نظیر : حیات اور نظم نگاری
اردو کے عوامی شاعر نظیر اکبر آبادی کا اصل نام ولی محمد تھا ۔ان کے والد محترم سید محمد فاروق عظیم آباد کے نواب کے مصاحبین میں شمار کیے جاتے تھے جن کی شادی آگرہ کے مقطعہ دار سلطان خان کی بیٹی سے ہوئی تھی۔ سید محمد فاروق کی تیرواں اولاد ولی محمد ہے ان سے قبل 12 اولاد فوت ہوچکے تھے۔نذیر کی پیدائش 1735 عیسوی میں دہلی میں ہوئی ۔1757 میں احمد شاہ ابدالی کے حملے کے وقت اپنی ماں کو لے کر آگرہ آئے تھے اوریہیں کے ہو لیے اور ہر جگہ آگرہ کو ہی اپنا وطن قرار دیتے ہیں ۔ ان کے خاندان اور ماحول کی وجہ سے نظیر میں سپہ گری کے فن میں کمال حاصل کیا تھا ۔فارسی عربی اردو ہندی-پنجابی اور سنسکرت پر عبور حاصل تھا ۔نظیر کے محبوب مشکلوں میں داؤ پیج کشتی تلوار چلانا بلم وغیرہ شامل تھے۔اس کے علاوہ وہ تلواربازی مرغ بازی اور پنجہ لڑانے کے فن میں بھی ماہر تھے ۔ 1770میں جب میر دہلی میں سے آگرہ لوٹے تو میاں نظیر نے ان سے ملاقات کی اور ایک غزل سنائی ۔اس وقت نظیر کی عمر 34 سال کی تھی لیکن انہیں بچپن سے ہی شاعری کا شوق رہا ۔نظیر کے والد ایک سنی مسلمان تھے اور نذیر امامیہ مذہب کے قائل تھے۔ادھیڑ عمر میں ظہور النساء بیگم بنت عبدالرحمن چغتائی سے شادی کی ۔نظیر کے بیٹے کا نام خلیفہ سید گلزار علی اسیر اور بیٹی کا نام امانی بیگم ہے ۔1827 عیسوی میں فالج کے مرض میں مبتلا ہوئے اور 16 اگست 1830 عیسوی میں انتقال فرما گئے ۔نماز جنازہ دو مرتبہ سنی اور امامیہ طریقے سے پڑھائی گئی ۔لیکن ان کی تدفین امامیہ طریقہ پر ہوئی ۔انہی کے مکان میں موجود نیم کے درخت کے زیر دفن ہے ۔
اردو نظم کے معمار اول اور امام اردو نظم نظیر اکبر آبادی اردو شاعری میں سب سے زیادہ متروک الفاظ استعمال کیے۔نظیر نے جتنے ہندوستانی الفاظ اپنی شاعری میں استعمال کیے ہیں اتنے کسی دوسرے نے ان سے پہلے نہیں کیا۔ نظیر کی کلیات میں تین مختصر قصیدے ہیں جن میں انہوں نے زمانے کی نیرنگی اور دنیا کی بے ثباتی کا بیان کیا ہے ۔پہلا قصیدہ نیرنگی زمانہ کے بیان میں ہے اور دوسرے اور تیسرے قصیدے میں نظیر نے میر کے اس مشہور قطعے کی طرز میں جس کا پہلا مصرع ہے :
کل پاؤں اک کاسہ سر پر جو آگیا
“نظیر کا وجود ہی اردو شاعری میں بے نظیر تنقید ہے ۔” بقول کلیم الدین احمد
” نظیر کے یہاں کبیر کے اخلاق اور خسرو کے ذہن کا ایک دلکش امتزاج ملتا ہے۔” بقول نیاز فتح پوری
” نظیر کا دماغ چھوٹا اور تجربہ محدود ہے-” بقول شمس الرحمن فاروقی
نظیر کی نظم کلجگ کو مجنوں گورکھپوری نے روسو کی معاشرتی عہد نامہ کے مماثل قرار دیا ہے ۔
نیاز فتح پوری نے نظیر کو چٹکے باز شاعر کہا ہے ۔
نظیر کی نظموں کے نام :–
تمدن :- عرس حضرت سلیم چشتی ، شب برات ، عید ، عید الفطر ،عید گاہ ،اکبر آباد ،ہولی، دیوالی راکھی
میلے :- آگرے کی تیراکی، بلدیوجی کا میلا
کھیل تماشی :- کبوتر بازی ،بلبلوں کی لڑائی ،گلہری کا ،بچہ ریچھ کا بچہ، ازدہے کا بچہ
حب وطن :- تاج گنج کا روضہ ،شہر اکبر آبادی کی تعریف ،شیرآشوب ،شہر آگرہ
فطرت مدارج عمر :- طفلی،حضرت امام طفلی، جوانی ،بڑھاپا، بڑھاپے کی تعلیاں، بڑھاپے کی عاشقی
مختلف فصلیں اور ان کے لوازم :- بہار،چاندنی ،جھڑی ، برسات، برسات کا تماشہ ،برسات کی بہاریں،برسات کا لطف، انارکلی ،آگرے کی لکڑی، کورا برتن ،اندھیری ،خربوزے
تصوف :- عشق کی بھنگ ،موت،رہے نام اللہ کا ،بنجارہ نامہ ،سن کا جھوپڑا ،وجد و حال ،آئینہ، دنیا دھوکے کی ٹٹی ہے ،کلجگ ،خدا ہی جانے، مذمت دنیا ،اپنا اسرار قدرت
حکمت :- کوڑی، پیسہ،مفلسی،افلاس کا نقشہ،آٹے دال کا بھاؤ،روٹیاں ،چپاتی ،خوشامد، اہل دنیا، تندرستی اور آبرو، دعائے تندرستی
عشق و محبت :جوگی ،جوگی کا سچا روپ ،ہنس نامہ ،کوے اور ہرن کی دوستی ،قصہ پہلی محبت
ظرافت :- مزے کی باتیں، حسن طلب ،برہ کوک ،چوہوں کا آچار
دیگر نظمیں :- جنم کہانی، بانسری ،بیاہ کنہیا کا ،وسم کتھا، درگا جی کی درشن،بازی شطرنج، مکھیاں ،بٹوا،حنا مہندی، جمنا، راہ ،میلا، چراغ ،دسیرہ، راس لیلا