آزادی کے بعد ہندوستان میں اردو خاکہ نگاری: ایک جائزہ
(علی اویس جعفری)
اختصار کے ساتھ کسی شخص کے ظاہر و باطن کا تجرباتی تجزیہ ہی خاکہ ہے۔ مزید یہ کہ کسی شخص کے ظاہر و باطن کی خوبیوں-خامیوں یا عام باتوں کا ہمدردانہ، بے لوث، شگفتہ اور مختصر اظہار یا تجزیہ خاکہ کہلاتا ہے۔ خاکے کو مرقع یا قلمی تصویر بھی کہا جاتا ہے، کیوںکہ اس میں کسی شخصیت کی ظاہری خصوصیات جیسے حلیہ، شکل و صورت اور وضع قطع وغیرہ کی ایک قلمی تصویر اتاری جاتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس کے باطنی اوصاف جیسے اس کی سیرت، مزاج، عادات و اخلاق، رہن سہن اور طور طریقے وغیرہ بھی قلم بند کیے جاتے ہیں۔ خاکے کی چند اہم خصوصیات میں سے ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ اسے ہمدردانہ انداز میں لکھا جاتا ہے۔ خاکہ نگار خاکے میں کسی شخصیت کے متعدد پہلوؤں کو اختصار کے ساتھ اس انداز میں اجاگر کرتا ہے کہ قاری اس کی خوبیوں سے تو خوش اور محظوظ ہوتا ہی ہے، ساتھ ہی اس کی خامیوں سے بھی بجائے نفرت یا بد گمانی کے ہمدردی اور مروت محسوس کرتا ہے، البتہ قاری سوچ سکتا ہے کہ کاش یہ خامیاں بھی اس میں نہ ہوتیں۔ خاکے کا مقصد نہ کسی کی تعریف کرنا ہے اور نہ تنقیص کرنا ہے، نہ کسی کی مدح کرنا ہے نہ ہجو کرنا ہے۔ خاکہ مبنی بر حقیقت ہوتا ہے۔ اس کو پڑھ کر قاری صاحبِ خاکہ شخصیت کی خوبیوں اور خامیوں کا خود بہ خود اندازہ لگا سکتا ہے اور ایک ہمدردانہ رویّے کے تحت اس کے ظاہر و باطن کے حوالے سے کسی قدر گہرائیوں اور باریکیوں میں بھی پہنچ سکتا ہے یہاں تک کہ قاری کے سامنے صاحب خاکہ شخصیت کی صورت و سیرت ایک حقیقت کے طور پر آشکارہ ہو جاتی ہے۔ اگر کسی تحریر میں کسی شخصیت کی تعریف یا مدح سے اسے فرشتہ بنانے کی کوشش کی جائے یا تنقیص اور ہجو بیان کر کے اسے حیوانیت تک پہنچانا مقصد بن جائے تو وہ کوئی اور نثری صنف تو ہو سکتی ہے لیکن خاکہ ہرگز نہیں۔ یہاں تو خاکہ نگار شگفتہ انداز میں مطلوبہ شخصیت کے وہ اوصاف بیان کرتا ہے جو از خود اس کے تجربے اور مشاہدے میں آئے ہوں اور مبنی بر حقیقت ہوں۔ خاکہ نگاری ایک غیر افسانوی نثر ہے جسے کسی بھی چھوٹی بڑی شخصیت پر لکھا جا سکتا ہے۔ “نام دیو مالی” اور “کندن” جیسے عمدہ خاکوں نے واضح کر دیا کہ اس کے لیے کسی عظیم شخصیت کا انتخاب ضروری نہیں ہے، اگر چہ زیادہ تر مشہور خاکے اہم شخصیات پر لکھے گئے ہیں۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں ابتداءً خاکہ تذکروں یا دیگر مضامین اور انشا پردازی وغیرہ ہی کا ایک حصہ ہوا کرتا تھا جس کا اشارہ ہمیں محمد حسین آزاد اور چند دیگر مضمون نگاروں اور انشاپردازوں کے یہاں دیکھنے کو مل جاتا ہے۔ اس کے بعد جب اردو میں سوانح نگاری کی ابتدا ہوئی تو دیگر مضامین کی نسبت خاکے کے یہ متفرق اجزا سوانح کا حصہ بن گئے، جس کے اشارے حالی اور چند دیگر سوانح نگاروں کے یہاں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ خاکوں کا عکس ہمیں بہت سے منظوم کلام میں بھی نظر آ جاتا ہے۔ مرزا فرحت اللہ بیگ نے “ڈپٹی نذیر احمد کی کہانی” لکھ کر خاکہ نگاری کو ایک علیحدہ اور باضابطہ نثری صنف کے طور پر نمودار کر دیا۔ اسی قبیل میں مولوی عبد الحق کا لکھا ہوا خاکہ “نام دیو مالی” اور رشید احمد صدیقی کا “کندن” قابل ذکر خاکے ہیں۔ اس کے بعد سے لے کر دور حاضر تک خاکہ نگاری اپنے اس علیحدہ میدان میں ارتقائی منزلیں طے کر رہی ہے۔
آزادی کے بعد کی اردو خاکہ نگاری کے حوالے سے بات کی جائے تو بہت سے نئے لکھاری بھی میدان میں آئے اور بہت سے پرانے لکھنے والے بھی لکھ رہے تھے۔ پرانے لکھنے والوں کے بہت سے خاکے آزادی سے پہلے منظرِ عام پر آ چکے تھے اور بہت سے آزادی کے بعد نمو پذیر ہوئے۔ آزادی کے بعد لکھے جانے والے خاکے ہی ہماری گفتگو کا موضوع بھی ہیں، چاہے نئے لکھنے والوں کے ہوں یا پرانے مصنفین کے ہوں۔ واضح ہو کہ یہ مضمون خاکہ نگاروں یا خاکوں کی زمانی ترتیب کے اعتبار سے نہیں لکھا گیا، البتہ کہیں کہیں اس کا خیال رکھا گیا ہے۔
آزادیِ ہند کے بعد ہندوستان میں اردو خاکہ نگاری کے اس سلسلے میں مالک رام کا ایک اہم نام ہے۔ آپ کے خاکوں کا مجموعہ “وہ صورتیں الٰہی” مکتبہ جامعہ لمیٹڈ سے پہلی مرتبہ فروری ۱۹۷۴ء کو شائع ہوا۔ اس میں متعدد خاکے موجود ہیں جس میں زیادہ معروف سائل دہلوی، اور جگر مراد آبادی وغیرہ پر لکھے گئے خاکے ہیں۔ جگر مرادآبادی کے خاکے کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو۔
”میانہ قد؛ خاصا سانولا رنگ؛ چپٹی ناک؛ چھوٹی چھوٹی نیم وا آنکھیں اور ان میں سرخی کی جھلک؛ ہونٹوں پر پان کا لاکھا جما ہوا؛ ترشی ہوئی کھچڑی داڑھی جس میں چاول کم اور دال زیادہ تھی؛ سر پر لمبے لمبے بے ترتیب پٹھے، جو ٹوپی سے باہر نکلے پڑتے تھے؛ گلے میں سیاہ رنگ کی شیروانی اور نیچے چوڑیدار چست پاجامہ، سر پر سلیٹی رنگ کے بالوں والی اونچی دیوار کی ٹوپی اور پاؤں میں سیاہ رنگ کا پمپ پہنے تھے۔ طبیعت میں بے حد درجہ بیچینی اور وحشت، حال آنکہ وہ سرف چند منٹ کے لیے رکے، لیکن اس دوران میں بھی انھوں نے جو باتیں کیں کچھ عجیب اکھڑی اکھڑی سی۔ یوں معلوم ہوتا تھا، گویا اپنے سایے سے بھڑک رہے ہوں۔ یہ تھے جگر صاحب!”
مرزا محمود بیگ کی مضامین، انشائیوں اور خاکوں پر مشتمل کتاب “بڑی حویلی” کے نام سے منظر عام پر آئی، اس میں ایک خاکہ بہ عنوان “بی مُرادن” بہت مشہور ہوا۔
اپندر ناتھ اشک کا لکھا ہوا خاکہ “منٹو : میرا دشمن” پہلی مرتبہ نیا ادارہ نے ۱۹۷۹ء میں شائع کیا۔
مشہور ناول نگار اور افسانہ نگار قرۃ العین حیدر نے بھی کئی خاکے لکھے۔ “آئینۂ جہاں” کے عنوان سے کلیات قرۃ العین حیدر جسے جمیل اختر نے مرتب کیا ہے اس کی جلد دہم خاکوں اور خاکہ نما تحریروں پر مشتمل ہے۔ اس میں بہت سے مشہور خاکے درج ہیں، اسی میں ان کے اپنے والد سجاد حیدر یلدرم کا خاکہ بھی بہت مشہور ہے جو “مہاتما اور دیوتا سمان” کے عنوان سے لکھا گیا ہے۔ قرۃ العین حیدر کے خاکوں میں کسی کی تضحیک یا دل شکنی کا کوئی پہلو نہیں دکھائی دیتا، بلکہ آپ کے خاکوں میں ایک سلیقہ، ایک شائستگی اور ایک شگفتگی نظر آتی ہے۔ آپ نے اپنے خاکوں کے عنوانات اس طرح سے طے کیے ہیں کہ متعلقہ شخصیت کی عکاسی اس کے خاکے کے عنوان سے ہی ہونے لگتی ہے۔ مثلاً “مہاتما اور دیوتا سمان” کے عنوان سے سجاد حیدر یلدرم کا، “اندھیری رات کا مسافر” کے عنوان سے اسرار الحق مجاز کا، “ایک مہذب ظرافت نگار” کے عنوان سے شوکت تھانوی کا، “دیار فرنگ میں ایک فرنگی” کے عنوان سے صدیق احمد صدیقی کا، “شام اودھ کا ایک نغمہ نگار” کے عنوان سے جاں نثار اختر کا، “ایران میں اجنبی” کے عنوان سے ن۔م۔ راشد کا، “چاند نگر کا جوگی” کے عنوان سے ابن انشا کا اور “محل میں رہ کر جھونپڑوں کے خواب دیکھنے والا” کے عنوان سے سجاد ظہیر کا خاکہ لکھا۔ ان کے علاوہ آپ نے اور بھی بہت سے مشہور خاکے تحریر کیے۔
فکر تونسوی کی کتاب “خد و خال” خاکوں پر مشتمل ہے، اس میں انھوں نے “اپنا خاکہ” عنوان سے خود اپنا ہی خاکہ لکھا ہے۔ باقی دیگر شخصیات میں احمد ندیم قاسمی، کنہیا لال کپور اور مخمور جالندگھری وغیرہ کے خاکے لکھے گئے ہیں۔
ہندوستان کے مشہور ادیب اور فلم ہدایتکار خواجہ احمد عباس کی تصنیف “سونے چاندی کے بت” میں بہت سے خاکے بھی تحریر کیے گئے ہیں، جن میں مشہور خاکے راج کپور، دلپ کمار اور مینا کماری وغیرہ کے ہیں۔
آغا حیدر حسن کے بھی خاکے مشہور ہیں، آپ نے ایک خاکہ “سروجنی نائیڈو” کے عنوان سے بھی لکھا ہے جو ایک معروف خاکہ ہے۔ بعض جگہ اس خاکے کا عنوان “بیگم نیڈو” بھی درج ہے۔
خواجہ غلام السیدین کی ایک مشہور تصنیف “آندھی میں چراغ” کے عنوان سے شائع ہوئی ہے۔ اس کے حصہ دوم میں چند ایک خاکے بھی موجود ہیں، لیکن وہ ان کے لیے “خاکہ” کی اصطلاح استعمال نہیں کرتے، بلکہ وہ ان کی تعریف ذیل میں درج الفاظ کے ساتھ کرتے ہیں، ملاحظہ ہو۔
“حصہ دوم میں بعض افراد کی سیرت کشی کی گئی ہے جن میں کچھ مشاہیر شامل ہیں اور کچھ ذاتی دوست، عزیز اور بزرگ، یہاں بھی مقصد ان کی سیرت کا تجزیہ اور ان کی تمام خوبیوں اور کمزوریوں کی جانچ نہیں (یہ تو ان کے سوانح نگار کا کام ہے) بلکہ ان شریف قدروں کو اجاگر کرنا ہے جن کا جلوہ میں نے ان کی ذات میں دیکھا۔ یہ شاید میری فطری کمزوری ہے کہ مجھے لوگوں کی خوبیوں کو اجاگر کرنے سے خوشی ہوتی ہے اور ان کی کمزوریوں کی کھوج ایک فعلِ عبث معلوم ہوتا ہے۔”
بہر حال خواجہ غلام السیدین کی اس “سیرت کشی” کا شمار اردو خاکوں ہی کی فہرست میں کیا جاتا ہے۔ ان میں مشہور خاکے “سحر آفریں (مہاتما گاندھی)”، “میرِ کارواں (مولانا آزاد)”، “شمع محفل (سید راس مسعود)”، “دانائے راز (ڈاکٹر اقبال)” اور “مرد مومن (ڈاکٹر ذاکر حسین)” وغیرہ کے ہیں۔ ان کے علاو اس تصنیف میں چند اور خواتین وحضرات کے خاکے بھی موجود ہیں۔
خلیق انجم کے خاکوں کا مجموعہ “مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا” کے عنوان سے موجود ہے، اس میں رشید احمد صدیقی، مولانا امتیاز علی خاں عرشی اور استاد رسا دہلویؔ وغیرہ کے مشہور خاکے درج ہیں۔
انیس قدوائی کے خاکوں کا ایک مجموعہ “نظرے خوش گزرے” کے عنوان سے مکتبہ جامعہ لمیٹد دہلی سے پہلی مرتبہ مارچ ۱۹۷۶ء کو شائع ہوا اور دوسرا مجموعہ “اب جن کے دیکھنے کو” کے عنوان سے اسی مکتبے سے اپریل ۱۹۸۰ء کو شائع ہوا، جس میں ایک مشہور خاکہ چودھری محمد علی ردولوی کا بھی ہے۔
بیگم صالحہ عابد حسین کے خاکوں پر مشتمل مضامین ان کی کتاب “جانے والوں کی یاد آتی ہے!” کے نام سے شائع ہوئی تھی۔ اس میں “شفیق و صدیقہ” کے عنوان کے تحت شفیق الرحمٰن قدوائی اور صدیقہ قدوائی کے خاکے قلم بند کیے گئے ہیں۔
آزادی کے بعد کی خاکہ نگاری میں ایک بڑا نام علی جواد زیدی کا بھی ہے ان کے خاکوں کا مجموعہ “آپ سے ملئے” کے عنوان سے مکتبہ شاہ راہ دہلی نے پہلی مرتبہ ۱۹۶۳ء کو شائع کیا۔ اس مجموعے میں علی عباس حسینی، جوش ملیح آبادی، جگر مرادآبادی، نیاز فتح پوری، عبد الماجد دریا بادی اور اثر لکھنوی وغیرہ اور چند دیگر شخصیات کے خاکے درج ہیں۔ علی جواد زیدی کے خاکوں کا ایک اور مجموعہ جو زیادہ مشہور و معروف ہوا، “ہم قبیلہ” کے عنوان سے اتر پردیش اردو اکادمی سے ۱۹۹۰ء میں شائع ہو کر منظر عام پر آیا۔ عبد الماجد دریابادی کا خاکہ اس مجموعے میں بھی دوسرے انداز سے لکھا گیا ہے، جس کا عنوان “ایک چراغ تھا نہ رہا” ہے۔ اس کے علاوہ اس مجموعے میں مسعود حسن رضوی ادیب، رام بابو سکسینہ، احتشام حسین، ذاکر حسین، سہیل عظیم آبادی اور مجنوں گورکھ پوری وغیرہ کے خاکے موجود ہیں۔ ان کے خاکوں میں کسی شخصیت کے باطنی اوصاف کو بھی کافی باریکی سے دکھایا جاتا ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر ذاکر حسین کے خاکے میں باطنی اوصاف کے اظہار کی ایک مثال ملاحظہ ہو۔
“وہ بہت سی باتوں میں روایات کے دلدادہ مگر شدت اور تنگ نظری سے دور تھے۔ بہت سے باتوں میں وہ لبرل اور افراط و تفریط سے متنفر تھے، لیکن اصول و معتقدات کے معاملوں وہ چٹان کی طرح اٹل اور مستقل مزاج تھے۔ ان کی مستقل مزاجی، ہٹ دھرمی اور کٹھ حجتی نہیں بلکہ عقل و تجربے کی ترازو پر نپی تلی۔۔۔۔۔۔۔ذہنی اور عملی دیانت تھی۔ ان کے اختلاف میں جتنا استقلال تھا، اس کے اظہار میں اتنی ہی نرمی۔ ان کی ناقبلِ تسخیر مسکراہٹ پھول کی طرح شگفتہ بھی تھی اور اس کی گرمی سے مخالفوں کے دل بھی پگھل جایا کرتے تھے۔”
خواجہ احمد فاروقی کی خاکوں پر مشتمل تصنیف “یادِ یارِ مہرباں” کے نام سے موجود ہے۔ اس کا دوسرا حصہ جس کا عنوان “یاد نامہ” ہے، یہ بھی خاکوں پر مشتمل ہے۔ اس میں ایک مشہور خاکہ “مرزا نوشہ تھا اور دلّی بارات” کے عنوان سے درج ہے۔ ان دونوں مجموعوں میں اور بھی بہت سے مشہور خاکے ہیں۔
پروفیسر سلیمان اطہر جاوید کا خاکوں پر مشتمل مشہور مجموعہ “چہرہ چہرہ داستان” جون ۱۹۷۷ء کو نیشنل فائن پرنٹنگ پریس، چار کمان حیدر آباد سے شائع ہوا۔ آپ اردو خاکہ نگاری میں ایک اہم ترین شخصیت کے طور پر ظاہر ہوئے۔ آپ اپنے خاکے کے ذریعے شخصیت کو قاری کے سامنے اسی انداز میں حاضر کرنے کا ہنر جانتے ہیں کہ جیسے قاری اسے دیکھ رہا ہو۔ چنانچہ “اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنْ” کے عنوان سے عبد الماجد دریابادی پر تحریر شدہ ایک خاکے کا اقتباس ملاحظہ ہو۔
“چند لمحے ہوئے ہوں گے چلمن کو جنبش ہوئی اور ماجد صاحب برآمد ہوئے دراز قد، چوڑا چکلہ سینہ، سرخ و سفید رنگ، کسی قدر خمیدہ مگر بھرا بھرا جسم، کتابی چہرہ، ستواں ناک، عبادت اور ریاضت سے پر نور دراز اور بھرپور داڑھی، روشن آنکھیں ہر بُن مُو سے شادابی ٹپکتی ، سفید کرتا، سفید پاجامہ، میں نے تصور میں ماجد صاحب کی جو شبیہہ بنائی تھی زیادہ فرق نہ نکلا گویا علم و ادب میرے سامنے مجسم ہوں۔””
اسلم پرویز کے خاکے جو “گھنے سائے” کے عنوان سے منظر عام پر آئے بہت مشہور ہوئے۔ اس میں ایک بہت مقبول خاکہ “چچی” کے عنوان سے ہے۔ اسی مجموعے میں خلیق انجم پر لکھا خاکہ بھی بہت مشہور ہوا۔ اسلم پرویز کے خاکوں کی بڑی خوبی یہ ہے کہ ان کے لکھے خاکوں میں ان کی اپنی شخصیت بھی خوب ظاہر ہوتی ہے۔ ان کے خاکوں میں بڑی صداقت اور دیانت داری نظر آتی ہے، جس شخصیت کو موضوع بناتے ہیں اسے ہر زاویے سے پیش کرنے کی سعی کرتے ہیں اور ضمنی طور پر اپنی شخصیت کے اظہار میں بھی ذرا بخل سے کام نہیں لیتے۔ “گھنے سائے” میں پہلا ہی خاکہ خلیق انجم کا ہے جس کا عنوان “میں اور شیطان” ہے۔ خاکہ نگار اسلم پرویز اور خلیق انجم اسکول میں ایک ہی کلاس میں تھے۔ خلیق انجم سے پہلی ملاقات میں ان کا حلیہ یوں بیان کرتے ہیں کہ
“ایک لڑکا شلوار قمیص میں ملبوس پیروں میں چپل پہنے سرپر بالوں کا گپھّا بنائے بغل میں کچھ کتابیں دبائے کلاس روم میں داخل ہوا۔ بظاہر یہ نیو ایڈمیشن کیس تھا۔”
یہاں مصنف کے اس اسلوب اور خوبی سے روشناس ہونے کی غرض سے مصنف کے اپنی شخصیت کے ظریفانہ اظہار کی بھی ایک مثال ملاحظہ ہو۔
“اب میری مشکل یہ ہے کہ اگرچہ میں اس سکّے کی ٹیل یعنی دم ہوں جس کے کہ خلیق انجم ہیڈ یعنی سر ہیں لیکن اکثر لوگ مجھے بجائے اس سکّے کی دم کے خود خلیق انجم ہی کی دُم سمجھتے رہے تاآنکہ میری شادی نہیں ہوگئی اور میں ہر شوہرِ مسکین کی طرح اپنی بیوی کی دم نہیں ہوگیا۔ خلیق انجم کی ’ہیکڑی‘ تو مجھ پر آج تک ہے لیکن اس ہیکڑی اور بیوی کی ہیکڑی میں فرق ہے۔ خلیق انجم کی دھونس تو مجھ پر یہ ہے کہ بیٹا وہ کام تو میں تیرے اچھے سے کرواکے رہوں گا جس کام کے کرنے کے تو لائق ہے اور میری بیوی کا ٹھینگا یہ ہے کہ دنیا کا کوئی بھی ایسا کام جو خود ان کے بس کا نہیں اس کام کو میرے بس کا تو ہونا ہی چاہیے۔ اب میں چکّی کے ان دوپاٹوں کے بیچ میں برابر رگڑے کھا رہا ہوں۔ پس یوں نہیں چکتا کہ سخت جان ہوں اور نکل کے باہر جاؤں تو کہاں کہ ان سے باہر سوائے ایک بے اماں خلا کے اور کچھ بھی نہیں۔”
آزادی کے بعد کی خاکہ نگاری پر گفتگو ہو تو مجتبی حسین المتوفیٰ ۲۰۲۰ء کا ذکر اک جزو اعظم کی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ کی ولادت ۱۹۳۶ء کی ہے۔ خاکوں اور دیگر مضامین پر مشتمل آپ کے سات مجموعے ہمارے سامنے ہیں۔ ملاحظہ ہو۔
۱۔ آدمی نامہ (۱۹۸۱ء)
۲۔ سو ہے وہ بھی آدمی (۱۹۸۷ء)
۳۔ چہرہ در چہرہ (۱۹۹۳ء)
۴۔ ہوئے ہم دوست جن کے لیے (۱۹۹۹ء)
۵۔ آپ کی تعریف (۲۰۰۵ء)
۶۔ مہرباں کیسے کیسے (۲۰۰۹ء)
۷۔ رپورتاژ اور شخصی خاکے (۲۰۱۱ء)
مجتبی حسین کے مجموعے “چہرہ در چہرہ” میں ایک خاکہ شہریار کا بھی درج ہے۔ اس سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو۔
” شہریار کی ایک ادا مجھے بہت زیادہ پسند ہے۔ وہ یہ کہ ایک سچے بے نیاز آدمی ہیں۔ اپنی شاعری سے بے نیاز، اپنی زندگی سے بے نیاز اور اپنے گھر سے بے نیاز۔ نہ شہرت کی طلب، نہ عہدے کی ہوس، نہ پیسے کا لالچ، نہ مرتبہ کی حرص۔ ایسا آدمی عموماً اپنے گھر میں نزاعی اور سماج میں ہمیشہ غیر نزاعی ہونے کے سارے نقصانات برداشت کرتا ہے۔”
خاکہ نگاری کے حوالے سے ایک اور اہم نام عابد سہیل کا بھی قابل ذکر ہے۔ ان کے خاکوں کے دو مجموعے ہمارے سامنے ہیں، ایک تو “کھلی کتاب” کے نام سے جو پہلی مرتبہ جولائی ۲۰۰۴ء میں کاکوری پریس لکھنؤ سے شائع ہوا، اور دوسرا مجموعہ “پورے آدھے ادھورے” کے عنوان سے عرشیہ پبلی کیشنز دہلی سے پہلی مرتبہ ۲۰۱۵ء کو شائع ہوا۔ عابد سہیل کے خاکوں میں مجاز لکھنوی، احسن فاروقی، قمر رئیس، نیر مسعود اور شمس الرحمٰن فاروقی وغیرہ کے خاکے مشہور ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی شخصیات کے خاکے عابد سہیل کے قلم سے لکھے گئے۔
سید ضمیر حسن دہلوی کی خاکوں پر مشتمل تصنیف “دلی والے” کے عنوان سے چھپی تھی، اس میں خاکوں کے علاوہ انشائیے اور رپورتاژ بھی موجود ہیں۔ اس میں ایک مشہور خاکہ “انگنا کہار” کے نام سے درج ہے۔
ڈاکٹر رحیم الدین کمال کے خاکے ان کی تصنیف “چند اربابِ کمال” میں دیکھنے کو ملتے ہیں، ان میں ایک مشہور خاکہ “ڈاکٹر زور: شخصیت” کے عنوان سے موجود ہے۔
جاوید صدیقی کے خاکوں کا مجموعہ “روشن دان” کے نام سے چھپا ہے، جس میں پہلا خاکہ “اک بنجارا” کے نام سے نیاز حیدر کا ہے، اس میں آخری خاکہ “اپنے کامریڈ حبیب” کے نام سے حبیب تنویر کا بھی ہے۔ ان کے علاوہ اس مجموعے میں اور بھی بہت سے خاکے موجود ہیں۔ نیاز حیدر پر لکھے خاکے “اک بنجارا” کی ابتدا اس طرح ہوتی ہے، ملاحظہ ہو۔
“اگر سوٹ پہنے ہوئے ہوتے اور ذرا سے گورے ہوتے تو کوئی بھی قسم کھا لیتا کہ کارل مارکس زندہ ہو گئے ہیں۔
وہی جھاڑ جھنکار داڑھی، وہی بڑا سا سر، آگے سے اڑے بال اور سر کے پچھلے حصے میں کھچڑی بالوں کی موٹی جھالر جو کانوں کے اوپر سے لٹک کر داڑھی میں شامل ہو گئی تھی۔ بدن بھی کچھ ویسا ہی تھا، یعنی چھوٹے بھی تھے اور موٹے بھی۔۔۔خدا جانے نیاز حیدر نے اپنا یہ حلیہ خود بنایا تھا یا بن گیا تھا، اصلیت جو بھی ہو وہ دیکھنے میں ہی نہایت مارکسسٹ لگتے تھے۔”
ابن کنول کے خاکوں کا مجموعہ “کچھ شگفتگی کچھ سنجیدگی” کے عنوان سے آیا ہے۔ اس میں قاضی عبد الستار، قمر رئیس، تنویر احمد علوی اور حیات اللہ انصاری وغیرہ کے خاکے موجود ہیں۔ ان کے علاوہ ایک خاکہ قرۃ العین حیدر کا بھی ہے جس کا نام “عینی آپا” ہے۔ حیات اللہ انصاری پر لکھے خاکے سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو۔
“میں اتنے بڑے آدمی کی سادگی اور خلوص دیکھ کر حیران تھا۔ انصاری صاحب پتلے دبلے کھادی کا کرتا پاجامہ پہنے ہوئے تھے، میرے پہنچنے پر پتلی سی کھادی کی ٹوپی بھی لگا لی۔ سر کے بال تقریباً رخصت ہو چکے تھے۔ آنکھوں پر موٹے شیشوں کا چشمہ، چہرے میں کچھ شباہت لال بہادر شاستری جی کی سی تھی، لیکن قد میں شاستری جی سے نکلتے ہوئے تھے۔ سنتے ہیں عالمِ جوانی میں بہت خوش شکل، زندہ دل اور ہنس مکھ تھے۔ انصاری صاحب کی مذکورہ صفات کی گواہی ان کے صاحب زادے سدرت اللہ کو دیکھ کر بھی ہوتی ہے۔”
دہلی میں مقیم سہیل انجم کے خاکوں کا مجموعہ “نقش بر آب” کے نام سے منظر عام پر آچکا ہے۔ ہمارے سامنے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی کا ۲۰۱۶ء کا شائع شدہ مجموعہ ہے۔ اس میں محمود الحسن انصاری (اردو کا عاشق ملت کا شیدا)، محفوظ الرحمٰن (عقیدت کی شبنم)، مولانا محمود الحسن (نحیف جسم مضبوط عزائم) اور پروفیسر شعیب اعظمی (مسجد کے زیر سایہ۔۔۔۔۔۔) اور چند دوسری اہم شخصیات کے خاکے درج ہیں۔ پروفیسر شعیب اعظمی پر لکھے خاکے کی ابتدا اس طرح کرتے ہیں کہ ان کا ظاہر سامنے آ جاتا ہے، اس کے بعد چند سطور میں ان کا باطن کسی حد تک ظاہر ہو جاتا ہے۔ چنانچہ یہ ابتدائی سطور ملاحظہ ہوں۔
“پروفیسر شعیب اعظمی بھی چل بسے۔ یعنی اگلی شرافت کے نمونے دھیرے دھیرے اٹھتے جا رہے ہیں۔ وہ دبلے پتلے اوسط قد کے تھے۔ بعد میں چہرے پر خشخشی داڑھی بھی آ گئی تھی۔ شیروانی اور چوڑی دار پائجامہ پہنتے۔ سر پر ٹوپی لگاتے۔ ان کے ایک پاؤں میں لنک تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ادھر ادھر زیادہ آنے جانے سے گریز کرتے۔
ان کے اندر شرافت و وضع داری، بے تکلفانہ انداز اور انتہائی گرمجوشی کے ساتھ ملنے کا جو صلیقہ تھا وہ کم کم لوگوں میں نظر آتا ہے۔”
ہندوستان میں آزادی کے بعد ان مذکورہ خاکہ نگاروں کے علاوہ اور بھی بہت سے خاکہ نگار گزرے ہیں، اور بھی بہت سے مشہور و معروف خاکے قلم بند کیے گئے ہیں، جن کی تفصیل ہم نے یہاں بیان نہیں کی، لیکن ان میں سے چند ایک کے مشہور خاکوں کا ذکر نا گزیر ہے، جیسے صغرا مہدی نے ڈاکٹر عابد حسین کا ایک اچھا خاکہ لکھا، سراج انور نے مولانا سمیع اللہ کا، راج نارائن راز نے “اسم با مسمی پرکاش پنڈت” کے عنوان سے خاکہ لکھا، کوشلیا اشک کا ایک خاکہ “اپندر ناتھ اشک” کے نام سے ہے جو ادبی دنیا میں کافی مشہور ہوا، نثار احمد فاروقی نے “بسمل سعیدی ٹونکی” کے عنوان سے ایک مشہور خاکہ لکھا، محمد مجیب نے “رمضان علی” کے عنوان سے ایک عمدہ خاکہ لکھا، خواجہ حسن ثانی نظامی نے مرزا سہراب شاہ مجّی کے عنوان سے اور رفعت سروش نے اختر الایمان کے نام سے ان پر خاکہ لکھا، گیان چند جین کا لکھا خاکہ “فراق صاحب سے میری ملاقاتیں” بھی ایک مشہور و معروف خاکہ ہے۔
مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ پہلے جب خاکہ دوسری نثری اصناف کے سہارے سے چلتا تھا تو اس کے اپنے اوصاف اسی صنف میں ضم رہتے تھے اور اس کی ترقی انھی اصناف کی ترقی میں شمار ہو جاتی تھی، جس کا ثبوت ہمیں اس وقت کے انشائیوں اور سوانح وغیرہ میں مل جاتا ہے، اگر چہ اِن اصناف کے جزو کے طور پر آج بھی خاکے کا استعمال ممنوع نہ ہوگا۔ لیکن آزادی سے پہلے ہی جب مرزا فرحت اللہ بیگ نے ڈپٹی نذیر احمد کا خاکہ لکھ کر اسے کرائے کے مکان سے نجی مکان میں پہنچا دیا تھا اور یہ خود ایک علیحدہ فن کی حیثیت اختیار کر چکا تھا تو اس کی تمام رنگا رنگی، شوخی، ظرافت، شگفتگی، یا پھر اس کی سنجیدگی، حق گوئی، صاف گوئی اور شخصی اظہار سمیت دیگر اوصاف وغیرہ اس کی وسعتوں کو بڑھا کر اسے ارتقا کی نئی نئی منزلیں طے کرانے لگے، اور آج تک کرا رہے ہیں۔
اگر آزادی کے بعد سے دور حاضر تک کے چند منتخب عمدہ خاکوں کا بالترتیب مطالعہ کیا جائے تو اس میں بہ تدریج کئی ارتقائی پہلو دکھائی دیں گے، جو فنی حیثیت کے لحاظ سے بھی رونما ہوئے ہیں اور ادبی دنیا میں صنفِ خاکہ نگاری کی اپنی اہمیت کے لحاظ سے بھی، مثلاً یہ کہ خاکے میں پہلے سے زیادہ وسعت پیدا ہو گئی، خاکے کی ایک جامع تعریف وجود میں آ گئی، دوسرے اس کے اصول و ضوابط مقرر ہو گئے، اور یہ بھی کہ قارئین کی گھریلو الماریوں اور کتب خانوں کے ساتھ ساتھ طلباء کے نصاب میں بھی خاکوں نے اپنی جگہ بنالی ہے۔ اب اگر کہیں اردو ادب کی بات ہوتی ہے تو اس میں خاکوں کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہوتی ہے۔
علی اویس جعفری
چاندپور، ضلع بجنور
(۲۰۲۲۔۰۳۔۱۵)
رابطہ: 9811334442 91+
ao.jafri@gmail.com