ تمنّا کر دیا
بڑھ گئیں تم سے تو مِل کر اور بھی بے تابیاں
ہم یہ سمجھے تھے کہ اب دل کو شکیباکر دیا
پڑھ کے تیرا خط مرے دل کی عجب حالت ہوئی
اضطرابِ شوق نے اِک حشر بر پا کر دیا
ہم رہے یاں تک تری خدمت میں سرگرم نیاز
تجھ کو آخر آشنائے نازنے کیا سحرایسا کر دیا
عشق سے تیر ے بڑھے کیا کیا دلوں نے مرتبے
مہرذروں کو کیا قطروں کو دریا کر دیا
کیوں نہ ہوں تیری محبت سے منوّر جان و دل
شمع جب روشن ہوئی گھر میں اجالا کر دیا
تیری محفل سے اٹھاتا غیر مجھ کوکیا مجال
دیکھتا تھا میں کہ تو نے بھی اشارہ کر دیا
سب غلط کہتے تھے لطفِ یار کو وجہِ سکوں
دردِ دل اُس نے تو حسرت اور دونا کر دیا
(3)
رنگ سوتے میں چمکتا ہے طرحداری کا
طُرفہ عالم ہے ترے حسن کی بیداری کا
مایۂ عشرتِ بے حد غمِ قید وفا
میں شناسا بھی نہیں رنج گفتاری کا
جورِ پیہم نہ کرے شانِ توجہ پیدا
دیکھنا بدنام نہ ہو نام ستمگاری کا
ہیں جو اے عشق تری بے خبری کے بندے
بس ہو ان کا تو نہ لیں نام بھی ہشیاری کا
کٹ گیا قید میں ماہِ رمضان بھی حسرتؔ
گرچہ سامان سحر کا تھا نہ افطاری کا
(4)
تجھ سے وہ مِلا شوق سے اور تونے نہ جانا
حسرتؔ کو ابھی یاد ہے تیرا وہ زمانا
ہے ایک درِ پیرِمغاں تک تو رسائی
ہم بادہ پرستوں کا کہاں اور ٹھکانا
مخصوصِ غم عشق ہیں ہم لوگ ہمارا
اچھا نہیں اے گردشِ افلاک ستانا
صد شکر غمِ ہر دو جہاں سے ہے وہ فارغ
جو دل ہے ترے تیرِ محبت کا نشانا
اب عشق کا وہ حال، نہ ہے حُسن کا وہ رنگ
باقی ہے فقط عہدِ تمنّا کا فسانا
آتی ہے تری یاد ، سو حسرتؔ کو شبِ غم
ہر بار اُسے قصۂ دل کہہ کے سنانا
(5)
کوئی بھی پرساں نہیں حالِ دل رنجور کا
یہ ستم دیکھو دیار شوق کے دستور کا
جاتے جاتے رہ گیا وہ نازنیں صُبح وصال
ناز بردارِ اثر ہوں گریۂ مجبور کا
سر اٹھائے بزمِ جاناں میں بھلا کس کی مجال
رُعب غالب ہے یہ اس کے جلوۂ مغرور کا
ہے غضب کی دلفریبی آج حسن ماہ میں
بھر بھی دے اِک جام ساقی بادۂ پر نور کا
خاطرِ مایوس میں نقشِ امید ِ وصلِ یار
نور ہے صحرا میں گویا اک چراغ طور کا
یک قلم بے سود ہے اظہار ِ حالِ آرزو
حُسن بے پروا کے آگے عشق نامنظور کا
مستی عیشِ دوعالم کی نہیں پروا مجھے
دیکھنے والا ہوں میں اس نرگسِ مخمور کا
ہے سُپردِ خاک حسرتؔ واں جو اِک یار عزیز
قصداِک مدّت سے ہم رکھتے ہیں گورکھپور کا
ردیف ’م‘ ابتدائی پانچ غزلیں
1
روشن جمالِ یار سے ہے انجمن تمام
دہکا ہوا ہے آتشِ گُل سے چمن تمام
حیرت غرور ِ حسن سے شوخی سے اضطراب
دل نے بھی تیرے سیکھ لیے ہیں چلن تمام
اللہ ری جسمِ یار کی خوبی کہ خود بخود!!
رنگینیوں میں ڈوب گیا پیرہن تمام
دل خون ہو چکا ہے جگر ہو چکا ہے خاک
باقی ہو ں میں مجھے بھی کر اے تیغ زن تمام
دیکھو تو چشم یار کی جادو نگاہیاں
بیہوش اک منظر میں ہوئی انجمن تمام
ہے نازِحسن سے جو فروزاںجبینِ یار
لبریز آبِ نور ہے چاہ ذقن تمام
نشو ونما ئے سبز ہ وگل سے بہار میں
شادبیوںنے گھیر لیا ہے چمن تمام
اس ناز نیں نے جب سے کیا ہے وہاں قیام
گلزار بن گئی ہے زمین دکن تمام
اچھا ہے اہل جور کیے جائیں سختیاں
پھیلے گی یوں ہی شورشِ حبّ وطن تمام
سمجھے ہیں اہلِ شرق کو شاید قریبِ مرگ
مغرب کے یوں ہیں جمع یہ زاغ و زغن تمام
شیرینیٔ نسیمؔ ہے سوزوگداز ِ میرؔ
حسرتؔ ترے سخن پہ ہیَ لطفِ سخن تمام
ردیف ’ی‘ ابتدائی پانچ غزلیں
1
نگاہِ یار جسے آشانائے راز کرے
وہ اپنی خوبیٔ قسمت پہ کیوں نہ ناز کرے
دِلوں کو فکرِ دو عالم سے کر دیا آزاد
ترے جنوں کا خدا سلسلہ دراز کرے
خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے
ترے ستم سے میں خوش ہوں کہ غالباً یوں بھی
مجھے وہ شاملِ اربابِ امتیاز کرے
غمِ جہاں سے جسے ہو فراغ کی خواہش
وہ ان کے دردِ محبت سے ساز باز کرے
امید وار ہیںہر سمت عاشقوں کے گروہ
تری نگاہ کو اللہ دل نواز کرے
ترے کرم کا سزا وار تو نہیں حسرت
اب آگے تیری خوشی ہے جو سرفراز کرے
(2)
لایا ہے دل پر کتنی خرابی!
اے یار تیرا حسن شرابی
پیرہن اس کا ہے سادہ رنگیں
یا عکس مے سے شیشہ گلابی
عشرت کی شب کا وہ دور آخری
نورِ سحر کی وہ لاجوابی
پھرتی ہے اب تک دل کی نظر میں
کیفیت ان کی وہ نیم خوابی
بزمِ طرب ہے وہ بزم ، کیوں ہو
ہم غمزدوں کو واں باریابی
اس نازنیں نے باوصف ِ عصمت
کی وصل کی شب وہ بے حجابی
شوق اپنی بھولا گستاخ دستی
دل ساری شوخی حاضر جوابی
وہ روئے زیبا ہے جانِ خوبی
ہیں وصف جس کے سارے کتابی
اس قیدِ غم پر قربان حسرتؔ
عالی جنابی گردوں رکابی
(3)
اور تو پاس مرے ہجر میں کیا رکھا ہے
اک ترے درد کو پہلو میں چھپا رکھا ہے
دل سے ارباب ِوفا کا ہے بھلانا مشکل!
ہم نے یہ ان کے تغافل کو سنا رکھا ہے
تم نے بال اپنے جو پھولوں میں بسا رکھے ہیں
شوق کو اور بھی دیوانہ بنا رکھا ہے
سخت بے درد ہے تاثیر محبت کی نہیں
بسترِ ناز پہ سوتے سے جگا رکھا ہے
آہ وہ یاد کہ اس یادکو ہو کر مجبور
دل مایوس نے مدت سے بھلا رکھا ہے
کیا تامل ہے مرے قتل میں اے بازوِ یار
ایک ہی وار میں سر تن سے جدا رکھا ہے
حسن کو جور سے بیگانہ نہ سمجھو، کہ اُسے
یہ سبق عشق نے پہلے ہی پڑھا رکھا ہے
تیری نسبت سے ستمگر ترے مایوسوں نے
داغِ حرماں کو بھی سینے سے لگا رکھا ہے
کہتے ہیں اہل جہاں درد محبت جس کو
نام اس کا دلِ مضطر نے دوا رکھا ہے
نگہ یار سے پیکانِ قضا کا مشتاق!
دلِ مجبور نشانے پہ کھلا رکھا ہے
اس کا انجام بھی کچھ سوچ لیا ہے حسرتؔ
تونے ربط ان سے جو اس درجہ بڑھا رکھا ہے
(4)
دل کو تری دُزدیدہ نظر لے کے گئی ہے
اب یہ نہیں معلوم کدھر لے کے گئی ہے
اس بزم سے آزردہ نہ آئے گی محبت
آئینِ وفا مدِّ نظر لے کے گئی ہے
جب لے کے گئی ہے ہمیں تا کوئے ملامت
مجبوریٔ دِل خاک بسر لے کے گئی ہے
پہلے ہی سے مایوس نہ کیوں ہوں کہ دعا کو
قسمت مری محرومِ اثر لے کے گئی ہے
اللہ رے کا فر ترے اس حسن کی ہستی
جو زلف تری تا بہ کمر لے کے گئی ہے
مغموم نہ ہو خاطرِ حسرتؔ کہ تلک تک
پیغامِ وفا بادِ سحر لے کے گئی ہے
(5 )
نہ ہو اس کی خطا پوشی پہ کیوں نازِ گنہگاری!
نشانِ شانِ رحمت بن گیا داغِ سیہ کاری
ستم تم چھوڑدو میں شکوہ سنجہائے ناچاری!
کہ فرض عین ہے کیشِ محبت میں روا داری
وفا سے دشمنی رکھ کر مرے دل کی طلبگاری
بہت مشکل ہے اس جنس گرامی کی خرید داری
ہوئیں ناکامیاں بدنامیاں رسوائیان کیا کیا
نہ چھوٹی ہم سے لیکن کوئے جاناں کی ہوا داری
وہ دن اب یاد آتے ہیں کہ آغازِ محبت میں
نہ چالاکی تجھے اے شوخ آتی تھی نہ عیّاری
نہیں غم جَیب دامن کا مگر ہاں فکر ہے اتنی
نہ اٹھے گا مرے دست جنوں سے رنج بیکاری
نہ چھوڑا مرتے دم تک ساتھ بیمارِ محبت کا
قسم کھانے کے قابل ہے ترے غم کی وفا داری
نہ ان کو رحم آتا ہے نہ مجھ کو صبر ہے ممکن
کہیں آسان ہو یا ربّ محبت کی یہ دشواری
نہیں کھلتی مری نسبت تری اے حیلہ جو مرضی
کہ ہے اقرارِ دلجوئی نہ انکارِ ستم گاری
نہ کر اتنا ستم ہم در مندوں پر کہ دنیا سے
مباد ایک قلم اٹھ جائے تہذیب وفا داری
رواں ہے قافلہ سوئے عدم ارباب محنت کا
گیا پہلے ہی دل اب جانِ مخزوں کی ہے تیاری
خوشی سے ختم کر لے سختیاں قید فرہنگ اپنی
کہ ہم آزاد ہیں بیگانۂ رنجِ دل آزاری
نہ دیکھے دل اور دل عشّاق پر بھی نظر رکھے
قیامت ہے نگاہِ یار کا حسنِ خبر داری
یہی عالم رہا گر اس کے حُسن سحر پر ور کا
تو باقی رہ چکی دنیا میں راہ و رسمِ ہشیاری
وہ جرم آرزو پر جس قدر چاہیں سزا دے لیں
مجھے خود خواہش تعزیر ہے ملزم ہوں اقراری
چلابرسات کا موسم نہ چھوٹے قید غم سے ہم
بڑی بے لُطفیوں میں ا ب کے گزارا وقت میخواری
نسیم دہلوی کو وجد ہے فردوس میں حسرتؔ
جزاک اللہ تیری شاعری ہے یا فسوں کاری
فانی بدایونی حیات و خدمات
٭فانی بدایونی٭
¦پیدائش:1879بدایوں ¦وفات:1941 حیدرآباد
¦فانی کو یاسیات کا امام رشید احمد صدیقی نے کہا۔
¦فانی کی تصنیف:-
Eدیوان فانی 1921، باقیات فانی 1926، عرفانیات فانی 1939، وجدانیات فانی 1940
¦فانی کی وفات کے بعد حیرت بدایونی نے ان چاروں مجموعوں کو ایک ساتھ کلیات کی شکل میں مرتب کیا
کلام فانی کی ابتدائی دس غزلیں
(1)
وہ جی گیا جو عشق میں جی سے گزر گیا
عیسیٰ کو ہو نویدکی بیمار مر گیا
آزاد کچھ ہوئے ہیں اسیرانِ زندگی
یعنی جمال یار کا صدقہ اُتر گیا
دنیا میں حال آمد و رفتِ بشر نہ پوچھ
بے اختیار آکے رہا بے خبر گیا
شاید کی شامِ ہجرا ں کے مارے بھی جی آٹھے
صبح بہار حشر کا چہرہ اُتر گیا
آیا تو دل گیا کوئی پوچھے تو کیا کہوں
یہ جانتا ہوں دل اِدھر آیا اُدھر گیا
میں نے دیا کہ تم نے لیا دل تمھیں کہو
تم دل میں پہلے آئے کہ دل پیشتر گیا
ہاں سچ تو ہے شکایتِ زخمِ جگر غلط
دل سے گزر کے تیر تمہارا کدھر گیا
دل کا علاج کیجئے اب یا نہ کیجئے
اپنا جو کام تھا وہ غمِ یار کر گیا
کیا کہئے اپنی گرم رو یہائے شوق کو
کچھ دور میرے ساتھ مرا راہبر گیا
فانیؔ کی ذات سے غمِ ہستی کی تھی نمود
شیرازہ آج دفترِ غم کا بکھر گیا
(2 )
حاصلِ علم بشر جہل کا عرفا ں ہونا
عمر بھر عقل سے سیکھا کئے ناداں ہونا
چار زنجیر عناصر پہ ہے زنداں موقوف
وحشتِ عشق ذرا سلسلۂ جیناں ہونا
دِل بس اِک لرزشِ پیہم ہے سراپا یعنی
تیرے آئینہ کو آتا نہیں حیراں ہونا
فال افزونی مشکل ہے ہر آسانی کار
میری مشکل کو مُبارک نہیں آساں ہونا
راحت انجام ِ غم اور راحت ِ دنیا معلوم
لکھ دیا دل کے مقدر میں پریشاں ہو نا
دے تِرا حُسن تغافل جِسے جو چاہے فریب
ورنہ تو اور جفائوں پہ پشیماں ہونا
ہائے وہ جلوۂ ایمن وہ نگاہِ سرِ طور
فتنہ ساماں سے تِرافتنۂ ساماں ہونا
خاک فانیؔ کی قسم ہے تجھے اے دشت جنوں
کِس سے سیکھا ترے ذرّوں نے بیاباں ہونا
(3)
خوشی سے رنج کابدلہ یہاں نہیں ملتا
وہ مل گئے تو مجھے آسماں نہیں ملتا
ہزار ڈھونڈئیے ا س کا نشاں نہیں ملتا
جبیں ملے تو آستاںنہیں ملتا
مجازاور حقیقت کچھ اور ہے یعنی
تری نگاہ سے تیرا بیاں نہیں ملتا
بھڑک کے شعلۂ گل تو ہی اب لگا دے آگ
کہ بجلیوںکا مِرا آشیاںنہیں ملتا
وہ بدگماں کہ مجھے تاب رنجِ زیست نہیں
مجھے یہ غم کہ غمِ جاوداںنہیں ملتا
تری تلاش کافی الجملہ ماحصل یہ ہے
کہ تو یہاں نہیں ملتا وہاں نہیں ملتا
بتا اب اے جرسِ دور میں کدھر جائوں
نشان گردِ رہِ کارواں نہیں ملتا
مجھے بُلا کے یہاں آکے چھُپ گیا کوئی
وہ مہماں ہوں جِسے میزباں نہیں ملتا
تجھے خبر ہے ترے تیربے پناہ کی خیز
بہت دنوں سے دلِ ناتواں نہیں ملتا
کسی نے تجھ کو نہ جانا مگر یہ کم جانا
یہ راز ہے کہ کوئی رازداں نہیں ملتا
مجھے عزیز سہی قدرِ دل تمہیں کیوں ہو
کمی تو دل کی نہیں دل کہاں نہیں ملتا
دیار عمر میں اب قحط مہر ہے فانی
کوئی اجل کے سوا مہرباں نہیں ملتا
(4)
فغاں کے پردے میں سُن میری داستاں صیّاد
کہ پھر رہے نہ رہے طاقتِ بیاں صیاد
ترا اشارہ ترا ساز برق سے نہ سہی
تجھے خبر ہے کہ جلتا ہے آشیاں صیاد
نہ آقریب کی پروردۂ فنا ہوں میں
بنا ہے برق کے تنکو ں سے آشیاں صیاد
بس ایک آہ جہاں سوز کے اثر تک ہیں
یہ خار برق قفس دام آسماں صیاد
نکل ہی جائیں گے نالے دہن سے خوں ہو کر
زباں نہیں تو کھلے گی رگِ زباں صیاد
ستم رسیدۂ آوازۂ بیاں ہوں میں
قفس میں کھینچ کے لائی مری زبان صیاد
چمن میں دل ہے تو میری نگاہ میں ہے چمن
چمن سے تو مجھے لے جائے گا کہاں صیاد
یہ جذبِ ذوق اسیری ہے ورنہ اے فانیؔ
کہاں میں سوختہ دل مست پر کہاں صیاد
(5)
کیا کہئے کہ بیداد ہے تیری بیداد
طوفانِ محبت کی زد میں فریاد
دل محشرِ بے خودی ہے اللہ اللہ
یاد اور کسی کی بھول جانے والے کی یاد
پابندی رسم بر طرف کیوں اے موت
ان کے بھی کئے ہیں تو نے قیدی آزاد
اللہ یہ بجلیاںنہ کام آئیں گی
آندھی ہی ہے کیوں ہو آشیاں نہ برباد
دنیا جسے کہتی ہے زمانہ فانیؔ
ہے ایک طلسم اجتماعِ اضداد
(6 )
اب لب پہ وہ ہنگامۂ فریاد نہیں ہے
اللہ رے تری یاد کہ کچھ یاد نہیں ہے
آتی ہے صبا سُوے لحد ان کی گلی سے
شاید مری مٹی ابھی برباد نہیں ہے
اللہ بچائے اثرِ ضبط سے ان کو
بیداد تو ہے شکوۂ بیداد نہیں ہے
آمادۂ فریاد رسی ہے وہ ستم گر
فریاد کی اب طاقتِ فریاد نہیں ہے
دنیا میں دیارِ دل فانیؔ کے سواہائے
کوئی بھی وہ بستی ہے جو آباد نہیں ہے
(7)
دل چرا کر نگاہ ہے خاموش
ہوش اور مست ہو کے اتنا ہوش
مست کو چاہئے بلا کا ہوش
خم دیئے اور دیا نہ اذن خروش
ہر مسافر سے پوچھ لیتا ہوں
خانہ برباد ہوں کہ خانہ بدوش
ہوسِ جلوہ اور نظر! غافل
کہ نظر ہے صلائے جلوۂ فروش
شاید اب منزل عدم ہے قریب
یاد خاکِ وطن ہے طوفاں جوش
فضل تیراشفیع طاعت و زہد
عدل عاصی نواز عصیاں پوش
ہجر نے کی مفارقت فانیؔ
لے مبارک ہو موت کا آغوش
(8 )
میں ہوں اِک مرکز ہنگامۂ ہوش ورم ہوش
دل اگر عالمِ ہستی ہے تو سر عالم ہوش
عدم ہوش پہ ہے فطرت ہستی مائل
کس تو قع پہ اٹھائے کوئی نازِ غم ہوش
بیخودی مایۂ عرفان خودی ہے یعنی
محرمِ جلوۂ اسرار ہے نامحرمِ ہوش
کچھ نہ وحدت ہے نہ کثرت نہ حقیقت نہ مجاز
یہ ترا عالمِ ہستی وہ ترا عالم ہوش
مظہر ہستی وخلاق عدم ہے میری ذات
کچھ نہ تھا ورنہ بجز سلسلۂ برہم ہوش
عجب اک سانحۂ ہوش ربا تھی وہ نگاہ
میں ہوں اک عمر سے فانیؔ ہمہ تن ماتم ہوش
(9 )
کیا ہوا باندھی ہے صدقے نالۂ شبگیر کے
آسماں پر اکھڑے جاتے ہیںقدم تاثیر کے
بے مروت بن کے اب کیا سوئے صحرا جائیے
لوٹتے ہیں پانوں پر حلقے مری زنجیر کے
ضبط باقی غم سلامت ہے تو سن لینا کبھی
آہ گھبرا کر نکل آئی کلیجہ چیر کے
وصل سے محروم میں ہوں ورنہ گستاخی معاف
بوسے لیتا ہے تصور آپ کی تصویر
مجھ کو مضطر دیکھ کر کہتا ہے قاتل پیارسے
آاِدھر سایہ میں سو جا دامنِ شمشیر کے
ساتھ جائے گا مری میّت کے سامانِ خلش
دل میں رکھ چھوڑے ہیں پیکاں میں نے تیرے تیر کے
میرے مرتے ہی دلِ بیتاب کو چین آگیا
زندگی صدقے میں اتری گردشِ تقدیر کے
سعی درماں بے اثر فکر دوا بے فائدہ
زخم دل اے چارہ گر قائل نہیں تدبیر کے
یاس کے آتے ہی ارماں دل یہ کہہ کر چلے
ہم نہیں ساتھی تری بگڑی ہوئی تقدیر کے
دیکھئے کیا ہو وہ اور آزردگئی بے سبب
ہم خطا نا کردہ خوگر عذرِ بے تقصیر کے
دیکھ فانی ؔ وہ تری تدبیر کی میت نہ ہو
اِک جنازہ جا رہا ہے دوش پر تقدیر کے
(10 )
برہم ہے میری ذات سے سارا نظام عیش
ٹوٹا ہے میری عہدمیں نیرنگ نظام عیش
اب احتیاج شکوۂ اختر نہیں مجھے
مینائے خون عیش سے بھرتا ہوں جامِ عیش
گلشن صلائے عام اسیری ہے سر بسر
پھیلا دیا بہار نے پھولوں پہ دام عیش
اصغر گونڈوی حیات و خدمات
٭اصغر گونڈوی٭
¦پیدائش:1884 گورکھ پور ¦وفات:1936 الٰہ آباد۔
¦اصغر کا پہلا شعری مجموعہ’’ نشاط روح ‘‘ہے ۔
¦دوسرا مجموعہ ’’سرود زندگی ‘‘ہے۔
¦اصغرنے مظہر جان جاناں کا دیوان مرتب کیا تھا۔
¦اردو کی نشو نمااصغرکے تنقیدی مضمون کا نام ہے۔
نشاط روح ‘‘کی ابتدائی گیارہ غزلیں
(1)
ادنیٰ سا یہ حیرت کا کرشمہ نظر آیا
جو تھا پس پردہ سرِ پردہ نظر آیا
پھر میں نظر آیا نہ تماشا نظر آیا
جب تو نظر آیا مجھے تنہا نظر آیا
اللہ رے دیوانگیِ شوق کا عالم
اک رقص میں ہرذرہ صحرا نظر آیا
اٹھے عجب انداز سے وہ جوش غضب میں
چڑھتا ہوا اِک حسن کا دریا نظر آیا
کس درجہ ترا حُسن بھی آشوبِ جہاں ہے
جس ذرّے کو دیکھا تڑپتا نظر آیا
اب خود ترا جلوہ جو دکھاوے وہ دکھاوے
یہ دیدۂ بینا تو تماشا نظر آیا
تھا لطفِ جنوں دیدۂ خوننابہ فشاں سے
پھولوں سے بھرا دامن صحرا نظر آیا
(2)
دلِ نثار مصطفیٰ جاں پائمال مصطفیٰ
یہ اویس مصطفیٰ ہے وہ بلالِ مصطفیٰ
دونوں عالم تھے مرے حرفِ دعا میں غرق محو
میں خدا سے کر رہا تھا جب سوالِ مصطفیٰ
سب سمجھتے ہیں اِسے شمعِ شبستانِ حرا
نور ہے کونین کا لیکن جمالِ مصطفیٰ
عالمِ ناسوت میں اور عالم لاہوت میں
کوندتی ہے ہر طرف برقِ جمالِ مصطفیٰ
عظمت تنزیہہ دیکھی شوکت تشبیہہ بھی
ایک حال مصطفیٰ ہے ایک قال مصطفیٰ
دیکھئے کیا حال کر ڈالے شب یلدائے غم
ہاں نظر آئے ذرا صبح جمالِ مصطفیٰ
ذرّہ ذرّہ عالم ہستی کا روشن ہو گیا
اللہ اللہ شوکت و شانِ جمالِ مصطفیٰ
(3)
خوب دن تھے ابتدائے عشق کے
اب دماغِ نالہ و شیون کہاں
اس رخِ رنگیں سے آنکھیں سینکئے
ڈھونڈھیے اب آتش ایمن کہاں
سارے عالم میں کیا تجھ کو تلاش
تو ہی بتلا ہے رگِ گردن کہاں
خوب تھا صحرا پر اے ذوقِ جنوں
پھاڑنے کو نت نئے دامن کہاں
شوق سے ہے ہر رگِ جاں جست میں
لے اڑے گی بوئے پیراہن کہاں
(4)
حیراں ہے زاہد مری مستانہ ادا سے
سو راہ طریقت کھلیں اک لغزشِ پا سے
اک صورت افتاد کی نقش فنا ہوں
اب راہ سے مطلب نہ مجھے راہ نما سے
میخانہ اک روح مجھے کھینچ کے دے دی
کیا کر دیا ساقی نِگہ ہوش ربا سے
(5)
فتنہ سامانیوں کی خو نہ کرے
مختصر یہ کہ آرزو نہ کرے
پہلے ہستی کی ہے تلاش ضرور
پھر جو غم ہو تو جستجو نہ کرے
ماورائے سخن بھی ہے کچھ بات
بات یہ ہے کہ گفتگو نہ کرے
(6)
وہ اک دل دماغ کی شادابی نشاط
گرنا چمک کے اف تری برق نگاہ کا
وہ لذت الم کا جو خو گر سمجھ گئے
اب ظلم مجھ پہ ہے کہ ستم گاہ گاہ کا
شیشے میں موج مئے کو یہ کیا دیکھتی ہیں آپ
اس میں جواب ہے اسی برق نگاہ کا
(7)
عشق ہی سعی مری عشق ہی حاصل میرا
یہی منزل ہے یہی جادۂ منزل میرا
یوں اڑائے لئے جاتا ہے دل میرا
ساتھ دیتا نہیں اب جادہ ٔ منزل میرا
یوں اڑائے لئے جاتا ہے مجھے دل میرا
ساتھ دیتا نہیں اب جادۂ منزل میرا
اور آجائے نہ زندانیِ وحشت کوئی
ہے جنوں خیر بہت شور سلاسل میرا
میں سراپا ہوں تمنّا ہمہ تن درد ہوں میں
ہر بُن مو میں تڑپتا ہے مرے دل میرا
داستاں ان کی ادائو ں کی ہے رنگیں لیکن
اس میں کچھ خون تمنا بھی ہے شامل میرا
بے نیازی کو تری کچھ بھی پذیرانہ ہوا
شکر اخلاص مرا شکوہ ٔباطل میرا
(8)
ہے ایک ہی جلوہ جو ادھر بھی ہے ادھر بھی
آئینہ بھی حیران ہے آئینہ نگر بھی
ہو نور پہ کچھ اور ہی نور کا عالم
اس رُخ پہ جو چھا جائے مرا کیف نظر بھی
تھا حاصلِ نظّارہ فقط ایک تحیّر
جلوے کو کہے کون کہ اک اب گم ہے نظر بھی
(9)
مستی میں فروغِ رُخِ جاناں نہیں دیکھا
سنتے ہیں بہار آئی گلستاں نہیں دیکھا
زاہد نے مرا حاصل ایماں نہیں دیکھا
رخ پر تری زلفوں کو پریشاں نہیں دیکھا
آئے تھے سبھی طرح کے جلوے مرے آگے
میں نے مگر اے دیدۂ حیراں نہیں دیکھا
اس طرح زمانہ کبھی ہوتا نہ پُر آشوب
فتنوں نے ترا گوشۂ داماں نہیں دیکھا
ہر حال میں نہیں پیش نظر وہی صورت
میں نے کبھی روئے شبِ ہجراں نہیں دیکھا
کچھ دعوی تمکیں میں ہے معذور بھی زاہد
ہستی میں تجھے چاک گریباں نہیں دیکھا
روداد چمن سنتا ہوں اس طرح قفس میں
جیسے کبھی آنکھوں سے گلستاں نہیں دیکھا
کیا کیا ہوا ہنگام جنوں یہ نہیں معلوم
کچھ ہوش جو آیا تو گریباں نہیں دیکھا
شائستۂ صحبت کوئی ان میں نہیں اصغر ؔ
کافر نہیں دیکھے کہ مسلماں نہیں دیکھا
(10)
رخ رنگین پہ موجیں ہیں تبسم ہائے پنہاں کی
شعائیں کیا پڑیں رنگت نکھر آئی گلستاں کی
نقاب اس نے الٹ کر حقیقت ہم پہ عریاں کی
یہیں ختم ہو جاتی ہیں بحثیں کفر ایماں کی
روانی رنگ لائی دیدۂ خوننا بہ افشاں کی
اتر آئی ہے اک تصویر دامن پر گلستاں کی
حقیقت کھول دیتا میں جنون کے راز پنہا کی
قسم دے دی ہے قیس نے چاک گریباں کی
مری اک بیخود یمیں سینکڑوں ہوش و خرد وگم ہیں
یہاں کے ذرّہ ذرّہ میں ہے وسعت اک بیاباں کی
مجھی سے بگڑے رہتے ہیں مجھی پر ہے عتاب ان کا
ادائیں چھپ نہیں سکتیں نواز شہائے پنہاں کی
اسیرانِ بلا کی حسرتوں کو آہ کیا کہئے
تڑپ کے ساتھ اونچی ہو گئی دیوار زنداں کی
(11)
ادھر وہ خندۂ گلہائے رنگیں صحن گلشن کی
ادھر اک آگ لگ جاناوہ بلبل کے نشیمن میں
بن آئی ہے بادہ نوشو ں کی بہار آئی ہے گلشن میں
لبِ جو ڈھل رہی ہے بھر لیے پھول دامن میں
تپش جو شوق میں تھی وصل میں بھی ہے وہی مجھ کو
چمن میں بھی وہی اک آگ ہے جو تھی نشیمن میں
مری وحشت پہ بحث آرائیاں اچھی نہیں ناصح!
بہت سے باندھ رکھے ہیں گریباں میں نے دامن میں
الٰہی کون سمجھے میری آشفتہ مزاجی کو
قفص میں چین آتا ہے نہ راحت ہے چمن میں
بہار آتے ہی وہ ایکبارگی میرا تڑپ جانا
وہ جا پڑنا قفس کا آپ سے آپ اُڑکے گلشن میں
ابھی اِک موج مے اٹھی تھی میخانے میں اے واعظ
ابھی اک برق چمکی تھی مرے وادی ایمن میں
جگر مرادآبادی حیات و خدمات
٭جگر مراد آبادی٭
¦پیدائش:1890 مرادآباد ۔ ¦وفات:1960 گونڈا ۔
¦جگر کو رئیس المتغزلین کہا جاتا ہے۔
¦جگر کے شعری مجموعے : (۱)داغِ جگر 1922 (۲)شعلہ طور 1932 (۳)آتش گل 1958
¦’’یادگار جگر‘‘ یہ مجموعہ محمد اسلام نے مرتب کیا تھا۔
¦جگر کو 1959 میں ساہتیہ اکیڈمی انعام ملا۔
آتش گل کی 10 غزلیں
(1)
ہر حقیقت کو باند از تماشا دیکھا
خوب دیکھا تیرے جلوؤں کو مگر کیا دیکھا
جستجو میں تری حاصلِ سودا دیکھا
ایک ایک ذرّے کا آغوشِ طلب وا دیکھا
آئینہ خانۂ عالم میں کہیں کیا دیکھا
تیرے دھوکے میں خو د اپنا ہی تماشا دیکھا
ہم نے ایسا نہ کوئی دیکھنے والا دیکھا
جو یہ کہہ دے کہ ترا حسنِ سراپا دیکھا
دلِ آگاہ میں کیا کہتے ہیں جگرؔ کیا دیکھا
لہریں لیتا ہوا اِک قطرے میں دریادیکھا
کوئی شائستہ و شایانِ غم دل نہ ملا
ہم نے جس بزم میں دیکھا اسے تنہا دیکھا
(2)
یادش بخیر جب وہ تصور میں آگیا
شعر و شباب و حسن کا دریا بہا گیا
جب عشق اپنے مرکزِ اصلی پہ آگیا
خود بن گیاحَسین دو عالم پہ چھا گیا
جو دل کا راز تھا اسے کچھ دل ہی پا گیا
وہ کر سکے بیاں، نہ ہمیں سے کہا گیا
ناصح فسانہ اپنا ہستی میں اڑا گیا
خوش فکر تھا کہ صاف یہ پہلو بچا گیا
اپنا زمانہ آپ بناتے ہیں اہل دل
ہم وہ نہیں جن کو زمانہ بنا گیا
دل بن گیا نگاہ ،نگہہ بن گئی زباں
آج اِک سکوتِ شوق قیامت ہی ڈھا گیا
میرا کمالِ شعر بس اتنا ہے اے جگرؔ
وہ مجھ پہ چھا گئے میں زمانے پہ چھا گیا
(3)
کوئی جیتا کوئی مرتا ہی رہا
عشق اپنا کام کرتا ہی رہا
جمع خاطر کوئی کرتا ہی رہا
دل کا شیرازہ بکھرتا ہی رہا
غم وہ میخانہ، کمی جس میں نہیں
دل وہ پیمانہ کہ بھرتا ہی رہا
حُسن تو تھک بھی گیا لیکن یہ عشق
کارِ معشوقانہ کرتا ہی رہا
وہ مٹاتے ہی رہے لیکن یہ دل
نقش بن بن کر ابھرتا ہی رہا
دھڑکنیں دل کی سبھی کچھ کہہ گئیں
دل کو میں خاموش کرتا ہی رہا
تم نے نظریں پھیر لیں تو کیا ہوا
دل میں اِک نشتر اترتا ہی رہا
(4)
گدازِ عشق نہیں کم جو میں جواں نہ رہا
وہی ہے آگ مگر آگ میں دھول نہ رہا
نہیں کہ دل مرا وقفِ غم نہاں نہ رہا
مگر وہ شیوۂ فرسودۂ بیاں نہ رہا
زہے وہ شوق جو پابندِ این و آں نہ رہا
خوشا وہ سجدہ جو محدودِ آستاں نہ رہا
حجاب عشق کو اے دل بہت غنیمت جان
رہے گا کیا جو یہ پردہ بھی درمیاں نہ رہا
چمن تو برقِ حوادث سے ہو گیا محفوظ
مری بلا سے اگر میرا آشیاں نہ رہا
جنونِ سجدہ کی معراج ہے یہی شاید
کہ تیرے در کے سوا کوئی آستا ں نہ رہا
کمالِ قرب بھی شاید ہے عین بعد جگرؔ
جہاں جہاں وہ ملے میں وہاں وہا ں نہ رہا
(5)
دل کو سکون، روح کو آرام آ گیا
موت آگئی کہ دوست کا پیغام آگیا
جب کوئی ذکرِ گردشِ ایّام آگیا
بے اختیار لب پہ ترا نام آگیا
غم میں بھی ہے سرور وہ ہنگام آگیا
شاید کہ دورِبادۂ گلفام آگیا
دیوانگی ہو ، عقل ہو ، امید ہو کہ یاس
اپنا وہی ہے وقت پہ جو کام آگیا
دل کے معاملات میں ناصح شکست کیا
سو بار حسن پر بھی یہ الزام آگیا
صیّاد شادماں ہے، مگر یہ سوچ لے
میں آگیا کہ سایہ تہہ دام آگیا
دل کو نہ پوچھ معرکۂ حسن و عشق میں
کیا جانیے غریب کہاں کام آگیا
یہ کیا مقام ِ عشق ہے ظالم کہ اِن دنوں
اکثر ترے بغیر بھی آرام آگیا
احباب مجھ سے قطع تعلق کریں جگر|
اب آفتابِ زیست لبِ بام آگیا
(6)
شعر و نغمہ، رنگ و نکہت، جام وصہبا ہو گیا
زندگی سے حسن نکلا اور رُسواہو گیا
اور بھی آج اور بھی ہر زخم گہرا ہو گیا
بس کر اے چشمِ پشیماں کام اپنا ہو گیا
اس کو کیا کیجیے زبانِ شوق کو چپ لگ گئی
جب یہ دل شائستہ عرضِ تمنا ہو گیا
اپنی اپنی وسعتِ فکر و یقیں کی بات ہے
جس نے جو عالم بنا ڈالا وہ اس کا ہو گیا
ہم نے سینے سے لگایا دل نہ اپنا بن سکا
مسکرا کر تم نے دیکھا دل تمہارا ہو گیا
میںنے جس بت پر نظر ڈالی جنونِ شوق میں
دیکھتا کیاہوں وہ تیرا ہی سراپا ہوگیا
اُٹھ سکا ہم سے نہ بارِ التفاتِ ناز بھی
مر حبا وہ، جس کو تیرا غم گوارا ہو گیا
چمن میں جس روش سے ہو کے گزرے بے نقاب
دفعتاًہر ایک گُل کا رنگ گہرا ہو گیا
شش جہت آئینۂ حسنِ حقیقت ہے جگرؔ
قیس دیوانہ تھا ، محوِ روئے لیلیٰ ہو گیا
(7)
رو بروئے دوست ہنگامِ سلام آہی گیا
رخصت اے دیر و حرم ، دل کا مقام آہی گیا
منتظر کچھ رند تھے جس کے وہ جام آہی گیا
باش اے گردوں کہ وقتِ انتقام آہی گیا
ہر نفس خود بن کے میخانہ بجام آہی گیا تو
یہ جس سے کانپتی تھی وہ مقام آہی گیا
اللہ اللہ یہ مری ترکِ طلب کی وسعتیں
رفتہ رفتہ سامنے حُسنِ تمام آہی گیا
اوّل اوّل ہر قدم پر تھیں ہزاروں منزلیں
آخر آخر اِک مقامِ بے مقام آہی گیا
(8)
التفاتِ چشمِ ساقی کی سُبک تابی نہ پوچھ
میں یہ سمجھا جیسے مجھ تک دورِ جام آہی گیا
عشق کو تھا کب سے اپنی خشک دامانی کا رنج
ناگہاں آنکھوں کو اشکوں کا سلام آہی گیا
ہر نگہہ پر بندشیں، اِ ک اِک نفس کی پُر سشیں
ہو شیار اے عشق، وہ نازک مقام آہی گیا
اہلِ دنیا اور کُفرانِ زمانہ تا بہ کے
خود زمانہ بن کے تیغِ بے نیام آہی گیا
شوق نے ہر چندصدہا تفرقے ڈالے مگر
زندگی کو راس دُزدِ ناتمام آہی گیا
صحبت رنداں سے واعظ کچھ نہ حاصل کر سکا
بہکا بہکا سا مگر طرزِ کلام آہی گیا
بے جگرؔسونا پڑا تھا مدّتوں یہ میکدہ
پھر وہ دریا نوش رندِ تشنہ کام آہی گیا
(9)
یک لحظ خوشی کا جب انجام نظر آیا
شبنم کو ہنسی آئی دل غنچوں کا بھر آیا
یہ کون تصور میں ہنگامِ سحر آیا
محسوس ہوا جیسے خود عرش اُتر آیا
خیر اس کو نظر آیا، شراس کو نظر آیا
آئینے میں خود عکسِ آئینہ نظر آیا
اس بزم سے دل لے کر کیا آج اثر آیا
ظالم جسے سمجھے تھے، مظلوم نظر آیا
اُس جانِ تغافل نے پھر یادکیا شاید
پھر عہد محبت کا ہر نقش اُ بھرآیا
گلشن کی تباہی پر کیوں رنج کرے کوئی
الزام جو آنا تھا، دیوانوں کے سر آیا
یہ محفلِ ہستی بھی کیا محفلِ ہستی ہے
جب کوئی اٹھا پردہ میں خود نظر آیا
(10)
کچھ رات رہے ساقی جو اٹھا کہتا ہوا ہر میخوار اٹھا
کیا بات ترے میخانے کی، جو رند اٹھا ہوشیار اٹھا
مطرب ! وہ کہاں اب بزمِ طرب ، تکلیف ِ رہِ پُرخار اُٹھا
ساقی یہ زبانِ عیش نہیں ،شیشہ نہ اٹھا ، تلوار اٹھا
شاعر کو تھا جس کا اندیشہ وہ فتنہ بھی آخر کار اٹھا
اِک طیش میں ہر مظلوم بڑھا،اِک غیظ میں ہر فن کار اٹھا
کچھ اپنی گرہ سے کھو کر ہی اس بزم سے دل ناچار اٹھا
حالاں کی بہت بیدار رہا، ہر چند بہت ہشیار اٹھا
کوئی نہ اٹھا میخانے سے شائستۂ میخانہ بن کر
یہ مست شرابِ عجز اٹھا ،وہ مست مئیِ پندار اٹھا
زنداں میں تو مجھ کو ڈال دیا ،اے حاکم زنداں تونے مگر
پرواز مری جو روک سکے، ایسی بھی کوئی دیوار اٹھا
یگانہ چنگیزی حیات و خدمات
٭یگانہ چنگیزی٭
¦پیدائش:1884 میں پٹنہ ¦وفات:1956 لکھنؤ۔
¦یگانہ کے شعری مجموعے:-
(۱)نشتر یاس 1914(۲)آیات وجدانی 1927(۳)ترانہ 1933(۴)گنجینہ
(۵)کجکول(۶)چراغ سخن(۷)شہرت کاذبہ(۸)غالب شکن 1934(۹)دوآشتہ 1955
¦آیات وجدانی کا پہلا ایڈیشن 1927 میں شائع ہوا
یگانہ سے متعلق اہم اقوال
¦یگانہؔ، فراقؔ اور شادؔ عارفی نے اپنی اپنی انفرادیت کو زیادہ استقلال بخشا۔ انھوں نے غزل کے سرمایے سے ایسے الفاظ کم کرنے کی کوشش کی جو اردو غزل کی دونوں روایتوں میں مشترک تھے۔‘‘
(شمس الرحمن فاروقی)
¦’’یگانہ اور شادؔ کی غزل ہر اعتبار سے سوداؔ کے اسلوب کی اسیر تھی۔‘‘ (شمس الرحمن فاروقی)
¦’’یگانہؔ میں جھنجھلاہٹ، تنگ نظری، اکڑفوں، غصّہ، خشک مزاجی تو نظر آتی ہے لیکن نا بالغ عشق کی میٹھی گولیوں سے ان کا کلام یکسر عاری ہے۔ یگانہ غالباً غزل کے پہلے شاعر ہیں جنھیں لہجہ کا شاعر کہنا چاہیے۔‘‘ (شمس الرحمن فاروقی).
آیات وجدانی کی ابتدائی دس غزلیں
(1)
خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا
پیام زیر لب ایسا کہ کچھ سنا نہ گیا
اشارہ پاتے ہی انگڑائی لی رہا نہ گیا
ہنسی میں وعدۂ فردا کو ٹالنے والو
لو دیکھ لو وہی کل آج بن کے آ نہ گیا
گناہ زندہ دلی کہیے یا دل آزاری
کسی پہ ہنس لیے اتنا کہ پھر ہنسا نہ گیا
پکارتا رہا کس کس کو ڈوبنے والا
خدا تھے اتنے مگر کوئی آڑے آ نہ گیا
کروں تو کس سے کروں درد نارسا کا گلہ
کہ مجھ کو لے کے دل دوست میں سما نہ گیا
بتوں کو دیکھ کے سب نے خدا کو پہچانا
خدا کے گھر تو کوئی بندۂ خدا نہ گیا
کرشن کا ہوں پجاری علی کا بندہ ہوں
یگانہ شان خدا دیکھ کر رہا نہ گیا
(2)
مجھے دل کی خطا پر یاسؔ شرمانا نہیں آتا
پرایا جرم اپنے نام لکھوانا نہیں آتا
برا ہو پائے سرکش کا کہ تھک جانا نہیں آتا
کبھی گمراہ ہو کر راہ پر آنا نہیں آتا
ازل سے تیرا بندہ ہوں ترا ہر حکم آنکھوں پر
مگر فرمانِ آزادی بجا لانا نہیں آتا
سراپا راز ہوں میں کیا بتاؤں کوں ہوں کیا ہوں
سمجھتا ہوں مگر دنیا کو سمجھانا نہیں آتا
دل بے حوصلہ ہے اک ذرا سی ٹھیس کا مہماں
وہ آنسو کیا پیے گا جس کو غم کھانا نہیں آتا
مصیبت کا پہاڑ آخر کسی دن کٹ ہی جائے گا
مجھے سر مار کر تیشے سے مر جانا نہیں آتا
مجھے اے ناخدا آخر کسی کو منہ دکھانا ہے
بہانہ کر کے تنہا پار اتر جانا نہیں آتا
اسیروشوقِ آزادی مجھے بھی گدگداتا ہے
مگر چادر سے باہر پائوں پھیلانا نہیں آتا
(3)
بیٹھا ہوں پاؤں توڑ کے تدبیر دیکھنا
منزل قدم سے لپٹی ہے تقدیر دیکھنا
پہنا دیا ہے طوق غلامی تو، ایک دن
میری طرف بھی مالک تقدیر دیکھنا
مجھ ناتواں کا صبر تو کیا آزمائوگے
راس آئے تم کو جوہرِ شمشیر دیکھنا
ہوش اُڑ نہ جائیں صنعتِ بہزاد دیکھ کر
آئینہ رکھ کے سامنے تصویر دیکھنا
آوازے مجھ پہ کستے ہیں پھر بندگان عشق
پڑ جائے پھر نہ پاؤں میں زنجیر دیکھنا
مردوں سے شرط باندھ کے سوئی ہے اپنی موت
ہاں دیکھنا ذرا فلک پیر دیکھنا
چونکے تو چشم شوق میں عالم سیاہ تھا
خواب نظر فریب کی تعبیر دیکھنا
پروانے کر چکے تھے سرانجام خودکشی
فانوس آڑے آ گیا تقدیر دیکھنا
شاید خدانخواستہ آنکھیں دغا کریں
اچھا نہیں نوشتۂ تقدیر دیکھنا
اصلاح کی مجال نہیں ہے تو کیا ضرور
بے ربطیٔ نوشتۂ تقدیر دیکھنا
ہر خوب و زشت آپ ہی اپنی مثال ہے
حدکمالِ کاتبِ تقدیر دیکھنا
باد مراد چل چکی لنگر اٹھاؤ یاسؔ
پھر آگے بڑھ کے خوبیِ تقدیر دیکھنا
(4)
چلے چلو جہاں لے جائے ولولہ دل کا
دلیل راہ محبت ہے فیصلہ دل کا
ہوائے کوچۂ قاتل سے بس نہیں چلتا
کشاں کشاں لیے جاتا ہے ولولہ دل کا
گلہ کسے ہے کہ قاتل نے نیم جاں چھوڑا
تڑپ تڑپ کے نکالوں گا حوصلہ دل کا
خدا بچائے کہ نازک ہے ان میں ایک سے ایک
تنک مزاجوں سے ٹھہرا معاملہ دل کا
دکھا رہا ہے یہ دونوں جہاں کی کیفیت
کرے گا ساغر جم کیا مقابلہ دل کا
کسی کے ہو رہو اچھی نہیں یہ آزادی
کسی کی زلف سے لازم ہے سلسلہ دل کا
پیالہ خالی اٹھا کر لگا لیا منہ سے
کہ یاسؔ کچھ تو نکل جائے حوصلہ دل کا
(5)
دھواں سا جب نظر آیا سواد منزل کا
نگاہِ شوق سے آگے تھا کارواں دل کا
چراغ لے کے کسے ڈھونڈتے ہیں دیوانے
نشاں تو دور ہے یاں نام تک نہیں دل کا
کبھی تو موج میں آئے گا تیرا دیوانہ
اشارہ چاہیے ہے جنبش سلاسل کا
ازل سے اپنا سفینہ رواں ہے دھارے پر
ہوا ہنوز نہ گرداب کا نہ ساحل کا
نہ سر میں نشہ ہے باقی نہ دل میں کیفیت
زباں پہ رہ گیا اک ذکر خیر محفل کا
وہ دشتِ شل جو دعا کے لیے بھی اٹھ نہ سکے
ارادہ کون سے بل پر کرے گاساحل کا
نہ جانے جھوٹ ہے یا سچ ہے وعدۂ فردا
اجل پہ فیصلہ ٹھہرا ہے حق و باطل کا
پرائی موت کا احساں بھی ہے ہمیں منظور
کہیں طلسم تو ٹوٹے عدم کی منزل کا
خود اپنی آگ میں جلتا تو کیمیا ہوتا
مزاج داں نہ تھا پروانہ شمع محفل کا
ہوا پھری افسردہ دلوں کی رُت بدلی
اُبل پڑا ہے پھر رنگ نقش باطل کا
جواب حسن طلب بے دلوں سے بن نہ پڑا
حیا سے گڑ گئے جب نام آگیا دل کا
امید و بیم نے وہ راستا ہی چھوڑ دیا
چراغ گل ہوا جب آستانۂ دل کا
فلک ہے دونوں طرف کا نگاہباں جب تک
نہ اپنی آنکھ اُٹھے گی نہ پردہ محمل کا
جناب یاس تھے تعبیر بد سے خود آگاہ
زباں گنگ تک آیا نہ ماجرا دل کا
(6)
چراغ زیست بجھا دل سے اک دھواں نکلا
لگا کے آگ مرے گھر سے میہماں نکلا
دل اپنا خاک تھا پھر خاک کو جلانا کیا
نہ کوئی شعلہ اٹھا اور نہ کچھ دھواں نکلا
سنیں گے چھیڑ کے افسانہ ٔدل مرحوم
ادھر سے ملک عدم کا جو کارواں نکلا
تڑپ کے آبلہ پا اٹھ کھڑے ہوئے آخر
تلاش یار میں جب کوئی کارواں نکلا
لہو لگا کے شہیدوں میں ہو گئے داخل
ہوس تو نکلی مگر حوصلہ کہاں نکلا
حریم ناز میں شاید کسی کو دخل نہیں
دل عزیز بھی نا خواندہ میہماں نکلا
نہاں تھا خانۂ دل میں ہی شاہد مقصود
جو بے نشاں تھا وہ دیوار درمیاں نکلا
ہے فن عشق کا استاد بس دل وحشی
مریض غم کا یہی اک مزاج داں نکلا
لگا ہے دل کو اب انجام کار کا کھٹکا
بہار گل سے بھی اک پہلوئے خزاں نکلا
زمانہ پھر گیا چلنے لگی ہوا الٹی
چمن کو آگ لگا کر جو باغباں نکلا
ہمارے صبر کی کھاتے ہیں اب قسم اغیار
جفا کشی کا مزہ بعد امتحاں نکلا
خوشی سے ہو گئے بد خواہ میرے شادیٔ مرگ
کفن پہن کے جو میں گھر سے ناگہاں نکلا
اجل سے بڑھ کے محافظ نہیں کوئی اپنا
خدا کی شان کہ دشمن نگاہ باں نکلا
دکھایا گور سکندر نے بڑھ کے آئینہ
جو سر اٹھا کے کوئی زیر آسماں نکلا
لحد سے بڑھ کے نہیں کوئی گوشۂ راحت
قیامت آئی جو اس گھر سے میہماں نکلا
اب اپنی روح ہے اور سیر عالم بالا
کنویں سے یوسف گم کردہ کارواں نکلا
کلام یاسؔ سے دنیا میں پھر اک آگ لگی
یہ کون حضرت آتشؔ کا ہم زباں نکلا
(7)
قفس کو جانتے ہیں یاسؔ آشیاں اپنا
مکان اپنا زمین اپنی آسماں اپنا
ہوائے تند میں ٹھہرا نہ آشیاں اپنا
چراغ جل نہ سکا زیر آسماں اپنا
سنا ہے رنگ زمانہ کا اعتبار نہیں
بدل نہ جائے یقیں سے کہیں گماں اپنا
بس ایک سایٔ دیوار یار کیا کم ہے
اٹھا لے سر سے مرے سایہ آسماں اپنا
مزے کے ساتھ ہوں اندوہ و غم تو کیا کہنا
یقیں نہ ہو تو کرے کوئی امتحاں اپنا
شریک حال ہوا ہے جو فقر و فاقہ میں
گڑھے گا ساتھ ہی کیا اپنے مہماں اپنا
عجیب بھول بھلیاں ہے منزل ہستی
بھٹکتا پھرتا ہے گم گشتہ کارواں اپنا
کدھر سے آتی ہے یوسف کی بوئے مستانہ
خراب پھرتا ہے جنگل میں کارواں اپنا
جرس نے مژدۂ منزل سنا کے چونکایا
نکل چلا تھا دبے پاؤں کارواں اپنا
خدا کسی کو بھی یہ خواب بد نہ دکھلائے
قفس کے سامنے جلتا ہے آشیاں اپنا
ہمارے قتل کا وعدہ ہے غیر کے ہاتھوں
عجیب شرط پہ ٹھہرا ہے امتحاں اپنا
ہمارا رنگ سخن یاسؔ کوئی کیا جانے
سوائے آتشؔ ہوا کون ہم زباں اپنا
(8)
پالا امید و بیم سے ناگاہ پڑ گیا
دل کا بنا بنایا گھر وندا بگڑ گیا
شربت کا گھونٹ جان کے پیتا ہوں خون دل
غم کھاتے کھاتے منھ کا مزہ تک بگڑ گیا
الٹی تھی مت زمانۂ مردہ پرست کی
میں ایک ہوشیار کی زندہ ہی گڑ گیا
انساں وہ ہے جو زیر کرے دیو نفس کو
وہ مرد کیاجو پیر فلک سے پچھڑ گیا
اللہ ری کشاکش دیرو حرم کی یاسؔ
حیرت کے مارے بیچ دوراہے پہ گڑ گیا
(9)
واں نقاب اٹھی کہ صبح حشر کا منظر کھلا
یا کسی کے حسن عالم تاب کا دفتر کھلا
غیب سے پچھلے پہر آتی ہے کانوں میں صدا
اٹھو اٹھو رحمت رب علا کا در کھلا
آنکھ جھپکی تھی تصور بندھ چکا تھا یار کا
چونکتے ہی حسرت دیدار کا دفتر کھلا
کوئے جاناں کا سماں آنکھوں کے آگے پھر گیا
صبح جنت کا جو اپنے سامنے منظر کھلا
رنگ بدلا پھر ہوا کا مے کشوں کے دن پھرے
پھر چلی باد صبا پھر مے کدے کا در کھلا
آ رہی ہے صاف بوئے سنبل باغ جناں
گیسوئے محبوب شاید میری میت پر کھلا
چار دیوار عناصر پھاند کر پہنچے کہاں
آج اپنا زور وحشت عرش اعظم پر کھلا
چپ لگی مجھ کو گناہ عشق ثابت ہو گیا
رنگ چہرے کا اڑا راز دل مضطر کھلا
اشک خوں سے زرد چہرے پر ہے کیا طرفہ بہار
دیکھیے رنگ جنوں کیسا مرے منہ پر کھلا
خنجر قاتل سے جنت کی ہوا آنے لگی
اور بہار زخم سے فردوس کا منظر کھلا
نیم جاں چھوڑا تری تلوار نے اچھا کیا
ایڑیاں بسمل نے رگڑیں صبر کا جوہر کھلا
صحبت واعظ میں بھی انگڑائیاں آنے لگیں
راز اپنی مے کشی کا کیا کہیں کیونکر کھلا
ہاتھ الجھا ہے گریباں میں تو گھبراؤ نہ یاسؔ
بیڑیاں کیونکر کٹیں زنداں کا در کیونکر کھلا
(10)
قیامت ہے شب وعدہ کا اتنا مختصر ہونا
فلک کا شام سے دست و گریبان سحر ہونا
شب تاریک نے پہلو دبایا روز روشن کا
زہے قسمت مرے بالیں پہ تیرا جلوہ گر ہونا
دیار بے خودی ہے اپنے حق میں گوشۂ راحت
غنیمت ہے گھڑی بھر خواب غفلت میں بسر ہونا
بہار آتے ہی شادی مرگ ہو جائوں تواچھا ہے
خزاں سے پہلے ہی بہتر ہے قصہ مختصر ہونا
تماشائے چمن کی کیا حقیقت چشم عبرت میں
اثر ہونا تولازم ہے مگر اُلٹا اثر ہونا
ہوائے تند سے کب تک لڑے گا شعلۂ سرکش
عبث ہے خود نمائی کی ہوس میں جلوہ گر ہونا
دل آگاہ نے بے کارمیری راہ کھوٹی کی
بہت اچھا تھا انجام سفر سے بے خبر ہونا
حریم نازمیں کب تک گھٹے گی بوئے پیراہن
ہوائے شوق میں لازم ہے اک دن منتشر ہونا
سما سکتے نہیں الفاظ میں معنی وجدانی
مگر لازم ہے دل ہی دل میں پوشیدہ اثر ہونا
وہی ساقی وہی ساغر وہی شیشہ وہی بادہ
مگر لازم نہیں ہر ذات پر یکساں اثر ہونا
سنا کرتے تھے آج آنکھوں سے دیکھیں دیکھنے والے
نگاہ یاسؔ کا سنگیں دلوں پر کارگر ہونا
فراق گورکھپوری حیات و خدمات
٭فراق گورکھپوری٭
¦پیدائش:1896گورکھپور ¦وفات:1982
¦فراق کو تاثراتی نقاد کہا جاتا ہے۔
¦فراق کے شعری مجموعے درج ذیل ہیں:-
(۱)تحفہ خوشتر 1922(۲)شعلہ ساز 1945(۳)روح کائنات 1945(۴)مشعل 1946
(۵)روپ 1946(۶)رمز و کنایت 1947(۷)شبنمستان 1947(۸)گل نعمہ 1959
(۹)ہزار داستان 1964(۱۰)غزلستان 1965(۱۱)شعر ستان (۱۲)دھرتی کی کروٹ 1966
(۱۳)گلبانگ 1967(۱۴)پچھلی رات 1969(۱۵)نغمہ نما(۱۶)چراغاں 1966
(۱۷)گلہائے پریشاں(۱۸)بزم زندگی رنگ شاعری 1970
فراق سے متعلق اہم اقوال
¦میں فراقؔ کو اردو غزل کا اہم ستون تسلیم کرتا ہوں۔ (کلیم الدین احمد)
¦فراقؔ جیسی چند جامع شخصیتیںروز روز نہیں پیدا ہوا کرتیں۔ (مجنوں گورکھپوری)
¦فراق کی شاعری حقیقی شاعری کی بہترین مثال ہے (یگانہ چنگیزی)
¦فراقؔ حسن و جمال کی بولتی ہوئی روح کے شاعر ہیں۔ (گوپی چند نارنگ)
¦اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ آج کے شعراء میں سب سے درخشاں مستقبل کس کا ہے تو میں تنہا فراق کا نام
لوں گا۔ (نیاز فتح پوری)
گل نغمہ کی ابتدائی دس غزلیں
1
آنکھوں میں جو بات ہو گئی ہے
اک شرح حیات ہو گئی ہے
جب دل کی وفات ہو گئی ہے
ہر چیز کی رات ہو گئی ہے
غم سے چھٹ کر یہ غم ہے مجھ کو
کیوں غم سے نجات ہو گئی ہے
مدت سے خبر ملی نہ دل کی
شاید کوئی بات ہو گئی ہے
جس شے پہ نظر پڑی ہے تیری
تصویر حیات ہو گئی ہے
اب ہو مجھے دیکھئے کہاں صبح
ان زلفوں میں رات ہو گئی ہے
دل میں تجھ سے تھی جو شکایت
اب غم کے نکات ہو گئی ہے
اقرارِ گناہِ عشق سن لو
مجھ سے اک بات ہو گئی ہے
جو چیز بھی مجھ کو ہاتھ آئی
تیری سوغات ہو گئی ہے
کیا جانئے موت پہلے کیا تھی
اب مری حیات ہو گئی ہے
گھٹتے گھٹتے تری عنایت
میری اوقات ہو گئی ہے
اس چشم سیہ کی یاد یکسر
شامِ ظلمات ہو گئی ہے
اس دور میں زندگی بشر کی
بیمار کی رات ہو گئی ہے
جیتی ہوئی بازیٔ محبت
کھیلا ہوں تو مات ہو گئی ہے
ٹوٹنے لگیں زندگی کی قدریں
جب غم سے نجات ہو گئی ہے
وہ چاہیں تو وقت بھی بدل جائے
جب آئے ہیں تو رات ہو گئی ہے
دنیا ہے کتنی بے ٹھکانہ
عاشق کی بارات ہو گئی ہے
جس چیز کو چھو دیا ہے تو نے
اک برگِ نبات ہو گئی ہے
اکّا دکّا صدائے زنجیر
زنداں میں رات ہو گئی ہے
ایک ایک صفت فراق ؔاس کی
دیکھا ہے تو ذات ہو گئی ہے
(2)
یہ سرمئی فضائوں کی کچھ کنمنا ہٹیں
ملتی ہیں مجھ کو پچھلے پہر تیری آہٹیں
اس کائنات غم کی فسردہ فضائوں میں
بکھرا گئے ہیں آکے وہ کچھ مسکراہٹیں
اے جسم نازنینِ نگارِ نظر نواز
صبح شبِ وصال تری ملگجاہٹیں
پڑتی ہے آسمان محبت پہ چھوٹ سی
بَل بے جبینِ ناز تری جگماہٹیں
چلتی ہے نسیم خیال خرام ناز
سنتا ہوں دامنوں کی ترے سر سراہٹیں
چشم سیہ تبسّم پنہاں لیے ہوئے
پوپھوٹنے سے قبل افق کی اداہٹیں
جنبش میں جیسے شاخ ہو گلہائے نغمہ کی
اک پیکر جمیل کی یہ لہلہاہٹیں
جھونکوں کی نظر ہے چمن انتظار دوست
یاد امید و بیم کی یہ سنسنا ہٹیں
ہو سامنا اگر تو خجل ہو نگاہِ برق
دیکھی ہیں عضو عضو میں اچپلاہٹیں
کس دیس کو سدھار گئیں اے جمال یار
رنگیں لبوں پہ کھیل کے کچھ مسکراہٹیں
رُخسار تر سے تازہ ہو باغ عدن کی یاد
اور اس کی پہلی صبح کی وہ رسمسا ہٹیں
ساز جمال کی یہ نو اہائے سرمدی
جوبن تو وہ فرشتے سنیں گنگناہٹیں
آزردگیِ حسن بھی کس درجہ شوخ ہے
اشکو ں میں تیرتی ہوئی کچھ مسکراہٹیں
ہونے لگا ہوں خود سے قریب اے شبِ الم
میں پار ہا ہوں ہجر میں کچھ اپنی آہٹیں
میری غزل کی جان سمجھنا انھیں فراقؔ
شمع خیالِ یار کی تھر تھراہٹیں
(3)
ہے ابھی مہتا ب باقی اور باقی ہے شراب
اور باقی میرے تیرے درمیاں صدہا حساب
دید اندر دید، حیرانم حجاب اندر حجاب
وائے باوصفِ ایں قدر راز ونیاز ایں اجتناب
دل میں یوں بیدار ہوتے ہیں خیالات غزل
آنکھیں ملتے جس طرح اٹھے کوئی مستِ شباب
گیسوئے خمدار میں اشعار تر کی ٹھنڈکیں
آتش رخسار میں قلبِ تپاں کا التہاب
چوڑیاں بجتی ہیںدل میں مرحبا بزم خیال
کھلتے جاتے ہیں نگاہوں میں جبینوںکے گلاب
کاش پڑھ سکتا کسی صورت سے تو آیات عشق
اہل دل بھی تو ہیں اے شیخ خاں اہل کتاب
ایک عالم پر نہیں رہتی ہیں کیفیات عشق
گاہ ریگستاں بھی دریا گاہ بھی سراب
کون رکھ سکتا ہے اس کو ساکن و جامدکی زیست
انقلاب وانقلاب وانقلاب وانقلاب
ڈھونڈھئے کیوں استعارہ اور تشبیہہ ومثال
حسن تو وہ ہے بتائیں جس کو حسن لاجواب
ہشت جنت کی بہاریں چند پنکھڑیوں میں بند
غنچہ کھلتا ہے تو فردوسوں کے کھل جاتے ہیں باب
آرہا ہے ناز سے سمتِ چمن وہ خوش خرام
دوش پردہ گیسوئے شبگوں کے منڈلاتے سحاب
حسن خود اپنا نقیب آنکھوں کو دیتا ہے پیام
آمد آمد آفتاب آمد دلیلِ آفتاب
عظمت تقدیر آدم اہل مذہب سے نہ پوچھ
جو مشییت نے نہ دیکھے دل نے وہ دیکھے ہیں خواب
حسن وہ جو ایک کر دے معنی فتح و شکست
رہ گئی سو بار جھک جھک کر نگاہ کامیاب
غیب کی نظریں بچا کے کچھ چرالے وقت سے
پھر نہ ہاتھ آئے گا کچھ ہر لمحہ ہے پا در رکاب
ہر نظر جلوہ ہے ہر جلوہ نظر حیران ہوں
آج کسی بیت الحرم میں ہو گیا ہوں بازیاب
بار ہا ہاں بارہا میں نے دم فکر سخن
چھو لیا ہے اس سکوں کو جو ہے جانِ اضطراب
بزم فطرت سر بسر ہوتی ہے اک بزم سماع
وہ سکوت نیم شب کا نغمۂ چنگ و رباب
اے فراقؔ اٹھتی ہیں حیرت کی نگاہیں باادب
اپنے دل کی خلوتوں میں ہو رہا ہوں بار یاب
(4)
دیدنی ہے نرگسِ خاموش کا طرزِ خطاب
گہہ سوال اندر سوال وگہہ جواب اندر جواب
عشق کی آغوش میں بس اِک دل خانہ خراب
حسن کے پہلو میں صدہا آفتاب و ماہتاب
سرورِ کفار ہے عشق اور امیر المومنین
کعبہ و بت خانہ اوقافِ دلِ عالی جناب
راز کے صیغے میں رکھا تھا مشیت نے جنھیں
وہ حقائق ہو گئے میری غزل میں بے نقاب
ایک گنج بے بہا ہے اہل دل کو ان کی یاد
تیرے جور بے نہایت تیرے جور بے حساب
آدمیوں سے بھری ہے یہ بھری دنیا مگر
آدمی کو آدمی ہوتا نہیں ہے دستیاب
ساتھ غصے میں نہ چھوڑا شوخیوں نے حسن کا
برہمی کی ہر ادا میں مسکراتا ہے عتاب
عشق کی سر مستیوں کا کیا ہوا اندازہ کہ عشق
صد شراب اندرشراب اندرشراب اندرشراب
عشق پر اے دل کوئی کیونکر لگا سکتا ہے حکم
ہم ثواب اندر ثواب وہم عذاب اندرعذاب
نام رہ جاتا ہے ورنہ دہر میں کس کو ثبات
آج دنیا میں کہاں رستم و افراسیاب
راس آیا دہر کو خونِ جگر سے سینچنا
چہرۂ آفاق پر کچھ آچلی ہے آب و تاب
اسقدر رشک سے اے طلبگارانِ سامانِ نشاط
عشق کے پاس اک دل پر سوزاک چشم پُر آب
اب اسے کچھ اور کہتے ہیں کہ حسن اتفاق
اک نظر اڑتی ہوئی سی کر گئی مجھکو خراب
ایک سنّاٹا اٹوٹ اکثر اور اکثر اے ندیم
دل کی دھڑکن میںصد زیر و بم چنگ و رباب
آرہے ہیں گلستاں میں خیرو برکت کے پیام
ہے صداباد صبا کی یا دعائے مستجاب
مرغ ہوں اس دشت کا کوئی نہ مارے پر جہاں
ایک ہی پنجے کے ہیں اے چرخ شاہین و عقاب
ہم سمندر متھ کے لائے گوہر راز و دوام
داستانیں ملتوں کی ہیں جہاں نقش بر آب
کر گئیں میری نظر سے آج اپنی سب دعائیں
واں گیا بھی میں تو ان کی گالیوں کا کیا جواب
پوچھتا ہے مجھ سے تو اے شخص کیا ہوں کون ہوں
میں وہی رسوا ء عالم شاعروں میں انتخاب
اے فراقؔ آفاق ہے کوئی طلسم اندر طلسم
ہے ہر اک خواب حقیقت ہر حقیقت ایک خواب
(5)
رات بھی ،نیند بھی، کہا نی بھی
ہائے کیا چیز ہے جوانی بھی
ایک پیغام زندگانی بھی
عاشقی مرگ ناگہانی بھی
اس ادا کا تری جواب نہیں
مہر بانی بھی سر گرانی بھی
دل کو اپنے بھی غم تھے دنیا میں
کچھ بلائیں تھیں آسمانی بھی
ٔ دل خوشی لٹانا ہے
غم پنہا ں کی پاسبانی بھی
دل کو شعلوں سے کرتی ہے سیراب
زندگی آگ بھی ہے پانی بھی
لاکھ حسنِ یقین سے بڑھ کر ہے
ان کی نگاہوں کی بد گمانی بھی
تنگنائے دل ملول میں ہے
لچر ہستی کی بے کرانی بھی
عشق ناکام کی ہے پر چھائیں
شادمانی بھی کامرانی بھی
دیکھ دل کے نگار خانے میں
زخم پنہاں کی ہے نشانی بھی
خلق کیا مجھے نہیں کہتی
کچھ سنوں میں تری زبانی بھی
اپنی معصومیوں کے پردے میں
ہو گئی وہ نظر سیانی بھی
دن کو سورج مکھی ہے وہ نو گل
رات کو ہے وہ رات رانی بھی
دلِ بدنام تیرے بارے میں
لوگ کہتے ہیں اک کہانی بھی
وضع کرتے کوئی نئی دنیا
کہ یہ دنیا ہوئی پرانی بھی
دل کو آداب بندگی بھی نہ آئے
کر گئے لو گ حکمرانی بھی
جو رکم کم کا شکریہ بس ہے
آپ کی اتنی مہربانی بھی
دل میں اک ہوک بھی اٹھی اے دوست
یاد آئی تری جوانی بھی
سر سے پا تک سپردگی کی ادا
ایک انداز ترکمانی بھی
پاس رہنا کسی کا رات کی رات
میہمانی بھی میز بانی بھی
ہو نہ عکسِ جبین ناز کہ ہے
دل میں اک نور کہکشانی بھی
زندگی عین دید یارِ فراق
زندگی ہجر کی کہانی بھی
(6)
ایک شبِ غم وہ بھی تھی جس میں جی بھر آئے تو اشک بہائیں
ایک شبِ غم یہ بھی ہے جس میں اے دل رورو کے سو جائیں
جانے والا گھر جائے گاکاش یہ پہلے سوچا ہوتا
ہم تو منتظر اس کے تھے بس کب ملنے کی گھڑیاں آئیں
الگ الگ بہتی رہتی ہے ہر انسان کی جیون دھارا
دیکھ ملیں کب آج کے بچھڑے لے لوں بڑھ کے تیز بلائیں
سنتے ہیں کچھ رو لینے سے جی ہلکا ہو جاتا ہے
شاید تھوڑی دیر برس کر چھٹ جائیں کچھ غم کی گھٹائیں
اپنے دل سے غافل رہنا اہل عشق کا کام نہیں
حسن بھی ہے جس کی پرچھائیں آج وہ من کی جوت جگائیں
سب کو اپنے اپنے دکھ ہیں سب کو اپنی اپنی پڑی ہے
اے دل غمگیں تیری کہانی کون سنے گاکس کو سنائیں
جسم نازنیں میں سر تاپا نرم لویں لہرائی ہوئی سی
تیرے آتے ہی بزم ناز میں جیسے کئی شمعیں جل جائیں
ہاں ہاں تجھ کو دیکھ رہا ہوں کیا جلوہ ہے کیا پردہ ہے
دل دے نظارے کی گواہی اور یہ آنکھیں قسمیں کھائیں
لفظوں میں چہرے نظر آئیں گے چشم بینا کی ہے شرط
کئی زاویوں سے خلقت کو شعر مرے آئینہ دکھائیں
مجھ کو گناہ وثواب سے مطلب ؟ لیکن عشق میں اکثر آئے
وہ لمحے خو د میری ہستی جیسے مجھے دیتی ہو دعائیں
چھوڑ وفا و جفا کی بحثیں اپنے کو پہچان اے عشق
غور سے دیکھ تو سب دہوکاہے کیسی وفائیں کیسی جفائیں
عشق اک بے بیندھا ہوا موتی یا اک بے سونگھا ہوا پھول
ہوش فرشتوں کے بھی اڑا دیں تیری یہ دوشیزہ ادائیں
باتیں اس کی یاد آتی ہیں لیکن ہم پر یہ نہیں کھلتا
کن باتوں پر اشک بہائیںکن باتوں سے جی بہلائیں
ساقی اپنا غم خانہ بھی مے خانہ بن جاتا ہے
مستِ مے غم ہو کر جب ہم آنکھوں کے ساغر چھلکائیں
اہل مسافت ایک رات کا یہ بھی ساتھ غنیمت ہے
کوچ کرو تو صدا دے دیناہم نہ کہیں سوتے رہ جائیں
ہوش میں کیسے رہ سکتا ہوں آخر شاعر فطرت ہوں
صبح کے ست رنگے جھرمٹ سے جب وہ انگلیاں مجھے بلائیں
ایک غزال رم خوردہ کا منھ پھیرے ایسے میں گزرنا
جب مہکی ہوئی ٹھنڈی ہوائیں دن ڈوبے آنکھیں جھپکائیں
دیں گے ثبوتِ عالی ظرفی ہم میکش سر میخانہ
ساقی چشم سیہ کی باتیں زہر بھی ہوں تو ہم پی جائیں
موزوں کر کے سستے جذبے منڈی منڈی بیچ رہے ہیں
ہم بھی خریدیں جو یہ سخنوار اک دن ایسی غزل کہلائیں
رات چلی ہے جوگن ہو کربال سنوارے لٹ چھٹکائے
چھپے فراقؔ گگن پر تارے ، دیپ بجھے ہم بھی سو جائیں
(7)
بندگی سے کبھی نہیں ملتی
اس طرح زندگی نہیں ملتی
لینے سے تاج و تخت ملتا ہے
مانگے سے بھیک بھی نہیں ملتی
غیب داں ہے مگر خدا کو بھی
نیت آدمی نہیں ملتی
ہے جو اک چیز دارِ فانی میں
وہ تو جنت میں بھی نہیں لتی
ایک دنیا ہے مری نظروں میں
پر وہ دنیا ابھی نہیں ملتی
رات ملتی ہے تیری زلفوں سے
پر وہ آراستگی نہیں ملتی
یوں تو ہر اک کا حسن کافر ہے
پر تری کافری نہیں ملتی
با صفا دوستی کو کیا روئیں
با صفا دشمنی نہیں ملتی
آنکھ ہی آنکھ ہو ں مگر مجھ سے
نرگسِ سامری نہیں ملتی
جب تک اونچی نہ ہو ضمیر کی لو
آنکھ کی روشنی نہیں ملتی
سوزِ غم سے نہ ہو جو مالامال
دل کو سچی خوشی نہیں ملتی
روئے جانا کجا ،کجا گلِ خلد
وہ ترو تازگی نہیں ملتی
تجھ میں کوئی کمی نہیں پاتے
تجھ میں کوئی کمی نہیں پاتے
ہیں سوا میرے اور نرم نوا
پر وہ آہستگی نہیں ملتی
یوں تو پڑتی ہے ایک عالم پر
نگہ سر سری نہیں ملتی
صحن عالم کی سر زمینوں میں
دل کی افتادگی نہیں ملتی
آہ وہ مشک بیز زلف سیاہ
جس کی ہم سائیگی نہیں ملتی
عشق آزردہ بادشاہوں کو
تیری آزردگی نہیں ملتی
زہد و صوم و صلٰوۃ و تقوہ سے
عشق کی سادگی نہیں ملتی
حسن جس کا بھی ہے نرالاہے
پر تری طرفگی نہیں ملتی
رنگ دیوانگی عالم سے
میری دیوانگی نہیں ملتی
علم ہے دستیاب با افراط
عشق کی آگہی نہیںملتی
دل کو بے انتہائے آگاہی
عشق کی بے خودی نہیں ملتی
آج رطب اللساں ہیں حضرت دل
آپ کی بات ہی نہیں ملتی
دوستوں محض طبع موزوں سے
دولتِ شاعری نہیں ملتی
ہے جوان رسمساتے ہونٹوں میں
آنکھ کو وہ نمی نہیں ملتی
نگہ لطف سے جو ملتی ہے
ہائے وہ زندگی نہیں ملتی
یوں تو ملنے کو مل گیا خدا
پر تری دوستی نہیں ملتی
میری آواز میں جو مضمر ہے
ایسی شادی غمی نہیں ملتی
وہ تو کوئی خوشی نہیں جس میں
در در کی چاشنی نہیں ملتی
میرے اشعار میں سرے سے ندیم
رجعت قہقری نہیں ملتی
بس وہ بھر پور زندگی ہے فراقؔ
جس میں آسودگی نہیں ملتی
(8)
بے ٹھکانے ہے دل غمگیں ٹھکانے کو کہو
شام ہجراں دوستو کچھ اس کے آنے کی کہو
ہاں نہ پوچھو اک گرفتارِ قفس کی زندگی
ہم سفیرانِ چمن کچھ آشیانے کی کہو
اُڑ گیا منزل دشوار میں غم کا سمند
گیسوئے پر پیچ و خم کے تازیانے کی کہو
بات بنتی اور باتوں سے نظر آتی نہیں
اس نگاہِ ناز کے باتیں بنانے کی کہو
داستاںوہ تھی جسے دل بجھتے بجھتے کہہ گیا
شمع بزم زندگی کے جھلملانے کی کہو
کچھ دل مرحوم کی باتیں کرواے اہل غم
جس سے ویرانے تھے آباد اس دیوانے کی کہو
داستانِ زندگی بھی کس قدر دلچسپ ہے
جو ازل سے چھڑ گیاہے اس فسانے کی کہو
یہ فسون نیم شب یہ خواب ساماں خامشی
سامری فن آنکھ کے جادو جگانے کی کہو
کوئی کیا کھائے گایوں سچی قسم جھوٹی قسم
اس نگاہِ ناز کے سوگندکھانے کی کہو
شام ہی سے گوش بر آواز ہے بزم سخن
کچھ فراقؔ اپنی سنائو کچھ زمانے کی کہو
(9)
اجاڑ بن میں کچھ آثار سے چمن کے ملے
دلِ خراب سے وہ اپنی یاد بن کے ملے
ہر اک مشام میں عالم ہے یو سفستاں کا
پرکھنے والے تو کچھ بوئے پیرہن کے ملے
تھی ایک بوئے پریشاں بھی دل کے صحرا میں
نشانِ پا بھی کسی آہوئے ختن کے ملے
عجیب راز ہے تنہائی دل شاعر
کہ خلوتوں میں بھی آثار انجمن کے ملے
وہ حسن و عشق صبح ازل کے بچھڑے تھے
ملے ہیں وادیٔ غربت میں پھر وطن کے ملے
فقیرِعشق کو کیا جامہ زیبوں سے غرض
یہی بہت ہے چار گز کفن کے ملے
کچھ اہلِ بزم سخن سمجھے کچھ نہیں سمجھے
بہ شکلِ شہرت مبہم صلے سخن کے ملے
تھا جرعہ جرعہ نئی زندگی کا اک پیغام
جو چند جام کسی بادۂ کہن کے ملے
بزور طبع ہر اک تیر کو کمان کیا
ہوئے ہیں جھک کے وہ رخصت جو مجھ سے تن کے ملے
کمندِ فکر رسامیں حریف مان گئے
وہ پیچ و تاب تری زلف پُر شکن کے ملے
نظر سے مطلع انوار ہو گئی ہستی
کہ آفتاب ملا مجھ کو اس کرن کے ملے
ہر ایک نقش نگاریں ہر ایک نکہت و رنگ
تفائے ناز میں جلوے چمن چمن کے ملے
مزاج حسن چلو ااعتدال پر آیا
جو روز روٹھ کے ملتے تھے آج من کے ملے
ارے اسی سے تو چلتے ہیں شاد کام حیات
کہ اہل دل کو خزانے غم و محن کے ملے
اسی سے عشق کی نیت بھی ہو گئی مشکوک
گنوا دئے کئی موقعے جو حسن ظن کے ملے
ادا میں کھنچتی تھی تصویر کرشن رادھا کی
نگاہ میں کئی افسانے نلؔ دمن کے ملے
حوا س خمسہ پکار اٹھے یک زباں ہو کر
کئی ثبوت تری خوبیٔ بدن کے ملے
نثار کج کلہی شو نئی بہارِ چمن
گُر اِ س ادا سے شگوفوں کو بانکپن کے ملے
حیات وہ نگہِ شرمگیں جسے بانٹے
وہی شراب جو تیری مژہ سے چھن کے ملے
خدا گواہ کہ ہر دور زندگی میں فراقؔ
نئے پیام گنہ مجھ کو اہر من کے ملے
(10)
وہ آنکھ زبان ہو گئی ہے
ہر بزم کی جان ہو گئی ہے
آنکھیں پڑتی ہیں میکدوں کی
وہ آنکھ جوان ہو گئی ہے
آئینہ دکھا دیا یہ کس نے
دنیا حیران ہو گئی ہے
اس نرگسِ ناز میں تھی جو بات
شاعر کی زبان ہو گئی ہے
اب تو تری ہر نگاہ کافر
ایمان کی جان ہو گئی ہے
ترغیب گناہ لحظہ لحظہ
اب رات جوان ہو گئی ہے
توفیق نظر سے مشکل زیست
کتنی آسان ہو گئی ہے
تصویر بشر ہے نقشِ آفاق
فطرت انسان ہو گئی ہے
پہلے وہ نگاہ اک کرن تھی
اب اک جہا ن ہو گئی ہے
سنتے ہیں کہ اب نوائے شاعر
صحرا کی اذان ہو گئی ہے
اے موت بشر کی زندگی آج
تیرا احسان ہو گئی ہے
کچھ اب تو امان ہو کہ دنیا
کتنی ہلکان ہو گئی ہے
یہ کس کی پڑیں غلط نگاہیں
ہستی بہتان ہو گئی ہے
انسان کو خریدتا ہے انسان
دنیا بھی دکان ہو گئی ہے
اکثر شبِ ہجر و دست کی یاد
تنہائی کی جان ہو گئی ہے
شرکت تری بزم قصہ گو میں
افسانے کی جان ہو گئی ہے
جو آج مری زبان تھی
کل دنیا کی زبان ہو گئی ہے
اک سانحۂ جہاں ہے وہ آنکھ
جس دن سے جوان ہو گئی ہے
رعنائی قامت دل آرا
میرا ارمان ہو گئی ہے
دل میں اک واردات پنہاں
بے سان گمان ہو گئی ہے
سنتا ہوں قضا ء قہر ماں بھی
اب تو رحمان ہو گئی ہے
واعظ مجھے کیا خدا سے
میرا یمان ہو گئی ہے
میری تو یہ کائنات غم بھی
جان و ایمان ہو گئی ہے
میری ہر بات آدمی کی
عظمت کا نشان ہو گئی ہے
یاد ایّام عاشقی جب
ابدئیت اک ان ہو گئی ہے
جو شوخ نظر تھی دشمن جاں
وہ جان کی جان ہو گئی ہے
ہر بیت فراقؔاس غزل کی
ابرو کی کمان ہو گئی ہے
مجروح سلطانپوری حیات و خدمات
٭مجروح سلطان پوری٭
¦پیدائش:1919 اعظم گڑھ ¦وفات:2000 ممبئی۔
¦مجروح ایک ترقی پسند شاعر ہیں۔
¦مجنوں کے دو شعری مجموعے ہیں:-(۱)غزل 1953 ء (۲)مشعل جاں۔
¦مجروح صرف غزل گو شاعر تھے۔
’’غزل‘‘ کی ابتدائی پانچ غزلیں
(1)
کوئی آتش در سبو شعلہ بہ جام آہی گیا
آفتاب آہی گیا، ماہِ تمام آہی گیا
محتسب!ساقی کی چشم نیم وا کو کیا کروں
میکدے کا در کھلا گردش میں جام آہی گیا
اک ستمگر تو کہ وجہ صد خرابی تیرا درد
اک بلا کش میں کہ درد کام آہی گیا
ہم قفس ! صیاد کی رسمِ زباں بندی کی خیر
بے زبانوں کو بھی اندازِ کلام آہی گیا
کیوں کہوں گا میں کسی سے تیرے غم کی داستاں
اور اگر اے دوست لب پر تیرا نام آہی گیا
آخرش مجروحؔ کے بے رنگ روز و شب میں وہ
صبحِ عارض پر لیے زلفوں کی شام آہی گیا
(2)
کب تک ملو ں جبیں سے اب ا س سنگِ در کو میں
اے بیکسی سنبھال، اٹھاتا ہوں سر کو میں
کس کس کو ہائے تیرے تغافل کا دوں جواب
اکثر تو رہ گیا ہوں جھکا کر نظر کو میں
اللہ رے وہ عالمِ رخصت، کہ دیر تک
تکتا رہا ہوں یوں ہی تری رہ گزر کو میں
یہ شوقِ کامیاب ، یہ تم یہ فضا، یہ رات
کہہ دو تو آج روک دوں بڑھ کر سحر کو میں
(3)
یہ رُکے رُکے سے آنسو، یہ دبی دبی سی آہیں
یوں ہی کب تلک خدایا غمِ زندگی نباہیں
کہیں ظلمتوں میں گھر کر ہے تلاش دستِ رہبر
کہیں جگمگا اٹھی ہیں مرے نقش پا سے راہیں
ترے خانماں خرابوں کا چمن کوئی نہ صحرا
یہ جہاں بھی بیٹھ جائیں وہیں ان کی بارگاہیں
کبھی جادۂ طلب سے جو پھرا ہوں دل شکستہ
تری آرزو نے ہنس کر وہیں ڈال دی بانہیں
مرے عہد میں نہیں ہے یہ نشانِ سر بلندی
یہ رنگے ہوئے عمامے یہ جھکی جھکی کلاہیں
(4)
ترے سوا بھی کہیں تھی پناہ بھول گئے
نکل کے ہم تری محفل سے راہ بھول گئے
مسرتوں کو یہ اہل ہوس نہ کھو دیتے
جو ہر خوشی میں ترے غم کو بھی سمو دیتے
کہاں وہ شب، کہ ترے گیسوئوں کے سائے میں
خیالِ صبح سے ہم آستیں بھگو دیتے
بہانے اور بھی ہوتے جو زندگی کے لیے
ہم ایک بار تری آرزو بھی کھو دیتے
بچا لیا مجھے طوفاں کی موج نے ورنہ
کنارے والے سفینہ مرا ڈبو دیتے`
جو دیکھتے مری نظروں پہ بندشوں کے ستم
تو یہ نظارے مری بے بسی پہ رو دیتے
کبھی تو یوں بھی امڈتے سر شکِ غم مجروح
کہ میرے زخم تمنّا کے داغ دھو دیتے
(5)
نگاہِ ساقی نامہرباں یہ کیا جانے
کہ ٹوٹ جاتے ہیںخود دل کے ساتھ پیمانے
ملی جب ان سے نظر بس رہا تھا ایک جہاں
ہٹی جو آنکھ تو چاروں طرف تھے ویرانے
حیات لغزشِ پیہم کا نام ہے ساقی
لبوں سے جام لگا بھی سکوں خدا جانے
وہ تک رہے تھے ،ہمی ہنس کے پی گئے آنسو
وہ سن رہے تھے ہمی کہہ سکے نہ افسانے
تبسموں نے نکھاراہے کچھ تو ساقی کے
کچھ اہل غم کے سنوارے ہوئے ہیں میخانے
یہ آگ اور نہیں دل کی آگ ہے ناداں
چراغ ہو کہ نہ ہو، جل بجھیں گے پروانے
فریب اشک و تبسم نہ پوچھئے مجروحؔ
شراب ایک ہے بدلے ہوئے ہیں پیمانے
کلیم عاجز حیات و خدمات
٭کلیم عاجز٭
¦پیدائش:1920، تلہارا ، نالندہ ¦وفات:15 فروری2015۔
¦کلیم عاجز کی پی ایچ ڈی کا مقالہ ’’بہار میں اُردو شاعری کا ارتقاء 1857ہے۔
¦شعری مجموعے:-
(۱)وہ جو شاعری کا سبب ہوا 1976 (۲)جب فصل بہاراں آئی تھی 1990
(۳)کوچہ جاناں جاناں 2002 (۴)پھر ایسا نظارہ نہیں ہوگا 2008
(۵)ہاں چھڑو غزل عاجز 2014
’’وہ جو شاعری کا سبب ہوا‘‘ کی ابتدائی پانچ غزلیں
خوشی کیا ہے کسی آوارۂ وطن کے لیے
بہار آئی تو آیا کرے چمن کے لیے
نہ لالہ و گل و نسریں نہ نسترن کے لیے
مٹے ہیں ہم کسی غارت گر چمن کے لیے
کبھی جو گوشۂ خلوت میں شمع ہاتھ آئی
لپٹ کے رو لئے یاران انجمن کے لیے
ہم ان سے شکوۂ بیداد کیا کریں عاجز
یہاں تو پاسِ وفا قفل ہے دہن کے لیے
(2)
جدا دیوانہ پن اب ایسے دیوانے سے کیا ہوگا
مجھے کیوں لوگ سمجھاتے ہیں سمجھانے سے کیا ہوگا
سلگنا اور شئے ہے جل کے مر جانے سے کیا ہوگا
جو ہم سے ہو رہا ہے کام پروانے سے کیا ہوگا
مرا قاتل انھیں کہتے ہیںسَب اور ٹھیک کہتے ہیں
قسم سو بار وہ کھائیں قسم کھانے سے کیا ہوگا
مناسب ہے سمیٹو دامنِ دستِ دعا عاجزؔ
زباں ہی بے اثر ہے ہاتھ پھیلانے سے کیا ہوگا
(3)
کچھ انتہائے سلسلۂ غم نہیں ہے آج
ہر ظلمِ آخریں ستمِ اوّلیں ہے آج
میرے مذاقِ غم پہ ہر اک نکتہ چیں ہے آج
ان کی طرف نگاہ کسی کی نہیں ہے آج
بدنام کر رہی ہے مجھے میری بندگی
ہر سنگِ آستاں پہ نشانِ جبیں ہے آج
درماں کہاں کہ پُرسشِ غم بھی نہ کر سکی
اتنی بھی اس نگاہ کو فرصت نہیں ہے آج
پردہ حریمِ ناز کا اپنے بچائیے
فریاد کا مزاج بہت آتشیں ہے آج
انکار کر رہے ہیں وہ اُسی جرم قتل سے
جس کی جو گواہ ہر شکنِ آستیں ہے آج
زنجیر اپنا ہاتھ بڑھاتی ہی رہ گئی
دیوانۂ بہار کہیں سے کہیں ہے آج
عاجزؔ مِری فغاں پہ ہر اک یوں خموش ہے
جیسے کسی کی آنکھ میں آنسو نہیں ہے آج
(4)
چمن اپنا لٹا کر بُلبلِ ناشاد نکلی ہے
مبارک باد۔تیری آرزو صیّاد نکلی ہے!
خدا رکھے سلامت تیری چشمِ بے مروت کو
بڑی بے درد نکلی ہے بڑی جلّاد نکلی ہے
نکل کر دل سے آہوں نے کہیں رتبہ نہیں پایا
چمن سے جب بھی نکلی بوئے گل۔برباد نکلی
پریشاں ہو کے جانِ راز کیا نکلی ہے سینے سے
کسی بیداد گر کی حسرت بیداد نکلی ہے
(5)
ستم کو بھی کرم ہائے نہاں کہنا ہی پڑتا ہے
کبھی نا مہرباں کو مہرباں کہنا ہی پڑتا ہے
بِنائے زندگی دوچار تنکوں پر سہی لیکن
انہی تنکوں کو آخر آشیاں کہنا ہی پڑتا ہے
بھلا ہم اور تجھ کو ناز بردارِ عدو کہتے ہیں؟
مگر اے بے نیازِ دوستاں ! کہنا ہی پڑتا ہے
مِری آہو فغاں کو نالۂ بُلبُل سے کیا نسبت
مگر اِک ہم وطن کو ہم زباں کہنا ہی پڑتا ہے
محبت خانۂ صیّاد سے بھی ہو ہی جاتی ہے
قفس کو بھی کسی دن آشیاں کہنا ہی پڑتا ہے
یہ مانا عشق میں ضبطِ فغاں کی شرط لازم ہے
اُلجھتاہے جو دل دردِ نہاں کہنا ہی پڑتا ہے
شہریار حیات و خدمات
٭شہریار٭
¦پیدائش:1936 بریلی ¦وفات:2012 علی گڑھ ۔
¦شہریار کی پی ایچ ڈی مقالہ کا موضوع ’’انیسویں صدی میں اردو تنقید کے رجحانات‘‘ تھا۔
¦شہریار کے شعری مجموعے درج ذیل ہیں:-
(۱)اسم اعظم 1965(۲)ساتواں در 1969(۳)ہجر کے موسم 1978
(۴)خواب کا در بند ہے 1985(۵)نیند کی کرچیں 1996(۶)حاصل سیر جہاں 2001
(۷)شام ہونے والی ہے 2004(۸)قافلے یادوں کے پہلا انتخاب 1987
(۹)دھوپ کی دیواریں 1998(۱۰)کلیات شہریار 2007(۱۱)دھند کی روشنی 2003
میرے حصے کی زمین 1998
اسم اعظم کی پانچ غزلیں
(1)
سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے
اس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے
دل ہے تو دھڑکنے کا بہانہ کوئی ڈھونڈے
پتھر کی طرح بے حس وبے جان سا کیوں ہے
تنہائی کی یہ کون سی منزل ہے رفیقو!
تاحدِّنظر ایک بیابان سا کیوں ہے
ہم نے تو کوئی بات نکالی نہیں غم کی
وہ زود پشیمان، پشیمان سا کیوں ہے
کیا کوئی نئی بات نظرآتی ہے ہم میں
آئینہ ہمیں دیکھ کے حیران سا کیوں ہے
(2)
مشعل درد پھر اک بار جلا لی جائے
جشن ہو جائے ذرا دھوم مچا لی جائے
خون میں جوش نہیں آیا زمانہ گزرا
دوستوآئوکوئی بات نکالی جائے
جان بھی میری چلی جائے تو کچھ بات نہیں
وار تیرا نہ مگرایک بھی خالی جائے
جو بھی ملنا ہے ترے در ہی سے ملنا ہے ہائے
در ترا چھوڑ کے کیسے یہ سوالی جائے
وصل کے صبح کے ہونے میں ہے کچھ دیر ابھی
داستاں ہجر کی کچھ اور بڑھا لی جائے
(3)
حوصلہ دل کا نکل جانے دے
مجھ کو جلنے دے پگھل جانے دے
آنچ پھولوں پہ نہ آنے دے مگر
خس و خاشاک کو جل جانے دے
مدّتوں بعد صبا آئی ہے
موسمِ دل کو بدل جانے دے
چھا رہی ہیں جو مری آنکھوں پر
ان گھٹائوں کو مچل جانے دے
تذکرۂ اس کا ابھی رہنے دے
اور کچھ رات کو ڈھل جانے دے
(4)
دیارِ دل نہ رہا بزمِ دوستاں نہ رہی
اماں کی کوئی جگہ زیر آسماں نہ رہی
رواں ہیں آج بھی رگ رگ میں خون کی موجیں
مگر وہ ایک خلش وہ متاعِ جاں نہ رہی
لڑیں غموں کے اندھیروں سے کس کی خاطر ہم
کوئی کرن بھی تو ا س دل میں ضوفشاں نہ رہی
میں اس کو دیکھ کے آنکھوں کا نور کھو بیٹھا
یہ زندگی مری آنکھوں سے کیوں نہاں نہ رہی
زباں ملی بھی تو کس وقت بے زبانوں کو
سنانے کے لیے جب کوئی داستاں نہ رہی
(5)
دامِ الفت سے چھوٹتی ہی نہیں
زندگی تجھ کو بھولتی ہی نہیں
کتنے طوفاں آٹھائے آنکھوں نے
نائو یادوں کی ڈوبتی ہی نہیں
تجھ سے ملنے کی تجھ کو پانے کی
کوئی تدبیر سوجھتی ہی نہیں
ایک منزل پہ رُک گئی ہے حیات
یہ زمیں جیسے گھومتی ہی نہیں
لوگ سر پھوڑ کر بھی دیکھ چکے
غم کی دیوار ٹوٹتی ہی نہیں
عرفان صدیقی حیات و خدمات
٭عرفان صدیقی٭
¦پیدائش:1939 بدایوں ¦وفات:2004 لکھنؤ۔
¦عرفان صدیقی کے کل پانچ شعری مجموعے ہیں:
(۱)کینوس 1978 (۲)عشق نامہ 1997 (۳)سات سماوات 1992
(۴)ہوائے دشت ماریہ 1998 (۵)شب درمیاں 1984 (۶)دریا 1999
¦ عشق نامہ عرفان صدیقی کا چوتھا شعری مجموعہ ہے جو انہوں نے 1997 میں لکھا۔
عشق نامہ کی پانچ غزلیں
(1)
خانہ درد ترے خاک بہ سرآگئے ہیں
اب تو پہچان کہ ہم شام کو گھر آگئے ہیں
جان و دل کب کے گئے ناقہ سواروں کی طرف
یہ بدن گرداڑانے کوکدھر آگئے
رات دن سوچتے رہتے ہیں یہ زندانیِ ہجر
اُس نے چاہا ہے تو دیوار میں در آگئے ہیں
اس کے ہی ہاتھ میں ہے شاخِ تعلق کی بہار
چھو لیا ہے تو نئے برگ و ثمر آگئے ہیں
ہم نے دیکھا ہی تھا دنیا کو ابھی اس کے بغیر
لیجئے بیچ میں پھر دیدہ تر آگئے ہیں
اتنا آساں نہیں فیصلہ ترک سفر
پھر مری راہ میں دو چار شجر آگئے ہیں
نیند کے شہر طلسمات میں دیکھیں کیا ہے
جاگتے میں تو بہت خواب نظر آگئے ہیں
(2)
اس نے کیا دیکھا کہ ہر صحرا چمن لگنے لگا
کتنا اچھا اپنا من، اپنا بدن لگنے لگا
جنگلوں سے کون سا جھونکا لگا لایا اسے
دل کہ جگنو تھا چراغِ انجمن لگنے لگا
اس کے لکھے لفظ پھولوں کی طرح کھلتے رہے
روز ان آنکھوں میں بازار سمن لگنے لگا
اوّل اوّل اس سے کچھ حرف ونوا کرتے تھے ہم
رفتہ رفتہ رائگاں کار سخن لگنے لگا
جب قریب آیا تو ہم خود سے جدا ہونے لگے
وہ حجاب درمیان جان و تن لگنے لگے
ہم کہاں کے یوسف ثانی تھے لیکن اس کا ہاتھ
ایک شب ہم کو بلائے پیرہن لگنے لگا
تیرے وحشی نے گرفتاری سے بچنے کے لیے
رم کیا اتناکہ آہوے ختن لگنے لگا
ہم بڑے اہل خرد بنتے تھے یہ کیا ہو گیا
عقل کا ہر مشورہ دیوانہ پن لگنے لگا
کرگیا روشن ہمیں پھر سے کوئی بدر منیر
ہم تو سمجھے تھے کہ سورج کو گہن لگنے لگا
(3)
تیرے تن کے بہت رنگ ہیںہیں جان من ،اور نہاں دل کے نیرنگ خانوں میں ہیں
لامسہ ،شامہ،ذائقہ،سامعہ باصرہ سب مرے راز دانوں میں ہیں
اور کچھ دامنِ دل کشادہ کرو، دوستو، شکرِ نعمت زیادہ کرو
پیڑ، دریا، ہوا،روشنی، عورتیں،خوشبوئیںسب خدا کے خزانوں میں ہیں
میرے اندر بھی ہے ایک شرد گرد، میرے مہتاب اک رات ادھر سے گزر
کیسے کیسے چراغ ان دریچوں میں ہیں ،کیسے کیسے قمر ان مکانوں میں ہیں
اک ستارہ ادا نے یہ کیا کر دیا،میری مٹی سے مجھ کو جُدا کر دیا
ا ن دنوں پائوں میرے زمیں پر نہیں اب مری منزلیں آسمانوں میں ہیں
(4)
لپٹ سی داغِ کہن کی طرف سے آتی ہے
جب اک ہوا ترے تن کی طرف سے آتی ہے
میں تیری منزل جاں تک پہنچ تو سکتا ہوں
مگر یہ راہ بدن کی طرف سے آتی ہے
یہ مشک ہے کہ محبت مجھے نہیں معلوم
مہک سی میرے ہرن کی طرف سے آتی ہے
پہاڑ چپ ہیں تو اب ریگ زار بولتے ہیں
ندائے کوہ ختن کی طرف سے آتی ہے
کسی کے وعدۂ فردا کے برگ و بار کی خیر
یہ آگ ہجر کے بن کی طرف سے آتی ہے
یگوں کے کھوئے ہوئوں کو پکارتا ہے یہ کون
صدا تو خاکِ وطن کی طرف سے آتی ہے
(5)
شہاب چہرہ کوئی گم شدہ ستارہ کوئی
ہوا طلوع افق پر مرے دوبارہ کوئی
امید واروں پہ کھلتا نہیں وہ باب وصال
اور اس کے شہر سے کرتا نہیں کنارہ کوئی
مگر گرفت میں آتا نہیں بدن اس کا
خیال ڈھونڈتا رہتا ہے استعارہ کوئی
کہاں سے آتے ہیں یہ گھر اجالتے ہوئے لفظ
چھپا ہے کیامری مٹی میں ماہ پارہ کوئی
بس اپنے دل کی صدا پر نکل چلیں اس بار
کہ سب کو غیب سے ملتا نہیں اشارہ کوئی
گماں نہ کر کہ ہوا ختم کارِ دل زدگاں
عجب نہیں کہ ہو اس راکھ میں شرارہ کوئی
اگر نصیب نہ ہو اس قمر کی ہم سفری
تو کیوں نہ خاکِ گذر پر کرے گزارہ کوئی
khan Heena
December 7, 2022 at 9:09 amSir ghazal yaad karne karne ka tariqa bataye pls ki kis tarah jaldi yaad honge kiski kaun si ghazal hai