تمام احباب کا اس صفحے پر خیر مقدم کیا جاتا ہے۔
…………………………………………
اس صفحے پر نیٹ جے آر ایف اُردو نصاب کے عین مطابق (یونٹ چار) اردو نظم اور نظم گو شعرا پر مواد اپلوڈ کیا گیا ہے۔ جس کے ذریعے تمام احباب اردو نظم اور نظم گو شعرا یونٹ کو آن لائن پڑھ سکتے ہیں۔ اگر آپ اس یونٹ کو آن لائن پڑھنا چاہتے ہیں تو نیچے دئے گئے کسی بھی موضوع پر کلک کریں اور اپنا پسندیدہ موضوع آن لانن پڑھیں۔
(Note:- Some Data Uploaded Soon)
………………………………………………
نظم کا فن
نظم کی صنفی شناخت
اُردو میں نظم نگاری کا آغاز و ارتقا
نظم گو شعراء اور اُن کی نظمیں
نظیر اکبر آبادی
نظیر : حیات اور نظم نگاری
اردو کے عوامی شاعر نظیر اکبر آبادی کا اصل نام ولی محمد تھا ۔ان کے والد محترم سید محمد فاروق عظیم آباد کے نواب کے مصاحبین میں شمار کیے جاتے تھے جن کی شادی آگرہ کے مقطعہ دار سلطان خان کی بیٹی سے ہوئی تھی۔ سید محمد فاروق کی تیرواں اولاد ولی محمد ہے ان سے قبل 12 اولاد فوت ہوچکے تھے۔نذیر کی پیدائش 1735 عیسوی میں دہلی میں ہوئی ۔1757 میں احمد شاہ ابدالی کے حملے کے وقت اپنی ماں کو لے کر آگرہ آئے تھے اوریہیں کے ہو لیے اور ہر جگہ آگرہ کو ہی اپنا وطن قرار دیتے ہیں ۔ ان کے خاندان اور ماحول کی وجہ سے نظیر میں سپہ گری کے فن میں کمال حاصل کیا تھا ۔فارسی عربی اردو ہندی-پنجابی اور سنسکرت پر عبور حاصل تھا ۔نظیر کے محبوب مشکلوں میں داؤ پیج کشتی تلوار چلانا بلم وغیرہ شامل تھے۔اس کے علاوہ وہ تلواربازی مرغ بازی اور پنجہ لڑانے کے فن میں بھی ماہر تھے ۔ 1770میں جب میر دہلی میں سے آگرہ لوٹے تو میاں نظیر نے ان سے ملاقات کی اور ایک غزل سنائی ۔اس وقت نظیر کی عمر 34 سال کی تھی لیکن انہیں بچپن سے ہی شاعری کا شوق رہا ۔نظیر کے والد ایک سنی مسلمان تھے اور نذیر امامیہ مذہب کے قائل تھے۔ادھیڑ عمر میں ظہور النساء بیگم بنت عبدالرحمن چغتائی سے شادی کی ۔نظیر کے بیٹے کا نام خلیفہ سید گلزار علی اسیر اور بیٹی کا نام امانی بیگم ہے ۔1827 عیسوی میں فالج کے مرض میں مبتلا ہوئے اور 16 اگست 1830 عیسوی میں انتقال فرما گئے ۔نماز جنازہ دو مرتبہ سنی اور امامیہ طریقے سے پڑھائی گئی ۔لیکن ان کی تدفین امامیہ طریقہ پر ہوئی ۔انہی کے مکان میں موجود نیم کے درخت کے زیر دفن ہے ۔
اردو نظم کے معمار اول اور امام اردو نظم نظیر اکبر آبادی اردو شاعری میں سب سے زیادہ متروک الفاظ استعمال کیے۔نظیر نے جتنے ہندوستانی الفاظ اپنی شاعری میں استعمال کیے ہیں اتنے کسی دوسرے نے ان سے پہلے نہیں کیا۔ نظیر کی کلیات میں تین مختصر قصیدے ہیں جن میں انہوں نے زمانے کی نیرنگی اور دنیا کی بے ثباتی کا بیان کیا ہے ۔پہلا قصیدہ نیرنگی زمانہ کے بیان میں ہے اور دوسرے اور تیسرے قصیدے میں نظیر نے میر کے اس مشہور قطعے کی طرز میں جس کا پہلا مصرع ہے :
کل پاؤں اک کاسہ سر پر جو آگیا
“نظیر کا وجود ہی اردو شاعری میں بے نظیر تنقید ہے ۔” بقول کلیم الدین احمد
” نظیر کے یہاں کبیر کے اخلاق اور خسرو کے ذہن کا ایک دلکش امتزاج ملتا ہے۔” بقول نیاز فتح پوری
” نظیر کا دماغ چھوٹا اور تجربہ محدود ہے-” بقول شمس الرحمن فاروقی
نظیر کی نظم کلجگ کو مجنوں گورکھپوری نے روسو کی معاشرتی عہد نامہ کے مماثل قرار دیا ہے ۔
نیاز فتح پوری نے نظیر کو چٹکے باز شاعر کہا ہے ۔
نظیر کی نظموں کے نام :–
تمدن :- عرس حضرت سلیم چشتی ، شب برات ، عید ، عید الفطر ،عید گاہ ،اکبر آباد ،ہولی، دیوالی راکھی
میلے :- آگرے کی تیراکی، بلدیوجی کا میلا
کھیل تماشی :- کبوتر بازی ،بلبلوں کی لڑائی ،گلہری کا ،بچہ ریچھ کا بچہ، ازدہے کا بچہ
حب وطن :- تاج گنج کا روضہ ،شہر اکبر آبادی کی تعریف ،شیرآشوب ،شہر آگرہ
فطرت مدارج عمر :- طفلی،حضرت امام طفلی، جوانی ،بڑھاپا، بڑھاپے کی تعلیاں، بڑھاپے کی عاشقی
مختلف فصلیں اور ان کے لوازم :- بہار،چاندنی ،جھڑی ، برسات، برسات کا تماشہ ،برسات کی بہاریں،برسات کا لطف، انارکلی ،آگرے کی لکڑی، کورا برتن ،اندھیری ،خربوزے
تصوف :- عشق کی بھنگ ،موت،رہے نام اللہ کا ،بنجارہ نامہ ،سن کا جھوپڑا ،وجد و حال ،آئینہ، دنیا دھوکے کی ٹٹی ہے ،کلجگ ،خدا ہی جانے، مذمت دنیا ،اپنا اسرار قدرت
حکمت :- کوڑی، پیسہ،مفلسی،افلاس کا نقشہ،آٹے دال کا بھاؤ،روٹیاں ،چپاتی ،خوشامد، اہل دنیا، تندرستی اور آبرو، دعائے تندرستی
عشق و محبت :جوگی ،جوگی کا سچا روپ ،ہنس نامہ ،کوے اور ہرن کی دوستی ،قصہ پہلی محبت
ظرافت :- مزے کی باتیں، حسن طلب ،برہ کوک ،چوہوں کا آچار
دیگر نظمیں :- جنم کہانی، بانسری ،بیاہ کنہیا کا ،وسم کتھا، درگا جی کی درشن،بازی شطرنج، مکھیاں ،بٹوا،حنا مہندی، جمنا، راہ ،میلا، چراغ ،دسیرہ، راس لیلا
نظم مفلسی
نظم مفلسی
نظیر اکبر آبادی
جب آدمی کے حال پہ آتی ہے مفلسی
کس کس طرح سے اس کو ستاتی ہے مفلسی
پیاسا تمام روز بٹھاتی ہے مفلسی
بھوکا تمام رات سلاتی ہے مفلسی
یہ دکھ وہ جانے جس پہ کہ آتی ہے مفلسی
کہیے تو اب حکیم کی سب سے بڑی ہے شاں
تعظیم جس کی کرتے ہیں تو اب اور خاں
مفلس ہوئے تو حضرت لقماں کیا ہے یاں
عیسیٰ بھی ہو تو کوئی نہیں پوچھتا میاں
حکمت حکیم کی بھی ڈوباتی ہے مفلسی
جو اہل فضل عالم و فاضل کہاتے ہیں
مفلس ہوئے تو کلمہ تلک بھول جاتے ہیں
وہ جو غریب غربا کے لڑکے پڑھاتے ہیں
ان کی تو عمر بھر نہیں جاتی ہے مفلسی
مفلس کرے جو آن کے محفل کے بیچ حال
سب جانیں روٹیوں کا یہ ڈالا ہے اس نے جال
گر گر پڑے تو کوئی نہ لیے اسے سنبھال
مفلس میں ہوویں لاکھ اگر علم اور کمال
سب خاک بیچ آ کے ملاتی ہے مفلسی
جب روٹیوں کے بٹنے کا آ کر پڑے شمار
مفلس کو دیویں ایک تونگر کو چار چار
گر اور مانگے وہ تو اسے جھڑکیں بار بار
مفلس کا حال آہ بیاں کیا کروں میں یار
مفلس کو اس جگہ بھی چباتی ہے مفلسی
مفلس کی کچھ نظر نہیں رہتی ہے آن پر
دیتا ہے اپنی جان وہ ایک ایک نان پر
ہر آن ٹوٹ پڑتا ہے روٹی کے خوان پر
جس طرح کتے لڑتے ہیں اک استخوان پر
ویسا ہی مفلسوں کو لڑاتی ہے مفلسی
کرتا نہیں حیا سے جو کوئی وہ کام آہ
مفلس کرے ہے اس کے تئیں انصرام آہ
سمجھے نہ کچھ حلال نہ جانے حرام آہ
کہتے ہیں جس کو شرم و حیا ننگ و نام آہ
وہ سب حیا و شرم اڑاتی ہے مفلسی
یہ مفلسی وہ شے ہے کہ جس گھر میں بھر گئی
پھر جتنے گھر تھے سب میں اسی گھر کے در گئی
زن بچے روتے ہیں گویا نانی گزر گئی
ہم سایہ پوچھتے ہیں کہ کیا دادی مر گئی
بن مردے گھر میں شور مچاتی ہے مفلسی
لازم ہے گر غمی میں کوئی شور غل مچائے
مفلس بغیر غم کے ہی کرتا ہے ہائے ہائے
مر جاوے گر کوئی تو کہاں سے اسے اٹھائے
اس مفلسی کی خواریاں کیا کیا کہوں میں ہائے
مردے کو بے کفن کے گڑاتی ہے مفلسی
کیا کیا مفلسی کی کہوں خواری پھکڑیاں
جھاڑو بغیر گھر میں بکھرتی ہیں جھکڑیاں
کونے میں جالے لپٹے ہیں چھپر میں مکڑیاں
پیسا نہ ہووے جن کے جلانے کو لکڑیاں
دریا میں ان کے مردے بہاتی ہے مفلسی
بی بی کی نتھ نہ لڑکوں کے ہاتھوں کڑے رہے
کپڑے میاں کے بنیے کے گھر میں پڑے رہے
جب کڑیاں بک گئیں تو کھنڈر میں پڑے رہے
زنجیر نے کواڑ نہ پتھر گڑے رہے
آخر کو اینٹ اینٹ کھداتی ہے مفلسی
نقاش پر بھی زور جب آ مفلسی کرے
سب رنگ دم میں کر دے مصور کے کرکرے
صورت بھی اس کی دیکھ کے منہ کھنچ رہے پرے
تصویر اور نقش میں کیا رنگ وہ بھرے
اس کے تو منہ کا رنگ اڑاتی ہے مفلسی
جب خوب رو پہ آن کے پڑتا ہے دن سیاہ
پھرتا ہے بوسے دیتا ہے ہر اک کو خواہ مخواہ
ہرگز کسی کے دل کو نہیں ہوتی اس کی چاہ
گر حسن ہو ہزار روپے کا تو اس کو آہ
کیا کوڑیوں کے مول بکاتی ہے مفلسی
اس خوب رو کو کون دے اب دام اور درم
جو کوڑی کوڑی بوسہ کو راضی ہو دم بہ دم
ٹوپی پرانی دو تو وہ جانے کلاہ جسم
کیوں کر نہ جی کو اس چمن حسن کے ہو غم
جس کی بہار مفت لٹاتی ہے مفلسی
عاشق کے حال پر بھی جب آ مفلسی پڑے
معشوق اپنے پاس نہ دے اس کو بیٹھنے
آوے جو رات کو تو نکالے وہیں اسے
اس ڈر سے یعنی رات و دھنا کہیں نہ دے
تہمت یہ عاشقوں کو لگاتی ہے مفلسی
کیسے ہی دھوم دھام کی رنڈی ہو خوش جمال
جب مفلسی ہو کان پڑے سر پہ اس کے جال
دیتے ہیں اس کے ناچ کو ٹھٹھے کے بیچ ڈال
ناچے ہے وہ تو فرش کے اوپر قدم سنبھال
اور اس کو انگلیوں پہ نچاتی ہے مفلسی
اس کا تو دل ٹھکانے نہیں بھاؤ کیا بتائے
جب ہو پھٹا دوپٹہ تو کاہے سے منہ چھپائے
لے شام سے وہ صبح تلک گو کہ ناچے گائے
اوروں کو آٹھ سات تو وہ دو ٹکے ہی پائے
اس لاج سے اسے بھی لجاتی ہے مفلسی
جس کسبی رنڈی کا ہو ہلاکت سے دل حزیں
رکھتا ہے اس کو جب کوئی آ کر تماش بیں
اک پون پیسے تک بھی وہ کرتی نہیں نہیں
یہ دکھ اسی سے پوچھئے اب آہ جس کے تئیں
صحبت میں ساری رات جگاتی ہے مفلسی
وہ تو یہ سمجھے دل میں کہ ڈھیلا جو پاؤں گی
دمڑی کے پان دمڑی کے مسی منگاؤں گی
باقی رہی چھدام سو پانی بھراؤں گی
پھر دل میں سوچتی ہے کہ کیا خاک کھاؤں گی
آخر چبینا اس کا بھناتی ہے مفلسی
جب مفلسی سے ہووے کلاونت کا دل اداس
پھرتا ہے لے طنبورے کو ہر گھر کے آس پاس
اک پاؤ سیر آنے کی دل میں لگا کے آس
گوری کا وقت ہووے تو گاتا ہے وہ ببھاس
یاں تک حواس اس کے اڑاتی ہے مفلسی
مفلس بیاہ بیٹی کا کرتا ہے بول بول
پیسا کہاں جو جا کے وہ لاوے جہیز مول
جورو کا وہ گلا کہ پھوٹا ہو جیسے ڈھول
گھر کی حلال خوری تلک کرتی ہے ٹھٹھول
ہیبت تمام اس کی اٹھاتی ہے مفلسی
بیٹے کا بیاہ ہو تو نہ بیاہی نہ ساتھی ہے
نے روشنی نہ باجے کی آواز آتی ہے
ماں پیچھے ایک میلی چدر اوڑھے جاتی ہے
بیٹا بنا ہے دولہا تو باوا براتی ہے
مفلس کی یہ برات چڑھاتی ہے مفلسی
گر بیاہ کر چلا ہے سحر کو تو یہ بلا
شہدار نانا ہیجڑا اور بھاٹ منڈ چڑھا
کھینچے ہوئے اسے چلے جاتے ہیں جا بہ جا
وہ آگے آگے لڑتا ہوا جاتا ہے چلا
اور پیچھے تھپڑیوں کو بجاتی ہے مفلسی
دروازے پر زنانے بجاتے ہیں تالیاں
اور گھر میں بیٹھی ڈومنی دیتی ہیں گالیاں
مالن گلے کی ہار ہو دوڑی لے ڈالیاں
سقا کھڑا سناتا ہے باتیں رزالیاں
یہ خواری یہ خرابی دکھاتی ہے مفلسی
کوئی شوم بے حیا کوئی بولا نکھٹو ہے
بیٹی نے جانا باپ تو میرا نکھٹو ہے
بیٹے پکارتے ہیں کہ بابا نکھٹو ہے
بی بی یہ دل میں کہتی ہے اچھا نکھٹو ہے
آخر نکھٹو نام دھراتی ہے مفلسی
مفلس کا درد دل میں کوئی ٹھانتا نہیں
مفلس کی بات کو بھی کوئی مانتا نہیں
ذات اور حسب نسب کو کوئی جانتا نہیں
صورت بھی اس کی پھر کوئی پہچانتا نہیں
یاں تک نظر سے اس کو گراتی ہے مفلسی
جس وقت مفلسی سے یہ آ کر ہوا تباہ
پھر کوئی اس کے حال پہ کرتا نہیں نگاہ
دالیدری کہے کوئی ٹھہرا دے رو سیاہ
جو باتیں عمر بھر نہ سنی ہوویں اس نے آہ
وہ باتیں اس کو آ کے سناتی ہیں مفلسی
چولہا توانا پانی کے مٹکے میں آبی ہے
پینے کو کچھ نہ کھانے کو اور نے رکابی ہے
مفلس کے ساتھ سب کے تئیں بے حجابی ہے
مفلس کی جورو سچ ہے کہ یاں سب کی بھابی ہے
عزت سب اس کے دل کی گنواتی ہے مفلسی
کیسا ہی آدمی ہو پر افلاس کے طفیل
کوئی گدھا کہے اسے ٹھہرا دے کوئی بیل
کپڑے پھٹے تمام بڑھے بال پھیل پھیل
منہ خشک دانت زرد بدن پر جما ہے میل
سب شکل قیدیوں کی بناتی ہے مفلسی
ہر آن دوستوں کی محبت گھٹاتی ہے
جو آشنا ہیں ان کی تو الفت گھٹاتی ہے
اپنے کی مہر غیر کی چاہت گھٹاتی ہے
شرم و حیا و عزت و حرمت گھٹاتی ہے
ہاں ناخن اور بال بڑھاتی ہے مفلسی
جب مفلسی ہوئی تو شرافت کہاں رہی
وہ قدر ذات کی وہ نجابت کہاں رہی
کپڑے پھٹے تو لوگوں میں عزت کہاں رہی
تعظیم اور تواضع کی بابت کہاں رہی
مجلس کی جوتیوں پہ بٹھاتی ہے مفلسی
مفلس کسی کا لڑکا جو لے پیار سے اٹھا
باپ اس کا دیکھے ہاتھ کا اور پاؤں کا کڑا
کہتا ہے کوئی جوتی نہ لیوے کہیں چرا
نٹ کھٹ اچکا چور دغاباز گٹھ کٹا
سو سو طرح کے عیب لگاتی ہے مفلسی
رکھتی نہیں کسی کی یہ غیرت کی آن کو
سب خاک میں ملاتی ہے حرمت کی شان کو
سو محنتوں میں اس کی کھپاتی ہے جان کو
چوری پہ آ کے ڈالے ہی مفلس کے دھیان کو
آخر ندان بھیک منگاتی ہے مفلسی
دنیا میں لے کے شاہ سے اے یار تا فقیر
خالق نہ مفلسی میں کسی کو کرے اسیر
اشراف کو بناتی ہے اک آن میں فقیر
کیا کیا میں مفلسی کی خرابی کہوں نظیرؔ
وہ جانے جس کے دل کو جلاتی ہے مفلسی
بنجارہ نامہ
نظم
بنجارہ نامہ
ٹک حرص و ہوا کو چھوڑ میاں مت دیس بدیس پھرے مارا
قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارا
کیا بدھیا بھینسا بیل شتر کیا گو میں پلا سر بھارا
کیا گیہوں چانول موٹھ مٹر کیا آگ دھواں اور انگارا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا
گر تو ہے لکھی بنجارا اور کھیپ بھی تیری بھاری ہے
اے غافل تجھ سے بھی چڑھتا اک اور بڑا بیوپاری ہے
کیا شکر مصری قند گری کیا سانبھر میٹھا کھاری ہے
کیا داکھ منقی ٰ سونٹھ مرچ کیا کیسر لونگ سپاری ہے
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا
تو بدھیا لادے بیل بھرے جو پورب پچھم جاوے گا
یا سود بڑھا کر لاوے گا یا ٹوٹا گھاٹا پاوے گا
قزاق اجل کا رستے میں جب بھالا مار گراوے گا
دھن دولت ناتی پوتا کیا اک کنبہ کام نہ آوے گا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا
ہر منزل میں اب ساتھ ترے یہ جتنا ڈیرا ڈانڈا ہے
زر دام درم کا بھانڈا ہے بندوق سپر اور کھانڈا ہے
جب نایک تن کا نکل گیا جو ملکوں ملکوں ہانڈا ہے
پھر ہانڈا ہے نہ بھانڈا ہے نہ حلوا ہے نہ مانڈا ہے
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا
جب چلتے چلتے رستے میں یہ گون تری رہ جاوے گی
اک بدھیا تیری مٹی پر پھر گھاس نہ چرنے آوے گی
یہ کھیپ جو تو نے لادی ہے سب حصوں میں بٹ جاوے گی
دھی پوت جنوائی بیٹا کیا بنجارن پاس نہ آوے گی
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا
یہ کھیپ بھرے جو جاتا ہے یہ کھیپ میاں مت گن اپنی
اب کوئی گھڑی پل ساعت میں یہ کھیپ بدن کی ہے کفنی
کیا تھال کٹوری چاندی کی کیا پیتل کی ڈبیا ڈھکنی
کیا برتن سونے چاندی کے کیا مٹی کی ہنڈیا چینی
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا
یہ دھوم دھڑکا ساتھ لیے کیوں پھرتا ہے جنگل جنگل
اک تنکا ساتھ نہ جاوے گا موقوف ہوا جب ان اور جل
گھر بار اٹاری چوپاری کیا خاصا نین سکھ اور ململ
چلون پردے فرش نئے کیا لال پلنگ اور رنگ محل
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا
کچھ کام نہ آوے گا تیرے یہ لعل و زمرد سیم و زر
جب پونجی باٹ میں بکھرے گی ہر آن بنے گی جان اوپر
نوبت نقارے بان نشان دولت حشمت فوجیں لشکر
کیا مسند تکیہ ملک مکاں کیا چوکی کرسی تخت چھتر
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا
کیوں جی پر بوجھ اٹھاتا ہے ان گونوں بھاری بھاری کے
جب موت کا ڈیرا آن پڑا پھر دونے ہیں بیوپاری کے
کیا ساز جڑاؤ زر زیور کیا گوٹے تھان کناری کے
کیا گھوڑے زین سنہری کے کیا ہاتھی لال عماری کے
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا
مفرور نہ ہو تلواروں پر مت پھول بھروسے ڈھالوں کے
سب پٹا توڑ کے بھاگیں گے منہ دیکھ اجل کے بھالوں کے
کیا ڈبے موتی ہیروں کے کیا ڈھیر خزانے مالوں کے
کیا بغچے تاش مشجر کے کیا تختے شال دوشالوں کے
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا
کیا سخت مکاں بنواتا ہے خم تیرے تن کا ہے پولا
تو اونچے کوٹ اٹھاتا ہے واں گور گڑھے نے منہ کھولا
کیا رینی خندق رند بڑے کیا برج کنگورا انمولا
گڑھ کوٹ رہکلہ توپ قلعہ کیا شیشہ دارو اور گولا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا
ہر آن نفع اور ٹوٹے میں کیوں مرتا پھرتا ہے بن بن
ٹک غافل دل میں سوچ ذرا ہے ساتھ لگا تیرے دشمن
کیا لونڈی باندی دائی دوا کیا بندا چیلا نیک چلن
کیا مندر مسجد تال کنواں کیا کھیتی باڑی پھول چمن
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا
جب مرگ پھرا کر چابک کو یہ بیل بدن کا ہانکے گا
کوئی ناج سمیٹے گا تیرا کوئی گون سئے اور ٹانکے گا
ہو ڈھیر اکیلا جنگل میں تو خاک لحد کی پھانکے گا
اس جنگل میں پھر آہ نظیرؔ اک تنکا آن نہ جھانکے گا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا
نظم آدمی نامہ
نظم آدمی نامہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا میں پادشہ ہے سو ہے وہ بھی آدمی
اور مفلس و گدا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
زردار بے نوا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
نعمت جو کھا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
ٹکڑے چبا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
ابدال، قطب و غوث، ولی آدمی ہوئے
منکر بھی آدمی ہوئے اور کفر کے بھرے
کیا کیا کرشمے کشف و کرامات کے لیے
حتٰی کہ اپنے زہد و ریاضت کے زور سے
خالق سے جا ملا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
فرعون نے کیا تھا جو دعویٰ خدائی کا
شداد بھی بہشت بنا کر ہوا خدا
نمرود بھی خدا ہی کہاتا تھا برملا
یہ بات ہے سمجھنے کی آگے کہوں میں کیا
یاں تک جو ہو چکا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
کل آدمی کا حسن و قبح میں ہے یاں ظہور
شیطاں بھی آدمی ہے جو کرتا ہے مکر و زور
اور ہادی رہنما ہے سو ہے وہ بھی آدمی
مسجد بھی آدمی نے بنائی ہے یاں میاں
بنتے ہیں آدمی ہی امام اور خطبہ خواں
پڑھتے ہیں آدمی ہی قرآن اور نمازیاں
اور آدمی ہی ان کی چراتے ہیں جوتیاں
جو ان کو تاڑتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
یاں آدمی پہ جان کو وارے ہے آدمی
اور آدمی پہ تیغ کو مارے ہے آدمی
پگڑی بھی آدمی کی اتارے ہے آدمی
چلا کے آدمی کو پکارے ہے آدمی
اور سن کے دوڑتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
چلتا ہے آدمی ہی مسافر ہو لے کے مال
اور آدمی ہی مارے ہے پھانسی گلے میں ڈال
یاں آدمی ہی صید ہے اور آدمی ہی جال
سچا بھی آدمی ہی نکلتا ہے میرے لال
اور جھوٹ کا بھرا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
یاں آدمی ہی شادی ہے اور آدمی بیاہ
قاضی وکیل آدمی اور آدمی گواہ
تاشے بجاتے آدمی چلتے ہیں خواہ مخواہ
دوڑے ہیں آدمی ہی تو مشعل جلا کے راہ
اور بیاہنے چڑھا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
یاں آدمی نقیب ہو بولے ہے بار بار
اور آدمی ہی پیادے ہیں اور آدمی سوار
حقہ صراحی جوتیاں دوڑیں بغل میں مار
کاندھے پہ رکھ کے پالکی ہیں دوڑتے کہار
اور اس میں جو پڑا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
بیٹھے ہیں آدمی ہی دکانیں لگا لگا
اور آدمی ہی پھرتے ہیں رکھ سر پہ خونچا
کہتا ہے کوئی لو کوئی کہتا ہے لا رے لا
کس کس طرح کی بیچیں ہیں چیزیں بنا بنا
اور مول لے رہا ہے سو ہے وہ آدمی
طبلے مجیرے دائرے سارنگیاں بجا
گاتے ہیں آدمی ہی ہر اک طرح جا بجا
رنڈی بھی آدمی ہی نچاتے ہیں گت لگا
اور آدمی ہی ناچے ہیں اور دیکھ پھر مزا
جو ناچ دیکھتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
یاں آدمی ہی لعل و جواہر میں بے بہا
اور آدمی ہی خاک سے بد تر ہے ہو گیا
کالا بھی آدمی ہے کہ الٹا ہے جوں توا
گورا بھی آدمی ہے کہ ٹکڑا ہے چاند سا
بد شکل بد نما ہے سو ہے وہ بھی آدمی
اک آدمی ہیں جن کے یہ کچھ زرق برق ہیں
روپے کے جن کے پاؤں ہیں سونے کے فرق ہیں
جھمکے تمام غرب سے لے تا بہ شرق ہیں
کم خواب تاش شال دو شالوں میں غرق ہیں
اور چیتھڑوں لگا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
حیراں ہوں یارو دیکھو تو کیا یہ سوانگ ہے
اور آدمی ہی چور ہے اور آپی تھانگ ہے
ہے چھینا جھپٹی اور بانگ تانگ ہے
دیکھا تو آدمی ہی یہاں مثل رانگ ہے
فولاد سے گڑھا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
مرنے میں آدمی ہی کفن کرتے ہیں تیار
نہلا دھلا اٹھاتے ہیں کاندھے پہ کر سوار
کلمہ بھی پڑھتے جاتے ہیں روتے ہیں زارزار
سب آدمی ہی کرتے ہیں مردے کے کاروبار
اور وہ جو مر گیا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
اشراف اور کمینے سے لے شاہ تا وزیر
یہ آدمی ہی کرتے ہیں سب کار دل پذیر
یاں آدمی مرید ہے اور آدمی ہی پیر
اچھا بھی آدمی ہی کہاتا ہے اے نظیرؔ
اور سب میں جو برا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
محمد حسین آزاد
محمد حسین آزاد 1830میں دہلی میں پیدا ہوۓ ۔ وہ اردو کے صاحب طرز انشا پرداز تھے ۔ فاری زبان پر انھیں کامل عبور حاصل تھا۔ آزاد اردو میں تمثیل نگاری کے اہم ستون مانے جاتے ہیں ۔ نیرنگ خیال ان کے مضامین کا مجموعہ ہے جس میں تمثیل نگاری کے کامیاب نمونے ملتے ہیں ۔۲۳، جنوری ۱۹۱۰ء کو ان کی وفات ہوئی۔
شب قدر
شب قدر
یہ نظم مثنوی کے فارم میں لکھی گئی ہے۔
اے آفتاب صبح سے نکلا ہواہے تو
عالم کے کاروبار میں دن بھر رہا ہے تو
ہر چند شہسوار کو گردش مدام ہے
دن گرم ہو کہ سرد۔ سفر اس کا کام ہے
پر دیکھتا ہوں میں کہ ترا رنگ زرد ہے
رخسار تابناک پہ کلفت کی گرد ہے
اے آفتابِ دہر بہت کم ہے شام میں
اور تو بھی ہے تھکا ہوا دن بھر کے کام میں
روشن تھا تیرے نور سے روئے زمیں تمام
کیسی زمیں کہ گنبد چرخِ بریں تمام
عالم تھا تجھ سے نور کا گنجینہ ہو رہا
دنیا کا کاروبار تھا آئینہ ہو رہا
پر جانتا ہے تو کہ فلک سبزہ زار ہے
اور اس چمن کا رنگ بدلنا بہار ہے
رخصت ہو تو کہ آتی شب مشک ریز ہے
دن بھاگا جاتا آگے گریزا گریز ہے
اب ہوگا شاہزدیٔ شب کا عمل یہاں
اور دن کا حکم رات سے ہوگا بدل یہاں
تو اپنے انتظام میں راحت نظام ہے
قانونِ سلطنت ترا آرامِ عام ہے
چلتا ہے تیرا حکم اندھیرے جہان میں
جو چاہے دیکھ لیوے زمیں آسمان میں
فرماں جو تیرا ہوتا ہے جاری جہان پر
لیتے سب اس کو آنکھوں پہ ہیں بلکہ جان پر
تو رنگِ حکم ہے جو زمانے پہ پھیرتی
گویا کہ مشک اڑتی ہے عنبر بکھیرتی
منہ پر ترے نقاب پڑی دودِ آہ کی
پوشاک پر نیان و حریر سیاہ کی
دامانِ حشر سے ترا دامن بندھا ہوا
گویا کہ ہے نشاں کا پھریرا کھلا ہوا
جلوہ عجب ہے تیرے شہانے جلوس کا
اڑتا ہے تیرا تختِ رواں آبنوس کا
اے رات سنتا ہوں کہ ترے سر پہ تاج ہے
ہر گوہر اس میں ملک حبش کا خراج ہے
ہوں پوچھتا مگر کوئی بتلاتا کچھ نہیں
ایسا سیاہ ہے کہ نظر آتا کچھ نہیں
ہر چند حسن مہر میں کیا کیا پھبن نہیں
پروہ دمک ہے تجھ میں کہ جس میں کرن نہیں
روشن تجھی سے روے زمیں پر چراغ ہیں
اور کھلتے آسماں پہ ستاروں کے باغ میں
بجلی ہنسی تو اس کی تجھی سے بہار ہے
شبنم سے تیرا فیضِ کرم اآشکار ہے
اے رات سلطنت کا تری دیکھ کر حشم
کھاتا فلک ہے تاروں بھری رات کی قسم
اس وقت میں جو غور ہوں کرتا جہان پر
اور ہوں خیال کرتا زمین آسمان پر
ہوں دیکھتاکہ چاروں طرف چھائی رات ہے
ہے وہ مثل کہ رات ہے یا حق کی ذات ہے
خلقت خدا کی سوتی ہے غافل پڑی ہوئی
تو ہے کہ سائی سائیں ہے کرتی کھڑی ہوئی
سوتا گدا ہے خاک پہ اور شاہ تخت پر
ماہی بزیر آب ہے طائر درخت پر
آرام کے بچھونے پہ یاں کوئی گھر میں ہے
دامن پہ دشت کے کوئی سویا سفر میں ہے
گھوڑے پر ہے گا اونگتا جاتا سوار بھی
اور سو گیا ہے راہزنِ نابکار بھی
ہے مست نیند میں کوئی دولھا برات کا
اور کاٹنا کٹھن ہے کہیں غم کی رات کا
زاہد مراقبہ کا ہے دم سب کو دے رہا
اور آپ مارے نیند کے جھوکے ہے لے رہا
انگڑائی لے کے ہے کوئی خوش مست اینڈتا
اور کوئی مست ہے کہ ہے یکدست اینڈتا
القصہ ہے امیر کہ کوئی فقیر ہے
عورت ہے یا کہ مرد جواں ہے کہ پیر ہے
بچہ کہ ماں کی گود میں ہے بلکہ پیٹ میں
سب آگئے ہیں نیند کی اس دم لپٹ میں
سونے کو مہر بھی ہے بہ خوابِ عدم گیا
دریا بھی اب تو چلنے سے شاید ہو تھم گیا
اے رات تیری وصف کہاں تک رقم کروں
اور اتنی روشنائی کہا ں سے بہم کروں
وہ آفتاب تھا جو چمکتا جہان پر
بیٹھا تھا جس کا سکہ زمیں آسمان پر
کھولے ہوئے شفق کا نشاں زرق برق سے
رکھ کر کرن کا تاج نکلتا تھا شرق سے
اس کے عمل کو توڑنا تیرا ہی کام ہے
سکہ ہے اب ستاروں پہ اور تیرا نام ہے
محنت ثمر تھا اس کا تو راحت ہے پھل ترا
چاندی تھی اس کا حکم تو سونا عمل ترا
مزدور تھے جو دن کو مصیبت اٹھا رہے
اور پاؤں تک سروں کے پسینے بہا رہے
سو سو طرح کے بار دلوں پہ اٹھائے ہیں
جب چار پیسے شام کو لے گھر میں آئے ہیں
اے شب تمام دن کی مصیبت سے ہار کے
تیرے عمل میں پاؤں ہیں سوتے پسار کے
دن بھر کے ہیں مسافر محنت زدہ بہت
آوارہ تا بشام ہیں شامت زدہ بہت
آئے ہیں کوہ و دشت کی منزل کو مار کے
رستے میں بوجھ تک نہیں رکھا اتار کے
ڈالا جو تونے دامنِ زحمت کا سایہ ہے
اس وقت ان بچاروں نے آرام پایا ہے
اکثر امیر ہیں کہ یہاں بے نظیر ہیں
دولت کے آسمان پہ بدرِ منیر ہیں
ان کو خدا کی یاد نہ بندوں کی شرم ہے
دن ہو کہ رات عیش کا بازار گرم ہے
یاروں کے ساتھ اول شب کھیل کود میں
کچھ رات کو گزار کے رقص و سرود میں
اب بندمیں ہیں نیند کے یوں بند ہو رہے
گویا کہ ہیں بچھونوں کے پیوند ہو رہے
اکثر امیر ہیں کہ شگفتہ دماغ ہیں
رکھتے ہوائے عیش سے دل باغ باغ ہیں
ہے روز وہ بہار کہ نور وز مات ہے
اور شب کو جاکے دیکھئے تو شب برات ہے
پر اب نمک کا آنکھوں میں کرتی ہے کام شب
پل بھر کی نیند کو ہیں ترستے تمام شب
دیکھیں گے خواب میں بھی نہ لطفِ حیات کو
کانٹوں پہ لوٹ لوٹ کے کاٹیںگے رات کو
اور بر خلاف ان کے اک آفت نصیب ہے
پر اس معاملہ میں وہ ان کارقیب ہے
دن بھر تو جاں کو توڑ کے کرتا ہے کام کو
اور حق حلال کرکے گھرا ٓتا ہے شام کو
اب اپنے نانِ خشک کو پانی میں چور کر
کھایا ہے اور مست پڑا ہے تنور پر
مردوں سے شرط باندھی ہے کم کو تان کر
آئے جو حشربھی تو چلے جوں نہ کان پر
لیکن نہ جاننا کہ جو ارامِ عام ہے
یہ سب جہان کے لیے غفلت کا جام ہے
بندے خدا کے ایسے بھی یاں بیشمار ہیں
جو دن سے زیادہ رات کو مصروف کا ر ہیں
عالم کو دیکھو محو ہے بیٹھا کتاب پر
آتا ہے فصل پر کبھی جاتا ہے باب پر
لفظوں میں غور ہے کبھی مضمون پاک میں
ہو جیسے کوئی ڈھونڈتا سونے کو خاک میں
لیکن کبھی مقاصد اصلی سے چھوٹ کے
کرتا ہے رد و قدح بہت جھوٹ موٹ کے
دیتا ہے لفظ لفظ کو معنی نئے نئے
دکھلاتازور طبع ہے یعنی نئے نئے
پھر آپ ہی کچھ سوال ہے آپ ہی جواب ہے
کر لیتا دل ہی دل میں حساب و کتاب ہے
ہیں مدرسہ کے طالب علم اور ذکر میں
بیٹھے ہیں امتحان کے دینے کی فکر میں
کرتے کبھی سوال ہیں آپس میں دور سے
کرتے کبھی مطالعہ ہیں اور طور سے
اس غور سے جھکے ہوئے ہیں پیچ و تاب میں
جس طرح پیٹھ جاتے ہیں کیڑے کتاب میں
پر دیکھئے کہ لائقِ انعام کون ہو
کل کامیاب کون ہو ناکام کون ہو
پڑھ لو جو کچھ کہ پڑھنا ہے شب درمیان ہے
کل اپنی اپنی جان ہے اور امتحان ہے
اور وہ جو لکھ پتی ہے مہاجن جہان میں
آدھی ڈھلی ہے پر وہ ابھی ہے دُکان میں
گنتی میں دام دام کے ہے دم دئے ہوئے
بیٹھا ہے آگے سب بہی کھاتا لئے ہوئے
ہے سارے لین دین کی میزاں تمام کی
پر سوئے کیا کہ بِد نہیں ملتی چھدام کی
اے رات تیرے پردۂ دامن کی آڑ میں
اس وقت چور بھی ہے کہیں اپنی تاڑ میں
دیوار کود جاتا ہے اور چول اکھاڑتا ہے
دیتا کہیں نقب ہے کہیں چھت کو پھاڑتا
اسباب سب اندھیرے میں گھر کا ٹٹول کر
ہے چپکے چپکے دیکھ رہا کھول کھول کر
وہ تو یہاں نچوڑ رہا اس کی جان ہے
پر میرے دل میں آتا یہ رہ رہ کے دھیان ہے
یعنی کہ عمر بھر کی کمائی غریب کی
ہوتی ہے مفت و زد شقی کے نصیب کی
پروردگار کون بھلا کس کو دیتا ہے
حق ہے کہ تو ہی دیتا ہے اور تو ہی لیتا ہے
لیکن ہے اس کی گھات میں اِک چوکیدار بھی
ہے غافل اس کے وار سے یہ نابکار بھی
جب صبر پڑ گیا کسی بیکس کی آہ کا
سو دن تو چور کے ہیں پر اک دن ہے ساہ کا
اور صاحبِ نجوم اسی کالی رات میں
بیٹھا ہے دور بین لئے اپنی گھات میں
ایک آنکھ آسمان پہ ہے اک کتاب پر
اور مٹ رہا ہے چاند گہن کے حساب پر
کٹتی ہے اس کی تارے ہی گن کر تمام رات
پر اب تو فکر ہے یہی دن بھر تمام رات
ایک جنتر ی بناؤں کہ سالِ جدید ہے
لیکن جو ہووے جلد مرتب توعید ہے
عالم ہے سوتا بسترِ راحت پہ خواب میں
شاعر بجاے خواب ہے پر پیچ و تاب میں
اس کو نہ ملک کی ہے نہ ہے مال کی ہوس
دولت کی آرزو ہے نہ اقبال کی ہوس
ہے اپنے ذوق شوق میں بیٹھا جھکائے سر
اور سر پہ آدھی رات اِدھر آدھی اُدھر
پھیلائے ہاتھ صورتِ امیدوار ہے
کرتا یہی خدا سے دعا بار بار ہے
یار ب نہیں ہے دولت و زر کی دعا مجھے
ہے تجھ سے التجا تو یہی التجا مجھے
میرے سخن کو خلق میں تو کارگر کرے
وہ بات دے زباں پہ کہ دل میں اثر کرے
اور کوئی شاعر ایسابھی روشن دماغ ہے
اس وقت گھر میں بیٹھا جلائے چراغ ہے
ڈوبا ہوا ہے سر کو گریباں میں ڈال کے
اُڑتا مگر ہے کھولے ہوئے پر خیال کے
جس طرح باز لائے کبوتر کو مار کر
یوں لاتا آسماں سے ہے مضموں اُتار کر
لڑ جاتا زہن ہے جو کبھی اور طور سے
پھر ہے زمیں کی تہ میں اُتر جاتا غور سے
اور واں کے ذرہ ذرہ کو سب دیکھ بھال کے
لاتا ہے صاف گوہر مضموں نکال کے
نکتا جو ایک بھی کوئی اس آن مل گیا
یوں خوش ہے جیسے تخت سلیمان مل گیا
کرتا ہے اس کو نظم پھر ایسے قرینے پر
جس طرح کوئی نقش بٹھائے نگینے پر
اور اس اندھیری رات میں شاعر جو چور ہے
پھرتا ٹٹولتا ہوا مانند کورہے
مضموں اُڑا رہا کسی شعر و غزل کے ہے
لاتا مگر کچھ ایسا لفافہ بدل کے ہے
سننے سے جس کے آنکھوں میں سرسوں سی پھول جائے
دیکھے جو خودبھی صاحبِ مضموں تو بھول جائے
اے رات یہ جو تونے سرِ شام آن کر
سجادۂ سیاہ بچھایا ہے تان کر
اس پر وہ حق پرست کہ یادِ خدا میں ہے
بیٹھا خدا کی یاد سے خوف و رجا میں ہے
اس کو اسی کی ذات سے ہے لو لگی ہوئی
اور دل میں ہے فقط یہ تگ و دو لگی ہوئی
کیوں کہ یہ شعلہ شمعِ تعلق سے چھوٹ کے
ہو وصل نور پاک میں پھر ٹوٹ کے
دریا میں چل رہا کہیں اس دم جہاز ہے
اہل جہاز جن کا خدا کارساز ہے
بیٹھے اسی کی آس پہ ہیں دل دھرے ہوئے
سینوں میں لاکھ حسرت و ارماں بھرے ہوئے
بادِ مراد دیتی ہوائے مراد ہے
طوفان کا خطر مگر اس سے زیادہ ہے
اس واسطے نظر ہے کبھی بادبان پر
حسرت سے دیکھتے ہیں کبھی آسمان پر
یہ سب کے سب ہیں بیٹھے ہوا کی امید میں
اور ناخدا ہے بیٹھا خدا کی امید میں
ماں کو جو اپنے بچے سے اُلفت کمال ہے
اس دم بھی دیکھو اس کو اسی کا خیال ہے
ہر چن کام کاج میں ہے گھر کے تھک رہی
پر اس کو ہاتھ سے ہے برابر تھپک رہی
سوتی پڑی خدا کی خدائی تمام ہے
وہ اپنی میٹھی نیند کو کرتی حرام ہے
کہتی ہے یہ کہ مجھ کو پڑے یا نہ کل پڑے
ایسا نہ ہو کہ چونک کے بچہ اُچھل پڑے
ماں کو تو سوتے جاگتے اس کا ہی دھیان ہے
کروٹ نہیں بدلتی کہ ننھی سی جان ہے
پر جاے حیف حال اسی جاں بلب کا ہے
سب کہہ رہے ہیں جس کو مہمان شب کا ہے
دن بھر دوا غذا میں رہا غیر حال ہے
لیکن ہے اب یہ حال کہ ہلنامحال ہے
بتی چراغ عمر کی ہے جھلملا رہی
اور بیکسی سرہانے ہے آنسو بہارہی
اے رات مجھ کو دھیان یہی بار بار ہے
اس کی تو زندگی کوئی دم کا شمار ہے
کون اس کا ساتھ دیوے گا ہو صبح جب تلک
روئے گا کوئی شام کے مردے کو کب تلک
آزاد ؔخوب لطف دیا تیری بات نے
پر لی اب آسمان پہ کروٹ ہے رات نے
سب اپنے اپنے کام میں ہیں دل دئے ہوئے
تو ایسا کیوں ہے ساغرِ غفلت پئے ہوئے
پاؤں میں کاٹ کے موزوں کے چڑھائے ہیں کھڑے
اور عصا اپنے سر برف جمائے ہیں کھڑے
قدم آگے کو رپٹ کر ہیں نکلتے جاتے
یہ اچھل جاتے ہیں اور آغے پھسلتے جاتے
لوئی گھُڑ دور میں جیتا کوئی ہارا ہوگا
پر رپٹ دوڑ کا میدان تو نہ مارا ہوگا
بس کر اے دل کہ نہیں لکھنے کی طاقت باقی
مارے سردی کے نہیں ہاتھ میں حالت باقی
دیکھ کاغذ کا ورق ہاتھ میں تھراتا ہے
اور قلم ہاتھ سے تھرا کے گرا جاتا ہے
مارے سردی کے ہے سر اپنا جھکائے لیتا
منہ ہے کاغذ کی رضائی میں چھپائے لیتا
مرے اللہ تو ہی اب ہے بچانے والا
ترے آزادؔ کو جاڑے سے پڑا ہے پالا
آرزو کچھ نہیں دیتا کی رہی ہے دل میں
اب تمنا جو ہے باقی تو یہی ہے دل میں
تپش عشق سے دل ہووے مرا نرم سدا
گرمیٔ شعرو سخن سینہ رکھے گرم سدا
صبح امید
الطاف حسین حالی
حالی کا اصل نام خواجہ الطاف حسین اور تخلص حالی تھا۔ انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم پانی پت میں حاصل کی ۔ اپنے علمی ذوق وشوق کی بدولت انھوں نے فارسی اور عربی میں بھی مہارت حاصل کی تھی ۔ حالی کے ادبی ذوق کی تربیت شیفتہ اور غالب کی صحبتوں میں ہوئی ۔ سرسید کے رفقا میں حالی اس لحاظ سے ممتاز ہیں کہ انھوں نے سرسید کے مشن کو پورے طور پر اپنا لیا تھا۔ اپنے طرز تحریر میں بھی انھوں نے سرسید کی پیروی کی ۔
حالی کا شمار جدید اردو شاعری کے بانیوں میں ہوتا ہے ۔ انھوں نے عصری تقاضوں کے پیش نظر اصلاحی نوعیت کی عمد ہ نظمیں لکھیں ۔ ان میں مد و جزر اسلام کو بہت شہرت ملی۔ یہ نظم مسدس حالی کے نام سے بھی مشہور ہوئی۔ حالی نے نظم جدید کے ساتھ ساتھ غزل اور مختلف معاشرتی و اخلاقی مسائل پر بھی نظمیں لکھی ہیں۔ ان کے دیوان کا مقدمہ اردو تنقید کی پہلی کتاب سمجھا جاتا ہے جو مقدمہ شعر و شاعری کے نام سے مشہور ہے ۔ حالی کا انتقال 1914میں پانی پت میں ہوا۔
نشاطِ امید
نشاطِ امید
’’نشاط امید‘‘ مثنوی کے فارم میں ہے۔ سنہ تصنیف1874 ۔184 اشعار پر مشتمل۔
موضوع:اس نظم کا خاص موضوع امید ہے۔ ایک ایسی امید جب مایوسیوں کی گھٹا انسان کو پریشان کر دیتی ہے ،جب دنیا کے تمام سہارے ٹوٹ جاتے ہیںاس وقت صرف امید کا سہارا ہمارے قدم آگے بڑھاتا ہے۔شاعر اس موقع پر مختلف بزرگوں پیغمبروں اور مشہور آدمیوں کے حوالے دیتا ہے جن کو ناکامیوں میں صرف امید کا سہارا تھا۔دنیا امید پر قائم ہے۔یہی اس نظم میں بیان کیا گیا ہے۔
اے مری امید میر ی جاں نواز
اے مری دل سوز میری کار ساز
میری سپر اور مرے دل کی پناہ
درد و مصیبت میں مری تکیہ گاہ
عیش میں اور رنج میں میری شفیق
کوہ میں اور دشت میں میری رفیق
کانٹے والی غمِ ایام کی
تھامنے والی دل ناکام کی
دل پہ پڑا آن کے جب کوئی دکھ
تیرے دلاسے سے ملاہم کو سکھ
تونے نہ چھوڑا کبھی غربت میں ساتھ
تو نے اٹھایا نہ کبھی سر سے ہاتھ
جی کو ہوا اگر کبھی عسرت کا رنج
کھول دیے تونے قناعت کے گنج
تجھ سے ہے محتاج کا دل بے ہراس
تجھ سے ہے بیمار کو جینے کی آس
خاطرِ رنجور کا درماں ہے تو
عاشقِ مہجور کا ایماں ہے تو
نوح کی کشتی کا سہارا تھی تو
چاہ میں یوسف کی دل آرا تھی تو
رام کے ہمراہ چڑھی رن میں تو
پانڈوں کے بھی ساتھ پھری بن میں تو
تونے سدا قیس کا بہلا یا دل
تھام لیا جب کبھی گھبرایا دل
ہو گیا فرہاد کا قصہ تمام
پر ترے فقروں پہ رہا خوش مدام
تونے ہی رانجھے کی یہ بندھوائی راس
ہیر تھی فرقت میں بھی گویا کہ پاس
ہوتی ہے تو پشت پہ ہمت کی جب
مشکلیں آساں نظر آتی ہیں سب
ہات میں جب آکے لیا تونے ہات
سات سمندر سے گزرنا ہے بات
ساتھ ملا جس کو ترا دو قدم
کہتا ہے وہ یہ ہے عرب اور عجم
گھوڑے کی لی اپنے جہاں تو نے باگ
سامنے ہے تیرے گیا اور پراگ
عزم کو جب دیتی ہے تو میل جست
گنبد گردوں نظر آتا ہے پست
تونے دیا آکے ابھارا جہاں
سمجھے کہ مٹھی میں ہے سارا جہاں
ذرے کو خورشید میں دے تو کھپا
بندے کو اللہ سے دے تو ملا
دونوں جہاں کی ہے بندھی تجھ سے لڑ
دین کی تو اصل ہے دنیا کی جڑ
نیکیوں کی تجھ سے ہے قائم اساس
تو نہ ہو تو جائیں نہ نیکی کے پاس
دین کی تجھ بن کہیں پرسش نہ ہو
تو نہ ہو تو حق کی پرستش نہ ہو
خشک تھا بِن تیرے درختِ عمل
تونے لگائے ہیں یہ سب پھول پھل
دل کو لبھاتی ہے کبھی بن کے حور
گاہ دکھاتی ہے شراب طہور
نام ہے سدرہ کبھی طوبیٰ ترا
روز نرالا ہے تماشا ترا
کوثر و تسنیم ہے یا سلسبیل
جلوے ہیں سب تیرے یہ بے قال و قیل
روپ ہے ہر پنتھ میں تیرے الگ
ہے کہیں فردوس کہیں ہے سُرگ
چھوٹ گئے سارے قریب اور بعید
ایک نہ چھوٹی تو چھوٹی امید
تیرے ہی دم سے کٹے جو دن تھے سخت
تیرے ہی صدقہ سے ملا تاج و تخت
خاکیوں کی تجھ سے ہمت بلند
تو نہ ہو تو کام ہوں دنیا کے بند
تجھ سے ہی آباد ہے کون و مکاں
تو نہ ہو تو ابھی برہم جہاں
کوئی پڑا پھرتا ہے بہر معاش
ہے کوئی اکسیر کو کرتا تلاش
ایک تمنا میں ہے اولاد کی
ایک کو دلدار کی ہے لَو لگی
ایک کو ہے دھن کہ جو کچھ ہاتھ آئے
دھوم سے اولاد کی شادی رچائے
ایک کو کچھ آج اگر مل گیا
کل کی ہے یہ فکر کہ کھائیں گے کیا
قوم کی بہبود کا بھوکا ہے ایک
جس میں ہو ان کے لیے انجام نیک
ایک کو ہے تشنگیٔ قربِ حق
جس نے کیا دل سے جگر تک ہے شق
جو ہے غرض اس کی نئی جستجو
لاکھ اگر دل میں ہیں تو لاکھ آرزو
تجھ سے ہیں دل سب کے مگر باغ باغ
گُل کوئی ہونے نہیں پاتا چراغ
سب یہ سمجھتے ہیںکہ پائی مراد
کہتی ہے جب تو کہ اب آئی مراد
وعدہ ترا راست ہو یا ہو دروغ
تونے دیے ہیں اسے کیا کیا فروغ
وعدے وفا کرتی ہے گوچند تو
رکھتی ہے ہرایک کو خور سند تو
بھاتی ہے سب کو تری لیت ولعل
تونے کہاں سیکھی ہے یہ آج کل
تلخ کو تو چاہے تو شیریں کرے
بزمِ عزا کو طرب آگیں کرے
آئے نہ دے رنج کو مفلس کے پاس
رکھے غنی اس کو رہے جس کے پاس
یاس کا پاتی ہے جو کچھ تو لگاؤ
سیکڑوں کرتی ہے اتار اور چڑھاؤ
آنے نہیں دیتی دلوں پر ہراس
ٹوٹنے دیتی نہیں طالب کی آس
جن کو میسر نہ ہو کملی پھٹی
خوش ہیں توقع پہ وہ زربفت کی
چٹنی سے روٹی کا ہے جن کی بناؤ
بیٹھے پکاتے ہیں خیالی پلاؤ
پاؤں میں جوتی نہیں پر ہے یہ ذوق
گھوڑا جو سبزہ ہو تو نیلا ہو طوق
فیض کے کھولے ہیں جہاں تونے باب
دیکھتے ہیں جھونپڑے محلوں کے خواب
تیرے کرشمے ہیں غضب دل فریب
دل میں نہیں چھوڑتے صبر و شکیب
تجھ سے مہوّسِ نے جو شوری لیا
پھونک دیا کان میں کیا جانے کیا
دل سے بھلا یا زن و فرزند کو
لگ گیا گھُن نخلِ برومند کو
کھانے سے پینے سے ہوا سرد جی
ایسی کچھ اکسیر کی ہے لَو لگی
دین کی ہے فکر نہ دنیا سے کام
دھن ہے یہی رات دن اور صبح و شام
دھونکنی ہے بیٹھ کے جب دھونکتا
شہ کو سمجھتا ہے اک ادنیٰ گدا
پیسے کو جب تاؤ پہ دیتا ہے تاؤ
پوچھتا یاروں سے ہے سونے کا بھاؤ
کہتا ہے جب ہنستے ہیں سب دیکھ کر
رہ گئی اک آنچ کی باقی کسر
ہے اسی دھندہ میں وہ آسودہ حال
تونے دیا عقل پہ پردہ سا ڈال
تو دل کے گر دیکھئے اس کی خوشی
کوئی خوشی اس کو نہ پہنچے کبھی
پھرتے ہیں محتاج کئی تیرہ بخت
جن کے بڑوں میں تھا کبھی تاج و تخت
آج جو برتن ہیں تو کل گھر گرِو
ملتی ہے مشکل سے انھیں نانِ جو
تیرے سوا خاک نہیں ان کے پاس
ساری خدائی میں ہے لے دے کے آس
پھولے سماتے نہیں اس آس پر
صاحب عالم انھیں کہئے اگر
کھاتے ہیں اس آس پر قسمیں عجیب
جھوٹے کو ہو تخت نہ یارب نصیب
ہوتا ہے نومیدیوں کاجب ہجوم
آتی ہے حسرت کی گھٹا جھوم جھوم
لگتی ہے ہمت کی کمر ٹوٹنے
حوصلہ کالگتا ہے جی چھوٹنے
ہوتی ہے بے صبری و طاقت میں جنگ
عرصۂ عالم نظر آتا ہے تنگ
جی میں یہ آتا ہے کہ سم کھائیے
پھاڑ کے یا کپڑے نکل جائیے
بیٹھنے لگتا ہے دل آوے کی طرح
یاس ڈراتی ہے پھلا دے کی طرح
ہوتا ہے شکوہ کبھی تقدیر کا
اڑتا ہے خاکہ کبھی تدبیر کا
ٹھنتی ہے گردوں سے لڑائی کبھی
ہوتی ہے قسمت کی ہنسائی کبھی
جاتا ہے قابو سے دل آخر نکل
کرتی ہے ان مشکلوں کو تو ہی حل
کان میں پہنچی تری آہٹ جو ہیں
رختِ سفر یاس نے باندھا وہیں
ساتھ گئی یاس کے پژمردگی
ہو گئی کافور سب افسردگی
تجھ میں چھپا راحتِ جاں کا ہے بھید
چھوڑیو حالیؔ کا نہ ساتھ اے امید
برکھارُت
برکھارُت
نظم:’’برکھا رت‘‘(1874 )مثنوی کے فارم میں لکھی گئی۔
موضوع: اس نظم میں حالی نے بڑے دلچسپ انداز سے شروع میں گرمی کی شدت کا بیان کیا ہے۔گرمی اپنے عروض پر تھی،تبھی آسمان پر بادلوں کے دل کے دل آنے لگے۔بادلوں کے آتے ہی گرمی کی شدت ختم ہو گئی اور برسات ہونے لگی۔یہی سب منظر حالی نے اس نظم میں خوبصورتی سے بیان کیے ہیں۔
گرمی کی تپش بجھانے والی
سردی کا پیام لانے والی
قدرت کے عجائبات کی کان
عارف کے لیے کتاب عرفان
وہ شاخ و درخت کی جوانی
وہ مور وہ ملخ کی زندگانی
وہ سارے برس کی جان برسات
وہ کون؟ خدا کی شان برسات
آئی ہے بہت دعاؤں کے بعد
اور سیکڑوں التجاؤں کے بعد
وہ آئی تو آئی جان میں جان
سب تھے کوئی دن کے ورنہ مہمان
گرمی سے تڑپ رہے تھے جاندار
اور دھوپ میں تپ رہے تھے کہسار
بھوبل سے سوا تھا ریگِ صحرا
اور کھول رہا تھا آبِ دریا
تھی لوٹ سی پڑ رہی چمن میں
اورآگ سی لگ رہی تھی بن میں
سانڈے تھے بلوںمیں منہ چھپائے
اور ہانپ رہے تھے چار پائے
تھیں لومڑیاں زباں نکالے
اور لو سے ہرن ہوئے تھے کالے
چیتوں کو نہ تھی شکار کی سُدھ
ہرنوں کو نہ تھی قطار کی سُدھ
تھے شیر بڑے کچھار میں سست
گھڑیال تھے رودبار میں سست
ڈھوروں کا ہوا تھا حال پتلا
بیلوں نے دیا تھا ڈال کندھا
بھینسوں کے لہو نہ تھا بدن میں
اور دودھ نہ تھا گئو کے تھن میں
گھوڑوں کا چھٹا تھا گھاس دانہ
تھا پیاس کا ان پہ تازیانہ
گرمی کا لگا ہوا تھا بھبکا
اور انس نکل رہا تھا سب کا
طوفان تھے آندھیوں کے برپا
اٹھتا تھا بگولے پر بگولا
آرے تھے بدن پہ لو کے چلتے
شعلے تھے زمین سے نکلتے
تھی آگ کا دے رہی ہوا کام
تھا آگ کا نام مفت بدنام
رستوں میں سوار اور پیدال
سب دھوپ کے ہاتھ سے تھے بیکل
گھوڑوں کے آگے نہ اٹھتے تھے پاؤں
ملتی تھی کہیں جو روکھ کی چھاؤں
تھی سب کی نگاہ سوئے افلاک
پانی کی جگہ برستی تھی خاک
پنکھے سے نکلتی جو ہوا تھی
وہ بادِ سموم سے سوا تھی
بجھتی نہ تھی آتش درونی
لگتی تھی ہوا سے آگ دونی
سات آٹھ بجے سے دن چھپے تک
جانداروں پہ دھوپ کی تھی دستک
ٹٹی میں تھا دن گنواتا کوئی
تہ خانے میں منھ چھپاتا کوئی
بازار پڑے تھے سارے سنسان
آتی تھی نظر نہ شکلِ انسان
چلتی تھی دکان جن کی دن رات
بیٹھے تھے وہ ہات پر دھرے ہات
خلقت کا ہجوم کچھ اگر تھا
یا پیاؤ پہ یا سبیل پر تھا
تھا شہر میں قحط آدمی زاد
سلطان کا اک کنواں تھا آباد
پانی سے تھی سب کی زندگانی
میلہ تھا وہیں جہاں تھا پانی
تھیں برف پہ نیتیں لپکتی
فالودے پہ رال تھی ٹپکتی
پھل پھول کی دیکھ کر طراوت
پاتے تھے دل و جگر طراوت
کنجڑوں کی وہ بولیاں سہانی
بھر آتا تھا سُن کے منھ میں پانی
تھے جو خفقانی اور مراقی
گرمی سے نہ تھا کچھ ان میں باقی
کھانے کا نہ تھا انھیں مزا کچھ
آٹھ آٹھ پہر نہ تھی غذا کچھ
بن کھائے کئی کئی دن اکثر
رہتے تھے فقط ٹھنڈائیوں پر
شب کٹتی تھی ایڑیاں رگڑتے
مر پیٹ کے صبح تھے پکڑتے
اور صبح سے شام تک برابر
تھا العطش العطش زباں پر
بچوں کا ہوا تھا حال بے حال
کملائے ہوئے تھے پھول سے گال
آنکھوں میں تھا ان کیا پیاس سے دم
تھے پانی کو دیکھ کرتے ’’مم مم‘‘
ہر بار پکارتے تھے ماں کو
ہونٹوں پہ تھے پھیرتے زباں کو
پانی دیا گر کسی نے لاکر
پھر چھوڑتے تھے نہ منھ لگاکر
بچے ہی نہ پیاس سے تھے مضطر
تھا حال بڑوں کا ان سے بد تر
تخصیص تھی کچھ نہ میری تیری
پانی سے نہ تھی کسی کو سیری
کل شام تلک تو تھے یہی طور
پر رات سے ہے سماں ہی کچھ اور
پردا کی دہائی پھر رہی ہے
پچھوا سے خدائی پھر رہے ہے
برسات کا بج رہا ہے ڈنکا
اک شور ہے آسماں پہ برپا
ہے ابر کی فوج آگے آگے
اور پیچھے ہیں دَل کے دَل ہوا کے
ہیں رنگ برنگ کے رسالے
گورے ہیں کہیں کہیں ہیں کالے
ہے چرخ پہ چھاؤنی سی چھاتی
ایک آتی ہے فوج ایک جاتی
جاتے ہیں مہم پہ کوئی جانے
ہمراہ ہیں لاکھوں توپ خانے
توپوں کی ہے جب کہ باڑ چلتی
چھاتی ہے زمین کی دہلتی
مینھ کا ہے زمین پر دڑ پڑا
گرمی کا ڈبو دیا ہے بیڑا
بجلی ہے کبھی جو کو ند جاتی
آنکھوں میں ہے روشنی سی آتی
گھنگھور گھٹائیں چھا رہی ہیں
جنت کی ہوائیں آ رہی ہیں
کوسوں ہے جدھر نگاہ جاتی
قدرت ہے نظر خدا کی آتی
سورج نے نقاب لی ہے منھ پر
اور دھوپ نے نہ کیا ہے بستر
باغوں نے کیا ہے غسل صحت
کھیتوں کو ملا ہے سبز خلعت
بیٹا ہے نہ ہے سڑک نمودار
اٹکل سے ہیں راہ چلتے رہوار
ہے سنگ و شجر کی ایک وردی
عالم ہے تمام لاجو روی
پھولوں سے پٹے ہوئے ہیں کہسار
دولھا سے بنے ہوئے ہیں اشجار
پانی سے بھرے ہوئے ہیں جل تھل
ہے گونج رہا تمام جنگل
کرتے ہیں پپیہے پیہو پیہو
اور مور چنگھاڑتے ہیں ہر سو
کوئل کی ہے کوک جی لبھاتی
گویا کہ ہے دل میں بیٹھی جاتی
مینڈک جو ہیں بولنے پہ آتے
سنسار کو سر پہ ہیں ٹھاتے
سب خوانِ کرم سے حق کے ہیں سیر
پانی میں مگر، کچھار میں شیر
زردار ہیں اپنے مال میں مست
قلاّنچ ہیں اپنی کھال میں مست
ابر آیا ہے گھر کے آسماں پر
کلمے ہیں خوشی ک ہر زباں پر
مسجد میں ہے ورد اہل تقویٰ
یاربِّ لَسنا وَ لا عَلَیًنَا
مندرمیں ہے ہر کوئی یہ کہتا
کر پا ہوئی تیری میگھ راجا
کرتے ہیں گُرو گُرو گرنتھی
گاتے ہیں بھجن کبیر پنتھی
جاتاہے کوئی ملار گاتا
ہے دیس میں کوئی گنگناتا
بھنگی ہیں نشے میں گاتے پھرتے
اور بانسریاں بجاتے پھرتے
سرون کوئی گا رہا ہے بیٹھا
چھیڑا ہے کسی نے ہیرا رانجھا
رکھشک جو بڑے ہیں جین مت کے
ڈھکنے ہیں دیوں پر ڈھکتے پھرتے
کرتے ہیں وہ یوں جیوں کی رکھیا
تاجل نہ بجھے کوئی پتنگا
ہیں شکر گزار تیرے برسات
انسان سے لے کے تا جمادات
دنیا میں بہت تھی چاہ تیری
سب دیکھ رہے تھے راہ تیری
تجھ سے ہے کھلا یہ راز قدرت
راحت ملتی ہے بعدِ کلفت
شکریۂ فیضِ عام تیرا
پیشانیٔ دہر پر ہے لکھا
گلشن کود یا جما ل تونے
کھیتی کو کیا نہال تونے
طاؤس کو ناچنا بتایا
کوئل کو الاپنا سکھایا
جب مور ہے ناچنے پہ آتا
آپے سے ہے اپنے گزار جاتا
کوئل کو نہیں قرار اک پل
ایسی کوئی تونے کوک دی کل
شب بھر میں ہوا سماں دگرگوں
کیا پڑھ دیا آکے تونے افسوں
سوئے تو اساڑھ کا عمل تھا
اٹھے تو سماں ہے ماہ کا سا
لاہور میں شب ہوئی تھی لیکن
کشمیر میں پہنچے جب ہوا دن
امر ت سا ہوا بھر دیا کچھ
اک رات میں کچھ سے کر دیا کچھ
دریا تجھ بن سسک رہے تھے
اور بَن تری راہ تک رہے تھے
دریاؤں میں تونے ڈال دی جان
اور تجھ سے بنوں کو لگ گئی شان
جن جھیلوں میں کل تھی خاک اڑتی
ملتی نہیں آج تھاہ ان کی
جو دانے تھے خاک میں پریشان
سب آگے چڑھائے تونے پروان
دولت جو زمین میں تھی مخفی
آگے ترے اس نے سب اگل دی
پڑتے تھے ڈلاؤ جس زمیں پر
وہاں سبزۂ گل ہیں جلوہ گستر
جن پودوں کو کل تھے ڈھور چرتے
باتیں ہیں وہ آسماں سے کرتے
جن باغوں میں اڑتے تھے بگولے
وہاں سیکڑوں اب پڑے ہیں جھولے
تھے ریت کے جس زمیں پہ انبار
ہے بیرِ بہوٹیوں سے گلنار
کھم باغوں میں جا بجا گڑے ہیں
جھولے ہیں کہ سو بسو پڑے ہیں
کچھ لڑکیاں بالیاں ہیں کم سِن
جن کے ہیں یہ کھیل کود کے دن
ہیں پھول رہی خوشی سے ساری
اور جھول رہی ہیں باری باری
جب گیت ہیں سارے مل کے گاتی
جنگل کو ہیں سر پہ وہ اٹھاتی
اک سب کو کھڑی جھلا رہی ہے
اک گرنے سے خوف کھا رہی ہے
ہے ان میں کوئی ملار گاتی
اور دوسری پینگ ہے چڑھاتی
گاتی ہے کبھی کوئی ہنڈولا
کہتی ہے کوئی بدیسی ڈھولا
اک جھولے سے وہ گری ہے جا کر
سب ہنستی ہیں قہقہے لگا کر
ندی نالے چڑھے ہوئے ہیں
تیرا کوں کے دل بڑھے ہوئے ہیں
گھڑناؤ پہ ہے سوار کوئی
اور تیر کے پہنچا پار کوئی
بگلوں کی ہیں ڈاریں آکے گرتی
مرغابیاں تیرتی ہیں پھرتی
چکلے ہیں یہ پاٹ ندیوں کے
دن بھر میں ہیں بیٹرے جاکے لگتے
زوروں پہ چڑھا ہوا ہے پانی
موجوں کی ہیں صورتیں ڈرانی
نادیں ہیں کہ ڈگمگا رہی ہیں
موجوں کے تھپیڑے کھا رہی ہیں
ملاحوں کے اڑ رہے ہیں اوسان
بیڑے کا خدا ہی ہے نگہبان
منجدھار کی رو بھی زور پر ہے
مچھلی کو بھی جان کا خطر ہے
بیزار اک اپنی جان و تن سے
بچھڑا ہوا صحتِ وطن ہے
غربت کی صعوبتوں کا مارا
چلنے کا نہیں ہے جس کا یارا
غم خوار ہے کوئی اور نہ دل جو
اک باغ میں ہے پڑا لب جو
ہیں دھیان میں کلفتیں سفر کی
آپے کی خبر ہے اور نہ گھر کی
ابر اتنے میں اک طرف سے اٹھا
اور رنگ سا کچھ ہوا کا بدلا
برق آکے لگی تڑپنے پیہم
اور پڑنے لگی پھوار کم کم
آنے جو لگے ہوا کے جھوکے
تھے جتنے سفر کے رنج بھولے
سامان ملے جو دل لگی کے
یاد آئے مزے کبھی کبھی کے
دیکھے کوئی اس گھڑی کا عالم
وہ آنسوؤں کی جھڑی کا عالم
وہ آپ ہی آپ گنگنانا
اور جو ش میں کبھی یہ گانا
اے چشمۂ آبِ زندگانی
گھٹیو نہ کبھی تری روانی
جاتی ہے جدھر تری سواری
بستی ہے اسی طرح ہماری
پائے جو کہیں مری سبھا کو
دیتا ہوں میں بیچ میں خدا کو
اول کہیو سلام میرا
پھر دیجیو یہ پیام میرا
قسمت میں یہی تھا اپنی لکھا
فرقت میں تمہاری آئی برکھا
آتا ہے تمہارا دھیان جس دم
مرغابیاں تیرتی ہیں باہم
ہم تو یوں ہی صبح و شام اکثر
تالاب میں تیرتے تھے جاکر
جب سبزۂ و گل ہیں لہلاتے
صحبت کے مزے ہیں یا د آتے
ہم تم یوں ہی ہات میں دیے ہات
پھرتے تھے ہوا میں کھاتے دن رات
جب پیڑ سے آم ہے ٹپکتا
میں تم کو ادھر اُدھر ہوں تکتا
آخر نہیں پاتا جب کسی کو
دیتا ہوں دعائیں بیکسی کو
رُت آم کی آئے اور نہ ہوں یار
جی اپنا ہے ایسی رت سے بیزار
تم بن جو ہے بوندتن پہ پڑتی
چنگاری سی ہے بدن پہ پڑتی
ہے سرد ہوا بدنکو لگتی
پردل میں ہے آگ سی سلگتی
پردیس میں سچ ہے کیا ہو جی شاد
جب جی میں بھری ہو دیس کی یاد
نشتر کی طرح تھی دل میں چبھتی
فریاد یہ دردناک اس کی
تھا سوز میں کچھ ملا ہوا ساز
پکڑا دل سُن کے اس کی آواز
حیرت رہی دیر تک کہ آخر
روڑا ہے کہاں کا یہ سفر
پھر غور سے اک نظر جو ڈالی
نکلا وہ ہمارا دوست حالیؔ
مناجاتِ بیوہ
مناجاتِ بیوہ
نظم ’’مناجات بیوا‘‘(1886 ) مثنوی کے فارم میں لکھی گئی۔
موضوع: اس نظم میں ایک بیوہ کی مجبوریاں اور بیتابیاں بیان کی گئی ہیں۔ایک ایسی کم سن بیوہ کی درد ناک حالت کا نقشہ کھینچا گیا ہے جو سماج اور رواج کے ظلموں کا شکار ہے اور اس انداز سے یہ سب بیان کیا گیا ہے کہ دل کانپ اٹھتا ہے۔
اے سب سے اول اور آخر
جہاں تہاں حاضر اور ناظر
اے سب داناؤں سے دانا
سارے تواناؤں سے توانا
اے سمجھے بوجھے بن سوجھے
جانے پہچانے بن بوجھے
ہوا سے اونچے اور پربت سے
چاند سے اور اس نیلی چھت سے
سب سے انوکھے سب سے نرالے
آنکھ سے اوجھل دل کے اجالے
ناؤ جہاں کی کھینے والے
دکھ میں تسلی دینے والے
جوت ہے تیری جل اور تھل میں
باس ہے تیری پھول اور پھل میں
ہر دل میں ہے تیرا بسیرا
تو پاس ار گھر دور ہے تیرا
سوچ میں دل بہلانے والے
بپتا میں یاد آنے والے
اے رحمت اور ہیبت والے
شفقت اور دباغت والے
اے اٹکل اور دھیان سے باہر
جان سے اور پہچان سے باہر
عقل سے کوئی پا نہیں سکتا
بھید ترے حکموں میں ہیں کیا کیا
ایک کو تونے شاد کیا ہے
ایک کے دل کو داغ دیا ہے
اس سے نہ تیرا پیار کچھ ایسا
اس سے نہ تو بیزار کچھ ایسا
مینھ کہیں دولت کا ہے برستا
ہے کوئی پانی تک کو ترستا
رنج کا ہے دنیا کے گلا کیا
تحفہ یہی لے دے کے ہے یاں کا
پر نہیں اٹھ سکتی وہ مصیبت
آئے گی جس کے بعد نہ راحت
شاد ہو اس رہ گیر کا کیا دل
مر کے کٹے گی جس کی منزل
ان بچھڑوں کا کیا ہے ٹھکانا
جن کو نہ ملنے دے گا زمانہ
اب یہ بلاٹلتی نہیں ٹالی
مجھ پہ ہے جو تقدیر نے ڈالی
آئیں بہت دنیا میں بہاریں
عیش کی گھر گھر پڑی پکاریں
پڑے بہت باغوں میں جھولے
ڈھاک بہت جنگل میں پھولے
گئیں اور آئیں چاندنی راتیں
برسیں کھلیں بہت برسائیں
پر نہ کھلی ہرگز نہ کھلے گی
وہ جو کلی مرجھائی تھی دل کی
آس ہی کا یاں نام ہے دنیا
جب نہ رہی یہ ہی تو رہا کیا
ایسے بدیسی کا نہیں غم کچھ
جس کو نہ ملنے کی قسم کچھ
رونا ان بن باسیوں کا ہے
دیس نکالا جن کو ہوا ہے
حکم سے تیرے پر نہیں چارا
کڑوی میٹھی سب ہے گوارا
قسمت ہی میں جب تھی جدائی
پھر ٹلتی یہ کس طرح آئی
بیاہ کے دم پائی تھی نہ لینے
لینے کے یاں پڑ گئی دینے
ایک خوشی نے غم یہ دکھائے
ایک ہنسی نے گل یہ کھلائے
چین سے رہنے دیا نہ جی کو
کر دیا ملیا میٹ خوشی کو
رونہیں سکتی تنگ ہوں یاں تک
اور روؤں تو روؤں کہاں تک
ہنسی سے دل بہلاؤں کیوں کر
اوسوں پیاس بجھاؤں کیوں کر
لیٹوں گر سونے کے بہانے
پائنتی کل ہے اور نہ سرہانے
اب کل ہم کو پڑے گی مر کر
گور ہے سونی سیج سے بہتر
کوئی نہیں دل کا بہلاوا
آ نہیں چکتا میرا بلاوا
آٹھ پہر کا ہے یہ جلایا
کاٹوں گی کس طرح رنڈاپا
وہ چیت اور پھاگن کی ہوائیں
وہ ساون بھادوں کی گھٹائیں
وہ گرمی کی چاندنی راتیں
وہ ارمان بھری برساتیں
رت گئی ساری سر ٹکراتے
اڑ نہ سکی پر ہوتے ہوتے
اے دین اور دنیا کے مالک
راجا اور پرجا کے مالک
بے پر اور پردار کے والی
اے سارے سنسار کے والی
چیونٹا، کیڑا، مچھّر، بھنگا
کچھوا ، مینڈک ، سیپ اور گھونگا
سارے پنچھی اور پکھیرو
مور، پپیہا، سارس ، پیرو
بھیڑ اور بکری، شیر اور چیتے
تیرے جلائے ہیں سب جیتے
خاک سے تونے بیج اگائے
پھر پودے پروان چڑھائے
سیپ کو بخشی تونے دولت
اور بخشا مکھی کو امرت
ہیرا بخشا کان کو تونے
مشک دیا حیوان کو تونے
جگنو کو بجلی کی چمک دی
ذرّے کو کندن کی دمک دی
عام ہے سب پر تیری رحمت
ہیں محروم مگر بد قسمت
پہروں سوچتی ہوں یہ جی میں
آئی تھی کیوں میں اس نگری میں
باپ اور بھائی ، چچا بھتیجے
سب رکھتی ہوں تیرے کرم سے
پر نہیں پاتی ایک بھی ایسا
جس کو ہو میری جان کی پروا
تیرے سوا اے رحم کے بانی
کون سنے یہ رام کہانی
ایک کہانی ہو تو کہوں میں
ایک مصیبت ہو تو سہوں میں
گر سسرال میں جاتی ہوں میں
نحسِ قدم کہلاتی ہوں میں
میکے میں جس وقت ہوں آتی
رو رو کر ہوں سب کو رلاتی
سوچ میں میرے سارا گھر ہے
میرے چلن پر سب کی نظر ہے
آپ کو ہوں ہر وقت مٹاتی
پہنتی اچھا میں ہوں نہ کھاتی
مہندی میں نے لگانی چھوڑی
پٹی میں نے جمانی چھوڑی
کپڑے مہینوں میں ہوں بدلتی
عطر نہیں میں بھول کے ملتی
سُرمہ نہیں آنکھوں میں لگاتی
بال نہیں برسوں گوندھواتی
دو دو چاند نیہں سر دھوتی
اٹھواڑوں کنگھی نہیں ہوتی
آپ کو یہاں تک میں نے مٹایا
پر دنیا کو صبر نہ آیا
اے ایما ن کے رکھنے والے
اے نیت کے پرکھنے والے
میں نہیں رکھتی کام کسی سے
چاہتی ہوں انصاف تجھی سے
حکم پہ چلتی تیرے اگرمیں
چین سے کرتی عمر بسر میں
لیکن ہٹ پیاروں کی یہی تھی
مرضی غم خواروں کی یہی تھی
اپنے بڑوں کی ریت نہ چھوٹے
قوم کی باندھی رسم نہ ٹوٹے
ہو نہ کسی سے ہم کو ندامت
ناک رہے کنبہ میں سلامت
جان کسی کی جائے تو جائے
آن میں اپنی فرق نہ آئے
تجھ پہ ہے روشن اے مرے مولا
وقت یہ کیسا مجھ پہ پڑا تھا
جان تھی میری آن کی دشمن
آن تھی میری جان کی دشمن
آن سنبھالے جان تھی جاتی
جان بچائے آن تھی جاتی
طے کرنے تھے سات سمندر
حکم یہ تھا ہاں پانوں نہ ہوتر
دل تھاما آپے کو سنبھالا
سانس تلک منھ سے نہ نکالا
اور نہ اگر میں کوئی ایسا
کیوں کر کرتی اور کرتی کیسا
کہہ گئی سچ اک راج کماری
لاچاری پربت سے بھاری
اے خاوند خداوندوں کے
مالک خاوند اور بندوں کے
واسطہ اپنی خاوندی کا
صدقہ اپنی خداوندی کا
تو یہ کسی کو داغ نہ دیجو
کسی کو بے وارث مت کیجو
کیجو جو کچھ تیری خوشی ہو
رانڈ مگر کیجو نہ کسی کو
جس دکھیا پر پڑے یہ بپتا
کر تو اسے پیوند زمیں کا
یا یہ بتا دیں ریت جہاں کی
جس سے گئی پر نیت یہاں کی
قوم سے تو یہ ریت چھڑا دے
بندیوں کی بیڑی یہ تڑواد ے
اے عزت اور عظمت والے
رحمت اور عدالت والے
دکھڑا تجھ سے کہنا دل کا
اک بشریت کا ہے یہ تقاضا
دل پہ ہے جب کوئی برچھی چلتی
آہ کلیجہ سے ہے نکلتی
جب کوئی دکھ یاد آجاتا ہے
جی بے ساختہ بھر آتا ہے
ورنہ ہے دنیا میں دھرا کیا
خواب کا سا اک ہے یہ تماشا
ریت کی سی دیوار ہے دنیا
اوچھے کا سا پیار ہے دنیا
ہار کبھی اور جیت کبھی ہے
اس نگری کی ریت یہی ہے
رہ گیروں کا بندھا ہے تانتا
ایک آتا ہے اک ہے جاتا
تھا نہ کچھ آگے تیرے سوا یہاں
اور رہے گا کچھ نہ سدا یہاں
چاہتی ہوں اک تیری محبت
اور نہیں رکھتی کوئی حاجت
فکر نہ اچھی کی نہ بری کی
تیرے سوا دھن ہو نہ کسی کی
کوئی جگہ اس دل میں نہ پائے
یادکوئی بھولے سے نہ آئے
دل میں لگن بس اپنی لگادے
سارے غم اسی غم میں کھپا دے
دل نہ پھرے دنیا میں بھٹکتا
کوئی رہے کانٹا نہ کھٹکتا
تو ہی ہو دل میں توہی زباں پر
مار کے جاؤں لات جہاں پر
پانو تجھے ایک اک کو گنوا کر
خاک میں جاؤں سب کو ملا کر
اسماعیل میرٹھی
خدا کی صنعت
خدا کی صنعت
جو چیز خدا نے ہے بنائی
اس میں ظاہر ہے خوشنمائی
کیا خوب ہے رنگ ڈھنگ سب کا
چھوٹی بڑی جس قدر میں اشیا
روشن چیزیں بنائیں اس نے
اچھی شکلیں دکھائیں اس نے
ہر چیز کی ہے ادانِرالی
حکمت سے نہیں ہے کوئی خالی
ہر چیز ہے ٹھیک ٹھیک لاریب
ہیں اس کے تمام کام بے عیب
ننّھی کلیاں چٹک رہی ہیں
چھوٹی چڑیاں پھُدک رہی ہیں
اس کی قدرت سے پھول مہکے
پھولوں پہ پرند آکے چہکے
چڑیوں کے عجیب پر لگائے
اور پھول میں عطر میں بسائے
چڑیوں کی ہے بھانت بھانت آواز
پھولوں کا جدا جدا ہے انداز
محلوں میں امیر ہیں بہ آرام
ہے در پہ کھڑا غریب ناکام
ہے کوئی غنی تو کوئی محتاج
بے گھر ہے کوئی کسی کے گھر راج
روزی دونوں کو دی خدا نے
معمور ہیں قدرتی خزانے
تاروں بھری رات کیا بنائی!
دن کو بخشی عجب صفائی!
موتی سے پڑے ہوئے ہیں لاکھوں
ہیرے سے جڑے ہوئے ہیں لاکھوں
کیا ددوھ سی چاندنی ہے چھٹکی!
حیران ہو کر نگاہ ٹھٹکی!
تارے رہے صبح تک نہ وہ چاند
آگے سورج کے ہو گئے ماند
نیلا نیلا اب آسماں ہے
وہ رات کی انجمن کہاں ہے
شام آئی تو اس نے پردہ ڈالا
پھر صبح نے کر دیا اجالا
جاڑا ۔ گرمی ۔ بہار ۔ برسات
ہر رُت میں نیا سماں نئی بات
جاڑے سے بدن ہے تھرتھراتا
ہر شخص ہے دن میں دھوپ کھاتا
سردی سے ہیں ہاتھ پاؤں ٹھرتے
سب لوگ الاؤ پر ہیں گرتے
سرسوں پھولی بسنت آئی
ہولی پھاگن میں رنگ لائی
پھوٹیں نئی کوپلیں شجر میں
اِک جوش بھرا ہوا ہے سر میں
جاڑے کی جو رُت پلٹ گئی ہے
دِ ن بڑھ گیا رات گھٹ گئی ہے
گرمی نے زمین کو تپایا
بھانے لگا ہر کسی کو سایہ
برسات میں دَل میں بادلوں کے
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے
رو آئی ہے زور شور کرتی
دامانِ زمین کو کترتی
کس زور سے بہہ رہا ہے نالا
اونچے ٹیلے کو کاٹ ڈالا
بل کھا کے ندی نکل گئی ہے
رُخ اپنا اُدھر بدل گئی ہے
دریا ہے رواں پہاڑ کے پاس
بستی ہے بسی اُجاڑ کے پاس
بستی کے اِدھر اُدھر ہے جنگل
جنگل ہی میں ہو رہا ہے منگل
مٹی سے خدا نے باغ اُگائے
باغوں میں اسی نے پھل لگائے
میوے سے لدی ہوئی ہے ڈال
دانوں سے بھری ہوئی ہے بالی
سبزے سے ہرا بھرا ہے میداں
اونچے اونچے درخت ذی مثال
ہم کھیلتے ہیں وہاں کبڈی
میری ہے کوئی ، کوئی پھسڈّی
گائیں بھینسیں عجب بنائیں
کیا دود کی ندیاں بہائیں
پیدا کئے اونٹ بیل گھوڑے
ہر شے کے بنا دئے ہیں جوڑے
روشن آنکھیں بنائیں دو دو
قدرت کی بہار دیکھنے کو
دو ہونٹ دئے کہ منہ سے بولیں
شکر اس کا کریں زبان کھولیں
ہر شے اس نے بنائی نادر
بیشک ہے خدا قوی و قادر
آثار سلف
مثمن
مشعر کیفیت ِ قلعہ اکبر آبادموسوم بہ آثار سلف
یارب! یہ کس مشعلِ کشتہ کا دھواں ہے
یا گلشنِ برباد کی یہ فصل خزاں ہے
یا برہمی بزم کی فریاد و فغان ہے
یا قافلۂ رفتہ کا پس خیمہ رواں ہے
ہاں دور گزشتہ کی مہابت کا نشاں ہے
بانی عمارت کا جلال اس سے عیاں ہے
اڑتا تھا یہاں پرچم جسم جا ہی اکبر
بجتا تھا یہاں کوسِ شہنشاہی اکبر
باہر سے نظر ڈالئے اس قلعہ پہ یک چند
برپا ہے لبِ آبِ جمن صورتِ الوند
گویا کہ ہے اِک سورما مضبوط تنومند
یا ہند کا رجپوت ہے یا ترُکِ سمرقند
کیا بارۂ سنگین کا پہنا ہے قزاگند
رینی کا قزاگند پہ باندھا ہے کمر بند
مسدود ہے خندق سے رہِ فتنۂ و آشوب
اربابِ تمرّد کے لیے بُرج ہیں سرکوب
تعمیرِ قلعہ بھی البتہ ہے موزوں
پر شوکت و ذی شان ہے اس کا رخِ بیروں
کی ہے شعرا نے صفتِ طاق فریدوں
معلوم نہیں اس سے وہ کمتر تھا کہ افزوں
گو ہم سر کیوں ہے نہ ہم پلّۂ گردوں
محراب کی ہیئت سے ٹپکتا ہے یہ مضموں
پیلانِ گراں سلسلہ با ہودجِ زرّیں
اِس در سے گزرتے تھے بصدر ونق و تزئیں
اکبر سا کبھی مخزنِ تدبیر یہاں تھا
یا طنطنۂ دورِ جہاں گیر یہاں تھا
یا شاہِ جہاں مرجعِ وقیر یہاں تھا
یا مجمعِ ذی رتبہ مشاہیر یہاں تھا
القصہ کبھی عالمِ تصویر یہاں تھا
دنیا سے سوا جلوۂ تقدیر یہاں تھا
بہتا تھا اسی کاخ میں دولت کا سمندر
تھے جشنِ ملوکانہ اسی قصر کے اندر
وہ قصرِ معلّی کہ جہاں عام تھا دربار
آئینہ نمط صاف ہیں جس کے درو دیوار
اور سقفِ زر اندود ہے مانندِ چمن زار
اور فرش ہے مرمر کا مگر چشمۂ انوار
اب بانگِ نقیب اس میں نہ چاؤش کی للکار
سرہنگِ کمر بستہ نہ وہ مجمعِ حضّار
کہتا ہے کبھی مرکزِ اقبال تھا میں بھی
ہاں !قبلہ گہہ عظمت و اجلال تھا میں بھی
جب تک کہ مشیت کو مراوقر تھا منظور
نافذ تھا زمانہ میں مری جاہ کا منشور
شاہانِ معاصر کا معین تھا یہ دستور
کرتے تھے سفیرانِ ذوی القدر کو مامور
تامیری زیارت سے کریں چشم کو پرنور
آوازہ میری شان کا پہنچا تھا بہت دور
اکنافِ جہاں میں تھا مراد بدبہ طاری
تسلیم کو جھکتے تھے یہاں ہفت زاری
وہ چتر وہ دیہیم وہ سامان کہاں ہیں
وہ شاہ وہ نوئین، وہ خاقان کہاں ہیں
وہ بخشتی و دستور ، وہ دیوان کہاں ہیں
خدّام ادب اور وہ دربان کہاں ہیں
وہ دولتِ مغلیہ کے ارکان کہاںہیں
فیضی و ابوالفضل سے اعیان کہاں ہیں
سنسان ہے وہ شاہ نشیں آج صدا افسوس
ہوتے تھے جہاں خان و خوانین زمیں بوس
وہ بار گہہ خاص کی پاکیزہ عمارت
تاباں تھے جہاں نیّر شاہی وو زارت
بڑھتی تھی جہاں نظم و سیاست کی مہارت
آتی تھی جہاں فتح ممالک کی بشارت
جوں شحنۂ مغرول پڑی ہے وہ اکارت
سیاح کیا کرتے ہیں اب اس کی زیارت
کہتا ہے سخن فہم سے یوں کتبہ دروں کا
تھا مخزنِ اسرار یہی تاج وروں کا
اورنگ سیہ رنگ جو قائم ہے لبِ بام
بوسہ جسے دیتا تھا ہر اک زبدۂ عظام
اشعار میں ثبت اس پہ جہاں گیر کا ہے نام
شاعر کا قلم اس کی بقا لکھتا ہے مادام
پر صاف نظر آتا ہے کچھ اور ہی انجام
سالم نہیں چھوڑے گی اسے گردش ایام
فرسودگی دہر نے شق اب تو کیا ہے
آیندہ کی نسلوں کو سبق خوب دیا ہے
ہاں کس لئے خاموش ہے او! تختِ جگر ریش
کس غم میں سیہ پوش ہے ؟ کیا سوگ ہے درپیش
کملی ہے تیرے دوش پہ کیوں صورت درویش
جوگی ہے ترا پنتھ کہ صوفی ہے ترا کیش
بولا کہ زمانہ نے دیا نوش کبھی نیش
صدیاں مجھے گزری ہیں یہاں تین کم و بیش
صدقے کبھی مجھ پر گہر و لعل ہوئے تھے
شاہانِ معظم کے قدم میں نے چھوئے تھے
وہ رنگ محل بُرج مثمن کا وہ انداز
صنعت میں ہے بے مثل تو رفعت میں سرافراز
یاں مطرب خوش لہجہ کی تھی گونجتی آواز
گہہ ہند کی دُھرپت تھی کبھی نغمۂ شیراز
اب کون ہے بتلائے جو کیفیت آغاز
زنہار کوئی جاہ و حشم پر نہ کرے ناز
جن ناروں کے پر تو سے تھا یہ بُرج منور
اب ان کا مقابر میں تہ خاک ہے بستر
اس عہد کا باقی کوئی ساماں ہے نہ اسباب
فوارے شکستہ ہیں تو سب حوض ہیں بے آب
وہ جام بلوریں ہیں نہ وہ گوہر نایاب
وہ چلمنِ زر تار نہ وہ بسترِ کمخواب
ہنگامہ جوگزرا ہے سوافسانہ تھا یا خواب
یہ معرضِ خدّام تھا وہ موقفِ حجّاب
وہ بزم نہ وہ دور نہ وہ جام نہ ساقی
ہاں طاق در واق اور دروبام ہیں باقی
مستور سرا پردہ عصمت میں تھے جو گل
سودِ و دۂ ترک اور مغل ہی سے نہ تھے کل
کچھ خیری فرغانہ تھے کچھ لالہ کابل
پھر مولسری ہند کی ان میں گئی مل جل
تعمیر کے انداز کو دیکھو بہ تامل
تاتاری وہندی ہے بہم شان و تجمل
سیاح جہاں دیدہ کے نزدیک بہ تعمیر
اکبرؔ کے خیالات مرکب کی ہے تصویر
درشن کے جھروکے کی پڑی تھی یہیں بنیاد
ہوتی تھی تُلادان میں کیا کیا دہش و داد
وہ عدل کی زنجیر ہوئی تھی یہیں ایجاد
جو سمع شہنشاہ میں پہنچاتی تھی فریاد
وہ نور جہاںؔ اور جہاں گیرؔ کی اُفتاد
اس کاخ ہمایوں کو بہ تفصیل سے سب یاد
ہر چندکہ بے کار یہ تعمیر پڑی ہے
قدر اس کی مورّخ کی نگاہوں میں بڑی ہے
اب دیکھئے وہ مسجد و حمام زنانہ
وہ نہر، وہ حوض اور وہ پانی کا خزانہ
صنعت میں ہر اک چیز ہے یکتا و یگانہ
ہے طرز عمارت سے عیاں شان شہانہ
کیا ہو گئے وہ لوگ کہاں ہے وہ زمانہ؟
ہر سنگ کے لب پر ہے غم اندوز ترانہ
چغتائیہ گلزار کی یہ فصلِ خزاں ہے
ممتاز محل ہے نہ یہاں نور جہاں ہے
وہ قصر جہاں جو دھپوری رہتی تھی بائی
تھی دولت و ثروت نے جہاں دھوم مچائی
دیکھا اسے جاکر تو بری گت نظر آئی
صحنوں میں جمی گھاس تو دیواروں پہ کائی
گویا درودیوار یہ دیتے ہیں دہائی
ممکن ہیں طوفان حوادث سے رہائی
جس گھر می تھے نسریں و سمن یا گل و لالہ
اب نسل ابابیل میں ہے اس کا قبالہ
وہ مسجدِ زیبا کہ ہے اس بزم کی دلہن
خوبی میں یگانہ ہے و لے سادۂ و پُر فن
محراب در و بام ہیں سب نور کا مسکن
موتی سے ہیں الان تو ہے دود سا آنگن
کافور کا تودہ ہے کہ الماس کا معدن
یا فجر کا مطلع ہے ، کہ خود روز ہے روشن
بلور کا ہے قاعدہ یا نور کا ہے راس
باطل سے ہوئی جاتی ہے یاں قوتِ احساس
ہاتھوں نے ہنرمند کے اک سحر کیا ہے
سانچہ میں عمارت کو مگر ڈھال دیا ہے
یاتار نظر سے کہیں پتھر کو سیاہے
مرمر میں مہ و مہر کا سا نور و ضیا ہے
گو شمع نہ فانوس نہ بتی نہ دیا ہے
ہاں ! چشمۂ خورشید سے آب اس نے پیا ہے
چلئے جو یہاں سے تو نظر کہتی ہے فی الفور
نظارہ کی دو مجھ کو اجازت کوئی دم اور
مسجد نے اشارہ کیا پتھر کی زبانی
اس قلعہ میں ہوں شاہجہاں کی میں نشانی
کچھ شوکتِ ماضی کی کہی اس نے کہانی
کچھ حالتِ موجودہ بایں سحر بیانی
ان حجروں میں ہے شمع نہ اس حوض میں پانی
فواروں کے دل میں بھی ہے اک درد نہانی
تسبیح نہ تہلیل نہ تکبیر و اذاں ہے
بس گوشۂ تنہائی ہے اور قفل گراں ہے
جمگھٹ تھا کبھی یاں و زر او امرا کا
مجمع تھا کبھی یاں صلحاو علما کا
چرچا تھا شب و روز یہاں ذکر خدا کا
ہوتا تھا ادا خطبہ سدا حمد و ثنا کا
ایک قافلہ ٹھہرا تھا یہاں عزّ و علا کا
جو کچھ تھا ، گزر جانے میں جھونکا تھا ہوا کا
ہیں اب تو نمازی میرے باقی یہی دو تین
یا دھوپ ہے یا چاندنی یا سایہ مسکیں
وہ دور ہے باقی نہ وہ ایام و لیالی
جو واقعہ حسّی تھا سو ہے آج خیالی
ہر کو شک و ایوانِ ہر اک منزل عالی
عبرت سے ہے پر ااورمکینوں سے ہے خالی
آقا نہ خداوند، اہالی نہ موالی
جز ذاتِ خدا کوئی نہ وارث ہے نہ والی
یہ جملہ محلات جو سنسان پڑے ہیں
پتھر کا کلیجہ کئے حیران کھڑے ہیں
جب کندہوئی دولتِ مغلیہ کی تلوار
اور لوٹ لیا جاٹ نے ایوان طلاکار
تب لیک جو تھا لشکر انگلش کا سپہدار
افواج مخالف سے ہوا بر سر پیکار
یہ بارۂ و برج اور یہ ایوان یہ دیوار
کچھ ٹوٹ گئے ضرب سے گولوں کی نہ ناچار
ہے گردش ایام کے حملوں کی کسے تاب
پھر قلعۂ اکبر ہی میں تھا کیا پرِ سُرخاب
آخر کو لٹیروں کی شکستہ ہوئی قوت
اونچا ہوا سرکار ک اقبال کا رایت
لہرانے لگا پھر عَلَم امن و حفاظت
آثار قدیمہ کی لگی ہونے مرمت
یہ بات نہ ہوتی تو پہنچتی وہی نوبت
دیوار گری آج ، تو کل بیٹھ گئی چھت
حُکام زماں کی جو نہ ہوتی نگرانی
رہ سکتی نہ محفوظ یہ مغلیہ نشانی
یہ ارباب فرد چشم بصیرت سے کریں غور
اکبر کی بنا اس سے بھی پایندہ ہے اک اور
سردی کی جفا جس پہ نہ گرمی کا چلے جور
ہر چند گزر جائیں بہت قرن بہت دور
برسوں یونہیں پھرتے رہیں برج حمل و نور
اس میں نہ خلل آئے کسی نوع کسی طور
انجینئروں کی بھی مرمت سے بری ہے
وہ حصنِ حصین کیا ہے؟ فقط ناموری ہے
او اکبرِ ذیجاہ! تیری عزت و تمکیں
محتاج مرمت ہے نہ مستلزم تزئیں
کندہ ہیں دلوں میں تری الفت کی فرا میں
ہے تیری محبت کی بنا اک دژ روئیں
گو حملۂ بے سود کرے بھی کوئی کم بیں
زائل نہیں ہونے کی ترے عہد کی تحسیں
پشتوں سے رعایا میں بہ آئین ِ وراثت
قائم چلی آتی ہے تیرے نام کی عظمت
بکرم کی سبھا کو تیری صحبت نے بھلایا
اور بھوج کا دورہ تری شہرت نے بھلایا
ارجن کو تری جرأت و ہمت نے بھلایا
کسریٰ کو ترے دور عدالت نے بھلایا
اسکندرؔ و جمؔ کو تری شوکت نے بھلایا
پچھلوں کو غرض تیری عنایت نے بھلایا
آتے ہیں زیارت کو تو اب تک ہے یہ معمول
زائر تری تربت پہ چڑھا جاتے ہیں دو پھول
ہوکہنہ و فرسودہ تراقلعہ تو کیا غم
شہرت ہے تیرے نام کی سو قلعوں سے محکم
پھرتا ہے ہر اِک فرقہ محبت کا تری دم
لکھتے ہیں مورّخ بھی تجھے اکبرؔ اعظم
مرتبہ ہے ترا ہند کے شاہوں میں مسلم
یہ فخر ترے واسطے زنہار نہیں کم
گو خاک میں مل جاے ترے عہد کی تعمیر
ہے کتبۂ عزت ترا ہر سینہ میں تحریر
ہاں ! قوم ک نو عمر جوانو ادھر آؤ
ہے دیدۂ بینا تو اسے کام میں لاؤ
آثار صنادید کی عینک کو لگاؤ
عبرت کی نگاہوں کو پس و پیش پھراؤ
راہِ طلب و شو ق میں اک شمع جلاؤ
گنجینۂ اعزاز کو پانا ہے تو پاؤ
یہ نقش و نگارِ درو دویوار شکستہ
دیکھو! تمہیں دکھلاتے ہیں آیندہ کارستہ
اسلاف نے ملکوں پہ اگر کی تھی چڑھائی
یاکاخِ حکومت کی تھی بنیاد اٹھائی
یا طرح کئے کو شکِ سیمین و طلائی
یا بحر میں کشتیٔ تجارت تھی چلائی
یا کشورِ تہذیب میں کی قلعہ کشائی
کس برتے پہ یہ کام تھے آخر میرے بھائی
جب بحر مصائب کو شنا کرکے ہوئے پار
تب دہر مخالف بھی ہوا غاشیہ بردار
عزت کی ملی تھی انھیں جاگیردوامی
دولت کے طرفدار تھے اور دین کے حامی
فصلت میں خوشامد تھی نہ عادت میں غلامی
رسموں میں خرابی تھی نہ اطوار میں خامی
گر فہم و فراست کی مجالس میں تھے نامی
تدبیر ممالک میں تھے وہ صدر گرامی
گر فتح و ظفر میں تھے سکندر سے زیادہ
تھے دانش و حکمت میں ارسطو کے بھی دادہ
کیاکیا طلبِ علم میں کرتے تھے جگر خوں
لیلیٰ تھا اگر علم تو وہ لوگ تھے مجنوں
کچھ بو علیؔ سینا ہی نہ تھا رشک فلاطوں
بہتوں نے کدایا یوں ہی تحقیق کا گلگوں
مدت کی کہانی ہے اگر سیرت ماموں
تاریخ میں دیکھو سببِ مرگ ہمایوں
اکبرؔ بھی تھا آخر اسی تہ جرعہ کا مخمور
تھا فیضیؔ علامہ اسی کام پہ مامور
یہ کہنا عمارات کہ ہیں وقف تباہی
اسلاف کے اوصاف پہ دیتی ہیں گواہی
صرف اصل و نسب ہی پہ نہ تھے اپنے مباہی
مکتب میں تھے استاد و ریاضی و الٰہی
میدان مساعی میں تھے اک مرد سپاہی
زیبا تھا انھیں چتر جہاں بانی و شاہی
کنیاتے تھے محنت سے نہ آلام سے تھکتے
کوشش کی گھٹا میں تھے وہ بجلی سے کڑکتے
وہ عیش کے مملوک تھے نے بندۂ راحت
گلگشت چمن زار تھی گویا انھیں عزت
برداشت جفا کرتے تھے سہتے تھے صعوبت
اوروں کے بھروسے پہ نہ کرتے تھے معیشت
دنیا کے کسی کام میں ہیٹی نہ تھی ہمت
بے غیرتی زنہار نہ تھی ان کی جبلت
ہمت میں تھے شاہین تو جرأت میں تھے شہباز
عزت کی بلندی پہ کیا کرتے تھے پرواز
وہ صولت و سطوت میں تھے جوں شیر نیستاں
عزت کے لیے جان کیا کرتے تھے قرباں
تھا انجمن عیش سے خوشتر انھیں میداں
محنت کے تھے بووے نہ مشقت سے گریزاں
دشوار تھی بے حرمتی اور ننگ مگر ہاں
آسان تھی تیرہ کی انی، تیر کا پیکاں
خیرات کے ٹکڑے پہ نہ گرتے تھے وہ حاشا
تھا نعل بہا ان کو یہ دولت کا تماشا
وہ کعبۂ مقصود تھے یا قبلۂ حاجات
کس منہ سے بزرگوں پہ کریں فخر و مباہات
سر اپنے گریباں میں ذرا ڈالئے ہیہات
اوصافِ اضافی سے نہیں کچھ شرف ذات
تلوار میں جب کوئی اصالت کی نہ ہوبات
گاہک تو نہ پوچھے ، یہ کس کا ن کی ہے دھات
بندوق دمِ صید گر اچھی نہ چلی ہو
مردود ہے گو لندن و پیرس میں ڈھلی ہو
دل اپنی ستایش سے نہ بہلائیے حضرت
اس راہ میں دھوکا نہ کہیں کھائیے حضرت
شیخی کو بہت کام نہ فرمائیے حضرت
شعلہ کو تعلی کے نہ بھڑکائیے حضرت
آبا کی بزرگی پہ نہ اترائیے حضرت
یہ گو ہے یہ میدان ، ادھر آئیے حضرت
اب بھی تو وہی خیر سے نسلِ شرفا ہے
آخر سبب اس نیک سر انجام کا کیا ہے
کیوں قوم کی حالت میں تنزل کا پڑا ڈھنگ
کیوں انجمن عیش پرستی کا جما رنگ
کیوں تیغ شرافت کوہ نائت کا لگا زنگ
مغلوب سفاہت ہوئے کیوں دانش و فرہنگ
روباہ بنے کس لیے شیرانِ صفِ جنگ
کیوں بارگیِ عزم ہو! دونِ خرِلنگ
کیوں ٹوٹ گئے بازِ عمل کے پرو بازو
کیوں ذردۂ عزت پہ لگا بولنے اُلّو
جڑپہلے زمانہ میں جمی جیسے شجر کی
لذت ہمیں چکھنی ہے ضرور اس کے ثمر کی
بے شک ہے یہ پاداش اسی شور کے شر کی
ہاں مستحق اولاد ہے میراث پدر کی
تفتیش کرو دوستو! اخبار و سیر کی
فہرست مرتب کرو ہر عیب و ہنر کی
دو ڈیڑھ صدی پہلے سے جو اپنا ڈھچر تھا
انصاف سے دیکھو اسے کیا پوچ و لچر تھا
جو راہ نمائی کو چلے آپ تھے گمراہ
حالات سے واقف نہ مقامات سے آگاہ
شیروں کی جگہ جمع ہوا گلۂ روباہ
ہر کرمکِ شب تاب بنا مدعی ماہ
ہر شخص کو تھی خود غرضی سے طلب جاہ
ویسے ہی امیرالامرا جیسے شہنشاہ
رسم حسد و بغض و عداوت ہوئی تازہ
آخر کو اٹھا دولت و عزت کا جنازہ
وہ غور کے غزنین کے دلیرانِ ظفر مند
وہ شاہ سوارانِ بخارا و سمرقند
جو ہند کے خطے میں ہوئے خاکے کے پیوند
جی اٹھتے دوبارہ اگر ان میں سے تنے چند
ہاںوہلۂ اول میں تو ہوتے ہی وہ خردمند
پھولے نہ سماتے کہ ہمارے ہیں یہ فرزند
پر دیکھتے جب ان کے برے فعل برے قول
جا بیٹھتے قبروں ہی میں پڑھتے ہوئے لاحول
کیا حال تھا حضراتِ ملوک اور امرا کا
انبوہ تھا بیہودہ شاغل کی ہلاکا
یا فوجِ کنیزوں کی تھی اِک قہر خدا کا
یا بولتا طوطی تھا کسی خواجہ سراکا
یا شور خوشامد کا تھا یا مدح و ثنا کا
تھا غول گویوں کا ، تو جمگھٹ شعرا کا
سفلے تھے مشیر اور مصاحب تھے چھچھورے
وہ عقل ے دشمن تو حضور ان سے بھی کورے
کاسد ہوا بازار ہر اِک طرز عمل کا
عالم نظر آتا ہے بتر آج سے کل کا
مفلس ہیں تو پیشہ ہے فریب اور دغل کا
اندیشہ نہیں کچھ اور انھیں ایماں کے خلل کا
مدت سے گیا ڈھانچ بگڑ اہل دول کا
چکھا ہے مزہ خوب ہی اسراف کے پھل کا
اب کوئی اگر وہ دولتِ قومی کی کرے جانچ
ٹٹ پونجئیے البتہ نکل آئیں گے دس پانچ
اب نام کو ہم جو گروہِ شرفا سے
سو حالتِ افلاس میں جینے سے خفا ہے
یا شامت اعمال سے پامال جفا ہے
کچھ حسن معیشت نہ کہیں صدق وصفا ہے
کچھ دولت دنیا ہے تو بے مہر و وفا ہے
کچھ دین کا چرچا ہے تو وہ روبہ قفا ہے
چھائے گی تنزل کی ابھی ہم پہ گھٹا اور
ہم اور ہوا میں ہیں ، زمانہ کی ہوا اور
جو لوگ یہ سمجھے کہ ہیں صرف اپنے لئے ہم
اغراض و مقاصدہیں فقط اپنے مقدم
یاروں کی انھیں فکر نہ غیروں کا انھیں غم
ہمدرد عشیرت ہیں نہ ہمسایوں کے ہمدم
وہ فہم و فراست میں بہایم سے بھی ہیں کم
یا سنگ ہیں یا خشت ہیں جائیں جہنم
ان مردہ دلوں سے تو کرو قطع نظر بس
لے ڈوبیں گے تم کو بھی چلے ان کا اگر بس
جو قوم کے اوصاف تھے ، سو ان میں سے اکثر
آپس کی کشاکش میں گلا گھٹ کے گئے مر
غمخواری و احسان و مروت کا لُٹا گھر
انصاف کا اور دین و دیانت کا کٹا سر
نیکوں سے ہوئے بد ، تو بدوں سے ہوئے بدتر
کاشانۂ دولت کی جگہ رہ گئے چھپّر
جو کام تھے یاروں کے سوگردن زدنی تھے
خود اپنے لیے مستعد بیخ کنی تھے
جرأت تھی سو آپس کی عداوت میں ہوئی صرف
قوت تھی سو رشک اور رقابت میں ہوئی صرف
شوکت تھی ، سو خود بینی و نخوت میں ہوئی صرف
فرصت تھی سو بیکاری و غفلت میں ہوئی صرف
عزت تھی، سو افلاس و فلاکت میں ہوئی صرف
دولت تھی سو عیاشی و عشرت میں ہوئی صرف
اس وقت ہمیں عاقبت الا ہوا ہوش
جب رہ گئے ہم لوگ بیک بینی و دو گوش
مدت سے زمانہ میں ترقی کا پھنکا صور
عالم میں بجا اور ہی تحقیق کا طنبور
آفاق میں پھیلا نئی ایجاد کا منشور
خورشید برآمد ہوا بھاگی شبِ دیجور
ہم دے کے ڈھئی کلبۂ اخراں میں بدستور
سوتے رہے غفلت میں پڑے بے خود و مخمور
تاوقت کھلی آنکھ تو حیراں ہیں اب ہم
ہم کون ہیں کیا چیز ہیں اے وائے عجب ہم
ہم چاہتے ہیں عیش بھی اور ناموری بھی
دولت بھی ہمیں چاہئے اور بے ہنری بھی
اعزاز بھی مطلوب ہے بیہودہ سری بھی
آوارگی منظور ہے اور راہبری بھی
مقصود رفو بھی ہے مگر جامہ دری بھی
گر پستی ہمت ہے تو عالی نظری بھی
یہ بات تو ہوگی نہ ہوئی ہے کبھی آگے
پھرتے ہیں محالات کے پیچھے یونہیں بھاگے
خیر اب کوئی تدبیر بھی ہے یا کہ نہیں ہے
کفارۂ تقصیر بھی ہے یا کہ نہیں ہے
کچھ چارۂ تاخیر بھی ہے یا کہ نہیں ہے
اس حال کو تغئیر بھی ہے یا کہ نہیں ہے
فریاد میں تاثیر بھی ہے یا کہ نہیں ہے
اس خواب کی تعبیر بھی ہے یا کہ نہیں ہے
کچھ بھی نہیں دشوار اگر ٹھان لوجی میں
گھنٹوں میں ہو وہ کام جو ہوتا ہو صدی میں
بے کوشش و بے جہد ثمر کس کو ملا ہے
بے غوطہ زنی گنج گہر کس کو ملا ہے
بے خون پئے لقمۂ ترکس کو ملا ہے
بے جور کشی تاجِ ظفر کس کو ملاہے
بے خاک کے چھانے ہوئے زر کس کو ملا ہے
بے کاوش جاں علم و ہنر کس کو ملا ہے
جو رتبۂ والا کے سزاوار ہوئے ہیں
وہ پہلے مصیبت کے طلبگار ہوئے ہیں
کوشش ہی نے اجرام سماوی کو ہے تولا
کوشش ہی نے طبقات زمیں کو ہے ٹٹولا
کوشش ہی نے رستہ نئی دنیا کا ہے کھولا
کوشش ہی نے گوہر ہے نہ بحر سے رولا
کوشش ہی کا طوطی ہے سدا دہر میں بولا
کوشش ہے غرض طرفہ طلسمات کا گولا
قدرت نے فتوحات کی رکھی ہے یہی راہ
سعی اپنی طرف سے ہو تو اتمام من اللہ
ہیں آج کل اسکول کے کمرے صفِ ہیجا
سرمایۂ علم و ہنر و فضل ہے یغما
ہر قوم کا پُرمالِ غنیمت سے ہے کیسا
لیکن تمہیں کچھ سو دو زیاں کی نہیں پروا
کیوں قوم کے اعزاز کی لٹیا کو ڈبویا
کیوں کسبِ کمالات میں تم ہو گئے پس پا
اوروں سے توبود ے نہ تھے مانا کہ تم ایسے
میدان سے کیوں بھاگ گئے نوک دم ایسے
ہر چند کہ دعویٰ تھا تمہیں سیف و قلم کا
تھا فخر تمہیں نسلِ عرب اور عجم کا
لیکن نہ رہا طرز وہ عادات و شیم کا
سیکھا نہ و تیرہ کوئی اربابِ ہمم کا
ناچار ہراِک قوم نے تم کو لیا دھمکا
بے سعی کسی کا بھی ستارہ نہیں چمکا
تم راہِ طلب میں ہو اگر اب بھی شتاباں
ہو کوکبِ عزت اُفق دہر پہ تاباں
اب تک بھی سکت ہے وہی ہدی میں تمہاری
اب تک بھی وہی خوں ہے شرائین میں جاری
افغانی و ترکی و حجازی و تتاری
ایرانی و تورانی و بلخی و بخاری
اے دوستو! ہمت ہی مگر تم نے تو ہاری
اس واسطے بس کر کری شیخی ہوئی ساری
مدّعا علما دفترِ قومی میں ہے خالی
فارابی ؔ و طوسیؔ ہیں نہ رازی و غزالی
تلواروں کا سایہ تھا جنھیں سایہ طوبیٰ
جولان گہہ ہمت تھی جنھیں وسعتِ دنیا
تھا ریگ رواں جن کے لیے بسترِ دیبا
اور خیمۂ اطلس تھا یہی قبّہ خضرا
ہے تم کو اگر ان کے خلف ہونے کا دعویٰ
دکھلاؤ حریفوں کے مقابل ہنر اپنا
ترتیب سے جم جماؤ قرینہ بقرینہ
میدانِ ترقی میں لڑو سینہ بہ سینہ
یہ جنگ نہیں توپ کی یا تیغ و بترکی
اس جنگ میں کچھ جان کی جو کھوں ہے نہ زر کی
یہ جنگ ہے اخلاق کی اور علم وہ ہنر کی
یہ جنگ ہے تحصیل عمل اور نظر کی
اس جنگ میں آسودگی ہے نوع بشر کی
آزادی ہے ملکوں کی تو آبادی ہے گھر کی
یہ جنگ نہیں وضع مروت کی منافی
اس جنگ سے مافات کی ممکن ہے تلافی
ہے جنگ سے مقصود بلندی ارادہ
وہ ہم سے زیادہ ہوں تو ہم ان سے زیادہ
رستہ ہو تعصب کا نہ کینہ کا ہو جادہ
نقشِ حسد و بعض سے افعال ہوں سادہ
دل صاف رہے اور طبیعت بھی کشادہ
اس طور سے حاصل کرو عزت کا و سادہ
گر جوہر ہمت ہے تو سبقت میں کرو کد
نا مردی و مردی قدمے فاصلہ وارد
باقی ہے اگر جوشِ حمیت کا حرارہ
تو معرکۂ علم میں ہو جاؤ صف آرا
جاں ڈال دو ناموس کے قالب میں دوبارا
پیچھے نہ ہٹاؤ قدمِ عزم خدا را
ذلت نہیں ہوتی کبھی مردوں کو گوارا
چمکو فلکِ جاہ پہ تم بن کے ستارا
آبا نے کیا فتح جو بنگال و دکن کو
تسخیر کرو تم عمل و علم کو فن کو
ادنیٰ سا بھی ہر کام ہے اب علم کو محکوم
بے علم ہے جو قوم سو حال اس کا ہے معلوم
دولت سے ہے بیگانہ تو عزت سے ہے محروم
اقوام کمینہ ہیں تو افعال ہیں مذموم
اربابِ ہنر کی کرۂ ارض پہ ہے دھوم
سب حلقہ بگوش ان کے ہیں وہ سب کے ہیں مخدوم
دنیا میں اسی قوم کا گلزار ہے پھولا
جو رکھتی ہے دانش میں ہنر میں یدِ طولا
تم جانتے ہو خوب کہ انسان ہے فانی
فانی ہے بلاشبہ مگر اس کی نشانی
کیا اس کی نشانی ہے سنو میری زبانی
امثال میں مذکور ہے پچھلوں کی کہانی
خوش بخت تھے وہ ، کر گئے جو فیض رسانی
بدبخت تھے مغلوبِ صفاتِ حیوانی
گر تم بھی یوہیں اٹھ گئے حیوان سے رہ کر
آیندہ کی نسلیں تمہیں کیا روئیں گی کہہ کر
پھل خدمتِ قومی ہے اگر نخل ہیں اقوال
تنِ خدمت قومی ہے اگر جامہ میں افعال
جان خدمت ِ قومی ہے اگر جسم ہیں اعمال
ملحوظ رکھو خدمت قومی کو بہر حال
پُر نفع یہ ہی شغل ہے من جملہ اشغال
جو زندۂ جاوید ہیں ان کی ہے یہی چال
پُر الفت قومی سے ہے جن کا رگ و ریشہ
مرنے کو مرتے ہیں پہ جیتے ہیں ہمیشہ
قوت ہے اگر دل میں دماغوں میں ہے طاقت
پہنچاؤ بہم حسنِ بیاں اور طلاقت
اصلاحِ معائب میں کرو صرف لیاقت
دکھلاؤ مریضوں کے مداوا میں خداقت
رکھو نہ غریبوں پہ روا طعنِ حماقت
قوی ضعفا کی نہ کرو ترک رفاقت
کیا دولتِ ہستی ہے پئے نفس پرستی
آباد کرو قوم کی اُجڑی ہوئی بستی
ہے قوم اگر باغ تو تم اس کے شجر ہو
ہے قوم اگر نخل تو تم اس کے ثمر ہو
ہے قوم اگر آنکھ تو تم نورِ بصر ہو
ہے قوم اگر چرخ تو تم شمس و قمر ہو
ہے قوم اگر کان تو تم لعل و گہر ہو
نظارگی ہے قوم ، تو تم مدِّ نظر ہو
موسیٰ بنو اور قوم کو ذلت سے بچاؤ
گو سالۂ غفلت کی پرستش کو چھڑاؤ
او باغِ خزاں دیدہ کے نوخیز منہالو!
اور ساحتِ ہستی کے نئے دوڑنے والو!
مضبوط کرو دل کو طبیعت کو سنبھالو
کچھ دور نہیں ، منزلِ مقصود کو جالو
ہاں مدِّ مقابل بنو ہتھیار نہ ڈالو
میدانِ ترقی کی زمیں سر پہ اٹھا لو
زنہار گوارا نہ کرو ننگِ ہزیمت
موقع ہے ابھی گرم کرو رخشِ عزیمت
غیرت ہو تو گِر کر بھی سنبھلنا نہیں مشکل
جرأت ہو تو نرغہ سے نکلنا نہیں مشکل
ہو صبر تو آفات کا ٹلنا نہیں مشکل
ہو آنچ تو پتھر کا پگھلنا نہیں مشکل
ہمت ہو تو حالت کا بدلنا نہیں مشکل
انجن ہو تو گاڑی کا بھی چلنا نہیں مشکل
گرمی سے کرو پہلے بخارات مہیا
پیدا حرکت ہو تو لگے گھومنے پہیّا
ہمت ہی حرارت ہے وہی ہے حرکت بھی
ہمت ہی سے ہر قوم نے پائی ہے ترقی
گر چیونٹی تیمور کی ہمت نہ بندھاتی
ہتھیار بھی بے کار تھے اور فوج نکمی
ہمت ہے سر انجام مہمات کی کنجی
ہمت ہی حقیقت میں ہے توفیق الٰہی
ہمت ہی بنا دیتی ہے مفلس کو تونگر
ہمت کے سفینہ کا اٹھا دیجئے لنگر
ہمت ہے اگر تم میں تو میدان لیا مار
ڈٹ جاؤ کمر باندھ ک ہُشیار! خبردار!ٍ
اوروں ہی کے گنڈے پہ نہ رہنا کبھی زنہار
ہونے نہ دو اعزاز کے جھنڈے کو نگونسار
لو ہاتھ میں اب تم بھی کوئل پین کی تلوار
اس معرکہ سخت میں مردانہ کرو وار
ہاں قوتِ بازو سے بلا شرکتِ غیرے
آگے کو بڑھو کھولدو نصرت کے پھریرے
قسمت کی برائی ہے نہ تقدیر کا ہے پھیر
خود اپنے ہی کرتوت سے برپا ہے یہ اندھیرا
تحصیل فضائل میں جوانو! نہ کرو دیر
فرصت کو اگر اور مگر میں نہ کرو تیر
بزدل نہ بنو حق نے بنایا ہے تمہیں شیر
کہسار بھی ہو تو اسے کردو زبر و زیر
یلغار کرو علم کے میداں میں عزیزو
آخر تو ہو تم قومِ مسلماں میں عزیزو
جس بستی میں دیکھو کہ نحوست ہے برستی
غالب ہے کہ ہوگی وہ اسی قوم کی بستی
گرتی چلی جاتی ہے ابھی جانبِ پستی
چلتی ہے فضولی کی سدا تیغِ و دوستی
لے دے کے یہی جنس ہے اس دور میں سستی
فاقہ پہ ہے فاقہ مگر اب تک وہی مستی
مل بیٹھ کے اندیشۂ انجام نہ کرنا
روٹی ملے جس کام سے وہ کام نہ کرنا
خیلِ علما کی بھی حمیت ہوئی زائل
تبدیل رذائل سے ہوئے جملہ فضائل
مرتے ہیں مشیخت پے تفاخر پے ہیں مائل
چھپتے ہیں فریقین سے پُر زہر رسائل
لاکھوں ہیں پڑے خنجرِ تکفیر ک گھائل
باعث ہیں جدل کے یہی فقیہہ مسائل
برپا ہے شب و روز یہاں چپقلش ایسی
عالم ہے لقب اور بہم کش مکش ایسی
اکبر الہٰ آبادی
سید اکبر حسین الہ ابادی 16 نومبر 1846ء کو ضلع الہ اباد کے قصبہ بارہ میں پیدا ہوئے۔ والد تفضل حسین نائب تحصیلدار تھے۔ اکبر کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔آٹھ ،نو برس کی عمر میں انھوں نے فارسی اور عربی کی درسی کتابیں پڑھ لیں۔ ۔ وہ اردو کے مشہور طنز و مزاح نگار تھے۔ انھوں نے غزلیں بھی کہیں اور فلمیں بھی۔ انھوں نے اپنی شاعری میں مغربی تعلیم اور مغربی تہذیب ک اندھی تقلید کولر کانشانہ بنایا اورمیری، مقصدی و اسلامی شاعری کو رواج دیا۔ سلامت ، روانی ، لطف بیان ، طنز و ظرافت ان کی شاعری کی نمایاں خصوصیات ہیں ۔ اکبر نے 9 ستمبر 1921ء میں وفات پائی۔۔
فرضی لطیفہ
فرضی لطیفہ
خدا حافظ مسلمانوں کا اکبر!ؔ
مجھے تو اِن کی خوش حالی سے ہے یاس
یہ عاشق شاہدِ مقصود کے ہیں
نہ جائیں گے تو لیکن سعی کے پاس
سُناؤں تم کو اِک فرضی لطیفہ
کیا ہے جس کو میں نے زیبِ قرطاس
کہا مجنوں سے یہ لیلیٰ کی ماں نے
کہ بیٹا! تو اگر کر لے ایم۔اے پاس
تو فوراً بیاہ دوں لیلیٰ کو تجھ سے
بلا دقت میں بن جاؤں تری ساس
کہا مجنوں نے یہ اچھی سنائی
کُجا عاشق ، کُجا کالج کی بکواس
کُجا یہ فطرتی جوشِ طبعیت
کُجا ٹھونسی ہوئی چیزوں کا احساس
بڑی بی! آپ کو کیا ہوگیا ہے ؟
ہرن پر لادی جاتی ہے کہیں گھاس
یہ اچھی قدردانی آپ نے کی
مجھے سمجھائیے کوئی ہر چرن داس
دِل اپنا خون کرنے کو ہوں موجود
نہیں منظور مغزِ سر کا آماس
یہی ٹھہری جو شرطِ وصلِ لیلیٰ
تو استعفیٰ مِرا باحسرت و یاس
مدرسہ علی گڑھ
مدرسہ علی گڑھ
خدا علی گڑھ کے مدرسے کو تما م امراض سے شفا دے
بھرے ہوئے ہیں رئیس زادے ، امیر زادے ، شریف زادے
لطیف و خوش و ضع، چُست و چالاک و صاف پاکیزہ شاد و خرم
طبیعتوںمیں ہے ان کی جودت، دلوں میں ان کے ہیں نیک ارادے
کمالِ محنت سے پڑھ رہے ہیں، کمالِ غیرت سے پڑھ رہے ہیں
سوار مشرق کی راہ میں ہیں، تو مغربی راہ میں پیادے
ہر اک ہے ان میں کا بے شک ایسا کہ آپ اسے چاہتے ہیں جیسا
دکھاے محفل میں قدّرعنا، جو آپ آئیں تو سر جھکادے
فقیر مانگے تو صاف کہ دیں کہ تو ہے مضبوط جا کما کھا
قبول فرمائیں آپ دعوت تو اپنا سرمایہ کُل کھلادے
بتوں سے ان کو نہیں لگاوٹ ، مسوں کی لیتے نہیں وہ آہٹ
تمام قوت ہے صرفِ خواندن ، نظر کے بھولے ہیں دِ ل کے سادے
برق کلیسا
برق کلیسا
رات اس مِس سے کلیسا میں ہوا میں جو دو چار
ہائے وہ حسن وہ شوخی وہ نزاکت وہ ابھار
زلف پیچاں میں وہ سج دھج کہ بلائیں بھی مرید
قدرعنا میں وہ چم خم کہ قیامت بھی شہید
آنکھیں وہ فتنۂ دوراں کہ گنہگار کریں
گال وہ صبح درخشاں کہ ملک پیار کریں
گرم تقریر جسے سننے کو شعلہ لپکے
دل کش آواز کہ سن کر جسے بلبل جھپکے
دل کشی چال میں ایسی کہ ستارے رک جائیں
سرکشی ناز میں ایسی کہ گورنر جھک جائیں
آتشِ حسن سے تقوے کو جلانے والی
بجلیاں لطف تبسم سے گرانے والی
پہلوئے حسن بیاں شوخیٔ تقریر میں غرق
ترکی و مصر و فلسطین کے حالات میں برق
پس لوٹ گیا دل میں سکت ہی نہ رہی
سر تھے تمکین کے جس گت میں وہ گت ہی نہ رہی
ضبط کے عزم کا اس وقت اثر کچھ نہ ہوا
یاحفیظ کا کیا وِرد مگر کچھ نہ ہوا
عرض کی میں نے کہ اے گلشنِ فطرتِ کی بہار
دولت و عزت و ایماں ترے قدموں پہ نثار
تو اگر عہدِ وفا باندھ کے میری ہو جائے
ساری دنیا سے میرے قلب کو سیری ہو جائے
شوق کے جوش میں میں نے جو زباں یوں کھولی
ناز و انداز سے تیور کو چڑھاکر بولی
غیر ممکن ہے مجھے انس مسلمانوں سے
بوئے خوں آتی ہے اس قوم کے انسانوں سے
لَنَ ترانیِ کی یہ لیتے ہیں نمازی بن کر
حملہ سرحد پہ کیا کرتے ہیں غازی بن کر
کوئی بنتا ہے جو مہدی تو بگڑ جاتے ہیں
آگ میں کودتے ہیں توپ سے لڑ جاتے ہیں
گل کھلائے کوئی میداں میں تو اترا جائیں
پائیں سامانِ اقامت تو قیامت ڈھائیں
مطمئن ہو کوئی کیوں کر کہ یہ ہیں نیک نہاد
ہیں ہنوز ان کی رگوں میں اثر حکم جہاد
دشمن صبر کی نظروں میں لگاوٹ آئی
کامیابی کی دلزار نے آہٹ پائی
عرض کی میں نے کہ اے لذت جاں راحتِ روح
اب زمانے پہ نہیں اثر آدم و نوح
شجر طور کا اس باغ میں پودا ہی نہیں
گیسوئے حور کا اس دور میں سودا ہی نہیں
اب کہاں ذہن میں باقی ہیں براق و رفرف
ٹکٹکی بندھ گئی ہے قوم کی انجمن کی طرف
ہم میں باقی نہیں اب خالد جانباز کا رنگ
دل پہ غالب ہے فقط حافظِ شیراز کا رنگ
یاں نہ وہ نعرۂ تکبیر نہ وہ جوشِ سپاہ
سب کے سب آپ ہی پڑھتے ہیں سبحان اللہ
جوہرِ تیغ مجاہد تیرے ابرو پہ نثار
نورِ ایماں کا تیرے آئینہ رو پہ نثار
اٹھ گئی صفحۂ خاطر سے وہ بحث بد و نیک
دو دلے ہو رہے ہیں کہتے ہیں اللہ کو ایک
موجِ کوثر کی کہاں اب ہے میرے باغ کی گرد
میں تو تہذیب میں ہوں پیرِ مغاں کا شاگرد
مجھ پہ کچھ وجہِ عتاب آپ کو اے جان نہیں
نام ہی نام ہے ورنہ میں مسلمان نہیں
جب کہا صاف یہ میں نے کہ جو ہو صاحبِ فہم
تو نکالو دلِ نازک سے یہ شبہہ یہ وہم
میرے اسلام کو اک قصۂ ماضی سمجھو
ہنس کے بولی کہ تو پھر مجھ کو بھی راضی سمجھو
جلوۂ دربارِ دہلی
جلوۂ دربارِ دہلی
سر میں شوق کا سودا دیکھا
دہلی کو ہم نے بھی جا دیکھا
جو کچھ دیکھا اچھا دیکھا
کیا بتلائیں کیا کیادیکھا
جمنا جی کے پاٹ کو دیکھا
اچھے ستھرے گھاٹ کو دیکھا
سب سے اونچے لاٹ کو دیکھا
حضرت ’’ڈیوک کناٹ‘‘ کو دیکھا
پلٹن اور رسالے دیکھے
گورے دیکھے کالے دیکھے
سنگین اور بھالے دیکھے
بینڈ بجانے والے دیکھے
خیموں کا ایک جنگل دیکھا
اس جنگل میں منگل دیکھا
برہما اور ورنگل دیکھا
عزت خواہوں کا دنگل دیکھا
سڑکیں تھیں ہر کمپ سے جاری
پانی تھا ہر پمپ سے جاری
نور کی موجیں لیمپ سے جاری
تیزی تھی ہر جمپ سے جاری
ڈالی میں نارنگی دیکھی
محفل میں سارنگی دیکھی
بے رنگی بارنگی دیکھی
دہر کی رنگا رنگی دیکھی
اچھے اچھوں کو بھٹکا دیکھا
بھیڑ میں کھاتے جھٹکا دیکھا
منہ کو اگرچہ لٹکا دیکھا
دل دربار سے اٹکا دیکھا
ہاتھی دیکھے بھاری بھرکم
ان کا چلنا کم کم تھم تھم
زریں جھولیں نور کا عالم
میلوں تک وہ چم چم چم چم
پر تھا پہلوئے مسجد جامع
روشنیاں تھیں ہر سو لامع
کوئی نہیں تھا کسی کا سامع
سب کے سب تھے دید کے طامع
سرخی سڑک پر کٹتی دیکھی
سانس بھی بھیڑ میں گھٹتی دیکھی
آتش بازی چھٹتی دیکھی
لطف کی دولت لٹتی دیکھی
چوکی اک چو لکھی دیکھی
خوب ہی چکھی پکھی دیکھی
ہر سو نعمت رکھی دیکھی
شہد اور دودھ کی مکھی دیکھی
ایک کا حصہ من و سلوا
ایک کا حصہ تھوڑا حلوا
ایک کا حصہ بھیڑ اور بلوا
میرا حصہ دور کا جلوا
اوج بریش راجا دیکھا
پرتو تخت و تاج کا دیکھا
رنگ زمانہ آج کا دیکھا
رخ کرزن مہراج کا دیکھا
پہنچے پھاند کے ساتھ سمندر
تحت میں ان کے بیسوں بندر
حکمت و دانش ان کے اندر
اپنی جگہ ہر اک سکندر
اوج بخت ملاقی ان کا
چرخ ہفت طبقاقی ان کا
محفل ان کی ساقی ان کا
آنکھیں میری باقی ان کا
ہم تو ان کے خیر طلب ہیں
ہم کیا ایسے ہی سب کے سب ہیں
ان کے راز کے عمدہ ڈھب ہیں
سب سامان عیش و طرب ہیں
اگزبشن کی شان انوکھی
ہر شے عمدہ ہر شے چوکھی
اقلیدس کی ناپی چوکی
من بھر سونے کی لاگت سوکھی
جشن عظیم اس سال ہوا ہے
شاہی فورٹ میں بال ہوا ہے
روشن ہر ٰاک ہال ہوا ہے
قصہ ماضی حال ہوا ہے
ہے مشہور کوچہ و برزن
ہال میں ناچیں لیڈی کرزن
طائر ہوش تھے سب کے لرزن
رشک سے دیکھ رہی تھی ہرزن
ہال میں چمکی آکے یکایک
زریں تھیں پوشاک جھکاجھک
مہکتہ ان کا اوج سماں تک
چرخ پہ زہرا ان کی تھی گاہک
گو رقاصہ اوج فلک تھی
اس میں کہاں یہ نوک پلک تھی
اندر کی محفل کی جھلک تھی
بزم عشرت صبح تلک تھی
کی ہے یہ بندش ذہن رسا نے
کوئی مانے خواہ نہ مانے
سنتے ہیں ہم تو یہ افسانے
جس نے دیکھا ہو وہ جانے
برج نرائن چکبست
راماین کا ایک سین
راماین کا ایک سین
رخصت ہوا وہ باپ سے لے کر خدا کانام
راہِ وفا کی منزلِ اوّل ہوئی تمام
منظور تھا جو ماں کی زیارت کا انتظام
دامن سے اشک پوچھ کے دل سے کیا کلام
اظہارِ بے کسی سے ستم ہوگا اور بھی
دیکھا ہمیں اداس تو غم ہوگا اور بھی
دل کو سنبھالتا ہوا آخر وہ نونہال
خاموش ماں کے پاس گیا صورت خیال
دیکھا تو ایک در میں ہے بیٹھی وہ خستہ حال
سکتہ سا ہو گیا ہے ، یہ ہے شدتِ ملال
تن میں لہو کا نام نہیں، زرد رنگ ہے
گویا بشر نہیں، کوئی تصویر سنگ ہے
کیا جانے کس خیال میں گُم تھی وہ بے گناہ
نورِ نظر پہ دیدۂ حسرت سے کی نگاہ
جُنبش ہوئی لبوں کو، بھری ایک سرد آہ
لی گوشہ ہائے چشم سے اشکوں نے رُخ کی راہ
چہرے کا رنگ حالتِ دل کھولنے لگا
ہر موے تن زباں کی طرح بولنے لگا
آخر، اسیرِ یاس کا قُفل دہن کھلا
افسانۂ شدائد رنج و محن کھلا
ایک دفتر مظالم چرخِ کُہن کھلا
وا تھا دہان زخم ، کہ بابِ سُخن کھُلا
دردِ دل غریب جو صرفِ بیاں ہوا
خونِ جگر کا رنگ سُخن سے عیاں ہوا
رو کر کہا خاموش کھڑے کیوں ہو میری جاں؟
میں جانتی ہوں، کس لیے آئے ہو تم یہاں
سب کی خوشی یہی ہے تو صحرا کو ہو رواں
لیکن میں اپنے منھ سے نہ ہر گزر کہوں گی ’ہاں‘
کس طرح بن میں آنکھوں کے تارے کو بھیج دوں؟
جوگی بنا کے راج دُلارے کو بھیج دوں؟
دُنیا کا ہوگیا یہ کیسا لہو سفید؟
اندھا کیے ہوئے ہے زرو مال کی امید
انجام کیا ہو؟ کوئی نہیں جانتا یہ بھید
سوچے بشر ، تو جسم ہو لرزاں مثالِ بید
لکھی ہے کیا حیاتِ ابد اِن کے واسطے؟
پھیلا رہے ہیں جال یہ کس دِ ن کے واسطے؟
لیتی کسی فقیر کے گھر میں اگر جنم
ہوتے نہ میری جان کو سامان یہ بہم
ڈستانہ سانب بن کے مجھے شوکت و حشم
تم میرے لال ، تھے مجھے کس سلطنت سے کم
میں خوش ہوں، پھونک دے کوئی اس تخت و تاج کو
تم ہی نہیں ، تو آگ لگا دوںگی راج کو
کِن کن ریاضتوں سے گزارے ہیں ماہ و سال
دیکھی تمہارے شکل جب اے میرے نونہال!
پورا ہوا جو بیاہ کا ارمان تھا کمال
آفت یہ آئی مجھ پہ ، ہوئے جب سفید بال
چھٹتی ہوں ان سے ، جوگ لیا جن کے واسطے
کیا سب کیا تھا میں نے اسی دن کے واسطے؟
ایسے بھی نامراد بہت آئیں گے نظر
گھر جن کے بے چراغ رہے آہ! عمر بھر
رہتا مرا بھی نخل تمنا جو بے ثمر
یہ جاے صبر تھی، کہ دعا میں نہیں اثر
لیکن یہاں تو بن کے مقدربگڑگیا
پھل پھول لاکے باغِ تمنا اُجڑ گیا
سرزد ہوئے تھے مجھ سے خدا جانے کیا گناہ
منجدھار میں جو یوں مری کشتی ہوئی تباہ
آئی نظر نہیں کوئی امن و اماں کی راہ
اب یاں سے کوچ ہو تو عدم میں ملے پناہ
تقصیر میری، خالقِ عالم بحل کرے
آسان مجھ غریب کی مشکل اجل کرے
سُن کر زباں سے ماں کی یہ فریادِ درد خیز
اُس خستہ جاں کے دل پہ چلی غم کی تیغِ تیز
عالم یہ تھا قریب ، کہ آنکھیں ہوں اشک ریز
لیکن ہزار ضبط سے رونے سے کی گریز
سوچا یہی ، کہ جان سے بے کس گزر نہ جائے
ناشاد ہم کو دیکھ کر ماں اور مر نہ جائے
پھر عرض کی یہ مادرِ ناشاد کے حضور
مایوس کیوں ہیں آپ؟ الم کا ہے کیوں وفور؟
صدمہ یہ شاق عالمِ پیری میں ہے ضرور
لیکن نہ دل سے کیجیے صبر و قرار دور
شاید خزاں سے شکل عیاں ہو بہار کی
کچھ مصلحت اسی میں ہو پروردگار کی
یہ جعل ، یہ فریب، یہ سازش، یہ شور و شر
ہونا جو ہے ، سب اس کے بہانے میں سر بہ سر
اسبابِ ظاہری میں، نہ ان پر کرو نظر
کیا جانے کیا ہے پردۂ قدرت میں جلوہ گر
خاص اس کی مصلحت کوئی پہچانتا نہیں
منظور کیا اسے ہے ؟ کوئی جانتا نہیں
راحت ہو یا کہ رنج ، خوشی ہو کہ انتشار
واجب ہر ایک رنگ میں ہے شکر کردگار
تم ہی نہیں ہو کُشتہ نیرنگِ روزگار
ماتم کدہ میں دہر کے لاکھوں ہیں سوگوار
سختی سہی نہیں، کہ اٹھائی کڑی نہیں
دنیا میں کیا کسی پہ مصیبت پڑی نہیں
دیکھے ہیں اس سے بڑھ کے زمانے نے انقلاب
جن سے کہ بے گناہوں کی عمریں ہوئیں خراب
سوزِ دروں سے قلب و جگر ہو گئے کباب
پیری مٹی کسی کی ، کسی کا مٹا شباب
کچھ بن نہیں پڑا، جو نصیبے بگڑ گئے
وہ بجلیاں گریں، کہ بھرے گھر اجڑگئے
ماں باپ منہ ہی دیکھتے تھے جن کا ہر گھڑی
قائم تھیں جن کے دم سے امیدیں بڑی بڑی
دامن پہ جن کے گرد بھی اڑ کر نہیں پڑی
ماری نہ جن کو خواب میں بھی پھول کی چھڑی
محروم جب وہ گل ہوے رنگِ حیات سے
ان کے جلاکے خاک کیا اپنے ہات سے
کہتے تھے لوگ دیکھ کر ماں باپ کا ملال
ان بے کسوں کی جان کا بچنا ہے اب محال
ہے کبریا کی شان، گزرتے ہی ماہ و سال
خود دل سے دردِ ہجر کا مٹتا گیا خیال
ہاں کچھ دنوں تو نوحہ و ماتم ہوا کیا
آخر کورو کے بیٹھ رہے اور کیا کیا؟
پڑتا ہے جس غریب پہ رنج و محن کا بار
کرتا ہے اس کو صبر عطا آپ کردگار
مایوس ہوکے ہوتے ہیں انساں گنہگار
یہ جانتے نہیں ، وہ ہے داناے روزگار
انسان اس کی راہ میں ثابت قدم رہے
گردن وہی ہے ، امرِ رضا میں جو خم رہے
اور آپ کو تو کچھ بھی نہیں رنج کا مقام
بعد سفر وطن میں ہم آئیں گے شاد کام
ہوتے ہیں بات کرنے میں چودہ برس تمام
قائم امید ہی سے ہے ، دنیا ہے جس کانام
اور یوںکہیں بھی رنج و بلا سے مفر نہیں
کیا ہوگا دو گھڑی میں، کسی کو خبر نہیں
اکثر ریاض کرتے ہیںپھولوں پہ باغباں
ہے دن کی دھوپ ، رات کی شبنم انھیں گراں
لیکن جو رنگ باغ بدلتا ہے ناگہاں
وہ گل ہزار پردوں میں جاتے ہیں رائگاں
رکھتے ہیں جو عزیز انھیں اپنی جاں کی طرح
ملتے ہیں دستِ یاس وہ برگِ خزاں کی طرح
لیکن جو پھول کھلتے ہیں صحرا میں بے شمار
موقوف کچھ ریاض پہ ان کی نہیں بہار
دیکھو یہ قدرت چمن آراے روزگار
وہ ابروباد و برف میں رہتے ہیں برقرار
ہوتا ہے ان پہ فضل جو رب کریم کا
موجِ سموم بنتی ہے جھونکا نسیم کا
اپنی نگاہ ہے کرمِ کارساز پر
صحرا چمن بنے گا، وہ ہے مہرباں اگر
جنگل ہو یا پہاڑ، سفر ہو کہ ہو حضر
رہتا نہیں وہ حال سے بندے کے بے خبر
اس کا کرم شریک اگر ہے تو غم نہیں
دامانِ دشت ، دامنِ مادر سے کم نہیں
خاک ہند
خاک ہند
1905
اے خاکِ ہند تیری عظمت میں کیا گماں ہے
دریائے فیض قدرت تیرے لیے رواں ہے
تیری جبیں سے نورِ حُسنِ عیاں ہے
اللہ نے زیب وزینت کیا اَوج عزّوشان ہے
ہرصبح ہے یہ خدمت خورشید پُرضیا کی
کرنوں سے گوندھتا ہے چوٹی ہمالیاکی
اِس خاک دِل نشیں سے چشمے ہوئے وہ جاری
چین وعرب میں جن سے ہوئی تھی آبیاری
سارے جہاں پہ جب تھاوحشت کا ابرطاری
چشم وچراغ عالم تھی سرزمین ہماری
شمع ادب نہ تھی جب یوناں کی انجمن میں
تاباں تھا مہر دانش اس وادیِ کہن میں
گوتم نے آبرودی اِس معبدِ کُہن کو
سرمدے اِس زمیں پر صدقے کیا وطن کو
اکبرؔ نے جامِ اُلفت بخشا اِس انجمن کو
سینچا لہوسے اپنے رانا نے اس چمن کو
سب سورِبیراپنے اس خاک میں نہاں ہیں
ٹوٹے ہوئے کھنڈرہیں یا اُن کی ہڈیاں میں
دیوارودرسے اب تک ان کااثرعیاں ہے
اپنی رگوں میں اب تک ان کا لہورواں ہے
اب تک اثرمیںڈوبی ناقوس کی فغاں ہے
فردوس گوش اب تک کیفیت اذاں ہے
کشمیر سے عیاں ہے جنّت کا رنگ اب تک
شوکت سے بہَ رہا ہے دریائے گنگ اب تک
اگلی سی تازگی ہے پھولوں میں اورپھلوں میں
کرتے ہیں رقص اب تک طاوس جنگلوں میں
اب تک وہی کڑک ہے بجلی بادلوں میں
پستی سی آگئی ہے پردل کے حوصلوں میں
گُل شمع انجمن ہے گوانجمن وہی ہے
حُبِّ وطن نہیں ہے خاکِ وطن وہی ہے
برسوں سے ہورہا ہے برہم سماں ہمارا
دنیا سے مِٹ رہا ہے نام ونشاں ہمارا
کچھ کم نہیں ،جل سے خوابِ گراں ہمارا
اک لاش بے کفن ہے ہندوستاں ہمارا
علم وکمال وایماں بربادہورہے ہیں
عیش وطرب کے بندے غفلت میں سورہے ہیں
اے صورِحُبِّ قومی اِس خواب سے جگادے
بھولا ہواافسانہ کانوں کوپھرسُنادے
مُردہ طبیعتوں کی افسردگی مٹادے
اُٹھتے ہوئے شرارے اِس راکھ سے دکھادے
حُبِّ وطن سمائے آنکھوں میں نور ہوکر
سَرمیں خمار ہوکر دل میں سرور ہوکر
شیدائے بوستاں کو سرودسمن مبارک
رنگیں طبیعتوں کو رنگِ سخن مبارک
بُلبُل کو گُل مبارک گُل کو چمن مبارک
ہم بیکسوں کو اپنا پیارا وطن مبارک
غنچے ہمارے دل کے اِس باغ میںکھلیںگے
اس خاک سے اُٹھے ہیں اِس خاک میں ملیںگے
ہے جوئے شیرہم کونُورِ سحروطن کا
آنکھوں کی روشنی ہے جلوۂ اِس انجمن کا
ہے رشکِ مہرذرّہ! اس منزلِ کُہن کا
تُلتا ہے برگ گُل سے کانٹا بھی اِس چمن کا
گردوغباریاں کا خلعت ہے اپنے تن کو
مَرکربھی چاہتے ہیں خاکِ وطن کفن کو
علامہ اقبالؔ
لالۂ صحرائی
لالۂ صحرائی
یہ گنبدِ مینائی! یہ عالمِ تنہائی
مجھ کو تو ڈراتی ہے اس دشت کی پنہائی!
بھٹکا ہوا راہی میں ، بھٹکا ہوا راہی تو!
منزل ہے کہاں تیری اے لالۂ صحرائی؟
خالی ہے کلیموں سے یہ کوہ و کمر ورنہ
تو شعلۂ سینائی، میں شعلۂ سینائی!
تو شاخ سے کیوں پھوٹا،میں شاخ سے کیوں ٹوٹا
اِک جذبۂ پیدائی! اک لذّتِ یکتائی!
غواصِ محبت کا اللہ نگہباں ہو
ہر قطرۂ دریا میں دریا کی ہے گہرائی!
اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ
دریا سے اٹھی ،لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی!
ہے گرمیٔ آدم سے ہنگامۂ عالم گرم
سورج بھی تماشائی ، تارے بھی تماشائی!
اے بادِ بیابانی مجھ کو بھی عنایت ہو
خاموشی و دل سوزی ، سر مستی و رعنائی!
شعاع اميد
(1)
سورج نے ديا اپني شعاعوں کو يہ پيغام
دنيا ہے عجب چيز ، کبھي صبح کبھي شام
مدت سے تم آوارہ ہو پہنائے فضا ميں
بڑھتي ہي چلي جاتي ہے بے مہري ايام
نے ريت کے ذروں پہ چمکنے ميں ہے راحت
نے مثل صبا طوف گل و لالہ ميں آرام
پھر ميرے تجلي کدہ دل ميں سما جاؤ
چھوڑو چمنستان و بيابان و در و بام
(2)
آفاق کے ہر گوشے سے اٹھتي ہيں شعاعيں
بچھڑے ہوئے خورشيد سے ہوتي ہيں ہم آغوش
اک شور ہے ، مغرب ميں اجالا نہيں ممکن
افرنگ مشينوں کے دھويں سے ہے سيہ پوش
مشرق نہيں گو لذت نظارہ سے محروم
ليکن صفت عالم لاہوت ہے خاموش
پھر ہم کو اسي سينہ روشن ميں چھپا لے
اے مہر جہاں تاب ! نہ کر ہم کو فراموش
(3)
اک شوخ کرن ، شوخ مثال نگہ حور
آرام سے فارغ ، صفت جوہر سيماب
بولي کہ مجھے رخصت تنوير عطا ہو
جب تک نہ ہو مشرق کا ہر اک ذرہ جہاں تاب
چھوڑوں گي نہ ميں ہند کي تاريک فضا کو
جب تک نہ اٹھيں خواب سے مردان گراں خواب
خاور کي اميدوں کا يہي خاک ہے مرکز
اقبال کے اشکوں سے يہي خاک ہے سيراب
چشم مہ و پرويں ہے اسي خاک سے روشن
يہ خاک کہ ہے جس کا خزف ريزہ درناب
اس خاک سے اٹھے ہيں وہ غواص معاني
جن کے ليے ہر بحر پر آشوب ہے پاياب
جس ساز کے نغموں سے حرارت تھي دلوں ميں
محفل کا وہي ساز ہے بيگانہ مضراب
بت خانے کے دروازے پہ سوتا ہے برہمن
تقدير کو روتا ہے مسلماں تہ محراب
مشرق سے ہو بيزار ، نہ مغرب سے حذر کر
فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر
ساقی نامہ
ساقی نامہ
¦یہ نظم ’’بالِ جبریل‘‘ سے ماخوذ ہے۔
¦یہ نظم مثنوی سحرالبیان کی بحر میں لکھی گئی ہے۔
ہوا خیمہ زن کا روانِ بہار
اِرم بن گیا دامنِ کوہسار
گل و نرگس و سوسن و نسترن
شہید ازل لالہ خونیں کفن
جہاں چھپ گیا پردۂ رنگ میں
لہو کی ہے گردش رگِ سنگ میں
فضا نیلی نیلی ہوا میں سرور
ٹھہرتے نہیں آشیاں میں طیور
وہ جوئے کہستاں اچکتی ہوئی
اٹکتی ، لچکتی ، سرکتی ہوئی
اچھلتی ، پھسلتی ، سنبھلتی ہوئی
بڑے پیچ کھاکر نکلتی ہوئی
رُکے جب توسلِ چیر دیتی ہے یہ
پہاڑوں کے دل چیر دیتی ہے یہ
ذرادیکھ اسے ساقیٔ لالہ فام
سناتی ہے یہ زندگی کا پیام
پلا دے مجھے وہ مَے پردہ سوز
کہ آتی نہیں فصلِ گل روز روز
وہ میں جس سے روشن ضمیرِ حیات
وہ میں جس سے ہے مستی کائنات
وہ میں جس میں ہے سوز و سازِ ازل
وہ میں جس سے کھلتا ہے رازِ ازل
اٹھا ساقیا پردہ اس راز سے
لڑا دے ممولے کو شہباز سے
زمانے کے انداز بدلے گئے
نیا راگ ہے ، ساز بدلے گئے
ہوا اس طرح فاش رازِ فرنگ
کہ حیر ت میں ہے شیشہ بازِ فرنگ
پرانی سیاست گری خوار ہے
زمیں میر و سلطاں سے بیزار ہے
گیا دور سرمایہ داری گیا
تماشا دکھا کر مداری گیا
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
ھمالہ کے چشمے اُبلنے لگے
دل طورِ سینا وفاراں دو نیم
تجلی کا پھر منتظر ہے کلیم
مسلماں ہے توحید میں گرمجوشی
مگر دل ابھی تک ہے زنّار پوش
تمدن ، تصوف ، شریعت ، کلام
بتانِ عجم کے پجاری تمام
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی
لبھاتا ہے دل کو کلامِ خطیب
مگر لذت شوق سے بے نصیب
بیاں اس کا منطق سے سلجھا ہوا
لغت کے بکھیڑوں میں الجھا ہوا
وہ صوفی کہ تھا خدمتِ حق میں مرد
محبت میں یکتا ،حمیت میں فرد
عجم کے خیالات میں کھو گیا
یہ سالک مقامات میں کھو گیا
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
شرابِ کہن پھر پلا ساقیا
وہی جام گردش میں لاساقیا
مجھے عشق کے پر لگا کر اڑا
مری خاک جگنو بنا کر اڑا
خرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانوں کو پیروں کا استاد کر
ہری شاخ ملت ترے نم سے ہے
نفس اس بدن میں ترے دم سے ہے
تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے
دل مرتضی سوزِ صدیق دے
جگر سے وہی تیر پھر پارکر
تمنا کو سینوں میں بیدار کر
ترے آسمانوں کے تاروں کی خیر
زمینوں کے شب زندہ داروں کی خیر
جوانوں کو سوزِ جگر بخش دے
مرا عشق میری نظر بخش دے
مری ناؤ گر داب سے پار کر
یہ ثابت ہے تو اس کو سیار کر
بتا مجکو اسرارِ مرگ و حیات
کہ تیری نگاہوں میں ہے کائنات
مرے دیدۂ تر کی بے خوابیاں
مرے دل کی پوشیدہ بیتابیاں
مرے نالۂ نیم شب کا نیاز
مری خلوت و انجمن کا گداز
امنگیں مری ، آرزوئیں مری
امیدیں مری، جستجوئیں مری
مری فطرت آئینۂ روزگار
غزالانِ افکار کا مرغزار
مرا دل مری رزم گاہِ حیات
گمانوں کے لشکر یقیں کا ثبات
یہی کچھ ہے ساقی متاعِ فقیر
اسی سے فقیری میں ہوں میں امیر
مرے قافلے می لٹا دے اسے
لٹا دے ، ٹھکانے لگا دے اسے
دمادم رواں ہے یمِ زندگی
ہر اک شے سے پیدارمِ زندگی
اسی سے ہوئی ہے بدن کی نمود
کہ شعلے میں پوشیدہ ہے موجِ دود
گراں گرچہ ہے صحبتِ آب و گل
خوش آئی اسے محنت آب و گل
یہ ثابت بھی ہے اور سیار بھی
عناصر کے پھندوں سے بیزار بھی
یہ وحدت ہے کثر ت میں ہر دم اسیر
مگر ہر کہیں بے چگوں ، بے نظیر
یہ عالم ، یہ بتخانہ شس جہات
اسی نے تراشا ہے یہ سومنات
پسند اس کو تکرار کی خو نہیں
کہ تو میں نہیں اور میں تو نہیں
من و تو سے ہے انجمن آفریں
مگر عینِ محفل میں خلوت نشیں
چمک اس کی بجلی میں ، تارے میں ہے
یہ چاندی میں ، سونے میں ، پارے میں ہے
اسی کے بیاباں ، اسی کے ببول
اسی کے ہیں کانٹے ، اسی کے ہیں پھول
کہیں اس کی طاقت سے کہسار چور
کہیں اس کے پھندے میں جبریل و حور
کہیںجُرّہ شاہین سیماب رنگ
لہو سے چکوروں کے آلودہ چنگ
کبوتر کہیں آشیا نے سے دور!
پھڑکتا ہوا جال میں نا صبور!
فریب نظر ہے سکون و ثبات
تڑپتا ہے ھر ذرۂ کائنات
ٹھہرتا نہیں کاروانِ وجود
کہ ہر لحظہ ہے تازہ شانِ وجود
سمجھتا ہے تو راز ہے زندگی
فقط ذوقِ پرواز ہے زندگی
بہت اس نے دیکھے ہیں پست و بلند
سفر اس کو منزل سے بڑھ کر پسند
سفر زندگی کے لیے برگ و ساز
سفر ہے حقیقت حضر ہے مجاز
الجھ کر سلجھنے میں لذت اسے!
تڑپنے پھڑکنے میں راحت اسے
ہوا جب اسے سامنا موت کا
کٹھن تھا بڑا تھا منا موت کا
اتر کر جہانِ مکافات میں
رہی زندگی موت کی گھات میں
مذاقِ دوئی سے بنی زوج زَوج
اٹھی دشت و کہسار سے فَوج فوج
گل اس شاخ سے ٹوٹتے بھی رہے
اسی شاخ سے پھوٹتے بھی رہے
سمجھتے ہیں ناداں اسے بے ثبات
ابھرتا ہے مٹ مٹ کے نقشِ حیات
بڑی تیز جولاں ، بری زود رس
ازل سے ابد تک رمِ یک نفس
زمانہ کہ زنجیر ایام ہے
دموں کے الٹ پھیر کا نام ہے
یہ موجِ نفس کیا ہے تلوار!
خودی کیا ہے تلوار کی دھار ہے
خودی کیا ہے ؟ رازِ درونِ حیات
خودی کیا ہے ؟ بیداری کائنات
خودی جلوہ بدمست و خلوت پسند
سمندر ہے اک بوند پانی میں بند
اندھیرے اجالے میں ہے تابناک
من و تو میں پیدا، من و تو سے پاک
ازل اس کے پیچھے ، ابد سامنے
نہ حد ، اس کے پیچھے نہ حد سامنے
زمانے کے دریا میں بہتی ہوئی
ستم اس کی موجوں کے سہتی ہوئی
تجسس کی راہیں بدلتی ہوئی
دما دم نگاہیں بدلتی ہوئی
سبک اس کے ہاتھوں میں سنگِ گراں
پہاڑ اس کی ضربوں سے ریگِ رواں
سفر اس کا انجام و آغاز ہے
یہی اس کی تقویم کا راز ہے
کرن چاند میں ہے شرر سنگ میں
یہ بیرنگ ہے ڈوب کر رنگ میں
اسے واسطہ کیا کم و بیش سے
نشیب و فراز و پس و پیش سے
ازل سے ہے یہ کشمکش میں اسیر
ہوئی خاکِ آدم میں صورت پذیر
خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے
فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے
خودی کے نگہباں کو ہے زہرِ ناب
وہ ناں جس سے جاتی رہے اس کی آب
وہی ناں ہے اس کے لیے اوجمند
رہے جس سے دنیا میں گردن بلند
فروفالِ محمود سے در گزر
خودی کی نگہ رکھ ، ایازی نہ کر
وہی سجدہ ہے لائقِ اہتمام
کہ ہو جس سے ہر سجدہ تجھ پر حرام
یہ عالم ، یہ ہنگامۂ رنگ و صوت
یہ عالم کہ ہے زیرِ فرمانِ موت
یہ عالم یہ بتخانہ چشم و گوش
جہاں زندگی ہے فقط خورد و نوش
خودی کی یہ ہے منزلِ اولیں
مسافر! یہ تیرا نشیمن نہیں
تری آگ اس خاکداں سے نہیں
جہاں تجھ سے ہے ، تو جہاں سے نہیں
بڑھے جا یہ کوہِ گراں توڑ کر
طلسمِ زمان و مکاں توڑ کر
خودی شیرِ مولا جہاں اس کا صید
زمیں اس کی صید ، آسماں اس کا صید
جہاں اور بھی ہے ابھی بے نمود
کہ خالی نہیں ہے ضمیر وجود
ہر اک منتظر تیری یلغار کا
تری شوخیٔ فکر کردار کا
یہ ہے مقصدِ گردشِ روزگار
کہ تیری خودی تجھ پہ ہو آشکار
تو ہے فاتحِ عالم خوب و زشت
تجھے کیا بتاؤں تری سر نوشت
حقیقت پہ ہے جامۂ حرف تنگ
حقیقت ہے آئینہ گفتار زنگ
فروزاں ہے سینے میں شمعِ نفس
مگر تابِ گفتار کہتی ہے بس
اگر یک سیرِ موے برتر پرم
فروغِ تجلی بسوزد پرم
ذوق و شوق
ذوق و شوق
یہ نظم ’’بالِ جبریل‘‘ سے ماخوذ ہے۔
(ان اشعار میں سے اکثر فلسطین میں لکھے گئے)
دریخ آمدم زاں ہمہ بوستاں تہی دست رفتن سوے دوستاں
قلب و نظر کی زندگی دشت میں صبح کا سماں
چشمۂ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں!
حسنِ ازل کی ہے نمود، چاک ہے پردۂ وجود
دل کے لیے ہزار سود ، ایک نگاہ کا زیاں!
سرخ و کبود بدلیاں چھوڑ گیا سحابِ شب!
کوہِ صنم کودے گیا رنگ برنگ طیلساں!
گرد سے پاک ہے ہوا ، برگِ نخیل دھل گئے
ریگِ نواحِ کا طنمہ نرم ہے مثلِ پرنیاں!
آگ بجھی ہوئی ادھر، ٹوٹی ہوئی طناب ادھر
کیا خبر اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کارواں!
آئی صدا اے جبرئیل تیرا مقام ہے یہی
اہل فراق کے لیے عیشِ دوام ہے یہی
کس سے کہوں کہ زہر ہے میرے لیے مے حیات
کہنہ ہے بزمِ کائنات ، تازہ ہیں میرے واردات
کیا نہیں اور غزنوی کار گہِ حیات میں
بیٹھے ہیں کب سے منتظر اہل حرم کے سومنات!
ذکرِ عرب کے سوز میں ، فکرِ عجم کے ساز میں
نے عربی مشاہدات ، نے عجمی تخیلات!
قافلۂ حجاز میں ایک حسینؑ بھی نہیں
گرچہ ہے تاب دار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات!
عقل و دل و نگاہ کا مرشدِ اولیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دیں بتکدۂ تصورات!
صدقِ خلیلؑ بھی ہے عشق صبرِ حسینؑ بھی ہے عشق!
معرکۂ وجود میں بدر و حُنین بھی ہے عشق!
آیۂ کائنات کا معنیٔ دیر یاب تو!
نکلے تری تلاش میں قافلہ ہاے رنگ و بو!
جلوتیانِ مدرسہ کو رنگاہ و مردہ ذوق
خلوتیان میکدہ کم طلب و تہی کدو!
میں ، کہ مری غزل میں ہے آتشِ رفتہ کا سراغ
میری تمام سر گذشت کھوئے ہوؤں کی جستجو!
بادِ صبا کی موج سے نشو نمائے خار و خس!
میرے نفس کی موج سے نشوونماے آرزو!
خونِ دل و جگر سے ہے میری نوا کی پرورش
ہے رگ ساز میں رواں صاحبِ ساز کا لہو!
فرصت کشمکش مہ ایں دل بے قرار را
یک دو شکن زیادہ کن گیسوے تابدار را
لوِ ح بھی تو ، قلم بھی تو ، تیرا وجودالکتاب !
گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب!
عالمِ آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ
ذرۂ ریگ کو دیا تو نے طلوعِ آفتاب!
شوکتِ سبخرو سلیم تیرے جلال کی نمود!
فقرِ جنید و بایزید تیرا جمال بے نقاب!
شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب میرا سجود بھی حجاب!
تیری نگاہ ناز سے دونوں مراد پا گئے
عقل ، غیاب و جستجو ! عشق حضور و اضطراب!
تیرہ و تار ہے جہاں گردشِ آفتاب سے!
طبع زمانہ تازہ کر جلوۂ بے حجاب سے!
تیری نظر میں ہیں تمام میرے گزشتہ روز و شب
مجھ کو خبر نہ تھی کہ ہے علم نخیل بے رطب
تازہ مرے ضمیرمیں معرکۂ کہن ہوا
عشق تمام مصطفی عقل تمام بولہب
گاہ بحیلہ می برد ، گاہ بزور می کشد
عشق کی ابتدا عجیب عشق کی انتہا عجیب
عالمِ سوزو ساز میں وصل سے برھ کے ہے فراق
وصل میں مرگِ آرزو ہجر میں لذّتِ طلب
عین وصال میں مجھے حوصلۂ نظر نہ تھا
گرچہ بہانہ جور ہی میری نگاہِ بے ادب
گرمی آرزو فراق! شورش ہاے وہو فراق
موج کی جستجو فراق قطرہ کی آبرو فراق
لینن خدا کے حضور میں
لینن خدا کے حضور میں
¦یہ نظم ’’بالِ جبریل‘‘ سے ماخوذ ہے۔
¦یہ نظم علامہ اقبال کے فلسفۂ حیات، مطالعۂ تاریخ اور تجزیۂ سیاست کی ترجمان ہے۔
اے انفس و آفاق میں پیدا ترے آیات
حق یہ ہے کہ ہے زندہ و پایندہ تری ذات
میں کیسے سمجھتا کہ تو ہے یا کہ نہیں ہے
ہر دم متغیر تھے خرد کے نظریات
محرم نہیں فطرت کے سرودِ ازلی سے
بیناے کواکب ہو کہ دانا ے نباتات!
آج آنکھ نے دیکھا تو وہ عالم ہوا ثابت!
میں جس کو سمجھا تھا کلیسا کے خرافات
ہم بندِ شب و روز میں جکڑے ہوئے بندے
تو خالقِ اعصاء و نگارندۂ آنات
اِک بات اگر مجھ کو اجازت ہو تو پوچھوں
حل کر نہ سکے جس کوحکیموں کے مقالات!
جب تک میں جیا خیمۂ افلاک کے نیچے
کانٹے کی طرح دل میں کھٹکتی رہی یہ بات
گفتار کے اسلوب پہ قابونہیں رہتا
جب روح کے اندر متلاطم ہوں خیالات
وہ کون سا آدم ہے کہ تو جس کا ہے معبود؟
وہ آدم خاکی کہ جو ہے زیرِ سماوات؟
مشرق کے خداوند سفیدانِ فرنگی!
مغرب کے خداوند درخشندہ فلّزات!
یورپ میں بہت روشنیٔ علم وہنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمۂ حیواں ہے یہ ظلمات!
رعنائی تعمیر میں ، رونق میں ، صفا میں
گرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بنکوں کی عمارات!
ظاہر میں تجارت ہے ، حقیقت میں جُوا ہے
سود ایک کالاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات!
یہ علم ، یہ حکمت ،یہ تدبر، یہ حکومت!
پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیم و مساوات
بیکاری وعریانی و مے خواری و افلاس
کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کے فتوحات؟
وہ قوم کہ فیضانِ سماوی سے ہو محروم
حداس کے کمالات کی ہے برق و نجارات!
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت!
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات!
آثار تو کچھ کچھ نظر آتے ہیں کہ آخر
تدبیر کوتقدیر کے شاطر نے کیا مات
میخانے کی بنیاد میں آیا ہے تزلزل
بیٹھے ہیں اسی فکر میں پیرانِ خرابات
چہروں پہ جو سرخی نظر آتی ہے سرشام
یا غازہ ہے یا ساغر و مینا کی کرامات
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ ؟
جوش ملیح آبادی
جوش ملیح آبادی
دل کی چونٹوں نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا
جب۔ چلی سرد ہوا میں نے تجھے ياد کیا
تعارف:- اُردو ادب کا مشہور و معروف ستارہ جوش ملیح آبادی کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ جوش مقبول ترین شاعر بھی تھے، مدیر بھی اور صحافی بھی۔ ساتھ ہی ساتھ مجاہد آزادی بھی کہے جاتے ہیں۔
جوش کا پورا نام شبیر حسن خاں تھا۔تخلص جوش۔ جوش کی ولادت 5 دسمبر 1896 کو ملیح آباد (لکھنؤ) میں ہوئی۔ والد کا بشیر احمد خاں بشیر تھا۔ ابتدائی تعلیم مرزا ہادی رسوا، مولانا قدرت اللہ بیگ ملیح آبادی، مولوی نیاز علی خاں اور مولانا طاہر سے حاصل کی۔ جوش کو انگریزی کی تعلیم ماسٹر گومتی پرشاد ملیح آبادی نے دی۔ جوش کی بیوی کا نام اشرف جہاں بیگم تھا۔ ان پر جوش نے نظمیں بھی کہیں ہیں۔
جوش حصول ملازمت کی غرض سے اقبال، عبد الماجد دریابادی، اکبر الہٰ آبادی، سلیمان ندوی کے سفارشی خطوط کے ساتھ 1924 میں حیدر آباد گئے اور آئندہ برس 1925 میں دار الترجمہ حیدر آباد میں ناظر ادب کے عہدے پر فائز ہو گئے۔
جوش نے اپنی شاعری میں آزادی کا جذبہ دکھایا ہے۔ انہوں نے اپنے مضامین لکھ کر عوام میں جوش اور جذبہ پیدا کر دیا۔ جوش نے نو سال کی عمر میں شاعری شروع کی اور پہلا شعر کہا:-
شاعری کیوں نہ راس آئے مجھے
یہ میرا فن خاندانی ہے
جوش ایک ایسے شاعر ہیں جو نظم اور نثر دونوں میں درجہ کمال رکھتے ہیں۔ جوش نے دس سال تک میڈلیسن کی سبھی کتابوں کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیا۔ 1970 میں جوش کی خودنوشت سوانح “یادوں کی بارات” شائع ہوئی، جو پانچ ابواب میں منقسم ہے۔ 1954 میں جوش کو پدم بھوشن سے نوازا گیا۔جوش کو بہت سے القاب دیے گئے۔ جن میں “شاعر شباب” ، “مصور شباب” ، ” شاعر رومن” ، ” شاعر فطرت” ، ” شاعر انقلاب” وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
جوش ملیح آبادی کی مشہور نظمیں مندرجہ ذیل ہیں:-
کسان، جنگل کی شہزادی، شکست زنداں کا خواب، البیلی صبح، ذاکر سے خطاب، آدمی نامہ، جوانی کے دن، جوانی کی آمد، بدلی کا چاند، فریب ہستی، پنہ نامہ، ہم لوگ، جمال و جلال، برسات کی چاندنی، سہاگن بیوہ، گنگا کے گھاٹ پر، رقص، فاختہ کی آواز۔ وغیرہ۔
اعزازات:-
پدم بھوشن 1954
جوش ملیح آبادی کی تصانیف مندرجہ ذیل ہیں:-
روح ادب 1920، شاعر کی راتیں 1933، جنون و حکمت 1934 ، نقش و نگار 1936، شعلہ و شبنم 1936، فکر و نشاط 1937، حرف و حکایت 1938، آیات و نغمات 1941، عرش و فرش 1944، سنبل و سلاسل 1944، رامش و رنگ 1945، سیف و سبو 1947، سرود خروش 1953، سموم و سبو 1954، الہام و افکار 1967، نجوم جوہر 1967۔
نظم کسان
کسان
*نظم کسان مجموعہ”شعلہ و شبنم“ سے ماخوذ ہے۔
جھٹپٹے کا نرم رو دریا، شفق کا اضطراب
کھیتیاں، میدان، خاموشی، غروف آفتاب
دشت کے کام و دہن کو دِن کی تلخی سے فراغ
دورِ دریا کے کنارے، دھند لے دھندلے سے چراغ
زیر لب ارض و سما میں باہمی گفت و شنود
مشعل گردوں کے بجھ جانے سے اِک ہلکا سا دود
وسعتیں میدان کی سورج کے چھپ جانے سے تنگ
سبزہ افسردہ پر خواب آفریں ہلکا سا رنگ
خامشی، آور خامشی میں سنسناہٹ کی صدا
شام کی خُنکی سے گویا دن کی گرمی کا گِلا
اپنے دامن کو برابر قطع سا کرتا ہوا
تیرگی میں کھیتوں کے درمیان کا فاصِلا
خار و خس پر ایک درد انگیز افسانے کی شان
بامِ گردوں پر کسی کے روٹھ کر جانے کی شان
دوب کی خوشبومیں، شبنم کی نمی سے اِک سرور
چرخ پر بادل، زمیں پر تتلیاں،سر پر طیور
پارہ پارہ ابر، سرخی، سرخیوں میں کچھ دھواں
بھولی بھٹکی سی زمیں، کھویا ہوا سا آسماں
پتیاں مخمور، کلیاں آنکھ جھپکاتی ہوئی
نرم جاں پودوں کو گویا نیند سی آتی ہوئی
یہ سماں، آور اِک قوی اِنسان، یعنی کاشتکار
اِرتقا کا پیشوا، تہذیب کا پروردِگار
طفل باراں، تاجدار خاک، امیر بوستاں
ماہرِ آئینِ قدرت، ناظم بزم جہاں
ناظرِ گل، پاسبانِ رنگ و بو، گلشن پناہ
ناز پرور، لہلہاتی کھیتیوں کا بادشاہ
وارثِ اسرارِ فطرت، فاتح امید و بیم
محرمِ اسرارِ باراں، واقفِ طبع نسیم
صبح کا فرزند، خورشید زر افشاں کا علم
محنتِ پیہم کا پ’پیماں‘ سخت کوشی کی قسم
جلوہئ قدرت کا شاہد، حسن فطرت کا گواہ
ماہ کا دل، مہر عالمتاب کا نورِ نگاہ
قلب پر جس کے نمایاں نور و ظلمت کا نظام
منکشف جس کی فراست پر مزاج صبح و شام
خون ہے جس کی جوانی کا بہار روزگار
جس کے اشکوں پر فراغت کے تبسم کا مدار
جس کی محنت کا عرق تیار کرتا ہے شراب
اڑ کے جس کا رنگ بن جاتا ہے جاں پرور گلاب
قلب آہن جس کے نقش پا سے ہوتا ہے رقیق
شعلہ خو جھونکوں کا ہمدم، تیز کرنوں کا رفیق
خون جس کا بجلیوں کی انجمن میں باریاب
جس کے سر پر جگمگاتی ہے کُلاہ آفتاب
لہر کاکھاتا ہے رگِ خاشاک میں جس کا لہو
جس کے دل کی آنچ بن جاتی ہے سیل رنگ و بو
دوڑتی ہے رات کو، جس کی نظر افلاک پر
دِن کو جس کی اُنگلیاں رہتی ہیں نبضِ خاک پر
جس کی جاں کا ہی سے ٹپکاتی ہے امرت نبض تاک
جس کے دم سے لالہ و گل بن کے اِتراتی ہے خاک
سازِدولت کو عطا کرتی ہے نغمے، جس کی آہ
مانگتا ہے بھیک تابانی کی جس سے روے شاہ
خون جس کا دوڑتا ہے نبض استقلال میں
لوچ بھر دیتا ہے جو شہزادیوں کی چال میں
جس کے ماتھے کے پسینے سے، پے عز و وقار
کرتی ہے دریوزہئ تابش کُلاہ تاجدار
سر نگوں رہتی ہیں جس سے قوتیں تخریب کی
جس کے بوتے پر لچکتی ہے کمر تہذیب کی
جس کی محنت سے بھبکتا ہے رتن آسانی کا باغ
جس کی ظلمت کی ہتھیلی پر تمدن کا چراغ
جس کے بازو کی نزاکت پر صلابت کا مدار
جس کے کس بل پر اکڑتا ہے غرور شہریار
دھوپ کے جھلسے ہوئے رخ پر مشقت کے نشاں
کھیت سے پھیرے ہوئے منھ، گھر کی جانب ہے رواں
ٹوکرا سر پر، بغل میں پھاوڑا، تیوری پہ بل
سامنے بیلوں کی جوڑی، دوش پر مضبوط ہل
کون ہل؟ ظلمت شکن، قندیل بزم آب و گل
قصر گلشن کا دریچہ، سینہئ گیتی کا دل
خوشنما شہروں کا بانی، رازِ فطرت کا سراغ
خاندان تیغِ جوہر دار کا چشم و چراغ
دھار پر جس کی چمن پرور شگوفوں کا نظام
شام زیرِ ارض کو، صبح درخشاں کا پیام
جس کے چھو جاتے ہی مثلِ نازنین مہ جبیں
کروٹوں پر کروٹیں لیتی ہے لیلائے زمیں
پردہ ہائے خواب ہو جاتے ہیں جس سے چاک چاک
مسکرا کر اپنی چادر کو اُلٹ دیتی ہے خاک
جس کی تابش میں درخشانی ہلالِ عید کی
خاک کے مایوس مطلع پر کرن امید کی
ہل پہ دہقاں کے چمکتی ہیں شفق کی سرخیاں
اور دہقاں سر جھکائے گھر کی جانب ہے رواں
اس سیاسی رتھ کے پہیوں پر جمائے ہے نظر
جن میں آجاتی ہے تیزی، کھیتوں کو روند کر
اپنی دولت کو، جگر پر تیر غم کھاتے ہوئے
دیکھتا ہے ملک دشمن کی طرف جاتے ہوئے
قطع ہوتی ہی تاریکی حرماں سے راہ
فاقہ کش بچوں کے دھندلے آنسوؤں پر ہے نگاہ
پھر رہا ہے خوں چکاں آنکھوں کے نیچے باربار
گھر کی ناامیدی دیوی کا شباب سوگوار
سوچتا جاتا ہے، کن آنکھوں سے دیکھا جائے گا؟
بے رِوا بیوی کا سر، بچوں کا منھ اُترا ہوا
سیمِ و زر، نان و نمک، آب و غذا کچھ بھی نہیں
گھر میں اِک خاموش ماتم کے سوا، کچھ بھی نہیں
ایک دل، آور یہ ہجوم سو گواری، ہاے ہاے!
یہ ستم اے سنگ دل سرمایہ داری! ہائے ہائے!
تیری نظروں میں ہیں غلطاں وہ شقاوت کے شرار
جن کے آگے خنجر چنگیز کی مڑتی ہے دھار
بے کسوں کے خون میں ڈوبے ہوئے ہیں تیرے ہاتھ
کیا چباڈالے گی او کم بخت! ساری کائنات؟
ظلم اور اتنا! کوئی حد بھی ہے اس طوفان کی؟
بوٹیاں ہیں تیرے جبڑوں میں غریب انسان کی
دیکھ کر تیرے ستم، اے حامی امن و اماں!
گُرگ رہ جاتے ہیں دانتوں میں دبا کر انگلیاں
ادعاے پیرویِ دینِ و ایماں، اور تو
دیکھ اپنی کہنیاں، جن سے ٹپکتا ہے لہو
ہاں، سنبھل جا اب اب، کہ زہرے اہل دل کے آب ہیں
کتنے طوفاں تیری کشتی کے لیے بیتاب ہیں
جنگل کی شہزادی
جنگل کی شاہزادی(1922)
*یہ نظم جوش کے مجموعہ”نقش و نگار میں شامل ہے۔اس میں 8 بند ہیں
پیوست ہے جو دل میں، وہ تیر کھینچتا ہوں
اک ریل کے سفر کی تصویر کھینچتا ہوں
گاڑی میں گنگناتا مسرور جا رہا تھا
اجمیر کی طرف سے جے پور جارہا تھا
تیزی سے جنگلوں میں یوں ریل جا رہی تھی
لیلیٰ ستاراپنا گویا بجا رہی تھی
خورشید چھپ رہا تھا رنگیں پہاڑیوں میں
طاؤس پر سمیٹے بیٹھے تھے جھاڑیوں میں
کچھ دور پر تھا پانی، موجیں رُکی ہوئی تھیں
تالاب کے کنارے شاخیں جھکی ہوئی تھیں
لہروں میں کوئی جیسے دل کو ڈبو رہا تھا
موں سو رہا ہوں ایسا محسوس ہو رہاتھا
اک موجِ کیف پرور دل سے گزر رہی تھی
ہر چیز دلبری سے یوں رقص کر رہی تھی
تھیں رخصتی کرن سے سب وادیاں سنہری
ناگاہ چلتے چلتے جنگل میں ریل ٹھہری
کانٹوں پہ خوبصورت اک بانسری پڑی ہے
دیکھا کہ ایک لڑکی میدان میں کھڑی ہے
زاہد فریب، گل رخ، کافر دراز مژگان
سیمیں بدن، پری رُخ، نوخیز، حشر شاماں
خوش چشم، خوبصورت، خوش وضع، ماہ پیکر
نازک بدن، شکر لب، شیریں ادا فسوں گر
کافر ادا، شگفتہ گل پیرہن، سمن بو
سروِ چمن، سہی قد، رنگیں جمال خوش رو
گیسو کمند، مہوش، کافور فام قاتل
نظارہ سوز، دل کش، سر مست شمعِ محفل
ابر و ہلال، مے گوں، جان بخش، روح پرور
نسریں بدن، پری رخ سیمیں عذار دلبر
آہو نگاہ، نو رس، گلگوں، بہشت سیماں
یاقوت لب، صدف گول، شیریں بلند بالا
غارت گر تحمل، دل سوز، دشمنِ جاں
پروردہئ مناظر، دوشیزہئ بیاباں
گلشن فروغ، کمسن، مخمور، ماہ پارہ
دلبر کہ در کفِ او موم است سنگ خارا
ہر بات ایک افسوں، ہر سانس ایک جادو
قدسی فریب مژگاں، یزداں شکار گیسو
صحرا کی زیب و زینت، فطرت کی نوردیدہ
برسات کے ملائم تاروں کی آفریدہ
چہرے پہ رنگ نمکیں، آنکھوں میں بیقراری
ایمائے سینہ کوبی، فرمانِ بادہ خواری
لوہا تپانے والی جلووں کی ضوفشانی
سکے بٹھانیوالی اٹھتی ہوئی جوانی
ڈوبے ہوئے سب اعضا حسن مناسبت میں
پالی ہوئی گلوں کے آگوش تربیت میں
حسن ازل ہے غلطاں شاداب پنکھڑی میں
یا جان پڑگئی ہے جنگل کی تازگی میں
حوریں ہزار دل سے قربان ہو گئی ہیں
رنگینیاں سمٹ کر ’انسان‘ ہو گئی ہیں
چین ستم گری سے نا آشنا جبیں ہے
میں کون ہوں؟ یہ اسکو معلوم ہی نہیں ہے
ہر چیز پرنگاہیں حیرت سے ڈالتی ہے
رہ رہ کر اڑنے والی چادر سنبھالتی ہے
کچھ دیر تک تو میں نے اس کو بغور دیکھا
غش کھا رہی تھی عقبی چکرا رہی تھی دنیا
گاڑی سے پھراتر کر اس کے قریب آیا
طوفان بیخودی میں پھر یہ زباں سے نکلا
اے درسِ آدمیت، اے شاعری کی جنت
اے صانع ازل کی نازک ترین صنعت
اے روح صنف نازک، اے شمع بزم عالم
اے صبح روئے خنداں، اے شام زلف برہم
چشم و چراغِ صحرا، اے نور دشت وادی
رنگیں جمال دیوی، جنگل کی شاہزادی
بستی میں تو جو آئے اک حشر سا بپا ہو
آبادیوں میں ہلچل، شہروں میں غلغلہ ہو
زندان بادہ کش کے ہاتھوں سے جام چھوٹیں
تسبیح شیخ الجھے توبہ کے عزم ٹوٹیں
نظروں سے اتقا کے رسم و رواج اتریں
زہاد کے عمامے، شاہوں کے تاج اتریں
آنکھیں ہوں اشک افشاں، نالے شر فشاں ہوں
کیا کیا نہ شاعروں کے ملبوس دھجیاں ہوں
شہروں کے مہوشوں پر اک آسمان ٹوٹے
پروردہئ تمدن عشوؤں کی نبض چھوٹے
اس سادگی کے آگے نکلیں دلوں سے آہیں
جھک جائیں دلبروں کی خود ساختہ نگاہیں
تیری ادا کے آگے شرما کے منہ چھپائیں
ناپے ہوئے کرشمے، تولی ہوئی ادائیں
تیری نظر کی رو سے ہوجائیں خستہ و گم
مشق و مزا دلت کے پالے ہوئے تبسم
امن و اماں کے رخ کو بے آب و رنگ کر دے
دنیا کو حسن تیرا میدان جنگ کر دے
کتنی ہی قسمتوں کے بدلے فلک نوشتے
خون اور دوستی کے کٹ جائیں کتنے رشتے
تصنیف ہوں ہزاروں چھپتے ہوئے فسانے
ان انکھڑیوں کی زد پر کانپیں شراب خانے
تیرے پجاریوں میں میرا بھی نام ہوتا
اے کاش جنگلوں میں میرا قیام ہوتا
یہ بن، یہ گل، یہ چشمے، مجھ سے قریب ہوتے
شاعر کے زیر فرماں، یہ سب رقیب ہوتے
کیوں میری گفتگو سے حیرت فروش کیوں ہے؟
اے زمزموں کی دیوی اتنی خموش کیوں ہے
بجنے لگیں وفا کی محفل میں شادیانے
ہاں وے لبوں کو جنبش، اے سرمدی ترانے
یوں چپ ہے مجھ سے گویا کچھ کام ہی نہیں ہے
یہ وہ ادا ہے جس کا کچھ نام ہی نہیں ہے
سننا تھا یہ کہ ظالم اس طرح مسکرائی
فریاد کی نظر نے، ارماں نے دی دہائی
عشوہ جبیں یہ لے کر دل کی امنگ آیا
چہرے پہ خون دوڑا، آنکھوں میں رنگ آیا
شرما کے آنکھ اٹھائی زلفوں پہ ہاتھ پھیرا
اتنے میں رفتہ رفتہ چھانے لگا اندھیرا
چمکا دیا حیا نے ہر نقشِ دل بری کو
دانتوں میں یوں دبایا چاندی کی آرسی کو
سنکر مری مچلتی آنکھوں کی داستانیں
اس کی نگاہ میں بھی غلطاں ہوئیں زبانیں
شرما کے پھر دوبارہ زلفوں پہ ہاتھ پھیرا
دیکھا تو چھا چکا تھا میدان پر اندھیرا
کچھ جسم کو چرایا، کچھ سانس کو سنبھالا
کاندھے پہ نرم آنچل انگڑائی لے کے ڈالا
تاریک کرکے میری آنکھوں میں اک زمانہ
جنگل سے سر جھکا کر ہونے لگی روانہ
ہونے لگی روانہ ارماں نے سر جھکایا
دل کی مثال کانپا رہ رہ کے بن کا سایہ
بیہوش ہو چلا میں، سینے سے آہ نکلی
اتنے میں رات لے کر قندیل ماہ نکلی
مڑ کر جو میں نے دیکھا، امید مر چکی تھی
پٹری چمک رہی تھی، گاڑی گزر چکی تھی
شکستِ زنداں کا خواب
شکستِ زنداں کا خواب
*یہ نظم ”شعلہ و شبنم“ سے ماخوذ ہے۔
کیا ہند کا زنداں کانپ رہا ہے، گونج رہی ہیں تکبیریں
اکتائے ہیں شاید کچھ قیدی اور توڑ رہے ہیں زنجیریں
دیواروں کے نیچے آآکر یوں جمع ہوئے ہیں زِندانی
سینوں میں تلاطم بجلی کا، آنکھوں میں جھلکتی شمشیریں
بھوکوں کی نظر میں بجلی ہے، توپوں کے دہانے ٹھنڈے ہیں
تقدیر کے لب کو جنبش ہے، دم توڑ رہی ہیں تدبیریں
آنکھوں میں گدا کی سرخی ہے، بے نور ہے چہرہ سلطاں کا
تخریب نے پرچم کھولا ہے، سجدے میں پڑی ہیں تعمیریں
کیا ان کو خبر تھی؟ زیر و زبر رکھتے تھے جو روح ملت کو
ابلیں گے زمیں سے مارِ سیہ، برسیں گی فلک سے شمشیریں
کیا ان کو خبر تھی؟ سینوں سے جو خون چرایا کرتے تھے
اک روز اسی بے رنگی سے جھلکیں گی ہزاروں تصویریں
کیا ان کو خبر تھی؟ ہونٹوں پر جو قفل لگایا کرتے تھے
اک روز اسی خاموشی سے ٹپکیں گی دہکتی تقریریں
سنبھلو! کہ وہ زنداں گونج اٹھا، چھپٹو، کہ وہ قیدی چھوٹ گئے
اٹھو، کہ وہ بیٹھیں دیواریں، دوڑو! کہ وہ ٹوٹیں زنجیریں
میراجی
کلرک کا نغمۂ محبت
کلرک کا نغمۂ محبت(1941 )
سب رات مِری سپنوں میں گزر جاتی ہے اور میں سوتا ہوں
پھر صبح کی دیوی آتی ہے،
اپنے بستر سے اٹھتا ہوں ، منہ دھوتا ہوں،
لایا تھا کل جو ڈبل روٹی
اس میں سے آدھی کھائی تھی
باقی جو بچی وہ میرا آج کا ناشتہ ہے!
دنیا کے رنگ انوکھے ہیں
جو میرے سامنے رہتا ہے اس کے گھر میں گھر والی ہے،
اور دائیں پہلو میں اک منزل کا ہے مکاں ، وہ خالی ہے،
اور بائیں جانب اک عیّاش ہے جس کے ہاں اک داشتہ ہے،
اور ان سب میں اک میں بھی ہوں لیکن بس تو ہی نہیں،
ہیں اور تو سب آدم مجھے ، اک گیسوؤں کی خوشبو ہی نہیں،
فارغ ہوتا ہوں ناشتے سے اور اپنے گھر سے نکلتا ہوں
دفتر کی راہ پر چلتا ہوں،
رستے میں شہر کی رونق ہے، ایک تانگہ ہے ، دو کاریںہیں،
بچے مکتب کو جاتے ہیں اور تانگوں کی کیا بات کہوں
کاریں جو چھچھلتی بجلی ہیں، تانگوں کے تیروں کو کیسے سہوں!
یہ مانا ان میں شریفوں کے گھر کی دھن دولت ہے، مایا ہے،
کچھ شوخ بھی ہیں، معصوم بھی ہیں،
لیکن رستے پر پیدل مجھ سے بد قسمت ، مغموم بھی ہیں،
تانگوں پر برقِ تبسم ہے،
باتوں کا میٹھا ترنّم ہے،
اکساتا ہے دھیان یہ رہ رہ کر ، قدرت کے دل میں ترحم ہے ؟
ہر چیز تو ہے موجود یہاں اک تو ہی نہیں، اک تو ہی نہیں،
اور میری آنکھوں میں رونے کی ہمت ہی نہیں، آنسو ہی نہیں!
جو توں رستہ کٹ جاتا ہے اور بندی خانہ آتا ہے،
چل کام میں اپنے دل کو لگا یوں کوئی مجھے سمجھاتا ہے،
میں دھیرے دھیرے دفتر میں اپنے دل کو لے جاتا ہوں،
نادان ہے دل مورکھ بچہ، اک اور طرح دے جاتا ہوں،
پھر کام کا دریا بہتا ہے اور ہوش مجھے کب رہتا ہے،
جب آدھا دن ڈھل جاتا ہے تو گھر سے افسر آتا ہے
اور اپنے کمرے میں مجھ کو چپراسی سے بُلواتا ہے
یوں کہتا ہے، دُوں کہتا ہے لیکن بے کار ہی رہتا ہے۔
میں اس کی ایسی باتوں سے تھک جاتا ہوں، تھک جاتا ہوں،
پل بھر کے لئے اپنے کمرے کو فائل لینے آتا ہوں،
اور دل میں آگ سلگتی ہے ، میں بھی جو کوئی افسر ہوتا
اس شہر کی دھول اور گلیوں سے کچھ دور مِرا پھر گھر ہوتا۔
اور تو ہوتی!
لیکن میں تو اک منشی ہوں تو اونچے گھر کی رانی ہے
یہ میری پریم کہانی ہے اور دھرتی سے بھی پرانی ہے!
جاتری
جاتری(1941 )
ایک آیا گیا، دوسرا آئے گا، دیر سے دیکھتا ہوں ، یوں ہی رات اس کی گزر جائے گی ۔ میں کھڑا ہوں یہاں کس لیے مجھ کو کیا کام ہے، یاد آتا نہیں، یاد بھی ٹمٹماتا ہوا ایک دیا بن گئی ، جس کی رُکتی ہوئی اور جھجکتی ہوئی ہر کرن بے صدا قہقہہ ہے مگر میرے کانوں نے کیسے اُسے سن لیا۔ ایک آندھی چلی، چل کے مٹ بھی گئی ، آج تک میرے کانوں میں موجود ہے ، سائیں سائیں مچلتی ہوئی اور ابلتی ہوئی، پھیلتی پھیلتی، دیر سے میں کھڑا ہوں یہاں، ایک آیا ، گیا ، دوسرا آئے گا، رات اس کی گزر جائے گی، ایک ہنگامہ برپا ہے دیکھیں جدھر، آرہے ہیں کئی لوگ چلتے ہوئے اور ٹہلتے ہوئے اور رُکتے ہوئے پھر سے بڑھتے ہوئے اور لپکتے ہوئے ، آرہے جارہے ہیں اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے ادھر۔ جیسے دل میں میرے دھیان کی لہر سے ایک طوفان ہے ویسے آنکھیں مری دیکھتی ہی چلی جا رہی ہیں کہ اک ٹمٹماتے دیے کی کرن زندگی کو پھسلتے ہوئے اور گرتے ہوئے ڈھب سے ظاہر کئے جارہی ہے، مجھے دھیان آتا ہے اب تیرگی اک اجالا بنی ہے، مگر اس اُجالے سے رِستی چلی جا رہی ہیں دوا امرت کی بوندیں جنھیں میں ہتھیلی پہ اپنی سنبھالے رہا ہوں، ہتھیلی مگر ٹمٹماتا ہوا اک دیا بن گئی تھی، لپک سے اجالا ہوا ، لَو گری ، پھر اندھیرا سا چھانے لگا ، بیٹھتا بیٹھتا بیٹھ کر ایک ہی پل میں اٹھتا ہوا، جیسے آندھی کے تیکھے تھپیڑوں سے دروازے کے طاق کھُلتے رہیں بند ہوتے رہیں، پھر پھڑاتے ہوئے طائرِ زخم خوردہ کی مانند میں دیکھتا ہی رہا ایک آیا، گیا، دوسرا آئے گا، سوچ آئی مجھے، پاؤں بڑھنے سے انکار کرتے گئے، میں کھڑا ہی رہا، دل میں اِک بوند نے یہ کہا رات یونہی گزر جائے گی، دل کی اک بوند کو آنکھ میں لے کے میں دیکھتا ہی رہا، پھڑپھڑاتے ہوئے طائرِ زخم خوردہ کی مانند دروازے کے طاق اک بار جب مل گئے، مجھ کو آہستہ آہستہ احساس ہونے لگے۔ اب یہ زخمی پرندہ نہ تڑپے گا لیکن مرے دل کو ہر وقت تڑپائے گا میں، ہتھیلی پہ اپنی سنبھالے رہوں گا وہ امرت کی بوندیں جنہیں آنکھ سے میری رِسنا تھا، لیکن مِری زندگی ٹمٹماتا ہوا اک دیا بن گئی جس کی رُکتی ہوئی اور جھجکتی ہوئی ہر کرن بے صدا قہقہہ ہے کہ اس تیرگی میں کوئی بات ایسی نہیں ، جس کو پہلے اندھرے میں دیکھا ہو میں نے، سفر یہ اُجالے، اندھیرے کا تو چلتا رہا ہے تو چلتا رہے گا، یہی رسم ہے راہ کی ایک آیا ، گیا، دوسرا آئے گا، رات ایسے گزر جائے گی، ٹمٹماتے ستارے بتاتے تھے، رستے کی ندی بہے جارہی ہے، بہے جا، اس اُلجھن سے ایسے نکل جا، کوئی سیدھا منزل پہ جاتا تھا لیکن کئی قافلے بھول جاتے تھے انجم کے دورِ یگانہ کے مبہم اشارے ، مگر وہ بھی چلتے ہوئے اور بڑھتے ہوئے شام سے پہلے ہی دیکھ لیتے تھے مقصود کا بند دروازہ کھلنے لگا ہے، مگر میں کھڑا ہوں یہاں مجھ کو کیا کام ہے ، میرا دروازہ کھلتا نہیں ہے، مجھے پھیلے صحرا کی سوئی ہوئی ریگ کا ذرہ ذرہ یہی کہہ رہاہے کہ ایسے خرابے میں سوکھی ہتھیلی ہے اک ایسا تلوا ہے کہ جس کو کسی خار کی نوک چبھنے پہ بھی کہہ نہیں سکتی مجھ کو کوئی بوند اپنے لہو کی پلا دو، مگر میں کھڑا ہوں یہاں کس لئے؟
لاکھوں بگولوں میں مل کر یونہی چلتے چلتے کہیں ڈوب جاتا کہ جیسے یہاںبہتی لہروں میں کشتی ہر ایک موج کو تھام لیتی ہے ، اپنی ہتھیلی کے پھیلے کنول میں، مجھے دھیان آتا نہیں ہے کہ اس راہ میں تو ہر اک جانے والے کے بس میں ہے منزل ، میں چل دوں چلوں، آئیے آئیے، آپ کیوں ا س جگہ ایسے چپ چاپ، تنہا کھڑے ہیں، اگر آپ کہئے تو ہم اک اچھوتی سی ٹہنی سے دو پھول، بس بس، مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے، میں اِک دوست کا راستہ دیکھتا ہوں، مگر وہ چلا بھی گیا ہے مجھے پھر بھی تسکین آتی نہیں ہے کہ میں ایک صـحرا کا باشندہ معلوم ہونے لگا ہوں خود اپنی نظر میں ، مجھے اب کوئی بنددروازہ کھلتانظر آئے، یہ بات ممکن نہیں ہے، میںاک اور آندھی کا مشتاق ہوں جو مجھے اپنے پردے میں یکسر چھُپالے، مجھے اب یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ سہانا سماں جتنا بس میں تھا میرے وہ سب ایک بہتا سا جھونکا بنا ہے جسے ہاتھ میرے نہیں روک سکتے کہ میری ہتھیلی میں امرت کی بوندیں تو باقی نہیں ہیں، فقط ایک پھیلا ہوا، خشک، بے برگ، بے رنگ صحرا ہے جس میں یہ ممکن نہیں میں کہوں۔ ایک آیا ، گیا ، دوسرا آئے گا، رات میری گزر جائے گی۔
سمندر کا بلاوا
سمندر کا بلاوا
¦یہ نظم مجموعہ ’’تین رنگ‘‘ سے ماخوذ ہے۔
یہ سرگوشیاں کہہ رہی ہیں اب آؤ
کہ برسوں سے تم کو بلاتے بلاتے
مرے دل پر گہری تھکن چھا رہی ہے
کبھی ایک پل کو کبھی ایک عرصہ صدائیں سنی ہیں
مگر یہ انوکھی ندا آرہی ہے
بلاتے بلاتے تو کوئی نہ اب تک تھکا ہے نہ آئندہ شاید تھکے گا
’’میرے پیارے بچے‘‘۔ مجھے تم سے کتنی محبت ہے، دیکھو اگر
یوں کیا تو
بُرا مجھ سے بڑھ کر نہ کوئی بھی ہوگا۔ ’’خدایا، خدایا!‘‘
کبھی ایک سسکی، کبھی اک تبسم ، کبھی صرف تیوری
مگر یہ صدائیں تو آتی رہی ہیں۔
انہی سے حیاتِ دوروزہ ابد سے ملی ہے
مگر یہ انوکھی ندا جس پہ گہری تھکن چھا رہی ہے
یہ ہر اک صدا کو مٹانے کی دھمکی دیے جا رہی ہے
اب آنکھوںمیں جنبش نہ چہرے پر کوئی تبسم نہ تیوری
فقط کان سنتے چلے جار ہے ہیں
یہ گلستان ہے ہوا لہلہاتی ہے، کلیاں چٹکتی ہیں
غنچے مہکتے ہیں اور پھول کھلتے ہیں، کھل کھل کے مرجھا کے
گرتے ہیں ایک فرش مخمل بناتے ہیں جس پر
مری آرزوؤں کی پریاں عجب آن سے یوں رواں ہیں
کہ جیسے گلستاں ہی اک آئینہ ہے،
اسی آئینے سے ہر اک شکل نکھری ، سنور کر مٹی اور مٹ ہی گئی پھر نہ ابھری
یہ پربت ہے۔ خاموش ،ساکن،
کبھی کوئی چشمہ اُبلتے ہوئے پوچھتا ہے کہ اس کی چٹانوں کے اس پار کیا ہے؟
مگر مجھ کو پربت کا دامن ہی کافی ہے، دامن میں وادی ہے، وادی میں ندی
ہے ، ندی میں بہتی ہوئی ناؤ ہی آئینہ ہے،
اسی آئینے میں ہر اک شکل نکھری، مگر ایک پل میں جو مٹنے لگی ہے تو
پھر نہ اُبھری
یہ صحرا ہے ۔ پھیلا ہوا، خشک ، بے برگ صحرا
بگولے یہاں تُند بھوتوں کا عکسِ مجسم بنے ہیں
مگر میں تو دور ۔ ایک پیڑوں کے جھرمٹ پہ اپنی نگاہیں جمائے ہوئے ہوں
نہ اب کوئی صحرا، نہ پربت، نہ کوئی گلستاں
اب آنکھوں میں جنبش نہ چہرے پہ کوئی تبسم نہ تیوری
فقط ایک انوکھی صدا کہہ رہی ہے کہ تم کو بلاتے بلاتے مرے دل پہ
گہری تھکن چھا رہی ہے،
بلاتے بلاتے تو کوئی نہ اب تک تھکا ہے نہ شاید تھکے گا
تو پھر یہ ندا آئینہ ہے، فقط میں تھکا ہوں
نہ صحرا نہ پربت ، نہ کوئی گلستاں ، فقط اب سمندر بلاتا ہے مجھ کو
کہ ہر شے سمندر سے آئی ، سمندر میں جاکر ملے گی۔
فیض احمد فیضؔ
تنہائی
تنہائی
یہ نظم ’نقش فریادی‘ سے ماخوذ ہے۔
پھر کوئی آیا دل زار! نہیں ، کوئی نہیں
راہ رو ہوگا، کہیں اور چلا جائے گا
ڈھل چکی رات ، بکھرنے لگا تاروں کا غُبار
لڑکھرانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ
سو گئی راستہ تک تک کے ہر اک راہ گزار
اجنبی خاک نے دھندلادیے قدموں کے سراغ
گل کرو شمعیں ، بڑھا دو مَے و مینا و ایاغ!
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو!
اب یہاں کوئی نہیں ، کوئی نہیں آئے گا
صبح آزادی
صبح آزادی(اگست1947 )
یہ نظم ’دست صبا‘ سے ماخوذ ہے۔
یہ داغ داغ اُجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا ، یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں ، جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار ، کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
کہیں تو ہوگا شبِ سست موج کا ساحل
کہیں تو جا کے رُکے گا سفینۂ غمِ دل
جواں لہو کی پُر اسرار شاہراہوں سے
چلے جو یار ، تو دامن پہ کتنے ہاتھ پڑے؟
دیارِ حسن کی بے صبر خواب گاہوں سے
پُکارتی رہیں بانہیں، بدن بُلاتے رہے
بہت عزیز تھی لیکن رُخِ سحر کی لگن
بہت قریں تھا حسینانِ نور کا دامن
سُبک سُبک تھی تمنا، دبی دبی تھی تھکن
سُنا ہے ، ہو بھی چُکا ہے فراق ظلمت و نور
سنا ہے ، ہو بھی چکا ہے وصالِ منزل وگام
بدل چکا ہے بہت اہل دور کا دستور
نشاطِ وصل حلال و عذاب ہجر حرام
جگر کی آگ ، نظر کی امنگ ، دِ ل کی جلن
کسی پہ چارۂ ہجراں کا کچھ اثر ہی نہیں
کہاں سے آئی نگار صبا کدھر کو گئی
ابھی چراغِ سرِ راہ کو کچھ خبر ہی نہیں
ابھی گرانیِ شب میں کمی نہیں آئی
نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
مجھ سے پہلی سی محبت
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب ! نہ مانگ
یہ نظم ’نقش فریادی ‘سے لی گئی ہے۔*
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب ! نہ مانگ
میں نے سمجھا کہ جو تو ہے ، تو درخشاں ہے حیات
تیرا غم ہے ، تو غمِ دہر کا جھگرا کیا ہے؟
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کی ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے؟
تو جو مل جائے، تو تقدیر نگوں ہو جائے
یوں نہ تھا ، میں نے فقط چاہا تھا ، یوں ہو جائے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
ان گِنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم
ریشم و اطلس و کمخواب میں بُنواے ہوئیں
جابہ جا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے، خون میں نہلائے ہوئے
جسم نکلے ہوئے امراض کے تنّوروں سے
پیپ بہتی ہوئی گلتے ہوئے ناسوروں سے
لَوٹ جاتی ہے اُدھر کو بھی نظر، کیا کیجیے؟
اب بھی دلکش ہے ترا حسن ، مگر کیا کیجئے؟
اور بھی دُکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں، وصل کی راحت کے سوا
مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ
اختر الایمان
ایک لڑکا
ایک لڑکا
یہ نظم ’یادیں‘ سے ماخوذ ہے۔
دیارِ شرق کی آبادیوں کے اونچے ٹیلوں پر
کبھی آموں کے باغوں میں ، کبھی کھیتوں کی مینڈوں پر
کبھی جھیلوں کے پانی میں ، کبھی بستی کی گلیوں میں
کبھی کچھ نیم عریاں کم سِنوں کی رنگ رلیوں میں
سحر دم ، جھٹپٹے کے وقت ، راتوں کے اندھیرے میں
کبھی میلوں میں ، ناٹک ٹولیوں میں ، ان کے ڈیرے میں
تعاقب میں کبھی گُم، تتلیوں کے ، سونی راہوں میں
کبھی ننّھے پرندوں کی نہفتہ خواب گاہوں میں
برہنہ پاؤں ، جلتی ریت، یخ بستہ ہواؤں میں
گریزاں بستیوں سے ، مدرسوں سے، خانقاہوں میں
کبھی ہم سِن حسینوں میں بہت خوش کام و دل رفتہ
کبھی پیچاں بگولہ ساں، کبھی جیوں چشمِ خوں بستہ
ہوا میں تیرتا، خوابوں میں بادل کی طرح اڑتا
پرندوں کی طرح شاخوں میں چھپ کر جھولتا، مُڑتا
مجھے اک لڑکا، آوارہ منش، آزاد سیلانی
مجھے اک لڑکا، جیسے تُند چشموں کا، رواں پانی
نظر آتا ہے ، یوں لگتا ہے ، جیسے یہ بلائے جاں
مرا ہمزاد ہے، ہر گام پر، ہر موڑ پر جولاں
اسے ہمراہ پاتا ہوں، یہ سائے کی طرح میرا
تعاقب کر رہا ہے، جیسے میں مفرور ملزم ہوں
یہ مجھ سے پوچھتا ہے اخترالایمان تم ہی ہو؟
خدائے عزّ و جل کی نعمتوں کا معترف ہوں میں
مجھے اقرار ہے اس نے زمیں کو ایسے پھیلایا
کہ جیسے بستر کم خواب ہو، دیبا و مخمل ہو
مجھے اقرار ہے یہ خیمۂ افلاک کا سایہ
اسی کی بخششیں ہیں، اس نے سورج چاند تاروں کو
فضاؤں میں سنوارا، اک حد فاصل مقرر کی
چٹانیں چیر کر دریا نکالے خاکِ اسفل سے
مری تخلیق کی مجھ کو جہاں کی پاسبانی دی
سمندر موتیوں مونگوںسے ، کانیں لعل و گوہر سے
ہوائیں مست کُن خوشبوؤں سے معمور کر دی ہیں
وہ حاکمِ قادرِ مطلق ہے، یکتا اور دانا ہے
اندھیرے کو اجالے سے جدا کرتا ہے ، خود کو میں
اگر پہچانتا ہوں اس کی رحمت اور سخاوت ہے!
اسی نے خسروی دی ہے، لئیموں کو مجھے نکبت
اسی نے یاوہ گویوں کو مرا خازن بنایا ہے
تونگر ہرزہ کاروں کو کیا دریوزہ گر مجھ کو
مگر جب جب کسی کے سامنے دامن پسارا ہے
یہ لڑکا پوچھتا ہے اخترالایمان تم ہی ہو؟
معیشت دوسروں کے ہاتھ میں ہے میرے قبضہ میں
جز اک ذہنِ رسا کچھ بھی نہیں، پھر بھی مگرمجھ کو
خروش عمر کے اتمام تک اک بار اُٹھانا ہے
عناصر منتشر ہو جانے ، نبضیں ڈوب جانے تک
نوائے صبح ہو یا نالۂ شب کچھ بھی گانا ہے
ظفر مندوں کے آگے رزق کی تحصیل کی خاطر
کبھی اپنا ہی نغمہ ان کا کہہ کر مسکراناہے
وہ خامہ سوزی شب بیداریوں کا جو نتیجہ ہو
اسے اک کھوٹے سکے کی طرح سب کو دکھانا ہے
کبھی جب سوچتا ہوں اپنے بارے میں تو کہتا ہوں
کہ تُو اک آبلہ ہے جس کو آخر پھوٹ جانا ہے
غرض گرداں ہوں بادِ صبح گاہی کی طرح، لیکن
سحر کی آرزو میں شب کا دامن تھامتا ہوں جب
یہ لڑکا پوچھتا ہے اخترالایمان تم ہی ہو؟
یہ لڑکا پوچھتا ہے جب تو میں جھلّا کے کہتا ہوں
وہ آشفتہ مزاج ، اندوہ پرور، اضطراب آسا
جسے تم پوچھتے رہتے ہو کب کا مر چکا ظالم
اسے خود اپنے ہاتھوں سے کفن دے کر فریبوں کا
اس کی آرزوؤں کی لحد میں پھینک آیا ہوں!
میں اس لڑکے سے کہتا ہوں وہ شعلہ مر چکا جس نے
کبھی چاہا تھا اک خاشاکِ عالم پھونک ڈالے گا
یہ لڑکا مسکراتا ہے، یہ آہستہ سے کہتا ہے
یہ کذب و افترا ہے، جھوٹ ہے، دیکھو میں زندہ ہوں!
پگڈنڈی
پگڈنڈی
یہ نظم ’یادیں ‘ سے ماخوذ ہے۔
ایک حسینہ در ماندہ سی، بے بس ، تنہا دیکھ رہی ہے
جیسے یونہی بڑھتے بڑھتے رنگِ افق پر جا جھُولے گی
جیسے یونہی افتاں خیزاں جا کر تاروں کو چھوُلے گی
راہ کے پیچ و خم میں کوئی راہی الجھا، دیکھ رہی ہے
انگڑائی لیتی بَل کھاتی ، ویرانوں سے آبادی سے
ٹکراتی ، کتراتی، مڑتی، خشکی پر گرداب بناتی
اٹھلاتی، شرماتی، ڈرتی، مستقبل، کے خواب دکھاتی
سایوں میں سستاتی مڑتی، بڑھ جاتی ہے آزادی سے
راہی کی آنکھوں میں ڈھلتی، گرتی اور سنبھل جاتی ہے
ٹھنڈی چھاؤں میں تاروں کی سیمیں خواب کا دھارا بُنتی
دن کی روشن قندیلوں میں میداں میں آوار بَنتی
ندیوں سے چشموں سے مِلتی کوسوں دُور نکل جاتی ہے
پھولوں کے اجسام کچلتی ذروں کے فانوس جگاتی
درماندہ اشجار کے نیچے شاخوں کا واویلا سنتی
ہر نو وارد کے رستے میں نادیدہ اک جال سا بنتی
بڑھ جاتی ہے ’’منزل‘‘ کہہ کر کلیاں زیرِ خاک سلاتی!
غم دیدہ پسماندہ راہی تاریکی میں کھو جاتے ہیں
پاؤں راہ کے رخساروں پر دھندلے نقش بنا دیتے ہیں
آنے والے اور مسافر پہلے نقش مٹا دیتے ہیں
وقت کی گرد میں دبتے دبتے ایک فسانہ ہو جاتے ہیں
راہ کے پیچ و خم میں اپنا دامن کوئی کھینچ رہا ہے
فردا کا پُر پیچ دھندلکا ماضی کی گھنگھور سیاہی
یہ خاموشی ، یہ سنّاٹا اس پر اپنی کور نگاہی
ایک سفر ہے تنہا راہی ، جو سہنا تھا خوب سہا ہے
ایک حسینہ درماندہ سی بے بس تنہا دیکھ رہی ہے
جیون کی پگڈنڈی یونہی تاریکی میں بَل کھاتی ہے
کون ستارے چھو سکتا ہے راہ میں سانس اکھڑ جاتی ہے
راہ کے پیچ و خم میں کوئی راہی اُلجھا دیکھ رہی ہے
۔
یہ سورج یہ چاند ستارے راہیں روشن کر سکتے ہیں؟
تاریکی آغازِ سحر ہے، تاریکی انجام نہیں ہے؟
آنے والوں کی راہوں میں کوئی نور آشام نہیں؟
ہم سے اتنا بَن پڑتا ہے جی سکتے ہیں مر سکتے ہیں!
باز آمد - ایک مُنتاج
باز آمد – ایک مُنتاج
تتلیاں ناچتی ہیں
پھول سے پھول پہ یوں جاتی ہیں
جیسے اک بات ہو جو
کان میں کہنی ہو خاموشی سے
اور ہر پھول ہنسا پڑتاہے سُن کر یہ بات
دھوپ میں تیزی نہیں
ایسے آتا ہے ہر اک جھونکا ہوا کا جیسے
دستِ شفقت ہو بڑی عمر کی محبوبہ کا
اور مرے شانوں کو اس طرح بلا جاتا ہے
جیسے میں نیند میں ہوں
عورتیں چرخے لیے بیٹھی ہیں
کچھ کپاس اوٹتی ہیں
کچھ سلائی کے کسی کام میں مصروف ہیں یون
جیسے یہ کام ہے دراصل ہر اک شے کی اساس
ایک سے ایک چہل کرتی ہے
کوئی کہتی ہے مری چوڑیاں کھنکیں تو کھنکھاری مری ساس
کوئی کہتی ہے بھری چاندنی آتی نہیں راس
رات کی بات سناتی ہے کوئی ہنس ہنس کر
بات کی بات سناتی ہے کوئی ہنس ہنس کر
لذّت وصل ہے آزار ، کوئی کہتی ہے
میں تو بن جاتی ہوںبیمار، کوئی کہتی ہے
میں بھی گھُسا آتا ہوں اس شیش محل میں ، دیکھو
سب ہنسی روک کے کہتی ہیں نکالو اس کو
اک پرندہ کسی اک پیڑ کی ٹہنی پہ چہکتا ہے کہیں
ایک گاتا ہوا یوں جاتا ہے دھرتی سے فلک کی جانب
پوری قوت سے کوئی گیند اچھالے جیسے
اک پھدکتا ہے ہر ایک شاخ پہ جس طرح کوئی
آمدِ فصلِ بہاری کی خوشی میں ناچے
گوندنی بوجھ سے اپنے ہی جھکی پڑتی ہے
نازنیں جیسے ہے کوئی یہ بھری محفل میں
اور گل ہوئے ہیں پہلے
کوئلیں کوکتی ہیں
جامنیں پکّی ہیں ، باغوں پہ بہار آئی ہے
ارغنوں بجتا ہے یکجائی کا
نیم کے پیڑوں میں جھولے ہیں جدھر دیکھو ادھر
ساونی گاتی ہیں سب لڑکیاں آواز ملاکر ہر سُو
اور اس آواز سے گونج اٹھتی ہے بستی ساری
میں کبھی ایک کبھی دوسرے جھولے کے قریں جاتا ہوں
ایک ہی کم ہے ، وہی چہرہ نہیں
آخرش پوچھ ہی لیتا ہوں کسی سے بڑھ کر
کیوں حبیبہ نہیں آئی اب تک؟
کھلکھلاپڑتی ہیں سب لڑکیاں سن کر یہ نام
لو یہ سپنے میں ہیں ، اک کہتی ہے
باؤلی سپنا نہیں، شہر سے آئے ہیں ابھی
دوسری ٹوکتی ہے
بات سے بات نکل چلتی ہے
ٹھاٹ سے آئی تھی بارات، چنبیلی نے کہا
بینڈ باجا بھی تھا، دیبا نے کہا
اور دلہن پہ ہوا کتنا بکھیر
کچھ نہ کچھ کہتی رہیں سب ہی مگر میں نے صرف
اتنا پوچھا وہ ندی بہتی ہے اب بھی، کہ نہیں
جس سے وابستہ ہیں ہم اور یہ بستی ساری؟
کیوں نہیں بہتی، چنبیلی نے کہا
اور وہ برگد کا گھنا پیڑ کنارے اس کے؟
وہ بھی قائم ہے ابھی تک یوںہی
وعدہ کرکے جو حبیبہؔ نہیں آتی تھی کبھی
آنکھیں دھوتا تھا ندی میں جاکر
اور برگد کی گھنی چھاؤں میں سو جاتا تھا
ماہ و سال آتے، چلے جاتے ہیں
فصل پک جاتی ہے، کٹ جاتی ہے
کوئی روتا نہیں اس موقع پر
حلقہ در حلقہ نہ آہن کو تپا کر ڈھالیں
کوئی زنجیر نہ ہو !
زیست در زیست کا یہ سلسلہ باقی نہ رہے!
بھیڑ ہے بچوں کی چھوٹی سی گلی میں دیکھو
ایک نے گیند جو پھینکی تولگی آکے مجھے
میں نے جا پکڑا اسے ، دیکھی ہوئی صورت تھی
کس کا ہے ، میں نے کسی سے پوچھا؟
یہ حبیبہؔ کا ہے، رمضانی قصائی بولا
بھولی صورت پہ ہنسی آ گئی اس کی مجھ کو
وہ بھی ہنسنے لگا، ہم دونوں یونہی ہنستے رہے!
دیر تک ہنستے رہے!
تتلیاں ناچتی ہیں
پھول سے پھول پہ یوں جاتی ہیں
جیسے اک بات ہو جو
کان میں کہنی ہے خاموشی سے
اور ہر پھول ہنسا پڑتا ہے سن کر یہ بات!
مخدوم محی الدین
چاند تاروں کا بن
چاند تاروں کا بن
موم کی طرح جلتے رہے ہم شہیدوں کے تن
رات بھر جھلملاتی رہی شمع صبح وطن
رات بھر جگمگاتا رہا چاند تاروں کا بن
تشنگی تھی مگر
تشنگی میںبھی سرشار تھے
پیاسی آنکھوں کے خالی کٹورے لیے
منتظر مرد و زن
مستیاں ختم ، مد ہوشیاں ختم تھیں، ختم تھا بانکپن
رات کے جگمگاتے دہکتے بدن
صبح دم ایک دیوار غم بن گئے
خار زار الم بن گئے
رات کی شہ رگوں کا اچھلتا لہو
جوئے خوں بن گیا
کچھ امامان صد مکر و فن
ان کی سانوں میں افعی کی پھنکار تھی
ان کے سینے میں نفرت کا کالا دھواں
اک کمیں گاہ سے
پھینک کر اپنی نوک زباں
خون نور سحر پی گئے
رات کی تلچھٹیں ہیں اندھیرا بھی ہے
صبح کا کچھ اجالا بھی ہے
ہمدمو!
ہاتھ میں ہاتھ دو
سوئے منزل چلو
منزلیں پیار کی
منزلیں دار کی
کوئے دل دار کی منزلیں
دوش پر اپنی اپنی صلیبیں اٹھائے چلو
حویلی
حویلی
یہ نظم ’’سرخ سویرا‘‘ سے ماخوذ ہے۔
ایک بوسیدہ حویلی یعنی فرسودہ سماج
لے رہی ہے نزع کے عالم میں مردوں سے خراج
اک مسلسل کرب میں ڈوبے ہوئے سب بام و در
جس طرف دیکھو اندھیرا جس طرف دیکھو کھنڈر
مارو کژ دم کا ٹھکانہ جس کی دیواروں کے چاک
اف یہ رخنے کس قدر تاریک کتنے ہولناک
جن میں رہتے ہیں مہاجن جن میں رہتے ہیں امیر
جن میں کاشی کے برہمن جن میں کعبہ کے فقیر
جس جگہ کٹتا ہے سر انصاف کا ایمان کا
روز و شب نیلام ہوتا ہے جہاں کے انسان کا
زیست کو دراصل اجل دیتی ہے جس کی بارگاہ
قہقہہ بن کر نکلتی ہے جہاں ہر ایک آہ
سیم و زر کا دیوتا جس جگہ کبھی سوتا نہیں
زندگی کا بھول کر جس جا گزر ہوتا نہیں
ہنس رہا ہے زندگی پر اس طرح ماضی کا حال
خندہ زن ہو جس طرح عصمت پہ قحبہ کا جمال
ایک جانب ہیں وہیں ان بے نواؤں کے گروہ
ہاں انہیں بے نان و بے پوشش گداؤ کے گروہ
جن کے دل کچلے ہوئے جن کی تمنا پائمال
جھانکتا ہے جن کی آنکھوں سے جہنم کا جلال
اے خدائے دو جہاں اے وہ جوہر ایک دل میں ہے
دیکھ تیرے ہاتھ کا شاہکار کس منزل میں ہے
جانتا ہوں موت کا ہمساز وہمدم کون ہے
کون ہے پروردگار بزم ماتم کون ہے
کوڑھ کے دھبے چھپا سکتا نہیں ملبوس دیں
بھوک کے شعلے بجھا سکتا نہیں روح الامیں
یہ جواں سال جہاں جان جہانِ زندگی
ساربانِ زندگی روح روانِ زندگی
جس کے خونِ گرم سے بزم چراغاں زندگی
جس کے فردوسی تنفس سے گلستاں زندگی
بجلیاں جس کی کنیزیں زلزلے جس کے سفیر
جس کا دل خیبر شکن جس کی نظر ارجن کا تیر
ہاں وہ نغمہ چھیڑ جس سے مسکرائے زندگی
تو بجائے سازِ الفت اور گائے زندگی
آ انہیں کھنڈروں پہ آزادی کا پرچم کھول دیں
آ انہیں کھنڈروں پہ آزادی کا پرچم کھول دیں
انقلاب
انقلاب
یہ نظم’’سرخ سویرا ‘‘ سے ماخوذ ہے۔
اے جان نغمہ جہاں سو گوار کب سے ہے
ترے لئے یہ زمیں بے قرار کب سے ہے
ہجوم شوق سر رہگزار کب سے ہے
گزر بھی جا کہ ترا انتظار کب سے ہے
نہ تابناکیٔ رخ ہے نہ کاکلون کا ہجوم
ہے ذرہ ذرہ پریشان کلی کلی مغموم
ہے کل جہاں متعفن ہوائیں سب مسموم
گزر بھی جا کہ ترا انتظار کب سے ہے
رخ حیات پہ کاکل کی برہمی ہی نہیں
نگار دہر میں انداز مریمی ہی نہیں
مسیح و خضر کی کہنے کو کچھ کمی ہی نہیں
گزر بھی جا کہ ترا انتظار کب سے ہے
حیات بخش ترانے اسیر ہیں کب سے
گلوئے زہرہ میں پیوست تیر ہیں کب سے
قفس میں بند ترے ہم صفیر ہیں کب سے
گزر بھی جا کہ ترا انتظار کب سے ہے
حرم کے دوش پہ عقبیٰ کا دام ہے اب تک
سروں میں دین کا سودائے خام ہے اب تک
توہّمات کا آدم غلام ہے اب تک
گزر بھی جا کہ ترا انتظار کب سے ہے
ابھی دماغ پہ قحبائے سیم و زر ہے سوار
ابھی رکی ہے نہیں تیشہ زن کے خون کی دھار
شمیم عدل سے مہکیں یہ کوچہ و بازار
گزر بھی جا کہ ترا انتظار کب سے ہے
ن م راشد
حسن کُوزہ گر
حسن کُوزہ گر
(یہ نظم’’ لا=انسان ‘‘سے ماخوذ ہے)
جہاں زاد، نیچے گلی میں ترے دَر کے آگے
یہ مَیں سوختہ سر حسن کوزہ گر ہوں!
تجھے صبح بازار میں بوڑھے عطّار یوسف
کی دکُان پر مَیں نے دیکھا
تو تیری نگاہوں میں وہ تابناکی
تھی مَیں جس کی حسرت میں نو سال دیوانہ پھرتا رہا ہُوں
جہاں زاد، نو سال دیوانہ پھرتا رہا ہُوں!
یہ وہ دَور تھا جس میں مَیں نے
کبھی اپنے رنجور کوزوں کی جانب
پلٹ کر نہ دیکھا ۔
وہ کُوزے مرے دستِ چابک کے پُتلے
گل و رنگ و روغن کی مخلوقِ بے جاں
وہ سرگوشیوں میں یہ کہتے
’’حسن کُوزہ گراب کہاں ہے؟
وہ ہم سے خود اپنے عمل سے
خُدا وند بن کر خُداؤں کے مانند ہے رُوئے گرداں!‘‘
جہاں زاد نو سال کا دَور یوں مُجھ پہ گزرا
کہ جیسے کسی شہر مدفون پر وقت گزرے
تغاروں میں مٹی
کبھی جس کی خوشبو سے وارفتہ ۔ ہوتا تھا مَیں
سنگ بستہ پڑی تھی
صراحی و مینا و جام و سبو اور فانوس و گُلداں
مری ہیچ مایہ معیشت کے ، اظہارِ فن کے سہارے
شکستہ پڑے تھے۔
مَیں خود ، مَیں حسن کوزہ گر پا بہ گِل خاک پر سر برہنہ
سرِ ’’چاک‘‘ژولیدہ مُو ، سر بزانو
کسی غمزدہ دیوتا کی طرح واہمہ کے
گِل ولا سے خوابوں کے سیّال کوزے بناتا رہا تھا۔
جہاں زاد، نو سال پہلے
تُو ناداں تھی لیکن تجھے یہ خبر تھی
کہ مَیں نے ، حسن کوزہ گر نے
تری قاف کی سی افق تاب آنکھوں
میں دیکھی ہے وہ تابناکی
کہ جس سے مرے جسم و جاں ، ابرو مہتاب کا
رہگزر بن گئے تھے
جہاں زاد بغداد کی خواب گوں رات
وہ رودِ دجلہ کا ساحل
وہ کشتی وہ ملّاح کی بند آنکھیں
کسی خستہ جاں رنج بر کوزہ گر کے لیے
ایک ہی رات وہ کہر با تھی
کہ جس سے ابھی تک ہے پیوست اس کا وجود۔
اس کی جاں اس کا پیکر
مگر ایک ہی رات کا ذوق دریا کی وہ لہر نکلا
حسن کُوزہ گر جس میں ڈوبا تو اُبھرا نہیں ہے!
جہاں زاد اس دَور میں روز، ہرروز
وہ سوختہ بخت آکر
مجھے دیکھتی چاک پر پابہ گِل سر بزانو
تو شانوں سے مجھ کو ہلاتی ۔
دو ہی چاک جو سالہا سال جینے کا تنہا سہارا رہا تھا!)
وہ شانوں سے مجھ کو ہلاتی
’’حسن کُوزہ گر ہوش میں آ
حَسن اپنے ویران گھر پر نظر کر
یہ بچوں کے تنّور کیوں کر بھریںگے
حَسن ، اے محبت کے مارے
محبت امیروں کی بازی
حَسن ، اپنے دیوار و دَر پر نظر کر‘‘
مرے کان میں یہ نوائے حزیں یوں تھی جیسے
کِسی ڈوبتے شخص کو زیرِ گرداب کوئی پُکارے!
وہ اشکوں کے انبار پھُولوں کے انبار تھے ہاں
مگر مَیں حَسن کُوزہ گر شہرِ اوہام کے اُن
خرابوں کا مجذوب تھا جن
میں کوئی صدا کوئی جنبش
کِسی مرغِ پرّاں کا سایہ
کِسی زندگی کا نشاں تک نہیں تھا!
جہاں زاد، مَیں آج تیری گلی میں
یہاں رات کی سرد گوں تِیرگی میں
ترے دَر کے آگے کھڑا ہوں
سرو مو پریشاں
دریچے سے وہ قاف کی سی طلسمی نگاہیں
مجھے آج پھر جھانکتی ہیں
زمانہ ، جہاں زاد وہ چاک ہے جس پہ مِینا و جام و سبو
اور فانوس و گُلداں
کے مانند بنتے بگڑتے ہیں انساں
مَیں انساں ہوں لیکن
یہ نو سال جو غم کے قالب میں گُزرے!
حسن کُوزہ گر آج اِک تو دۂ خاک ہے جس
میں نم کا اثر تک نہیں ہے
جہاں زاد بازار میں صُبح عطّار یوسف
کی دُکّان پر تیری آنکھیں
پھر اک بار کچھ کہہ گئی ہیں
ان آنکھوں کی تابندہ شوخی
سے اُٹھی ہے پھر تودۂ خاک میں نم کی ہلکی سی لرزش
یہی شاید اس خاک کو گِل بنا دے!
تمنّا کی وسعت کی کس کو خبر ہے جہاں زاد لیکن
تُو چاہے تو بن جاؤں مَیں پھر
وہی کُوزہ گر جس کے کُوزے
تھے ہر کاخ و کوا اور ہر شہر و قریہ کی نازش
جن سے امیر و گدا کے مساکن درخشاں
تمنا کی وسعت کی ک س کو خبر ہے جہاں زاد لیکن
تو چاہے تو مَیں پھر پلٹ جاؤں اُن اپنے مہجور کوزوں کی جانب
گِل ولا کے سوکھے تغاروں کی جانب
معیشت کے اظہارِ فن کے سہاروں کی جانب
کہ مَیں اُس گِل ولاسے ، اُس رنگ و روغن
سے پھر وہ شرار سے نکالوں کہ جن سے
دِلوں کے خرابے ہوں روشن!
حسن کوزہ گر (2)
حسن کوزہ گر (2)
یہ نظم ’’گمان کا ممکن ‘‘ سے ماخوذ ہے۔
اے جہاں زاد
نشاط اس شبِ بے راہ روی کی
میں کہاں تک بھولوں ؟
زور مَے تھا ، کہ مرے ہاتھ کی لرزش تھی
کہ اس رات کوئی جام گرا ٹوٹ گیا
تجھے حیرت نہ ہوئی!
کہ ترے گھر کے دریچوں کے کئی شیشوں پر
اس سے پہلے کی بھی درزیں تھیں بہت
تجھے حیرت نہ ہوئی!
اے جہاں زاد
میں کوزوں کی طرف، اپنے تغاروں کی طرف
اب جو بغداد سے لوٹا ہوں،
تو میں سوچتا ہوں
سوچتا ہوں ، تو مرے سامنے آئینہ رہی
سرِ بازار ، دریچے میں ، سرِ بسترِ سنجاب کبھی
تو مرے سامنے آئینہ رہی،
جس میں کچھ بھی نظر آیا نہ مجھے
اپنی ہی صورت کے سوا
اپنی تنہائی جانکاہ کی دہشت کے سوا!
لکھ رہا ہوں تجھے خط
اور وہ آئینہ مرے ہاتھ میں ہے
اس میں کچھ بھی نظر آتا نہیں
اب ایک ہی صورت کے سوا
لکھ رہا ہوں تجھے خط
اور مجھے لکھنا بھی کہاں آتا ہے؟
لوحِ آئینہ پہ اشکوں کی پھواروں ہی سے
خط کیوں نہ لکھوں؟
اے جہاں زاد،
نشاط اس شبِ راہ روی کی
مجھے پھر لائے گی؟
وقت کیا چیز ہے تو جانتی ہے؟
وقت اِک ایسا پتنگا ہے
جو دیواروں پہ آئینوں پہ،
پیمانوں پہ ، شیشوں پہ ،
مرے جام و سبو ، میرے تغاروں پہ
سدا رینگتا ہے
رینگتے وقت کے مانند کبھی
لوٹ کے آئے گا حَسَن کوزہ گر سوختہ جاں بھی شاید!
اب جو لوٹا ہوں جہاں زاد
تو میں سوچتا ہوں
شاید اس جھونپڑے کی چھت پہ یہ مکڑی مری محرومی کی
جسے تنتی چلی جاتی ہے، وہ جالا تو نہیں ہوں میںبھی؟
یہ سیہ جھونپڑا میں جس میں پـڑا سوچتا ہوں
میرے افلاس کے روندے ہوئے اجدا د کی
بس ایک نشانی ہے یہی
اُن کے فن ، ان کی معیشت کی کہانی ہے یہی
میں جو لوٹا ہوں تو وہ سوختہ بخت
آکے مجھے دیکھتی ہے
دیر تک دیکھتی رہ جاتی ہے
میرے اس جھونپڑے میں کچھ بھی نہیں
کھیل اک سادہ محبت کا
شب و روز کے اس بڑھتے ہوئے کھوکھلے پن میں جو کبھی
کھیلتے ہیں
کبھی رو لیتے ہیں مِل کر ، کبھی گا لیتے ہیں،
اور مل کر کبھی ہنس لیتے ہیں
دل کے جینے کے بہانے کے سوا اور نہیں
حرف سرحد ہیں ، جہاں زاد ، معافی سرحد
عشق سرحد ہے ، جوانی سرحد
اشک سرحد ہیں، تبسم کی روانی سرحد
دل کے جینے کے بہانے کے سوا اور نہیں
(دردِ محرومی کی،
تنہائی کی سرحد بھی کہیں ہے کہ نہیں ؟)
میرے اس جھونپڑے میں
کتنی ہی خوشبوئیں ہیں
جو مرے گرد سدا رنگتی ہیں
اسی اک رات کی خوشبو کی طرح رینگتی ہیں
در و دیوار سے لپٹی ہوئی اس گرد کی خوشبو بھی ہے
میرے افلاس کی ، تنہائی کی،
یادوں کی، تمناؤں کی خوشبوئیں بھی،
پھر بھی اس جھونپڑے میں کچھ بھی نہیں
یہ مرا جھونپڑا تاریک ہے ، گندہ ہے ، پراگندہ ہے
ہاں کبھی دور درختوں سے پرندوں کی صدا آتی ہے
کبھی انجیروں کے ، زیتونوں کے باغوں کی مہک آتی ہے
تو میں جی اٹھتا ہوں
تو مَیں کہتا ہوں کہ لو آج نہا کر نکلا
ورنہ اس گھر میں کوئی ہیچ نہیں، عطر نہیں ہے،
کوئی پنکھا بھی نہیں،
تجھے جس عشق کی خُو ہے
مجھے اس عشق کا یارا بھی نہیں!
تو ہنسے گی ، اے جہاں زاد، عجب بات
کہ جذبات کا حاتم بھی میں
اور اشیا کا پرستار بھی میں
اور ثروت جو نہیں اس کا طلب گار بھی میں!
تو جو ہنستی رہی اس رات تذبذب پہ مرے
میری دو رنگی پہ پھر سے ہنس دے!
عشق سے کس نے مگر پایا ہے کچھ اپنے سوا؟
اے جہاں زاد،
ہے ہر عشق سوال ایسا کہ عاشق کے سوا
اس کا نہیں کوئی جواب
یہی کافی ہے کہ باطن کی صدا گونج اٹھے!
اے جہاں زاد
مرے گوشۂ باطن کی صدا ہی تھی
مرے فن کی ٹھٹھرتی ہوئی صدیوں
کے کنارے گونجی
تیری آنکھوں کے سمندر کا کنارا ہی تھا
صدیوں کا کنارا نکلا
یہ سمندر جو مری ذات کا آئینہ ہے
یہ سمندر جو مرے کوزوں کے بگڑے ہوئے،
بنتے ہوئے سیماؤں کا آئینہ ہے
یہ سمندر جو ہر اِک فن کا
ہر اِک فن کے پرستار کا
آئینہ ہے
حَسَن کوزہ گر(3)
حَسَن کوزہ گر(3)
یہ نظم ’’گمان کا ممکن ‘‘ سے ماخوذ ہے۔
جہاں زاد،
وہ حلب کی کارواں سرا کا حوض، رات وہ سکوت
جس میں ایک دوسرے سے ہم کنار تیرتے رہے
محیط جس طرح ہو دائرے کے گرد حلقہ زن
تمام رات تیرتے رہے تھے ہم
ہم ایک دوسرے کے جسم و جاں سے لگ کے
تیرتے رہے تھے ایک شاد کام خوف سے
کہ جیسے پانی آنسوؤں میں تیرتا رہے
ہم ایک دوسرے سے مطمئن زوالِ عمر کے خلاف
تیرتے رہے
تو کہہ اٹھی ، حَسَن یہاں بھی کھینچ لائی
جاں کی تشنگی تجھے!
(لو اپنی جاں کی تشنگی کو یاد کر رہا تھا میں
کہ میرا حلق آنسوؤں کی بے بہا سخاوتوں
سے شاد کام ہو گیا!)
مگر یہ وہم دل میں تیرنے لگا کہ ہو نہ ہو
مرا بدن کہیں حلب کے حوض ہی میں رہ گیا
نہیں ، مجھے دوئی کا واہمہ نہیں
کہ اب بھی ربطِ جسم و جاں کا اعتبار ہے مجھے
یہی وہ اعتبار تھا
کہ جس نے مجھ کو آپ میں سمو دیا
میں سب سے پہلے’’ آپ ‘‘ہوں
اگر ہمیں ہوں ، تو ہو اور میں ہوں، پھر بھی میں
ہر ایک شے سے پہلے آپ ہوں!
اگر میں زندہ ہوں تو کیسے ’’آپ‘‘ سے وفا کروں؟
کہ تیری جیسی عورتیں ، جہاں زاد
ایسی الجھنیں ہیں
جن کو آج تک کوئی نہیں ’’سلجھ‘‘ سکا
جو میں کہوں کہ میں ’’سلجھ‘‘ سکا تو سر بسر
فریب اپنے آپ سے !
کہ عورتوں کی ساخت ہے وہ طنز اپنے آپ پر
جواب جس کا ہم نہیں
(لبیب کون ہے؟ تمام رات جس کا ذکر
تیرے لب پہ تھا۔
وہ کون تیرے گیسوؤں کو کھینچتا رہا
لبوں کو نوچتا رہا
جومَیں کبھی نہ کر سکا
نہیں یہ سچ ہے ۔ میں ہوں یا لبیب ہو
رقیب ہو تو کس لیے تری خود آگہی کی بے ریا نشاطِ تاب کا
جو صد نواو یک نوا خرامِ صبح کی طرح
لبیب ہر نوائے ساز گار کی نفی سہی!)
مگر ہمارا رابطہ وصالِ آب و گل نہیں ، نہ تھا کبھی
وجودِ آدمی سے آب و گل سدا بروں رہے
نہ ہر وصالِ آب و گل سے کوئی جام یا سبوہی بن سکا
جو ان کا ایک واہمہ ہی بن سکے تو بن سکے!
جہاں زاد، ۔
ایک تو اور ایک وہ اورایک میں
یہ تین زاویے کسی مثلثِ قدیم کے
ہمیشہ گھومتے رہے
کہ جیسے میرا چاک گھومتا رہا
مگر نہ اپنے آپ کا کوئی سراغ پا سکے
مثلث قدیم کو میں توڑ دوں ، جو تو کہے ، مگر نہیں
جو سحر مجھ پہ چاک کا وہی ہے اس مثلث قدیم کا
نگاہیں میرے چاک کی جو مجھ کو دیکھتی ہیں
گھومتے ہوئے
سبو و جام پر ترا بدن، ترا ہی رنگ، تیری ناز کی
برس پڑی
وہ کیمیا گوی ترے جمال کی برس پڑی
میں سیلِ نورِ اندروں سے دُھل گیا!
مرے دروں کی خلق یوں گلی گلی نکلی پڑی
کہ جیسے صبح کی اذاں سنائی دی!
تمام کوزے بنتے بنتے ’’تو‘‘ ہی بن کے رہ گئے
نشاط اس وصالِ رہ گزر کی ناگہاں مجھے نگل گئی
یہی پیالہ و صراحی وسبو کا مرحلہ ہے وہ
کہ جب خمیرِ آب و گل سے وہ جدا ہوئے
تو ان کو سمتِ راہِ نو کی کامرانیاں ملیں
(میں اک غریب کوزہ گر
یہ انتہائے معرفت
یہ ہر پیالہ و صراحی و سبو کی انتہائے معرفت
مجھے ہو اس کی کیا خبر؟)
جہاں زاد،
انتظار آج بھی مجھے ہے کیوں وہی مگر
جو نو برس کے دورِ نا سزا میں تھا؟
اب انتظار آنسوؤں کے دجلہ کا
نہ گمرہی کی رات کو
شبِ گنہ کی لذتوں کا اتنا ذکر کر چکا
وہ خود گناہ بن گئیں!)
حلب کی کارواں سرا کے حوض کا ، نہ موت کا
نہ اپنی اس شکست خوردہ ذات کا
اِک انتظارِ بے زماں کا تار ہے بندھا ہوا!
کبھی جو چند ثانیے زمانِ بے زماں میں آکے رُک گئے
تو وقت کا یہ بار میرے سر سے بھی اتر گیا
تمام رفتہ و گزشتہ صورتوں ، تمام حادثوں
کے سست قافلے
مرے دروں میں جاگ اٹھے
مرے دروں میں اِک جہانِ باز یافتہ کی ریل پیل جاگ اٹھی
بہشت جیسے جاگ اٹھے خدا کے لاشعور میں!
میں جاگ اٹھا غنودگی کی ریت پر پڑا ہوا
غنودگی کی ریت پر پڑے ہوئے وہ کوزے جو
مرے وجود سے بروں
تمام ریزہ ریزہ ہو کے رہ گئے تھے
میرے اپنے آپ سے فراق میں
وہ پھر سے ایک کُل بنے (کسی نوائے سازگار کی طرح)
وہ پھر سے ایک رقصِ بے زماں بنے
وہ رؤیتِ ازل بنے!
حسن کوزہ گر(4)
حسن کوزہ گر(4)
یہ نظم ’’گمان کا ممکن ‘‘ سے ماخوذ ہے۔
جہاںزاد، کیسے ہزاروں برس بعد
اِک شہر مدفون کی ہر گلی میں
مرے جام و مینا و گلداں کے ریزے ملے ہیں
کہ جیسے وہ اس شہر برباد کا حافظہ ہوں!
(حَسَن نام کا اِک جواں کوزہ گر، اِک نئے شہر میں،
اپنے کوزے بناتا ہوا، عشق کرتا ہوا
اپنے ماضی کے تاروں میں ہم سے پرو یا گیا ہے
ہمیں میں (کہ جیسے ہمیں ہوں) سمویا گیا ہے
کہ ہم تم وہ بارش کے قطرے تھے جو رات بھر سے،
(ہزاروں برس رینگتی رات بھر)
اک دریچے کے شیشوں پہ گرتے ہوئے سانپ لہریں
بناتے رہے ہیں،
اور اب اس جگہ وقت کی صبح ہونے سے پہلے
یہ ہم اور یہ نوجواں کوزہ گر
ایک رویا میں پھر سے پروئے گئے ہیں!)
جہاں زاد۔
یہ کیسا کہنہ پرستوں کا انبوہ
کوزوں کی لاشوں میں اترا ہے
دیکھو!
یہ وہ لوگ ہیں جن کی آنکھیں
کبھی جام و مینا کی لم تک نہ پہنچیں
یہی آج اس رنگ و روغن کی مخلوقِ بے جاں
کو پھر سے الٹنے پلٹے لگے ہیں
یہ ان کے تلے غم کی چنگاریاں پا سکیں گے
جو تاریخ کو کھا گئی تھیں؟
وہ طوفان، وہ آندھیاں پا سکیں گے
جو ہر چیخ کو کھا گئی تھیں؟
انھیں کو خبر کس دھنک سے مرے رنگ آئے
(مرے اور اس نوجواں کوزہ گر کے؟)
انھیں کیا خبر کون سی تتلیوں کے پروں سے؟
انھیں کیا خبر کون سے حُسن سے؟
کون سی ذات سے ، کس خدو خال سے
میں نے کوزوں کے چہرے اتارے؟
یہ سب لوگ اپنے اسیروں میں ہیں
زمانہ ، جہاں زاد، افسوں زدہ برج ہے
اور یہ لوگ اس کے اسیروں میں ہیں
جواں کوزہ گر ہنس رہا ہے !
یہ معصوم وحشی کہ اپنے ہی قامت سے ژولیدہ دامن
ہیں جویا کسی عظمت نارسا کے
انہیں کیا خبر کیسا آسیبِ مبرم مرے غار سینے پہ تھا
جس نے مجھ سے داور(اور اس کوزہ گر سے) کہا:
’’اے حَسن کوزہ گر جاگ
دردِ رسالت کا روزِ بشارت ترے جام و مینا
کی تشنہ لبی تک پہنچنے لگا ہے!
یہی وہ ندا، جس کے پیچھے حَسن نام کا
یہ جواں کوزہ گر بھی
پیامے رواں ہے زماں سے زماں تک
خزاں سے خزاں تک
جہاں زاد نے ، حَسَن کوزہ گر نے
بیاباں بیاباں یہ دردِ رسالت سہا ہے
ہزاروں برس بعد یہ لوگ
ریزوں کو چنتے ہوئے
جان سکتے ہیں کیسے
کہ مرے گل وخاک کے رنگ و روغن
ترے نازک اعضا کے رنگوں سے مل کر
ابد کی صدا بن گئے تھے؟
میں اپنے مساموں سے ، ہر پور سے،
تیری بانہوں کی پہنائیاں
جذب کرتا رہا تھا
کہ ہر آنے والے کی آنکھوں معبد پہ جاکر چڑھاؤں
یہ ریزوں کی تہذیب پالیں تو پالیں
حَسن کوزہ گر کو کہاں لا سکیں گے؟
یہ اس کے پسینے کے قطرے کہاں گِن سکیں گے؟
یہ فن کی تجلی کا سایہ کمال پا سکیں گے؟
جو بڑھتا گیا ہے زماں سے زماں تک
خزاں سے خزاں تک
جو ہر نوجواں کُوزہ گر کی نئی ذات میں
اور بڑھتا چلا جا رہا ہے!
وہ فن کی تجلی کا سایہ کہ جس کی بدولت
ہمہ عشق ہیں ہم
ہمہ کوزہ گر ہم
ہمہ تن خبر ہم
خدا کی طرح اپنے فن کے خدا سر بسر ہم!
(آرزوئیں کبھی پایاب تو سریاب کبھی)
تیرنے لگتے ہیں بے ہوشی کی آنکھوں میں کئی چہرے
جو دیکھے بھی نہ ہوں
کبھی دیکھے ہوں کسی نے تو سراغ ان کا
کہاں سے پائے؟
کس سے ایفا ہوئے اندوہ کے آداب کبھی
آرزوئیں کبھی پایاب تو سریاب کبھی!)
یہ کوزوںکے لاشے ، جو ان کے لیے ہیں
کسی داستانِ فنا کے وغیرہ وغیرہ
ہماری اذاں ہیں، ہماری طلب کا نشاں ہیں
یہ اپنے سکوتِ اجل میں بھی یہ کہہ رہے ہیں
’’وہ آنکھیں ہمیں ہیں جو اندر کھلی ہیں
تمہیں دیکھتی ہیں ، ہر اک درد کو بھانپتی ہیں
ہر اک حُسن کے راز کو جانتی ہیں
کہ ہم ایک سنسان حجرے کی اس رات کی آرزو ہیں
جہاں ایک چہرہ ، درختوں کی شاخوں کے مانند
اِک اور چہرے پہ جھک کر، ہر انسان کے سینے میں
اِک برگِ گُل رکھ گیا تھا
اسی شب کا دُزدیدہ بوسہ ہمیں ہیں!‘‘
ساحر لدھیانوی
چکلے
چکلے
یہ نظم مجموعہ ’’تلخیاں‘‘ سے ماخوذ ہے
یہ کوچے یہ نیلام گھر دلکشی کے
یہ لٹتے ہوئے کارواں زندگی کے
کہاں ہیں کہاں ہیں محافظ خودی کے
ثناخوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟
یہ پُر پیچ گلیاں یہ بے خواب بازار
یہ گمنام راہی یہ سکّوں کے جھنکار
یہ عصمت کے سودے یہ سودوں پہ تکرار
ثناخوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟
تعفّن سے پُر نیم روشن یہ گلیاں
یہ مَسلی ہوئی اَدھ کھلی زرد کلیاں
یہ بکتی ہوئی کھوکھلی رنگ رلیاں
ثناخوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟
وہ اُجلے دریچوں میں پائل کی چھَن چھَن
تنفّس کی اُلجھ پہ طبلے کی دَھن دَھن
یہ بے رُوح کمروں میں کھانسی کی ٹَھن ٹَھن
ثناخوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟
یہ گونجتے ہوئے قہقہے راستوں پر
یہ چاروں طرف بھیڑ سی کھڑکیوں پر
یہ آوازے کھنچتے ہوئے آنچلوں پر
ثناخوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟
یہ پھولوں کے گجرے یہ پیکوں کے چھینٹے
یہ بے باک نظریں یہ گستاخ فقرے
یہ ڈھلکے بدن اور یہ مدقوق چہرے
ثناخوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟
یہ بھُو کی نگاہیں حسینوں کی جانب
یہ بڑھتے ہوئے ہاتھ سینوں کی جانب
لپکتے ہوئے پاؤں زینوں کی جانب
ثناخوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟
یہاں پیر بھی آ چکے ہیں جواں بھی
تنو مند بیٹے بھی ، ابا میاں بھی
یہ بیوی بھی ہے اور بہن بھی ہے ماں بھی
ثناخوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟
مدد چاہتی ہے یہ حوّا کی بیٹی
یشودھا کی ہم جنس رادھا کی بیٹی
پیمبر کی امُت ، زلیخا کی بیٹی
ثناخوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟
بلاؤ خدایانِ دیں کو بلاؤ
یہ کوچے ، یہ گلیاں ، یہ منظر دکھاؤ
ثنا خوانِ تقدیس مشرق کو لاؤ
ثناخوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟
تاج محل
تاج محل
یہ نظم مجموعہ ’’تلخیاں‘‘ سے ماخوذ ہے
تاج تیرے لیے اک مظہر الفت ہی سہی
تجھ کو اس وادی رنگیں سے عقیدت ہی سہی
میرے محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے
بزم شاہی میں غریبوں کا گُزر کیا معنیٰ؟
ثبت جس راہ میں ہوں سطوتِ شاہی کے نشاں
اس پہ الفت بھری روحوں کا سفر کیا معنی؟
میری محبوب پس پردہ تشہیر وفا
تونے سطوت کے نشانوں کو تو دیکھا ہوتا
مردہ شاہوں کے مقابر سے بہنے والی
اپنے تاریک مکانوں کو تو دیکھا ہوتا
ان گنت لوگوں نے دنیا میں محبت کی ہے
کون کہتا ہے کہ صادق نہ تھے جذبے ان کے
لیکن ان کے لیے تشہیر کا سامان نہیں
کیوں کہ وہ لوگ بھی اپنی ہی طرح مُفلس تھے
یہ عمارات و مقابر یہ فصیلیں یہ حصار
مطلق الحکم شہنشاہوں کی عظمت کے ستوں
سینہ دہر کے ناسور ہیں کہنہ ناسور
جذب ہے ان میں ترے اور مرے اجداد کا خُوں
میری محبوب! انہیں بھی تو محبت ہوگی!
جن کی صناعی بے بخشی ہے اسے شکلِ جمیل
ان کے پیاروں کے مقابر رہے بے نام و نمود
آج تک ان پہ جلائی نہ کسی نے قندیل
یہ چین زار یہ جمنا کا کنارہ ، یہ محل
یہ منقش درو دیوار یہ محراب یہ طاق
اک شنہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
میری محبوب! کہیں اور مِلا کر مُجھ سے
گریز
گریز
یہ نظم مجموعہ ’’تلخیاں‘‘ سے ماخوذ ہے
مِرا جنونِ وفا ہے زوال آمادہ
شکست ہو گیا تیرا فسونِ زیبائی
ان آرزوؤں پہ چھاتی ہے گردِ مایوسی
جنھوں نے تیرے تبسم میں پرورش پائی
فریبِ شوق کے رنگیں طلسم ٹوٹ گئے
حقیقتوں نے حوادث سے پھر جلا پائی
سکون و خواب کے پردے سر کئے جاتے ہیں
دِل و دماغ میں وحشت کی کار فرمائی
وہ تارے جن میں محبت کا نورِ تاباں تھا
وہ تارے ڈوب گئے لے کے رنگ و رعنائی
سُلا گئی تھیں جنھیں تیری ملتفت نظریں
وہ درد جاگ اُٹھے پھر سے لے کے انگڑائی
عجیب عالمِ افسردگی ہے رویہ فروغ
نہ اب نظر کو تقاضا نہ دل تمنائی
ترے نظر، ترے گیسو ، تری جبیں ، ترے لَب
مری اداس طبیعت ہے سب سے اکتائی
میں زندگی کے حقائق سے بھاگ آیا تھا
کہ مجھ کو خود میں چھپا لے تری فسوں زائی
مگر یہاں بھی تعاقب کیا حقائق نے
یہاں بھی مل نہ سکی جنتِ شکیبائی
ہر ایک ہاتھ میں لے کر ہزار آئینے
حیات بند دریچوں سے بھی گزر آئی
مرے ہر ایک طرف ایک شور گونج اٹھا
اور اس میں ڈوب گئی عشرتوں کی شہنائی
کہاں تلک کوئی زندہ حقیقتوں سے بچے
کہاں تلک کرے چھُپ چھُپ کے نغمہ پیرائی
وہ دیکھ سامنے کے پُر شکوہ ایواں سے
کسی کرائے کی لڑکی کی چیخ ٹکرائی
وہ پھر سماج نے دو پیار کرنے والوں کو
سزا کے طور پہ بخشی طویل تنہائی
پھر ایک تیرہ و تاریک جھونپڑی کے تلے
سسکتے بچے پہ بیوہ کی آنکھ بھر آئی
وہ پھر بکی کسی مجبورکی جواں بیٹی!
وہ پھر جھکا کسی در پر غرور برنائی
وہ پھر کسانوں کے مجمع پہ گن مشینوں سے
حقوق یافتہ طبقے نے آگ برسائی
سکوتِ حلقۂ زنداں سے ایک گونج اُٹھی
اور اس کے ساتھ مِرے ساتھیوں کی یاد آئی
نہیں نہیں مجھے یوں ملتفت نظر سے نہ دیکھ
مِرا جنونِ وفا ہے زوال آمادہ
شکست ہو گیا تیرا فسونِ زیبائی
شفیق فاطمہ شعریٰ
بازیابی
بازیابی
ذرا سی رنجش بیجا
وہ گردابِ بلا جس میں
سفینہ دل کا اب ڈوبا کہ جب ڈوبا
ذرا سا اک ہنکارا بھی اُبھرنے کو بہت ہے
اے عزیز مصر
بہت آفت رسیدہ ہم
بہت آفت رسیدہ خاندان والے
دیارِ قحط سے لائے ہیں پونجی بھی بہت کم
تو جھکتا تول ، پوراناپ دے
کھاتہ کھرا لکھ ، چھوٹ بھی دے واجبی سچی
اگر کچھ چھوٹ دینے کی سکت ہے
اے عزیز مصر
پھر اس کے بدلے بھر بھر پلہ انواع جزاپا
مالک روزِ جزا سے اور ذخیرہ کر
یہی وہ موڑ تھا ، ٹکرا کے ٹوٹا جس سے
صو م خامشی اس کا
تو سچ کہہ دیا اس نے
یہ کذاب و افتراء حاشا نہیں
دیکھو میں زندہ ہوں
ذرا سی دیر کو ارض و سما سناٹے میں آکر
گلے ملتے ہیں
گرد آلوچہرے گرم اشکوں سے بھگوتے ہیں
سنبھلتے ہیں تو پھر چشمک زنی کادور چلتا ہے
’اسے تو کھا گیا تھا بھیڑ یا دشتِ اجل کا
پھر کہاں سے یہ نکل آیا‘
فدا ہوتے ہیں عارض چومتے ہیں
نا گہاں کچھ یاد آتے ہی
بہکنے لگتے ہیں
دیکھو یہ اتنی دیر میں پھوٹا
ہمارے دل سے بڑھ کر دل ترا
پتھر صفت ہے
اے عزیز مصر
باز گشت
باز گشت
نوٹ:اخترالایمان کی نظم کا نام بھی بازگشت ہے۔
نغمہ زار درد کی جانب چلے ہم
ایک بھی ذرہ نہ کچل جائے اس رفتار سے
نغمہ زار درد کی جانب چلے ہم
کنج میں پیڑوں کے سورج جھانکتا تھا
کوہساروں سبزہ زاروں میں جھمکتی روشنی کا جشن تھا
جشن جاری ہی رہے گا تا ابد
جاری رہے
نغمہ زار درد کی جانب چلے ہم
لعل و مرمر سے گندھا قالب
اور اس کے ماور اس کے قریب
بجلیوں جیسا مصفی اک وجود
چار سو بکھرے ہوئے خاموش سونے آسماں
ہم کہاں ہیں ہم کہاں ، نغمہ زار درد ہے یہ (ہم کہاں)
اتنا بے آواز جیسے
آتما اپنی شعاعیں
ریشے ریشے سے بدن کے کھنچ لے
آہستگی سے بے گزند
اور دوری بے فغاں ہو جسم کی اور روح کی
کیا سبک رفتار کردیتی ہے ہم کو بے دلی بے حاصلی
جیسے اک بادل کا ٹکڑا
اپنی چھاگل پھینک دے اونچی فضاء میں
پیاسے ذروں کی طرف
پھر ہلکے پھلکے پنکھ پھیلائے ، اڑے
ہلکورے لے
اک مٹتی بنتی رنگ کی تحریر سی
سیراب ذرے اس کو دیکھیں
اور پکار اٹھیں
وہ کافوری سا شعلہ ، عظمت نارس!
دوام درد ہے وہ سرخ نرمل روشنی
(لو سانس کے سر چشمے سوکھے ہر شکایت مٹ گئی)
کیا شکایت سانس کے سرچشمہ سے ان کو رہی
جو سانس لیتے ہیں یہاں؟
موج بے ہنگام خندہ
کیسے پھوٹی میرے لب سے
کوئی شکتی ہم میں ہے؟
جو یوں ہمیں پامال کر ہنس سکے!
یہ ہمیں آغاز ہی سے ختم کرنے پر تلی تھی
چاہے پھر خود ہی مجاور بن سکے انجام کار
احتجاج اس کا جو اک شکتی ہے مجھ میں
کس قدر پر شور ہے
کس قدر پر زور ہے
نغمہ زار درد سے آگے لئے جاتا مجھ کو
ان فضاؤں میں جہاں
باز گشت اک گیت بن جاتی ہے اس کی
جیسے سب ٹیلے چٹانیں اور کہستان
سانس کے چشمے میں شامل ہیں
دھڑکتے ذی نفس اور ہم نوا