وکیل صاحب رشید احمد صیدقی

وکیل صاحب

متعدد ناکام حملوں کے بعد ایک روز جون کے مہینے میں معلوم ہوا کہ ہمارا ہیرو یونیورسٹی سے ’’حق بخشوانے‘‘ میں کامیاب ہوا۔ اور ایک نیا سوٹ پرانی ٹائی اور اس سے پرانی ٹوپی جو ایام دماغ سوزی کی ’’تفسیر روغنی‘‘ ہو کر رہ گئی تھی زیب سر کرکے کلکٹر صاحب کے بنگلے سے لے کر نینی تال کی بلندیوں تک ڈپٹی کلکٹر کا گز بن گیا تھا۔ گرمی کا موسم جنون و مراق کے لیے مضمر ہوتا ہے۔ اسی لئے نینی تال، مسوری، شملہ کسول وغیرہ میں جب دو ایک گرمیاں سر سے گزر جاتی ہیںتو بقول شخصے ’’مغز کی گرمی‘‘ چھٹ جاتی ہے ، مکان واپس آتے ہیں ، والدین جوبی۔اے پاس ہو جانے کے بعد قانون پڑھانا اتناضروری سمجھتے ہیں جتنا حکماء منضج کے بعد مسہل دینا اور لیڈران قوم اسپیچ کے بعد چندہ لینا۔ ان کو قانون کا امتحان پاس کرنے پر مجبورکرتے ہیں۔ یہ بھی ایک مدت کی سرگرانی کے بعد ’’نے محقق بود نہ دانشمند‘‘ ہو کرواپس آئے اب جو دیکھئے تو ایک ٹوٹے ہوئے سائبان میں ایک خانہ ساز کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ سامنے ان کے خیالات کی طرح ڈانواں ڈول ایک میز ہے جس کا ایک پاؤں کسی حادثے کی نذر ہو گیا تھا، اس کے نیچے تین اینٹیں تلے اوپر رکھی ہوئی ہیں اور تین چار کتابیں، جن کو دیکھ کر دل ہی دل میں کڑھتے تھے ۔ اتنے میں ایک گاؤں سے جہاں کسی دہقانی کومیلی دھوتی کندھے پر لاٹھی اور لاٹھی کے سرے پر اس کا ایک جوڑا جوتا، جس پر تیل اور گرد کی تہیں جم چکی تھیں، پشت پر پتیل کا ایک لوٹا اور ایک میلی مختصر باہم دست و گریباں، کچھ بوکھلایا ہوا کچھ چوکنا رک کر آتے ہوئے دیکھا۔ فوراً سب سے موٹی کتاب کو اس بدحواسی کے ساتھ کھینچ کر بیچ میں سے پڑھنا شروع کر دیا کہ دوسری کتابیں میز پر منتشر ہو گئیں۔ اس خلفشار میں میز کا پایہ اینٹ پر سے کھسک گیا لیکن ڈگمگاتے ہوئے میز کو ایک طرف سے اپنی پاؤں پر سنبھال کر فوراً دریائے فکر میں غوطے لگانے لگے، ساتھ ہی ساتھ، کنکھیوں سے دہقانی کو بھی دیکھتے جاتے تھے۔ بدقسمتی سے اس کا رخ دوسری طرف مائل ہو گیا۔ انھوں نے مایوسی سے کتاب کو پٹک دیا۔ میز پہلے ہی سے ڈگمگا رہی تھی، ہلچل سے قلابازی کھا گئی، قہر درویش برجان درویش، سر جھکائے ہوئے کیل کانٹے درست کر رہے تھے کہ ایک دوسرا موکل نظر آیا معاً اپنی حالت زار کا اندازہ کیا اور سر اٹھاکر کرسی پر واپس آنا چاہتے تھے لیکن یہ بھول گئے کہ سر میز کے نیچے ہے، اٹھے تو سر میز سے ٹکرا گیا کسان قریب آیا۔ چوٹ کی وجہ سے ایک ہاتھ مقام ماؤف پر، آنکھیں ڈبڈبائی ہوئیں، کچھ خفت کچھ غصہ لیکن یہ سب حالتیں اس امید پر قابل برداشت تھیں جو نووارد کی ذات سے وابستہ تھیں۔آنکھوں کے اشارے سے مطلب دریافت کیا۔ کون اندازہ کر سکتا ہے کہ اس نگاہ میں یاس و امید کے کیسے مدد جزو اٹھ رہے تھے کتنے ایسے ہیں جو اس بدنصیب کے ان مبارک اور خوش آئند امیدوں کا اندازہ لگا سکتے اس نے اپنی طالب علمی کے زمانے میں محنت اور کلفت کی گھڑیوں میںشب کی تاریکی، صبح کی سپیدی اور شام کے دھندلکے میں مستقبل کے لیے قائم کر رکھے تھے۔ نووارد نے ایک دوسرے وکیل کا پتہ دریافت کیا۔ غریب نے ایک طرف تو اشارہ کر دیا۔ کسان روانہ ہو گیا۔ وکیل صاحب کی مایوس نگاہیں کچھ دور تک جانے والے کے ساتھ گئیں پھر تھک کر کہیں رہ گئیں۔

دن کے نو بجے ہیں وکیل صاحب نے کچھ کھا پی کر بستہ سنبھالا۔ شہر کے چوراہے پر یکّے کے انتظار میں جا کھڑے ہوئے ایک ہاتھ میں برنگ شکستہ چھری دوسرے میں بستہ بغل میں چوغہ کی پوٹکی یکہ والے 2آنے سواری پر مصر یہ ڈیڑھ آنے سے زیادہ دینے پر تیار نہیں جتنے یکے والے سامنے سے گزرے سبھی سے رد و قدح ہوئی کسی نے ان کا خیال نہیں کیا ۔ کسی نے سخت و سست بھی کہہ دیا غلط راستے پر کھڑے تھے ۔ ایک گھوڑے سے ٹکراتے بچے کانسٹبل نے ڈانٹا اور یہ بیچارے سمٹ سمٹا کر ایک طرف ہوئے ۔ ایک نہایت ہی حقیر اور شکستہ یکہ پر دو سواریاں پہلے موجود تھیں۔ اس میں ایک زنانی سواری تھی۔ یکہ بان پیر فرتوت بقول سودا گھوڑا ایسا جسے آگے سے تو بڑا دکھلایا جائے اور پیچھے سے لاٹھی ماری جائے تو چلنے پر آمادہ ہو ورنہ پاؤں کے نیچے پہئے لگانے کی ضرورت ہو۔ بہ ہزار دقت ڈیڑھ آنے پر معاملہ طے ہوا یکہ بان کے ساتھ تیسری سواری ہو کر بیٹھے بستہ بغل میں سر پر چھتری یکہ روانہ ہوا گھوڑے کی چال ان سواریوں کی حالت زار کے مطابق تھی۔ ہر ایک پر وجد طاری تھا اور ہچکولوں کی تال و سم پر سردھنستا تھا یا وکیل صاحب ضابطہ فوجداری یا ضابطہ دیوانی کے معلو م نہیں کس دفعہ میں غلطاں و پیچاں تھے کہ گھوڑے نے ٹھوکر لی بستہ معہ پوٹلی کے زمین پر آ رہا۔ اور خود کہنیوںکے بل گھوڑے کی پیٹھ پر آرہے۔

کرایہ کے یکے اور گاڑیوں کو کچہری کے دروازے تک جانے کی اجازت نہ تھی ناچار احاطے کے باہر وکیل صاحب اتر گئے اور نظر بچاتے ہوئے کچہری کی عمارت میں آئے۔ بستہ عرائض نویسوں اور محرر کے بوریے پر رکھا پوٹلی سے نکال کر گاؤن زیب تن کیا ایک مدت گزری ۔ کبھی اس چوغہ کا رنگ سیاہ تھا ۔ امتدادزمانہ اور وکیل صاحب کے پیش روؤں کی سر پرستی سے اس کی رنگت ان بالوں کی سی ہو گئی تھی ، جن پر عرصہ سے خضاب نہ لگایا ہو ۔ پچھلے دامن کی کوٹ علیٰحدہ ہو کر نیم یبضاوی شکل میں ان کی بے گناہی پر خندہ دنداں نما تھی۔ اس دامن کی ’’شہادت‘‘ کے بارے میں بعض اشخاص شبہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ سعادت ایک مؤکل کی دراز و دستی سے حاصل ہوئی تھی۔

وکیلوں کے کمرے میں پہنچے۔ یہاں کیس کا کون پرسان حال ہوتا ۔ ہمارا ہیرو مایوسی و درماندگی کی تصویر بنا ہوا ایک گوشہ میں بیٹھ کر سب سے سستے سگریٹ کی ڈبیانکال کر آخری سگریٹ پینے لگا۔ خیالات کا ہجوم کمرے میں ہوا کا گزر نہیں۔ دھوئیں کے حلقے فضا میں تحلیل ہو رہے تھے سگریٹ کی راکھ میز کے کنارے سے لگا کر گراتا جاتا تھا۔ دوسرے وکلا ہنس بول رہے تھے، شور پکار سے کمرہ گونج رہا تھا۔ سامنے ایک بوڑھے بنگالی وکیل کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک میلا بھدّے قسم کا کوٹ اسی کپڑے کا پائجامہ پاؤں میں کریپ سول کا ایک پرانا جوتا، کاغذ کے ایک خول پر چلم رکھ کر مسلسل کش لگا رہے تھے اور نظر مثل پر لگی ہوئی تھی ۔ چاروں طرف موکل جھکے ہوئے تھے ۔ کچھ نوجوان وکیل ارد گرد بیٹھے ہوئے تھے۔ جن کو وہ کبھی کبھی بنگلہ زبان میں کچھ نہ کچھ سمجھاتے جاتے تھے ۔

تھوری دیر میں ایک شخص ہانپتا کانپتا کمرے میں آیا۔ اور کہنے لگا’’حضور پکار ہو رہی ہے، بوڑھا بنگالی کمرۂ عدالت میں پہنچا۔ چپراسی نے جھک کر سلام کیا اور اس نے پہنچ کر دو ہی ایک نقطے ادا کئے تھے کہ مقدمے کی سماعت ملتوی کر دی گئی ۔ تاریخ بھی بدل دی گئی ۔ روپیوںکے بوجھ سے بنگالی وکیل کی مضبوط جیب کسی قدر اور لٹک گئی۔ اسی دوران حلوائی کا چھوٹا لڑکا پیتل کے ایک ہی پتے کے ہرے دونے میں دو گلاب جامن لایا۔ پیتل کے منجھے ہوئے لوٹے میںپانی بھرا ہوا تھا۔ بنگالی وکیل نے کریپ سول کا جوتا علیحدہ کیا۔ دونوں گلاب جامنوں کو داہنے ہاتھ کی انگگشت شہادت اور انگوٹھے سے اٹھاکر ٹھیک حلق کے اندر یکے بعد دیگرے ٹپکا دیا۔ پورے لوٹے کا پانی ایک سانس میں پی گیا۔ انگوٹھے کو منہ سے منہ کو انگوٹھے سے پوچھا اور مسلوں کی ورق گردانی میں مصروف ہو گیا۔ کوئی اندازہ نہیں کر سکتا تھا کہ یہ شخص کتنی دولت کا مالک تھا۔ رائے بہادر سی ۔آئی۔اے۔ پانچ ہزار روپیہ ماہورا آمدنی بنک آف انگلینڈ میں دس لاکھ کا حصہ دار ۔

۔۔۔ حاضر ہے۔ عدالت میں پکار ہوئی ۔ چپراسی نے کرخت آواز میں مستغیث کو آواز دی۔ ایک غریب نوجوان شریف عورت میلے کچیلے لباس میں عدالت کے دروازے پر متوحش کھڑی تھی۔ اس بد نصیب سے چپراسی کو کوئی رقم وصول نہیں ہوئی تھی۔ بڑے سخت لہجے میں پوچھا تیرا وکیل کون ہے ۔ غریب عدالت سے ناواقف طرح طرح کے لوگوں کا ہجوم۔ عدالت کا ایوان ہر طرف دوڑ دھوپ اور ڈانٹ ڈپٹ، یہ غریب ایک دور افتادہ گمنام گاؤں کی رہنے والی جس نے سادہ دل کسان اور بے زبان مویشیوں ک علاوہ کچھ اور نہیں دیکھا تھا، اس ہنگامے سے اور زیادہ مبہوت ہو گئی۔ چپراسی نے جواب نہ پاکر دھتکار دیا۔ سامنے سے ایک وکیل کا گزر ہوا ، سر چھوٹا پیٹ بڑا، نیت کھوٹی، آواز بھاری عورت نے آنکھوں سے اسی مقدمہ کی پیروی کر چکا تھا۔ عورت کی بے بسی کو نظر انداز کرکے فیس کا طالب ہو ا۔ غریب نے ہزار منتیں کیںبیوگی اور بے مائگی کا سانحۂ غم رو رو کر کہہ سنایا لیکن وکیل نے توجہ نہ کی اور آگے بڑھ گیا۔ غریب نے ایک بارپھر عدالت تک پہنچنا چاہا لیکن چپراسی سختی سے مانع ہوا اور مقدمہ عدم پیروی میں خارج ہو گیا۔

ایک اور وکیل صاحب کلکتہ ہائی کورٹ میں مدت تک کام کر چکے تھے۔ زمانے کی گردش سے مفلوک الحال ہو گئے تھے۔ زندگی کا آفتاب لب بام تھا کہولت اور کمزوری کے باعث نشست و برخاست میں بھی دقت ہوتی ہے لیکن قانون کے روگ میں اب تک مبتلا ہیں۔ عدالت میں ا ن کا وجود سب پر وبال ہے۔ وکلا یا حکام کی لائبریری میں ان کا گزر ہوتا ہے تو لوگ بے رخی سے پیش آتے ہیں۔ تازہ نظائر کے مطالعہ کے شائق ہیں اور ان کا خلاصہ اپنی اس نوٹ بک میں درج کرتے جاتے ہیں ، جس کے اطراف کے جلد مدت ہوئی حق رفاقت اداکرکے واصل بحق ہو چکی ہے اور ادھر ادھر کے دس بیس اوراق بھی غائب ہو چکے ہیں۔ ہاتھ میں میلے اور ملگجے کاغذات کا ایک پلندہ رہتا تھا، جس کے متعلق لوگوں کا یہ خیال تھاکہ ان کے ابتدائی زمانہ کے وہ پراسرار کاغذات تھے جن کی نسبت یقین کے ساتھ کوئی رائے قائم نہیں کی جا سکتی تھی۔ ملکی مسائل اور سیاسی اصول پر اس سرگرمی اور جوش کے ساتھ گفتگو کرتے کہ لوگ متحیر رہ جاتے ۔ قانونی نکات خوب سمجھتے تھے لیکن ان کا حلیہ ان کی حالت ان کی کہولت کچھ ایسے اسباب تھے کہ ان کی طرف کوئی رخ نہیں کرتا تھا۔ ان کی وضعداری کو دیکھئے دس بجے دن سے پانچ بجے شام تک نچلے نہ بیٹھتے اور کبھی ایک پیسہ نہ کمایا ۔ شام کو گھر کو مراجعت کرتے تو آدھ گھنٹے سے کم وقت کرایہ چکانے میں صرف نہیں کرتے تھے ۔ یکہ والے ان کی صورت دیکھ کر پناہ مانگتے تھے۔ یہ الف لیلہ کے اس تسمہ پا بوڑھے کی مانند تھے ، جس کی پاؤں جس کسی کی گردن میں حمائل ہو جاتے تھے، اس کی آخری سانس تک حق رفاقت ادا کرتے تھے!

وکلاء کے کمرے سے علیحدہ محرروں اور عرائض نویسوں کی نشستگاہ سے ایک صاحب قابل توجہ ہیں جو منصفی کے وکیل ہیں۔ سر پر پٹھے جو بیچ سے علیحدہ کر دئے گئے تھے، بال خضاب سے سیاہ چہرے پر جھریاں، آنکھوںمیں سرمے کی تحریر، ململ کی بنددار اچکن زیب تن ، عمامہ بر فرق جیسے ابھی کہیں سے عقد پڑھا کر پھوہارے لئے ہوئے چلے آرہے ہیں۔ بڑی مہری کا پاجامہ جس میں چار اانگل چوڑی گوٹ لگی ہوئی ، حاشیہ کے اندر سخ ڈورے دے دیئے گئے تھے۔ اردو کی قانونی کتابوں کا بستہ سامنے تھا، جس میں عرضی دعوے وغیرہ لکھنے کے مجرب نسخے تہ کئے ہوئے رکھے تھے۔ کہاجاتا ہے کہ ان کے ایک شاگرد ہمارے وہ وکیل صاحب رہ چکے تھے، جن کا ذکر ابتدا میں آیا ہے، ایک مسودہ لے کر اصلاح کے لیے حاضر ہوئے ۔ انھوں نے دبیز شیشوں کی عینک ناک کے کنارے پر رکھ کر میلے کچیلے ڈورے سر کے پیچھے کھسکا کر باندھ دیئے۔ کاغذ کو ہاتھ میں لے کر انتہائی فاصلہ سے پڑھنا شروع کیا۔ پہلے ہی لفظ پر ’رُکے‘ مسودہ زمین پر پٹک دیا، عینک لکڑی کے ایک خول میں جس کا ڈھکنا اسی وقت سے غائب تھا، جب سے وکیل صاحب نے اس وادی میں قدم رکھا تھا، بند کر دی گئی۔ غریب شاگرد گھبرایا، کچھ دیر تک وکیل صاحب پیچ و تاب کھاتے رہے ، آخر کار شاگرد نے ڈرتے ڈرتے عتاب کی وجہ دریافت کی تو فرمایا۔ ’’میاں تمہیں عرضی دعویٰ لکھنا کیا آئے گا، خاک مدتوں سے ساتھ ہو اتنا مغز مارتا ہوں لیکن تمہارے دماغ میں کوئی بات نہیں گھستی۔ بس اب ہو چکا بدنامی مول لینا نہیں چاہتا۔‘‘
شاگر۔’’آخر کیا غلطی ہوئی میں نے حتی الوسع نہایت کوشش سے مسودہ تیار کیا ہے۔‘‘ وکیل صاحب‘‘ اچھا لو ایک موقع اور دیتا ہوں غور سے پڑھ جاؤ ، سامنے ہی غلطی ہے ہاں ، شاباش! شاگرد ایک ایک لفظ غور سے پڑھ گیا، مسودہ کو الٹ پلٹ کر دیکھتا رہا لیکن کوئی غلطی نہ پاکر کاغذ واپس کر دیااور عرض کیا’’وکیل صاحب مجھے تو اب بھی کوئی غلطی نظر نہ آئی۔‘‘

وکیل صاحب بر افروختہ ہو کر بولے ’کیوں‘ خلاصہ فریاد ہے، کہاں لکھا ہے۔بسم اللہ ہی غلط ‘‘ شاگرد خاموش ہو گیا اور مایوس و ملول گھر واپس آیا۔ ایک بی بی دو بچے موجود تھے ، بچے دوڑ کر لپٹ گئے ، جیبوں میں ہاتھ ڈال دئے‘‘ ابّا میرے لئے کیا لائے ، میں تو آج ناشپاتی ضرور لوں گا، اماں پیسے نہیں دیتیں ، کہتی ہیں ابا کچہری سے ناشپاتی لائیں گے ، چھوٹی لڑکی ماں کے پاس سے دوڑ کر بد قسمتی باپ کے گھٹنوں میں لپٹ گئی۔ ’’ابّا کچہری نہ جایا کرو۔ تم نہیں تھے، فاطمہ کی ماں (ہمسائی) آن کر اماں سے روپے مانگتی تھی اور جب اماں نے کہا کہ تم کچہری سے آن کر دے دوگے تو وہ بہت بگڑی اور شور مچانے لگی۔ اماں اب تک رو رہی تھیں ، کھانا بھی نہیں کھایا ہے۔ کچہری سے آتے ہو تو بیمار معلوم ہوتے ہو۔ میرے ساتھ دن بھر رہا کرو، ہم تم ساتھ جھولا جھولیں گے‘‘ کیوں اماں اب بابا بھی ساتھ رہیں گے تو گھر میں آکر کوئی شور نہ مچائے گا۔‘‘

بیوی جو انکے لیے چشم براہ تھی ناہموار قدم کی چاپ سن کر سمجھ گئی کہ آ ج بھی حالات میں کوئی امید افزا تبدیلی نہیں ہوئی تھی لیکن متبسم ہو کر خیر مقدم کیا ۔ بیوی کے اس انداز پذیرائی سے شوہر کے جذبات متلاطم ہو گئے۔ اس نے بچوں کو گود میں لیا اور پرنم آنکھوں سے بیوی کی طرف دیکھتے ہوئے بولا خدا کا شکر ہے میری قسمت ناقابل رشک نہیں۔

error: Content is protected !!