ناول خدا کی بستی
-:خلاصہ
ناول کا آغاز”گلی کے نکڑپر میونسپلٹی کی لالٹین روشن تھی“اس لائن کے ساتھ ہوتاہے۔ جہاں پر اس کی روشنی میں محلے کے کچھ نوعمرلڑکے تاش کھیل رہے ہوتے ہیں۔ ان لڑکوں میں راجہ،شامی اورنوشایہ تین دوست ہوتے ہیں۔ ان کا روز کا یہی شغل تھا کہ یہ اپنے اپنے کام سے فارغ ہوکر اسی جگہ جمع ہوتے اورتاش کھیلا کرتے یا پھر سنیما دیکھنے چلے جاتے۔
نوشا، شامی، راجہ یہ تینوں کرداراس ناول میں چھائے رہتے ہیں۔ ناول کی کہانی انھیں کے اردگرد گھومتی رہتی ہے۔ یہ لوگ مختلف طبقوں کی حقیقتوں سے آشنا کراتے ہیں اس دور کی سماجی حالات اوراس میں رہنے والے لوگوں کی زندگی کا حال انھیں کے کرداروں سے بیاں ہوتاہے۔
نوشاعبداللہ مستری کی ورکشاپ پرکام کرتا ہے۔ نوشا کے گھر میں اس کی ماں، بہن سلطانہ اورایک چھوٹا بھائی انوہے جس کا نام انور ہے۔ نوشا کی ماں بیڑیاں بنانے کاکام کرتی ہے۔ نوشا کے والد کا انتقال ہوچکا ہے اس لیے ماں گھرپر بیڑیاں بناتی ہے اور نوشا ورکشاپ پرکام کرتا ہے۔بس اسی سے ان کا گھرچل رہا تھا۔
راجہ جو کہ ایک اہم کردار ہے وہ گداگری کرتاہے۔ ایک بوڑھے کوبیٹھا کرشہرمیں گھومتا ہے اورجوپیسے ملتے ہیں اس سے یہ دونوں لوگ اپنا پیٹ بھرتے ہیں اور دوسرے اخراجات پورے کرتے ہیں۔
شامی روز صبح اٹھ کر اخبار بانٹنے جاتا ہے۔ اورپھر اپنے والد کے ساتھ دکان پربیٹھ جاتا تھا۔ شامی کاباپ بساطی تھا۔
نوشا اوراس کی ماں ایک کرائے کے مکان میں رہتے تھے جوکہ نیاز نام کے ایک کباڑی کا ہے۔ اوروہ ہرمہینہ اس مکان کا کرایہ لینے آتاتھا۔ نیاز کی بیوی فوت ہوچکی تھی۔اولاد بھی کوئی نہیں تھی۔ دوسری شادی بھی نہیں کی تھی۔ ایک دن نیاز کے پاس نوشاتین مہینے کاکرایہ دینے جاتا ہے تووہ اسی سے معلوم کرتا ہے کہ توکیا کررہا ہے۔ نوشا اس کوبتاتا ہے کہ وہ عبداللہ مستری کی ورکشاپ پرکام کرتا ہے۔ تب نیاز نے اس کو ورکشاپ سے چوری کرنے کی ترکیب بتائی اور پیسے کا لالچ دیا۔ کہا کہ کچھ نہ کچھ پرزے چرالایا کر۔ میں خرید لیا کروں گا۔ پہلے تونوشا گھبرایا لیکن جب نیاز نے اسے لالچ دیا اور ایک روپیہ اس کی جیب میں ڈال تو نوشا راضی ہوگیا۔پھر تونوشاکا روزکا معمول ہوگیا تھا کہ ورکشاپ سے کچھ نہ کچھ پُرزے چراکر لانا اور نیازکباڑی کو اونے پونے داموں میں بیچ دیتا۔اس سے اس کو خرچ کے لیے بھرپور پیسے ملنے لگے۔ لیکن یہ بات کب تک چھپی رہتی۔ایک دن نوشا پُرزے لے جاتا ہوا پکڑاجاتاہے اور اس کی بہت پٹائی ہوتی ہے۔عبداللہ مستری نے اس کوورکشاپ سے نکال دیتا ہے۔اسی بیچ میں نیازنوشا کے گھرآتا جاتا رہتا ہے اوروہ سلطانہ پربری نظررکھنے لگتا ہے۔ سلطانہ نیازکوبالکل بھی پسند نہیں کرتی ہے۔ ایک دن سلطانہ کی ماں نیاز سے کہتی ہے کہ تم اپنا گھربسالوکب تک تکلیفیں اٹھاؤگے۔ نیاز نے فوراً کہا ”سوچ تو میں بھی یہی رہا ہوں“۔ نیاز چاہتا تھا کہ سلطانہ کی ماں اس سے سلطانہ کے بارے میں ذکرکرے۔ لیکن نوشا کی ماں کہتی ہے ہے کہ اگرسلطانہ بڑی ہوتواس کی شادی تم سے کردیتی۔ لیکن تم بہت بڑے ہو۔ یہ سن کر نیازکو صدمہ لگتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میری عمرزیادہ نہیں،سلطانہ کی ماں شرمائے ہوئے کہتی ہے کہ میں تم سے دوچارسال چھوٹی ہوں۔ سلطانہ کی شادی کسی اچھے سے لڑکے سے کروں گی۔ ادھرنیاز اسی بات سے پریشان ہوگیا کہ نوشا کی ماں نے سلطانہ کی شادی کہیں اورکرنے کا ارادہ کرلیا ہے۔ وہ خود سلطانہ سے شادی کرنے کا خواہش مندتھا۔ پھرایک دن اس کو کالے صاحب ملتا ہے۔ جو کہ ایک بیمہ ایجنٹ ہے۔ کالے صاحب نیاز سے کہتا ہے کہ میاں اب تم شادی کرلو اوربیمہ کروالو۔ بیمہ کانام سن کر نیازکوغصّہ آجاتا ہے اوروہ کہتا ہے کہ یہ بیمہ ویمہ کی باتیں مت کرو۔ بس تم یہ بتاؤ کہ کوئی ترکیب ہے جس سے سال دوسال میں چالیس پچاس ہزار کی رقم مل جائے۔یہ سن کر کالے صاحب کہتا ہے کہ ایک طریقہ ہے۔ اپنے بچے یا بیوی کا بیمہ کروالو اگرسال بھرمیں ان کی موت ہوجائے توپچاس ہزارکیا ایک لاکھ بھی مل جائیں گے۔ لیکن اس کے لیے تم کوشادی کرنا ہوگی۔ یہ سب سن کرنیاز ایک منصوبہ بناتاہے۔ وہ سوچتا ہے کہ پہلے نوشا کی ماں سے شادی کی جائے پھر اس کو ایک سال کے اندرموت کی آغوش میں سلا کر بیمے کی رقم حاصل کی جائے اور پھرسلطانہ سے شادی کی جائے۔ اسی کے مدنظر نیاز ڈاکٹر موٹو(جس کانام جرات محمدتھا) کے پاس جاتا ہے اورساری بات بتاتاہے۔ ڈاکٹر موٹو اس سے کہتا ہے کہ صرف چند انجکشن لگوانے ہوں گے جس سے دل کمزورہو جائے گا اورحرکت قلب بندہوجانے سے موت واقع ہوجائے گی۔ اس کام کے ڈاکٹر موٹو پانچ ہزار روپیے لیتا ہے۔ یہ سب منصوبہ کرنے کے بعد نیاز کسی طرح نوشا کی ماں سے شادی کرلیتا ہے اورایک دن کالے صاحب سے نوشا کی ماں کا بیما بھی کروالیتا ہے۔ پھرڈاکٹر موٹو روزانہ آکرانجکشن لگاکرکہتا ہے کہ جلد ٹھیک ہوجائے گی۔ اسی بیچ میں ایک طالب علم سلمان نوشا کے گھر آنے لگتا ہے۔ کیوں کہ ایک دن نوشا نے شراب پی تھی تواس کو راستہ میں کوئی گاڑی والا ٹکرمار کربھاگ گیا تھا۔ اس دن نوشا کوسلمان نے اس کے گھر پہنچایاتھا۔ سلمان بھی سلطانہ سے محبت کرنے لگتا ہے۔ اورونوشا کی ماں سلطانہ کی شادی اس سے کرنے کو تیارہوجاتی ہے لیکن سلمان وعدہ کرکے سلطانہ کے گھرنہیں آتاہے اور اپنی کشمکش میں گھرجاتاہے۔ نوشا کی ماں سلمان کی آس چھوڑدیتی ہے۔
ادھرنوشاورکشا سے نکالے جانے کے بعد دن بھرآوارہ گردی کرتا ہے۔اپنے دوستوں کے ساتھ گھومتا رہتا۔اس نے ایک معمول بنالیا کہ راشن دفتر کے سامنے نیم کے پیڑکے نیچے جاکربیٹھ جاتا ہے۔ یہیں سائیکلوں کی مرمت کی دکان تھی۔ اس کا مالک مجیدتھا۔ جس سے انھوں نے دوستی کرلی تھی۔ یہ اس کے کام میں ہاتھ بٹادیتے۔ ایک دن مجید کے پاس کام نہیں تھا۔ دفترکے سامنے بہت سی سائیکلیں کھڑی تھیں۔ راجہ اور نوشاموجودتھے انھوں نے سائیکلوں میں پکچر کردیا اورپھراس دن مجید کی خوب آمدنی ہوئی۔ مجید نے ان دونوں کوپیسے دیے۔ اسی طرح پنچرکرتے کرتے ایک یہ پکڑے جاتے ہیں اور ان پربہت مارپڑتی ہے۔پھر یہ لوگ وہاں سے بھی بھاگ جاتے ہیں۔
پھر ایک دن نوشا کواس کی ماں ڈانٹ کرگھرسے نکال دیتی ہے تونوشا سیدھا راجہ کے پاس جاتا ہے۔ راجہ نوشا کوکراچی بھاگ چلنے کو کہتا ہے۔ دونوں تیارہوجاتے ہیں۔جاتے جاتے شامی کوبھی ساتھ لے لیتے ہیں شامی بیچ راستہ سے گھرواپس چلا جاتاہے۔ جب نوشا اور راجہ کراچی پہنچ جاتے ہیں توان کوایک رحمان نام کاآدمی شاہ جی کے ہاتھوں بیچ دیتا ہے۔ شاہ جی بہت شاطر آدمی تھا اورچوری کرنا اس کا شغل تھا۔ اس کا یہی کام تھا کہ وہ ایسے لڑکوں کواپنے پاس رکھتا ہے اوران کوشہر کے امیرگھروں میں نوکربناکر بھیجتاہے اورپھر ان سے گھر کا بھیدلے کر اس گھرمیں ڈاکہ ڈالتا ہے۔ شروع شروع میں شاہ جی نوشا اور راجہ کوبہت پیارسے رکھتا ہے نئے نئے کپڑے دلانا ہے اوراچھا کھانا کھلانا ہے۔پھر ایک دن شاہ جی کا نوکر”نورا“نوشا اور راجہ کولے کرشہرمیں سڑک کے دونوں کنارے بنی کوٹھیوں کی طرف لے جاتا ہے اور انھیں میں سے ایک کوٹھی میں راجہ کو نوکری کرنے کے لیے بھیجتا ہے۔راجہ کوایک انجینئر کے گھر نوکری پر رکھ لیا جاتا ہے۔ نوراراجہ سے کہتا ہے ہ اس گھرکو اچھی طرح بھانپ لے اورجوزیوراورقیمتی سامان رکھاہوا س کو دھیان سے دیکھ لیا کرکہ کہاں کہاں رکھتے ہیں۔ اب اسی طرح ایک دن شاہ جی اوراس کے ساتھ اسی انجینئر کے گھر میں چوری کرتے ہیں اورسارا سامان لے جاتے ہیں اورساتھ میں راجہ کوبھی لے جاتے ہیں۔ راجہ اسی چوری کرنے سے خوش نہیں تھا وہ نہیں چاہتا تھا کہ شاہ جی کے پاس دوبارہ جائے۔اب جس انجینئر کے گھرمیں چوری ہوئی تھی اس کا بھائی سپرنٹنڈنٹ پولس تھا۔لہٰذا واردات کے سلسلے میں سخت تفتیش ہونے لگی۔ جگہ جگہ چھاپے پڑے۔پولس کوسب سے زیادہ تلاشی راجہ کی تھی اس سے سارا سراغ مل سکتا تھا۔ ایک دن نوشا اور راجہ شاہ جی کے گھرسے بھاگ جاتے ہیں اورسیدھے انجینئر کے گھر پہنچتے ہیں اور سارا واقعہ بیان کردیتے ہیں۔ انجینئر پولس کوبلالیتا ہے اورپولس دونوں کو لے جاتی ہے۔ کچھ دن بعد شا ہ جی اوراس کے سبھی ساتھی بھی پکڑے جاتے ہیں۔مقدمہ چلتا ہے اورشاہ جی اوراس کے ساتھیوں کو ڈاکہ زنی اور دوسرے جرائم کی پاداش میں چارچار سال کی قید بامشقت کی سزادی جاتی ہے۔ راجہ اورنوشا کواعانت جرم میں سال،سال بھرکی سزاہوتی ہے۔چوری کا مال بھی برآمد کرلیا جاتا ہے۔
دوسری طرف سلمان کوایک دن علی احمدملتا ہے وہ اسے اپنے گھرلے جاتاہے۔ علی احمد کے توصل سے سلمان صفدر بشیرسے ملتاہے۔ صفدربشیر کے یہاں ایک جلسہ منعقد ہوتاہے۔ اسی جلسہ میں ایک چھوٹی تنظیم قائم کی جاتی ہے۔ تنظیم کا نام فلک بیما رکھا جاتاہے اور اس فلک بیما کا ہررکن اس کا ٹی لارک کہلایا جاتاہے۔ اس کا ٹی لارکوں کا جماعتی نشان سفید پھول تجویزکیا جاتاہے۔ فلک بیما کے ارکان کی تعداد سردست دس رکھی گئی تھی یعنی وہ لوگ جنھوں نے جلسے میں شرکت کی۔ اسی طرح اس تنظیم میں ہرروز جلسہ ہوتاتھا۔ ان اسکائی لارکوں کا یہ کام تھا کہ مختلف بستیوں کا دورہ کرنا اور عوام سے مل کر ان کے بنیادی مسائل معلوم کرنا اور اس کی رپورٹ اجلاس میں پیش کرنا۔ اس رپورٹ کے مطابق عوام کی ضرورتیں پوری کی جاتیں۔ اس تنظیم کا ہررکن مختلف علاقوں میں جاکربزرگوں کوتعلیم دینا اوراس طرح تعلیم حاصل کرنے والوں کی تعداد کافی بڑھتی چلی گئی۔ یہ لوگ مفت میں پڑھاتے تھے۔ سلمان اور علی احمددن میں بیڈکو اٹر میں طریقہ تعلیم پر لیکچردیتے اور شام کوعملی تربیت کے لیے انھیں بستی کے اسکول لے جاتے اور یہ سب باری باری سے لوگوں کو سبق پڑھاتے فلک بیما تنظیم لے ٹائی فائڈ کی وبا کوختم کرنے کے لیے جگہ جگہ کیمپ بھی لگائے اسکائی لارکوں نے اب اسپتال کے لیے زمین کی تلاش کرنا شروع کردیا تھاجس سے کہ لوگوں کا علاج کم دام پرکیا جاسکے۔ اس کے لیے کمیٹی بنائی گئی اور مختلف علاقوں کا دورہ کیا گیا اورپھرسڑک کے کنارے فرزندعلی نے اسکائی لارکوں سے ملاقات کی اوراسکائی لارکوں کوپیسے کا لالچ دے کرخود کی بھی حصہ داری کومنظورکرنے کوکہا۔ جس کواسکائی لارکوں نے رد کردیا۔ کیوں کہ خان بہادر کوکم وقت میں زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرنے کی خواہش تھی۔ رات کو ایک بارپھرسے خان بہادر پھرسے منع کردیتے ہیں۔ اس بار خان بہادر کا چہرہ فق پڑجاتاہے۔ اوروہ وہاں سے چلاجاتاہے۔ ایک دن پھرسے فلک بیمار کی کانفرنس ہوتی ہے تواسپتال کی تعمیر کے لیے گروپ بنایا جاتاہے۔ پھریہ گروپ اگلے دن پلاٹ کا سروے کرنے جاتے ہیں تووہاں چاردیواری بنی ہوئی پاتے ہیں اوروہیں پرایک بورڈ لگاہوتاہے جس پرلکھا تھا”نورانی مسجد“۔ان اسکائی لارکوں کی زمین پرکسی نے راتوں رات مسجد بنوادی۔ یہ سب کام خان بہادر نے کروایا تھا کیوں کہ اس کی پہنچ بہت دور دورتک تھی اوراس کے پیسوں کا رسوخ بھی۔ اسی کی وجہ سے یہ لوگ اپنی زمین سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ خان بہادر وہاں پر دکانیں بنواتاہے اور اس کے پیچھے مسجد تعمیرکراتاہے۔ اوراس طرح اس کی آمدنی کا سلسلہ چل پڑتاہے۔ اسکائی لارکوں نے تمام جگہ شکایتیں کی لیکن کچھ نہ ہوا۔ دین کی آڑ میں خاں بہادر اپنا کام کرگیاتھا۔ اس واقعہ کے بعد اسکائی لارک اپنا نیا ہیڈکوارٹر تیار کرواتے ہیں اوراپنا تعلیم بالغاں کے کام کو جاری رکھتے ہیں۔ شہر کی پس ماندہ بستیوں میں تعلیم بالغاں کے پانچ مرکزقائم کرتے ہیں۔ ایک ڈسپنسری بھی قائم کی جاتی ہے۔ اس میں صبح شام مریضوں کا علاج کیا جاتا۔ اس کو ڈاکٹر زیدی سمجھاتے تھے۔اس کے علاوہ فلک بیما نے دستکاری اور گھریلو صنعت کو بھی فروغ دینے کے لیے انڈسٹریل ہوم کھولاتھا۔
اس کے دوحصے بنائے ایک مرد کے لیے دوسرا عورت کے لیے۔اس میں بیوہ اورلاوارث عورتوں کوتربیت دی جاتی تھی۔جوسامان تیارہوتا وہ بازارمیں بک جاتا۔ایک بارپھر خان بہادر ان کے پاس آتا ہے اوراس باروہ یہ مقصد لے کرآیاتھا کہ ”میونسپل بورڈ کے انتخاب میں امیدوار کی حیثیت سے شامل ہورہا تھا۔ اوراس کو اسکائی لارک کے ذریعہ لوگوں کا ووٹ حاصل کرنا تھا۔ لیکن اسکائی لارک نے اس کی بات کو رد کردیا اور خودبھی امیدوار کے طورپر کھڑے ہوگئے۔ جو کہ خان بہادر کو برالگا۔ ڈاکٹر زیدی اسکائی لارکوں کی طرف سے امیدوار منتخب کیے گئے۔ جب خان بہادر نے اسکائی لارکوں کی شہرت دیکھی اوراسیہ لگنے لگا کہ وہ ہار جائے گا تواس نے ایک چال چلی اوراس نے اسکائی لارکوں کے ہیڈکوارٹر پر حملہ کروا دیتاہے۔اس میں فلک بیماکے ہیڈکوارٹر کوآگ لگادی جاتی ہے جس میں فلک بیماکا بانی صفدر بشیر ماراجاتاہے۔ فہیم اللہ دیوارکود کر بھاگ جاتا ہے۔ ڈاکٹر زیدی اورکئی دوسرے اسکائی لارک شدید زخمی ہوجاتے ہیں ان کواسپتال لایا جاتا ہے۔ فلک بیما کے بھی کاغذ پولس کے جاتی ہے اوراسکائی لارکوں کوگرفتار کرلیاجاتاہے۔ اب خان بہادر آسانی سے چناؤ جیت جاتاہے جیتنے کے بعدخان بہادر اسکائی لارکوں کی ضمنات کروادیتاہے۔
اب نیازاور نوشاکی ماں کا حال ملاحظہ کیجیے:۔
شادی کے بعد نیاز نے دکان کا سامان اٹھاکر اپنا سامان نوشا کے گھرمیں منتقل کرلیا۔ مکان کی مرمت کروائی۔ سلطانہ کے ساتھ اچھا رویہ رکھا۔نیازنوشا کی ماں کو(جواب اس کی بیوی بن چکی ہے) کبھی کبھی سنیما لے جاتاتھا۔
ادھر ایک دن سلمان نوشا کے گھرآتا ہے اور سلطانہ سے ملتاہے۔ سلطانہ بات چیت کرنے کے بعد سلمان سے گھرآنے کے لیے منع کرتی ہے وہ بتاتی ہے کہ اماں کی شادی ہوچکی ہے۔ سلمان یہ کہہ کرواپس چلاجاتاہے کہ اگر میری ضرورت پڑے تو ابو کوبلانے بھیج دینا۔میں حاضر ہوجاؤں گا۔
نیاز نوشا کی ماں کوروزانہ انجکشن لگواتاہے جس سے کہ نوشا کی ماں کی حالت دن بہ دن خراب ہوتی جاتی ہے۔ ایک دن سلمان آتا ہے تو اس کی ماں کی طبیعت خراب ہوتی ہے وہ کہتی ہے کہ بیٹا اپنے دن پورے کررہی ہوں۔ سلمان ڈاکٹر زیدی کواپنے ساتھ لاتاہے اوروہ ان سے انجکشن لگوانے کومنع کرجاتے ہیں۔ نیاز ایک دن پھرضد کرتا ہے اورنوشا کی ماں نیازکی خوشی کی خاطر انجکشن لگوالیتی ہے۔ پھرایک دن اچانک نوشا کی طبیعت خراب ہوجاتی ہے اس وقت نیاز کہیں باہرگیا ہواہوتاہے صرف سلطانہ اکیلی ہوتی ہے اور سلطانہ کی ماں کودورہ پڑتا ہے اوروہ مرجاتی ہے۔ سلطانہ اپنی ماں کے اوپر رکھ کر روتی ہے۔ابوکو گودمیں بیٹھا لیتی ہے۔ جب نوشا کی ماں مرجاتی ہے تو نیازکو بیمے کی رقم مل جاتی ہے اوروہ ایک جنگل میں عالی شان کوٹھی لیتا ہے اور اس میں رہنے لگتا ہے باقی جوپیسہ بچتا ہے اس کووہ کاروبار میں لگالیتا ہے۔ سلطانہ اورانوکو بھی وہ اپنے ساتھ رکھتاہے۔ نیاز سلطانہ کے ساتھ وہاں بھی اچھا سلوک کرتاہے۔ سلطانہ کے پیچھے نیاز اس کے بھائی انوکوخوب مارتا ہے اوربہت پریشان کرتاہے۔ ایک دن انوگھرسے بھاگ جاتا ہے اور ہیجڑوں کے ساتھ رہنے لگتاہے۔ ادھرسلطانہ انوکے بھاگ جانے سے بہت پریشان تھی۔ ایک رات تیزآندھی طوفان آتاہے اور چاروں طرف اندھیرا چھاجاتاہے۔ نیازاٹھ کر سلطانہ کے کمرے میں جاتا ہے اوراس کو زبردستی گودمیں اٹھاکراپنے بسترپر لٹالیتا ہے اوراسی کے ساتھ سوجاتاہے۔ اس کی عصمت تارتار کردیتاہے۔ سلطانہ کے ایک ناجائز اولاد ہوتی ہے وہ اسے پالتی ہے۔ خان بہادر اکثرنیاز کے گھرآناجانا رہتاتھا کیوں کہ نیاز نے کمبلوں کا ٹھیکہ اس کی پارٹنرشپ میں ہی لیا تھا۔ اورکمبل بھی انھوں نے بہت گھٹیا بنائے تھے اس کی جانچ بیٹھ جاتی ہے جس میں یہ دونوں پھنس رہے ہوتے ہیں۔ خان بہادر کولگتاہے کہ نیازکوپولس گرفتار کرے گی تویہ میرانام لے دے گا۔ اسی کوسوچ کرخان بہادر نیازکو ٹھکانے لگانے کا منصوبہ بنارہا ہوتا ہے کہ انھیں دنوں میں نوشا اور راجہ جیل سے چھٹتے ہیں،نوشا جیب کترہ بن جاتا ہے۔ راجہ کی جیل میں ایک قیدی سے لڑائی ہوتی ہے وہ قیدی راجہ کے دونوں گھٹنیں بیکارکردیتاہے۔
نوشا جیب کترہ جانے کے بعد جگہ جگہ جیب کا ٹتاہے ایک دن اپنے استاد سے جھگڑاکرکے دوسرے علاقے میں جیب کاٹ رہا ہوتا ہے کہ کچھ لوگ اس کے پیچھے پڑجاتے ہیں وہ ایک پروفیسر کے مکان میں چھپ جاتاہے اورپھر پروفیسر اس کواپنے گھرمیں رکھ لیتا ہے۔ایک دن نوشا پروفیسر کی لڑکی زیادہ کے ساتھ پکڑاجاتاہے توپروفیسر اسے گھرسے بھگادیتاہے۔ نوشا گھر جانے کے لیے اسٹیشن پرآتا ہے وہاں اسے راجہ ملتا ہے جو ایک گداگاڑی پرہے اورکوڑھ کے مرض میں مبتلا ہے ایک کتااس کے قریب بیٹھا ہے۔ وہ نوشا کوآواز دیتاہے کہ یارایک بارتو میرے ساتھ بیٹھ جا۔نوشا اسے کچھ کھانے کودیتا ہے اور اس کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرتاہے۔ پھرگاڑی آجاتی ہے۔ نوشا راجہ کوکچھ پیسے دے کر اس سے وداع لیتا ہے اورگاڑی میں سوارہوکراپنے گھرواپس آجاتاہے۔ اسٹیشن پراس کوشامی ملتاہے جو ایک رکشا چلاتاہے۔ شامی اس کو بتاتاہے کہ نوشاتیری ماں مرگئی اور انوہیجڑوں کے ساتھ رہتا ہے۔ نیاز کی ساری باتیں نوشا کوبتاتاہے۔ نوشا سیدھا نیاز کے گھرجاتاہے اور لارکاقتل کردیتاہے۔ نوشا کوپھانسی کی سزا ہوتی ہے۔ ادھرخان بہادر کے راستہ کا کانٹا بھی نکل جاتا ہے جس کو مارنے کا وہ منصوبہ بنادے ہوئے تھا۔ اب وہ نیاز کی کوٹھی پرآتاہے اور سلطانہ سے جھگڑاکرتاہے کہ کوٹھی خالی کرو۔ کہتاہے کہ تم قانونی طورپرنیازکی بیوی نہیں اس لیے اب نیاز کی ہرچیزپر تمہارا حق ختم۔ غرض کہ یہ لوگ سلطانہ کواتنا پریشان کرتے ہیں کہ وہ اپنے بچے کو لے کر کوٹھی سے چلی جاتی ہے۔ اور پھراس کو فلک بیمار کے کواڑمیں رکھ لیا جاتاہے وہ وہیں پر سلائی کا کام کرلی ہے اور اپنا اور اپنے بچے کا پیٹ بھرتی ہے۔ بعد میں احمدعلی اس سے شادی کرلیتاہے۔
ادھر سلمان لگ بھگ ڈیڑھ مہینے تک اسپتال میں رہا۔ اسکائی لارک اس کوعیادت کوآتے تھے بعد میں وہ بھی آنا بندہوگئے۔ صحت یاب ہوکرسلمان ہیڈکواٹر پہنچتاہے۔زیدی سے ملتا ہے اورفلک بیما کا حال معلوم کرتاہے۔ زیدی اس کو ساری بات بناتاہے۔ پھرسلمان فلک بیما کارکن بن کرکام کرنے لگتا ہے۔ ایک دن سلمان اپنے گھرچلاجاتا ہے جہاں پر اس کی شادی رخشدہ نام کی لڑکی سے کردی جاتی ہے جس کو لے کروہ کراچی جانا ہے کیوں کہ ان کے خسرنے اس کی نوکری بھی لگواکردی تھی اورایک مکان بھی دیاتھا۔ وہ کراچی میں اسی مکان پررہتاہے اورپر روزاپنے آفس جاتاہے (یہ سب واقعہ نوشا کے کراچی میں ہونے کے وقت کا ہے) وہیں پر سلمان کی اچھی خاص زندگی چل رہی ہوتی ہے کہ اس کا منیجر جعفری اس کے گھرآنے جانے لگنا ہے اورجعفری اورسلمان کی بیوی اور ایک دوسرے سے خوب باتیں کرتے ہیں۔ سلمان کو یہ سب بہت برالگتا ہے اورپھر تویہ لوگ اس کی موجودگی میں گھرسے بھی باہر ساتھ جانے لگتے ہیں۔سلمان ان دونوں کومارنے کا منصوبہ بنانا ہے لیکن پھر سوچتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کیوں برباد کرے۔ وہ رخشندہ کو طلاق دے دیتا ہے اور مکان کو بیچنے کے بعد ملتا ہے وہ اس میں سے پانچ ہزار فلک بیما تنظیم کودے دیتا ہے۔وہیں پروہ سلطانہ سے ملتا ہے اوراس کا حال معلوم کرتا ہے۔ احمد علی کہتا ہے کہ یہ ہیں سلطانہ میری بیوی۔ سلمان چونک پڑتاہے۔ رفتہ رفتہ سلمان کو سلطانہ کی ساری باتیں معلوم ہوجاتی ہیں۔سلمان فلک بیما کی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگتا ہے اور اس کارکن بن کرپھرسے اپنے کام پر لگ جاتاہے۔
ادھر نوشا جیل میں تھا وہ زندگی اور موت کے دوراہے پر کھڑا اپنی قسمت کا فیصلہ سننے کا انتظار کررہا تھا۔ سلطانہ کونوشا کی بہت فکرتھی وہ کسی بھی طرح سے اس کی پھانسی کی سزاکوختم کروانا۔ چاہتی تھی اس کام میں احمدعلی اس کے ساتھ تھا۔ادھرشامی کوتپ دق ہوگئی تھی اور وہ ہروقت بخار میں رہتا اور اپنی زندگی کے آخری دن گن رہا تھا۔
احمد علی نے نوشا کے مقدمہ کی پیروی شروع کردی تھی۔ خان بہادر نے تمام گواہ نوشا کے خلاف مہیا کروادئیے تھے جس سے کہ احمدعلی کی پریشانی حددرجہ بڑھ گئی تھی۔ دوسری پیش میں احمد علی کے سارے گواہ مگر گئے کیوں کہ ان کو خان بہادر نے خرید لیاتھا۔ اب بس ایک گواہ سلطانہ ہی بچی تھی۔ اسی پر احمد علی کو بھروسہ تھا۔سلمان بھی نوشا کے مقدمہ میں دلچسپی لے رہا تھا۔ سلمان نوشا سے جیل میں بھی مل کرآیا۔ نوشا کا مقدمہ ہائی کورٹ میں چل رہا تھا۔ اسی کورٹ میں نوشا کی سزاکم کرنے کی اپیل کی گئی تھی۔ اس اپیل پرعدالت نے ایسا فیصلہ سنایا۔ نوشا کوصرف اتنی رعایت ملی کہ اس کی موت کی سزا کوچودہ سال قیدبامشقت میں بدل دیا گیا۔نوشا سزا سن کر چیخنا ہے کہ مجھے پھانسی دو، مجھے پھانسی دو، مجھے پھانسی دو، میں زندہ رہنانہیں چاہتا۔نوشا کوکانسٹبل لے جاتے ہیں۔ سلطانہ چیخ مارکر رو پڑتی ہے اورنوشا کی جانب لپکتی ہے۔ نوشا میرا بھیانہ جا۔ خدا کے لیے مجھے چھوڑکر نہ جا! احمد علی اس کو سمجھا لیتا ہے اورتسلی دیتاہے۔اس کی آنکھیں آنسوؤں کے قطر سے بھری میں۔
سلمان لمحہ بھرتک دونوں کودیکھتا ہے اور اس کی آنکھیں بھرآتی ہیں۔ پھرسلمان منہ پھیر کر آنسو پوچھتے ہوئے عدالت سے باہر چلاجاتا ہے۔
اسی کے ساتھ اس ناول کا اختتام ہوجاتاہے۔
”اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ نوشا اپنے لیے پھانسی کی مانگ کیوں کررہا تھا جبکہ سب لوگ اس کو بچانے کی کوشش میں مقدمہ لڑرہے تھے۔اسی بات کوشوکت صدیقی نے اپنی اس لائن کے ساتھ واضح کیا ہے کہ نوشا پھانسی کیوں چاہتا تھا ملاحظہ کیجیے:۔
”وہ پہلی بار جیل گیا تو واپسی پرجیب کترہ بن گیا۔ تب وہ صرف سال بھر کے لیے جیل گیا تھا۔ اب اسے چودہ سال کی سزاملی تھی۔ چودہ سال کی طویل مدمت میں وہ زیادہ بڑا اور زیادہ خطرناک جرائم پیشہ بن سکتا تھا۔مگر وہ جرائم پیشہ نہیں بننا چاہتا تھا۔اس زندگی سے موت بہترتھی۔“
(خدا کی بستی۔صفحہ 479)
اسی ناول میں شوکت صدیقی سماج کے تانے بانے کوکچھ اس انداز میں بیان کرتے ہیں:۔
”نوشا جیل میں تھا اور پھانسی کے پھندے کے سامنے میں کھڑا تھا اور خان بہادر فرزند ارجمند بیرونی ممالک میں اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے تھے اوراپنے مستقبل کی روشن صبح کی دہلیز پرکھڑے تھے۔ اپنی اپنی قسمت ہے۔ یہ خواص اورعوام کی قسمت کافرق ہے۔ خواص خان بہادر فرزندعلی پیداکرتے ہیں اورعوام نوشا، راجہ شامی اور انوکوجنم دیتے ہیں۔ ان میں کوئی قتل کرکے جیل جاتا ہے، کوئی کوڑھی بن کر ایڑیاں رگڑرگڑکے موت کا انتظار کرتاہے۔ کوئی رکشا کھینچتا ہے اورتپ دق میں مبتلا ہوکر خون تھوکتا ہے اور کوئی ہیجڑوں کے ساتھ تالیاں پٹخارکرکولہے مٹکانا ہے۔“