اُردو تنقید حالی سے عصرِ حاضر تک / ڈاکٹر صبا عنبرین – محمد ہلال عالم

اُردو تنقید حالی سے عصرِ حاضر تک / ڈاکٹر صبا عنبرین – محمد ہلال عالم

 

زیر نظر تصنیف ”اُردو تنقید حالی سے عصر حاضر تک“ ڈاکٹر صبا عنبرین کی کتاب ہے۔ 311صفحات پر مشتمل یہ کتاب سن 2019ء میں شائع ہوئی۔ اس کو پانچ ابواب میں تقسیم کیاگیا ہے۔ ڈاکٹرصبا عنبرین دہلی یونی ورسٹی میں ریسرچ
اسکالر ہیں۔ مصنفہ کے بارے میں اس سے زیادہ جانکاری حاصل نہیں ہوسکی۔ اس کتاب پر میری نظر اس وقت پڑی جب میں دورحاضر کے تعلق سے تنقیدی کتاب تلاش کررہا تھا۔ چوں کہ اُردو میں تنقید کی باضابطہ اتبدا حالی سے بتائی جاتی
ہے۔ تنقید حالی سے لیکر اب تک اہم مقام حاصل کرچکی ہے۔جب میں نے اس کتاب کا عنوان پڑھا”اُردو تنقید حالی سے عصر حاضر تک“ تو میں نے فوراً یہ کتاب آرڈر کی۔ چھ سات دن میں کتاب موصول ہوئی۔ جیسا کہ اکثرہوتا آیا ہے کہ کتاب آئی اور الماری کی زینت بن گئی۔ کتاب کو سرسری نگاہ سے دیکھنے کے بعد میں نے اس کواٹھاکر رکھ دیا اور دوسرے کاموں میں مصروف ہوگیا۔ رفتہ رفتہ وقت گزرتا گیا۔ ایک بار پھر سے اس کتاب کو پڑھنا شروع کیا۔ لیکن اس مرتبہ سرسری نگاہ سے نہیں، بلکہ اس کا مطالعہ ہر پہلو سے کیا۔ آخر اس کتاب کو اُردو تنقید حالی سے لیکر عصر حاضر تک“ عنوان کیوں دیاگیا ہے؟ کیا واقعی یہ حالی سے لیکر اب تک تنقیدی پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہے؟۔ کتاب کی ابتدا مصنفہ نے ”اپنی بات“ نام عنوان سے کی ہے۔ جس میں ادب اور زندگی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کتاب کے پانچ ابواب کو واضح کیا ہے۔ کتاب لکھنے کا مقصد بھی بیان کیا ہے۔ اس کے بعد ”تقدیم“ نام سے ڈاکٹر شمیم احمد کا نوٹ اور پیش گفتار کے عنوان سے پروفیسر ابن کنول کا نوٹ شامل ہے۔ ان دونوں ہی نوٹس میں اس کتاب کی اہمیت وافادیت کوواضح کیاگیا ہے۔
کتاب پانچ ابواب پرمشتمل ہے۔ پہلا باب اردو میں تنقید کی تاریخ، دوسرے باب الطاف حسین حالی، شبلی نعمانی اور محمد حسین آزاد کے تنقیدی نظریات، تیسرے باب میں ترقی پسند تنقید کا تفصیلی مطالعہ، چوتھے باب میں جدید اور مابعد جدید ادب اور تنقیدی نظریات، جدید اور مابعد جدید تنقید کے زیر اثر اہم تنقیدی نظریات، جدید اور مابعد جدید ناقدین کے نظریات۔ پانچویں باب میں موجودہ منظرنامہ پربحث کی گئی ہے۔
آئیے اب ان پانچوں ابواب پر تفصیل سے بات کرتے ہیں:۔
پہلا باب جس کا عنوان اردو میں تنقید کی تاریخ ہے۔ اس میں تنقیدکی تاریخ اور تنقیدی دبستانوں کاجائزہ پیش کیاگیاہے۔ تنقید کا وجود زندگی کے لیے ضروری ہے۔ اس سے انسان کے اندر فیصلہ کرنے کی صلاحیت پیداہوتی ہے اور اچھے برے کی تمیز آجاتی ہے۔ اس باب میں دبستان دہلی اور دبستان لکھنؤ کی شاعری اور شاعروں کا موازنہ کرتے ہوئے تنقید کی تاریخی اہمیت کا ذکر کیاگیا ہے۔ حالی کی مقدمہ شعروشاعری سے تنقید کی ابتدا سمجھی جاتی ہے، حالی نے اس میں شاعری کے حوالے سے تنقیدی شعور کوپیش کیا ہے، دیکھا جائے تو ادب میں تنقید کا یہ سلسلہ نیا نہیں ہے۔ ادب میں تنقید کی روایت
تذکروں سے شروع ہوتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ تذکروں میں تنقید کے نقوش واضح نہیں تھے۔ صبا عنبرین تنقید کی تاریخ بتاتے ہوئے کہتی ہوئی نظر آتی ہیں کہ تذکروں نے اُردو تنقید کو ٹھوس زمین فراہم کی جس پر تنقید کی عمارت قائم ہوئی۔
تذکروں سے حاصل ہونے والے تنقیدی شعور کے نقوش نے اُردو تنقید کے ارتقا میں مدد کی۔ تنقید کی تاریخ کے بعد مصنفہ نے تنقید کے اہم دبستانوں کا جائزہ لیا ہے۔ جس میں جمالیاتی تنقید، تاثراتی تنقید، مارکسی تنقید، ترقی پسند تنقید کاجائزہ ملتا ہے۔ مصنفہ نے ان دبستانوں کی تعریف کرتے ہوئے ان کے فنی محاسن پربحث کی ہے۔ اس باب میں مصنفہ نے بیحد کم لفظوں میں اپنی بات کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ اُردو تنقید کی تاریخ بہتر انداز میں سمجھا نے کی کوشش کی گئی ہے لیکن تنقیدی دبستانوں کو سرسری طورپر پیش کیاگیا ہے۔ کچھ اہم دبستان جیسے نفسیاتی تنقید، سائنٹفک تنقید، ہیئتی تنقید اور اسلوبیاتی تنقید کاذکر تک نہیں کیاگیا اور آج کے دور کی سب سے اہم چیز”متنی تنقید“ کے بارے میں
بھی کتاب میں کوئی صفحہ نہیں آتا۔ دوسرا باب الطاف حسین حالی، محمد حسین آزاد اور شبلی نعمانی کے تنقیدی
نظریات پرمبنی ہے۔ اس میں ان تینوں نقادوں کے تنقیدی شعور کو پیش کرتے ہوئے ان کے نظریات پربحث کی گئی ہے۔ حالی کے تنقیدی نظریات کیا ہے؟ حالی پر کس تحریک کااثر ہے؟ حالی کے تنقیدی شعور پر کس شخصیت نے اپنے اثر مرتب
کیے؟ ان پرتفصیل سے گفتگو ملتی ہے۔ حالی نے شاعری پر تنقیدی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
”شاعری کامقصد بنی نوع انسان کے دل میں ایک قسم کی جولانی اور امنگ کا پیدا کرنا ہے تاکہ ان پر چھائے ہوئے اداسیوں کے بادل چھٹ سکیں اور ان میں عمل کی صلاحیت بیدار ہو۔“        (مقدمہ شعروشاعری:حالیؔ)
حالی کے بعد شبلی نعمانی کے تنقیدی نظریات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ کیوں کہ حالی کے بعد شبلی نے تنقید کے کارواں کوآگے بڑھایا۔ شبلی کے تنقیدی نظریات، شعرالعجم، موازنہ انیس ودبیر میں نظر آتے ہیں۔ شبلی نے تنقیدی  دبستانوں میں جمالیاتی اور تاثراتی تنقید کو فروغ دیاتھا۔ شبلی اورحالی کی تنقید کا زمانہ ایک ہی ہے۔ شبلی نعمانی کی کتاب شعرالعجم کا چوتھا تنقیدی لحاظ سے سب سے زیادہ اہم ہے۔ اس کو شبلی نے تین حصوں میں منقسم کیا ہے۔
(۱) شاعری کی حقیقت اور ماہیت
(۲) فارسی شاعری کی عام تاریخ اور تمدن اور اسباب کااثر
(۳) تقریظ وتنقید
خلیل الرحمٰن اعظمی شبلی کی تنقید کو حالی کی تنقید کا رد عمل بتاتے ہیں:۔
”شبلی کی تنقید حالی کی تنقید کاردِ عمل معلوم ہوتی ہے۔ شعر العجم براہ راست تو نہیں لیکن بالواسطہ ’مقدمہ شعروشاعری‘کاجواب ہے“۔



شبلی کے بعد مصنفہ نے محمد حسین آزاد کے تنقیدی نظریات کاجائزہ لیا ہے۔ محمد حسین آزاد شبلی اور حالی کے معاصرین میں ہیں۔ محمد حسین آزاد نے اپنے تنقیدی نظریات آب حیات میں قلم بند کیے ہیں۔ مصنفہ نے اس کتاب میں
محمد حسین آزاد کی ادبی خدمات پر بات کرتے ہوئے ان کے تنقیدی نظریات آب حیات کی روشنی میں بیان کیے ہیں۔ آب حیات کو تذکروں اور اُردو تنقید کی درمیانی کڑی بھی کہاجاسکتا ہے۔ حالی،شبلی اورآزاد کی تنقید اُردو میں اہمیت کی حامل ہے۔ کیوں کہ یہیں سے اُردو تنقید کی باضابطہ شروعات ہوتی ہے۔
باب دوم میں مصنفہ نے مکمل ایمانداری سے کام لیا ہے۔ اور جو عنوان دیا ہے اس پر پوری طرح قادر رہی ہیں۔ حالی، شبلی اور محمد حسین آزاد کے نظریات اچھے انداز میں پیش کیے گئے ہیں۔ ان تینوں کا موازنہ کرنے میں بھی عنوان کا خاص خیال رکھا ہے۔ مصنفہ اس قدم پر صحیح ثابت ہوئی ہیں۔
تیسرے باب میں ترقی پسند تنقید کا تعارف کرتے ہوئے ترقی پسند تنقید کے نظریات کوپیش کیا ہے۔ اس میں مصنفہ نے ترقی پسند تنقید سے متعلق سجاد ظہیر،احتشام حسین، محمد حسن،آل احمد سرور،قمر رئیس، اختر حسین رائے
پوری، محمدعقیل اور شارب رودولوی کے نظریات کوپیش کیا ہے۔ اس میں ترقی پسند تحریک کی تنقیدی اہمیت کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔
جدید اردو تنقید کا بیشتر حصہ کسی نہ کسی شکل میں ترقی پسند تحریک کا مرہون منت ہے۔ ادب کی تاریخ میں ترقی پسند تحریک نے ادب میں تجربات کی نئی راہیں کھولیں اور ان تجربات کو اعتبار بخشا۔ حالی نے مقدمہ کے ذریعہ
اردو  تنقید کو ایک نیا موڑ دیا تھا۔ اور تنقیدی اصولوں کو ایک شکل دے کرپیش کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس کو ترقی پسند تحریک نے اپنایا۔
غرض کہ اس باب میں مصنفہ نے حالی کی تنقید کوذہن میں رکھ کر ترقی پسند تنقید کے مقصد کوواضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ترقی پسند نقادوں کے نظریات کو بھی اس میں شامل کردیا ہے۔ اورموجودہ دور کے تناظر میں اس
کو عوام کے سامنے رکھنے کی کوشش کی ہے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ترقی پسند تنقید ہرلحاظ سے ادب کے مقصدی ہونے پرزور دیتی ہے۔ آل احمد سرور ترقی پسند تنقید کے ضمن میں کہتے ہیں:۔
”ترقی پسند تنقید نے لوگوں کو مطالعہ کاشوق دلایا۔ اور آج لوگ تنقیدیں بھی ذوق وشوق سے پڑھنے لگے۔اس نے تنقید کو محض لفاظی یاصنعتی شعبدہ بازی ہونے سے بچایا۔ اس نے تحسین اور سخن فہمی کامعیار اونچا کیا۔
اس کتاب کا چوتھا باب جدید اور مابعد جدید ادب اور تنقیدی نظریات پر مبنی ہے۔ اس باب میں مصنفہ نے جدیدیت اور مابعد جدیدیت کی تعریف کی ہے اور اس کو تنقیدی نقطہ نظر سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔
بقول آل احمد سرور:۔
”جدیدیت صرف انسانوں کی تنہائی کانام نہیں اور نہ اس کی اعصاب زدگی کی داستان ہے۔ اس میں انسان کی عظمت کے ترانے بھی ہیں۔ محض آئیڈیا لوجی سے بیزاری، تنہائی کے احساس اور مایوسی ہی کو جدیدیت نہیں سمجھنا چاہیے۔“
مصنفہ نے اس باب میں جدید اور مابعد جدید تنقید کے زیر اثر قائم ہونے والے تنقیدی نظریات کا جائزہ لیا ہے اور اس کے ساتھ اہم ناقدین کے تنقیدی نظریات کا مطالعہ پیش کیاگیا ہے۔ اس کے بارے میں خود مصنفہ کاایک قول یہاں نقل ہے:۔ ”مابعد جدیدیت کسی ایک ضابطہ بند نظریے کانام نہیں بلکہ مابعد جدیدیت مختلف بصیرتوں اورذہنی رویوں کااحاطہ کرتی ہے۔ مابعدجدیدیت میں تاریخیت کانظریہ الگ تنقیدی رویے کے طور پر سامنے آیا ہے۔ پانچویں باب میں تنقید کی موجودہ صورت حال کو بیان کیاہے۔ ادب میں موجودتنقیدی نظریات ایک دوسرے کو رد تو کرتے ہیں لیکن ختم نہیں کرتے۔ نظریات از سرنو تشکیل پاتے ہیں۔ آج تنقید محض نقطہئ نظر یا تصور ادب ہی نہیں ہے بلکہ ہر لمحہ بدلتی فکر یات وعملیات کے تناظر میں ایک وسیلہ بھی ہے جہاں ادب کے ساتھ عالم انسانیت بھی انسانی معاشرتی اور ثقافتی تکثیریت کے باوجود اجتماعی طورپر ساتھ نظر آرہاہے۔ آج تنقید کے میدان میں زبانوں، نسلوں،فرقوں اور تہذیبوں کے فرق کو روان نہیں رکھا جاتا ہے۔ غرض کہ اس آخری باب میں موجودہ دور کے نقادوں اور ان کی تنقیدی کاوشوں، نظریات وغیرہ کابیان ملتاہے۔ موجودہ نقادوں کے ضمن میں مصنفہ کا کہنا ہے کہ ”آج کا تنقید نگار کسی دباؤ یااثر کو قبول کیے بغیر اپنی تنقید کی راہ کا انتخاب خود کررہا ہے“۔
کتاب کے سب سے آخر میں ماحصل اورکتابیات کاذکر کیا گیاہے۔ کتاب کے سبھی ابواب کامطالعہ کرنے کے بعد میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ کتاب اُردو تنقید کی دنیا میں ایک بیش قیمتی سرمایہ ہے۔ عصر حاضر میں اس کتاب کی اہمیت اس لیے زیادہ ہے کیوں کہ یہ کتاب اُردو تنقید میں منفرد مقام رکھتی ہے۔ حالی سے لیکر عصر حاضر کے اوپر ایسی ہی تنقیدی کتاب کی سخت ضرورت ہے۔ جو اُردو تنقید کو حالی سے لیکر موجودہ دور کی تنقید سے تعارف کراتی ہو۔
تمام نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ کتاب مطالعہ کے لحاظ سے بہترین ہے۔ اس کے ذریعہ سے ہم اُردو تنقید کے بارے میں اہم معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔ کتاب میں کچھ جگہ ٹائپنگ کی غلطی ہے۔ ایک دو باب میں مصنفہ نے کم لکھا ہے۔ لیکن باقی جگہ جس موضوع پر بھی بات کرنے کی کوشش کی گئی ہے مکمل کی گئی ہے۔ کتاب میں تنقیدی نظریات بیحد چنیدہ ہیں اور اُردو تنقید میں اپنی اہمیت رکھتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔

محمد ہلال عالم

ریسرچ اسکالر، روہیل کھنڈ یونیورسٹی بریلی یو پی۔

E-mail:- hhilalalam@gmail.com

website:- https://adabikavish.com/

error: Content is protected !!